👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟛 𝟙⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟛  𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس روز سلطان ایوبی نائبین کو احکامات اور ہدایات دے رہا تھا 
جب دو گھوڑے اس کے محافظ دستے کی بنائی ہوئی حد پر رُکے انہیں محافظوں کے کمانڈر نے روک لیا تھا
سوار میگنانا ماریوس اور موبی تھے 
وہ گھوڑے سے اُترے تو گھوڑوں کی باگیں ان کے ساتھی نے تھام لیں موبی نے کمانڈر سے کہا کہ وہ اپنے باپ کو ساتھ لائی ہے
سلطان ایوبی سے ملنا ہے کمانڈر نے میگنانا ماریوس سے بات کی اور ملاقات کی وجہ پوچھی میگنانا ماریوس نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو وہ یہ زبان نہیں سمجھتا تھا
موبی نے اپنا نام اسلامی بتایا تھا 
اس نے کمانڈر سے کہا اس سے بات کرنا بے کار ہے
یہ گونگا اور بہرہ ہے ملاقات کا مقصد ہم سلطان ایوبی کو یا اس کے کسی بڑے افسر کو بتائیں گے

علی بن سفیان باہر ٹہل رہا تھا اس نے میگنانا ماریوس اور موبی کو دیکھا تو ان کے پاس آگیا اس نے السلام علیکم کہا تو موبی نے وعلیکم السلام کہا کمانڈر نے اسے بتایا کہ یہ سلطان سے ملنا چاہتے ہیں 
علی بن سفیان نے میگنانا ماریوس سے ملاقات کی وجہ پوچھی تو موبی نے اسے بتایا کہ یہ میرا باپ ہے 
گونگا اور بہرہ ہے علی بن سفیان نے انہیں بتایا کہ سلطان ابھی بہت مصروف ہیں 
فارغ ہو جائیں گے تو اُن سے ملاقات کا وقت لیا جائے گا
اس نے کہا آپ ملاقات کا مقصد بتائیں ہو سکتا ہے کہ آپ کا کام سلطان سے ملے بغیر ہو جائے سلطان چھوٹی چھوٹی شکایتوں کے لیے ملاقات کا وقت نہیں نکال سکتے متعلقہ محکمہ از خود ہی شکایت رفعہ کر دیتا ہے
کیا سلطان ایوبی اسلام کی ایک مظلوم بیٹی کی فریاد سننے کے لیے وقت نہیں نکال سکیں گے ؟
موبی نے کہا مجھے جو کچھ کہنا ہے وہ میں انہی سے کہوں گی 
مجھے بتائے بغیر آپ سلطان سے نہیں مل سکیں گی علی بن سفیان نے کہا میں سلطان تک آپ کی فریاد پہنچاؤں گا وہ ضروری سمجھیں گے تو آپ کو اندر بلا لیں گے علی بن سفیان انہیں اپنے کمرے میں لے گیا موبی نے شمالی علاقے کے کسی قصبے کا نام لے کر کہا دو سال گزرے سوڈانی فوج وہاں سے گزری میں بھی لڑکیوں کے ساتھ فوج دیکھنے کے لیے باہر آگئی ایک کماندار نے اپنا گھوڑا موڑا اور میرے پاس آکر میرا نام پوچھا میں نے بتایا تو اس نے میرے باپ کو بلایا اسے پرے لے جا کر کوئی بات کی کسی نے کماندار سے کہا کہ یہ گونگا اور بہرہ ہے  کماندار چلا گیا شام کے بعد چار سوڈانی فوجی ہمارے گھر آئے اور مجھے زبردستی اُٹھا کر لے گئے اور کماندار کے حوالے کردیا اس کا نام بالیان تھا 
وہ مجھے اپنے ساتھ لے آیا اور حرم میں رکھ لیا اُس کے پاس چار اور لڑکیاں تھیں میں نے اسے کہا کہ میرے ساتھ باقاعدہ شادی کر لے لیکن اس نے مجھے شادی کے بغیر ہی بیوی بنائے رکھا دو سال اس نے مجھے اپنے پاس رکھا سوڈانی فوج نے بغاوت کی تو بالیان چلا گیا معلوم نہیں مارا گیا ہے یا قید میں ہے 
آپ کی فوج اس کے گھر میں آئی اور ہم سب لڑکیوں کو یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا تم سب آزاد ہو میں اپنے گھر چلی گئی میرے باپ نے شادی کرنی چاہی تو سب نے مجھے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہتے ہیں کہ یہ حرم کی چچوڑی ہوئی ہڈی ہے وہاں لوگوں نے میرا جینا حرام کر دیا ہے ہم سرائے میں ٹھہرے ہیں سنا تھا کہ سلطان سوڈانیوں کو زمینیں اور مکان دے رہے ہیں 
مجھے آپ بالیان کی داشتہ یا اس کی بیوی سمجھ کہ یہاں زمین اور مکان دے دیں تاکہ میں اُس قصبے سے نکل آؤں ورنہ میں خود کشی کر لوں گی یا گھر سے بھاگ کر کہیں طوائف بن جاؤں گی 

اگر آپ کو زمین سلطان سے ملے بغیر مل جائے تو سلطان سے ملنے کی کیا ضرورت ہے ؟
علی بن سفیان نے کہا
ہاں! 
موبی نے کہا پھر بھی ملنے کی ضرورت ہے 
اُسے آپ عقیدت بھی کہہ سکتے ہیں 
میں سلطان کو صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اس کی سلطنت میں عورت کھلونا بنی ہوئی ہے 
دولت مندوں اور حاکموں کے ہاں شادی کا رواج ختم ہو گیا ہے
خدا کے لیے عورت کی عصمت کو بچاؤ اور عورت کی عظمت کو بحال کرو سلطان سے یہ کہہ کر شاید میرے دل کو سکون آجائے گا 
میگناناماریوس اس طرح خاموش بیٹھا رہا جیسے اس کے کان میں کوئی بات نہیں پڑ رہی علی بن سفیان نے موبی سے کہا کہ سلطان کو اجلاس سے فارغ ہونے دیں پھر ان سے ملاقات کی اجازت لی جائے گی یہ کہہ کر علی بن سفیان باہر نکل گیا وہ بہت دیر بعد آیا اور کہا کہ وہ سلطان سے اجازت لینے جا رہا ہے وہ سلطان ایوبی کے کمرے میں چلا گیا اور خاصی دیر بعد آیا اس نے موبی سے کہا کہ اپنے باپ کو سلطان کے پاس لے جاؤ اس نے انہیں سلطان ایوبی کا کمرہ دکھا دیا کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دونوں نے باہر کی طرف دیکھا وہ غالباً قتل کے بعد وہاں سے نکلنے کا راستہ دیکھ رہے تھے 
سلطان کمرے میں اکیلا تھا اس نے دونوں کو بٹھایا اور موبی سے پوچھا کیا تمہار باپ پیدائشی گونگا اور بہرہ ہے ؟
ہاں سلطانِ محترم!
موبی نے جواب دیا یہ اس کا پیدائشی نقص ہے 
سلطان ایوبی بیٹھا نہیں کمرے میں ٹہلتا رہا اور بولا میں نے تمہاری شکایت اور مطالبہ سن لیا ہے
مجھے تمہارے ساتھ پوری ہمدردی ہے 
میں تمہیں یہاں زمین بھی دوں گا اور مکان بھی بنوا دوں گا سنا ہے تم کچھ اور بھی مجھ سے کہنا چاہتی ہو
اللّٰہ آپ کا اقبال بلند کرے!
موبی نے کہا آپ کو بتا دیا گیا ہوگا کہ میرے ساتھ کوئی آدمی شادی نہیں کرتا لوگ مجھے حرم کی چچوڑی ہوئی ہڈی فاحشہ اور بدکار کہتے ہیں اور میرے باپ کو کہتے ہیں کہ اس نے بیٹی بیچ ڈالی تھی 
آپ مجھے زمین اور مکان تو دے دیں گے لیکن مجھے ایک خاوند کی ضرورت ہے 
جو میری عزت کی رکھوالی کرے اس نے جھجک کر کہا میں ایسی بات کہنے کی جرأت نہیں کر سکتی لیکن اپنی ماں کی عرض آپ تک پہنچانا چاہتی ہوں کہ آپ اگر میری شادی نہیں کرا سکتے تو مجھے اپنے حرم میں رکھ لیں  آپ میری عمر، میری شکل و صورت اور میرا جسم دیکھیں کیا میں آپ کے قابل نہیں ہوں؟
یہ کہہ کر اس نے  کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دوسرا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا اور سلطان ایوبی کی طرف اشارہ دیا یہ اشارہ شاید پہلے سے طے شدہ تھا 
میگناناماریوس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلطان ایوبی کی طرف کیے اور پھر موبی کے ہاتھ پکڑ کر سلطان ایوبی کی طرف بڑھایا جیسے وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری بیٹی قبول کر لو 
میرا کوئی حرم نہیں لڑکی!
سلطان ایوبی نے کہا میں ملک سے حرم قحبہ خانے اور شراب ختم کر رہا ہوں بات کرتے کرتے اس نے اپنی جیب سے ایک سکہ نکالا اور ہاتھ میں اُچھالنے لگا اس نے کہا میں عورت کی عزت کا محافظ بننا چاہتا ہوں یہ کہتے کہتے وہ دونوں کے پیٹھ پیچھے چلا گیا اور سکہ ہاتھ سے گرا دیا
ٹن کی آواز آئی تو میگناناماریوس نے چونک کر پیچھے دیکھا اور پھر فوراً ہی سامنے دیکھنے لگا 
صلاح الدین ایوبی نے تیزی سے اپنے کمر بند سے ایک فٹ لمبا خنجر نکال کر اس کی نوک میگناناماریوس کی گردن پر رکھ دی اور موبی سے کہا 
یہ شخص میری زبان نہیں سمجھتا اس سے کہو کہ اپنے ہاتھ سے اپنا ہتھیار پھینک دے اس نے ذرا سی پس و پیش کی تو یہاں سے تم دونوں کی لاشیں اُٹھائی جائیں گی موبی کی آنکھیں حیرت اور خوف سے کھل گئیں اس نے اداکاری کا کمال دکھانے کی کوشش کی اور کہا میرے باپ کو ڈرا دھمکا کر آپ مجھ پر کیوں قبضہ کرنا چاہتے ہیں 
میں تو خود ہی اپنے آپ کو پیش کر رہی ہوں 
تم جب محاذ پر میرے سامنے آئیں تھیں تو تم میری زبان نہیں بولتی تھیں 
سلطان ایوبی نے کہا اور خنجر کی نوک میگناناماریوس کی گردن پر رکھے رکھی اُس نے کہا کیا تم اتنی جلدی یہاں کی زبان بولنے لگی ہو؟ 
اس سے کہو کہ ہتھیار فوراً باہر نکال دے موبی نے اپنی زبان میں میگناناماریوس سے کچھ کہا تو اُس نے چغے کے اندر ہاتھ ڈال کر خنجر باہر نکالا جو اتنا ہی لمبا تھا جتنا سلطان ایوبی کا تھا 
سلطان نے اس کے ہاتھ سے خنجر لے لیا اور اپنا خنجر اس کی گردن سے ہٹا کر کہا باقی چھ لڑکیاں کہاں ہیں ؟
آپ نے مجھے پہچاننے میں غلطی کی ہے 
موبی نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا میرے ساتھ اور کوئی لڑکی نہیں ہے 
آپ کون سی چھ لڑکیوں کی بات کر رہے ہیں ؟
مجھے خدا نے آنکھیں دی ہیں 
سلطان ایوبی نے کہا اور خدا نے مجھے ذہن بھی دیا ہے 
جس میں وہ چہرے نقش ہو جاتے ہیں جنہیں ایک بار آنکھ دیکھ لیتی ہے تمہارا چہرہ جو آدھا نقاب میں ہے 
میں نے پہلے بھی دیکھا ہے تمہیں اور تمہارے اس ساتھی کو خدا نے اتنا ناقص ذہن دیا ہے کہ جس کام کے لیے تم آئے تھے  تم اس قابل نہیں سرائے میں تم دونوں میاں اور بیوی تھے 
یہاں آکر تم باپ اور بیٹی بن گئے مگر تم ہو کچھ بھی نہیں اور تمہارا ایک ساتھی باہر گھوڑوں کے پاس کھڑا ہے 
وہ تمہارا نوکر نہیں اسے گرفتار کر لیا گیا ہے 
یہ کمال علی بن سفیان کا تھا اسے موبی نے بتایا تھا کہ وہ سرائے میں ٹھہرے ہوئے ہیں 
وہ ان دونوں کو اپنے کمرے میں بٹھا کر باہر نکل گیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر سرائے میں چلا گیا تھا
سرائے والوں سے اُس نے ان کے حلیے بتا کر پوچھا تو اسے بتایا گیا تھا کہ وہ میاں بیوی ہیں اور ان کے ساتھ ان کا نوکر ہے 
اسے یہ بھی بتایا گیا کہ انہوں نے بازار سے کچھ کپڑے بھی خریدے تھے 
جن میں لڑکی کا برقعہ نما چغہ اور جوتے بھی تھے
انہوں نے علی بن سفیان سے کہا تھا کہ وہ باپ بیٹی ہیں
اس نے اور کوئی تفتیش نہیں کی ان کے کمرے کا تالا توڑ کر ان کے سامان کی تلاشی لی اس سے چند ایسی اشیاء برآمد ہوئیں جنہوں نے شک کو یقین میں بدل دیا 
علی بن سفیان سمجھ گیا کہ سلطان ایوبی سے ان کا تنہائی میں ملنے کا مطلب کیا ہوسکتا ہے 
اس نے ان کے گھوڑے دیکھے تھے 
اعلیٰ نسل کے تیز رفتار گھوڑے تھے 
سرائے والے سے ان کے گھوڑوں کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ یہ تینوں مسافر اونٹوں پر آئے تھے اور یہ گھوڑے لڑکی نے یہ کہہ کر منگوائے تھے کہ نہایت اچھے ہوں اور تیز رفتار ہوں سرائے والوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ لڑکی کا خاوند گونگا معلوم ہوتا ہے 
وہ کسی سے بات نہیں کرتا دراصل وہ یہاں کی زبان نہیں جانتا تھا 
علی بن سفیان نے واپس آکر دیکھا کہ اجلاس ختم ہو گیا ہے تو وہ سلطان ایوبی کے پاس چلا گیا اسے ان کے متعلق بتایا اور وہ کہانی بھی سنائی جو لڑکی نے اسے سنائی تھی 
پھر سرائے سے معلومات اس نے حاصل کی تھیں اور ان کے سامان سے جو مشکوک چیزیں برآمد کیں تھیں 
وہ دکھائیں اور اپنی رائے یہ دی کہ آپ کو قتل کرنے آئے ہیں 
آپ سے تنہائی میں ملنا چاہتے ہیں 
انہوں نے یہ منصوبہ بنایا ہوگا کہ آپ کو قتل کرکے نکل جائیں گے جتنی دیر میں کسی کو پتہ چلے گا اتنی دیر میں وہ تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر شہر سے دُور جا چکے ہوں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے یہ لوگ آپ کو اتنی خوبصورت لڑکی کے چکر میں ڈال کر خواب گاہ میں قتل کرنا چاہتے ہوں گے
سلطان ایوبی سوچ میں پڑ گیا پھر کہا انہیں ابھی گرفتار نہ کرو میرے پاس بھیج دو 
علی بن سفیان نے انہیں اندر بھیج دیا اور خود سلطان ایوبی کے کمرے کے دروازے کے ساتھ لگا کھڑا رہا اس نے محافظ دستے کے کمانڈر کو بلا کر کہا ان دونوں گھوڑوں کو اپنے گھوڑوں کے ساتھ باندھ دو اور زینیں اُتار دو اور ان کے ساتھ جو آدمی ہے  اسے حراست میں بٹھا لو اس کی تلاشی لو اس کے کپڑوں کے اندر خنجر ہوگا  وہ اس سے لے لو 
ان احکام پر عمل ہوگیا میگناناماریوس کا ساتھی گرفتار ہو گیا اس سے ایک خنجر برآمد ہوا گھوڑوں پر بھی قبضہ کر لیا گیا

اور جب انہیں سلطان ایوبی کے کمرے میں داخل کیا گیا تو باتوں باتوں میں سلطان نے ایک سکہ فرش پر پھینک کر یقین کر لیا کہ یہ شخص بہرہ نہیں سکے کی آواز پر اس نے فوراً پیچھے مُڑ کر دیکھا تھا 
صلاح الدین ایوبی نے لڑکی سے کہا اسے کہو کہ میری جان صلیبیوں کے خدا کے ہاتھ میں نہیں میرے اپنے خدا کے ہاتھ میں ہے 

موبی نے اپنی زبان میں میگناناماریوس سے بات کی تو اس نے چونک کر کچھ کہا موبی نے سلطان ایوبی سے کہا یہ کہتا ہے کیا آپ کا خدا کوئی اور ہے اور کیا مسلمان بھی خدا کو مانتے ہیں؟
اسے کہو کہ مسلمان اس خدا کو مانتے ہیں جو سچا ہے اور سچے عقیدے والوں کو عزیز رکھتا ہے 
سلطان ایوبی نے کہا مجھے کس نے بتایا ہے کہ تم دونوں مجھے قتل کرنے آئے ہو؟
میرے خدا نے اگر تمہارا خدا سچا ہوتا تم تمہارا خنجر مجھے ہلاک کر چکا ہوتا میرے خدا نے تمہارا خنجر میرے ہاتھ میں دے دیا ہے 
اس نے ایک تلوار کہیں سے نکالی اور چند اشیاء انہیں دکھا کر کہا یہ تلوار اور چیزیں تمہاری ہیں 
یہ تمہارے ساتھ سمندر پار سے آئی ہیں 
تم سے پہلے یہ مجھ تک پہنچ گئی ہیں 
میگناناماریوس حیرت سے اُٹھ کھڑا ہوا اس کے آنکھیں اُبل کر باہر آگئیں جتنی باتیں ہوئیں وہ موبی کی مدد سے ہوئیں
میگناناماریوس نے بولنا شروع کر دیا اور وہ صرف اپنی زبان بولتا اور سمجھتا تھا 
خدا کے متعلق یہ باتیں سن کر اس نے کہا یہ شخص سچے عقیدے کا معلوم ہوتا ہے 
میں اس کی جان لینے آیا تھا 
لیکن اب میری جان اس کے ہاتھ میں ہے 
اسے کہو کہ تمہارے سینے میں ایک خدا ہے 
وہ مجھے دکھائے میں اس خدا کو دیکھنا چاہتا ہوں 
جس نے اسے اشارہ دیا ہے کہ ہم اسے قتل کرنے آئے ہیں 
سلطان ایوبی کے پاس اتنی لمبی چوڑی باتوں کا وقت نہیں تھا 
اُسے چاہیے تھا کہ ان دونوں کو جلاد کے حوالے کر دیتا لیکن اس نے دیکھا کہ یہ شخص بھٹکا ہوا معلوم ہوتا ہے 
اگر یہ پاگل نہیں تو یہ ذہنی طور پر گمراہ ضرور ہے 
چنانچہ اس نے اس کے ساتھ دوستانہ انداز میں باتیں شروع کر دیں 
اس دوران علی بن سفیان اندر آگیا وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سلطان خیریت سے تو ہیں 
سلطان ایوبی نے مُسکرا کر کہا سب ٹھیک ہے علی میں نے ان سے خنجر لے لیا ہے 
علی بن سفیان سکون کی آہ بھر کر باہر چلا گیا
میگناناماریوس نے کہا پیشتر اس کے کہ سلطان میری گردن تن سے جدا کردے میں اپنی زندگی کی کہانی سنانے کی مہلت چاہتا ہوں
سلطان ایوبی نے اجازت دے دی میگناناماریوس نے بالکل وہ کہانی جو رات صحرا میں اس نے اپنے پارٹی کمانڈر اور اپنے ساتھیوں کو سنائی تھی 
من و عن سلطان ایوبی کو سنا دی اب کے اس نے صلیب پر لٹکتے ہوئے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بُت کنواری مریم کی تصویر اور پادریوں کے اُس خدا سے جس سے وہ پادری کی اجازت کے بغیر بات بھی نہیں کر سکتا تھا 
بیزاری کا اظہار اور زیادہ شدت سے کیا اور کہا مرنے سے پہلے مجھے خدا کی ایک جھلک دکھا دو 
میرے خدا نے بچوں کو بھوکا مار دیا ہے 
میری ماں کو اندھا کر دیا ہے 
میری بہن کو شرابی وحشیوں کا قیدی بنا دیا ہے 
اور مجھے تیس سالوں کے لیے قید خانے میں بند کر دیا ہے 
میں وہاں سے نکلا تو موت کے منہ میں آپڑا سلطان میری جان تیرے ہاتھ میں ہے 
مجھے سچا خدا دکھا دے 
میں اس سے فریاد کروں گا 
اس سے انصاف مانگوں گا
تیری جان میرے ہاتھ میں نہیں سلطان ایوبی نے کہا 
میرے خدا کے ہاتھ میں ہے 
اگر میرے ہاتھ میں ہوتی تو اس وقت تک تم میرے جلاد کے پاس ہوتے میں تمہیں وہ سچا خدا دکھا دوں گا جو تیری گردن مارنے سے مجھے روک رہا ہے 
لیکن تجھے اس خدا کا سچا عقیدہ قبول کرنا ہوگا ورنہ خدا تمہاری فریاد نہیں سنے گا اور انصاف بھی نہیں ملے گا 
سلطان ایوبی نے اس کا خنجر اس کی گود میں پھینک دیا اور خود اس کے پاس جا کر اس کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہوگیا موبی سے کہا اسے کہو میں اپنی جان اس کے حوالے کرتا ہوں 
یہ خنجر میری پیٹھ میں گھونپ دے 
میگناناماریوس نے خنجر ہاتھ میں لے لیا اسے غور سے دیکھا سلطان ایوبی کی پیٹھ پر نگاہ دوڑائی اُٹھا اور سلطان کے سامنے چلا گیا اسے سر سے پاؤں تک دیکھا 
یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی جلالی شخصیت کا اثر تھا یا سلطان کی آنکھوں کی چمک میں اُسے سچا خدا نظر آگیا کہ اس کے ہاتھ کانپے اس نے خنجر سلطان ایوبی کے قدموں میں رکھ دیا وہ دوزانو بیٹھ گیا اور سلطان کے ہاتھ چوم کر زارو قطار رونے لگا 
موبی سے کہا اسے کہو کہ یا تو یہ خود خدا ہے یا اس نے خدا کو اپنے سینے میں قید کر رکھا ہے 
اسے کہو مجھے اپنا خدا دکھا دو 

سلطان ایوبی نے اُسے اُٹھایا اور سینے سے لگا کر اپنے ہاتھ سے اس کے آنسو پونچھے وہ تو بھٹکا ہوا انسان تھا 
اس کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھر دی گئی تھی اور اسلام کے خلاف زہر ڈالا گیا تھا 
پھر حالات نے اسے اپنے مذہب سے بیزار کیا یہ ایک قسم کا پاگل پن تھا اور ایک تشنگی تھی جو اسے ایسی خطرناک مہم پر لے آئی تھی 
سلطان ایوبی اُسے بے گناہ سمجھتا تھا 
لیکن اسے آزاد بھی نہ کیا بلکہ اپنے پاس رکھ لیا موبی باقاعدہ ٹریننگ لے کر آئی تھی اور مفرور جاسوسہ تھی 
یہ وہ ساتویں لڑکی تھی جس نے صلیبیوں کا پیغام سوڈانیوں تک پہنچایا اور بغاوت کرائی تھی 
وہ ملک کی دشمن تھی 
اسے اسلامی قانون نہیں بخش سکتا تھا 
سلطان نے اُسے اور اس کے ساتھی کو علی بن سفیان کے حوالے کر دیا تفتیش میں دونوں نے اقبالِ جرم کر لیا اور یہ بھی بتا دیا کہ رسد کے قافلے کو انہوں نے ہی لوٹا تھا اور لڑکیوں کو بھی انہوں نے آزاد کرایا اور محافظ دستے کو ہلاک کیا تھا اور بالیان اور اس کے ساتھیوں کو بھی انہوں نے ہلاک کیا تھا 
یہ تفتیش تین دن جاری رہی اس دوران میگناناماریوس کا دماغ روشن ہو چکا تھا 
ایک بار اس نے سلطان ایوبی سے پوچھا کیا آپ نے اس لڑکی کو مسلمان کر کے اپنے حرم میں رکھ لیا ہے ؟
آج شام کو اس کا جواب دوں گا سلطان ایوبی نے جواب دیا
شام کے وقت سلطان ایوبی نے میگناناماریوس کو ساتھ لیا اور کچھ دُور جا کر ایک احاطے میں لے گیا لکڑی کے دو تختے پڑے تھے 
ان پر سفید چادریں پڑی ہوئی تھیں
سلطان ایوبی نے چادروں کو ایک طرف سے اُٹھایا اور میگناناماریوس کو دکھایا اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اس کے سامنے موبی کی لاش پڑی تھی اور دوسرے تختے پر اس کے ساتھی کی لاش تھی 
سلطان ایوبی نے موبی کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کھینچا گردن کندھے سے جدا تھی 
اس نے میگناناماریوس سے کہا میں اسے بخش نہیں سکتا تھا 
تم اسے اپنے ساتھ لائے تھے کہ میں اس کے حسن اور جسم پر فدا ہو جاؤں گا مگر اس کا جسم مجھے ذرا بھر اچھا نہیں لگا یہ ناپاک جسم تھا 
یہ اب مجھے اچھا لگ رہا ہے 
اب جبکہ اس جسم سے اتنی حسین شکل و صورت جدا ہوچکی ہے 
مجھے یہ بہت اچھی لگ رہی ہے 
اللّٰہ اس کے گناہ معاف کرے 

سلطان! میگناناماریوس نے پوچھا آپ نے مجھے کیوں بخش دیا؟
اس لیے کہ تم مجھے قتل کرنے آئے تھے 
سلطان ایوبی نے جواب دیا مگر یہ میری قوم کے کردار کو قتل کرنے آئی تھی اورر تمہارا یہ ساتھی بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بہت سے لوگوں کا قاتل بنا اور تم نے میرا خون بہا کر خدا کو دیکھنا چاہا تھا
چند دِنوں بعد میگناناماریوس سیف اللّٰہ بن گیا جو بعد میں سلطان ایوبی کے محافظ دستے میں شامل ہوا اور جب سلطان ایوبی خالقِ حقیقی سے جا ملا تو سیف اللّٰہ نے زندگی کے آخری سترہ برس سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر پر گزار دئیے آج کسی کو بھی معلوم نہیں کہ سیف اللّٰہ کی قبر کہاں ہے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قاہرہ سے ڈیڑھ دو میل دور جہاں ایک طرف ریت کے ٹیلے اور باقی ہر طرف صحرا ریت کے سمندر کی مانند اُفق تک پھیلا ہوا تھا انسانوں کے سمندر تلے دب گیا تھا
یہ لاکھوں انسانوں کا ہجوم تھا ان میں شتر سوار بھی تھے اور گھوڑا سوار بھی بہت سے لوگ گدھوں پر بھی سوار تھے تعداد ان کی زیادہ تھی جن کے پاس کوئی سواری نہیں تھی لاتعداد ہجوم چار پانچ دنوں سے صحرا کی اس وسعت میں جمع ہونا شروع ہوگیا تھا
قاہرہ کے بازاروں میں بھیڑ اور رونق زیادہ ہوگئی تھی
سرائے بھر گئی تھی یہ لوگ دور دور سے اس سرکاری منادی پر آئے تھے کہ چھ سات روز بعد قاہرہ کے مضافاتی ریگستان میں مصری فوج گھوڑ سواری شتر سواری دوڑتے گھوڑوں اور اونٹوں سے تیر اندازی اور بہت سے جنگی کمالات کا مظاہرہ کرے گی منادی میں یہ اعلان بھی کیاگیا تھا کہ غیر فوجی لوگ بھی ان مظاہروں میں جس کسی کو چاہیں تیغ زنی کُشتی دوڑتے گھوڑوں کی لڑائی اور تیر اندازی وغیرہ کے لیے للکار کر مقابلہ کرسکتے ہیں 
یہ منادی صلاح الدین ایوبی نے کرائی تھی 
اس کے دو مقاصد تھے ایک یہ کہ لوگوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب ملے گی اور دوسرے یہ کہ جو لوگ ابھی تک سلطان کو فوجی لحاظ سے کمزور سمجھتے ہیں 
ان کے شکوک رفع ہوجائیں سلطان ایوبی کو جب یہ اطلاع  ملنے لگیں کہ لوگ چھ روز پہلے ہی تماشہ گاہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوا مگر علی بن سفیان پریشان سا نظر آتا تھا اس نے سلطان کے آگے اس پریشانی کا اظہار کر بھی دیا تھا
سلطان ایوبی نے مسرت سے اُسے کہا تھا
اگر تماشائیوں کی تعداد لاکھ ہوجائے تو ہمیں پانچ ہزار سپاہی تو مل ہی جائیں گے
محترم امیر! علی بن سفیان نے کہا میں تماشائیوں کے ہجوم کو کسی اور زاویے سے دیکھ رہا ہوں 
میرے اندازے کے مطابق اگر تماشائیوں کی تعداد ایک لاکھ ہوئی تو اس میں ایک ہزار جاسوس ہوں گے دیہات سے عورتیں بھی آرہی ہیں 
ان میں زیادہ تر سوڈانی ہیں 
ان میں اکثر کا رنگ اتنا گورا ہے کہ عیسائی عورت ان میں چھپ سکتی ہے 
میں تمہاری اس مشکل کو اچھی طرح سمجھتا ہوں علی سلطان نے کہا لیکن تم جانتے ہوکہ میں نے جس میلے کا انتظام کیا ہے 
وہ کیوں ضروری ہے تم اپنے محکمے کو اور زیادہ ہوشیار کردو
میں اس کے حق میں ہوں علی بن سفیان نے کہا یہ میلہ بہت ہی ضروری ہے 
میں نے اپنی پریشانی آپ کو پریشان کرنے کے لیے نہیں بتائی صرف یہ اطلاع پیش کی ہے کہ یہ میلہ اپنے ساتھ کیا خطرہ لا رہا ہے 
قاہرہ میں عارضی قحبہ خانے کھل گئے ہیں جو ساری رات شائقین سے بھرے رہتے ہیں 
تماشائیوں میں سے بعض نے شہر کے باہر خیمے نصب کر لیے ہیں 
میرے گروہ نے مجھے اطلاع دی ہے کہ ان میں بھی قمار بازوں اور عصمت فروشوں کے خیمے موجود ہیں 
کل میلے کا دن ہے ناچنے گانے والیوں نے تماشائیوں سے دولت کے ڈھیر اکٹھے کر لیے ہیں 
میلہ ختم ہو جائے گا تو یہ غلاظت بھی ہجوم کے ساتھ ہی صاف ہو جائے گی سلطان ایوبی نے کہا میں اس پر پابندی عائد نہیں کرنا چاہتا مصر کی اخلاقی حالت اچھی نہیں رقص اور عصمت فروشی ایک دو دنوں میں ختم نہیں کی جاسکتی ابھی مجھے زیادہ سے زیادہ تماشائیوں کی ضرورت ہے 
مجھے فوج تیار کرنی ہے اور تم جانتے ہو علی ہمیں بہت زیادہ فوج کی ضرورت ہے میں نے فوج اور انتظامیہ کے سربراہوں کے اجلاس میں یہ ضرورت وضاحت سے بیان کردی تھی 
میں آپ کو اس وضاحت سے روک نہیں سکا تھا
امیر محترم! علی بن سفیان نے کہا میری سراغ رساں نگاہوں میں ان سربراہوں میں نصف ایسے ہیں جو ہمارے وفادار نہیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان میں کچھ ایسے ہیں جو آپ کو اس گدّی پر نہیں دیکھنا چاہتے اور باقی جو ہیں اُن کی دل چسپیاں سوڈانیوں کے ساتھ ہیں 
میں نے ان میں سے ہر ایک کے پیچھے ایک ایک آدمی چھوڑ رکھا ہے 
میرے آدمی مجھے ان کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں 
کسی کی کوئی خطرناک سرگرمی سامنے آئی ہے؟
سلطان ایوبی نے پوچھا۔
نہیں علی بن سفیان نے جواب دیا سوائے اس کے کہ یہ لوگ اپنی حیثیت اور رتبوں کو فراموش کرکے راتوں کو مشکوک خیموں میں اور اُن مکانوں میں جاتے ہیں جو عارضی قحبہ خانے اور رقص گاہیں بن گئے ہیں 
دو نے تو ناچنے والی لڑکیوں کو گھروں میں بھی بلایا ہے ان سے زیادہ میرا دماغ اُن دو بادبانی کشتیوں پر گھوم رہا ہے جو دس روز گزرے بحیرۂ روم کے ساحل کے ساتھ دیکھی گئی تھیں
اُن میں کیا خاص بات تھی ؟
سلطان ایوبی نے پوچھا 
اس وقت تک بحیرۂ روم کے ساحل سے فوج کو واپس بلا لیا گیا تھا وہاں ڈھکی چھپی جگہوں پر دو دو فوجی سمندر پر نظر رکھنے کے لیے بٹھا دئیے گئے تھے ۔علی بن سفیان نے ماہی گیروں اور صحرائی خانہ بدوشوں کے لباس میں ساحلی پر انٹیلی جنس کے چند آدمی مقرر کردئیے تھے 
یہ اہتمام ایک تو اس لیے کیاگیا تھا کہ صلیبی اچانک حملہ نہ کردیں اور دوسرے اس لیے کہ ادھر سے صلیبیوں کے جاسوس نہ آسکیں مگر ساحل بہت لمبا تھا۔ کہیں کہیں چٹانیں بھی تھیں جہاں سمندر اندر آجاتا تھا
سارے ساحل پر نظر نہیں رکھی جاسکتی تھی 
دس روز گزرے ایسی ہی ایک جگہ سے جہاں سمندر چٹانوں کے اندر آیا ہوا تھا، دو باد بانی کشتیاں نکلتی دیکھی تھیں 
وہ شاید رات کو آئی تھیں
انہیں جاتا دیکھ کر سلطان کے دو سوار سرپٹ گھوڑے دوڑاتے اس جگہ پہنچے جہاں سے کشتیاں نکل کر گئی تھیں 
وہاں کچھ بھی نہ تھا کوئی انسان نہیں تھا اور کشتیاں سمندر میں دور چلی گئی تھیں کشتیوں اور بادبانوں کی ساخت بتاتی تھی کہ یہ مصر کے ماہی گیروں کی نہیں سمندر پار معلوم ہوتی تھیں سوار تھوڑی دُور تک صحرا میں گئے انہیں کسی انسان کا سراغ نہیں ملا انہوں نے قاہرہ اطلاع بھجوا دی تھی کہ ساحل کے ساتھ دو مشکوک کشتیاں دیکھی گئی ہیں 
علی بن سفیان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ ریگستان میں انہیں ڈھونڈ لیتا جو کشتیوں میں سے اُترے تھے 
اطلاع پہنچتے پہنچتے تین دِن گزر گئے تھے 
یہ بھی یقین نہیں تھا کہ کشتیوں سے کون اُترا ہے 
علی بن سفیان نے سلطان ایوبی کے اس سوال کے جواب میں کہ ان کشتیوں میں کیا خاص بات تھی یہ وضاحت کردی اور کہا ہم میلے کی منادی ڈیڑھ مہینے سے کرا رہے ہیں
ڈیڑھ مہینے میں خبر یورپ کے وسط تک پہنچ سکتی ہے اور وہاں سے جاسوس آسکتے ہیں 
مجھے یقین کی حد تک شک ہے کہ تماشائیوں کے ساتھ صلیبیوں کے جاسوس میلے میں آگئے ہیں 
قاہرہ میں اس وقت لڑکیاں عارضی طور پر نہیں مستقل طور پر فروخت ہورہی ہیں 
سلطان سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے خریدار معمولی حیثیت کے لوگ نہیں ہوسکتے ان خریداروں میں قاہرہ کے تاجر ہماری انتظامیہ اور فوج کے سربراہ اور نامی گرامی بردہ فروش شامل ہیں 
بکنے والی لڑکیوں میں صلیبیوں کی جاسوس لڑکیاں ہوسکتی ہیں اور یقیناً ہوں گی
سلطان ایوبی ان اطلاعات سے پریشان نہ ہوا بحیرۂ روم میں صلیبیوں کو شکست دئیے تقریباً ایک سال گزر گیا تھا
علی بن سفیان نے سمندر پار جاسوسی کا انتظام کر رکھا تھا جو مضبوط اور سوفیصد قابلِ اعتماد نہیں تھا
تاہم یہ اطلاع مل گئی تھی کہ صلیبیوں نے مصر میں جاسوس اور تخریب کار بھیج رکھے ہیں 
ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ مصر کے متعلق ان کے منصوبے کیا ہیں 
بغداد اور دمشق سے آنے ولی اطلاعوں سے پتہ چلا تھا کہ صلیبیوں نے زیادہ تر دباؤ ادھر ہی رکھا ہواہے 
وہاں خصوصاً شام میں وہ مسلمان اُمرا کو عیاشیوں اور شراب میں ڈبوتے چلے جارہے تھے 
سلطان نور الدین زنگی کی موجودگی میں صلیبی ابھی براہِ راست ٹکر لینے کی جرأت نہیں کررہے تھے 
بحیرۂ روم میں جب صلاح الدین ایوبی نے اُن کا بیڑہ بمع لشکر غرق کردیا تھا 
اُدھر عرب میں سلطان زنگی نے صلیبیوں کی مملکت پر حملہ کرکے انہیں صلح پر مجبور کیا اور جزیہ وصول کرلیا تھا
اس معرکے میں بہت سے صلیبی سلطان زنگی کی قید میں آئے تھے جن میں رینالٹ نام کا ایک صلیبی سالار بھی تھا
سلطان زنگی نے ان قیدیوں کو رہا نہیں کیا تھا
کیونکہ صلیبیوں نے مسلمان جنگی قیدیوں کو شہید کردیا تھا
اس کے علاوہ صلیبی عہد شکنی بھی کرتے تھے 
سلطان ایوبی کو اطمینان تھا کہ اُدھر سلطان زنگی سلطنتِ اسلامیہ کی پاسبانی کررہا ہے 
پھر بھی وہ فوج تیار کررہا تھا تاکہ صلیبیوں سے فلسطین لیاجائے اور عرب کی سر زمین کو کفار سے پاک کیا جائے اس کے ساتھ ہی وہ مصر کا دفاع مضبوط کرنا چاہتا تھا بیک وقت حملے اور دفاع کے لیے بے شمار فوج کی ضرورت تھی 
مصر میں بھرتی کی رفتار سلطان ایوبی کے عزائم کے مطابق سست تھی اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سوڈانیوں کی جو فوج توڑ دی گئی تھی 
اس کے کماندار اور عہدے دار دیہات میں سلطان ایوبی کے خلاف پروپیگنڈا کرتے پھر رہے تھے 
اس فوج میں سے تھوڑی سی تعداد سلطان کی فوج میں وفاداری کا حلف اُٹھا کر شامل ہوگئی تھی
کچھ فوج مصر سے تیار کرلی گئی تھی اور کچھ سلطان زنگی نے بھیج دی تھی 
مصر کے لوگوں نے ابھی یہ فوج نہیں دیکھی تھی نہ ہی انہوں نے سلطان ایوبی کو دیکھا تھا 
سلطان ایوبی نے اس میلے کا علان کرکے اپنے فوجی سربراہوں اور اُن کے ماتحت کمان داروں وغیرہ کو ہدایت دی تھی کہ وہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں سے ملیں اور پیار و محبت سے ان کا اعتماد حاصل کریں
انہیں باور کرائیں کہ وہ انہی میں سے ہیں اور ہم سب کا مقصد یہ ہے کہ خدا اور رسولﷺ کی سلطنت کو دُور دُور تک پھیلانا اور اسے صلیبی فتنے سے پاک کرنا ہے

میلے سے ایک روز پہلے علی بن سفیان سلطان کو جاسوسوں کے خطرے سے آگاہ کررہا تھا
اس نے کہا امیرِ محترم ! مجھے جاسوسوں کا کوئی ڈر نہیں دراصل خطرہ اپنے ان کلمہ گو بھائیوں سے ہے جو کفار کے اس زمین دوز حملے کو کامیاب بناتے ہیں 
اگر ان کا ایمان مضبوط ہو تو جاسوسوں کا پورا لشکر بھی کامیاب نہیں ہوسکتا میلے کے تماشائیوں میں جو ناچنے والی لڑکیاں نظر آرہی ہیں وہ صلیبیوں کا جال ہیں تاہم میرا گروہ دِن رات مصروف ہے
اپنے آدمیوں سے یہ کہہ دو کہ کسی جاسوس کو جان سے نہ ماریں سلطان ایوبی نے کہا زندہ پکڑو جاسوس دشمن کے لیے آنکھ اور کان ہوتا ہے 
لیکن ہمارے لیے وہ زبان ہے ، وہ تمہیں اُن کی خبریں دے گا، جنہوں نے اُسے بھیجا ہے 

میلے کی صبح طلوع ہوئی وہ میدان بہت ہی وسیع تھا جس کے تین اطراف تماشائیوں کا ہجوم تھا
جس طرف ریت کے ٹیلے تھے ادھر کسی کو نہیں جانے دیا گیا تھا
جنگی دف بجنے لگے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں اس طرح سنائی دیں جیسے سیلابی دریا آرہا ہو گرد آسمان کی طرف اُٹھ رہی تھی یہ دو ہزار سے زیادہ گھوڑے تھے پہلا گھوڑا سوار میدان میں داخل ہوا یہ صلاح الدین ایوبی تھا اس کے دونوں طرف علم بردار تھے اور پیچھے سواروں کا دستہ تھا گھوڑوں پر پھول دار چادریں ڈالی گئی تھیں ہر سوار کے ہاتھ میں برچھی تھی برچھی کے چمکتے ہوئے پھل کے ساتھ رنگین کپڑے کی چھوٹی سی جھنڈی تھی ہر سوار کی کمر سے تلوار لٹک رہی تھی  گھوڑے دُلکی چال آرہے تھے سوار گردنیں تانے اور سینے پھیلائے بیٹھے تھے اُن کے چہروں پر جلالی تاثر تھا
یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ تماشائیوں کے دم بخود ہجوم سے اعلیٰ و برتر ہوں اُن کی آن بان دیکھ کر تماشائیوں پر خاموشی طاری ہوگئی تھی ، ان پر رعب چھا گیا تھا 

تماشائی نیم دائرے میں کھڑئے تھے ان کے پیچھے تماشائی گھوڑوں پر بیٹھے تھے اور ان کے پیچھے کے تماشائی اونٹوں پر بیٹھے تھے ایک ایک گھوڑے اور ایک ایک اونٹ پر دو دو تین تین آدمی بیٹھے تھے ان کے آگے ایک جگہ شامیانہ لگایا گیا تھا جس کے نیچے کرسیاں رکھی تھی یہاں اونچی حیثیت والے تماشائی بیٹھے تھے ان میں تاجر بھی تھے سلطان کی حکومت کے افسر اور شہر کے معززین بھی ان میں قاہرہ کی مسجدوں کے امام بھی بیٹھے تھے
انہیں سب سے آگے بٹھایا گیا تھا کیونکہ سلطان ایوبی مذہبی پیشواؤں اور علماء کا اس قدر احترام کرتا تھا کہ ان کی موجودگی میں ان کی اجازت کے بغیر بیٹھتا نہیں تھا۔ ان میں سلطان کے وہ افسر بھی بیٹھے تھے جو انتظامیہ کے تھے لیکن ان کا تعلق فوج سے تھا
سلطان نے انہیں خاص طور پر کہا تھا کہ ان درمیان  بیٹھ کر ان کے ساتھ دوستی پیدا کریں ان میں خادم الدین البرق بھی تھا ۔علی بن سفیان کے بعد یہ دوسرا آدمی تھا جو سلطان ایوبی کے خفیہ منصوبوں مملکت اور فوج کے ہر راز سے واقف تھا اس کا کام ہی ایسا تھا اور اس کا عہدہ سالار جتنا تھا
جنگ کے منصوبے اور نقشے اسی کے پاس ہوتے تھے 
اس کی عمر چالیس سال کے قریب تھی وہ عرب کے مردانہ حسن اور جلال کا پیکر تھا
جسم توانا اور چہرہ ہشاش بشاش تھا

البرق کے ساتھ ایک لڑکی بیٹھی تھی بہت ہی خوب صورت لڑکی تھی وہ نوجوان تھی لڑکی کے ساتھ ایک آدمی بیٹھا تھا جس کی عمر ساٹھ سال سے کچھ زیادہ تھی
وہ کوئی امیر کبیر لگتا تھا البرق کئی بار اس لڑکی کی طرف دیکھ چکا تھا ایک بار لڑکی نے بھی اسے دیکھا تو مسکرادی پھر اس نے بوڑھے کی طرف دیکھا تو اس کی مُسکراہٹ غائب ہوگئی
گھوڑے تماشائیوں کے سامنے سے گزرگئے تو شتر سوار آگئے اونٹوں کو گھوڑوں کی طرح رنگ دار چادروں سے سجایا گیا تھا ہر سوار کے ہاتھ میں ایک لمبا نیزہ اور اس کے پھل سے ذرا نیچے تین تین انچ چوڑے اور ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ لمبے دو رنگے کپڑے جھنڈیوں کی طرح بندھے ہوئے تھے ہوا میں وہ پھڑ پھڑاتے بہت ہی خوب صورت لگتے تھے ہر سوار کے کندھوں سے ایک کمان آویزاں اور اونٹ کی زین کے ساتھ رنگین ترکش بندھی تھی اونٹوں کی گردنیں خم کھا کر اوپر کو اُٹھی ہوئیں اور سر جیسے فخر سے اونچے ہوگئے تھے سواروں کی شان نرالی تھی گھوڑ سواروں کی طرح ہر شتر سوار سامنے دیکھ رہا تھا اُن کی آنکھیں بھی دائیں بائیں نہیں دیکھتی تھیں
یہ اونٹ انہی اونٹوں جیسے تھے جن پر تماشائی بیٹھے ہوئے تھے لیکن فوجی ترتیب فوجی چال اور فوجی سواروں کے نیچے وہ کسی اور جہان کے لگتے تھے

البرق نے اپنے پاس بیٹھی ہوئی لڑکی کو ایک بار پھر دیکھا اب کے لڑکی نے اسے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اس کی آنکھوں میں ایسا جادو تھاکہ البرق نے اپنے آپ میں بجلی کا جھٹکا محسوس کیا

لڑکی کے ہونٹوں پر شرم و حیا کا تبسم آگیا اور اس نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے بوڑھے کو دیکھا تو اس کا تبسم نفرت میں بدل گیا البرق کی ایک بیوی تھی
جس  سے اُس کے چار بچے تھے
وہ شاید اس بیوی کو بھول گیا تھا
وہ لڑکی کے اس قدر قریب بیٹھا تھا کہ لڑکی کا اُٹھا ہوا ریشمی نقاب ہوا سے اُڑ کر کئی بار البرق کے سینے سے لگا ایک بار اس نے نقاب ہاتھ سے پرے کیا تو لڑکی نے شرما کر معذرت کی البرق مسکرایا منہ سے کچھ نہ کہا

شتر سواروں کے پیچھے پیادہ فوج آرہی تھی
ان میں تیر اندازوں اور تیغ زنوں کے دستے تھے
اُن کی ایک ہی جیسی چال ایک ہی جیسے ہتھیار اور ایک ہی جیسا لباس تماشائیوں پر وہی تاثر طاری کررہا تھا جو سلطان ایوبی کرنا چاہتا تھا سپاہیوں کے چہروں پر تندرستی اور توانائی کی رونق تھی اور وہ خوش و خرم اور مطمئن نظر آتے تھے یہ ساری فوج نہیں صرف منتخب دستے تھے ان کے پیچھے منجنیقیں آرہی تھیں، جنہیں گھوڑے گھسیٹ رہے تھے ہر منجنیق دستے کے پیچھے ایک ایک گھوڑا گاڑی تھی جس میں بڑے بڑے پتھر اور ہانڈیوں کی قسم کے برتن رکھے تھے ان میں تیل جیسی کوئی چیز بھری ہوئی تھی جو منجنیقوں سے پھینکی جاتی تھی جہاں یہ برتن گرتا تھا وہ کئی ٹکڑوں میں ٹوٹ کر سیال مادے کو بہت سی جگہ پر بکھیر دیتا تھا اس پر آتشیں تیر چلائے جاتے تو سیال مادہ شعلے بن جاتا تھا۔

سلطان ایوبی کی قیادت میں یہ سوار اور پیادہ دستے نیم دائرے میں کھڑے اور بیٹھے ہوئے تماشائیوں کے آگے سے دُور آگے نکل گئے صلاح الدین ایوبی راستے میں سے واپس آگیا اُس کے گھوڑے کے آگے علم برداروں کے گھوڑے دائیں بائیں اور پیچھے محافظوں کے گھوڑے اور اُن کے پیچھے نائب سالاروں کے گھوڑے تھے
سلطان نے گھوڑا روک لیا کود کر اُترا اور تماشائیوں کو ہاتھ ہوا میں لہرا لہرا کر سلام کرتا شامیانے کے نیچے چلاگیا وہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے سلطان ایوبی نے سب کو سلام کیا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا سوار اور پیادہ دستے دُور آگے جاکر ٹیلوں کے عقب میں چلے گئے میدان خالی ہوگیا ایک گھوڑا سوار سرپٹ گھوڑا دوڑاتا آیا اس کے ایک ہاتھ میں گھوڑے کی لگام اور دوسرے میں اونٹ کی رسی تھی اونٹ گھوڑے کی رفتار کے ساتھ دوڑتا آرہا تھا
میدان کے وسط میں آکر گھوڑ سوار گھوڑے پر کھڑا ہوگیا اس نے باگیں چھوڑ دیں وہ اُچھل کر اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہوگیا وہاں سے کود کر گھوڑے پر سوار ہوا گھوڑے اور اونٹ کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آیا تھا گھوڑے کی پیٹھ سے وہ اونٹ کی پیٹھ پر چلا گیا اور دُور آگے جاکر غائب ہوگیا
خادم الدین البرق دائیں کو ذرا سا جھکا اُس کے منہ اور لڑکی کے سر کے درمیان دو تین انچ کا فاصلہ رہ گیا تھا لڑکی نے اسے دیکھا البرق مُسکرایا لڑکی شرما گئی بوڑھے نے دونوں کو دیکھا اس کے بوڑھے ماتھے کے شِکن گہرے ہوگئے 
اچانک ٹیلوں کے پیچھے سے ہانڈیوں کی طرح کے مٹی کے وہ برتن جو گھوڑا گاڑیوں پر لدے ہوئے تھے اوپر کو جاتے  آگے آتے اور میدان میں گرتے نظر آئے برتن ٹوٹتے تھے تو تیل اچھل کر بکھر جاتا تھا کم و بیش ایک سو برتن گرے اور اُن سے نکلا ہوا مادہ تقریباٍ ایک سو گز لمبائی اور اسی قدر چوڑائی میں بکھر گیا ایک ٹیلے پر چھ تیر انداز نمودار ہوئے انہوں نے جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر چلائے جو سیال مادے والی جگہ گرگئے فوراً وہ تمام جگہ ایک ایسا شعلہ بن گئی جو گھوڑے کی پیٹھ تک بلند اور کوئی ایک سو گز تک پھیلا ہوا تھا ایک طرف سے چار گھوڑ سوار گھوڑے پوری رفتار سے دوڑتے آئے شعلے کے قریب آکر وہ رُکے نہیں ۔رفتار کم بھی نہ کی چاروں شعلے میں چلے گئے تماشائی دم بخود تھے کہ وہ جل جائیں گے مگر وہ اتنے وسیع شعلے میں دوڑتے نظر آرہے تھے 
آخر وہ چاروں شعلے میں سے نکل گئے تماشائیوں نے داد و تحسین کا وہ شور بلند کیا کہ آسمان پھٹنے لگا دو سواروں کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی 
دونوں بھاگتے گھوڑوں سے ریت پر گرے اور تھوڑی دور لڑھکنیاں کھاتے گئے ۔ان کے کپڑوں کی آگ بجھ گئی
البرق اس شور و غل اور سواروں کے کمالات سے نظریں پھیرے ہوئے لڑکی کو دیکھ رہاتھا لڑکی اس کی طرف دیکھتی اور ذراسا مسکراکر بوڑھے کو دیکھنے لگتی تھی بوڑھا اُٹھ کر جانے کیوں چلاگیا۔ لڑکی اسے جاتا دیکھتی رہی البرق کو معلوم تھاکہ لڑکی بوڑھے کے ساتھ آئی ہے اس نے لڑکی سے پوچھا

تمہارے والد صاحب کہاں چلے گئے ہیں؟
یہ میرا باپ نہیں لڑکی نے جواب دیا میرا خاوند ہے 
خاوند؟
البرق نے حیرت سے پوچھا کیا یہ شادی تمہارے والدین نے کرائی ہے ؟
اس نے مجھے خریدا ہے لڑکی نے اُداس لہجے میں کہا
وہ کہاں گیا ہے ؟
البرق نے پوچھا
ناراض ہو کر چلاگیا ہے 
لڑکی نے جواب دیا
اسے شک ہوگیا ہے کہ میں آپ کو دلچسپی سے دیکھتی ہوں
کیا تم واقعی مجھے دلچسپی سے دیکھتی ہو؟
البرق نے رومانی انداز سے پوچھا
لڑکی کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مُسکراہٹ آگئی دھیمی سی آواز میں بولی میں اس بوڑھے سے تنگ آگئی ہوں
اگر کسی نے مجھے اس سے نجات نہ دلائی تو میں خودکشی کر لوں گی
میدان میں سوار اور پیادہ فوجی حیران کن کرتب دکھا رہے تھے اور حرب و ضرب کے مظاہرے کررہے تھے  تماشائیوں نے جنگی مظاہرے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے انہوں نے صرف سوڈانی فوج دیکھی تھی جو خزانے کے لیے سفید ہاتھی بنی ہوئی تھی اس کے کمان دار بادشاہوں کی طرف باہر نکلتے تھے 
ان کے ساتھ اگر فوج کا دستہ ہوتو وہ دیہات کے لیے مصیبت بن جاتے تھے
مویشی تک کھول کر لے جاتے تھے 
کسی کے پاس اچھی نسل کا اونٹ گھوڑا دیکھتے تو زبردستی لے جاتے تھے
لوگوں کے دِل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ فوج رعایا پر ظلم و تشدد کرنے کے لیے رکھی جاتی ہے ،لیکن سلطان کی فوج بہت مختلف تھی 
ایک تو وہ دستے تھے جو مظاہرے میں شریک تھے 
باقی فوج کو سلطان کی ہدایات کے مطابق تماشائیوں میں پھیلا دیا گیا تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر ان پر یہ تاثر پیدا کریں کہ فوجی ان کے بھائی ہیں اور انہی میں سے ہیں بد تمیزی یا بد اخلاقی کرنے والے فوجی کے لیے بڑی سخت سزا مقرر کی گئی تھی
خادم الدین البرق جو سلطان ایوبی کی جنگی مشاورتی محکمے کا سربراہ اور راز داں تھا
سلطان کی ہدایات اور میلے کے شور و غل سے بالکل ہی لاتعلق ہوگیا تھا
لڑکی ایک جادو بن کر اس کی عقل پر غالب آگئی تھی اس نے لڑکی میں دلچسپی کا اظہار کیا اسے لڑکی نے قبول کرلیا تھا اس سے دونوں کے لیے سہولت پیدا ہوگئی البرق نے کہیں ملنے کو کہا تو لڑکی نے جواب دیا کہ وہ خریدی ہوئی لونڈی ہے اور بوڑھے نے اسے قید میں رکھا ہوا ہے وہ اس پر ہر وقت نظر رکھتا ہے 
لڑکی نے یہ بھی بتایا کہ بوڑھے کے گھر چار بیویاں ہیں  البرق نے اپنے رُتبے کو فراموش کردیا عشق باز نوجوان کی طرح اُس نے ملاقات کی وہ جگہیں بتانی شروع کردیں جہاں آوارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہیں جاتا تھا
 ان جگہوں میں ایک جگہ لڑکی کو پسند آگئی یہ شہر سے باہر قدیم زمانے کا کوئی کھنڈر تھا البرق نے لڑکی سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ اسے بوڑھے سے آزاد کرانے کی کوشش کرے گا
تیسری رات البرق گھر سے نکلا وہ حاکموں کی شان سے گھر سے نکلا کرتا تھا
مگر اس رات وہ چوروں کی طرح باہر نکلا اِدھر اُدھر دیکھا اور ایک طرف چل پڑا قاہرہ پر سکوت طاری تھا فوجی میلہ ختم ہوئے دو دِن گزرگئے تھے 
باہر سے آئے ہوئے تماشائی جاچکے تھے
سرکاری حکم کے تحت عارضی قحبہ خانے اٹھا دئیے گئے تھے علی بن سفیان کا محکمہ اب یہ سراغ لگاتا پھر رہا تھا کہ باہر سے آئی ہوئی کتنی لڑکیاں اور کتنے مشکوک لوگ شہر یا مضافاتی دیہات میں رہ گئے ہیں 
میلے کا مقصد پورا ہوگیا تھا دو ہی دنوں میں چار ہزار جوان فوج میں بھرتی ہوگئے تھے اور مزید بھرتی کی توقع تھی
البرق شہر سے نکل گیا اور اس نے اُس کھنڈر کا رُخ کیا جہاں لڑکی کو آنا تھا صحرائی گیدڑوں کے سوا زمین و آسمان گہری نیند سوگئے تھے لڑکی نے البرق سے کہا تھا کہ وہ بوڑھے کی قیدی ہے اور وہ اُس پر ہر وقت نظر رکھتا ہے پھر بھی البرق اس اُمید پر جارہا تھا کہ لڑکی ضرور آئے گی ممکنہ خطروں سے نمٹنے کے لیے اس کے پاس ایک خنجر تھا عورت ایسا جادو ہے کہ جس پر طاری ہوجائے وہ کسی کی پرواہ نہیں کیا کرتا عقل و دانش اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں 
البرق پختہ عمر کا آدمی تھا مگر وہ نادان نوجوان بن گیا تھا اسے اندھیرے میں کھنڈر کے قریب ایک تاریک سایہ سر سے پاؤں تک لبادے میں لپٹا ہوا نظر آیا اور کھنڈر کے کھڑے سیاہ بھوت میں جذب ہوگیا تو وہ تیز تیز چلتا کھنڈر میں پہنچا گری ہوئی دیوار کے شگاف سے وہ اندر آگیا آگے اندھیرہ کمرہ تھا چھت میں بڑی زور سے کوئی بہت بڑا پرندہ پھڑ پھڑایا البرق نے ہوا کے تیز جھونکے محسوس کیے اور اچانک اس کے منہ پر تھپڑ پڑا اس کے ساتھ ہی اسے ''چی چی'' کی آوازیں سنائی دینے لگیں وہ جان گیا کہ یہ بڑے چمگادڑ ہیں جن کے پنجے اس کا منہ نوچ ڈالیں گے وہ بیٹھ گیا اور پاؤں پر سرکتا کمرے سے نکل گیا کمرہ اڑتے چمگادڑوں سے بھر گیا تھا
آگے صحن تھا جس کے ارد گرد گول برآمدہ تھا البرق نے یہ بھی نہ سوچا کہ ایک خریدی ہوئی قیدی لڑکی جس پر ہر وقت نظر رکھی جاتی ہے اس ہیبت ناک کھنڈر میں کیسے آئے گی مگر برآمدے میں اس کے قدموں کی دبی دبی آہٹ نے اسے بتا دیا کہ یہاں کوئی موجود ہے اس نے کمر سے خنجر نکال کر ہاتھ میں لے لیا اس کے سر پر چمگادڑ اُڑ رہے تھے
پھڑ پھڑانے کی آوازیں ڈراؤنی تھیں البرق نے آہستہ سے پکارا آصفہ!' لڑکی نے اُسے اپنا نام بتا دیا تھا اور میلے میں یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ کس طرح فروخت ہوئی ہے 
آپ آگئے ؟
اسے آصفہ کی آواز سنائی دی وہ برآمدے میں سے دوڑتی آئی اور البرق کے ساتھ چپک گئی کہنے لگی آپ کی خاطر جان کو خطرے میں ڈال کر آئی ہوں 
مجھے جلدی واپس جانا ہے 
بوڑھے کو شراب میں نیند کا سفوف پلا آئی ہوں وہ جاگ نہ اُٹھے 
کیا تم اُسے شراب میں زہر نہیں پلا سکتی ؟
البرق نے پوچھا میں نے کبھی قتل نہیں کیا آصفہ نے کہا میں نے تو کبھی یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ اس طرح کسی غیر مرد سے ملنے اس ڈراؤنے کھنڈر میں آؤں گی البرق نے اسے بازوؤں میں جکڑ لیا اچانک ان کے پیچھے برآمدہ روشن ہوگیا جس کمرے میں سے البرق گزر کر آیا تھا اس میں سے دو مشعلیں نکلیں یہ لکڑیوں کے سروں پر تیل بھیگے ہوئے کپڑے لپیٹ کر بنائی گئی تھیں اُن کے شعلے خاصے بڑے تھے البرق نے آصفہ کو اپنے پیچھے کرلیا اس کے ہاتھ میں خنجر تھا کیا یہ کھنڈر میں رہنے والی بدروحیں تھیں؟ 
یا لڑکی کے تعاقب میں اس کا خاوند آگیا تھا؟
البرق ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک آواز گرجی دونوں کو قتل کردو
مشعلیں قریب آئیں تو اُن کے ناچتے شعلوں میں البرق اور آصفہ کو چار آدمی نظر آئے ایک کے ہاتھ میں برچھی اور تین کے پاس تلواریں تھیں 
انہوں نے مشعلیں زمین میں گاڑ دیں کھنڈر کا صحن روشن ہوگیا چاروں آدمی البرق کے گرد بھوکے بھیڑیوں کی طرح آہستہ آہستہ چکر میں چلنے لگے آصفہ اس کے پیچھے تھی برآمدے میں سے ایک اور آواز آئی مل گئے ؟ زندہ نہ چھوڑنا یہ لڑکی کے بوڑھے خاوند کی آواز تھی آصفہ البرق کے عقب سے آگے آ گئی اس نے حقارت اور غصے سے بوڑھے سے کہا آگے آؤ اور مجھے قتل کردو میں تم پر لعنت بھیجتی ہوں میں اپنی مرضی سے یہاں آئی ہوں 
چاروں مسلح آدمی اِن کے گرد کھڑے تھے 
برچھی والے نے برچھی آہستہ آہستہ آصفہ کی طرف کی اور اس کی نوک اس کے پہلو سے لگا کر کہا مرنے سے پہلے برچھی کی نوک دیکھ لو لیکن تم سے پہلے یہ شخص تڑپ تڑپ کر تمہارے سامنے مرے گا جس کی خاطر تم یہاں آئی ہو
آصفہ نے جھپٹا مار کر برچھی پکڑلی اور جھٹکا دے کر برچھی چھین لی آصفہ البرق سے الگ ہوگئی اور للکار کر کہا آو آگے آؤ میں دیکھتی ہوں کہ تم مجھ سے پہلے اس آدمی کو کس طرح قتل کرتے ہو
البرق خنجر آگے کیے اس کے سامنے آگیا لڑکی نے برچھی سے اس پروار کیا جس سے اس نے برچھی چھینی تھی
وہ آدمی پیچھے کو بھاگا اس کے ساتھیوں نے البرق پر حملہ کرنے کی بجائے صرف پینترے بدلے وہ البرق کو آسانی سے قتل کر سکتے تھے
مگر وہ بڑھ کر حملہ نہیں کررہے تھے 
آصفہ کی للکار گرج رہی تھی وہ بڑھ کر وار کرتی تھی  مگر وار خالی جاتا تھا البرق نے ایک آدمی پر خنجر سے حملہ کیا تو دو آدمی اس کے پیچھے آئے آصفہ ایک ہی جست میں اس کے پیچھے ہوگئی اُس کے ہاتھ میں لمبی برچھی تھی جو تلوار کا مقابلہ کر سکتی تھی خنجر تلوار کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا بوڑھا ایک طرف کھڑا اپنے آدمیوں کو للکار رہا تھا تھوڑی سی دیر انہوں نے البرق اور آصفہ پر حملے کیے آصفہ اُن پر ٹوٹ پڑتی تھی البرق وار بچاتا تھا اور خنجر سے وار کرنے کی کوشش کرتا تھا مگر عجیب امر یہ تھا کہ لڑکی کے حملوں کے باوجود کوئی زخمی نہیں ہوا بوڑھے کے آدمیوں نے بھی تیغ زنی کے جوہر دکھائے مگر البرق اور آصفہ کو خراش تک نہ آئی  اتنے میں بوڑھے نے کہا رُک جاؤ اور لڑائی بند ہوگئی میں ایسی بے وفا لڑکی کو گھر میں نہیں رکھنا چاہتا بوڑھے نے کہا مجھے معلوم نہیں تھاکہ یہ اتنی دلیر اور بہادر ہے
اگر اسے میں زبردستی لے بھی گیا تو یہ مجھے قتل کردے گی

میں تمہیں اس کی پوری قیمت دوں گا البرق نے کہا کہو تم نے اسے کتنے میں خریدا تھا

بوڑھا ہاتھ بڑھا کر آگے بڑھا اور البرق سے ہاتھ ملا کر بولا میرے پاس دولت کی کمی نہیں میں یہ لڑکی تمہیں بخش دیتا ہوں اسے تمہارے ساتھ اتنی محبت ہے کہ تمہاری خاطر اتنے سارے آدمیوں کے مقابلے میں آگئی ہے میں اسے اس لیے بھی تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ یہ جنگجو نسل کی لڑکی ہے میں تاجر اور سودا گر ہوں 
یہ کسی تم جیسے جنگجو کے گھر میں اچھی لگے گی تیسری وجہ یہ ہے کہ تم سلطان صلاح الدین ایوبی کی حکومت کے حاکم ہو میں سلطان کا وفادار اور مرید ہوں میں تمہیں ناراض نہیں کرنا چاہتا جاؤ میں نے اسے طلاق دی اور اسے تم پر حلال کردیا چلو دوستو! انہیں اکیلا چھوڑ دو وہ مشعلیں اُٹھا کر چلے گئے 
البرق کی حیرت کی انتہا یہ تھی کہ اس کے پاؤں تلے زمین ہلنے لگی اسے یقین نہیں آرہا تھا ۔وہ اسے بوڑھے کا فریب سمجھ رہا تھا
اسے یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ یہ لوگ راستے میں گھات لگاکر ان دونوں کو قتل کریں گے آصفہ کے ہاتھ میں برچھی تھی وہ البرق نے لے لی اور کچھ دیر بعد کھنڈر سے نکلے  وہ دائیں بائیں اور پیچھے دیکھتے تیز تیز چلنے لگے ذرا سی آہٹ سنائی دیتی تو وہ چونک کر رُک جاتے ہر طرف اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرتے اور آہستہ آہستہ چل پڑتے شہر میں داخل ہوئے تو ان کی جان میں جان آئی آصفہ نے رک کر بازو البرق کے گلے میں ڈال دئیے اور پوچھا آپ کو مجھ پر اعتماد ہے یا نہیں ؟
البرق نے اسے سینے سے لگا لیا اس پر جذبات کا اتنا غلبہ تھا کہ کچھ بول نہ سکا لڑکی نے اسے بے دام خرید لیا تھا
اسے یہ تو اب پتہ چلا تھا کہ لڑکی اسے کیسی دیوانگی سے چاہتی ہے اور کتنی بہادر ہے دراصل وہ لڑکی کے حسن پر مر مٹا تھا
اُس کی بیوی اس کی ہم عمر تھی آصفہ کو دیکھ کر اس نے محسوس کیا کہ وہ بیوی اس کے کام کی نہیں رہی
اُس دور میں جب عورت فروخت ہوتی تھی گھر میں بیوی کی کوئی حیثیت نہیں تھی بیک وقت چار بیویاں تو خاوند اپنا حق سمجھتا تھا لیکن جو پیسے والے تھے وہ دو دو چار خوب صورت لڑکیاں بغیر نکاح کے رکھ لیتے تھے مسلمان اُمراء کو عورت نے ہی تباہ کیا تھا
ان کے ہاں یہ بھی رواج تھا کہ ایک آدمی کی بیویاں خاوند کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خوب صورت لڑکیاں خاوند کو بطور تحفہ پیش کرتی تھیں
البرقی جب آصفہ کو ساتھ لیے گھر میں داخل ہوا تو سب سوئے ہوئے تھے صبح اس کی بیوی نے اپنے خاوند کے پلنگ پر اتنی حسین لڑکی دیکھی تو اسے ذرہ بھر محسوس نہ ہوا کہ اس کا سہاگ اُجڑ گیا ہے 
بلکہ وہ خوش ہوئی کہ اس کے اتنے اچھے خاوند کو اتنی خوب صورت لڑکی مل گئی ہے 
اسکے آجانے سے وہ کچھ فرائض سے سبکدوش ہوئی تھی 
البرق کی حیثیت ایسی تھی کہ وہ ایسی ایک اور بیوی یا داشتہ رکھ سکتا تھا
صلاح الدین ایوبی مسلمانوں کو عورت سے اور عورت کو مسلمانوں سے آزاد کرنا چاہتا تھا
وہ ایک خاوند ایک بیوی کا حکم نافذ کرنا چاہتا تھا 
مگر ابھی وہ ہر اُس امیر اور وزیر کو دشمن بنانے سے ڈرتا تھا جس نے کئی کئی لڑکیوں کو گھروں میں رکھا ہوا تھا
عورت کے خریدار یہی لوگ تھے انہی کی دولت سے عورت کھلی منڈی میں نیلام ہوتی تھی اغوا کی وارداتیں ہوتی تھیں قتل اور خون خرابے ہوتے تھے اور اُمراء اور حاکموں کی زن پرستی کا ہی نتیجہ تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے لڑکیوں کی وساطت سے سلطنتِ اسلامیہ کی جڑوں میں زہر بھردیا تھا
اس کے علاوہ سلطان ایوبی کو یہ احساس بھی پریشان کیے رکھتا تھا کہ یہی عورت مردوں کے دوش بدوش کفار کے خلاف لڑا کرتی تھی مگر اب یہ عورت جہاد میں مرد کے لیے آدھی قوت تھی مرد کی تفریح اور عیاشی کا ذریعہ بن گئی ہے اس سے صرف یہ نہیں ہوا کہ قوم کی آدھی جنگی قوت ختم ہوگئی ہے 
بلکہ عورت ایک ایسا نشہ بن گئی ہے جس نے قوم کی مرادنگی کو بیکار کردیا ہے
سلطان ایوبی عورت کی عظمت بحال کرنا چاہتا تھا 
اُس نے ایک منصوبہ تیار کر رکھا تھا جس کے تحت وہ غیر شادی شدہ لڑکیوں کو باقاعدہ فوج میں بھرتی کرنا چاہتا تھا
اسی کے تحت حرم بھی خالی کرنے تھے مگر ایسے احکام وہ اسی صورت میں نافذ کرسکتا تھا کہ سلطنت کی خلافت یا امارت اس کے ہاتھ آجائے یہ مہم بڑی دشوار تھی اس کے دشمنوں میں اپنوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ جانتا تھا کہ قوم میں ایمان فروشوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے 
اسے یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ اس کا ایک معتمد خاص اور حکومت کے رازوں کا رکھوالا ،خادم الدین البرق بھی ایک نوجوان حسینہ کو گھر لے آیا ہے اور یہ لڑکی اس کے اعصاب پر ایسی بُری طرح چھا گئی ہے کہ وہ اب فرائض سلطنت سے بے پرواہ ہوسکتا ہے
فوجی میلے میں مصر کے لوگ سلطان ایوبی کی فوجی طاقت سے مرعوت نہیں ہوئے بلکہ اسے اسلامی اور مصری فوج سمجھ کر اس سے متاثر ہوئے تھے سلطان ایوبی تقریریں کرنے والا حاکم نہیں تھا
لیکن اس دن اتنے بڑے اجتماع سے اس نے خطاب کرنا ضروری سمجھا اس نے کہا کہ یہ فوج قوم کی عصمت کی محافظ اور اسلام کی پاسبان ہے اس نے صلیبیوں کے عزائم تفصیل سے بیان کیے اور مصریوں کو بتایا کہ عرب میں مسلمان اُمراء اور حاکموں کی تعیش پرستی کی وجہ سے صلیبیوں نے وہاں مسلمان کا جینا حرام کررکھا ہے وہ قافلوں کو لوٹ لیتے ہیں مسلمان لڑکیوں کو اغوا کرکے بے آبرو کرتے ،پھر انہیں بیچ ڈالتے ہیں
سلطان ایوبی نے لوگوں کو قومی جذبے سے آگاہ کرکے انہیں کہا کہ وہ فوج میں بھرتی ہوکر اپنی بیٹیوں کی عصمت اور اسلام کی عظمت کی پاسبانی کریں۔ سلطان کی تقریر میں جوش تھا اور ایسا تاثر کہ تماشائیوں کے دلوں میں ہلچل مچ گئی اور اسی روز جوان آدمی فوج میں بھرتی ہونے لگے
دس روز تک بھرتی ہونے والوں کی تعداد چھ ہزار ہوگئی اس میں کم و بیش ڈیڑھ ہزار جوان اپنے اونٹ ساتھ لائے اور ایک ہزار کے قریب گھوڑوں اور خچروں سمیت آئے سلطان نے انہیں جانوروں کا معاوضہ فوری طور پر ادا کردیا اور فوج نے ان کی ٹریننگ شروع کردی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی