🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *47* ۔۔۔۔
اس قسم کے راستے کا علم صرف رومیوں کو تھا۔سقلار نے اپنے لشکر سے کچھ دستے الگ کیے اورانہیں ایک جگہ اکٹھا کیا۔’’عظمتِ روم کے پاسبانو!‘‘ اس نے اپنے لشکرسے کہا۔’’آج تمہارا دشمن پھندے میں آگیا ہے۔مسلمان دلدل میں سے نہیں گزر سکے۔انہوں نے دلدل سے پرے فحل کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیا ہے۔ہم اسی دلدل میں سے جس میں سے مسلمان نہیں گزر سکے انہیں گزر کر دکھائیں گے۔وہ سمجھتے ہوں گے کہ ان کے آگے دلدل ہے جو انہیں ہم سے محفوظ رکھے گی ہم رات کو حملہ کریں گے۔ اس وقت وہ اپنے پڑاؤ میں گہری نیند سوئے ہوئے ہوں گے……‘‘’’اے رومیو!یہ رات کی لڑائی ہو گی جو آسان نہیں ہوتی لیکن آج تمہیں اپنے ان ساتھیوں کے خون کا بدلہ لینا ہے جو اب تک مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، تمہیں اپنا شکار سویا ہوا ملے گا۔کوئی ایک بھی زندہ نہ نکل کر جائے۔ان کے گھوڑے ان کے ہتھیار اور ان کے پاس ہمارا لوٹا ہوا جومال ہے یہ سب تمہارا ہے۔اگر تم ان سب کو ختم کر دو گے تو سمجھو تم نے اسلام کو ختم کر دیا اور یہی ہمارا مقصدہے۔شہنشاہ ہرقل کا یہ وہم دور کر دو کہ ہم مسلمانوں کو شکست دے ہی نہیں سکتے۔‘‘رومی سپاہی یہ سن کر کہ وہ اپنے دشمن کو بے خبری میں جالیں گے، جوش سے پھٹنے لگے۔ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو پہلی لڑائیوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے تھے کئی بھاگے بھی تھے۔وہ دانت پیس رہے تھے۔وہ انتقام کی آگ میں جل رہے تھے اور وہ مسلمانوں کو اپنی تلواروں سے کٹتا اور برچھیوں سے چھلنی ہوتا دیکھ رہے تھے۔۲۳جنوری ۶۳۵ء بمطابق ۲۷ ذیعقد ۱۳ھ کا سورج غروب ہوگیا تورومیوں کے سالار سقلار نے اپنی فوج کو تیاری کا حکم دیا۔شام بڑی تیزی سے تاریک ہوتی گئی۔سقلار نے پیش قدمی کا حکم دے دیا۔اسے دلدل میں سے گزرنے کا راستہ معلوم تھا۔اپنے دستوں کو اس نے اس راستے میں سے گزارا۔جب تمام دستے گزر آئے تو سقلار نے انہیں اس ترتیب میں کر لیا جس ترتیب میں حملہ کرنا تھا۔یہ حملہ نہیں شبخون تھا اور یہ یک طرفہ کارروائی تھی۔اس ترتیب میں سقلار نے اپنے دستوں کو فحل کی طرف پیش قدمی کاحکم دیا۔وہ خود سب سے آگے تھا۔اس نے پیش قدمی کی رفتارتیز رکھی تاکہ مسلمانوں کو ان کے آنے کی خبر ہوبھی جائے تو انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی جائے۔رومی اس جگہ پہنچ گئے جہاں مسلمانوں کا پڑاؤ تھا لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا، سقلارجاسوسوں کو کوسنے لگا جنہوں نے اسے بتایا تھا کہ پڑاؤ فلاں جگہ ہے۔اسے اﷲاکبر کے نعرے کی گرج سنائی دی۔اس کے ساتھ ہی مشعلیں جل اٹھیں۔سقلار نے دیکھا کہ مسلمان نہ صرف بیدار ہیں بلکہ لڑنے کی ترتیب میں کھڑے ہیں۔سالار شرجیلؓ محتاط سالا رتھے۔انہیں یہاں آکر جب معلوم ہوا تھا کہ یہ دلدل کہاں سے آگئی ہے تو انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ رومیوں نے ان کا صرف راستہ ہی نہیں روکا بلکہ وہ کچھ اور بھی کریں گے۔رومی یہی کر سکتے تھے کہ حملہ کردیں۔چنانچہ شرجیلؓ نے شام کے بعد اپنی فوج کو سونے کے بجائے لڑائی کیلئے تیار کرا لیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے اپنے جاسوس دلدل کے اردگرد پھیلا دیئے تھے۔رومی جب دلدل میں سے گزر رہے تھے، ایک جاسوس نے شرجیلؓکو اطلاع دے دی کہ دشمن آرہا ہے۔شرجیلؓ نے اپنے دستوں کو ایک موزوں جگہ جو انہوں نے دیکھ لی تھی، جنگی ترتیب میں کھڑا کر دیا۔’’مدینہ والو!‘‘ سقلار نے بلند آواز سے مسلمانوں کو للکارا۔’’آگے آؤ۔ اپنا اور اپنی فوج کا انجام دیکھو۔‘‘’’حملہ کرنے تم آئے ہو۔‘‘شرجیلؓ نے للکار کا جواب للکار سے دیا۔’’آگے تم آؤ۔ تم اس دلدل سے نکل آئے ہو، اب ہماری دلدل سے نکل کر دیکھو……رومیو! کل صبح کا سورج نہیں دیکھ سکو گے۔‘‘للکار کا تبادلہ ہوتا رہا۔آخر سقلار نے اپنے ایک دستے کو حملے کاحکم دے د یا۔اس نے یہ چال چلی تھی کہ اس کا دستہ حملہ کرکے پیچھے ہٹ آئے گا تو مسلمان بھی اس کے ساتھ الجھے ہوئے آگے آجائیں گے۔ لیکن شرجیلؓ نے پہلے ہی حکم دے رکھا تھا کہ دفاعی لڑائی لڑنی ہے۔اس کے مطابق مسلمان جہاں تھے وہیں رہے۔رومی موجوں کی صورت میں ان پر حملہ کرتے تھے اور مسلمان حملہ روکتے تھے۔اپنی ترتیب نہیں توڑتے تھے۔سالار شرجیلؓ رات کے وقت چال چلنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ان کی نفری رومیوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔اسے وہ کارگر انداز سے دن کی روشنی میں ہی استعمال کر سکتے تھے۔سقلار غالباً اس دھوکے میں آگیا تھا کہ مسلمانوں میں لڑنے کی تاب نہیں رہی۔اس خیال سے اس نے موج در موج حملوں میں اضافہ کر دیا۔لیکن مسلمانوں نے اپنی صفوں کوٹوٹنے نہ دیا۔وہ آگے بڑھ کر حملہ روکتے پھر اپنی جگہ پرآجاتے۔رومی ہر حملے میں اپنے زخمی چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتے۔ایک حملے کی قیادت سقلار نے خود کی۔وہ اپنے دستے کو للکارتا ہوا بڑی تیزی سے آگے گیا۔مشعلوں کی روشنی میں مسلمانوں نے رومیوں کا پرچم دیکھ لیا۔چند ایک مجاہدین رومیوں میں گھس گئے اور سقلار کو گھیر لیا۔اس کے محافظوں نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔محافظ بے جگری سے لڑے،اور اس دوران سقلار نکلنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ اپنے محافظوں کے حصار سے جہاں بھی نکلتا مسلمان اسے روک لیتے تھے۔ ایک مجاہد اس معرکے سے نکل گیا اور اس نے سالار شرجیلؓ کو بتایا کہ اب کے رومیوں کو اتنی جلدی پیچھے نہ جانے دینا کیونکہ کچھ مجاہدین نے رومیوں کے سالار کو نرغے میں لے رکھا ہے۔شرجیلؓ نے اس اطلاع پر اپنے چند ایک منتخب جانباز رومیوں کے قلب میں گھس جانے کیلئے بھیج دیئے۔تھوڑی ہی دیر بعد مجاہدین کے نعرے سنائی دینے لگے۔’’خدا کی قسم!ہم نے رومی سالار کو مار ڈالا ہے۔‘‘’’رومیو اپنا پرچم اٹھاؤ۔‘‘’’اپنے سالار کی لاش لے جاؤ رومیو!‘‘رومیوں نے دیکھا ان کا پرچم انہیں نظر نہیں آرہا تھا اور انہیں اپنے سالار کی للکار بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ان میں بددلی پھیلنے لگی، لیکن کسی نائب سالار نے پرچم اٹھا لیااور لڑائی جاری رکھی۔
سورج طلوع ہوا، لیکن میدانِ جنگ کی گرد و غبار میں اسے کوئی دیکھ ہی نہ سکا۔مسلمان بھی شہید ہوئے تھے لیکن رومیوں کی اموات زیادہ تھیں۔ میدان میں ان کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور ان کے زخمی جو اٹھنے کے قابل نہیں تھے رینگ رینگ کر گھوڑوں تلے کچلے جانے سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میدان رومیوں کے خون سے لال ہو گیا تھا۔’’اسلام کے علمبردارو!‘‘ سالار شرجیلؓ کی للکار اٹھی۔’’تم نے رومیوں کو انہی کے خون میں نہلا دیاہے۔تم نے ساری رات ان کے حملے روکے ہیں، اب ہماری باری ہے۔‘‘’’اﷲ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند ہوا۔ شرجیلؓ نے اپنے دائیں پہلو کے ایک دستے کو آگے بڑھایا۔ رومی حملہ روکنے کیلئے تیار تھے لیکن رات وہ حملے کرتے اور پیچھے ہٹتے رہے تھے ان کے جسم تھکن سے چور ہو چکے تھے۔ شرجیلؓ نے اپنی فوج کی جسمانی طاقت کو ضائع نہیں ہونے دیا تھا اسی لیے وہ دفاعی لڑائی لڑاتے رہے تھے۔شرجیلؓ کے دائیں پہلو کے ایک دستے نے باہر کی طرف ہو کرحملہ کیا اس سے رومیوں کے اس طرف کا پہلو پھیلنے پر مجبور ہو گیا۔شرجیلؓ نے فوراً ہی رومیوں کے دوسرے پہلو پر بھی ایسا ہی حملہ کرایا اور اس پہلو کو بھی قلب سے الگ کردیا۔رومیوں کے پہلو دور دور ہٹ گئے تو شرجیلؓ نے قلب کے دستوں کو اپنی قیادت میں بڑے شدید حملے کیلئے آگے بڑھایا۔رومی رات کے تھکے ہوئے تھے، اور ان کا سالار بھی مارا گیا تھا۔صاف نظر آرہا تھا کہ ان میں لڑنے کا جذبہ ماند پڑ چکا ہے۔مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستے دشمن کے پہلوؤں کو اور زیادہ پھیلاتے چلے گئے وہ اب اپنے قلب کے دستوں کی مدد کو نہیں آسکتے تھے۔مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستوں کے سالار معمولی سالار نہیں تھے،وہ تاریخ ساز سالار ابو عبیدہؓ اور عمروؓ بن العاص تھے،اور قلب کے چندایک دستوں کے سالار خالدؓتھے۔رومیوں کے لیے خالدؓ دہشت کادوسرا نام بن گیا تھا۔گھوڑ سوار دستوں کے سالار ضرار بن الازور تھے جو سلطنت روم کی فوج میں اس لئے مشہور ہو گئے تھے کہ وہ میدان میں آکر خود اور قمیض اتار کر کمر سے برہنہ ہو جاتے تھے،اورلڑتے تھے۔انفرادی معرکہ ہوتا یا وہ دستے کی کمان کر رہے ہوتے وہ اس قدر تیزی سے پینترا بدلتے تھے کہ دشمن دیکھتا رہ جاتا تھااور ان کی برچھی میں پرویا جاتا تھایا تلوار سے کٹ جاتا تھا۔مسلمانوں کی نفری بہت کم تھی۔ اس کمی کو ان سالاروں نے ذاتی شجاعت، جارحانہ قیادت اور عسکری فہم و فراست سے پورا کیااور سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی جب رومی نفری افراط کے باوجود منہ موڑنے لگی۔رومیوں میں یہ خوبی تھی کہ وہ تتر بتر ہو کر بھاگا نہیں کرتے تھے۔ان کی پسپائی منظم ہوتی تھی۔لیکن فحل کے معرکے سے وہ بے طرح بھاگنے لگے۔ان کی مرکزی قیادت ختم ہو چکی تھی اور ان کا جانی نقصان اتنا ہوا تھا کہ نہ صرف یہ کہ ان کی نفری کم ہو گئی تھی بلکہ اتنا زیادہ خون دیکھ کر ان پر خوف طاری ہو گیا تھا۔
ان کی ایسی بے ترتیب پسپائی کی وجہ اور بھی تھی۔ان کا سالار سقلار انہیں دلدل میں سے نکال لایا تھا اسے معلوم تھاکہ کہاں سے زمین سخت ہے جہاں پاؤں کیچڑ میں نہیں دھنسیں گے مگر اب ان کے ساتھ وہ سالار نہیں تھا۔اس کی لاش میدانِ جنگ میں پڑی تھی۔سپاہیوں نے اس لئے بھاگنا شروع کر دیا کہ وہ جلدی جلدی دلدل میں وہ راستہ دیکھ کر نکل جائیں۔سالار شرجیلؓ نے دشمن کو یوں بھاگتے ہوئے دیکھا تو انہیں دلدل کا خیال آگیا۔انہوں نے دشمن کے تعاقب کا حکم دے دیا۔مسلمان پیادے اور سوار نعرے لگاتے ان کے پیچھے گئے، تو رومی اور تیز دوڑے لیکن دلدل نے ان کا راستہ روک لیا۔ہڑ بونگ اور افراتفری میں انہیں یاد ہی نہ رہا کہ دلدل میں سے وہ کہاں سے گزر آئے تھے۔ان کے پیچھے بھی موت تھی اور آگے بھی موت تھی وہ دلدل میں داخل ہو گئے اور اس میں دھنسنے لگے۔مسلمان بھی دلدل میں چلے گئے اور انہیں بری طرح کاٹا۔جو رومی دلد ل میں اور آگے چلے گئے تھے انہیں تیروں کا نشانہ بنایا گیا۔دریاکا پانی چھوڑ کر رومیوں نے جو دلدل پیدا کی تھی کہ مسلمان آگے نہ بڑھ سکیں وہ دلدل رومیوں کیلئے ہی موت کا پھندا بن گئی تھی۔فحل میں لڑے جانے والے اس معرکے کو ذات الروغہ یعنی کیچڑکی لڑائی کہا جاتا ہے۔اس میں سے بہت تھوڑے سے رومی بچ سکے تھے وہ بیسان چلے گئے تھے۔اس معرکے میں دس ہزار رومی مارے گئے تھے،اور جو زخمی ہو کر میدانِ جنگ میں رہ گئے تھے ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی۔سالار شرجیلؓ نے وہاں زیادہ رکنامناسب نہ سمجھا۔وہ دشمن کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہنا چاہتے تھے۔تاکہ دشمن پھر سے منظم نہ ہو سکے۔انہوں نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کوچند ایک دستوں کے ساتھ فحل میں رہنے دیااور خود باقی ماندہ فوج کے ساتھ آگے بڑھے۔ لیکن دلدل نے پھر ان کا راستہ روک لیا۔انہوں نے دو تین زخمی رومیوں سے پوچھا کہ دلدل سے پار جانے کا راستہ کون سا ہے؟رومی زخمیوں نے انہیں ایک اور راستہ بتا دیا یہ بڑا ہی دور کا راستہ تھا۔لیکن دلدل سے گزرنے میں بھی اتنا ہی وقت لگتا تھا جتنا دوسرا راستہ اختیار کرنے میں۔شرجیلؓ نے ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو ان دستوں کے ساتھ فحل میں چھوڑ دیا، اور دلدل سے دور ہٹ کراس راستے سے گزر گئے جو رومی زخمیوں نے انہیں بتایا تھا۔انہیں دریائے اردن بھی عبور کرنا پڑا انہوں نے آگے بڑھ کر بیسان کا محاصرہ کرلیا۔بیسان میں رومیوں کی خاصی نفری تھی۔ ہرقل نے نفری کے بل بوتے پر مسلمانوں کو فیصلہ کن بلکہ تباہ کن شکست دینے کا انتظام کیا تھا۔ اس کے منصوبے کی پہلی ہی کڑی ناکام ہو گئی تھی فحل کے معرکے سے بھاگے ہوئے رومی چند ایک ہی خوش قسمت تھے جو دلدل میں سے نکل گئے تھے۔ان کی پناہ بیسان ہی تھی۔
بیسان کا رومی سالار اس خبر کے انتظار میں تھا کہ اس کے ساتھی سالار سقلار نے مسلمانوں کو بے خبری میں جا لیا ہے اور مسلمانوں کا خطرہ ہمیشہ کیلئے ٹل گیا ہے لیکن چوتھی شام بیسان میں پہلے رومی زخمی داخل ہوئے۔ زخمی ہونے کے علاوہ ان کی ذہنی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔تھکن اور خوف سے ان کی آنکھیں باہر کو آرہی تھیں ان کے ہونٹ کھلے ہوئے تھے اور وہ پاؤں پر کھڑے رہنے کے قابل بھی نہیں تھے۔بیسان میں داخل ہوتے ہی انہیں بیسان کے فوجیوں نے گھیر لیا اور پوچھنے لگے کہ آگے کیا ہوا ہے؟’’کاٹ دیا!‘‘ ایک سپاہی نے خوف اور تھکن سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’سب کو کاٹ دیا۔‘‘’’مسلمانوں کو کاٹ دیا؟‘‘ان سے پوچھا گیا۔’’نہیں! ‘‘سپاہی نے جواب دیا۔’’انہوں نے کاٹ دیا۔کیچڑ نے مروادیا۔‘‘اس کے ساتھ کچھ اور سپاہی بھی تھے۔ان کی جسمانی اور ذہنی حالت بھی اسی سپاہی جیسی تھی انہوں نے بھی ایسی ہی باتیں سنائیں جن میں مایوسی اور دہشت تھی۔ ان کی یہ باتیں اس رومی فوج میں پھیل گئیں جو بیسان میں مقیم تھی۔اس فوج میں ایسے سپاہی بھی تھے جو کسی نہ کسی معرکے میں مسلمانوں سے لڑ چکے تھے انہوں نے فحل سے آئے ہوئے سپاہیوں کی باتوں میں رنگ آمیزی کی۔اس کااثر رومیوں پر بہت برا پڑا۔’’میں کہتا ہوں وہ انسان ہیں ہی نہیں۔‘‘ایک سپاہی نے مسلمانوں کے متعلق کہا۔’’ہماری فوج جہاں جاتی ہے مسلمان جیسے وہاں اڑ کر پہنچ جاتے ہیں۔‘‘’’ان کی تعداد ہم سے بہت کم ہوتی ہے۔‘‘ایک اور سپاہی نے کہا۔’’لیکن لڑائی شروع ہوتی ہے تو ان کی تعداد ہم سے زیادہ نظر آنے لگتی ہے۔‘‘دہشت کے مارے ہوئے ان زخمی سپاہیوں کی باتیں جوہوا کی طرح بیسان کے کونوں کھدروں تک پہنچ گئی تھیں جلد ہی سچ ثابت ہو گئیں۔ایک شور اٹھا۔’’ مسلمان آگئے ہیں۔مسلمانوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا ہے۔‘‘اور اس کے ساتھ ہی بیسان کے اندر ہڑبونگ مچ گئی۔ان لوگوں میں سے کوئی بھی قلعے سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔دروازے بند ہو چکے تھے ۔ وہ اب اندر ہی چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔درہم و دینار اور سونا وغیرہ گھروں کے فرشوں میں دبانے لگے۔
رومی فوج قلعے کی دیواروں پر اور بُرجوں میں جا کھڑی ہوئی۔’’رومیو!‘‘سالار شرجیلؓ نے للکار کر کہا۔’’خون خرابے کے بغیر قلعہ ہمارے حوالے کر دو۔‘‘اس کے جواب میں اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آئیں لیکن مسلمان ان کی زد سے دور تھے۔’’رومیو!‘‘سالار شرجیلؓ نے ایک بار پھر اعلان کیا۔’’ہتھیار ڈال دو۔جزیہ قبول کرلو۔نہیں کرو گے تو بیسان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔تم سب مردہ ہو گے یا ہمارے قیدی۔ ہم کسی کو بخشیں گے نہیں۔‘‘رومی فوج میں تو مسلمانوں کی دہشت اپنا کام کر رہی تھی لیکن اس فوج کے سالار اور دیگر عہدیدار جنگجو تھے۔اپنی عسکری روایات سے اتنی جلدی دستبردار ہونے والے نہیں تھے۔انہوں نے نہ ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی نہ جزیہ کی ادائیگی قبول کی۔مسلمان ایک رات اور ایک دن مسلسل لڑے تھے، پھر انہوں نے بھاگتے رومیوں کا تعاقب کیا، پھر بیسان تک آئے تھے۔انہیں آرام کی ضرورت تھی۔شرجیلؓ نے انہیں آرام دینے کیلئے فوری طور پر قلعے پر دھاوا نہ بولا۔البتہ خود قلعے کے اردگرد گھوڑے پر گھوم پھر کر دیکھتے رہے کہ دیوار کہیں سے کمزور ہے یا نہیں یا کہیں سے سرنگ لگائی جا سکتی ہے؟سات آٹھ روز گزر گئے۔رومی اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ مسلمان قلعے پر ہلہ بولنے کی ہمت نہیں رکھتے۔لیکن رومی سالار یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ اس کی اپنی فوج کی ہمت ماند پڑی ہوئی ہے۔اس نے اپنی فوج کے جذبے کو بیدار کرنے کیلئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کر دے اور قلعے کی لڑائی کا فیصلہ قلعے سے باہر ہی ہو جائے۔اگلے ہی روز قلعے کے تمام دروازے کھل گئے اور ہر دروازے سے رومی فوج رکے ہوئے سیلاب کی طرح نکلی۔اس میں زیادہ تر سوار دستے تھے،انہوں نے طوفان کی مانند مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ مسلمانوں کیلئے یہ صورتِ حال غیر متوقع تھی۔ان کی نفری بھی دشمن کے مقابلے میں کم تھی۔پہلے تو ایسے لگتا تھا جیسے رومی مسلمانوں پر چھا گئے ہیں اور مسلمان سنبھل نہیں سکیں گے لیکن سالار شرجیلؓ عام سی قسم کے سالار نہیں تھے۔انہوں نے دماغ کو حاضر رکھا اور قاصدوں کو دوڑا دوڑا کر اور خود بھی دوڑ دوڑ کر اپنے دستوں کو پیچھے ہٹنے کو کہا۔مسلمانوں نے اس حکم پر فوری عمل کیا، اور پیچھے ہٹنے لگے،اس کے ساتھ ہی شرجیلؓ نے بہت سے مجاہدین کو قلعے کے دروازوں کے قریب بھیج دیا۔ان میں زیادہ تر تیر انداز تھے۔ان کیلئے یہ حکم تھا کہ رومی واپس دروازوں کی طرف آئیں تو ان پر اتنی تزی سے تیر پھینکے جائیں کہ وہ دروازوں سے دور رہیں۔شرجیلؓ اور ان کے کمانداروں نے اپنے دستوں کو محاصرے کی ترتیب سے میدان کی لڑائی کی ترتیب میں کرلیا۔وہ اتنا پیچھے ہٹ آئے تھے کہ رومی قلعے سے دور آگئے۔اب شرجیلؓ نے اپنے انداز سے جوابی حملہ کیا۔رومی اپنے حملے میں اتنے مگن تھے کہ وہ بکھرے رہے۔مسلمانوں نے حملہ کیا تو رومی بے ترتیبی کی وجہ سے حملے کا مقابلہ نہ کر سکے۔وہ قلعے کی طرف دوڑے تو اُدھر سے مسلمانوں کے تیروں نے انہیں گرانا شروع کر دیا۔مسلمانوں کی تیر اندازی بہت ہی تیز اور مہلک تھی۔رومیوں کا لڑنے کا جذبہ پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا، اب جذبہ بالکل ہی ختم ہو گیا،رومیوں کا جانی نقصان اتنا زیادہ تھا جسے وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔آخر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور شرجیلؓ کی شرطیں ماننے پر آمادگی ظاہر کر دی۔انہوں نے جزیہ اور کچھ محصولات کی ادائیگی کرنے کی شرط بھی قبول کر لی،اور قلعہ مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔فروری ۶۵۳ء (ذی الحج ۱۳ھ)کے آخری ہفتے میں بیسان مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔اس وقت ابو عبیدہ ؓاور خالدؓ فحل کے شمالی علاقے میں پیشقدمی کر رہے تھے۔
انطاکیہ کے بڑے گرجے کا گھنٹہ بج رہا تھا۔یہ بہت بڑا گھنٹہ تھا۔اس کی آواز سارے شہر میں سنائی دیتی تھی۔نور کے تڑکے کی خاموشی میں اس کی ’’ڈن ڈناڈن‘‘ اور زیادہ اونچی سنائی دے رہی تھی۔یہ ۶۳۵ء (۱۴ھ) کے مارچ کا مہینہ تھا۔گرجے کا گھنٹہ تو بجا ہی کرتا تھااور لوگ اس کی آواز میں تقدس محسوس کرتے تھے۔ان پر ایسا اثر طاری ہو جاتا تھا جو ان کی روحوں کو سرشار کر دیا کرتا تھا۔مگر مارچ ۶۳۵ء کی ایک صبح اس گھنٹے کی مترنم آواز میں کچھ اور ہی تاثر تھا۔اس تاثر میں مایوسی بھی تھی اور خوف بھی۔اس گھنٹے کی آوازیں شہنشاہ ہرقل کے محل میں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ہرقل سونے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ تو جاگنے کا وقت تھا لیکن وہ ساری رات نہیں سویا تھا۔محاذ کی خبریں اسے سونے نہیں دیتی تھیں،اس نے مسلمانوں کی پیش قدمی کو روکنے اور انہیں ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے جو منصوبے بنائے تھے وہ بیکار ثابت ہو رہے تھے۔مسلمان بڑھے چلے آرہے تھے،ہرقل راتوں کو جاگتا اور نئے سے نئے منصوبے بناتا تھا۔ لیکن اس کا ہر ارادہ اور ہر منصوبہ مسلمانوں کے گھوڑوں کے سموں تلے رونداجاتا تھا۔ایک نہایت حسین اور جوان عورت اس کے کمرے میں آئی، وہ اس کی نئی بیوی زاران تھی۔’’شہنشاہ آج رات بھی نہیں سوئے۔‘‘زاران نے کہا۔’’کیوں نہیں آپ ان سالار اور سپاہیوں کو سب کے سامنے تہہ تیغ کردیتے جو شکست کھا کر واپس آتے ہیں؟وہ اپنی جانیں بچا کربھاگ آتے ہیں اور دوسرے سپاہیوں میں بددلی پھیلاتے ہیں۔‘‘شہنشاہِ ہرقل پلنگ پر لیٹا ہوا تھا، زاران اس کے پاس بیٹھ گئی۔ہرقل اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔’’زاران!‘‘ اس نے رُک کر کہا۔’’وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں، تم کہتی ہو کہ بچ کہ آنے والوں کو میں قتل کردوں۔میں ان کا خدا نہیں۔یہی ہیں جنہوں نے فارسیوں کو میرے قدموں میں بٹھادیا تھا۔فارسی ایسے کمزور تو نہیں تھے،ہماری ٹکرکی قوم ہے۔مسلمانوں نے انہیں بھی ہر میدان میں شکست دی ہے۔اب وہ ہمیں بھی شکست دیتے چلے آرہے ہیں۔میں مسلمانوں کی قدر کرتا ہوں۔اگر ہمارے سالاروں نے ہتھیار ڈالے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کمزور ہیں۔بلکہ مسلمان زیادہ طاقتور ہیں۔ان کے سالاروں میں عقل زیادہ ہے۔‘‘’’تو کیا شہنشاہ مایوس ہو گئے ہیں؟‘‘زاران نے پوچھا۔’’نہیں!‘‘¬ہرقل نے کہا۔’’یہ مایوسی نہیں۔ایک جنگجو ایک جنگجو کی تعریف کر رہا ہے۔مسلمان اوچھے دشمن نہیں۔اگر وہ مجھ سے ہتھیار ڈلوالیں گے تو تم میرے پاس ہی رہو گی۔وہ تمہیں مجھ سے نہیں چھینیں گے۔‘‘زاران اس کا دل بہلانے آئی تھی۔اس کے کچھے تنے اعصاب کو سہلانے آئی تھی۔وہ ہرقل کی چہیتی بیوی تھی۔وہ ہرقل کو بہلانا جانتی تھی۔ لیکن ہرقل نے اسے زیادہ توجہ نہ دی۔گرجے کا گھنٹہ بج رہاتھا۔’’لوگ گرجے کو جا رہے ہیں۔‘‘زاران نے کہا۔’’سب آپ کی فتح کیلئے دعائیں کریں گے۔‘‘ہرقل نے زاران کو کنکھیوں دیکھاجیسے اس عورت نے اس پر طنز کیا ہو۔ہرقل نے زاران کی بات کوبھونڈا سا مذاق سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔’’صرف دعائیں شکست کو فتح میں نہیں بدل سکتیں زاران!‘‘ ہرقل نے کہا۔’’جاؤ! مجھے کچھ سوچنے دو۔ابھی مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔‘‘شہنشاہ ہرقل کو اطلاع مل چکی تھی کہ اس کے سالار سقلار نے مسلمانوں کا راستہ روکنے اور انہیں پھنسانے کیلئے جو دلدل پھیلائی تھی، اسی دلدل میں اس کے اپنے سپاہیوں کی لاشیں پڑی ہیں اور فحل کے مقام پر سالار سقلار مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے،اور بیسان پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔
ہرقل کا یہ منصوبہ تباہ ہو چکا تھا کہ دمشق پر حملہ نہیں کرے گا، نہ اس کا محاصرہ کرے گا بلکہ اپنی فوج کو دمشق سے دور رکھ کر دمشق کو جانے والے راستے بند کر دے گا۔ پھر مسلمانوں کو بکھیر کر لڑائے گا۔مگرمسلمانوں نے اس کے منصوبے کی پہلی کڑی کو ہی فحل کے مقام پر توڑ دیاتھا۔روم کا شہنشاہ ہرقل ہمت ہارنے والا آدمی نہیں تھا۔اس کی زندگی جنگ و جدل میں گزری تھی۔خد انے اسے ایسی عقل دی تھی جس سے اس نے بڑے خطرناک حالات کارخ اپنے حق میں موڑ لیا تھا۔اسے روم کی شہنشاہی ۶۱۰ء میں ملی تھی۔اس وقت روم کی سلطنت میں شمالی افریقہ کا کچھ حصہ ، یونان اور کچھ حصہ ترکی کا شامل تھا۔روم کی شہنشاہی تو اس سے کہیں زیادہ وسیع و عریض تھی لیکن ہرقل کو جب اس کا تخت و تاج ملااس وقت یہ شہنشاہی سکڑ چکی تھی اور زوال پزیر تھی۔ہرقل نے اپنے دورِ حکومت کے بیس سال دشمنوں کے خلاف لڑتے اور محلاتی سازشوں کو دباتے گزار دیئے تھے۔اس کی شہنشاہی کے دشمن معمولی قوتیں نہیں تھیں۔ایک طرف فارس کی شہنشاہی تھی۔دوسری طرف بربر تھے۔جو بڑے ظالم اور جنگجو تھے،ان کے علاوہ ترک تھے جن کی جنگی طاقت اور مہارت مسلمہ تھی۔ہرقل کی غیر معمولی انتظامی فہم و فراست اور عسکری قیادت کی مہارت تھی کہ اس نے تینوں دشمنوں کو شکست دے کر روم کی شہنشاہی کو شام اور فلسطین تک پھیلایا اور مستحکم کیا تھا۔اتنے طاقتور دشمنوں کے خلاف متواتر معرکہ آراء رہنے سے ہرقل کی فوج تجربہ کار اور منظم ہو گئی تھی۔منظم بھی ایسی کہ پسپا ہوتے وقت بھی تنظیم کو برقرار رکھتی تھی۔ہرقل کی فوج میں صرف رومی ہی نہیں تھے ، کئی اور اقوام کے لوگ اس میں شامل تھے ۔شام اور فلسطین کے عیسائی بھی تھے، ان عیسائیوں پر اسے کلی طور پر بھروسہ نہیں تھا۔ان کے متعلق ہرقل کی رائے یہ تھی کہ یہ لوگ مالِ غنیمت کیلئے لڑتے ہیں اور جہاں دشمن کا دباؤ زیادہ ہو جاتا ہے یہ بھاگ اٹھتے ہیں۔مسلمانوں کو وہ عرب کے بدو کہا کرتا تھا،اس نے مسلمانوں کو لٹیرے بھی کہا تھا لیکن اس نے جلد ہی تسلیم کر لیا تھا کہ اب اس کا مقابلہ ایک ایسے دشمن کے ساتھ ہے جو اس سے زیادہ عسکری فہم و فراست کا مالک ہے اور اس کے سامنے ایک مقصد ہے۔ہرقل مسلمانوں کے مقصد کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔یہ مذہب کا معاملہ تھا لیکن وہ جان گیا تھا کہ مسلمان زمین کی خاطر اور اپنی شہنشاہی کے قیام اور وسعت کی خاطر گھروں سے نہیں نکلے بلکہ وہ ایک عقیدے پر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
’’میں اپنی فوج میں وہ جذبہ پیدا نہیں کر سکتا جو مسلمانوں میں ہے۔‘‘اسی روز اس نے اپنے ان سالاروں کو جو انطاکیہ میں موجود تھے، بلا کر کہا۔’’اپنے سپاہیوں سے کہو کہ اپنے اپنے عقیدے کی خاطر لڑیں۔انہیں بتاؤ کہ جن جگہوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے ، وہاں کے لوگ اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرتے جا رہے ہیں۔انہیں کہو کہ کچھ اور نہیں تو اپنے ذاتی وقار کی خاطر لڑو۔اپنی جوان بہنوں اور بیٹیوں کو مسلمانوں سے بچانے کیلئے لڑو۔‘‘اس نے اپنے سالاروں کو محاذ کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کیا۔’’تو کیا اب تم محسوس نہیں کرتے کہ ہمیں اپنا منصوبہ بدلنا پڑے گا؟‘‘اس نے اپنے سالاروں سے پوچھا۔’’ہمیں مسلمانوں پر زیادہ سے زیادہ طاقت سے حملہ کرنا چاہیے۔‘‘ایک سالار نے کہا۔’’وہ تو میں کرنا ہی چاہتا ہوں۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں اتنی زیادہ اور ہر لحاظ سے اتنی طاقتور فوج تیار کر رہا ہوں جسے دیکھ کر پہاڑ بھی کانپیں گے۔ہم جو علاقے کھو چکے ہیں۔ ان کا ہمیں غم نہیں ہو نا چاہے۔یہ سب واپس آجائیں گے۔میں تم میں سے کسی کے چہرے پر مایوسی نہیں دیکھنا چاہتا۔میں نے بیس سال مسلسل لڑ کر سلطنتِ روم کی عظمت کو بحال کیا تھا۔اب بھی کرلوں گا، لیکن تم مسلمانوں سے مرعوب ہو گئے تو میری ناکامی یقینی ہے۔‘‘سالاروں نے باری باری اسے جوشیلے الفاظ میں یقین دلایا کہ وہ اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔’’جوش باتوں میں نہیں میدانِ جنگ میں دکھایا جاتا ہے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’یہ میں جانتا ہوں کہ تم جانیں قربان کر دو گے لیکن تاریخ یہ دیکھے گی کہ تمہاری جانیں کس کام آئیں اور تم دشمن کو مار کر مرے تھے یا لڑائی میں مارے جانے والے سپاہیوں کی طرح صرف مارے گئے تھے……‘‘’’اب سنو ہمیں کیا کرنا ہے۔میں نے دمشق پر حملہ نہیں کرنا تھا لیکن اب ہمیں دمشق کو محاصرے میں لے کر اس شہرپر قبضہ کرنا ہے۔وہاں سے جو اطلاعیں آئی ہیں ان سے پتا چلا ہے کہ دمشق کا دفاع کمزور ہے۔وہاں مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی ہے۔یہ ہمارا فوجی مرکز تھا جسے مسلمانوں نے اپنا مرکز بنالیا ہے۔یہ ہمیں واپس لینا چاہیے۔‘‘اس نے ایک سالار شنس سے کہا کہ وہ حمص سے اپنے دستے لے کر دمشق پہنچے۔’’اور تھیوڈورس! ‘‘اس نے اپنے ایک اور سالار سے کہا۔’’تم اپنے ساتھ زیادہ نفری لے کر دمشق کو روانہ ہو جاؤ۔کوچ بہت تیز ہو تاکہ مسلمانوں کا کوئی امدادی دستہ تم سے پہلے دمشق نہ پہنچ جائے۔شنس تمہاری مدد کیلئے تمہارے قریب رہے گا۔دمشق پر قبضہ کر کے ہم اسے اڈہ بنالیں گے……اب دنیا کو بھول جاؤ۔ اپنی بیویوں اور اپنی داشتاؤں کو بھول جاؤ۔جسے ایک بار شکست ہو جائے اسے کھانے پینے کابھی ہوش نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ہرقل نے تاریخی اہمیت کے الفاظ کہے۔’’جو قوم اپنی شکست کو بھول جاتی ہے۔اسے زمانہ بھول جاتا ہے،اور جو قوم اپنے دشمن سے نظریں پھیر لیتی ہے وہ ایک روز اسی دشمن کی غلام ہو جاتی ہے……تمہاری عظمت سلطنت کی عظمت کے ساتھ وابستہ ہے۔سلطنت کی عظمت کا دفاع نہیں کرو گے تو بے وقار زندگی بسر کررو گے،اور گمنام مرو گے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہرقل کے بولنے کے انداز میں رعب، عزم اور ٹھہراؤ تھا۔اس کا انداز تحکمانہ نہیں تھا لیکن اس کے الفاظ اس کے سالاروں پر وہی تاثر پیدا کر رہے تھے جو وہ پیدا کرنا چاہتا تھا۔سالار تھیوڈورس اور سالار شنس اسی وقت نئے احکام اور ہدایات کے ساتھ روانہ ہو گئے۔اس وقت ابو عبیدہؓ اور خالدؓ فحل کے شمال کی طرف جا رہے تھے۔مسلمانوں کی فوج اب پہلے والی فوج نہیں رہی تھی۔خالدؓ جب سالارِ اعلیٰ تھے تو انہوں نے اسے منظم کر دیا تھا۔مجاہدین تو پہلے بھی منظم ہی تھے۔ان کا خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک، نظریہ اور عقیدہ ایک تھا۔اور سالار سے سپاہی تک جنگ کے مقصد سے آگاہ تھے۔پھر بھی اسے فارس اور روم کی فوجوں کی طرح منظم کرناضروری تھا۔وہ خالدؓنے کر دیا تھا۔جاسوسی اور دیکھ بھال کو بھی باقاعدہ اور موثر بنا دیا گیا تھا۔اسکے علاوہ خالدؓنے ایک سوار دستہ تیار کیا تھا جو متحرک رہتا اور انتہائی رفتار سے وہاں پہنچ جاتا جہاں مدد کی ضرورت ہوتی تھی مگر ان کی تعداد تھوڑی تھی۔وہ روز بروز تھوڑی ہوتی جا رہی تھی اور وہ اپنے وطن سے دور ہی دور ہٹتے جارہے تھے۔وہ اسلام کا تاریخ ساز دور تھا۔اﷲ نے انہیں یہ فرض سونپا تھا کہ وہ روایات تخلیق کریں اور اس راستے کا تعین کریں جو آنے والے ہر دور میں مسلمانوں کی روایات اور فتح اسلام کا راستہ بن جائے۔شمع رسالت مسلمانوں کے لہو سے ہی فروزاں رہ سکتی تھی اور مسلمانوں کو ہر دور اور ہر میدان میں قلیل تعداد میں رہنا تھا۔وہ جو ۶۳۵ء کے اوائل میں شام اور فلسطین میں آگے ہی آگے بڑھے جا رہے تھے۔انہوں نے اپنا آپ اور اپنا سب کچھ اسلام کی قربان گاہ میں رکھ دیا تھا۔وہ ایک مقدس لگن سے سرشار تھے۔تلواروں کی جھنکار اور تیروں کے زناٹے اور زخمیوں کی کربناک آوازیں ان کیلئے وجد آفریں موسیقی بن گئی تھیں۔ان کے رکوع و سجود بھی تلواروں کی چھاؤں میں ہوتے تھے۔وہ اب گوشت پوست کے جسم نہیں، دین و ایمان اور جذبہ ایثار کے پیکر بن گئے تھے جو روح کی قوتوں سے حرکت کرتے تھے اور یہ حرکت بہت ہی تیز تھی۔ابو عبیدہؓ اور خالدؓ اپنے دستوں کے ساتھ حمص کی جانب جا رہے تھے۔وہ فحل سے چلے تھے جہاں سے حمص تقریباً اسّی میل دور تھا۔ان کے راستے میں دمشق پڑتا تھا جو کم و بیش تیس میل دور تھا۔لیکن ان سالاروں نے دمشق سے کچھ دور سے گزر جاناتھا۔دمشق اور فحل کے درمیان ایک سر سبز علاقہ تھا،جو بہت خوبصورت اور روح پرور تھا،اس سبزہ زار کا نام مرج الروم تھا۔مسلمان دستوں کو کچھ دیر کیلئے وہاں رکنا تھا۔وہ اس سے تھوڑی ہی دور رہ گئے تھے کہ ایک گھوڑ سوار جو فوجی معلوم نہیں ہوتا تھا راستے میں کھڑا ملا۔وہ کوئی شکاری معلوم ہوتا تھا۔جب دونوں سالار اس کے سامنے سے گزرے تو اس نے اپنا گھوڑا ان کے پہلو میں کر لیا اور ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔’’کیا خبر ہے؟‘‘ ابو عبیدہؓ نے اس سے پوچھا۔’’رومی ہمارے منتظر ہیں۔‘‘گھوڑ سوار نے جواب دیا۔’’تعداد ہم سے زیادہ ہے۔حمص کی طرف دشمن کا ایک لشکر آرہا ہے۔‘‘یہ گھوڑ سوار کوئی شکاری یا اجنبی نہیں تھا یہ ایک مسلمان جاسوس تھا، جو شکاریوں کے بہروپ میں بہت آگے نکل گیا تھا،وہ اکیلا نہیں تھا۔اس کے چند اور ساتھی بھی آگے گئے ہوئے تھے ۔
جاسوسی اتنا آسان کام نہیں تھا کہ دشمن کی نقل وحرکت دیکھی اور واپس آکر اپنے سالاروں کر اطلاع دے دی۔دشمن کے جاسوس بھی آگے آئے ہوئے ہوتے تھے،وہ جاسوسی کے علاوہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ دوسری طرف کا کوئی جاسوس ان کے علاقے میں نہ آیا ہوا ہو۔پتہ چل جانے کی صورت میں وہ جاسوس پکڑا یا مارا جاتا تھا۔اس جاسوس نے سبزہ زار میں جس رومی فوج کی موجودگی کی اطلاع دی تھی، مؤرخوں کے مطابق وہ رومی سالار تھیوڈورس کے دستے تھے اور جو رومی فوج آرہی تھی اس کا سالار شنس تھا۔’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے پوچھا۔’’کیا تو یہ نہیں سوچ رہا کہ ہم ان رومیوں کو نظر انداز کرکے آگے نکل جائیں؟ ہماری منزل حمص ہے۔‘‘’’نہیں!‘‘ خالدؓ نے جواب دیا۔’’ان دو فوجوں کے ادھر آنے کا مقصد اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ دمشق کے راستوں کی ناکہ بندی کر رہے ہیں۔مجھے دمشق خطرے میں نظر آرہاہے۔‘‘’’اگر رومی دو حصوں میں آرہے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی دو حصوں میں ہو جائیں؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’دو حصوں میں ہی ہونا پڑے گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اﷲہمارے ساتھ ہے۔ہماری راہنمائی اﷲکرے گا۔‘‘’’اﷲتجھے سلامت رکھے! ‘‘ابوعبیدہؓ نے کہا۔کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ مجاہدین کو بتا دیں؟‘‘خالدؓ رکابوں میں کھڑے ہو گئے اور اپنی فوج کو رکنے کا اشارہ کیا۔’’مجاہدینِ اسلام!‘‘ ابوعبیدہؓ نے بڑی ہی بلند آواز میں اپنی فوج سے کہا۔’’د شمن نے ہمارا راستہ روک لیا ہے۔کیا تم نے کفر کے پہاڑوں کے سینے چاک نہیں کیے؟ کیا شرک اور ارتداد کی چٹانوں کو تم نے پہلے روندا نہیں؟ یہ رومی لشکر جو ہمارے راستے میں کھڑ اہے۔ تعداد میں زیادہ ہے۔لیکن اس میں ایمان کی طاقت نہیں جو تم میں ہے۔اﷲتمہارے ساتھ ہے۔باطل کے ان پجاریوں کے ساتھ نہیں۔اﷲکی خوشنودی کو اپنے دل میں رکھو اور اپنے آپ کو ایک اور معرکے کیلئے تیار کرو۔‘‘’’ہم تیار ہیں۔‘‘مجاہدین کے نعرے گرجنے لگے۔’’ہم تیار ہیں……لبیک ابو عبیدہ……لبیک ابو سلیمان!‘‘ایسا جوش و خروش جس میں گھوڑے بھی کھر مارنے لگے ہوں او ایسے گرجدار نعرے جیسے مجاہدین کا یہ لشکر تروتازہ ہو اور پہلی بار کوچ کر رہا ہو۔یہ ایمان کی تازگی اور روحوں کا جوش تھا۔بعض مؤرخوں نے مرج الروم کی لڑائی کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔اس کی جنگی تفصیلات دو یورپی مؤرخوں نے لکھی ہیں جن میں ہنری سمتھ قابلِ ذکر ہے۔اس نے اسے جنگی مبصر کی نگاہوں سے دیکھا اور لکھا ہے۔
ان تحریروں کے مطابق ابو عبیدہؓ اور خالدؓ نے اپنے دستوں کو الگ کرکے اس طرح تقسیم کر لیا کہ دونوں سالار ایک دوسرے کی مدد کو بھی پہنچ سکیں۔دونوں حصوں کا ہراول مشترک تھااور ہراول سے آگے دیکھ بھال کا بھی انتظام تھا۔دونوں سالار اس زمین پر اجنبی تھے۔دائیں اور بائیں سے بھی حملہ ہو سکتا تھا۔دو مسلمان جاسوسوں کو جو بہت آگے چلے گئے تھے ، ایک شتر سوار ملااور رک گیا۔’’میرے دوستو!‘‘اس نے مسلمان جاسوسوں سے کہا۔’’تم اُدھر سے آرہے ہو اور میں اُدھر جا رہا ہوں۔سنا ہے اُدھر سے مسلمان لشکر آرہا ہے۔اگر تم نے اس لشکر کو دیکھاہو تو بتا دو۔ میں راستہ بدل دوں گاکہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرا اونٹ مجھ سے چھین لیں۔‘‘’’اور تو یہ بتا کہ آگے کہیں رومی لشکر موجود ہے؟‘‘مسلمان جاسوس نے پوچھااور کہنے لگا۔’’ہمیں بھی وہی ڈر ہے جو تجھے ہے۔رومی ہم سے گھوڑے چھین لیں گے۔‘‘’’رومی لشکر کا تو کہیں نام و نشان نہیں۔‘‘شتر سوار نے جواب دیا۔’’کس نے بتایا ہے تمہیں؟‘‘’’مرج الروم سے آنے والوں نے!‘‘ایک مسلمان جاسوس نے جواب دیا۔’’کسی نے غلط بتایا ہے۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’میں اُدھر ہی سے آرہا ہوں۔‘‘دونوں مسلمان جاسوس کسی بہروپ میں گھوڑوں پر سوار تھے ۔ایک نے شتر سوار کی ٹانگ پکڑکر اتنی زور سے کھینچی کہ وہ اونٹ کی پیٹھ سے زمین پر جا پڑا۔دونوں مسلمان بڑی تیزی سے گھوڑوں سے کودے اور شتر سوار کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔تلواریں نکال کر نوکیں اس کی شہہ رگ پر رکھ دیں۔’’تم عیسائی عرب ہو۔‘‘ایک جاسوس نے اسے کہا۔’’اور رومیوں کے جاسوس ہو……انکار کرو۔ہم تمہارے دونوں بازو کندھوں سے کاٹ دیں گے……مرج الروم کی پوری خبر سناؤ۔‘‘اس نے جان بخشی کے وعدے پر تسلیم کر لیا کہ وہ رومیوں کا جاسوس ہے اور ا س نے یہ بھی بتا دیا کہ رومی سالار تھیوڈورس اپنے دستوں کے ساتھ پہلے ہی مرج الروم میں موجود تھا اور دوسرا سالار شنس بھی کچھ دیر پہلے پہنچ گیا ہے۔اس رومی جاسوس کو پکڑ کر پیچھے لے گئے اور اسے سالار ابو عبیدہؓ اور سالار خالدؓ کے حوالے کر دیاگیا۔جب مجاہدین کا لشکر مرج الروم کے سبزہ زار کے قریب گیا تو رومی لشکر دو بڑے حصوں میں لڑائی کیلئے تیار کھڑا تھا۔ابو عبیدہؓ نے اپنے دستوں کو اس جگہ رومی لشکر کے سامنے روکا جہاں رومی سالار تھیوڈورس کے دستے تھے اور خالدؓ نے اپنے دستوں کو رومی سالار شنس کے دستوں کے سامنے صف آراء کیا۔رومیوں نے کوئی حرکت نہ کی۔وہ شاید مسلمان کو حملے میں پہل کا موقع دینا چاہتے تھے۔لیکن خالدؓ نے پہل نہ کی۔ابو عبیدہؓ کو بھی انہوں نے پہلے حملہ نہ کرنے دیا۔دونوں مسلمان سالار حیران تھے کہ رومی آگے بڑھ کر حملہ کیوں نہیں کرتے۔حالانکہ ان کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی۔مسلمان اسے ایک چال سمجھ کر آگے نہ بڑھے۔
سورج غروب ہو گیا۔دونوں طرف کی فوجیں پیچھے ہٹ گئیں اور سپاہیوں کو کچھ دیر سونے کی اجازت دے دی گئی۔مؤرخوں نے لکا ہے کہ خالدؓ دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے عادی تھے لیکن سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ تھے اس لیے خالدؓ ان کی موجودگی میں کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔لیکن ان کی فطرت میں جو جنگجو سپاہی تھا وہ انہیں سونے نہیں دے رہا تھا۔خالدؓ بے چینی سے کروٹیں بدلتے رہے۔دشمن ان کے سامنے موجود تھا اور لڑائی نہیں ہوئی تھی۔ایک تو وجہ یہ تھی کہ انہیں نیند نہیں آرہی تھی اور ایک وجہ اور تھی جو انہیں بے قرار کرتی جا رہی تھی۔یہ شاید ان کی چھٹی حس تھی ۔انہوں نے رومیوں کے پڑاؤ کی طرف سے ہلکی ہلکی آوازیں بھی سنی تھیں۔انہیں شک ہونے لگا کہ دشمن سویا نہیں اور کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف ہے۔آدھی رات کے بہت بعدکا وقت تھا، جب خالدؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے پڑاؤ میں خراماں خراماں چلتے پڑاؤ سے نکل گئے۔وہاں سبزہ ہی سبزہ تھااور درخت بہت تھے۔خالدؓ جھاڑیوں اوردرختوں کی اوٹ میں دشمن کے پڑاؤ کی طرف چلے گئے۔وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں رومی سالار تھیوڈورس کے دستوں کو ہونا چاہیے تھا لیکن وہاں رومی فوج کا ایک بھی سپاہی نہیں تھا۔کوئی سنتری نہ تھا جو انہیں روکتا۔ شام کے وقت انہوں نے وہاں رومی دستوں کو پڑاؤ ڈالتے دیکھا تھا۔رات ہی رات وہ کہاں چلے گئے؟ کچھ اور آگے جا کر انہیں ایسی نشانیاں ملیں جن سے صاف پتا چلتا تھا کہ فوج نے یہاں قیام کیا تھا۔خالدؓ اس طرف چلے گئے جدھر رومیوں کی فوج کے دوسرے حصے کا پڑاؤ تھا۔خالدؓ کو دور سے ہی پتا چل گیا کہ فوج وہاں موجود ہے۔وہ چھپتے چھپاتے اور آگے چلے گئے۔رومی سنتری گھوم پھر رہے تھے۔خالدؓدشمن کے پڑاؤ کے اردگرد بڑھتے گئے۔ چاندنی میں انہیں دشمن کا کیمپ دکھائی دے رہا تھا۔خالدؓ کو یقین ہو گیا کہ رومیوں کی آدھی فوج کہیں چلی گئی ہے۔خالدؓ بڑی تیزی سے چلتے ابوعبیدہؓ کے پاس چلے گئے اور انہیں بتایا کہ رومیوں کی آدھی فوج لاپتا ہو گئی ہے۔’’کہاں چلی گئی ہو گی؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’جہاں بھی گئی ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اسے وہیں پہنچانے کیلئے دن میں رومیوں نے لڑائی سے گریز کیا تھا۔‘‘کچھ دیر دونوں سالار اسی پر تبادلہ خیال کرتے رہے،کہ رومیوں کی فوج کا ایک حصہ کہاں غائب ہو گیا ہے،مؤرخوں کے مطابق یہ سالار تھیوڈورس کے دستے تھے جو چلے گئے تھے۔پیچھے سالار شنس رہ گیا تھا۔اس کے دستوں کی تعداد بھی خاصی زیادہ تھی۔صبح ہوتے ہی رومی لڑائی کیلئے تیار ہو گئے۔ابو عبیدہؓ پہلے ہی تیار تھے۔انہوں نے رومیوں پر حملہ کر دیا۔انہوں نے اپنے دستوں کو حسبِ معمول تین حصوں میں تقسیم کر لیا تھااور حملہ دشمن کے پہلوؤں پر کیا تھا۔خود انہوں نے دشمن کے قلب پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ جہاں انہیں سالار شنس کا پرچم دکھائی دے رہا تھا۔
مجاہدین نے دشمن کے پہلوؤں پر حملہ کیااور ابو عبیدہؓ آگے بڑھے اور شنس کو مقابلے کیلئے للکارا۔شنس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آگے گیا۔ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ا س کی طرف گئے ۔دونوں سالاروں نے ایک دوسرے پر وار کیااور دونوں کی تلواریں ٹکرائیں۔شنس نے ذرادور جا کر گھوڑا موڑا لیکن ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو زیادہ آگے نہ جانے دیا۔فوراً ہی موڑ کر پھر ایڑ لگائی۔شنس ابھی سیدھا بھی نہیں ہوا تھا کہ ابو عبیدہؓ کی تلوار ا س کے کندھے پر پڑی لیکن اس کی زرہ نے اسے بچا لیا۔دونوں کے گھوڑے پھر دوڑتے ایک دسرے کی طرف آئے تو شنس نے وار کرنے کیلئے تلوار اوپرکی۔ابو عبیدہؓ نے برچھی کی طرح وار کر کے تلوار اس کی بغل میں اتاردی۔ذرا ہی آگے جا کر گھوڑے کو موڑا۔شنس کو زخم پریشان کر رہا تھا۔وہ اپنے گھوڑے کو بروقت نہ موڑ سکا۔ابو عبیدہؓ نے اس کی ایک ٹانگ پر بھر پور وار کیااور ٹانگ کاٹ ڈالی۔شنس گر رہا تھا جب ابو عبیدہ ؓپھر واپس آئے اور شنس کی گردن کو ڈھلکا ہوا دیکھ کر گردن پر وار کیا۔شنس کا پورا سر تو نہ کٹا لیکن الگ ہو کرلٹکنے لگا۔پھر اس کی لاش گھوڑے سے اس طرح گری کہ ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا۔ابو عبیدہؓ نے شنس کے گھوڑے کو تلوار کی نوک چبھوئی۔گھوڑا بدک کر دوڑ پڑااور اپنے سوار کی لاش گھسیٹتا پھرا۔اس کے ساتھ ہی ابو عبیدہؓ نے اپنے قلب کے دستوں کو دشمن کے قلب پر حملے کا حکم دے دیا جہاں کھلبلی بپا ہو چکی تھی۔کیونکہ اس کا سالار مارا گیا تھا۔رومی پیچھے ہٹنے لگے لیکن مجاہدین نے ان کے عقب میں جاکر ان کیلئے بھاگ نکلنا مشکل کر دیا۔پھر بھی بہت سے رومی نکل گئے اور حمص کا رخ کرلیا۔یہ معرکہ مارچ ۶۳۵ء (محرم الحرام ۱۴ ھ )میں لڑا گیا تھا۔اسی صبح دمشق کے باہر بھی خونریزی ہو رہی تھی۔پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ دمشق مسلمانوں کے قبضے میں تھا لیکن وہاں مسلمان فوج کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔دمشق میں حاکمِ شہر اور سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔شہنشاہِ ہرقل کا منصوبہ یہ تھا کہ دمشق میں مسلمان فوج کی تعداد کم ہے اس لیے اسے آسانی سے ختم کیا جا سکے گا۔اس نے یہ کام اپنے ایک تجربہ کار سالار تھیوڈورس کو سونپا تھا۔دمشق کے دفاع کا ایک انتظام یہ بھی تھا کہ دیکھ بھال کیلئے چند آدمی شہر سے دور دور گھومتے پھرتے رہتے تھے۔اس صبح یزیدؓ بن ابی سفیان کو اطلاع ملی کہ رومی فوج آرہی ہے ۔دمشق پر ہر لمحہ حملے کی توقع رہتی تھی، رومی کوئی ایسے گئے گزرے تو نہیں تھے کہ اپنی شہنشاہی کا کھویا ہوا اتنا بڑاشہر واپس لینے کی کوشش نہ کرتے۔ یزیدؓ بن ابی سفیان ہر وقت تیاری کی حالت میں رہتے تھے، انہوں نے رومی فوج کے آنے کی اطلاع ملتے ہی اپنے دستوں کو شہرکے باہر صف آراء ہونے کا حکم دیا۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کر لڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھااور انہیں محصور ہونا پسند بھی نہیں تھا۔وہ میدان میں اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن سے بھی لڑ جاتے تھے۔رومی چونکہ جنوب مغرب کی طرف سے آرہے تھے اس لیے یزیدؓ نے اپنے دستے کو اسی سمت جنگی ترتیب میں کھڑا کر دیا، رومی فوج سامنے آئی تو پتا چلا کہ اس کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ان رومی دستوں کا سالار تھیوڈورس تھا۔وہ انطاکیہ سے بیروت کے راستے دمشق کو فتح کرنے آرہا تھا۔جب مرج الروم پہنچا تو ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کی زیرِ قیادت مجاہدین کی فوج آگئی۔اسے دمشق پہنچنا تھا وہ وقت ضائع نہیں کر سکتا تھا۔مؤرخ واقدی ،ابنِ ہشام اور ابو سعید لکھتے ہیں کہ اس نے بڑی کارگر ترکیب سوچ لی، ایک یہ کہ مسلمانوں کے سامنے مرج الروم میں صف آراء رہا لیکن لڑائی سے گریز کرتا رہا۔رات ہوگئی تو نہایت خاموشی سے اپنے دستوں کو دمشق لے گیا۔ رومی سالار شنس پیچھے رہ گیا۔اس کے ذمے یہ کام تھا کہ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کے دستوں کو یہیں روکے رکھے۔اس مقام سے دمشق بیس میل بھی نہیں تھا۔تھیوڈورس صبح کے وقت دمشق کے مضافات تک پہنچ گیا۔وہ جب دمشق کے قریب گیا تو مسلمانوں کے قلعے کے باہر منتظر پایا۔یہ دمشق کے دفاعی دستے تھے جن کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔تھیوڈورس کو معلوم تھا کہ دمشق کے دفاع میں مسلمانوں کی یہی نفری ہے جو باہر کھڑی ہے۔اس نے اپنے دستوں کو للکار کر کہا کہ عرب کے ان بدوؤں کو کچل ڈالو۔دمشق تمہارا ہے۔’’مجاہدو!‘‘ یزیدؓبن ابی سفیان نے اپنے دستوں سے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔’’دمشق تمہاری آبرو ہے۔ دشمن شہر کی دیوار کے سائے تک بھی نہ پہنچے۔کفر کے طوفان کو شہر سے باہر روک لو۔‘‘یہ جوش و جذبات کی للکار تھی۔جس نے مجاہدین کو گرما دیا،لیکن حقیقت بڑی تلخ تھی۔کہ دشمن کی تعداد کئی گنا زیادہ اور کمک کی کوئی صورت نہیں تھی۔نہ صرف یہ کہ دمشق ہاتھ سے جارہا تھا بلکہ مجاہدین میں سے کسی کا بھی زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔مجاہدین جہاں بھی لڑے کم تعداد میں لڑے لیکن کمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔رومیوں کی نفری اتنی زیادہ تھی کہ وہ یزیدؓ کے دستوں کو آسانی سے گھیرے میں لے سکتے تھے۔ہرقل نے یہی کچھ سوچ کر وہاں زیادہ نفری بھیجی تھی اور تھیوڈورس اس کا آزمودہ سالار تھا۔تھیوڈورس نے مسلمانوں کو دیکھ کر اپنے دستوں کو روکا نہیں ،ا س نے حملے کا حکم دے دیا۔حملہ دونوں پہلوؤں کی طرف سے ہوا تھا۔یزیدؓ بن ابی سفیان سمجھ گئے کہ رومی انہیں اندر کی طرف سکڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔یزیدؓ بن ابی سفیان نے اپنے دستے کو اور زیادہ پھیلا دیا اور سوار دستے سے کہا کہ وہ دشمن کے پہلوؤں پر جانے کی کوشش کریں لیکن رومی تو سیلاب کی مانند تھے مسلمان جذبے سے حملے روک رہے تھے اور وہ اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔وہ دفاعی لڑائی لڑنے پر مجبور تھے جوابی حملہ نہیں کر سکتے تھے۔
رومی شہر کی طرف جانے کی بھی کوشش کر رہے تھے۔یزیدؓ نے اس کا انتظام پہلے ہی کر رکھا تھا۔انہوں نے شہر کے ہر دروزے کے سامنے اور کچھ دور تیر انداز کھڑے کر رکھے تھے اور ان کے ساتھ تھوڑی تھوڑی تعداد میں گھوڑ سوار بھی تھے۔ سورج سر کے اوپر آگیا ۔آدھا دن گزر گیا تھا مجاہدین ابھی تک رومیوں کے موج در موج حملے روک رہے تھے اور ان کے نعروں اور للکار میں ابھی جان موجود تھی،اس وقت تک زخمیوں اور شہیدوں کی وجہ سے ان کی تعداد مزید کم ہو گئی تھی۔ رومی نفری کی افراط کے باوجود مسلمانوں پر غالب نہیں آسکے تھے لیکن مسلمانوں کے جسم اب جواب دینے لگے تھے۔گھوڑے بھی تھک گئے تھے۔دوپہر کے بعد مجاہدین کو صاف طور پرمحسوس ہونے لگا کہ شکست ان کے بہت قریب آگئی ہے۔وہ پسپائی کے عادی نہیں تھے۔انہوں نے کلمہ طیبہ کا بلند ورد شروع کر دیا اور اس کوشش میں لہو لہان ہونے لگے کہ حملہ روک کر حملہ کریں بھی ۔ان کی تنظیم ٹوٹ گئی تھی اور وہ اب انفرادی طور پر لڑ رہے تھے۔سالار یزیدؓ بن ابی سفیان سپاہی بن چکے تھے ۔وہ اپنے علم برداد اور محافظوں سے کہتے تھے کہ علم نہ گرنے دینا۔بڑی جلدی وہ وقت آگیا جب مجاہدین کو یقین ہو گیا کہ ایک طرف دشمن کی قید اور دوسری طرف موت ہے۔وہ جیتے جی یہ نہیں سننا چاہتے تھے کہ دشمن دمشق پر قابض ہو گیاہے۔عین اس وقت جب مجاہدین نے زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کیلئے جانوں کی بازی لگا دی تھی ،رومیوں کے عقب میں شور اٹھااور دیکھتے ہی دیکھتے رومیوں میں بھگدڈ مچ گئی۔ دمشق کے دفاع میں لڑنے والوں کو پتا نہیں چل رہا تھا کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے اور رومیوں پر کیاآفت ٹوٹی ہے۔ان کی تنظیم درہم برہم ہو گئی اور ان کے حملے بھی ختم ہو گئے۔’’اسلام کے جانثاروں !‘‘ یزیدؓ بن ابی سفیان نے بلند آواز سے کہا۔’’اﷲکی مدد آگئی ہے۔ حوصلے بلند رکھو۔‘‘حقیقت یہ تھی کہ یزیدؓ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ رومیوں کے عقب میں کیا ہو رہا ہے۔انہوں نے رومیوں پر حملے کاحکم دے دیا۔ رومیوں کو حملہ روکنے کا بھی ہوش نہ رہا ۔یزیدؓ بن ابی سفیان پہلو کی طرف نکل گئے۔ محافظ ان کے ساتھ تھے، وہ رومیوں کے عقب میں جار ہے تھے۔ شوروغوغا اس قدر زیادہ تھا کہ اپنی آواز بھی نہیں سنائی دیتی تھی صرف یہ پتا چلتا تھا کہ رومیوں میں بھگدڑ اور افراتفری بپا ہو گئی ہے۔
کچھ اور آگے گئے تو یزیدؓ کے کانوں میں آواز پڑی:
انا فارس الضدید
انا خالد بن الولید
’’دمشق کے محافظو! ‘‘یزیدؓ بن ابی سفیان گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کرتے ہوئے پیچھے آئے۔’’خدا کی قسم! ابنِ ولید آگیا ہے۔ابو سلیمان پہنچ گیاہے۔اﷲکی مدد پہنچ گئی ہے۔اﷲکو پکارنے والوں! اﷲنے ہماری سن لی ہے۔خداکی قسم !رومی اپنی قبروں پر لڑ رہے ہیں۔فتح حق پرستوں کی ہوگی۔‘‘ اس دور کی تحریری روایات سے پتا چلتا ہے کہ یزیدؓ پر دیوانگی طاری ہو گئی تھی اور ایسی ہی دیوانگی ان کے دستے پر طاری ہو گئی اور ا س کے ساتھ ہی رومیوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔یزیدؓ بن ابی سفیان کیلئے خالدؓ کا آجانا ایک معجزہ تھا۔لیکن خالدؓ اتنی جلدی آ کیسے گئے؟ ہم پھر گزشتہ رات مرج الروم چلے چلتے ہیں جہاں خالدؓ چھپ چھپ کر رومیوں کے کیمپ دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ رومیوں کی فوج کا وہ حصہ جو دن کے وقت ان کے سامنے صف آراء تھا وہاں نہیں ہے۔خالدؓ کو یقین ہو گیاکہ یہ حصہ کہیں چلا گیا ہے۔تو انہوں نے سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ سے بات کی۔ خالدؓ دور اندیش تھے انہیں شک ہوا کہ رومیوں کی فوج کا یہ حصہ دمشق کی جانب گیا ہے اور رومیوں کا مقصد صرف یہ ہو سکتا ہے کہ دمشق پر قبضہ کر لیا جائے۔’’ہرقل معمولی دماغ کا آدمی نہیں۔‘‘ خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔’’اسے معلوم ہو گا کہ دمشق میں ہمای نفری بہت تھوڑی ہے میں اس کے سوااور کچھ نہیں سمجھ سکتا کہ دمشق خطرے میں ہے۔اگر تو مجھے اجازت دے تو میں دمشق پہنچ جاؤں۔‘‘’’تجھ پر اﷲکی سلامتی ہو ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ میں تجھے اجازت دیتا ہوں اور تجھے اﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔یہ جو رومی پیچھے رہ گئے ہیں، انہیں میں سنبھال لوں گا۔‘‘خالدؓ نے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔اپنے سوار دستے کو تیار کر کے دمشق کو روانہ ہو گئے۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟