🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 46*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *46* ۔۔۔۔

انہوں نے تحریری حکم نامہ ابو عبیدہؓ کے نام قاصد کے ہاتھ بھیج دیا۔خالدؓ اب سالارِ ااعلیٰ نہیں بلکہ نائب بنا دیئے گئے تھے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اب وہ کسی مفتوحہ علاقے کے امیر نہیں بن سکتے تھے۔مدینہ میں عمرؓ نے اپنی خلافت کے دوسرے دن مسجد نبوی میں نماز کی امامت کی اور خلیفہ کی حیثیت سے پہلا خطبہ دیا۔انہوں نے سب سے پہلے یہ بات کہی:’’قوم اس اونٹ کی مانند ہے جو اپنے مالک کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔اسے جہاں بٹھا دیا جاتا ہے وہ اسی جگہ بیٹھا اپنے مالک کا انتظار کرتا رہتا ہے۔رب کعبہ کی قسم!میں تمہیں صراطِ مستقیم پر چلاؤں گا۔‘‘انہوں نے خطبے میں اور بھی بہت کچھ کہااور آخر میں کہا۔’’میں نے خالد بن ولید کو اس کے عہدے سے معزول کر دیا ہے، اور ابو عبیدہ اس فوج کے سالارِ اعلیٰ اور شام کے مفتوحہ علاقوں کے امیر ہیں۔‘‘مسجد میں جتنے مسلمان موجود تھے ان کے چہروں کے رنگ بدل گئے۔بعض کے چہروں پر حیرت اور بعض کے چہروں پر غصہ صاف دکھائی دے رہا تھا، وہ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔خالدؓ کی فتوحات تھوڑی اور معمولی نہیں تھیں۔ابو بکرؓ ان کی ہر فتح اور ہر کارنامہ مسجد میں بیان کیا کرتے تھے اور یہ خبر تمام تر عرب میں پھیل جاتی تھی۔خالدؓ کی زیادہ تر فتوحات معجزہ نما تھیں،اس طرح خالدؓ سب کیلئے قابلِ احترام شخصیت بن گئے تھے مگر عمرؓ نے خلیفہ بنتے ہی خالدؓ کو معزول کر دیا۔ہر کوئی عمرؓ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ خالدؓ نے کیا جرم کیا ہے جس کی اسے اتنی سخت سزا دی گئی ہے؟ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو پوچھے بغیر عمرؓ کے فیصلے کی مخالفت کرناچاہتے تھے لیکن کسی میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ عمرؓ سے باز پرس کرتا۔سب جانتے تھے کہ عمرؓ ابو بکرؓ جیسے نرم مزاج نہیں،اور ان کی طبیعت میں اتنی درشتی ہے جو بعض اوقات برداشت سے باہر ہو جاتی ہے-

عمرؓ کا دور، اسلام کی پوری تاریخ کا سنہرا دور ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب مسلمان پوری طرح متحد تھے اور ان کی افواج روم اور ایران کے خلاف فتح پر فتح حاصل کیے جا رہی تھیں۔ بلوچستان سے لے کر مصر تک علاقہ اسی دور میں فتح ہوا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے ان علاقوں کے عام لوگوں کو قیصر و کسری کی غلامی سے نکال کر انہیں مذہبی اور دنیاوی امور میں آزادی عطا کی اور ایک نیا نظام معاشرت ترتیب دیا۔ اس دور میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے درمیان کوئی قابل ذکر اختلافات نہیں ہوئے،  اس وجہ سے اس دور سے متعلق تاریخی سوالات بھی بہت کم ہیں۔عمرؓ نے منصب خلافت سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ خالدؓکو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر کے ان کی جگہ ابو عبیدہؓ کو سپہ سالار مقرر فرمایا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں "سیف من سیوف اﷲ" یعنی اﷲ کی تلواروں میں سے ایک تلوار قرار دیا تھا۔ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے د ور میں انہوں نے عراق کا بیشتر حصہ فتح کر لیا تھا اور اب شام میں اپنی غیر معمولی جنگی حکمت عملی کے جوہر دکھا رہے تھے۔ مسلم تاریخ میں اگر فوجی جرنیلوں کی رینکنگ کی جائے تو بلاشبہ خالدؓ اس میں پہلے نمبر پر ہوں گے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمرؓ نے انہیں معزول کیوں کیا جبکہ خالدؓ کی کارکردگی غیر معمولی تھی؟
یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ عمرؓ نے خالدؓ کو معزول ہرگز نہیں کیا بلکہ انہیں سپہ سالار اعظم کی بجائے سیکنڈ ان کمانڈ بنا دیا۔ اس کی متعدد وجوہات تھیں جن میں سب سے نمایاں یہ تھی کہ خالدؓ جنگو ں میں اپنی غیر معمولی شجاعت کی وجہ سے بہت زیادہ خطرات مول لے لیا کرتے تھے۔ آپ فی الحقیقت خطروں میں کود پڑنے والے انسان تھے اور بسا اوقات تھوڑی سی فوج کے ساتھ دشمن پر جھپٹ پڑتے اور اسے شکست دے ڈالتے۔ ابوبکر رضی اﷲ عنہ اپنی احتیاط کے باوجود اس معاملے میں خالدؓکو ڈھیل دیتے تھے۔ اس کے برعکس عمرؓ کی طبیعت محتاط تھی اور وہ مسلمانوں کو اندھا دھندخطروں میں ڈالنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عمرؓ نے خالدؓ کو امین الامت ابو عبیدہؓ کے ما تحت کر دیا تاکہ وہ اپنی غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں کے سبب ، خالدؓ کو ضرورت سے زیادہ خطرات مول لینے سے روکیں اور ان کی جنگی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں۔

خالدؓ کافی عرصہ تک ابو عبیدہؓ کی کمان میں لڑتے رہے۔ ابو عبیدہؓ تمام پلاننگ انہی کے مشورے سے کرتے تھے اور یہ دونوں کمانڈر مل کر جنگی تیاری کرتے تھے۔ تاہم اس پلان پر عمل درآمد خالدؓ کروایا کرتے تھے۔ چار سال بعد عمرؓ نے انہیں تمام جنگی خدمات کو چھوڑ کر مدینہ آنے کا حکم دیا۔ طبری نے اس سلسلے میں سیف بن عمر کی روایت نقل کی ہے جو کہ نہایت ہی ضعیف راوی ہے اور جھوٹی روایات کے لیے مشہور ہے۔ اس روایت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ معاذ اﷲ عمرؓ، خالدؓ سے متعلق دل میں کینہ رکھتے تھے۔ خلافت سنبھالتے ہی انہوں نے خالدؓ کو معزول کر کے مدینہ واپس بلا لیا، ان کی تذلیل کی اور ان کا آدھا مال لے کر بیت المال میں داخل فرما دیا۔ ان کا خیال تھا کہ خالدؓ نے معاذ اﷲ مال غنیمت میں خیانت کی ہے۔ یہ ایک نہایت ہی ناقابل اعتماد اور ضعیف روایت ہے اور ان دونوں بزرگوں پر بہتان ہے۔ہاں ایسا ضرور ممکن ہے کہ خالدؓ سے مال غنیمت کے حصوں کی تقسیم میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ عمرؓ نے حساب کیا تو ان کی طرف کچھ رقم زائد نکلی جو عمرؓ نے ان سے لے کر بیت المال میں داخل کر دی اور شام کے لوگوں کو تحریر لکھ کر بھیجی جس میں خالدؓ کی معزولی کی وجوہات بیان کیں۔ روایت یہ ہے:جب خالد، عمر کے پاس پہنچے تو ان سے شکایت کی اور کہا: "میں نے آپ کی یہ شکایت مسلمانوں کے سامنے بھی بیان کی تھی۔ واﷲ! آپ نے مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا۔"عمرؓ نے فرمایا: "یہ بتائیے کہ آپ کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی؟" انہوں نے جواب دیا: "مال غنیمت اور میرے مقرر حصوں سے۔ ساٹھ ہزار سے زائد جو رقم ہو ، وہ آپ (بیت المال) کی ہے۔" اس پر عمرؓ نے ان کے ساز و سامان کی قیمت لگائی تو ان کی طرف بیس ہزار نکلے۔ اس رقم کو انہوں نے بیت المال میں داخل کر دیا تو عمرؓ نے فرمایا: "خالد! واﷲ! آپ میرے نزدیک نہایت ہی معزز شخصیت ہیں۔ میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں اور آج کے بعد آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔"عدی بن سہیل کی روایت ہے کہ عمرؓر نے تمام شہر والوں کو لکھ کر بھیجا: "میں نے خالد کو ناراضگی یا بددیانتی کی وجہ سے معزول نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان ان سے محبت کرنے لگے ہیں۔ اس لیے مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ ان پر بے حد بھروسہ اور اعتماد نہ کریں اور کسی دھوکے میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اس لیے میں نے چاہا کہ انہیں حقیقت معلوم ہو جائے کہ درحقیقت اﷲ تعالی ہی کارساز ہے ، اس لیے انہیں کسی فتنے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔"(طبری)دلچسپ بات ہے کہ یہ روایت بھی سیف بن عمر ہی نے روایت کی ہے اور ان صاحب کی دونوں روایتوں میں تضاد موجود ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دوسری روایت ہی درست ہے۔ اس روایت سے خالدؓ کی معزولی کی ایک اور وجہ سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مسلمانوں کے اندر یہ تصور پیدا ہو گیا تھا کہ جو فتوحات ہو رہی ہیں، وہ خالدؓ کی موجودگی کی وجہ سے ہیں۔ اس طرح سے ان میں شخصیت پرستی پیدا ہو۔

اگلا معرکہ ایک ہی ہفتے بعد آگیا۔ابو عبیدہؓ کو فوج کی کمان لیے ابھی ایک ہی ہفتہ گزرا تھا انہیں اطلاع دی گئی کہ ایک اجنبی ان سے ملنے آیا ہے۔اپنے آپ کو عربی ظاہر کرتا ہے لیکن عیسائی ہے۔ابو عبیدہؓ نے اسے بلالیا۔اجنبی تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا۔ابو عبیدہؓ نے سب کو باہر نکال دیا۔’’کیا مسلمان سالارِ اعلیٰ ایک عیسائی عرب پر اعتبار کرے گا؟‘‘اس عیسائی نے کہا۔’’اگر مالِ غنیمت کی ضرورت ہے تو ایک جگہ بتاتا ہوں حملہ کریں اور مالامال ہوجائیں۔‘‘’’پہلے یہ بتا کہ تو ہم پر اتنی مہربانی کرنے کیوں آیا ہے؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’رومی تیرے ہم مذہب ہیں تو انہیں کیوں نقصان پہنچا رہا ہے؟‘‘’’اپنے وطن کی محبت کی خاطر۔‘‘ عیسائی نے جواب دیا۔’’رومی میرے ہم مذہب تو ہیں لیکن زندہ عیسائیوں کو شیروں کے آگے رومیوں نے ہی ڈالا تھااور عیسیٰ کو مصلوب کرنے والے رومی ہی تھے۔ میں ان کی شہنشاہی دیکھ رہا ہوں ۔یہ رعایا کو انسان نہیں سمجھتے۔میں نے مفتوحہ علاقوں میں آپ کی حکومت بھی دیکھی ہے آپ رعایا کو انسانیت کا درجہ دیتے ہیں۔میں رومیوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوں۔میرے دل میں صرف اپنا ہی نہیں پوری انسانیت کا درد ہے۔میں مسلمان نہیں لیکن میں یہ تو فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میں عربی ہوں،اور عرب کے لوگ اچھے ہوتے ہیں۔‘‘اس عیسائی عرب نے ابو عبیدہؓ کو متاثر کر لیا۔ ابو عبیدہؓ نے اس سے پوچھا کہ وہ کون سی جگہ بتا رہا ہے؟جہاں حملہ کرنا ہے۔’’ابوالقدس!‘‘ عیسائی عرب نے جواب دیا اور یہ بتا کرکے یہ مقام ابوالقدس کتنی دور اورکہاں ہے، ابو عبیدہؓ کو بتایا۔’’دو تین دنوں بعد وہاں ایک میلہ شروع ہونے والا ہے۔اس میں دور دور کے تاجر بیچنے کیلئے مال لائیں گے۔بڑی قیمتی اشیاء کی دکانیں لگیں گی۔ بڑے دولت مندخریدار آئیں گے۔اگر آپ کو مالِ غنیمت چاہیے تو چھوٹا سا ایک دستہ بھیج کر سارے میلے کا مال سمیٹ لیں۔‘‘’’کیا اس میلے کی حفاظت کیلئے رومی فوج کا کوئی دستہ وہاں ہے؟‘‘ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔’’نہیں ہو گا۔‘‘عیسائی عرب نے جواب دیا۔’’میں یہ جانتاہوں کہ بحیرہ روم کے ساحلی شہر طرابلس میں رومی فوج موجود ہے۔ وہاں سے فوج اتنی جلدی ابوالقدس نہیں پہنچ سکتی۔آپ کیلئے میدان صاف ہے ۔‘‘وہ جانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا۔کہنے لگا۔’’ مجھے زیادہ دیر یہاں نہیں رکنا چاہیے۔‘‘وہ چلا گیا۔

ابو عبیدہؓ نے اس میلے کو موٹا اور آسان شکار سمجھا۔ انہوں نے اپنے مشیر سالاروں کو بلایا جن میں خالدؓ بھی شامل تھے۔ابو عبیدہؓ نے انہیں تفصیل سے بتایا کہ عیسائی عرب انہیں کیا بتا گیا ہے۔’’یہ مالِ غنیمت ہاتھ سے جانا نہیں چاہیے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ابوالقدس دشمن کا علاقہ ہے،اور اس دشمن کے ساتھ ہماری جنگ ہے۔جنگ کی صورت میں میلے پر ہمارا چھاپہ جائز ہے۔اس سے رومیوں پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔‘‘ابو عبیدہؓ نے باری باری سب کو دیکھا اور کہنے لگے۔’’تم میں کون اس چھاپہ مار کاروائی کیلئے جانا چاہتا ہے؟‘‘ ابو عبیدہؓ کی نظریں خالدؓ کے چہرے پر ٹھہر گئیں۔نظریں خالدؓ پر جما لینے کا مطلب یہی تھا کہ خالدؓ اپنے آپ کو اس چھاپہ کیلئے پیش کریں گے۔لیکن خالدؓ اس طرح خاموش بیٹھے رہے جیسے اس کام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ظاہر ہے ابو عبیدہؓ کو خالدؓ کی خاموشی اور بے رُخی سے بہت مایوسی ہوئی ہو گی۔انہیں یہ خیال بھی آیا ہو گا کہ خالدؓ کا یہ رویہ ان کی معزولی کا ردِ عمل ہے۔وہاں ایک نوجوان بھی موجود تھا۔اس کے چہرے پر داڑھی ابھی ابھی آئی تھی۔’’میں جاؤں گا۔‘‘یہ نوجوان بول اٹھا۔’’یہ فیصلہ سالارِ اعلیٰ کریں گے کہ میرے ساتھ کتنی نفری ہو گی۔‘‘ ’’کیا تو ابھی کم سن نہیں ابنِ جعفر!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔اور ایک بار پھر خالدؓکی طرف دیکھا۔مگر خالدؓ لاتعلق بیٹھے تھے۔’’امین الامت !‘‘نوجوان نے جواب دیا۔’’میں مدینہ سے آیا ہی کیوں ہوں۔میں کچھ کر کے دکھانا چاہتا ہوں۔کیا میرے بزرگ بھول گئے ہیں کہ میرے سر پر اپنے شہید باپ کا قرض ہے۔امین الامت میں کم سن ضرور ہوں لیکن اناڑی نہیں ہوں ۔بزدل نہیں ہوں۔کچھ سیکھ کر آیا ہوں۔ کیا میرے بزرگ میری حوصلہ شکنی کریں گے؟‘‘’’خداکی قسم ابنِ جعفر!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’تیری حوصلہ شکنی نہیں ہو گی،پانچ سو سواروں کا دستہ لے لے۔تو اس دستے کا سالار ہو گا۔‘‘ابو عبیدہؓ نے ایک کم سن لڑکے کو پانچ سو سواروں کا سالار غالباً یہ سوچ کر بنا دیا تھاکہ یہ چھاپہ نہایت آسان تھا وہاں پر کوئی فوج نہیں تھی جو ان سواروں کے مقابلے میں آتی۔یہ نوجوان کوئی عام سا لڑکا نہیں تھا۔ اس کا نام عبداﷲتھا اور وہ رسولِ کریمﷺکے چچا زاد بھائی جعفرؓ کا بیٹھا تھا۔جعفرؓ موتہ کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے

اس رات چاند پورا تھا۔شعبان کی پندرہ تاریخ تھی۔ عیسوی سن کے مطابق یہ ۱۴ اکتوبر ۶۳۴ء کی رات تھی۔نوجوان عبداﷲپانچ سو سواروں کو ساتھ لے کر رات میں روانہ ہوئے۔ان کے ساتھ عاشقِ رسولﷺ اور نامور مجاہد ابو ذر غفاریؓ بھی تھے۔یہ دستہ اس وقت روانہ کیا گیا تھا جب میلہ شروع ہو چکا تھا۔عبداﷲکا دستہ صبح طوع ہو چکی تھی جب وہاں پہنچا۔میلہ کیا تھا وہ تو خیموں شامیانوں اور قناطوں کا ایک گاؤں آباد تھا اور یہ گاؤں بہت ہی خوبصورت تھا۔دکانوں پر بڑا ہی قیمتی مال سجا ہوا تھا میلے کی رونق جاگ اٹھی۔عبداﷲنوجوان تھا وہ اپنے آپ کو اناڑی نہیں سمجھتا تھا لیکن اناڑی پن کا ہی مظاہرہ کیا۔سب سے پہلے انہیں ایک دو جاسوس یہ دیکھنے کیلئے بھیجنے چاہیے تھے کہ رومی فوج کا کوئی دستہ قریب کہیں وجود ہے یا نہیں،اور میلے میں جو لوگ آئے ہوئے ہیں وہ بہروپ میں رومی فوجی تو نہیں۔اس نے وہاں جاتے ہی حملے کاحکم دے دیا۔پانچ سو مسلمان سوار میلے کے اردگرد گھیرا ڈالنے لگے،اور اچانک کم و بیش پانچ ہزار رومی سوار جانے کہاں سے نکل آئے،اور وہ میلے اور مسلمان سواروں کو نرغے میں لینے لگے۔پانچ سو کا مقابلہ پانچ ہزار سے تھا اور صورت یہ پیدا ہو گئی تھی کہ مسلمان سوار گھیرے میں آگئے تھے۔ ان کی تباہی لازمی تھی۔یہ پانچ ہزار رومی سالار میلے کی حفاظت کیلئے وہاں قریب ہی موجود تھے۔انہیں معلوم تھا کہ مسلمان بہت تیز پیشقدمی کیا کرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان فوج اچانک آجائے اور میلے کو لوٹ لے۔مسلمان سوار رومی سواروں کے گھیرے سے نکلنے کیلئے گھوڑے دوڑا رہے تھے۔ لیکن کہاں پانچ سو اور کہاں پانچ ہزار ؟مسلمان جدھر جاتے تھے ادھر سے روک لیے جاتے تھے۔میلے میں بھگدڑ مچ گئی۔ لوگوں کی چیخ و پکار تھی۔دکاندار اپنامال سمیٹ رہے تھے،اور جن کے پاس رقمیں تھیں وہ بھاگ رہے تھے۔کئی ایک گھوڑوں تلے کچلے گئے۔مسلمان ہر میدان میں قلیل تعداد میں لڑے ہیں۔اس سے انہیں اپنے سے کئی گنا زیادہ لشکر سے لڑنے اور فتح یاب ہونے کا تجربہ تھا انہوں نے پانچ سو کی تعداد میں پانچ ہزار کا گھیرا توڑنے کی کوشش کی لیکن کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔انہوں نے کسی کی ہدایت کے بغیر ہی اپنے آپ کو گول ترتیب میں کر لیا اور رومیوں کا مقابلہ کرنے لگے۔عبداﷲلڑ سکتا تھا، اس خطرناک صورتِ حال میں اپنے سواروں کی قیادت نہیں کر سکتا تھا۔وہ سپاہیوں کی طرح بے جگری سے لڑ رہا تھا۔ ابوذرغفاریؓ بھی جان پر کھیل کر لڑ رہے تھے۔تمام سوار آگے بڑھ بڑھ کر رومیوں پر حملے کر رہے تھے،اور رومیوں کے حملے روکتے بھی تھے۔ان کی گول ترتیب اس طرح تھی کہ سب کے منہ باہر کی طرف تھے یعنی ان کا عقب تھا ہی نہیں۔جس پر دشمن کے حملے کا خطرہ ہوتا۔

رومیوں نے جب مسلمان کو اس انوکھی ترتیب میں دیکھا تو وہ سٹپٹائے اور آگے بڑھنے میں محتاط ہو گئے۔لیکن ان کی تعداد دس گنا تھی،اور وہ لڑناجانتے تھے۔ان کے محتاط ہونے سے صرف یہ فرق پڑا تھا کہ مسلمانوں کی تباہی تھوڑی سی دیر کیلئے ملتوی ہو گئی تھی۔یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ پانچ سو سوار پانچ ہزار سواروں کے نرغے سے زندہ نکل آتے۔یہ پانچ سو مجاہدین اپنے سالارِ اعلیٰ کی ایک خطرناک لغزش کی سزا بھگت رہے تھے۔ابو عبیدہؓ امین الامت تھے، زہدوتقویٰ میں بے مثال تھے۔ صحابہ کرامؓ میں ان کا مقام سب سے بلند تھا۔لیکن حکومت کرنے کیلئے اور فوج کی قیادت کیلئے اور جنگی امور اور کاروائیوں میں فیصلے کرنے کیلئے صرف ان اوصاف کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ اوصاف بعض حالات میں قوم اور فوج کو لے ڈوبتے ہیں۔ابو عبیدہؓ کی سادگی کا یہ اثر کہ انہوں نے ایک عیسائی پر اعتماد کیا اور محض مالِ غنیمت کی خاطر پانچ سو سواروں کو ایک نوجوان کی قیادت میں یہ معلوم کیے بغیر بھیج دیا کہ وہاں دشمن کی فوج موجود ہے یا نہیں۔ابو عبیدہؓ اپنے سالاروں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ دمشق فتح ہو چکا تھا،اگلی پیش قدمی کا منصوبہ تیار ہو رہا تھا،اور فوج آرام کر رہی تھی۔ایک گھوڑ سوار گھوڑا سر پٹ دوڑاتا ابو عبیدہؓ کے خیمے کے قریب آکر رکا ۔سوار کود کر اترا اور دوڑتا ہوا خیمہ میں داخل ہو گیا۔وہ ہانپ رہا تھا۔اس کے چہرے پر گرد کی تہہ جمی ہوئی تھی۔سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔’’سالارِ اعلیٰ !‘‘ اس نے ابو عبیدہؓ کو مخاطب کیا۔’’وہ سب مارے جا چکے ہوں گے،وہ گھیرے میں آئے ہوئے ہیں۔‘‘’’کون؟ ‘‘ابو عبیدہؓ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔’’کس کی بات کر رہے ہو؟کون کس کے گھیرے میں آیا ہوا ہے؟‘‘’’ابوالقدس!‘‘سوار نے کہا۔’’ابو القدس کے پانچ سو سواروں کی بات کررہا ہوں……ان کی مدد کو جلدی پہنچیں۔ایک بھی زندہ نہیں رہے گا۔‘‘جن مؤرخوں نے یہ واقعہ لکھا ہے ان سب نے لکھا ہے کہ یہ واحد سوار تھا جو میلے میں بھگدڑ مچ جانے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رومیوں کے گھیرے سے نکل آیا تھا۔ابھی گھیرا مکمل نہیں ہوا تھا۔اس مجاہد نے اندازہ کر لیا تھا کہ اس کے ساتھیوں کا کیا انجام ہو گا۔اس نے انتہائی تیز رفتار سے گھوڑا دوڑایا اور دمشق پہنچا تھا۔اس نے بڑی تیزی سے بولتے ہوئے تفصیل سے بتایا کہ ابو القدس کے میلے میں کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے۔ابو عبیدہؓ کا رنگ زرد ہو گیا۔انہوں نے خالدؓکی طرف دیکھا۔خالدؓ کے چہرے پر پریشانی کا گہرا تاثر تھا۔’’ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے التجا کے لہجے میں کہا۔’’اﷲکے نام پر ابو سلیمان!تیرے سوا انہیں گھیرے سے اور کوئی نہیں نکال سکتا۔جاؤ فوراً جاؤ۔

’’اﷲ کی مدد سے میں ہی انہیں گھیرے سے نکالوں گا۔‘‘خالدؓنے جوش سے اٹھتے ہوئے کہا۔’’میں تیرے حکم کے انتظار میں تھا امین الامت!‘‘’’مجھے معاف کر دینا ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’میں نے تیری نیت پر شک کیا تھا۔اس لیے حکم نہ دیا۔میرا خیال تھا کہ معزولی نے تیرے اوپر بہت برا اثر کیا ہے۔‘‘’’خدا کی قسم! مجھ پر ایک بچے کو سالارِ اعلیٰ مقرر کر دیا جائے گا تو میں اس کا بھی مطیع رہوں گا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’مجھے تو رسول اﷲ ﷺ کے امین الامت نے کہا ہے۔کیا میں ایسے گناہ کی جرات کر سکتا ہوں کہ تیرا حکم نہ مانوں؟میں تو تیرے قدموں کی خاک کی برابری بھی نہیں کر سکتا……اور بتا دے سب کو کہ ابو سلیمان ابن الولید نے اپنی زندگی اسلام کیلئے وقف کر دی ہے۔‘‘مورخ واقدی لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے،اور وہ کچھ دیر ابن الولیدؓ کو دیکھتے رہے۔’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’جا ابو سلیمان! اپنے بھائیوں کی جانیں بچا۔‘‘تاریخوں میں ایسی تفصیلات نہیں ملتیں کہ خالدؓ اپنے ساتھ کتنے سَو یا کتنے ہزار سوار لے کر گئے تھے۔باقی حالات مختلف تاریخوں میں بیان کیے گئے ہیں۔خالدؓنے برہنہ مجاہد ضرار بن الازور کو ساتھ لے لیا تھا اور ان دونوں کے پیچھے مسلمان رسالہ سر پٹ گھوڑے دوڑاتا جا رہا تھا۔خالدؓ اور ضرار تو گھرے ہوئے مجاہدین کی مدد کو چلے گئے ، پیچھے ابو عبیدہؓ کی حالت بگڑ گئی۔’’اﷲ، اﷲ، اﷲ! ‘‘وہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر گڑگڑانے لگے۔’’خلیفۃ المسلمین عمر نے مجھے لکھا تھا کہ مالِ غنیمت کے لالچ میں مجاہدین کو ایسی مشکل میں نہ ڈالنا کہ ان کی جانیں ضائع ہو جائیں۔عمر نے لکھا تھا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے دیکھ بھال کر لینا……مجھے معاف کر دینا اﷲ! مجھ سے یہ کیا فیصلہ ہوا ہے۔میں نے ایک عیسائی کی بات کو سچ مانا اور میں نے ایک کمسن لڑکے کو پانچ سو سواروں کی کمان دے دی اور اسے اتنابھی نہ کہا کہ وہ اپنے دستے کو دور روک کر ہدف کی دیکھ بھال ضرور کرلے۔‘‘ابو عبیدہؓ کے رفیق سالار انہیں تسلیاں دیتے رہے لیکن ابو عبیدہؓ نے جو پانچ سو قیمتی سواروں کو اپنی لغزش کی بھٹی میں جھونک دیا تھا اس پر وہ مطمئن نہیں تھے۔خالدؓ اور ضرار اپنے سواروں کے ساتھ انتہائی رفتار سے ابوالقدس پہنچ گئے۔وہاں مجاہدین کی حالت بہت بری تھی۔خالدؓ کے حکم سے ان کے سواروں نے تکبیر کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ان نعروں سے ان کا مقصد یہ تھا کہ گھیرے میں آئے ہوئے مسلمان سواروں کی حوصلہ افزائی ہو۔ اور رومیوں پر دہشت طاری ہو۔اس کے بعد خالدؓ نے اپنانعرہ بلند کیا:
انا فارس الضدید
انا خالد بن الولید
رومیوں نے پہلے معرکوں میں یہ نعرہ سنا تھا۔اس نعرے کے ساتھ ہی مسلمانوں نے انہیں جس حالت میں کاٹا اور بھگایا تھا، اسے تو وہ باقی عمر نہیں بھول سکتے تھے۔رومی سوار اپنے نرغے میں لیے ہوئے مسلمانوں کو تو بھول ہی گئے۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

خالدؓ نے اپنے سواروں کو پھیلا کر برق رفتار حملہ کرایا تاکہ رومیوں کو آمنے سامنے کی لڑائی کی ترتیب میں آنے کی مہلت ہی نہ ملے۔خالدؓ کو اپنی ایک کمزوری کا احسا س تھا۔وہ دمشق سے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے ابو القدس تک پہنچے تھے۔گھوڑے تھک گئے تھے۔ان کے جسموں سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔خالدؓ کی کوشش یہ تھی کہ رومیوں کو جلدی بھگایا جائے ورنہ گھوڑے جواب دے جائیں گے۔ضرار بن الازور نے اپناوہی کمال دکھایا جس پر وہ رومیوں میں مشہور ہو گئے تھے۔انہوں نے اپنی خود ، زرہ، اور اپنی قمیض بھی اتار پھینکی، اور رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔رومی سوار اتنی آسانی سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔وہ اپنے نرغے میں لیے ہوئے مسلمان سواروں میں سے کئی ایک کو شہید اور زیادہ ترکو شدید زخمی کر چکے تھے،ان میں سے جو بچ گئے تھے، انہیں خالدؓ کے آجانے سے نیا حوصلہ ملا۔رومی خالدؓ اور ضرار کے سواروں کے مقابلے کیلئے مُڑے تو پیچھے سے ان بچے کچھے سواروں نے ان پر ہلہ بول دیاجو کچھ دیر پہلے تک ان کے نرغے میں آئے ہوئے تھے۔معرکہ خونریز اور تیز تھا۔اب رومی گھیرے میں آگئے تھے۔ان کی تعداد زیادہ تھی۔وہ سکڑتے تھے تو ان کے گھوڑوں کو کھل کر حرکت کرنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔مسلمان سواروں نے انہیں بری طرح کاٹا اور زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ رومی سوار معرکے سے نکل نکل کر بھاگنے لگے۔آخر وہ اپنی بہت سی لاشوں اور شدید زخمیوں کو پیچھے چھوڑکر بھاگ گئے۔ان مسلمان سواروں کا جانی نقصان کم نہ تھا جو رومیوں کے گھیرے میں لڑتے رہے تھے۔خالدؓنے حکم دیا کہ میلے کا سامان اکٹھا کیا جائے۔انہوں نے بہت سے مجاہدین کو زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے پر لگا دیا۔خالدؓ کی اپنی یہ حالت تھی کہ ان کے جسم پر کئی زخم آئے تھے اور ان کے کپڑے خون سے سرخ ہو گئے تھے۔انہیں ان زخموں کی جیسے پرواہ ہی نہیں تھی۔زخم خالدؓ کیلئے کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ان کے جسم پر اس وقت تک اتنے زخم آچکے تھے کہ مزید زخموں کی جگہ ہی نہیں تھی۔خالدؓ واپس دمشق آئے۔وہ جو مالِ غنیمت ساتھ لائے تھے وہ بہت زیادہ اور قیمی تھا۔زخمی ہو کر گرنے والے اور مرنے والے رومیوں کے سینکڑوں گھوڑے بھی ان کے ساتھ تھے مگر اس مالِ غنیمت کیلئے بڑی قیمتی جانوں کی قیمت دی گئی تھی۔ ابو عبیدہؓ کو اس جانی نقصان پر بہت افسوس تھا۔البتہ انہیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ خالدؓ نے اپنے خلاف یہ شک دور کر دیاتھا کہ معزولی کی وجہ سے ان میں پہلے والی دلچسپی اور جوش و خروش نہیں رہا۔خالدؓنے اپنا جسم زخمی کراکے یہ ثابت کر دیاتھا کہ معزولی کا ان پر ذرا سا بھی اثر نہیں ہوا۔ابو عبیدہؓ نے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ خلافت کیلئے مدینہ بھیجا، اور اس کے ساتھ عمرؓ کو پوری تفصیل بھی لکھی کہ انہوں نے کیا کاروائی کی تھی۔اس سے کیا صورتِ حال پیدا ہوئی اور خالدؓ نے کیا کارنامہ کیا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کی بے تحاشہ تعریف لکھی۔

ہر محاذسے اور ہر میدان سے رومی پسپا ہو رہے تھے۔رومیوں کا شہنشاہ ہرقل انطاکیہ میں تھا۔اس کے ہاں جو بھی قاصد آتا تھا وہ ایک ہی جیسی خبر سناتا تھا:’’اس قلعے پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔‘‘’’فلاں میدان سے بھی اپنی فوج پسپا ہو گئی ہے۔‘‘’’مسلمان فلاں طرف پیشقدمی کر گئے ہیں۔‘‘’’ہمارے فلاں شہر کے لوگوں نے مسلمانوں کو جزیہ دینا قبول کر لیا ہے۔‘‘ہر قل کے کانوں میں اب تک کوئی نئی بات پڑی ہی نہیں تھی۔نیند میں بھی وہ یہی خبریں سنتا ہو گا۔اس کے وزیر مشیر اور سالار وغیرہ اب اس کے سامنے کوئی شکست کا پیغام لے کر جانے سے ڈرتے تھے۔لیکن انہیں اس کے سامنے جانا پڑتا تھا اور اس کے ساتھ شکست کی باتیں کرنی اور سننی پڑتی تھیں۔وہ انطاکیہ کی ایک شام تھی۔انطاکیہ کی شامیں حسین ہوا کرتی تھیں۔یہ شہر سلطنتِ روما کا ایک اہم اور بارونق شہر تھا۔روم کے اعلیٰ حکام، امراء اور وزراء یہاں رہتے تھے۔اب تو کچھ عرصے سے شہنشاہِ روم ہرقل نے اسے عارضی دارالحکومت اور فوجی ہیڈ کوارٹر بنا لیا تھا۔رومی جنگجو تھے۔اُس دور میں ان کی سلطنت دنیا کی سب سے وسیع اورمستحکم سلطنت تھی۔استحکام کی وجہ یہ تھی کہ روم کی فوج مستحکم تھی۔اسلحہ کی برتری اور نفری کی افراط کے لحاظ سے یہ فوج اپنے دشمنوں کیلئے دہشت ناک تھی۔اس فوج نے اور اس کے سالاروں اور دیگر اعلیٰ حکام نے انطاکیہ کو پر رونق شہر بنا رکھا تھا۔عیش و عشرت کا ہرسامان موجود تھا۔وہاں قحبہ خانے تھے۔رقص اور نغمے تھے اور وہاں نسوانی حسن کی چلتی پھرتی نمائش لگی رہتی تھی۔وہاں شامیں مسکراتی اور راتیں جاگتی تھیں لیکن اب انطاکیہ کی شامیں اداس ہو گئی تھیں۔ فوجی یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ جب کوئی نیا دستہ آتا تھا تو قحبہ خانوں کی رونق بڑھ جاتی تھی اور چلتی پھرتی طوائفوں میں اضافہ ہو جاتا تھا۔مگر انطاکیہ میں باہر سے جو فوجی آتے تھے وہ زخمی ہوتے تھے، اور جو زخمی نہیں ہوتے تھے ان کے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی ہوتی تھی،ہر فوجی شکست کی تصویر بناہوتا تھا۔ان کی چال میں اور ان کے چہروں پر شکست صاف نظر آتی تھی۔ غیر عورتیں ان کے قریب کیوں آتیں، ان کی اپنی بیویاں انہیں اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتی تھیں۔ان رومی فوجیوں نے روم کی جنگی روایات کو توڑ دیا تھا،قیصرِ روم کی عظمت کو پامال کر دیا تھا۔انطاکیہ میں جو رومی عورتیں تھیں، انہوں نے ہرقل کو بھی نہیں بخشا تھا،وہ شام انطاکیہ کی ایک افسردہ شاموں میں سے ایک شام تھی۔ہرقل شاہی بگھی پر کہیں سے آرہا تھا۔اس کے آگے آٹھ گھوڑے شاہانہ چال چلتے آرہے تھے۔ان کے سوار ہرقل کے محافظ تھے۔ان سواروں کی شان نرالی تھی۔ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں جن کی انیاں اوپر کو تھیں ، اور ہر برچھی کی انی سے ذرا نیچے ریشمی کپڑے کی ایک ایک جھنڈی تھی۔بگھی کے پیچھے بھی آٹھ دس گھوڑ سوار تھے۔ایک شور اٹھا۔’’ شہنشاہ کی سواری آرہی ہے۔‘‘لوگ اپنے شہنشاہ کو دیکھنے کیلئے راستے کے دونوں طرف کھڑے ہو گئے ان میں عورتیں بھی تھیں۔عورتیں عموماً اپنے دروازوں کے سامنے یا منڈیروں پر کھڑی ہو کر اپنے شہنشاہ کو گزرتا دیکھا کرتی تھیں لیکن اس شام چند ایک عورتیں ہرقل کے راستے میں آگئیں۔اگلے دو سوار محافظوں نے گھوڑے دوڑائے اور عورتوں کو راستے سے ہٹانے لگے۔لیکن عورتیں غل مچانے لگیں کہ وہ اپنے شہنشاہ سے ملنا چاہتی ہیں۔دواور سوار آگے بڑھے کیونکہ عورتیں پیچھے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ہرقل کی بگھی ان تک پہنچ گئی۔وہ عورتوں کو دیکھ رہا تھا۔اس نے بگھی رکوالی اور اُتر آیا۔’’چھوڑ دو انہیں۔‘‘ہرقل نے گرج جیسی آواز میں کہا۔’’انہیں مجھ تک آنے دو۔‘‘وہ آگے گیا،اور عورتوں نے اسے گھیر لیا۔وہ سب بول رہی تھیں۔

’’میں کچھ نہیں سمجھ رہا۔‘‘ہرقل نے بلند آواز سے کہا۔’’کوئی ایک بولو، میں سنوں گا۔‘‘’’شہنشاہِ روم!‘‘ ایک عورت بولی۔’’توکچھ نہیں سمجھے گا۔‘‘’’جس نے سلطنتِ روم کی تباہی برداشت کرلی ہے وہ غیرت والی عورت کی بات نہیں سمجھے گا۔‘‘ایک اور عورت نے کہا۔’’ہم سب رومی ہیں۔ہم مقامی نہیں۔یہاں کی عورتیں تیرے راستے میں نہیں آئیں گی۔رومی چلے جائیں، عرب کے مسلمان آجائیں، انہیں کیا! بے عزتی تو ہماری ہو رہی ہے۔ بے عزتی روم کی ہو رہی ہے۔‘‘’’اب آگے بولو۔‘‘ ہرقل نے کہا۔’’جوکہنا ہے وہ کہو۔‘‘’’کیا تو نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تو نے ہمیں مسلمانوں کے حوالے کرناہے؟‘‘ایک عورت نے کہا۔’’اس کے سوا اور کوئی بات کانوں میں نہیں پڑتی کہ فلاں شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے اور وہاں کی رومی عورتیں مسلمانوں کی لونڈیاں بن گئی ہیں۔‘‘’’ہماری فوج لڑنے کے قابل نہیں رہی تو ہمیں آگے جانے دے۔‘‘ایک اور عورت نے کہا۔’’گھوڑے برچھیاں اور تلواریں ہمیں دے دے۔‘‘’’جس فوج سے فارسی بھی ڈرتے تھے۔‘‘ایک اور بولی۔’’وہ فوج اب ڈرے ہوئے، زخمی اور بھگوڑے سپاہیوں کا ہجوم بن گئی ہے۔‘‘’’یہاں اب روم کا جو بھی فوجی آتا ہے کسی نہ کسی قلعے یا میدان سے بھاگا ہوا آتا ہے۔‘‘ایک اور عورت نے کہا۔ہرقل کے محافظ ڈر رہے تھے کہ شہنشاہِ روم کا عتاب ان پر گرے گا کہ وہ چند ایک عورتوں کو اس کے راستے سے نہیں ہٹا سکے۔تماشائی اس انتظار میں تھے کہ ہرقل ان تمام عورتوں کو گھوڑوں تلے کچل دینے کا حکم دے گا لیکن ہرقل خاموشی سے ، تحمل اور بردباری سے عورتوں کے طعنے سن رہا تھا۔شاید اس لئے کہ وہ مقامی نہیں رومی عورتیں تھیں۔’’ہماری فوج بزدل ثابت ہوئی ہے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں بزدل نہیں ہو گیا۔شکست کھا کر جو بھاگ آئے ہیں وہ پھر لڑیں گے ۔میں نے شکست کو قبول نہیں کیاہے۔‘‘’’پھر ہمارا شہنشاہ کیا سوچ رہا ہے؟‘‘ایک عورت نے پوچھا۔’’تم جلد ہی سن لو گی۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں زندہ ہوں۔میں جو سوچ رہا ہوں وہ کر کے دکھاؤں گا۔فتح اور شکست ہوتی ہی رہتی ہے۔وہ قوم ہمیشہ دوسروں کی غلام رہتی ہے جو شکست کو تسلیم کر لیتی ہے۔میں تمہیں کسی کا غلام نہیں بننے دوں گا،مسلمانوں نے جہاں تک آنا تھا وہ آچکے ہیں۔اب میری باری ہے۔وہ میرے پھندے میں آگئے ہیں۔اب وہ زندہ واپس نہیں جائیں گے۔انہوں نے جو لیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ دیں گے……میرے لیے دعا کرتی رہو، تم بہت جلد خوشخبری سنو گی……اور تم اپنے خاوندوں کے، اپنے بھائیوں کے، اپنے باپوں کے، اور اپنے بیٹوں کے حوصلے بڑھاتی رہو۔‘‘’’ہم ان پر اپنے گھروں کے دروازے بند کر دیں گی۔‘‘ایک عورت نے کہا۔’’تم انہیں گلے لگاؤ گی۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’اب وہ فاتح بن کر تمہارے سامنے آئیں گے۔‘‘عورتوں نے اپنے شہنشاہ کوراستہ دے دیا۔

ہرقل نے ان عورتوں کی محض دل جوئی نہیں کی تھی، مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ شکست تسلیم کرنے والا جنگجو تھا ہی نہیں، اور وہ شہنشاہ بعد میں اور سپاہی پہلے تھااور وہ اپنے دور کا منجھا ہوا جرنیل تھا۔یہ کہنا غلط نہیں کہ وہ خالدؓ کی ٹکر کا جرنیل تھا اور جنگی چالوں میں اس کی مہارت کا انداز اپنا ہی تھا۔اگر وہ صرف شہنشاہ ہوتا تو اپنی سواری کے راستے میں ان عورتوں کی رکاوٹ کو برداشت نہ کرتا۔ انہیں سزا دیتا لیکن اس نے ان عورتوں سے حوصلہ لیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔اس نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ کسی طرف سے شکست کی اور اس کی فوج کی پسپائی کی اطلاع آتی تھی تو اس کے حکام اس کے سامنے آنے سے گریز کرتے تھے۔ایسا ہی ایک موقع تھا کہ اس کا ایک سالار جو مشیر کی حیثیت سے اس کے ساتھ رہتا تھا۔اس کے سامنے گیا۔اس سالار کے چہرے پر مایوسی کا جو تاثر تھا وہ ہرقل نے بھانپ لیا۔’’کیا ہے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’مرج الدنیاج سے قاصد آیا ہے۔‘‘سالار نے کہا۔’’تو کہتے کیوں نہیں کہ وہ ایک اور پسپائی کی خبر لایا ہے۔‘‘ہرقل نے جوشیلے لہجے میں کہا۔’’اپنے دلوں سے میرا خوف نکالتے کیوں نہیں؟شکست اور پسپائی کے نام سے گھبراتے کیوں ہو؟……بولو؟‘‘’’ہاں شہنشاہ!‘‘سالار نے کہا۔’’قاصد پسپائی کی خبر لایا ہے……اور وہاں سے بھاگے ہوئے سپاہی یہاں آنا شروع ہو گئے ہیں۔‘‘’’آنے دو انہیں!‘‘ ہرقل نے ایسے لہجے میں کہا جس میں غصہ نہیں تھا، اور اس کے لہجے میں شاہانہ جلال بھی نہیں تھا۔’’ان کا حوصلہ بڑھاؤ، کوئی انہیں شکست اور پسپائی کا طعنہ نہ دے۔یہی سپاہی شکست کو فتح میں بدلیں گے۔‘‘’’سپاہیوں کا حوصلہ تو بحال ہو جائے گا۔‘‘سالار نے کہا۔’’لیکن لوگوں کا حوصلہ ٹوٹتا جا رہا ہے۔لوگ مسلمانوں کو جنات اور بھوت سمجھنے لگے ہیں، ایسی افواہیں پھیل رہی ہیں جو لوگوں کو بزدل بنا رہی ہیں۔‘‘’’جانتے ہو یہ افواہیں کون پھیلا رہا ہے؟‘‘ہرقل نے کہا۔’’ہمارے اپنے سالار، کماندار، اور سپاہی۔ یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ تو بے جگری سے لڑتے تھے لیکن ان کا مقابلہ جنات سے ہو گیا۔‘‘’’شہنشاہِروم!‘‘سالار نے کہا۔’’مسلمانوں کی کامیابی کی ایک اور وجہ بھی ہے……ہمارے جس شہر کے لوگ ان سے صلح کا معاہدہ کرلیتے اور جزیہ ادا کرتے ہیں، ان کے ساتھ مسلمان بہت اچھا سلوک کرتے ہیں۔ان کی عورتوں اور ان کی جوان لڑکیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ان کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں، ان کے مذہب کا بھی احترام کرتے ہیں، یہ خبریں سارے علاقے میں پھیل جاتی ہیں، اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ دوسری جگہوں کے لوگ بھی فوج کا ساتھ چھوڑ دیتے اور اسے صلح پر مجبور کردیتے ہیں…… اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے۔‘‘’’اس کا علاج صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دے کر ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’ اور اس کا بندوبست ہو رہا ہے۔‘‘

ابوالقدس میں ہرقل کو جو چوٹ پڑی تھی، اس نے اسے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔اسے اس معرکے کی تفصیلی اطلاع ملی تھی، ابو عبیدہؓ ایک غلطی کر بیٹھے تھے۔رومی خوش تھے کہ مسلمانوں کا ایک دستہ تو پھندے میں آیا لیکن خالدؓاور ضرار نے بروقت پہنچ کر نہ صرف رومیوں کا پھندہ توڑ ڈالا تھا، بلکہ انہیں ناقابل تلافی جانی نقصان پہنچا کر مالِ غنیمت سے مالامال ہو کر لوٹے تھے۔ہرقل کو مسلمانوں کی برق رفتاری نے پریشان کر دیا تھا۔اس نے دیکھا تھا کہ مسلمانوں کی فوج ایک سے دوسری جگہ حیران کن تیزی سے پہنچتی تھی اور میدانِ جنگ میں سالاروں کی جنگی چالوں پر ان کے دستے بہت ہی تیزی سے جگہ بدلتے اور چالوں کو کامیاب کرتے تھے۔اس کے بعد تو جیسے ہرقل نے راتوں کو سونا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اس نے اسی روز اپنی سلطنت کے دور دراز گوشوں تک قاصد دوڑا دیئے تھے۔اس نے حکم یہ بھیجاتھا کہ زیادہ سے زیادہ فوجی دستے انطاکیہ بھیج دیئے جائیں، وہ سلطنت کی تمام تر فوج تو اکٹھی نہیں کر سکتا تھا، ہر جگہ فوج کی ضرورت تھی۔اس نے اتنے دستے مانگے تھے جن کے آجانے سے کسی بھی جگہ کا دفاع کمزور نہیں ہوتا تھا۔جن علاقوں سے دستے آئے، ان میں شمالی شام، یورپ کے چند شہر، اور جزیرے شامل تھے۔ہرقل نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ دستے بہت تیزی سے آئیں۔جب یہ آنے لگے تو ان میں سے بعض کو انطاکیہ میں رکھا گیا اور دوسروں کو دریائے اردن کے مغربی کنارے سے ذرا ہی دور ایک مقام بیسان پر بھیج دیاگیا۔ہرقل نے اپنے مشیروں اور سالاروں کو بلایا۔ ان میں سقلار، شنس، اور تھیوڈورس خاص طور پر قابلِ ذکر تھے ان تینوں کو محاذوں سے بلایا گیا تھا۔ہرقل نے ان سب کو بتایا کہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کیلئے اس نے کیا بندوبست کیا ہے اور سالاروں نے کیا کرنا ہے۔’’تم نے دیکھ لیا ہے کہ مسلمان کس طرح لڑتے ہیں۔‘‘اس نے کہا۔’’شکست اور پسپائیوں سے تمہیں بد دل نہیں ہونا چاہیے۔ان سے تمہیں تجربہ حاصل ہوا ہے۔اگر تم نے کچھ نہیں سیکھا تو تمہارے لیے یہی اک راستہ ہے۔ جاؤ اور مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلو۔ قیصرِ روم کی عظمت کو مسلمانوں کے قدموں میں ڈال دو اور صلیب کو بحیرہ روم میں پھینک کر مسلمانوں کے مذہب میں داخل ہو جاؤ۔تمہیں اپنی جانیں اپنی بیویاں اور اپنے مال و اموال زیادہ عزیز ہیں۔اسی کانتیجہ ہے کہ عرب کے لٹیروں کا ایک گروہ تمہیں شکست پہ شکست دیتا چلاجا رہاہے۔‘‘سب پر سناٹا طاری ہو گیا۔ہرقل کی نگاہیں ہر ایک پر گھوم گئیں۔’’شہنشاہِ روم!‘‘ اس کے سالار تھیوڈورس نے سکوت توڑا۔’’ہم پیچھے ہی نہیں ہٹتے آئیں گے۔میں اپنے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ میں آپ کے سامنے زندہ آیا تو شکست کھاکر نہیں آؤں گا۔اگر میں نے شکست کھائی تو میری لاش بھی یہاں نہیں آئے گی۔‘‘اس ایک سالار کے بولنے سے نہ صرف سناٹا ٹوٹا بلکہ سب میں جو تناؤ پیدا ہو گیا تھا وہ بھی ٹوٹ گیا۔سب نے ہرقل کو یقین دلایا کہ انہیں سلطنت روم سے زیادہ اور کوئی چیز عزیز نہیں -

’’میں نے مسلمانوں کو یہیں پر ختم کرنے کیلئے جو بندوبست کیا ہے وہ ناکام نہیں ہو سکتا۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’اب تک ہماری فوج مختلف جگہوں پر بٹ کر لڑتی رہی ہے۔ ایک جگہ سے ہمارے فوجی بھاگے تو انہوں نے دوسری جگہ جاکر وہاں کے دستوں میں بددلی پھیلائی اور اپنے آپ کوشکست کے الزام سے بچانے کیلئے ایسی باتیں کیں جن سے وہاں کے دستوں پر مسلمانوں کی دہشت بیٹھ گئی۔اب میں فوج کو یکجا کرکے لڑاؤں گا……‘‘’’تم نے دیکھا ہے کہ میں نے کہاں کہاں سے دستے منگوائے ہیں اور کس قدر لشکر جمع ہو گیا ہے۔میری نظر دمشق پر ہے لیکن ہم دمشق پر حملہ نہیں کریں گے نہ اس کا محاصرہ کریں گے۔ہم دمشق سے دور چھوٹی چھوٹی لڑائیاں زیادہ نفری کے دستوں سے لڑاکر مسلمانوں کے رسد کے وہ راستے بند کردیں گے جو عرب سے دمشق کو جاتے ہیں۔ ہم دمشق میں یا اس کے گردونواح میں کوئی لڑائی نہیں لڑیں گے، بلکہ مسلمان تنگ آکر لڑنا بھی چاہیں گے تو ہم انہیں نظر انداز کریں گے۔ہم ان کے لئے ایسے حالات پیدا کردیں گے کہ وہ لڑنے کے قابل رہ ہی نہیں جائیں گے۔انہیں نہ کہیں سے رسد پہنچ سکے گی نہ کمک۔شہر کے لوگ ہی قحط سے تنگ آکر انہیں شہر چھوڑنے پر مجبور کردیں گے۔اگر وہ دمشق سے نکل گئے تو ہم کہیں بھی ان کے قدم جمنے نہ دیں گے۔یہ بھی خیال رکھو کہ ہماری فوجوں کا اجتماع ایسے خفیہ طریقہ سے ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کو اس کی خبر تک نہیں ہو گی۔‘‘ہرقل کا تو خیال تھا کہ اس کے لشکر کا اجتماع خفیہ رکھا گیاہے لیکن مسلمانوں کے سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ کے ساتھ خالدؓتھے۔خالدؓ نے نہایت مضبوط اور تیز جاسوسی نظام ترتیب دیا تھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓ بن ولید کو سوار دستے کا سالار بنا رکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی انہیں اپنا مشیر بھی سمجھتے تھے۔مؤرخوں کے مطابق ابو عبیدہؓ سالاری کی مہارت رکھتے تھے اور جنگی امور کو بھی پوری طرح سمجھتے تھے لیکن ان میں وہ تیز رفتاری نہیں تھی جو خالدؓ میں تھی۔خالدؓ اپنے فیصلوں میں بڑے خوفناک قسم کے خطرے بھی مول لے لیا کرتے تھے۔اس کے برعکس ابو عبیدہؓ احتیاط کے قائل تھے۔اپنی اس عادت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے خالدؓ کو ہر لمحہ اپنے ساتھ رکھا۔وہ کوئی بھی منصوبہ بناتے یا فیصلہ کرتے تھے تو اس میں خالدؓ کے مشوروں کو خاص طور پر شامل کیاکرتے تھے۔ خالدؓ جاسوسی اور دیکھ بھال کے نظام پر زیادہ توجہ دیاکرتے تھے۔اب یہ ان کی ذمہ داری نہیں رہی تھی کیونکہ یہ ذمہ داری سالارِ اعلیٰ کی تھی، اور خالدؓدوسرے سالاروں کی طرح ایک عام سالار تھے، لیکن اپنی معزولی کے باوجود وہ اپنے فرائض سے بے انصافی گوارا نہیں کرتے تھے۔انہوں نے جاسوسی کے نظام پر پہلے کی طرح توجہ دیئے رکھی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمان جاسوس رومیوں کی سلطنت کے اندردور تک چلے گئے تھے۔

ایک روز ایک جاسوس آیا۔وہ بہت دور سے آیا تھا۔اس نے بتایا کہ رومیوں کاایک لشکر بحیرہ روم کے راستے کشتیوں پر آیا ہے۔اس جاسوس نے اپنے ان جاسوسوں سے رابطہ کیا جو اور آگے تک گئے ہوئے تھے۔وہ ان سب کی اطلاع لے کر بڑی ہی تیز رفتار سے دمشق پہنچااور یہ اطلاع دی کہ رومیوں نے کم و بیش ایک لاکھ نفری کا لشکر دریائے اردن کے مغرب میں جمع کر لیا ہے۔تاریخ کے مطابق بیسان کے مقام پر دسمبر ۶۳۴ء کے آخری اور ذیعقد ۱۳ ھ کے پہلے ہفتے میں رومیوں کی فوج کا یہ اجتماع ہوا تھا۔جاسوس نے اپنے اندازے کے مطابق اس لشکر کی تعداد ایک لاکھ بتائی تھی اصل میں رومی فوج کی تعداد اسّی ہزار تھی۔اتنی بڑی تعداد اکٹھی کرنے کا مطلب یہی لیا جا سکتا تھا کہ رومی بہت بڑی جنگی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا۔’’میرے عزیز ساتھیو!‘‘ ابو عبیدہؓ نے سالاروں سے کہا۔’’تم پر اﷲکی رحمت ہو۔شکر ادا کرو اﷲکی ذاتِ باری کا جس نے ہمیں ہر میدان میں فتح عطا کی ……میں تمہیں احساس دلانا چاہتا ہوں کہ ہم اتنی دور نکل آئے ہیں جہاں سے ہماری واپسی ناممکن ہو گئی ہے۔ا ﷲنے ہمیں بہت سخت امتحان میں ڈالا ہے۔اگرہم اس امتحان میں پورے اترے تو یہ ایک روایت بن جائے گی جو ہمارے آنے والی نسلوں کیلئے مشعلِ راہ بنے گی۔مت بھولنا کہ ہم نہ مالِ غنیمت کیلئے لڑ رہے ہیں، نہ ہمارا مقصد اقتدار ہے۔ اﷲاور اسکے رسول  ﷺ نے ہمیں بنی نوع انسان کو ظلمت اور غلامی سے نجات دلانے کا فرض سونپا ہے،اب دشمن نے ہمارے سامنے دیواریں کھڑی کر دی ہیں……‘‘’’رومی کم و بیش ایک لاکھ کا لشکر لے کر آئے ہیں۔اس سے ان کے عزائم کا پتہ چلتا ہے۔جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اور یہی ہو سکتا ہے کہ رومی دمشق پر حملہ کریں گے۔اگر دمشق ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر کہیں قدم جمانا ہمارے لیے مشکل ہو جائے گا۔دشمن نے بحیرہ روم سے انطاکیہ، بیروت اور ایک دو اور بندرگاہوں پر یورپ سے فوج لا اتاری ہے۔ہمیں سب سے پہلے دمشق کے دفاع کو مضبوط کرنا ہے لیکن ہم ایک ہی جگہ پر جمع نہیں ہو جائیں گے۔’’ہماری تعداد اس وقت کتنی ہوگی؟‘‘ایک سالار نے پوچھا۔ابو عبیدہؓ نے خالدؓکی طرف دیکھا۔’’ہماری تعداد پہلے سے کچھ زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’پچھلی لڑائیوں میں جو مجاہدین زخمی ہوئے تھے وہ الحمدﷲصحت یاب ہوکرواپس آچکے ہیں۔میرے اندازے کے مطابق ہماری نفری تیس ہزار تک ہو جائے گی۔ہمیں ایک سہولت اور حاصل ہو گئی ہے وہ یہ ہے کہ مجاہدین نے کافی آرام کر لیا ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے اور خالدؓ نے مل کر منصوبہ تیار کیا کہ رومیوں کے اس لشکر کا مقابلہ کس طرح کیا جائے گا۔

امیر المومنین عمرؓ نے محاذ پرلڑنے والے سالاروں پر یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ کسی بڑی جنگ کا منصوبہ بنا کر ان سے منظور کرایا جائے۔عمرؓ غیر معمولی فہم و فراست کے مالک تھے۔بعض جگہوں کی پلاننگ وہ خود مدینہ بیٹھ کر کرتے اور محاذ کو بھیجتے تھے۔ابو عبیدہؓ نے اس پابندی کے مطابق ایک تیز رفتار قاصد مدینہ کو روانہ کر دیا۔ اسے جو پیغام دیا گیا اس میں نئی صورتِ حال لکھی گئی تھی اور مجوزہ منصوبہ بھی تحریر تھا۔وقت بہت تھوڑا تھا۔دشمن بے تحاشا نفری ساتھ لایا تھا۔کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا کہ کس لمحے وہ کیا کارروائی شروع کرد ے، لیکن مسلمانوں نے پیغام رسانی کا نظام اتنا تیز اور محفوظ بنا رکھا تھا کہ تھوڑے سے وقت میں دور کے فاصلے پر پیغام پہنچ جاتاتھا۔امیرالمومنینؓ نے صورتِ حال اور منصوبے کا جائزہ لیا۔اس میں کچھ ردوبدل کیا، اور منصوبے کی منظوری دے دی، یزیدؓ بن ابی سفیان دمشق میں تھے،وہ سالار بھی تھے اور دمشق کے حاکم بھی۔انہیں پیغام بھیجا گیا کہ دشمن کیا صورتِ حال پیدا کر رہا ہے،اور وہ بدستور دمشق میں رہیں۔انہیں یہ ہدایت بھی دی گئی کہ دمشق کے شمال مغرب پر جاسوسوں کی دیکھ بھال کرنے والے آدمیوں کے ذریعہ نظر رکھیں کیونکہ توقع یہی ہے کہ رومی ادھر سے حملہ کریں گے۔سالار شرجیلؓ بن حسنہ اپنے دستوں کے ساتھ اس علاقے میں تھے جس میں بیسان اور فحل واقع تھے۔خلیفہ عمرؓ نے خاص طور پر لکھا تھا کہ سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو اس جنگ کیلئے سالار مقرر کیا جائے جس کی رومی تیاری کر کے آئے ہیں۔خالد کو اس فوج کے ہراول دستے کی سالاری سونپی گئی تھی۔جنوری ۶۳۵ء کے دوسرے ہفتے میں ان دستوں نے جن کی تعداد تقریباً تیس ہزار تھی، کوچ کیا۔انہیں بیسان سے کچھ دور فحل کے مقام تک پہنچنا تھا۔یہ دستے جب فحل پہنچے تو دیکھا کہ وہاں رومی فوج نہیں تھی۔ وہاں روم کی پوری فوج کو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ خبر ملی کہ چند ایک دستے وہاں موجود ہیں لیکن یہ دستے جا چکے تھے۔وہاں کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ رومیوں کے دستے بیسان چلے گئے ہیں جہاں ان کے پورے لشکر کا اجتماع ہے۔

مسلمان آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن دریاکے دونوں طرف دور دور تک دلدل تھی، جس میں گزرنا ممکن نہیں تھا۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ دلدل دریا کے دونوں کناروں سے لے کر ایک ایک میل دور تک پھیلی ہوئی تھی۔یہ علاقہ سطح سمندر سے کئی سو فٹ نیچیے اور وہاں اُس دور میں نشیب زیادہ تھے۔دیکھاگیا کہ وہاں دریاکے کنارے ٹوٹے ہوئے نہیں تھے پھر یہ پانی کہاں سے آگیا تھا جس نے اس نشیبی علاقے کو دلدل بنا ڈالا تھا؟’’کچھ دور اوپر جا کر دیکھیں۔‘‘اک مقامی آدمی نے بتایا۔’’فحل میں رومی فوج کے دستے رہتے تھے۔وہ یہاں سے چلے گئے۔اوپر کی طرف جا کر انہوں نے دریا میں پتھروں کا بند باندھا اور دونوں کنارے توڑ دیئے۔اس طرح اوپر سے یہ پانی یہاں آکر جمع ہو گیااور پھیلتا چلا گیا۔‘‘رومیوں نے مسلمانوں کو روکنے کا بڑا سخت انتظام کیا تھا۔رومیوں نے غالباً یہ سوچا تھا کہ مسلمان صحرا میں یا میدان میں چلنے اور لڑنے کے عادی ہیں اور وہ دلدل میں سے نہیں گزرسکیں گے۔اگر انہوں نے یہ سوچا تھا تو بالکل ٹھیک سوچا تھا۔دلدل مسلمانوں کیلئے بالکل نئی چیز تھی۔ان کیلئے تو چٹانیں اور پہاڑیاں بھی نئی چیز تھیں۔لیکن انہوں نے پہاڑی علاقوں میں بھی لڑائیاں لڑی تھیں اور دشمن کو شکست دی تھی۔وہ دلدل میں سے بھی گزر جاتے لیکن ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔سالار شرجیلؓ نے دلدل سے کچھ دور ہٹ کر اپنے دستوں کو ایک ترتیب میں کر دیا۔دائیں اور بائیں پہلوؤں پر ابو عبیدہؓ اور عمروؓ بن العاص تھے۔سوار دستے کی کمان ضرار بن الازور کو دی گئی تھی۔خالدؓکو وہ دستے دیئے گئے جنہیں بیسان کی طرف جانا تھا۔خالدؓ ہراول میں تھے۔کچھ آگے گئے تو دلدل نے ان کے پاؤں جکڑ لیے۔خالدؓ اپنی عادت کے مطابق دلدل میں سے گزرنے کی کوشش کرنے لگے لیکن دلدل زیادہ ہی ہوتی گئی اور وہ مقام آگیا جہاں دلدل میں سے پاؤں نکالنا بھی ناممکن ہو گیا۔چنانچہ وہ دلدل میں سے نکلنے لگے۔نکلنا بھی دشوار ہو گیا۔بڑی کوشش کے بعد خالدؓ اپنے دستوں کے ساتھ دلدل سے نکلے اور واپس فحل آگئے۔رومی سالار سقلار تجربہ کار سالار تھا۔وہ جنگ کیلئے بالکل تیارتھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس دھوکے کو کامیاب سمجھتا تھا کہ مسلمان دلدل میں سے نہیں نکل سکیں گے۔اسی دلدلی علاقے میں ایسی جگہ بھی تھی جہاں پانی کے نیچے زمین بہت سخت تھی اور وہاں کیچڑ نہیں تھا۔وہاں سے آسانی سے گزرا جا سکتا تھا-
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی