⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟠 𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
خلیفہ نے محافظ دستے کے ناک میں دم کر رکھا تھا
تمام تر محافظ دستہ دھوپ میں کھڑا تھا
سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھا
اس دستے کو صبح کھڑا کیا گیا تھا
کمانداروں اور عہدے داروں کو بھی کھانے کی اجازت دی گئی تھی
نہ پانی پینے کی رجب بار بار آتا اور اعلان کرتا تھا کہ لڑکی محافظوں کی مدد کے بغیر اغواء نہیں کی جاسکتی تھی
جس کسی نے اغوا میں مدد دی ہے وہ سامنے آجائے ورنہ تمہیں یہیں بھوکا اور پیاسا مار دیا جائے گا اگر لڑکی خود باہر گئی ہوتی تو تم میں سے کسی نہ کسی نے ضرور دیکھی ہوتی ان دھمکیوں کا کچھ اثر نہیں ہو رہا تھا
سب کہتے تھے کہ وہ بے گناہ ہیں
خلیفہ رجب کو ٹکنے نہیں دے رہا تھا
اس نے رجب سے کہا تھا
مجھے لڑکی کا افسوس نہیں پریشانی یہ ہے کہ جو اتنے کڑے پہرے سے لڑکی کو اغوا کر سکتے ہیں
وہ مجھے بھی قتل کرسکتے ہیں
مجھے یہ ثبوت چاہیے کہ لڑکی کو صلاح الدین ایوبی نے اغوا کرایا ہے
رجب نے ہی اغوا کا بہتان سلطان ایوبی کے سر تھوپا تھا مگر خلیفہ اسے کہہ رہاتھا کہ ثبوت لاؤ رجب ثبوت کہاں سے لاتا اس کی جان پر بن گئی تھی
وہ ایک بار پھر محافظ دستے کے سامنے گیا غصے سے وہ باؤلا ہوا جا رہا تھا
وہ کئی بار دی ہوئی دھمکی ایک بار پھر دینے ہی لگا تھا کہ دروازے پر کھڑے سنتریوں نے دروازے کھول دئیے اور اعلان کیا امیرِ مصر تشریف لا رہے ہیں
بڑے دروازے میں سلطان ایوبی کا گھوڑا داخل ہوا اس کے آگے وہ محافظ سواروں کے گھوڑے تھے
آٹھ سوار پیچھے تھے ایک دائیں اور بائیں تھا
ان کے پیچھے سلطان ایوبی کے حاکم اور مشیر تھے
ان میں علی بن سفیان بھی تھا رجب نے خلیفہ کو اطلاع بھیج دی کہ صلاح الدین ایوبی آیا ہے
سب نے دیکھا کہ سلطان ایوبی کے اس جلوس کے پیچھے چار پہیوں والی ایک گاڑی تھی
جس کے آگے دو گھوڑے جُتے ہوئے تھے گاڑی پر دولاشیں پڑی تھیں ایک سیدھی اور دوسری اُلٹی تیر ابھی تک لاشوں میں اُترے ہوئے تھے ان لاشوں کے ساتھ وہ تین شتر سوار تھے جنہوں نے ان حبشیوں کا مارا تھا
خلیفہ باہر آگیا سلطان ایوبی اور اس کے تمام سوار گھوڑوں سے اُترے سلطان ایوبی نے اسی احترام سے خلیفہ کو سلام کیا جس احترام کا وہ حق دار تھا
جھک کر اس سے مصافحہ کیا اور ہاتھ چوما مجھے آپ کا پیغام مل گیا تھا کہ میں آپ کے حرم کی لڑکی واپس کر دوں سلطان ایوبی نے کہا میں آپ کے دو محافظوں کی لاشیں لایا ہوں یہ لاشیں مجھے بے گناہ ثابت کر دیں گی اور میں حضور اقدس میں یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی آپ کی فوج کا سپاہی نہیں ہے
جس خلافت کی آپ نمائندگی کر رہے ہیں
وہ اس کا بھیجا ہوا ہے خلیفہ نے صلاح الدین ایوبی کے تیور بھانپ لیے اس فاطمی خلیفہ کا ضمیر گناہوں کے بوجھ سے کراہ رہا تھا وہ سلطان ایوبی کی بارعب اور پُر جلال شخصیت کا سامنا کرنے کے قابل نہیں تھا
اس نے سلطان ایوبی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا میں تمہیں اپنے بیٹوں سے زیادہ عزیز سمجھتا ہوں صلاح الدین ایوبی اندر آؤ .
میری حیثیت ابھی ملزم کی ہے سلطان ایوبی نے کہا مجھے ابھی صفائی پیش کرنی ہے کہ میں اغوا کا ملزم نہیں ہوں خدائے ذوالجلال نے میری مدد فرمائی ہے اور دو لاشیں بھیجی ہیں یہ لاشیں بولیں گی نہیں ان کی خاموشی اور ان میں اُترے ہوئے تیر گواہی دیں گے کہ صلاح الدین ایوبی اس جرم کا مجرم نہیں ہے جو قصرِ خلافت میں سرزد ہوا ہے
میں جب تک اپنے آپ کو بے گناہ ثابت نہ کر لوں گا اندر نہیں جاؤں گا وہ لاشوں کی طرف چل پڑا خلیفہ کھچا ہوا اُس کے پیچھے پیچھے گیا تھوڑی دُور چار ساڑھے چار سو نفری کا محافظ دستہ کھڑا تھا
سلطان ایوبی نے لاشیں اُٹھوا کر اس دستے کے سامنے رکھ دیں اور بلند آواز سے کہا آٹھ آٹھ سپاہی آگے آؤ اور لاشوں کو دیکھ کر بتاؤ کہ یہ کون ہیں ؟
پہلے کماندار اور عہدے دار آئے انہوں نے لاشیں دیکھ کر ان کے نام بتائے اور کہا یہ ہمارے دستے کے سپاہی تھے
ان کے بعد آٹھ سپاہی آئے انہوں نے بھی لاشوں کو دیکھ کر کہا کہ یہ ان کے ساتھی تھے
آٹھ اور سپاہی آئے پھر آٹھ اور آئے اسی طرح آٹھ آٹھ سپاہی آتے رہے اور بتاتے رہے کہ یہ لاشیں ان کے فلاں فلاں ساتھیوں کی ہیں
صلاح الدین ایوبی خلیفہ نے کہا میں نے مان لیا ہے کہ یہ لاشیں قصرِ خلافت کے دو محافظوں کی ہیں
میں اس سے آگے سننا چاہتا ہوں کہ انہیں کس نے ہلاک کیا ہے صلاح الدین ایوبی نے اس گشتی سنتری سے جس نے انہیں ہلاک کیا تھا کہا کہ اپنا بیان دہرائے اُس نے سارا واقعہ خلیفہ کو سنا دیا وہ ختم کرچکا تو سلطان ایوبی نے خلیفہ سے کہا لڑکی میرے پاس نہیں لائی گئی وہ سوڈانی حبشیوں کے میلے میں فروخت ہونے کے لیے گئی ہے
خلیفہ کھسیانہ ہوا جا رہا تھا اس نے سلطان ایوبی سے کہا کہ وہ اندر چلے سلطان ایوبی نے اندر جانے سے انکار کردیا اور کہا میں اس لڑکی کو زندہ یا مردہ برآمد کرکے آپ کے حضور حاضری دوں گا ابھی میں اتنا ہی کہوں گا کہ حرم کی ایک ایسی لڑکی اغوا جو تحفے کے طور پر آئی تھی اور جو آپ کی منکوحہ بیوی نہیں داشتہ تھی میرے لیے ذرہ بھر اہمیت نہیں رکھتی خداوند تعالیٰ نے مجھے اس سے اہم فرائض سونپے ہیں
میری پریشانی یہ نہیں کہ ایک لڑکی اغوا ہوگئی ہے
خلیفہ نے کہا
اصل پریشانی یہ ہے کہ اس طرح لڑکیاں اغوا ہونے لگیں تو ملک میں قانون کا کیا حشر ہوگا
اور میری پریشانی یہ ہے کہ سلطنتِ اسلامیہ اغوارہی ہو رہی ہے
سلطان ایوبی نے کہا آپ زیادہ پریشان نہ ہوں
میرا شعبہ سراغ رسانی لڑکی کو برآمد کرنے کی پوری کوشش کرے گا
خلیفہ سلطان ایوبی کو ذرا پرے لے گیا اور کہا صلاح الدین میں ایک عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ تم مجھ سے کھچے کھچے رہتے ہw۔ میں نجم الدین ایوب )سلطان صلاح الدین ایوبی کے والد محترم) کا بہت احترام کرتا ہوں مگر تمہارے دل میں میرے لیے ذرہ بھر احترام نہیں ہے اور مجھے آج بتایا گیا ہے کہ جامع مسجد کے خطیب امیر العالم نے یہ گستاخی کی ہے کہ خطبے سے میرا نام ہٹا دیا ہے
مجھے رجب نے بتایا ہے کہ میں اسے اس گستاخی کی سزا دے سکتا ہوں میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس نے تمہاری شہہ پر تو ایسا نہیں کیا؟
میری شہہ پر نہیں میرے حکم پر اس نے خلیفہ کا نام خطبہ سے حذف کیا ہے
سلطان ایوبی نے کہا صرف آپ کا نام نہیں بلکہ ہر اس خلیفہ کا نام خطبے سے ہٹا دیا گیا ہے جو آپ کے بعد آئے گا اور جو اُس کے بعد آئے گا
کیا یہ حکم فاطمی خلافت کمزور کرنے کے لیے جاری کیا گیا ہے ؟ خلیفہ نے پوچھا ,مجھے شک ہے کہ یہاں عباسی خلافت لائی جا رہی ہے
حضور بہت بوڑھے ہوگئے ہیں , سلطان ایوبی نے کہا, قرآن نے شراب کو اسی لیے حرام کہا ہے کہ اس سے دماغ ماؤف ہو جاتا ہے
سلطان نے ذرا سوچ کر کہا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کل سے آپ کے محافظ دستے میں ردوبدل ہوگا اور رجب کو میں واپس لے کر آپ کو نیا کمان دار دوں گا
لیکن میں رجب کو یہاں رکھنا چاہتا ہوں , خلیفہ نے کہا
میں حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ فوجی معاملات میں دخل دینے کی کوشش نہ کریں , سلطان ایوبی نے کہا اور علی بن سفیان کی طرف متوجہ ہوا جو پانچ حبشی محافظوں کو ساتھ لیے آرہا تھا
یہ پانچوں اُسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں
علی بن سفیان نے کہا میں نے اس دستے سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس قبیلے کے کوئی آدمی یہاں ہوں تو باہر آجائیں یہ پانچ صفوں سے باہر آگئے ان کے متعلق مجھے ان کے کماندار نے بتایا ہے کہ پرسوں سے چُھٹی پر جا رہے تھے
میں انہیں اپنے ساتھ لے جا رہا ہو, لڑکی کے اغوا میں اسکا ہاتھ ہوسکتا ہے
صلاح الدین ایوبی نے رجب کو بلا کر کہا کل یہاں دوسرا کماندار آرہا ہے آپ میرے پاس آجائیں گے میں آپ کو منجنیقوں کی کمان دینا چاہتا ہوں, رجب کے چہرے کا رنگ بدل گیا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اُمِّ عرارہ کو گھوڑے پر ڈالئے ہوئے جب وہ دو حبشی اتنی دُور نکل گئے جہاں انہیں تعاقب کا خطرہ نہ رہا تو انہوں نے گھوڑے روک لیے لڑکی ایک بار پھر آزاد ہونے کو تڑپنے لگی حبشیوں نے اسے کہا کہ اس کا تڑپنا بے کار ہے
اب اگر اُسے وہ آزاد بھی کر دیں تو وہ اس ریگستان سے زندہ نہیں نکل سکے گی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اسے بے آبرو نہیں کرنا چاہتے اگر اُن کی نیت ایسی ہوتی تو وہ اس کے ساتھ وحشیوں جیسا سلوک کر چکے ہوتے
اُمِّ عرارہ حیران تھی کہ انہوں نے اسے چھیڑا تک نہیں تھا انہیں تو جیسے احساس ہی نہیں تھا کہ اتنی دلکش لڑکی ان کے رحم و کرم پر ہے ان میں سے ایک نے جو مارا جا چکا تھا مرنے سے پہلے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر التجا کی تھی کہ وہ تڑپ تڑپ کر اپنے آپ کو اذیت میں نہ ڈالے اُمِّ عرارہ نے ان سے پوچھا کہ اسے کہاں لے جایا جا رہا ہے تو اسے جواب دیا گیا کہ وہ اسے آسمان کے دیوتا کی ملکہ بنانے کے لیے لے جا رہے ہیں
انہوں نے لڑکی کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور اُٹھا کر گھوڑے پر بٹھا دیا اس نے آزاد ہونے کی کوشش ترک کر دی اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ کوشش بے سود ہے
گھوڑے چل پڑے اور اُمِّ عرارہ ایک حبشی کے آگے گھوڑے پر بیٹھی محسوس کیا کہ رات ہوگئی ہے
گھوڑے رُک گئے اس وقت تک اس نازک لڑکی کا جسم مسلسل گھوڑ سواری سے ٹوٹ چکا تھا دہشت سے اس کا دماغ بے کار ہوگیا تھا
اسے گھوڑے رُکتے ہی اپنے ارد گرد تین چار مردوں اور تین عورتوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دینے لگیں
یہ زبان اس کی سمجھ سے بالا تھی
یہی حبشی راستے میں اس کے ساتھ عربی زبان میں باتیں کرتے تھے ان کا لہجہ عربی نہیں تھا
ابھی اس کی آنکھوں سے پٹی نہیں کھولی گئی تھی
اس کی تو جیسے زبان بھی بند ہوگئی تھی
اُسے کسی نے اُٹھا کر کسی نرم چیز پر بٹھا دیا یہ پالکی تھی
پالکی اوپر کو اُٹھی اور اس کا ایک اور سفر شروع ہوگیا اس کے ساتھ ہی دف کی ہلکی ہلکی گونج دار تھاپ سنائی دینے لگی اور عورتیں گانے لگیں اس گانے کے الفاظ تو وہ نہ سمجھ سکتی تھی اس کی لَے میں جادو کا اثر تھا
یہ اثر ایسا تھا جس نے اُمِّ عرارہ کے خوف میں اضافہ کر دیا لیکن اس خوف میں ایسا تاثر بھی پیدا ہونے لگا جیسے اس پر نشہ یا خمار طاری ہو رہا ہو رات کی خنکی خمار میں لذت سی پیدا کر رہی تھی
اُمِّ عرارہ نے یہ چاہتے ہوئے کہ وہ پالکی سے کود جائے اور بھاگ اُٹھے اور یہ لوگ اُسے جان سے مار دیں
اس نے ایسی جرأت نہ کی وہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ ان انسانوں کے قبضے میں نہیں بلکہ کوئی اور ہی طاقت ہے جس نے اس پر قابو پالیا ہے اور اب وہ اپنی مرضی سے کوئی حرکت نہیں کر سکے گی وہ محسوس کرنے لگی کہ پالکی بردار سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں
وہ چڑھتے گئے کم و بیش تیس سیڑھیاں چڑھ کر وہ ہموار چلنے لگے اور چند قدم چل کر رُک گئے پالکی زمین پر رکھ دی گئی اُمِّ عرارہ کی آنکھوں سے پٹی کھول کر کسی نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے تھوڑی دیر بعد ان ہاتھوں کی انگلیاں کھلنے لگی اور لڑکی کو روشنیاں دکھائی دینے لگی آہستہ آہستہ ہاتھ اُس کی آنکھوں سے ہٹ گئے وہ ایک ایسی عمارت میں کھڑی تھی جو ہزاروں سال پرانی نظر آتی تھی
گول ستون اوپر تک چلے گئے تھے
ایک وسیع ہال تھا جس پر فرش روشنیوں میں چمک رہا تھا
دیواروں کے ساتھ ڈنڈے سے لگے ہوئے تھے اور ڈنڈوں کے سروں پر مشعلوں کے شعلے تھے اندر کی فضا میں ایسی خوشبو تھی جس کی مہک اس کے لیے نئی تھی دف کی ہلکی ہلکی تھاپ اور عورتوں کا گیت اسے سنائی دے رہا تھا یہ تھاپ اور یہ لَے ہال میں ایسی گونج پیدا کر رہی تھی جس میں خواب کا تاثر تھا
اُس نے سامنے دیکھا ایک چبوترہ تھا جس کی آٹھ دس سیڑھیاں تھیں چبوترے پر پتھر کے بُت کا منہ اور سر تھا اس کی ٹھوڑی کے نیچے تھوڑی سی گردن تھی ٹھوڑی سے ماتھے تک یہ پتھر کا چہرہ قد آور انسان سے بھی ڈیڑھ دو فٹ اونچا تھا منہ کھلا ہوا تھا جو اتنا چوڑا تھا کہ ایک آدمی ذرا سا جھک کر اس میں داخل ہوسکتا تھا منہ میں سفید دانت بھی تھے یوں لگتا تھا جیسے یہ چہرہ قہقہے لگا رہا ہو اس کے دونوں کانوں سے ڈنڈے نکلے ہوئے تھے جن کے باہر والے سروں پر مشعلیں جل رہی تھی اچانک اس کی آنکھیں جو کم و بیش گز گز بھر چوڑی تھیں چمکنے لگیں ان سے روشنی پھوٹنے لگی عورتوں کے گیت کی لَے بدل گئی دف کی تھاپ میں جوش پیدا ہوگیا پتھر کے منہ کے اندر روشنی ہوگئی لمبے لمبے سفید چغے پہنے ہوئے دو آدمی جھک کر منہ سے باہر آئے منہ سے باہر آکر ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف کھڑا ہوگیا
اس کے بعد پتھر کے منہ میں سے ایک اور آدمی نمودار ہوا وہ بھی جھک کر باہر آیا وہ ذرا بوڑھا لگتا تھا اس کا چغہ سرخ رنگ کا تھا اور اس کے سر پر تاج تھا
ایک سانپ جو مصنوعی تھا اسکے دائیں کندھے پر کنڈلی مارے اور پھن پھیلائے بیٹھا تھا اور ایک بائیں کندھے پر دونوں سانپوں کے رنگ سیاہ تھے
اُمِّ عرارہ پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ سُن ہوکے کھڑی رہی یہ آدمی جو اس قبیلے کا مذہبی پیشوا یا پروہت تھا چبوترے کی سیڑھیاں اُتر آیا وہ آہستہ آہستہ اُمِّ عرارہ تک آیا اور دونوں گھٹنے فرش پر رکھ کر اس نے لڑکی کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر چوم لیے اس نے لڑکی سے عربی زبان میں کہا تم ہو وہ خوش نصیب لڑکی جسے میرے دیوتا نے پسند کیا ہے ہم تمہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں
یہاں جو بھی آتی ہے واپس جانے کا کہتی ہے پروہت نے کہا لیکن اُس پر اس مقدس جگہ کا راز کھلتا ہے تو کہتی ہے کہ میں یہاں سے جانا نہیں چاہتی میں جانتا ہوں تم مسلمانوں کے خلیفہ کی محبوبہ ہو مگر جس نے تمہیں پسند کیا ہے اس کے آگے دنیا کے خلیفے اور آسمانوں کے فرشتے سجدے کرتے ہیں
تم جنت میں آگئی ہو اس نے چغے کے اندرسے ایک پھول نکالا اور اُمِّ عرارہ کی ناک کے ساتھ لگا دیا اُمِّ عرارہ حرم کی شہزادی تھی اس نے ایسے ایسے عطر سونگے تھے جو اس جیسی شہزادیوں کے سوا اور کوئی خواب میں بھی نہیں سونگ سکتا تھا
مگر اس پھول کی بو اس کے لیے انوکھی تھی
یہ بو اسکی روح تک اُتر گئی اس کی سوچوں کا رنگ ہی بدل گیا اس کی نظروں کے زاویے ہی بدل گئے پروہت نے کہا یہ دیوتا کا تحفہ ہے اور اس نے پھول اس کی ناک سے ہٹا لیا
اُمِّ عرارہ نے ہاتھ آہستہ آہستہ آگے کیا اور پروہت کا پھول والا ہاتھ پکڑ کر اپنی ناک کے قریب لے آئی پھول سونگھ کر خمار آلود آواز میں بولی کتنا دل نشین تحفہ ہے
آپ یہ مجھے دیں گے نہیں ؟
کیا تم نے تحفہ قبول کر لیا ہے؟
پروہت نے پوچھا اس کے ہونٹوں پر مُسکراہٹ تھی
ہاں اُمِّ عرارہ نے جواب دیا میں نے یہ تحفہ قبول کر لیا ہے
اس نے پھول کو ایک بار پھر سونگھا اور اس نے آنکھیں بند کرلیں جیسے مہک کو اپنے وجود میں جذب کرنے کی کوشش کر رہی ہو
دیوتا نے بھی تمہیں قبول کر لیا ہے
پروہت نے کہا اور پوچھا تم اب تک کہاں تھیں ؟
لڑکی سوچ میں پڑ گئی جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہی ہو سر ہلا کر بولی میں یہیں تھی
نہیں میں ایک اور جگہ تھی
مجھے یاد نہیں کہ میں کہاں تھی
تمہیں یہاں کون لایاہے؟
کوئی بھی نہیں اُمِّ عرارہ نے جواب دیا میں خود آئی ہوں
تم گھوڑے پر نہیں آئی تھیں؟
نہیں لڑکی نے جواب دیا میں اُڑتی ہوئی آئی ہوں
کیا راستے میں صحرا اور پہاڑ اور جنگل اور ویرانے نہیں تھے؟
نہیں تو لڑکی نے جواب دیا ہر طرف سبزہ زار اور پھول تھے
تمہای آنکھوں پر کسی نے پٹی نہیں باندھی تھی؟
پٹی ؟
نہیں تو
لڑکی نے جواب دیا میری آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور میں نے رنگ برنگے پرندے دیکھے تھے
پیارے پیارے پرندے
پروہت نے اپنی زبان میں بلند آواز سے کچھ کہا اُمِّ عرارہ کے عقب سے چار لڑکیاں آئیں انہوں نے اس کے کپڑے اُتار دئیے وہ مادر زاد ننگی ہوگئی اُس نے مُسکرا کر پوچھا دیوتا مجھے اس حالت میں پسند کریں گے؟
پروہت نے کہا نہیں تمہیں دیوتا کے پسند کے کپڑے پہنائے جائیں گے لڑکیوں نے اس کے کندھوں پر چادر سی ڈال دی جو اتنی چوڑی تھی کہ کندھوں سے پاؤں تک اس کا جسم مستور ہوگیا اس چادر کے کناروں پر رنگ دار رسیوں کے ٹکڑے تھے
چادر آگے کرکے ان ٹکڑوں کو گانٹھیں دے دی گئیں اور چادر نہایت موزوں چغہ بن گئی اُمِّ عرارہ کے بال ریشم جیسے ملائم اور سیاہی مائل بھورے تھے
ایک لڑکی نے اس کے بالوں میں کنگھی کرکے اس کے شانوں پر پھیلا دئیے اسکا حسن اور زیادہ بڑھ گیا پروہت نے اسے مُسکرا کر دیکھا اور گھوم کر پتھر کے مہیب چہرے کی طرف چل پڑا دو لڑکیوں نے اُمِّ عرارہ کے ہاتھ تھام لیے اور پروہت کے پیچھے پیچھے چل پڑیں اُمِّ عرارہ شہزادیوں کی طرح چل پڑی اس نے اِدھر اُدھر نہیں دیکھا کہ ماحول کیسا ہے
اس کی چال میں اور ہی شان تھی
عورتوں کا راگ اسے پہلے سے زیادہ طلسماتی اور پُر سوز معلوم ہونے لگا وہ پروہت کے پیچھے ہاتھ لڑکیوں کے ہاتھوں پر رکھے چبوترے کی سیڑھیاں چڑھنے لگی پروہت پتھر کے پہاڑ جیسے چہرے کے منہ میں داخل ہوگیا اُمِّ عرارہ بھی تین سیڑھیاں چڑھ کر بُت کے منہ میں جھک کر داخل ہوگئی دونوں لڑکیاں وہیں کھڑی رہیں اُمِّ عرارہ کا ہاتھ پروہت نے تھام لیا منہ کی چھت اتنی اونچی تھی کہ وہ سیدھے چل رہے تھے حلق میں پہنچے تو آگے سیڑھیاں تھیں وہ سیڑھیاں اُتر گئے یہ ایک تہہ خانہ تھا جہاں قندیلیں روشن تھیں ایک کمرے میں بھی مہک تھی یہ کمرہ کشادہ نہیں تھا چھت اونچی نہیں تھی اس کی دیواریں اور چھت درختوں کے پتوں اور پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی فرش پر ملائم گھاس اور گھاس پر پھول بچھے ہوئے تھے
ایک کونے میں خوشمنا صراحی اور پیالے رکھے تھے
پروہت نے صراحی سے دو پیالے بھرے ایک اُمِّ عرارہ کو دیا دونوں نے پیالے ہونٹوں سے لگائے اور خالی کردئیے دیوتا کب آئے گا؟
اُمِّ عرارہ نے پوچھا تم نے ابھی اسے پہچانا نہیں ؟
پروہت نے کہا تمہارے سامنے کون کھڑ اہے ؟
اُمِّ عرارہ اس کے پاؤں میں بیٹھ گئی اور بولی ہاں میں نے اسے پہچان لیا ہے
تم وہ نہیں ہو جسے میں نے اوپر دیکھا تھا
تم نے مجھے قبول کرلیا ہے؟
ہاں! پروہت نے کہا آج سے تم میری دلہن ہو...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*