🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *45* ۔۔۔۔
’’خدا کی قسم!‘‘خالدؓ نے غصے کو دباتے ہوئے کہا۔’’تم سب نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔‘‘رومی سالار توما اور ہربیس ذرا دورکھڑے اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔خالدؓ نے ان کی طرف دیکھا تو غصہ پھر تیز ہو گیا۔’’میں تم سب کا فیصلہ قبول کرتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’لیکن ان دونوں رومی سالاروں کو نہیں چھوڑوں گا۔میں انہیں زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا۔‘‘’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو ولید کے بیٹے!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’انہی دونوں کے ساتھ تو میرا معاہدہ ہو اہے اور انہی کو میں نے حفاظت کی ضمانت دی ہے۔میرے فیصلے کو تو نے قبول کر ہی لیا ہے تو ان دونوں کو بھی جانے دے۔‘‘’’تیرے عہد نے انہیں میرے ہاتھ سے بچا لیا ہے۔‘‘خالدؓ نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’لیکن یہ دونوں اﷲکی لعنت سے نہیں بچ سکیں گے۔‘‘ایک اور مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ توما اور ہربیس کے پاس ایک آدمی کھڑا تھا جو عربی زبان سمجھتا اور بولتا تھا۔وہ مسلمان سالاروں کی باتیں سن کر توما اور ہربیس کو رومی زبان میں سناتا جا رہا تھا۔آخر انہیں عام معافی کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔’’آپ سب نے ہم پر احسان کیا ہے۔‘‘تو ما نے خالدؓاور ابو عبیدہؓ کا شکریہ ادا کیا اور کہا۔’’ہمیں اجازت دی جائے کہ اپنی منزل تک ہم اپنی پسند کے راستے سے جا سکیں۔‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓکی طرف دیکھا کہ وہ جواب دیں لیکن خالدؓ نے منہ پھیر لیا۔’’تمہیں اجازت ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے توما کو جواب دیا۔’’جس راستے پر چاہو جا سکتے ہو۔لیکن یہ بھی سن لو، تم جہاں رکو گے یا جہاں قیام کرو گے اگر ہم نے اس جگہ پر قبضہ کر لیا تو ہم سے اپنی حفاظت کی توقع مت کرنا۔تمہارے ساتھ جو معاہدہ کیا جا رہا ہے یہ صرف اس مقام تک ہے جہاں تم جا رہے ہو، یہ دوستی کا معاہدہ نہیں۔‘‘’’اگر معاہدہ عارضی ہے تو میری ایک درخواست اور ہے۔‘‘توما نے کہا۔’’ہمیں تین دنوں کی مہلت دی جائے کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔تین دنوں بعد ہم معاہدے کو ختم سمجھیں گے۔‘‘’’پھر ہم تمہارے ساتھ جوسلوک کرنا چاہیں گے کریں گے۔‘‘خالدؓ گرج کر بولے۔’’آپ ہمیں قتل کر سکتے ہیں۔‘‘توما نے کہا۔’’ہمیں پکڑ کر اپنا غلام بنا سکتے ہیں۔ ’’یہ بھی منظور ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تین دنوں میں ہی کہیں غائب ہو جانا،وہاں تک چلے جانے کی کوشش کرنا جہاں تک میں نہ پہنچ سکوں……اب ایک شرط میری بھی سن لو……تم اپنے ساتھ چند دنوں کے کھانے پینے کا سامان لے جا سکو گے۔اس سے زیادہ تم کچھ نہیں لے جا سکو گے۔کوئی آدمی ہتھیار لے کر نہیں جائے گا۔‘‘’’نہیں ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔’’تیری یہ شرائط اس معاہدے کے خلاف ہیں جو میں نے ان کے ساتھ کیا ہے۔یہ اپنا مال و اسباب اورجو کچھ یہ لے جا سکتے ہیں لے جائیں۔میں انہیں یہ حق دے چکا ہوں۔‘‘خالدؓنے گذشتہ رات کو اپنے آپ کو زندگی کے سب سے بڑے خطرے میں ڈالا تھا کہ دیوار پر کمند پھینک کر اوپر چلے گئے تھے۔اب ابو عبیدہؓ نے خالدؓکو ایک اور بڑے ہی سخت امتحان میں ڈال دیاتھا۔خالدؓرومیوں پر اپنی کوئی نہ کوئی شرط عائد کرنا چاہتے تھے مگر ابو عبیدہؓ ان کی ہر شرط کو یہ کہہ کر رَد کر دیتے تھے کہ توما کے ساتھ وہ کچھ اور معاہدہ کر چکے ہیں۔
خالدؓکو بار بار اپنے غصے کو دبانا پڑتا تھا، یہ کام بہت مشکل تھا۔’’لے جائیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’جو کچھ اٹھا سکتے ہیں، لے جائیں۔لیکن ان میں کوئی بھی کوئی ہتھیار اپنے ساتھ نہیں لے جائے گا۔‘‘’’ہم پر یہ ظلم نہ کریں۔‘‘توما نے کہا۔’’ہم لمبے سفر پر جا رہے ہیں۔راستے میں کوئی اور دشمن ہم پر حملہ کر سکتا ہے ، ہمیں نہتا دیکھ کر ڈاکو ہی ہمیں لوٹ لیں گے۔اگر آپ ہمیں نہتا یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہیں رہنے دیں اور ہمارے ساتھ جیسا سلوک چاہے کریں۔ایک طرف آپ کی نیکیاں اتنی ہیں کہ ان کا شمار نہیں۔مگر آپ کا یہ حکم ہمارے قتل کے برابر ہے کہ ہم نہتے جائیں۔‘‘خالدؓکچھ دیر توما کے منہ کی طرف دیکھتے رہے ۔ان کا چہر ہ بتا رہاتھا کہ وہ اپنے اوپر جبر کر رہے ہیں۔’’اے رومی سالار!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو خوش قسمت ہے کہ صلح کیلئے تو میرے پاس نہیں آگیا تھا……میں تجھے ہتھیار اپنے ساتھ لے جانے کی بھی اجازت دے دیتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ ہر شخص جن میں تو بھی شامل ہے ،صرف ایک ہتھیار لے جا سکتا ہے۔ایک تلوار یا ایک برچھی، یا ایک کمان اور ایک ترکش یا ایک برچھی یا ایک خنجر۔‘‘اس کے بعد معاہدہ لکھا گیا جس کے الفاظ یہ تھے:
’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔سالارِ اعلیٰ عساکرِ مدینہ خالد بن ولید کی طرف سے دمشق کے باشندگان کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا ہے۔مسلمان شہر دمشق میں داخل ہوں گے وہ اس کے ذمہ دار ہوں گے کہ شہر کے لوگوں کے جان و مال کا، ان کی املاک کا ان کی عزت و آبرو کا تحفظ کریں۔اس میں ان کی عبادت گاہوں اور شہر کی فصیل کا تحفظ بھی شامل ہے۔انہیں اﷲاور رسولﷺ اور تمام تر مومنین اور خلیفۃ المسلمین کی طرف سے ضمانت دی جاتی ہے۔ان کے ساتھ مسلمان رحمدلی اور ہمدردی، کا سلوک اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اہلِ دمشق جزیہ دیتے رہیں گے۔‘‘جزیہ کی رقم ایک دینار فی کس مقرر ہوئی اور کچھ مقدار اناج وغیرہ کی مقرر ہوئی جو اہلِ دمشق نے مسلمانوں کو دینی تھی۔
وہ منظر مسلمانوں کیلئے بڑا ہی تکلیف دہ تھا جب رومی فوج دمشق سے روانہ ہوئی ۔جو شہری دمشق میں نہیں رہنا چاہتے تھے وہ فوج کے ساتھ جا رہے تھے۔ان کی فوج نے شہریوں کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جیسے مسلمان ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔رومی سپہ سالار توما بھی جا رہا تھا۔اس کی اس آنکھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی جس میں تیر کا ٹکڑا ابھی تک موجود تھا۔اس کے ساتھ اس کی بیوی تھی جو شہنشاہِ روم ہرقل کی بیٹی تھی۔اس وقت کی وہ بہت ہی حسین اور جوان عورت تھی۔شاہی مال و اسباب بے شمار گھوڑا گاڑیوں میں جا رہا تھا ظاہر ہے ان گاڑیوں میں خزانہ بھی جا رہاتا۔دمشق کے وہ باشندے جنہوں نے دمشق میں رہنا پسند نہیں کیا تھا وہ اپنا مال و متاع گھوڑا گاڑیوں اور ریہڑوں پر لے جا رہے تھے جنہیں خچر کھینچ رہے تھے۔ان میں منڈی کا مال اور تجارتی سامان بھی جا رہا تھا۔مؤرخ بلاذری اور واقدی لکھتے ہیں کہ سونے چاندی کے بعد جو بیش قیمت سامان جا رہا تھا وہ بڑے عمدہ زربفت کی تین سو سے کچھ زیادہ گانٹھیں تھیں۔ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ یہ ہرقل کی تھیں اور بعض نے لکھا ہے کہ یہ منڈی کا مال تھا۔لوگ دودھ والے مویشی بھی ساتھ لے جا رہے تھے۔مختصر یہ کہ دمشق سے تمام مال و دولت جا رہا تھا۔خالدؓکے مجاہدین دیکھ رہے تھے۔یہ ان کا مالِ غنیمت تھاجو ان کا جائز حق تھا۔زیادہ افسوس ان دستوں کے مجاہدین کو ہو رہا تھا، جنہوں نے شہر کے اندر جاکر بڑی سخت لڑائی لڑی تھی۔اس سے بھی زیادہ افسوس ان ایک سو جانبازوں کو تھا۔ جن میں سے پچاس کمندوں سے دیوارپر گئے تھے اور باقی پچاس دروازہ کھلتے ہی سب سے پہلے اندر گئے تھے۔ان سب نے لڑ کر شہر لیا تھا۔خالدؓ کا اپنا یہ حال تھا کہ دمشق سے جانے والے مال و اسباب کو دیکھ دیکھ کرغصے سے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔انہوں نے اپنے مجاہدین کودیکھا،ان کے چہروں پر افسردگی اور غصے کے تاثرات صاف نظر آرہے تھے۔بعض کے تاثرات تو ایسے تھے جیسے وہ دمشق سے جانے والوں پر ہلہ بول دیں گے اور اپنا حق وصول کر لیں گے۔مؤرخ واقدی، اور ابنِ قتیبہ نے لکھا ہے کہ خالدؓ کیلئے اپنے غصے پر قابو پانا محال ہو رہا تھاآخر انہوں نے دونوں ہاتھ آگے اور کچھ اوپر کرکے آسمان کی طرف دیکھا اور ذرا اونچی آواز میں کہا۔’’یااﷲ!یہ سامان تو تیرے مجاہدین کا تھا ،یہ انہیں دے دے۔‘‘خالدؓ کی جذباتی حالت ٹھیک نہیں تھی۔’’سالارِ محترم!‘‘خالدؓکواپنے قریب ایک آواز سنائی دی۔’’آپ کو دمشق مبارک ہو۔‘‘
خالدؓ نے اُدھر دیکھا، وہ یونس ابن مرقس تھا۔اسے دیکھ کر خالدؓکو یاد آیا کہ اس شخص نے اس لڑکی کی خاطر دمشق فتح کروادیا تھا جس کے ساتھ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ لیکن لڑکی کے ماں باپ اسے یونس ابن مرقس کے ساتھ نہیں بھیج رہے تھے۔’’ابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’دمشق تجھے مبارک ہو۔یہ کارنامہ تیرا ہے۔تو نہ ہوتا تو ہم اس شہر میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔‘‘’’لیکن میں نے جسے حاصل کرنے کیلئے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا اور یہاں کی بادشاہی ختم کرادی ہے۔وہ مجھے نہیں ملی۔‘‘’’کیا اس کے ماں باپ یہیں ہیں؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔ ’’وہ چلے گئے ہیں۔‘‘یونس ابن مرقس نے جواب دیا۔’’میں لڑکی سے ملا تھا، اسے کہا کہ وہ ماں باپ کو بتائے بغیر میرے ساتھ آجائے ،میری محبت اس کی روح میں اتری ہوئی ہے۔وہ فوراً تیار ہو گئی لیکن کہنے لگی کہ مسلمان آگئے ہیں، یہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ پھر تم کیا کرو گے؟میں نے اسے کہا کہ میں بھی مسلمان ہوں، تم اب محفوظ ہو……‘‘’’اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ تم نے یہ کیوں کہا ہے کہ تم بھی مسلمان ہو؟میں نے اسے بتایا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔اتنا سننا تھا کہ وہ بالکل ہی بدل گئی۔کہنے لگی کہ اپنے مذہب میں واپس آجاؤ۔میں نے اسلام کی خوبیاں بیان کیں تو اس نے کہا اگر تم اپنے مذہب میں واپس نہیں آؤ گے تو میری محبت نفرت میں بدل جائے گی۔میں نے کہا کہ محبت مذہب کو نہیں دیکھا کرتی۔میں نے یہ بھی کہا کہ میں اب مسلمان ہی رہوں گا۔اس نے کہا۔میں قسم کھاتی ہوں کہ آج کے بعد تمہاری شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کروں گی۔میں دمشق سے جا رہی ہوں۔ اور وہ چلی گئی۔‘‘’’کیا تم بھی اس کی محبت کو نفرت میں نہیں بدل سکتے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’نہیں محترم سالار!‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’میری محبت ایسی نہیں۔یہ لڑکی مجھے نہ ملی تو شاید میں پاگل ہو جاؤں۔میں نے آپ کو یہ شہر دیا ہے، کیا آپ مجھے ایک لڑکی نہیں دلا سکتے؟وہ میری بیوی ہے۔میں نے آپ کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔آپ چاہیں تو اپنا ایک دستہ بھیج کر لڑکی کو زبردستی لا سکتے ہیں۔آپ فاتح ہیں۔‘‘’’ابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’معاہدہ ہو چکا ہے۔ہم جانے والوں کا ایک بال بھی ان سے زبردستی نہیں لے سکتے۔‘‘مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ یونس ابن مرقس عقل اور ذہانت کے اعتبار سے کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔خالدؓ اس سے متاثر تھے اور اس کے احسان مند بھی تھے۔دمشق کی فتح اس یونانی جوان کے بغیر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور تھی۔خالدؓ کو یہ شخص اس لئے بھی اچھا لگتا تھا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور جس لڑکی کی محبت اسے پاگل کیے ہوئے تھی اس کے کہنے پر بھی اس نے اسلام ترک نہیں کیا تھا۔’’میں نے سنا ہے۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’کہ آ پ نے دمشق سے جانے والوں کو تین دنوں کیلئے تحفظ کا وعدہ کیا ہے۔کیا ان تین دنوں کے دوران آپ ان لوگوں کا تعاقب کرکے ان پر حملہ نہیں کرسکتے؟‘‘’’نہیںابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ معاہدے کے خلاف ہے۔‘‘’’تین روز گزر جانے کے بعد تو آپ ان پر حملہ کر سکتے ہیں۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’تین دنوں میں تو یہ بہت دور پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ قافلہ بہت تیز جائے گا کیونکہ اس کے پاس خزانہ ہے اور بہت قیمتی مال بھی ہے۔راستے میں رومیوں کے قلعے آتے ہیں، وہ کسی بھی قلعے میں جا پناہ لیں گے۔میں کسی قلعے پر اتنی جلدی حملہ نہیں کر سکوں گا۔‘
’’اے اسلام کے عظیم سالار!‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’یہ اس راستے پر نہیں جا رہے جس راستے پر قلعے آتے ہیں۔میں ان قلعوں سے واقف ہوں……بعلبل، حمص اور طرابلس……یہ قافلہ انطاکیہ جا رہا ہے ، میں جانتا ہوں قافلے کے ساتھ سالار توما ہے۔وہ اپنی فوج اور شہریوں کو انطاکیہ لے جارہا ہے جہاں اس کا سسر شہنشاہ ہرقل رہ رہا ہے۔میں تمام علاقے سے واقف ہوں۔انطاکیہ تک پہنچنے کیلئے تین سے بہت زیادہ دن سفر کرنا پڑتا ہے۔میں آپ کو ایسی طرف سے لے جاسکتا ہوں جو کوئی راستہ نہیں۔آپ کے گھوڑ سوار تیز ہوں تو میں چوتھے دن کی صبح تک انہیں قافلے تک پہنچا سکتاہوں۔‘‘خالدؓنے یہ سنا تو ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔یہی تو وہ چاہتے تھے۔ان کاارادہ یہ تھا کہ مجاہدین کو مالِ غنیمت ضرور دلائیں گے۔ انہیں دمشق والوں پر غصہ تھا جو دمشق سے اپنے مال و متاع لے کر چلے گئے تھے۔’’میں آپ کی رہنمائی کروں گا۔‘‘یونس ابنِ مرقس نے کہا۔’’میں آپ سے کچھ نہیں لوں گا۔مجھے صرف میری بیوی دلا دینا۔‘‘چوتھے دن کی صبح طلوع ہوئی تو توما کا قافلہ انطاکیہ سے ابھی بہت دور تھا۔توما کو شکست کا افسوس تو تھا ہی لیکن وہ خوش تھا کہ اس کی چال کامیاب رہی تھی اور وہ دمشق کے لوگوں کو قیمتی اشیاء سمیت اپنے ساتھ لے جا رہاتھا۔اس روز قافلہ ایک پہاڑی سلسلے میں پڑاؤ کیے ہوئے تھا اور کچھ دیر میں چلنے کو تھا، اچانک کسی طرف سے ہزاروں گھوڑ سوار آندھی کی طرح آئے اور رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔اس سے ذرا ہی پہلے رومیوں پر ایک اور قہر ٹوٹا تھا،یہ بڑی تیز بارش تھی۔گھٹائیں پھٹ پڑی تھیں۔اس رومی قافلے کیلئے کوئی پناہ نہیں تھی۔یہ بارش آسمانی آفت تھی اور اس آفت میں رومی فوج اور دمشق کے باشندوں پر ایک اور آفت ہزاروں گھوڑ سواروں کی شکل میں ٹوٹی۔اس وقت تک قافلے والے اِدھر اُدھر بکھر گئے تھے۔وہ اپنے سامان کو گھسیٹتے پھر رہے تھے۔زربفت کی تین سو سے زائد گانٹھیں جو بڑے بڑے بنڈلوں کی مانند تھیں، ہر طرف بکھری پڑی تھیں، بعض گانٹھیں کھل گئیں اور کپڑا کھل کر بکھر گیا تھا۔زربفت کا کپڑا اتنا زیادہ بکھرا کہ اس جگہ کا نام ’’مرج الدیباج‘‘یعنی ریشم کا خیابان پڑ گیا۔یہاں جو معرکہ لڑا گیا اسے تمام مؤرخوں نے معرکہ مرج الدیباج لکھا ہے۔یہ گھوڑ سوار جنہوں نے رومیوں اور دمشق والوں کے قافلے پر حملہ کیا تھا۔ان کی تعداد ایک ہزار تھی، اور یہ خالدؓ کے بھیجے ہوئے سوار تھے۔اس حملے کی تفصیلات یوں ہیں کہ یونس ابنِ مرقس نے جب خالدؓکو بتایا کہ وہ انہیں ایک چھوٹے راستے سے رومیوں تک پہنچا سکتا ہے تو خالدؓ کو روشنی نظر آئی۔یونس ابنِ مرقس خالدؓ کو اس لئے تعاقب اور حملے کیلئے اُکسا رہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو پکڑ کر اپنے ساتھ لانا چاہتا تھا لیکن خالدؓ کچھ اور سوچ رہے تھے۔انہوں نے اپنی فوج کی مایوسی دیکھی تھی۔دشمن مالِ غنیمت اپنے ساتھ لے جارہا تھا۔
خالدؓ پر پابندی یہ عائد ہو گئی تھی کہ رومیوں کو تین دنوں کی مہلت دی گئی تھی۔اس دوران مسلمان ان پر حملہ نہیں کر سکتے تھے۔تین دنوں میں رومیوں کو کسی نہ کسی پناہ میں پہنچ جانا تھا لیکن یونس ابنِ مرقس کہتا تھا کہ قافلہ انطاکیہ جا رہا ہے اور یونس اسے راستے میں پکڑوا سکتا ہے۔خالدؓ کو غصہ اور تاسف پریشان کر رہا تھا۔دشمن مع مالِ غنیمت کے ابو عبیدہؓ کی غلطی یا غلط فہمی سے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔یونس کی یقین دہانی پر خالدؓ نے حملے کا پلان تیارکر لیا۔اس پلان کے مطابق خالدؓ نے وہ سوار دستہ ساتھ لیا جو انہوں نے گھوم پھر کرلڑنے کیلئے تیار کیا تھا، اسے طلیعہ کہتے ہیں،یہ چار ہزار منتخب سواروں کا دستہ تھا۔یہ سب شہسوار او رجانباز تھے۔اس دستے کا گائیڈ یونس ابنِ مرقس تھا۔وہ خوش تھا کہ خالدؓ اسے اس کی بیوی دلانے کیلئے اتنا بڑا جنگی اہتمام کر رہے ہیں لیکن خالدؓ کے سامنے کچھ اور مسئلہ تھا جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔خالدؓ نے اس دستے کو چار حصوں میں تقسیم کیا، اور روانہ ہو گئے۔ان کی رفتار بہت تیز تھی۔خالدؓ نے ہر حصے کے سالار کو اور سواروں کو بھی بتا دیا تھا کہ جس قافلے پر حملہ کرنے جا رہے ہیں اسے صرف قافلہ نہ سمجھیں۔ وہ سب مسلح ہیں ان کے پاس گھوڑے بھی ہیں، اور وہ رومی ہیں جو جان کی بازی لگا کر لڑنا جانتے ہیں اور وہ پسپا ہوتے ہیں تو منظم طریقے سے پیچھے ہٹتے ہیں، بھاگتے نہیں۔چوتھے دن رومی فوج اور دمشق کے باشندوں کا یہ قافلہ انطاکیہ سے ابھی کچھ دور تھا کہ موسلا دھار بارش نے اسے بکھیر دیا،جوں ہی بارش ختم ہوئی ، ایک ہزار گھوڑ سواروں نے ان پر حملہ کر دیا۔رومی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان سواروں کے آگے آگے ضرار بن الازور تھے جنہوں نے حسبِ معمول سر پر خود بھی نہیں رکھی تھی اور قمیض بھی اتاری ہوئی تھی اور وہ کمر تک برہنہ تھے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومی سالار توما اور ہربیس پہلے تو اس پر حیران ہوئے کہ مسلمان کدھر سے آنکلے ہیں، انہیں معلوم نہیں تھا کہ انہیں دمشق کا ہی ایک گائیڈ مل گیاتھا جو انہیں ایک چھوٹے راستے سے لے گیا تھا۔’’ہربیس!‘‘توما نے کہا۔’’سب کو مقابلے کیلئے تیار کرو۔ مسلمانوں نے ہمیں تین دن کی ضمانت دی تھی، یہ تین دن ختم ہو گئے ہیں۔‘‘’’جم کرمقابلہ کرو۔‘‘ہربیس نے للکار کر کہا۔’’یہ بہت تھوڑے ہیں کاٹ دو انہیں۔‘‘
رومی فوج حملہ روکنے کی ترتیب میں ہو گئی۔دمشق کے جو شہری لڑ سکتے تھے وہ بھی مسلمانوں کے مقابلے میں آگئے۔رومی سپاہی اور اہلِ دمشق بارش سے بھیگے ہوئے تھے اور ان کا سامان بکھرا ہوا تھا، انہوں نے اپنی عورتوں کو بچوں کو پیچھے کر دیا اور ان کے ڈیڑھ دو سو آدمی تلواریں اور برچھیاں لے کر عورتوں اور بچوں کی حفاظت کیلئے کھڑے ہوگئے۔رومی للکار کر اور نعرے لگالگا کر لڑ رہے تھے۔ضرار جو برہنہ جنگجو کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔اپنی روایت کے مطابق لڑ رہے تھے۔بلکہ جو سامنے آیا اسے کاٹتے جا رہے تھے،لیکن رومی جس بے جگری سے لڑ رہے تھے اس سے یہی نظر آرہا تھا کہ وہ مسلمان سواروں کا صفایا کردیں گے۔تقریباً نصف گھنٹہ گزرا ہو گا کہ ایک طرف سے خالدؓ کے دستے کے ایک ہزار مزید سوار گھوڑے سرپٹ دوڑاتے آرہے تھے۔ان کے سالار رافع تھے۔رومی سالار نے دیکھا تو انہوں نے اپنی ترتیب بدل ڈالی، اور چلا چلا کر کہنے لگے، کہ وہ ان سواروں کو بھی ختم کردیں گے۔ان کے لڑنے کا انداز ایسا ہی تھا کہ وہ اپنے دعوے کو صحیح ثابت کر سکتے تھے، معرکہ اور زیادہ خونریز ہو گیا۔نصف گھنٹہ اور گزرا ہو گا کہ مزید ایک ہزار سوار شمال کی جانب سے آئے۔ان کے سالار خلیفۃ المسلمینؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن تھے۔اب رومیوں کے حوصلے مجروح ہونے لگے۔یہ ایک ہزار سوار جدھر سے آئے تھے یہ رومیوں کی پسپائی کا راستہ تھا۔اُدھر انطاکیہ تھا۔مسلمانوں نے یہ راستہ روک لیا تھا۔اب تین ہزار مسلمان سوار رومیوں پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے لیکن رومی اور اہلِ دمشق پہلے سے زیادہ شدت سے لڑنے لگے۔یہ معرکہ ان کیلئے زندگی اور موت کامعرکہ بن گیا تھا۔ ان کا بڑا ہی قیمتی مال و متاع، ان کے بچے اور بڑی خوبصوت اور جوان بیٹیاں بہنیں اور بیویاں ان کے ساتھ تھیں۔ وہ بھاگ نہیں سکتے تھے ۔ان کے لڑنے میں شدت پیدا ہو گئی۔تقریباً ایک گھنٹے تک رومیوں نے مسلمانوں کا ناک میں دم کیے رکھا۔ ان کا سالار توما جس کی آنکھ میں تیر اترا ہوا تھا، سپاہیوں کی طرح لڑرہا تھا۔اچانک ایک ہزار مزید گھوڑ سوار ایک اور سمت سے آئے ۔ان کا سالار تلوار بلند کیے نعرے لگا رہا تھا *اَنا فارس الضدیداَنا خالد بن ولید*رومی اس نعرے سے بخبوبی واقف تھے۔ ان ایک ہزار سواروں کے قائد خالدؓ خود تھے۔یہ تھا خالدؓکا پلان۔ وہ ایک ایک ہزار سوار بھیجتے رہے اور آخر میں خود ایک ہزار سواروں کے ساتھ آئے۔خالدؓ توما اور ہربیس کو ڈھونڈ رہے تھے۔’’کہاں ہے ایک آنکھ والا رومی؟‘‘خالدؓ للکار رہے تھے۔’’کہاں ہے وہ جس کی ایک آنکھ میں مومن کا تیر اترا ہوا ہے۔
رومی سالاروں کی تلاش میں خالدؓ دشمن کے دور اندر چلے گئے۔وہ اکیلے تھے۔ان کے محافظوں کو بھی پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں غائب ہو گئے ہیں۔’’ابنِ ابی بکر!‘‘خالدؓ کا ایک محافظ سالار عبدالرحمٰن کو دیکھ کر ان تک پہنچا اور لڑائی کے شوروغل میں چلا کر بولا۔’’سالارِ اعلیٰ کا کچھ پتا نہیں۔اکیلے آگے چلے گئے ہیں۔‘‘’’نہیں، نہیں!‘‘عبدالرحمٰن نے گھبرا کر کہا۔’’ابنِ ولید لا پتا نہیں ہو سکتا۔اﷲکی تلوار گرنہیں سکتی۔‘‘عبدالرحمٰن نے کچھ سواروں کو ساتھ لیا، بے طرح اور بے خطر اس طرف گئے جدھر خالدؓ چلے گئے تھے۔لڑائی ایسی تھی جیسے سوار گتھم گتھا ہو گئے ہوں۔عبدالرحمٰن ان میں راستہ بناتے خالدؓ کو ڈھونڈنے لگے۔دیکھا کہ خالدؓدشمن کے قلب میں پہنچے ہوئے تھے اور وہ توما کو اور دوسرے رومی سالار ہربیس کو ہلاک کر چکے تھے،اور اب رومیوں کے نرغے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ رومی زیادہ تھے۔یہ خالدؓ تھے جو ابھی تک ہر وار بچا رہے تھے۔رومیوں کے ہاتھوں ان کی شہادت یقینی تھی۔عبدالرحمٰن اپنے سواروں کے ساتھ پہنچ گئے اور رومیوں پر ایسا زور دار حملہ کیا کہ ان میں سے کئی ایک کو ہلاک کر دیا اور خالدؓ کو وہاں سے زندہ نکال لائے۔اس معرکے کی صورت ایسی بن گئی تھی کہ کوئی ترتیب نہیں رہی تھی۔یہ کھلی لڑائی تھی جو لڑنے والے اپنے اپنے انداز سے انفرادی طور پر لڑ رہے تھے۔مسلمان سواروں کی کمزوری یہ تھی کہ ان کی تعداد کم تھی اس لیے وہ رومیوں اور اہلِ دمشق کی اتنی زیادہ نفری کو گھیرے میں نہیں لے سکتے تھے۔اس سے یہ ہوا کہ رومی اپنے سالاروں کی ہلاکت کے بعد ایک ایک دو دو معرکے میں سے نکلنے لگے۔وہ علاقہ پہاڑی تھا اور کھڈ نالے بھی تھے۔رومی وہیں کہیں غائب ہوتے گئے، اور انطاکیہ کی طرف نکل گئے۔اس طرح معرکہ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔خالدؓ کے حکم سے عورتوں کو گھیرے میں لے لیا گیا، کچھ عورتیں بھاگ گئی تھیں۔عورتوں کے ساتھ کئی آدمیوں کو بھی قیدی بنا لیا گیا۔اس قافلے کے ساتھ جو مال اموال، خزانہ اور دیگر قیمتی سامان جا رہا تھا، وہ سب وہیں رہ گیا۔یہ مجاہدین کا مالِ غنیمت تھا۔وہاں ایک حادثہ یوں ہوا کہ یونس ابن مرقس اپنی بیوی کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ وہ اسے نظر آگئی۔وہ اس کی طرف دوڑا۔لڑکی بھاگ نکلی لیکن وہ کہیں جانہیں سکتی تھی کیونکہ سب عورتیں مسلمان سواروں کے گھیرے میں تھیں۔لڑکی نے جب دیکھا کہ کوئی راہِ فرار نہیں اور یونس جومسلمان ہو چکا تھا، اسے پکڑ لے گا۔تو اس نے اپنے کپڑوں کے اندر ہاتھ ڈالا اور خنجر نکال لیا۔یونس کے پہنچنے تک لڑکی نے خنجر اپنے سینے میں گھونپ لیا، وہ گری اور یونس اسے اٹھانے لگا۔ ’’جا ابنِ مرقس!‘‘لڑکی نے کہا۔’’میرا خاوند مسلمان نہیں ہو سکتا۔‘‘اور وہ مر گئی۔یونس ابنِ مرقس دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔اس لڑکی کی خاطر اس نے دمشق مسلمانوں کو دلوایا تھاپھر یہ خونریز معرکہ لڑایا تھامگر لڑکی نے اپناخون بہا کر اس کی محبت کا خون کر دیا۔
مسلمان سواروں نے اپنے شہیدوں کی لاشوں اور زخمیوں کو اٹھایا، مالِ غنیمت رومیوں کی گھوڑا گاڑیوں پر لادا، عورتوں اور بچوں کو مرے ہوئے رومیوں کے گھوڑوں پر بٹھایا اور دمشق کو چل پڑے۔یہ اگلی صبح تھی۔جب مالِ غنیمت وغیرہ اکٹھا کیا جا رہا تھا اس وقت خالدؓ عورتوں کے قریب جا کر احکام دے رہے تھے، انہیں یونس ابن مرقس اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔اس سے پوچھا کہ اسے اپنی بیوی ملی ہے یا نہیں؟’’مل گئی ہے۔‘‘یونس نے روتے ہوئے جواب دیا۔’’لیکن زندہ نہیں۔اس نے اپنے خنجر سے اپنے آپ کو مار دیا ہے۔‘‘’’غم نہ کر ابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو اس سے زیادہ قیمتی انعام کا حقدار ہے۔ آ، میں تجھے اس سے زیادہ خوبصورت بیوی دوں گا۔‘‘خالدؓ نے اسے ایک رومی عورت دِکھائی جو جوان تھی اور جس کا حسن لا جواب تھا،اس کا لباس ریشم کا تھا اور اس کے گلے میں بڑا ہی قیمتی ہار تھا۔’’یہ تیرا مالِ غنیمت ہے۔‘‘خالدؓ نے اسے حسن کا یہ پیکردکھا کر کہا۔’’میں اس کے ساتھ تیری شادی کرادوں گا۔‘‘’’نہیں سالارِ محترم!‘‘یونس ابنِ مرقس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔’’میں اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا،آپ شاید نہیں جانتے۔یہ شہنشاہِ ہرقل کی بیٹی ہے۔یہ ان کے سالار توما کی بیوی تھی۔‘‘’’اب یہ کسی شہنشاہ کی بیٹی نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اب یہ تیری بیوی ہو گی۔‘‘’’یہ مجھے واپس کرنی پڑے گی۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’ہرقل اپنی بیٹی کو واپس لینے کیلئے اپنی تمام تر سلطنت کی فوج اکٹھی کرکے دمشق پر حملہ کردے گا۔ایسا نہیں کرے گا تو فدیہ ادا کرکے اسے آپ سے واپس لے لے گا۔‘‘خالدؓ خاموش ہو گئے۔اگلی صبح خالدؓ واپس روانہ ہوئے۔وہ بہت خوش تھے۔انہوں نے معاہدہ نہیں توڑا تھااور اپنا مقصد بھی پورا کر لیا تھا۔دمشق تک جانے والا راستہ آدھا طے ہوا تھا کہ انطاکیہ کی طرف سے بارہ چودہ گھوڑ سوار آئے۔وہ رومی تھے۔ ان میں ایک اونچی حیثیت کا معلوم ہوتا تھا۔وہ خالدؓ سے ملنا چاہتا تھا، اسے خالدؓ تک پہنچا دیا گیا۔’’میں شہنشاہِ ہرقل کا ایلچی ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔’’اور یہ میرے محافظ ہیں، میں امن سے آیا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ سے بھی مجھے امن اور دوستی ملے گی۔‘‘’’کیا پیغام لائے ہو؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔ ’’شہنشاہِ ہرقل کو اطلاع مل گئی ہے کہ آپ نے ہماری فوج اور دمشق سے ہجرت کرنے والوں پر حملہ کیا ہے۔‘‘ہرقل کے ایلچی نے کہا۔’’شہنشاہ نےآپ کے حملے کے متعلق کچھ نہیں کہا۔انہوں نے اپنی بیٹی واپس مانگی ہے،اور کہا ہے کہ آپ جس قدر فدیہ طلب کریں گے ، ادا کیا جائے گا۔شہنشاہ نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ فیاض اور کشادہ ظرف ہیں۔اگر آپ فدیہ نہ لینا چاہیں تو میری بیٹی مجھے بخش دیں۔‘‘ہرقل نے خالدؓ کو فیاض اور کشادہ ظرف کہہ کر ان کی خوشامد نہیں کی تھی۔وہی خالدؓ جو میدانِ جنگ میں دشمن کیلئے قہر تھے ، میدان کے باہر اتنے ہی حلیم اور فیاض تھے۔’’اگر تمہارے شہنشاہ نے بخشش مانگی ہے تو اس کی بیٹی کو بخشش کے طور پر لے جاؤ۔‘‘خالدؓ نے ایلچی سے کہااور رکابوں پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے حکم دیا۔’’رومیوں کے شہنشاہ ہرقل کی بیٹی کو اس کے ایلچی کے حوالے کر دو۔خدا کی قسم!میں نے تم سب کی طرف سے اسے بخشش کے طور پر چھوڑ دیا ہے۔ہمیں ہرقل کی سلطنت چاہیے اس کی بیٹی نہیں۔‘‘یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
ہرقل کی بیٹی اس کے سفیر کے ساتھ چلی گئی۔یونس ابن مرقس نے ٹھیک ہی کہا تھاکہ ہرقل ہر قیمت پر اپنی بیٹی واپس لے گا،یونس کو خالدؓ نے اپنے حصے کے مالِ غنیمت میں سے بے انداز انعام دینا چاہا لیکن اس نے صاف انکار کر دیااور کہاکہ وہ باقی عمر شادی نہیں کرے گا۔بعد میں اس نے اپنی زندگی اسلام اور جہاد کیلئے وقف کر دی تھی لیکن اس کی باقی زندگی صرف دو سال تھی۔وہ جنگِ یرموک میں شہید ہو گیا تھا۔خالدؓ جب مالِ غنیمت کے ساتھ دمشق میں داخل ہوئے تو ان کی فوج نے دیوانہ وار ان کا استقبال کیا۔وہ کامیاب لَوٹے تھے۔خالدؓ نے پہلا کام یہ کیا کہ امیر المومنینؓ کے نام بڑا لمبا پیغام لکھوایا جس میں انہیں دمشق کی فتح کی خوشخبری سنائی۔یہ بھی لکھا کہ وہ دمشق میں کس طرح داخل ہوئے تھے اور ابو عبیدہؓ نے کیا غلطی کی تھی۔انہوں نے تفصیل سے لکھا کہ وہ کس طرح رومیوں کے پیچھے گئے اور ان کے سالاروں توما اور ہر بیس کو ہلاک کیا پھر ہرقل کی بیٹی کس طرح واپس کی، مالِ غنیمت کے متعلق لکھا کہ اس کا پانچواں حصہ خلافت کیلئے جلدی بھیج دیا جائے گا۔خالدؓ نے یہ پیغام اکتوبر ۶۳۴ء کی پہلی تاریخ (۲شعبان ۱۳ ھ)کے روز بھیجاتھا۔قاصد روانہ ہو گیا۔کئی گھنٹے گزر گئے تو ابوعبیدہؓ خالدؓ کے خیمے میں آئے۔ابو عبیدہؓ مغموم تھے۔خالدؓ نے پوچھا کہ ان کا چہرہ ملول کیوں ہے؟’’ابنِ ولید!‘‘ابو عبیدہؓ نے بوجھل آواز میں کہا۔’’خلیفہ ابو بکر فوت ہو گئے ہیں، اور اب عمر خلیفہ ہیں۔‘‘خالدؓسُن ہو کر رہ گئے،اور کچھ دیر ابو عبیدہؓ کے منے پر نظریں جمائے رہے۔’’کب فوت ہوئے ہیں؟‘‘خالدؓ نے سرگوشی میں یوں پوچھا جیسے سسکیاں لے رہے ہوں ۔’’۲۲جمادی الآخر کے روز!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔یہ تاریخ ۲۲ اگست ۶۳۴ء تھی۔حضرت ابو بکرؓ کو فوت ہوئے ایک مہینہ اور آٹھ دن ہو گئے تھے۔ ’’اطلاع اتنی دیر سے کیوں آئی؟‘‘’’اطلاع جلدی آگئی تھی۔‘‘ابو عبیدہؓ نے جواب دیا۔’’مدینہ سے قاصد آیا تو اس نے دیکھا کہ ہم نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس نے سوچا کہ محاصرے کے دوران یہ اطلاع دی تو اپنے لشکر میں کہرام بپا ہو جائے گا، اور اس محاصرے پر بہت برا اثر پڑے گا۔اس نے صر ف یہ بتایا کہ مدینہ میں خیریت ہے اور کمک آرہی ہے۔ایک دو دنوں بعد اس نے پیغام مجھے دے دیا اور چلا گیا۔میں نے پڑھا اور یہی بہتر سمجھا کہ دمشق کا فیصلہ ہو جائے تو تجھے اور لشکر کو اطلاع دوں۔‘‘ابو عبیدہؓ نے نئے خلیفہ کا خط جو ابو عبیدہؓ کے نام لکھا گیا تھا، خالدؓ کو دے کر کہا۔’’اور یہ وہ خبر ہے جو میں تجھے لڑائی ختم ہونے تک نہیں دینا چاہتا تھا۔‘‘خالدؓ خط پڑھنے لگے۔ یہ خلیفہ عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو لکھا تھا:
’’خلیفہ عمر کی طرف سے ابو عبیدہ کے نام: بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم، میں تجھے اﷲسے ڈرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہوں۔اﷲلازوال ہے جو ہمیں گمراہی سے بچاتا ہے، اور اندھیرے میں روشنی دِکھاتا ہے۔میں تمہیں خالد بن ولید کی جگہ وہاں کے تمام لشکر کا سپہ سالار مقرر کرتا ہوں۔فوراً اپنی جگہ لو، ذاتی مفاد کیلئے مومنین کو کسی مشکل میں نہ ڈالنا۔انہیں اس پڑاؤ پر نہ ٹھہرانا جس کے متعلق تو نے پہلے دیکھ بھال نہ کرلی ہو۔کسی لڑائی کیلئے دستوں کو اس وقت بھیجنا جب وہ پوری طرح منظم ہوں، اور کوئی ایسا فیصلہ نہ کرنا جس سے مومنین کا جانی نقصان ہو۔اﷲنے تجھے میری آزمائش کا، اور مجھے تیری آزمائش کا ذریعہ بنایاہے۔دنیاوی لالچوں سے بچتے رہنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح تجھ سے پہلے تباہ ہوئے ہیں تو طمع سے تباہ ہوجائے۔تو جانتا ہے وہ اپنے رتبے سے کس طرح گرے ہیں۔‘‘اس خط کا مطلب یہ تھا کہ خلیفۃ المسلمین عمرؓ نے خالدؓ کو سپہ سالاری سے معزول کر دیا تھا۔ اب ابو عبیدہؓ سپہ سالار تھے۔بلکہ وہ ایک مہینہ آٹھ دن پہلے سے سپہ سالار تھے۔’’اﷲکی رحمت ہو ابو بکر پر!‘‘خالدؓنے خط ابو عبیدہؓ کو دے کر کہا۔
رات جو خالدؓ نے مدینہ سے دور دمشق میں خلیفہ اول ابو بکرؓ کی رحلت پر روتے گزاردی تھی، اس رات ڈیڑھ دو مہینے پہلے مدینہ پر ماتم کے بادل چھانے لگے تھے۔امیرالمومنین ابو بکرؓ ایسی حالت میں ٹھنڈے پانی سے نہا بیٹھے جب ان کا جسم گرم اور پسینے میں شرابور تھا۔فوراً انہیں بخار ہو گیا۔علاج ہوتا رہا لیکن بخار جسم کو کھاتا رہا۔اگر امیرالمومنینؓ آرام کرتے تو شاید بخار کا درجہ حرارت گر جاتا مگر بیماری کی حالت میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو امور سلطنت میں مصروف رکھا۔ ایک روایت یہ ہے کہ ابو بکرؓ نے علاج کروایا ہی نہیں تھا۔انہیں ایک روز تیمارداروں نے کہا کہ طبیب کو بلا کر علاج کرائیں۔’’میں نے طبیب کو بلایا تھا۔‘‘امیرالمومنینؓ نے کہا۔’’اس نے کہا تھا کہ علاج اور آرام کی ضرورت ہے۔میں نے اسے کہا تھا کہ میں جو چاہوں گا کروں گا ، میں نے اسے واپس بھیج دیا تھا۔‘‘’’علاج کیوں نہیں کرایا امیرالمومنین؟‘‘’’آخری منزل پر آن پہنچا ہوں میرے رفیقو!‘‘خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ نے جواب دیا۔’’اﷲنے جو کام میرے سپرد کیے تھے وہ اگر سب کے سب پورے نہیں ہوئے تو میرے لیے یہ اطمینان کیا کم ہے کہ میں نے کوتاہی نہیں کی……میں اﷲکے محبوب کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘تاریخ گواہ ہے کہ خلیفۃ المسلمین ابو بکر ؓنے اپنے دو سال تین ماہ کے دورِ خلافت میں معجزہ نما کام کیے تھے۔رسولِ کریمﷺ کی وفات کے فوراًبعدارتداد کا جو فتنہ تمام تر سر زمینِ عرب میں پھیل گیا تھا وہ ایک جنگی طاقت تھی جسے ختم کرنے کیلئے اس سے زیادہ جنگی طاقت کی ضرورت تھی۔لیکن ابو بکرؓ نے تدبر سے اور جنگی فہم و فراست سے مجاہدینِ اسلام کی قلیل تعداد کو استعمال کیااور تھوڑے سے عرصے میں ارتداد کے فتنے اور اس کی جنگی طاقت کو ریزہ ریزہ کردیا۔اس کے نتیجے میں ان تمام قبیلوں نے جو ارتداد کی لپیٹ میں آگئے تھے۔اسلام قبول کرلیا۔ابو بکرؓ نے آنے والے مسلمان حکمرانوں ، اُمراء اوروزراء کیلئے یہ سبق ورثے میں چھوڑا کہ ان میں بے لوث جذبہ ہو، اقتدار کی ہوس، اور کوئی ذاتی مفاد نہ ہو تو پوری قوم مجاہدین کا لشکر بن جاتی ہے اور قوم کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو وہ کفر کی چٹانوں کے دل چاک کر دیا کرتی ہے۔یہ سربراہِ سلطنت پر منحصر ہے کہ قوم فتح کامرانی کی رفعتوں تک جاتی ہے یا ذلت و رسوائی کی اندھیری کھائیوں میں۔ارتداد کے علاوہ بھی کہیں بغاوت اورکہیں شورش تھی۔خلیفہ ابو بکرؓ نے ہر سو امن و امان قائم کر دیا تھا۔فتنہ و فساد نہ رہا۔ بغاوت اور شورش نہ رہی تو ابو بکرؓ نے انتہائی جرات مندانہ فیصلہ کیا۔انہوں نے مسلمانوں کو فارس جیسی شہنشاہی کے خلاف اور پھر اسی جیسی دوسری بڑی جنگی طاقت کے خلاف بھیج دیا۔مجاہدین نے کسریٰ کی طاقت کو کچل کر اس کے بے شمار علاقے کو اسلامی سلطنت میں شامل کر لیا پھر قیصرِ روم کی فوج پر دہشت بن کر چھاگئے اور اس کے کئی علاقے اسلامی سلطنت میں آگئے۔کسریٰ بھی اور قیصر بھی اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔مسلمانوں نے خلیفہ اولؓ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے، ان دونوں دشمنانِ اسلام کا گھمنڈ توڑ دیا اور اسلامی فوج کو ایک طاقت بنا دیا۔انہی جنگوں میں مجاہدین کو فوج کی صورت میں منظم کیا گیاتھا۔ابو بکرؓ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسلام ایک مذہب کی صورت میں ہی عرب سے عراق اور شام میں نہ پھیلا بلکہ اس سے اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب بھی پھیلی بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ ایک نئے کلچر نے جنم لیا جسے لوگوں نے اسلامی کہا اور اسے اپنایا۔اس سے پہلے تو لوگ فارس اور روم کے کلچر کو ہی تہذیب و تمدن سمجھتے تھے اور اسے فوراً قبول کر لیتے تھے-
خلیفہ اولؓ جیسے تھک سے گئے تھے،اور پوری طرح سے مطمئن تھے کہ وہ خالق حقیقی کے حضور جا رہے ہیں، اور سرخرو جا رہے ہیں۔اس دور کی تحریروں سے اور مؤرخین کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ابو بکرؓ کو ایک مسئلہ پریشان کر رہا تھا۔یہ تھا ان کی جانشینی کا مسئلہ۔ انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے اس مسئلہ کا ذکر کیا تھا۔’’میرے اﷲ کے رسول ﷺ کو موت نے اتنی مہلت نہیں دی تھی کہ کسی کو خود خلیفہ مقرر کرتے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا تھا۔’’اور سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان اختلاف پر فتنہ و فساد پیدا ہو گیا تھا۔یہ تو اﷲ کو منظور نہ تھا کہ اس کے رسول ﷺ کی امت جس کی تعداد ابھی بہت تھوڑی ہے، آپس میں لڑ کر ختم ہو جائے۔اﷲنے امت کا اتحاد میرے ہاتھ پر قائم رکھا۔خدا کی قسم!میں رسول ﷺ کی امت کو اس فساد میں نہیں ڈال کر مروں گا کہ میرے بعد خلیفہ کون ہو۔ میں خود خلیفہ مقرر کرکے جان اﷲکے سپرد کروں گا۔‘‘عظیم تھے خلیفہ اولؓ کہ انہوں نے یہ بات سوچ لی تھی۔اس دور کے تھوڑا عرصہ بعد کے وقائع نگار اور مبصر لکھتے ہیں کہ خلیفہ اولؓ نے سوچ لیا تھا کہ قبیلوں یا طبقوں یا افراد میں جب اقتدار کی ہوس پیدا ہو جاتی ہے تو قوم کا اتحاد پھٹے ہوئے دامن کی مانند ہو جاتا ہے۔فوجوں کی پیش قدمی پسپائی میں بدل جاتی ہے، پیچھے ہٹتا ہوا دشمن آگے بڑھنے لگتا ہے۔ پھر فوج بھی اقتدار کی جنگ کا ہتھیار بن جاتی ہے اور سالار سلطانی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔مسلمانوں کا وہ دور فتوحات سے مالامال ہو رہا تھا۔درخشاں روایات جنم لے رہی تھیں اور یہی تاریخِ اسلام کی بنیاد بن گئی تھیں۔ابو بکرؓ کی دوربیں نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ قیصرو کسریٰ جو پسپائی اور زوال کے عمل سے گزر رہے ہیں، اور نیست و نابود ہوجانے تک پہنچ گئے ہیں۔وہ مسلمانوں کے نفاق سے فائدہ اٹھائیں گے، اور عفریت بن کر اسلام کو نگل جائیں گے۔’’کیا عمرکو لوگ قبول کرلیں گے؟‘‘ابو بکرؓ نے اپنے اہلِ خانہ سے کہا۔’’شاید نہ کریں……عمر کا مزاج بہت سخت ہے……اپنے احباب سے مشورہ لے لیتا ہوں۔‘‘ابو بکرؓ نے عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو بلایا اور تنہائی میں بٹھایا۔’’ابنِ عوف!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’کیا تو مجھے سچے دل سے بتا سکتا ہے کہ عمر بن خطاب کیسا آدمی ہے؟تو اسے کیسا سمجھتا ہے؟‘‘’’خدا کی قسم خلیفہ رسول!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’جو میں جانتا ہوں، وہ اس سے بہتر نہیں جو تو جانتا ہے۔‘‘’’جو کچھ بھی تو جانتا ہے کہہ دے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’خلیفہ رسول!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو عمر بن خطاب سے بہتر ہو۔ لیکن اس کی طبیعت میں جو سختی ہے، وہ بھی ہم میں سے کسی میں نہیں۔‘‘
’’رائے میری بھی یہی ہے ابنِ عوف!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’تم سب کو عمر کی سختی اس لئے زیادہ محسوس ہو تی ہے کہ میرے مزاج میں بہت نرمی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو گا کہ اپنے بعد خلافت کا بوجھ اس کے کندھوں پر ڈال دوں تو اس کی سختی کم ہوجائے؟……ایسے ہی ہوگا۔کیا تو نے نہیں دیکھا کہ میں کسی پر سختی کرتا ہوں تو عمر اس کے ساتھ نرمی سے پیش آتا ہے؟اور اگر میں کسی کی غلطی یا کوتاہی پر اپنا رویہ نرم رکھتا ہوں تو عمر اس پر سختی کرتا ہے؟وہ سمجھتا ہے کہ کب سختی اور کب نرمی کی ضرورت ہے۔‘‘’’بے شک !ایسا ہی ہے۔‘‘عبدالرحمٰنؓ نے کہا۔’’خلیفہ رسول!بے شک ایسا ہی ہے۔‘‘’’اس بات کا خیال رکھنا ابو محمد(عبدالرحمٰنبن عوف)!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میرے تیرے درمیان جو باتیں ہوئی ہیں وہ کسی تک نہ پہنچیں۔‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف چلے گئے تو امیرالمومنینؓ نے اپنے ایک اوررفیق اور مشیر عثمانؓ بن عفان کو بلایا۔’’ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔کیا تو بتا سکتا ہے کہ عمر بن خطاب کیسا آدمی ہے؟‘‘’’امیرالمومنین!‘‘عثمانؓ بن عفان نے جواب دیا۔’’خدا کی قسم!ابنِ خطاب کو تو مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہے پھر تو مجھ سے کیوں پوچھتا ہے؟‘‘’’اس لئے کہ میں اپنی رائے رسول اﷲ ﷺ کی امت پر نہیں ٹھونسنا چاہتا۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں تیری رائے ضرور لوں گا۔‘‘’’امیرالمومنین !‘‘ عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’عمر کا باطن اس کے ظاہر سے اچھا ہے، اور جو علم و دانش اس کے پاس ہے وہ ہم میں سے کسی میں نہیں۔‘‘’’ایک اور سوال کا جواب دے دے ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔’’اگر میں اپنے بعد خلافت عمر کے سپرد کرجاؤں تو تیرا کیا خیال ہے کہ وہ تم سب پر سختی کرے گا؟‘‘’’ابنِ خطاب جو کچھ بھی کرے گا ہم اس کی اطاعت میں فرق نہیں آنے دیں گے۔‘‘عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’ابو عبداﷲ!اﷲ تجھ پررحم و کرم کرے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں نے جو تجھے کہا اور تو نے جو مجھے کہا۔یہ کسی اور کے کانوں تک نہ پہنچے۔‘‘ابو بکرؓ نے کئی اور صحابہؓ سے عمرؓ کے متعلق رائے لی۔ان میں مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی۔ابو بکرؓ نے ہر ایک سے کہا تھا کہ وہ کسی اور سے اس گفتگو کا ذکر تک نہ کرے، لیکن یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بات کی۔یہ آئندہ خلافت کامعاملہ تھا اور صحابہ کرامؓ کیلئے مسئلہ یہ تھا کہ ابو بکرؓ عمرؓ کو خلیفہ مقرر کر رہے تھے۔عمرؓ سخت طبیعت کے مالک تھے۔ان کے فیصلے بڑے سخت ہوتے اور وہ بڑی سختی سے ان پر عمل کراتے تھے۔
ان سب نے ایک وفد اس مقصد کیلئے بنایا کہ ابو بکرؓ کو قائل کریں کہ عمرؓ بن خطاب کو خلیفہ مقرر نہ کریں۔جب وفد خلیفہ اولؓ کے پاس گیا تو وہ لیٹے ہوئے تھے۔بخار نے انہیں اتنا کمزور کر دیا تھا کہ اپنے زور سے اٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔’’امیرالمومنین!‘‘وفد کے قائد نے کہا۔’’خدا کی قسم!عمر خلیفہ نہیں ہو سکتا۔اگر تو نے اس کو خلیفہ مقرر کر دیاتو اﷲکی باز پرس کا تیرے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔عمر تیری خلافت میں سب پر رعب اور غصہ جھاڑتا ہے وہ خود خلیفہ بن گیا تو اس کا رویہ ظالموں جیساہو جائے گا۔‘‘ابو بکرؓ کو غصہ آگیا۔انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکے۔’’مجھے بٹھاؤ۔‘‘ انہوں نے غصیلی آواز میں کہا۔انہیں سہارا دے کر بٹھادیا گیا۔’’کیا تم سب مجھے اﷲکی باز پرس سے اور اس کے غضب سے ڈرانے آئے ہو؟‘‘ ابو بکرؓ نے غصے اور نقاہت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’میں اﷲکے حضور جا کرکہوں گا کہ میرے رب! میں نے تیرے بندوں میں سے بہترین بندے کو خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے، اور میں نے جو کہا ہے وہ تمام لوگوں کو سنا دو۔میں نے عمر بن خطاب کو خلیفہ مقرر کر دیا ہے۔‘‘وہ جو سب ابو بکرؓ کو ان کے فیصلے کے خلاف قائل کرنے آئے تھے خاموش ہو گئے،اور شرمسار بھی ہوئے کہ انہوں نے امیرالمومنینؓ کو بیماری کی حالت میں پریشان کیا ہے۔وہ سب اٹھ کر چلے گئے۔ اس سے اگلے روز ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان کو بلایا، عثمانؓ خلیفہ کے کاتب تھے۔ ’’ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔’’لکھ جو میں بولتا ہوں۔‘‘ انہوں نے لکھوایا۔ ’’بسم اﷲالرحمٰن الرحیم۔ یہ وصیت ہے جو ابو بکر بن ابو قحافہ نے اس وقت لکھوائی ہے جب وہ دنیا سے رخصت ہوکر موت کے بعد کی زندگی میں داخل ہو رہا تھا۔ایسے وقت پکا کافر بھی ایمان لے آتا ہے، اور جس نے کبھی سچ نہ بولا ہو، وہ بھی سچ بولنے لگتا ہے۔میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو تمہارا خلیفہ مقرر کرتا ہوں، تم سب پر اس کی اطاعت فرض ہے، میں نے تمہاری بھلائی اور بہتری میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔اگر عمر نے تم پر زیادتی کی اور عدل و انصاف نہ کیا تو وہ ہر انسان کی طرح اﷲکے حضور جواب دہ ہو گا۔مجھے امید ہے کہ عمر عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا۔میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس میں تمہاری بھلائی اور بڑائی کے سوا اور کچھ نہیں سوچا۔‘‘وصیت لکھواتے لکھواتے ابو بکرؓ پر غشی طاری ہو گئی تھی، انہوں نے یہاں تک لکھوایا ۔’’ میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو……‘‘اور وہ غشی میں چلے گئے۔عثمانؓ بن عفان نے خود یہ فقرہ مکمل لکھ دیا ۔’’ تمہارا خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔تم سب پر اس کی اطاعت فرض ہے۔ میں نے تمہاری بھلائی اور بہتری میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔‘‘
ابو بکرؓ ہوش میں آگئے-’’ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’پڑھ جو میں نے لکھوایا ہے۔‘‘ عثمانؓ بن عفان نے پڑھ کر سنایا۔’’اﷲاکبر!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’خدا کی قسم! تم نے جو سوچ کرلکھا ہے وہ سوچ غلط نہیں تھی۔تو نے یہ سوچ کر عبارت پوری کردی، کہ میں غشی کی حالت میں ہی دنیا سے رخصت ہو گیا تو نا مکمل وصیت خلافت کیلئے جھگڑے کا باعث بن جائے گی۔‘‘’’بے شک امیرالمومنین!‘‘عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’میں نے یہی سوچ کر عبارت مکمل کرلی تھی۔‘‘’’اﷲتجھے اس کی جزا دے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’انہوں نے عثمانؓ بن عفان کے الفاظ نہ بدلے اور وصیت مکمل لکھوادی۔’’مجھے اٹھا کر مسجد کے دروازے تک لے چلو۔‘‘ امیرالمومنینؓ نے کہا۔ان کے مکان کا ایک دروازہ مسجد میں کھلتا تھا۔ وہ دروازہ کھولا گیا، نماز کا وقت تھا، بہت سے لوگ مسجد میں آچکے تھے۔ ابو بکرؓ کی زوجہ اسماء بنت عمیس دونوں ہاتھوں سے سہارا دے کر مسجد والے دروازے تک لے گئیں۔ نمازیوں نے انہیں دیکھاتو متوجہ ہوئے۔’’میرے بھائیو!‘‘ابو بکرؓ نے نقاہت کے باوجود بلند آواز سے بولنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’کیا تم اس شخص پر راضی ہو گے جسے میں خلیفہ مقررکروں؟ میں نے اس میں تمہاری بھلائی سوچی ہے اور اپنے کسی رشتے دار کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ میرے بعد عمر بن خطاب خلیفہ ہوگا۔ کیا تم سب اس کی اطاعت کرو گے؟‘‘’’ہاں امیرالمومنین!‘‘بہت سی آوازیں سنائی دیں۔’’ ہم اس فیصلے کو قبول کرتے ہیں۔ہم ابنِ خطاب کی اطاعت قبول کریں گے۔‘‘اس کے بعد ابو بکرؓ نے وصیت پر اپنی مہر ثبت کردی۔ابو بکرؓ کا پیشہ تجارت تھا لیکن خلافت کابوجھ کندھوں پر آپڑا تو تجارت کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ گزر اوقات تو کرنی ہی تھی، انہوں نے اپنے کنبے کیلئے بیت المال سے کچھ الاؤنس منظور کرا لیا تھا، اب جب انہوں نے محسوس کرلیا کہ وہ زندہ نہیں رہ سکیں گے، تو انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے کہا، کہ ان کی جو تھوڑی سی زمین ہے وہ ان کی وفات کے بعد بیچ کر یہ تمام رقم جو وہ گزارے کیلئے بیت المال سے لیتے رہے ہیں، بیت المال میں جمع کرادیں۔’’سب میرے قریب آجاؤ!‘‘ ابو بکرؓ نے آخری وقت اہلِ خانہ کو بٹھا کر کہا۔’’ مجھے صرف دو کپڑوں کا کفن پہنا کر دفن کرنا، تم دیکھتے رہے ہو کہ میں ایک ہی کپڑا پہنا کرتا تھا، اس کے ساتھ ایک کپڑا اور ملالینا، ان کپڑوں کو پہلے دھو لینا۔‘‘’’ہم تین نئے کپڑے لے سکتے ہیں۔‘‘عائشہؓ نے کہا۔’’کفن تین کپڑوں کا ہوتا ہے۔‘‘
’’نہیں عزیز بیٹی!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’کفن تو اس لئے ہوتا ہے، کہ جسم سے کوئی مواد اور نمی نکلے تو اسے کفن چوس لے۔کفن پرانے کپڑوں کا ہوا تو کیا؟نئے کپڑے پہننے کا حق زندہ لوگوں کا ہے۔مجھے غسل اسماء بنت عمیس (زوجہ)دے گی، اگر اکیلے غسل نہ دے سکے تو اپنے بیٹے کو ساتھ لے لے۔‘‘
اتنے میں اندر اطلاع دی گئی کہ عراق کے محاذ سے مثنیٰ بن حارثہ آئے ہیں۔ گھر کے کسی فرد نے کہا کہ امیرالمومنینؓ اس وقت بات کرنے کے قابل نہیں۔امیرالمومنینؓ نے قدرے درشت لہجے میں کہا۔’’اسے آنے دو۔وہ بہت دور سے آیا ہے۔جب تک میرا سانس چل رہا ہے، میں اپنے فرائض سے کوتاہی نہیں کر سکتا۔‘‘مثنیٰ کو اندر بلا لیا گیا۔انہوں نے جب ابو بکرؓ کی حالت دیکھی تو پشیمان ہو گئے، اور بات کرنے سے جھجکنے لگے۔’’مجھے گناہگار نہ کر ابنِ حارثہ!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’ہو سکتا ہے تو مدد لینے آیا ہو۔میں اگر تیرے لیے کچھ نہ کر سکا تو اﷲکی باز پرس پر کیا جواب دوں گا؟‘‘’’یا امیرالمومنین!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’محاذ ہمارے قابو میں ہے۔حالات ہمارے حق میں ہیں لیکن تعداد کی کمی پریشان کرتی ہے۔مسلمان اب اتنے نہیں رہے کہ انہیں فوج میں شامل کرکے محاذوں پر بھیجا جائے۔جو جہاد کے قابل تھے وہ پہلے ہی محاذوں پر ہیں۔امیرالمومنین کے حکم سے ان لوگوں کو مجاہدین کی صفوں میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا جو مرتد ہو گئے تھے۔میں یہ درخواست لے کر آیا ہوں کہ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو سچے دل سے اسلام قبول کر چکے ہیں اور محاذوں پر جانا چاہتے ہیں۔کیا امیرالمومنین انہیں فوج میں شامل ہونے کی اجازت دیں گے؟‘‘’’ابنِ خطاب کو بلاؤ۔‘‘امیرالمومنینؓ نے کہا۔عمرؓ دور نہیں تھے،جلدی آگئے۔’’ابنِ خطاب!‘‘امیرالمومنینؓ نے عمرؓ سے کہا۔’’ابنِ حارثہ مدد مانگنے آیا ہے۔یہ جو کہتا ہے ایسا ہی کر اور اسے فوراً مدد دے کر محاذ پر روانہ کر……اور اگر میں اس دوران فوت ہو جاؤں تو اس کام میں رکاوٹ نہ ہو۔‘‘عربوں میں رواج تھا کہ باتیں شاعرانہ الفاظ اور انداز سے کیا کرتے تھے۔خلیفہ اول ابو بکرؓ کی نزع کے وقت کی چند باتیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ان کی بیٹی عائشہؓ ان کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں۔انہوں نے باپ کو نزع کے عالم میں دیکھ کر اس وقت کے ایک شاعر حاتم کا ایک شعر پڑھا:’’نزع کا عالم طاری ہوتا ہے، سانس نہ آنے سے سینہ گھٹنے لگتا ہے، تو دولت انسان کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔‘‘’’نہیں بیٹی!‘‘ابو بکرؓ نے نحیف آواز میں کہا۔’’ہمیں دولت سے کیا کام؟اس شعر کے بجائے تو نے قرآن کی یہ آیت کیوں نہ پڑھی……تجھ پر نزع کا عالم طاری ہو گیا ہے ۔یہی ہے وہ وقت جس سے تو ڈرا کرتا تھا۔‘‘ابو بکرؓ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو انہیں آخری ہچکی آئی۔انہوں نے سرگوشی میں یہ دعا کی۔’’یا اﷲ!مجھے مسلمان کی حیثیت میں دنیا سے اٹھانا اور بعد از مرگ مجھے صالحین میں شامل کرنا۔‘‘یہ خلیفہ اول ابو بکرؓ کے آخری الفاظ تھے۔دن سوموار تھا۔سورج غروب ہو چکا تھا۔تاریخ ۲۲ اگست ۶۳۴ء بمطابق ۲۱جمادی الآخر ۱۳ ہجری تھی۔
اسی رات دفن کر دینے کا فیصلہ ہوا۔ابو بکرؓ کی وصیت کے مطابق ان کی زوجہ اسماء بنتِ عمیس نے غسل دیا۔میت پر پانی ان کے بیٹے عبدالرحمٰن ڈالتے جاتے اور عبدالرحمٰن کی والدہ غسل دیتی جاتی تھیں۔غسل کے بعد وہ چارپائی لائی گئی جس پر رسولِ کریمﷺ کا جسدِ مبارک قبر تک پہنچایا گیا تھا۔
اس چارپائی پر خلیفہ رسول کا جنازہ اٹھا،اور جنازہ مسجدِ نبوی میں رسول اﷲﷺکے مزار اور منبر کے درمیان رکھا گیا۔نمازِ جنازہ کی امامت عمرؓ نے کی۔مدینہ کی وہ رات سوگوار تھی۔گلیوں میں ہچکیاں اور سسکیاں سنائی دیتی تھیں۔رات بھی رو رہی تھی،وہ عٖظیم ہستی اس دنیا سے اٹھ گئی تھی جس نے اسلامی سلطنت کی نہ صرف بنیادیں مضبوط بنائی تھیں۔بلکہ ان پر مضبوط عمارت کھڑی کر دی تھی۔ابو بکرؓ کو رسولِ کریمﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔قبر اس طرح کھودی گئی کہ ابو بکرؓ کا سر رسولِ کریمﷺ کے کندھوں کے ساتھ تھا۔اس طرح رسولِ کریمﷺ اور خلیفہ رسول کی وہ رفاقت جو انہوں نے زندگی میں قائم رکھی تھی ، وفات کے بعد بھی قائم رہی۔ابو بکرؓ سب سے پہلے آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔اب خلیفۃ المسلمین عمر فاروقؓ تھے۔انہوں نے اپنی خلافت کے پہلے روز ہی جو پہلا حکم نامہ جاری کیا وہ خالدؓ کی معزولی کا تھا۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟