👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟟 𝟙⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟟  𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صلاح الدین ایوبی نے اسی وقت سلطان نورالدین زنگی کے نام پیغام لکھا جس میں اسے اطلاع دی کہ اس نے جمعے کے خطبے میں سے خلیفہ کانام نکلوا دیا ہے
عوام کی طرف سے اچھے ردِّ عمل کا اظہار ہوا ہے
لہٰذا آپ بھی مرکزی خلافت کو خطبے سے خارج کر دیں اب لُبِ لباب کا طویل پیغام لکھ کر اُس نے حکم دیا کہ قاصد کو علی الصبح روانہ کردیا جائے جو یہ پیغام نورالدین زنگی کو دے کر واپس آجائے اس کے بعد اس نے علی بن سفیان سے کہا کہ خلیفہ کے محل میں جاسوسوں کو چوکنا کردیا جائے۔وہاں ذرا سی بھی مشکوک حرکت ہو تو فوراً اطلاع دیں رجب کو سلطان ایوبی جانتا تھا
اسے یہ بھی معلوم تھا کہ رجب خلیفہ کا منہ چڑھا نائب سالار ہے سلطان ایوبی نے علی بن سفیان سے کہا رجب کے ساتھ ایک آدمی سائے کی طرح لگا رہنا چاہیے
اُس رات خلیفہ کی محفل عیش و طرب میں رجب نہیں تھا
وہ سلطان ایوبی کے قتل کا انتظام کرنے چلا گیا تھا
اسے حسن بن صباح کے حشیشین سے ملنا تھا۔ خلیفہ روز مرہ کی طرح باہر کی دُنیا سے بے خبر اور اُمِ عرارہ کے طلسماتی حسن اور ناز و ادا میں گم تھا
اسے کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ خطبے میں سے اس کا نام حذف ہوچکا ہے
وہ خوش تھاکہ صلاح الدین ایوبی کے قتل کا انتظام ہونے والا ہے 
اُمِ عرارہ نے اسے جلدی سلانے اور بے ہوش کرنے کے لیے زیادہ شراب پلادی اور شراب میں خواب آور سفوف بھی ملا دیا اس بوڑھے سے جلدی چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وہ یہی نسخہ استعمال کیا کرتی تھی
اُسے سلا کر اور قندیلیں بجھثاکر وہ کمرے سے نکل گئی وہ اپنے مخصوص کمرے کی طرف جارہی تھی جس میں رجب رات کو چوری چھپے اس کے پاس آیا کرتا تھا
وہ کمرے میں داخل ہوئی ہی تھی کہ کواڑوں کے پیچھے سے کسی نے اس پر کمبل پھینکا اس کی آواز بھی نہ نکلنے پائی تھی کہ اس کے منہ پر جہاں پہلے ہی کمبل لپٹ گیا تھا
ایک اور کپڑا باندھ دیا گیا اسے کسی نے کندھوں پر ڈال لیا اور کمرے سے نکل گیا یہ دو آدمی تھے 
وہ محل کی بھول بھلیوں اور چور راستوں سے واقف معلوم ہوتے تھے 
وہ اندھیری سیڑھیوں پر چڑھ گئے اوپر سے انہوں نے رسہ باندھ کر نیچے لٹکایا لڑکی کو کندھوں پر ڈالے ہوئے وہ آدمی رسے سے نیچے اُتر گیا اس کے پیچھے دوسرا اُترا اور دونوں اندھیرے میں غائب ہوگئے کچھ دور چار گھوڑے کھڑے تھے اور ان کے پاس دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔
انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اندھیرے میں آتے دیکھا اور یہ بھی دیکھ لیا کہ ایک نے کندھے پر کچھ اُٹھا رکھا ہے وہ گھوڑوں کو آگے لے گئے سب گھوڑوں پر سوار ہوگئے ایک سوار نے لڑکی کو اپنے آگے ڈال لیا ان میں سے کسی نے کہا گھوڑوں کو ابھی دوڑانا نہیں ٹاپو سارے شہر کو جگا دیں گے گھوڑے آہستہ آہستہ چلتے گئے اور شہر سے نکل گئے 
یہ صلاح الدین ایوبی کا کام ہے
امیرِ مصر کے سوا ایسی جرأت اور کوئی نہیں کرسکتا اس کے سوا اور ہو ہی کون سکتا ہے
قصرِ خلافت میں یہی شور و غوغا بپا تھا کہ اُمِّ عرارہ کو صلاح الدین ایوبی نے اغوا کرایا ہے
رجب واپس آگیا تھا محل کے کونے کونے کی تلاشی لی جاچکی تھی محافظ دستہ کمان داروں کے عتاب کا نشانہ بنا ہوا تھا خود کمان دار بھی سپاہیوں کی طرح تھر تھر کانپ رہے تھے
ایک لڑکی کا اغوا معمولی واردات نہیں تھی اور لڑکی بھی ایسی جسے خلیفہ حرم کا ہیرا سمجھتا تھا 
محل کے پچھواڑے سے ایک رسّہ لٹک رہا تھا
زمین پر پاؤں کے نشان تھے 
جو تھوڑی دُور جا کر گھوڑوں کے نشانات میں ختم ہوگئے تھے 
ان سے یہ ثبوت مل گیا تھا کہ لڑکی کو رسّے سے اُتارا گیا ہے اس شک کا اظہار بھی کیاگیا کہ لڑکی اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ گئی ہے
خلیفہ نے اس شک کو مسترد کردیا تھا 
وہ کہتا تھا کہ اُمِّ عرارہ اس پر جان چھرکتی تھی
یہ صلاح الدین ایوبی کا کام ہے 
رجب نے العاضد سے کہا قصرِ خلافت میں ہر کسی کی زبان پر یہی الفاظ ہیں کہ اس کے سوا اور کوئی بھی ایسی جرأت نہیں کرسکتا'
ہر کسی کے کانوں میں یہ الفاظ رجب نے ہی ڈالے تھے
اسے جونہی اُمِّ عرارہ کی گمشدگی کی اطلاع ملی تھی
اس نے سارے محل میں گھوم پھر کر ہر کسی سے لڑکی کے متعلق پوچھا اور ہر کسی سے کہا تھا
یہ سلطان ایوبی کا کام ہے
قصرِ صدارت کے اعلیٰ حاکم سے ادنیٰ ملازم تک انہی الفاظ کو دہرائے چلے جارہے تھے اور جب یہ الفاظ خلیفہ العاضد کے کانوں میں پڑے تو اُس نے ذرہ بھر سوچنے کی ضرورت نہ سمجھی کہ یہ الزام بے بنیاد ہوسکتا ہے 
اس کے کانوں میں یہ تو پہلے ہی ڈالا جاچکا تھا کہ سلطان ایوبی عورتوں کا شیدائی ہے اُمِّ عرارہ نے اسے یہ بتایا تھا کہ صلاح الدین ایوبی حرم کی چار لڑکیوں کو خراب کر چکا ہے
خلیفہ نے اسی وقت اپنے خصوصی قاصد کو بلایا اور اُسے کہا کہ امیرِ مصر کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ پردے میں لڑکی واپس کر دو، میں کوئی کاروائی نہیں کروں گا
جس وقت خلیفۂ قاصد کو یہ پیغام دے رہا تھا
اس وقت قاہرہ سے دس بارہ میل دُور تین شتر سوار قاہرہ کی طرف خراماں خراماں آرہے تھے 
وہ مصرکی فوج کے گشتی سنتری تھے
مصر کے سیاسی حالات چونکہ اچھے نہیں تھے
جاسوسوں اور تخریب کاروں کی سرگرمیاں رُکنے کی بجائے بڑھتی جارہی تھیں 
سلطان ایوبی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ملک میں غداری اور بغاوت کی چنگاریاں بھی سلگ رہی ہیں 
اُس سوڈانی فوج کی طرف سے جسے اُس نے بر طرف کردیاتھا، خطرہ پوری طرح ٹلا نہیں تھا
اس فوج کے کمان دار عہدے دار اور سپاہی تجربہ کار عسکری تھے
کسی بھی وقت ملک کے لیے خطرہ بن سکتے تھے 
سب سے بڑا خطرہ تو یہ تھا کہ سلطان ایوبی کے مخالفین نے صلیبیوں سے دوستانہ کر رکھا تھا۔ان کے جاسوسوں کو وہ پناہ اڈا اور مدد مہیا کرتے تھے 
ان خطرات کے پیشِ نظر دارالحکومت سے بہت دُور دُور اور ہر طرف فوج کے چند ایک دستے رکھے گئے تھے
ان کے گشتی سنتری دن رات صحراؤں اور ٹیلوں ٹیکریوں کے علاقوں میں گھوڑوں اور اونٹوں پر گشت کرتے رہتے تھے .
تاکہ آنے والے خطرے کی اطلاع قبل از وقت دی جاسکے
وہ تین شتر سوار انہی دستوں کے گشتی سنتری تھے جو اپنی ذمہ داری کے علاقے میں گشت کرکے واپس آرہے تھے
آگے مٹی اور پتھروں کی پہاڑیوں اور چٹانوں کا وسیع علاقہ تھا۔وہ ایک وادی میں سے گزر رہے تھے 
انہیں کسی عورت کی آہ و زار سنائی دی مردانہ آوازیں بھی سنائی دیں 
ان سے صاف پتہ چلتاتھا کہ لڑکی پر زبردستی کی جارہی ہے ایک شتر سوار اُترا اور اس چٹان پر چڑھ گیا جس کی دوسری طرف آوازیں آرہی تھی اس نے چھپ کر دیکھا اُدھر چار گھوڑے کھڑے تھے اور چار آدمی بھی تھے۔ چاروں سوڈانی حبشی تھے
ایک بڑی ہی خوب صورت لڑکی تھی
جو دوڑی جارہی تھی ایک حبشی نے اسے پکڑلیا اور اسے بازوؤں میں دبوچ کر اُٹھا لیا اور اُسے اپنے ساتھیوں کے درمیان کھڑا کرکے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل ہوگیا اس نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر کہا تم مقدس لڑکی ہو اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر ہمیں گناہ گار نہ کرو دیوتاؤں کا قہر ہمیں جلا ڈالے گا یا ہمیں پتھر بنادے گا
میں مسلمان ہوں لڑکی نے چلا کر کہا تمہارے دیوتاؤں پر لعنت بھیجتی ہوں مجھے چھوڑ دو ورنہ میں تم سب کو خلیفہ کے کتوں سے بوٹی بوٹی کرادوں گی
تم اب خلیفہ کی ملکیت نہیں ایک حبشی نے اسے کہا اب تم اس دیوتا کی ملکیت ہو جس کے ہاتھ میں آسمان کی بجلیوں کا قہر، ناگوں کا زہر اور شیروں کی طاقت ہے 
اس نے تمہیں پسند کر لیا ہے
اب جو کوئی تمہیں اس سے چھیننے کی کوشش کرے گا اسے صحرا کی ریت جلا کر راکھ کردے گی
ایک حبشی نے دوسرے سے کہا میں نے تمہیں کہاتھا کہ یہاں نہ رکو مگر تم آرام کرنا چاہتے تھے
اسے بندھا ہوا چلے چلتے اور شام سے پہلے پہلے منزل پر پہنچ جاتے
کیا ہمارے گھوڑے تھک نہیں گئے تھے؟
حبشی نے جواب دیا ہم ساری رات کے جاگے ہوئے نہیں تھے؟اسے پھر باندھ لو اور چلو
اس نے لڑکی کو دبوچ لیا اچانک اس کی پیٹھ میں ایک تیر اُتر گیا اُس کی گرفت لڑکی سے ڈھیلی ہوگئی لڑکی اُسے دھکا دے کر بھاگنے لگی تو دوسرے آدمی نے اسے پکڑ کر گھسیٹا اور گھوڑوں کی اوٹ میں ہوگیا ایک اور تیر آیا جو ایک آدمی کی گردن میں لگا وہ آدمی بُری طرح تڑپنے لگا،جس آدمی نے لڑکی کو پکڑا تھا
وہ گھوڑے کی باگ پکڑ کر لڑکی اور گھوڑے کو نشیبی جگہ لے گیا، جو بالکل قریب تھی
ایک حبشی اور بھی رہ گیا تھا
وہ بھی دوڑ کر نشیب میں اُتر گیا یہ تیر اُس شتر سوار سنتری نے چلائے تھے جو چٹان پر چڑھ گیا تھا
اس نے بعد میں جو بیان دیا، اس میں اس نے کہا تھا کہ وہ دیوتاؤں کے نام سے ڈر گیا تھا
لیکن لڑکی نے جب یہ کہا کہ میں مسلمان ہوں اور میں دیوتاؤں پر لعنت بھیجتی ہوں تو سنتری کا ایمان بیدار ہوگیا لڑکی نے جب خلیفہ کا نام لیا تو سنتری سمجھ گیا کہ یہ حرم کی لڑکی ہے۔اس کا لباس اس کی شکل و صورت اور اس کی ڈیل ڈول بتا رہی تھی کہ یہ معمولی درجے کی لڑکی نہیں ،اسے اغوا کیا جارہا ہے اور اسے سوڈان میں لے جاکر فروخت کیا جائے گا 
سنتری کو یہ معلوم تھا کہ تھوڑے دنوں بعد سوڈانی حبشیوں کا ایک میلہ لگنے والا ہے ،جس میں لڑکیوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے
فوج کو سلطان ایوبی نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ عورت کی عزت کی حفاظت کی جائے گی ایک عورت کی عزت کو بچانے کے لیے ایک درجن آدمیوں کے قتل کی بھی اجازت تھی
سنتری نے یہ ساری باتیں سامنے رکھ کر فیصلہ کرلیا کہ اس لڑکی کو بچانا ہے اس نے دو تیر چلائے اور دو حبشی مار ڈالے اس نے غلطی یہ کی کہ باقی دو حبشیوں کو پکڑنے کے لیے نیچے اُتر آیا اپنے اونٹ پر سوار ہوا اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ بردہ فروشوں کا تعاقب کرنا ہے
وہ تینوں اونٹوں کو دوڑاتے دوسری طرف گئے مگر انہیں چٹان کا چکر کاٹ کر جانا پڑا اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ اونٹ گھوڑے کا تعاقب کر سکتا ہے
یا نہیں ان تینوں میں سے تیر کمان صرف اسی سنتری کے پاس تھا باقی دو کے پاس برچھیاں اور تلواریں تھیں 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ اس جگہ پہنچے جہاں لڑکی اور حبشیوں کو دیکھا گیا تھا تو وہاں دو لاشوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا
سوڈانی حبشی لڑکی کو بھی لے گئے اور اپنے مرے ہوئے ساتھیوں کے گھوڑوں کو بھی شتر سواروں نے تعاقب میں اونٹ دوڑائے لیکن وہ ٹیلوں اور چٹانوں کا علاقہ تھا
راستہ گھومتا اور مڑتا تھا
انہیں بھاگتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دے رہے تھے جو دور ہوتے گئے اور خاموش ہوگئے شتر سواروں نے دونوں لاشیں اونٹوں پر لادیں اور واپس آگئے انہیں معلوم تھا کہ یہ لاشیں کس کی ہیں
یہ عام قسم کے بردہ فروشوں کی بھی ہوسکتی تھیں
انہیں اُٹھا لانا ضروری نہ تھا،لیکن لڑکی خلیفہ کی معلوم ہوتی تھی اس لیے لاشیں اُٹھانا ضروری سمجھا گیا تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ اغوا کرنے والے کون ہیں
صلاح الدین ایوبی پریشانی اور غصے کے عالم میں ٹہل رہا تھا
کمرے میں اس کے مشیر اور معتمد بیٹھے تھے۔یہ اس کے دوست بھی تھے 
وہ سر جھکائے بیٹھے تھے
سلطان ایوبی اپنے آپ کو ہمیشہ قابو میں رکھتا تھا
وہ کبھی جذباتی نہیں ہوا تھا
وہ غصہ پی جایا کرتا تھا اور ذہن کو پوری طرح قابو میں رکھ کر سوچا اور فیصلہ کیا کرتا تھا
ایسے حالات نے بھی اسے آزمایا تھا
جن میں جابر جنگجو بھی ہتھیار ڈال دیا کرتے تھے 
وہ محاصروں میں بھی لڑا تھا اور اس حال میں بھی محاصرے میں رہا تھا کہ اس کے سپاہیوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے قلعے میں کھانے پینے کے لیے بھی کچھ نہ رہا تھا اور سپاہیوں کے ترکش بھی خالی ہوگئے تھے
اس کے سپاہی اس انتظار میں تھے کہ وہ ہتھیار ڈال کر انہیں اس اذیت اور موت سے بچا لے گا لیکن سلطان ایوبی نے صرف اپنا حوصلہ ہی مضبوط نہ رکھا بلکہ سپاہیوں میں بھی نئی روح پھونک دی مگر اس روز سلطان ایوبی کو اپنے اوپر قابو نہیں رہا تھا
چہرے پر غصہ بھی تھا اور گھبراہٹ بھی یہی وجہ تھی کہ سب خاموش بیٹھے تھے
آج پہلی بار میرا دماغ میرا ساتھ چھوڑ گیا ہے 
اس نے کہا
کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ خلیفہ کے اس پیغام کو نظر انداز کردیں ؟
اس کے نائب سالار الناصر نے کہا میں اسی کوشش میں مصروف ہوں سلطان ایوبی نے کہا لیکن الزام کی نوعیت دیکھو جو مجھ پر عائد کیا گیا ہے میں نے اس کے حرم کی ایک لڑکی اغوا کروائی ہے استغفر اللّٰہ اللّٰہ مجھے معاف کرے اس نے میری توہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی پیغام بلکہ دھمکی قاصد کی زبانی بھیجی ہے،وہ مجھے بلا لیتا میرے ساتھ براہِ راست بات کرتا
میں پھر بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اپنے آپ کو ٹھنڈا کیجئے بہاوالدین شداد نے کہا
میں سوچ یہ رہا ہوں کہ کیا واقعی حرم سے کوئی لڑکی اغوا ہوئی ہے
سلطان ایوبی نے کہا یہ جھوٹ معلوم ہوتا ہے 
اسے پتہ چل گیا ہوگا کہ میں نے خطبے سے اس کا نام نکلوا دیا ہے
اس کے جواب میں اس نے مجھ پر یہ الزام لگا کر کہ میں نے اس کے حرم کی ایک لڑکی اغوا کرائی ہے
انتقام لینے کی کوشش کی ہے
سلطان ایوبی نے عیسٰی الہکاری فقیہہ سے کہا ایک حکم نامہ مصرکی تمام مسجدوں کے نام جاری کر دو کہ آئندہ کسی مسجد میں خطبے میں خلیفہ کا ذکر نہیں کیا جائے گا
آپ اس کے ہاں چلے جائیں اور اس سے بات کریں
الناصر نے کہا اسے صاف الفاظ میں بتا دیں کہ خلیفہ قوم کی عزت کا نشان ہوتاہے ،لیکن اس کا حکم نہیں چل سکتا خصوصاً اس صورتِ حال میں جب حالات جنگی ہیں اور دشمن کا خطرہ باہر سے بھی ہے اور اندر سے بھی موجود ہے میں تو یہاں تک مشورہ دوں گا کہ اس کے محافظ دستے کی نفری کم کر دیں سوڈانی حبشیوں کی جگہ مصری دستہ رکھیں اور اس کے محل کے اخراجات کم کر دیں میں اس کے نتائج سے آگاہ ہوں ہمیں مقابلہ کرنا ہی پڑے گا، ہمیں اللّٰہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے

میں نے ہمیشہ اپنے اللّٰہ پر بھروسہ کیا ہے
سلطان ایوبی نے کہا خدائے ذوالجلال مجھے اس ذلت سے بھی بچالے گا
دربان اندر آیا سب نے اس کی طرف دیکھا اس نے کہا صحرا کے گشتی دستے کا کمان دار اپنے تین سپاہیوں کے ساتھ آیا ہے 
وہ سوڈانیوں کی لاشیں لائے ہیں 
سب نے دربان کی مداخلت کو اچھی نظر سے نہ دیکھا اس وقت سلطان ایوبی بڑے ہی اہم اور خفیہ اجلاس میں مصروف تھا، لیکن سلطان نے دربان سے کہا انہیں اندر بھیج دو سلطان ایوبی نے اپنے دربان سے کہہ رکھا تھا کہ جب بھی اسے کوئی ملنے آئے وہ اسے اطلاع دے اور اگر رات اسے جگانے کی ضرورت محسوس ہو تو فوراً جگا لے سلطان کوئی بات اور کوئی ملاقات التوا میں نہیں ڈالا کرتا تھا
 عہدے دار اندر آیا اس کا چہرہ گرد سے اٹا ہوا اور تھکا تھکا نظر آتا تھا
سلطان ایوبی نے اسے بٹھایا اور دربان سے کہاکہ اس کے لیے پینے کے لیے کچھ لے آؤ عہدے دار نے سلطان کو بتایا کہ اس کے گشتی سنتریوں نے چار سوڈانی حبشیوں سے ایک مغویہ لڑکی کو چھڑانے کی کوشش میں دو کو تیروں سے مار ڈالا ہے اور وہ لڑکی کو اُٹھا کر بھاگ گئے ہیں
عہدے دار نے بتایا کہ سنتریوں کے بیان کے مطابق لڑکی خانہ بدوش یا کسی عام گھرانے کی نہیں تھی
وہ بہت ہی امیر لگتی تھی اور اس نے کہا تھا کہ وہ خلیفہ کی ملکیت ہے
معلوم ہوتا ہے سلطان ایوبی نے کہا خدائے ذوالجلال میری مدد کو آگیا ہے
وہ باہر نکل گئے کمرے میں بیٹھے ہوئے سب حاکم اس کے پیچھے چلے گئے باہر زمین پر دو لاشیں پڑی تھیں 
ایک لاش پیٹ کے بل تھی۔اس کی پیٹھ میں تیر اُترا ہوا تھا
دوسری لاش کی گردن میں تیر پیوست تھا پاس تین سپاہی کھڑے تھے انہوں نے امیرِ مصر کو جو اُن کا سالار اعلیٰ بھی تھا شاید پہلی بار دیکھا تھا
وہ فوجی انداز سے سلام کرکے پرے ہٹ گیا۔ سلطان ایوبی نے ان کے سلام کا صرف جواب ہی نہیں دیا بلکہ ان سے ہاتھ ملایا اور کہا……''یہ شکار کہاں سے مار لائے ہو مومنو؟
اس سنتری نے جس نے چٹان سے تیر چلا کر دو آدمیوں کو مارا تھا سلطان ایوبی کو سارا واقعہ پوری تفصیل سے سنا دیا
کیا یہ ممکن ہوسکتاہے کہ وہ لڑکی خلیفہ کی ہی داشتہ ہو؟
سلطان ایوبی نے اپنے مشیروں سے پوچھا
معلوم یہی ہوتا ہے علی بن سفیان نے کہا ان کے خنجر دیکھئے اس نے دو خنجر سلطان ایوبی کو دکھائے جس وقت سپاہی واقعہ سنارہا تھا
علی بن سفیان لاشوں کی تلاشی لے رہا تھا
انہوں نے سوڈان کا قبائلی لباس پہن رکھا تھا۔ کپڑوں کے اندر ان کے کمربند تھے ،جن کے ساتھ ایک ایک خنجر تھا
یہ خلیفہ کے حفاظتی دستے کے خاص ساخت کے خنجر تھے 
ان کے دستوں پر قصرِ خلافت کی مہریں لگی ہوئی تھی۔ علی بن سفیان نے کہا اگر انہوں نے یہ خنجر چوری نہیں کیے تو یہ دونوں قصرِ خلافت کے حفاظتی دستے کے سپاہی ہیں
یہ کہا جاسکتا ہے کہ لڑکی وہی ہے جو خلیفہ کے حرم سے اغوا ہوئی ہے اور اغوا کرنے والے خلیفہ کے محافظوں میں سے ہیں 
لاشیں اُٹھواؤ اور خلیفہ کے پاس لے چلو سلطان ایوبی نے کہا پہلے یقین کرلیا جائے کہ یہ واقعی خلیفہ کے محافظوں میں سے ہیں 
علی بن سفیان نے کہا اور وہاں سے چلاگیا

زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ علی بن سفیان کے ساتھ قصرِ خلافت کا ایک کمان دار آگیا اسے دونوں لاشیں دکھائی گئیں اس نے فوراً پہچان لیا اور کہا یہ دونوں محافظ دستے کے سپاہی ہیں 
گزشتہ تین روز سے چُھٹی پر تھے ان کی چُھٹی سات دن رہتی تھی
کوئی اور سپاہی بھی چُھٹی پر ہے ؟
سلطان ایوبی نے پوچھا
دو اور ہیں 
کیا وہ اِن کے ساتھ چُھٹی پر گئے تھے؟
اکٹھے گئے تھے کمان دار نے جواب دیا اور ایک ایسا انکشاف کیا جس نے سب کو چونکا دیا۔اس نے کہا یہ سوڈان کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو خون خواری میں مشہور ہے ان میں فرعونوں کے وقت کی کچھ رسمیں چلی آرہی ہیں یہ قبیلہ ہر تین سال بعد ایک جشن مناتا ہے یہ ایک میلہ ہوتا ہے جو تین دن اور تین راتیں رہتا ہے۔دن ایسے مقرر کرتے ہیں کہ چوتھی رات چاند پورا ہوتا ہے میلے میں وہ لوگ بھی جاتے ہیں جن کا اس قبیلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔وہ صرف عیاشی کے لیے جاتے ہیں میلے میں لڑکیوں کی خرید و فروخت کے لیے باقاعدہ منڈی لگتی ہے اس میلے سے ایک ماہ پہلے ہی اِرد گرد بلکہ قاہرہ تک کے لوگ جن کی بیٹیاں جوان ہوگئی ہیں ہوشیار اور چوکس ہوجاتے ہیں
وہ لڑکیوں کو باہر نہیں جانے دیتے ان دنوں خانہ بدوش بھی اس علاقے سے دور چلے جاتے ہیں
لڑکیاں اغوا ہوتی ہیں اور اس میلے میں فروخت ہوجاتی ہیں 
یہ چاروں سوڈانی اسی میلے کیلئے چُھٹی پر گئے تھے 
میلہ تین روز بعد شروع ہو رہا ہے 
کیا ان کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ خلیفہ کے حرم کی لڑکی انہوں نے اغوا کی ہوگی؟
علی بن سفیان نے پوچھا
میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کمان دار نے جواب دیا …یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان دنوں میں اس قبیلے کے لوگ جان کا خطرہ مول لے کر بھی لڑکیاں اغوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ خون خوار اتنے ہیں کہ اگر کسی لڑکی کے وارث میلے میں چلے جائیں اور اپنی لڑکی لینے کی کوشش کریں تو انہیں قتل کردیا جاتا ہے
لڑکیوں کے گاہکوں میں مصر کے امیر وزیر اور حاکم بھی ہوتے ہیں 
میلے میں ایسے قحبہ خانے بھی کھل جاتے ہیں 
جہاں جواء شراب اور عورت کے شدائی دولت لُٹاتے ہیں 
اس جشن کی آخری رات بڑی پُر اسرار ہوتی ہے
کسی خفیہ جگہ ایک نوجوان اور غیر معمولی طور پر حسین لڑکی کو قربان کیا جاتا ہے 
یہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ لڑکی کو کہاں اور کس طرح قربان کیا جاتا ہے 
یہ کام ان کا ایک مذہبی پیشوا جسے حبشی خدا بھی کہتے ہیں کرتا ہے اس کے ساتھ بہت تھوڑے سے خاص آدمی اور چار پانچ لڑکیاں ہوتی ہیں لوگوں کو لڑکی کا کٹا ہوا سر اور خون دکھایا جاتا ہے جسے دیکھ کر یہ قبیلہ پاگلوں کی طرح ناچتا اور شراب پیتا ہے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی