🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 43*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *43* ۔۔۔۔

مسلمانوں کیلئے بھی شام میں فاتحانہ داخلہ اور دمشق کا محاصرہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ایک تو نفری دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی جو زخمیوں اور شہیدوں کی وجہ سے کم سے کم ہوتی چلی جا رہی تھی ، دوسرے اپنے وطن سے دوری۔ پسپائی کی صورت میں ان کیلئے کوئی پناہ نہیں تھی۔اس صورت میں انہیں کھانے پینے کو بھی کچھ نہیں مل سکتا تھا۔مختلف ادوار کے جنگی مبصروں اور وقائع نگاروں نے لکھاہے کہ خالدؓ کے لشکر نے جس کی نفری ہمیشہ خطرناک حد تک کم رہی ہے۔تاریخ نویسوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔اگر جنگی مہارت اور قیادت کی بات کی جائے تو سرِ فہرست دو فوجیں آتی ہیں۔ایک قیصرِ روم کی فوج دوسری کسریٰ کی فوج۔یہ دونوں فوجیں عسکری اہلیت اور قیادت کی وجہ سے مشہور تھیں۔بیشک خالدؓکی جنگی قیادت ، تیز رفتار نقل و حرکت اور میدانِ جنگ میں چالوں کا مقابلہ کم ہی سالار کر سکتے تھے لیکن عقیدے کی سچائی اور جذبے کی شدت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔گھروں اور اہلِ و عیال سے اتنی لمبی جدائی سپاہیوں کے جذبے کو کمزور کر دیا کرتی ہے لیکن مسلمانوں کی فوج میں ایسی کمزوری دیکھنے میں نہیں آتی تھی۔اس کیفیت کو مبصروں نے عقیدے اورجذبے کا کرشمہ کہا ہے۔’’میرے عزیر رفیقو!‘‘خالدؓنےاپنے سالاروں سے دمشق کے مضافات میں کہیں کہا۔’’سوچو ہم کہاں تھے اورد یکھو ہم کہاں ہیں۔کیا اب بھی کفار اﷲکو وحدہ لا شریک نہیں مانیں گے اور کیا وہ تسلیم نہیں کریں گے کہ اﷲنے ہمارے قبیلے کو رسالت عطاکی ہے جو برحق ہے اور کوئی دلیل اسے جھٹلا نہیں سکتی؟……اور تم اﷲ کا شکر ادا نہیں کرو گے جس نے تمہیں اتنے طاقتور دشمن پر فتح دی ہے ؟کوئی شمار نہیں اس کی رحمتوں کا لیکن ان کیلئے جو اس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں۔‘‘’’بیشک، بیشک!‘‘کئی آوازیں سنائی دیں۔’’اور اے برہنہ جنگجو!‘‘خالدؓنےضرار بن الازور سے جو خود، زرہ اور قمیض اتارکر لڑا کرتے تھے ، کہا۔’’خدا کی قسم!تو اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھے گا تو ایک دن تو ہی نہیں ہم سب افسوس کر رہے ہوں گے۔ ’’ولید کے بیٹے!‘‘ضرار نے کہا۔’’دینِ اسلام کے دشمن کو دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا لیکن اس میں کوتاہی نہیں کروں گا کہ تیرے ہر حکم کی تعمیل مجھ پر فرض ہے۔‘‘ ضرار بن الازور کے بولنے کا انداز اتنا شگفتہ تھا کہ سب ہنس پڑے۔خالدؓ کے ہونٹوں پر جانفزا مسکراہٹ آ گئی۔

انطاکیہ کی فضاء ہنسی اور مسکراہٹوں سے محروم ہو گئی تھی۔اس شہر کو رومی شہنشاہ ہرقل نے اپنا جنگی ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔اسے جنگ کی جو خبریں روز بروز مل رہی تھیں ان سے اس کی ذہنی اور جذباتی حالت ویسی ہی ہو گئی تھی جو مدائن میں شہنشاہ اُردشیر کی ہوئی تھی،اور صرف شکست کی خبریں سن سن کروہ صدمے سے مر گیا تھا۔مرج الصفر میں رومیوں کو جو شکست ہوئی تھی اس نے تو ہرقل کو باؤلا کر دیاتھا۔پھر اسے اپنے سالاروں کے مارے جانے کی اطلاعیں ملنے لگیں۔’’عزازیر زندہ ہے۔‘‘ہرقل نے بڑے جوش سے کہا۔’’کلوس ہے……یہ دونوں عرب کے ان بدوؤں کو دمشق تک نہیں پہنچنے دیں گے۔‘‘’’شہنشاہِ معظم!‘‘محاذسے آئے ہوئے قاصد نے کہا۔’’وہ دونوں زندہ نہیں۔‘‘’’کیا تم مجھ سے یہ جھوٹ منوانا چاہتے ہو؟‘‘ہرقل نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’کیا تم جھوٹ کی سزا سے واقف نہیں؟‘‘’’سب کچھ جانتے ہوئے یہ خبر سنا رہا ہوں شہنشاہِ معظم!‘‘ قاصد نے کہا۔’’ان دونوں کو مسلمانوں نے زندہ پکڑ لیا تھا اور دونوں کو انہوں نے دمشق کی شہرِ پناہ کے قریب لاکر قتل کر دیا ہے۔‘‘’’اور میری بیٹی کے خاوند کی کیا خبر ہے؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے اپنے داماد سالار توما کے بارے میں قاصد سے پوچھا۔’’سالار توما دمشق کے اندر ہیں۔‘‘قاصد نے جواب دیا۔’’اور محاصرہ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘’’دمشق کا محاصرہ ہم توڑیں گے۔‘‘شہنشاہِ ہرقل نے کہا۔ہرقل نے انطاکیہ میں اسی لیے ڈیرے ڈالے تھے کہ فوج تیار کرکے جہاں بھی کمک کی ضرورت ہو گی وہاں فوج بھیجے گا۔اس نے پہلے ہی لوگوں کو فوج بھی بھرتی ہونے کیلئے تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔گرجوں میں پادری صرف اس موضوع پر وعظ کرتے تھے کہ لوگوں کا فوج میں بھرتی ہونا کتناضروری ہے۔وہ کہتے تھے کہ عیسائیت کاخاتمہ ہو جائے گا۔اور وہ اسلام سے لوگوں کو خوفزد کرتے تھے۔خالدؓ جب دمشق کی طرف بڑھ رہے تھے اس وقت ہرقل نے اعلان کیاتھا کہ جو فوج تیار ہو ئی ہے وہ اس کے معائنے اور احکام کیلئے اسے دکھائی جائے۔یہ فوج اس کے سامنے لائی گئی تو اس نے ایسے جوشیلے اور جذباتی انداز سے فوج سے خطاب کیا کہ سپاہی آگ بگولا ہو گئے۔’’تمہیں کوئی شہنشاہ حکم نہیں دے رہا۔‘‘شہنشاہِ ہرقل نے کہا۔’’یہ خدا کے بیٹے کا حکم ہے کہ اس کے دشمنوں کو تباہ کر دو۔صلیب کی آن پر مر مٹو۔میں آج شہنشاہ نہیں ، تم جیسا ایک سپاہی ہوں۔‘‘

۹ستمبر ۶۳۴ء (۱۰ رجب ۱۳ ھ) کا دن تھا۔دمشق کے محاصرے کا گیارہواں دن تھا محاصرے کے دس روز یہ سرگرمی رہی کہ دمشق کے کسی نہ کسی دروازے سے رومیوں کے ایک دو دستے باہر آتے اور مسلمانوں پر حملہ کرتے لیکن زیادہ آگے نہ آتے۔مختصر سی جھڑپ لے کر قلعے میں واپس جانے کی کرتے۔خالدؓنے ابھی قلعے پر کسی بھی قسم کا ہلہ نہیں بولا تھا۔خالدؓ نے دیکھ بھال کیلئے ہر طرف جاسوس بھیج رکھے تھے۔محاصرے کے گیارہویں روز ایک جاسوس اس حالت میں خالدؓ کے پاس آیا کہ اس کا گھوڑا پسینے میں نہایا ہوا تھا اور جب گھوڑا رکا تو کانپ رہا تھا۔سوار کی اپنی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی،اس سے اچھی طرح بولابھی نہیں جاتا تھا،خالدؓنے پہلے تو اسے پانی پلایا پھر پوچھا کہ وہ کیا خبرلایا ہے۔’’رومیوں کی ایک فوج آرہی ہے۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’تعداد دس ہزار سے زیادہ ہوگی ،کم نہیں۔‘‘’’تم نے اسے کہاں دیکھا ہے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’حمص سے آگے نکل آئی ہے۔‘‘جاسوس نے جواب دیااور ایک جگہ کا نام لے کر کہا۔’’ہمارا اک دستہ وہاں موجود ہے۔رومی فوج کل کسی بھی وقت وہاں تک پہنچ جائے گی۔ہمارے دستے کی نفری اس کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے۔اسی لیے میں کہیں ایک ثانیہ بھی نہیں رُکا۔ہمارا دستہ مارا جائے گا اور رومی دمشق تک آجائیں گے۔‘‘خالدؓنے جاسوس کو رخصت کردیا۔ان کیلئے یہ خبر حیران کن بھی نہیں تھی، پریشان کن بھی نہیں تھی۔انہیں معلوم تھا کہ ہرقل انطاکیہ میں ہے اور وہاں وہ آرام اور سکون سے نہیں بیٹھا ہوا بلکہ وہ دمشق کو بچانے کے انتظامات کر رہا ہے۔یہ رومی فوج جس کی اطلاع ایک جاسوس لایا تھا، انطاکیہ سے شہنشاہِ ہرقل نے اپنی دمشق والی فوج کیلئے کمک کے طور پربھیجی تھی۔مؤرخوں نے اس کی تعداد بارہ ہزار لکھی ہے۔خالدؓنے اسی توقع پر کہ رومیوں کی کمک آئے گی، دمشق کی طرف آنے والے راستوں پر پہلے سے ہی تھوڑی تھوڑی نفری کا ایک ایک دستہ بھیج دیا تھا۔ان کے سپرد یہ کام تھا کہ کمک کو روکے رکھیں مگر یہ جو فوج آرہی تھی اس کی نفری بہت زیادہ تھی۔خالدؓ نے اسی وقت سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ دشمن کی زیادہ نفری آرہی ہے اور اسے روکنے کیلئے اپنی نفری بہت تھوڑی ہے۔

’’رومیوں کی اس کمک کو روکنا ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اور اپنی نفری جو اس کے راستے میں موجود ہے اسے جانی نقصان سے بچانا ہے۔ہمیں محاصرے کو ذرا کمزور کرنا پڑا گا۔‘‘’’اس کمی کو ہم اپنے جذبے سے پورا کرلیں گے۔‘‘سالار شرجیلؓ نے کہا۔’’ابنِ ولید!تو جتنی نفری کافی سمجھتاہے ، یہاں سے نکال کے بھیج دے۔‘‘’’پانچ ہزار سوار کافی ہوں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’رومیوں کی نفری دس ہزار سے زیادہ ہے۔‘‘’’بہت ہے۔‘‘ضرار بن الازورنے کہا۔’’اور مجھے یقین ہے ابنِ ولید! تو مجھے مایوس نہیں کرے گا۔ان پانچ ہزار سواروں کا سالار میں ہوں گا۔‘‘’’تیری خواہش کو میں رد نہیں کروں گا ابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔’’لیکن احتیاط کرنا کہ جوش میں آکر دشمن کی صفوں میں نہ گھس جانا، اگر ایسا ضروری ہو جائے تو تجھے پیچھے نہیں رہنا چاہیے……اور یہ بھی سن لے ابن الازور!اگر تو نے دیکھا کہ تو دشمن کو سنبھال نہیں سکے گا تو فوراً کمک مانگ لینا میں بھیج دوں گا۔وہاں پہلے سے جو اپنا دستہ موجود ہے ، اسے بھی اپنی کمان میں لے لینا،یہ ساری نفری تیرے ماتحت ہوگی۔اپنا نائب خود ہی چن لے۔‘‘’’رافع بن عمیرہ!‘‘ضرار نے کہا۔’’لے جا اسے !‘‘خا لدؓنے کہا۔’’اور اتنی جلدی وہاں پہنچ جیسے تو اڑتا ہوا گیا ہو۔‘‘ضرار بن الازور کو درہ عقاب (ثنیۃ العقاب) کے قریب پہاڑی علاقے میں پانچ ہزار سواروں کے ساتھ پہنچناتھا۔وہ جگہ دمشق سے کم و بیش بیس میل دور تھی،ضرار تو جیسے اڑتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔انہوں نے وہاں جو نفری موجود تھی اسے بھی اپنی کمان میں لے لیا۔یہ علاقہ پہاڑی ہونے کی وجہ سے گھات کیلئے موزوں تھا،رومی فوج ابھی تک وہاں نہیں پہنچی تھی۔ضرار نے بڑی تیزی سے اپنی تمام نفری کو گھات میں چھپا دیا۔اس کے ساتھ ہی اس روز کا سورج غروب ہو گیا۔ضرار نے سنتری اس ہدایت کے ساتھ مقرر کیے کہ وہ ٹیکریوں اور چٹانوں کے اوپر چلے جائیں ، باہر نہ جائیں،پوری احتیاط کی جا رہی تھی کہ دشمن کو گھات کا پتہ نہ چلے۔رات گزر گئی صبح طلوع ہوئی اور اس سے تھوڑی ہی دیر بعد دشمن کی فوج آگئی،اور یہ صحیح معنوں میں فوج تھی۔نفری زیادہ، تنظیم نہایت اچھی۔دیکھا گیا کہ اس فوج کے ساتھ بیشمار گھوڑا گاڑیاں تھیں جو سامان سے لدی ہوئی تھیں اور اونٹوں کی تعداد بھی بے حساب تھی۔جن پربوریاں لدی ہوئی تھیں۔یہ بعدمیں پتا چلا تھا کہ یہ سامان خوردونوش تھا جو دمشق جا رہا تھا۔خالدؓ دمشق کی اس صورتِ حال سے بے خبر تھے۔

رومیوں نے دمشق کا دفاع تو بڑا اچھا کیا تھا لیکن شہر میں رسد اور خوراک کی اتنی کمی تھی کہ دس دنوں کے محاصرے میں ہی شہری ہر چیز کی قلت محسوس کرنے لگے تھے۔ہرقل کو اطلاع مل چکی تھی۔اس نے کمک بھیجی اور اس کے ساتھ خوراک کا ذخیرہ بھی بھیج دیا تھا۔ ضرار بن الازور کو بتایا گیا کہ رومی فوج کے ساتھ مال و اسباب بے حساب آرہا ہے تو ضرار نے جوش میں آکر حسبِ معمول زِرہ، خود، اور قمیض اتار پھینکی اور نیم برہنہ ہو کر انہوں نے اعلان کیا کہ بہت موٹا شکار آرہا ہے۔رومی جب پہاڑیوں میں آئے تو ضرار کی للکار پر مجاہدینِ اسلام گھات سے نکل کر رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔توقع یہ تھی کہ رومی اچانک حملے سے گھبرا کر اور بوکھلا کر بھاگ اٹھیں گے لیکن ان کا درِ عمل ایسا بالکل نہیں تھا۔انہوں نے یہ چال چلی کہ پیچھے ہٹنے لگے اور درہ عقاب کے قریب اس جگہ جا رُکے جو ہموار میدان تھا اور یہ پہاڑی کی بلندی تھی۔انہوں نے سامان کی گاڑیاں پیچھے بھیج دیں اور ان کے پیچھے کی فوج آگے آگئی۔ان کی تعداد مسلمانوں سے دگنی تھی اور ان کے انداز سے صاف پتا چلتا تھا کہ مسلمانوں کا یہ حملہ ان کیلئے غیر متوقع نہ تھا، وہ اس کیلئے تیار تھے ،انہوں نے قدم جما لیے۔ضرار بن الازور نے دشمن کو اس کیفیت میں دیکھا کہ اس نے نہ صرف یہ کہ حملہ روک لیا ہے بلکہ وہ سامنے سے بھی اور دائیں بائیں سے بھی حملے کر رہا ہے۔مسلمانوں کا جوش و خروش کچھ کم نہ تھا لیکن رومی جس منظم انداز سے لڑ رہے تھے اس سے یہی ایک خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بھگا کر اور کاٹ کر آگے نکل جائیں گے۔ضرار کو خالدؓ نے جس حرکت سے منع کیا تھا ،انہوں نے وہی حرکت کی۔پہلے تو وہ منظم انداز سے رومیوں پر حملے کراتے رہے لیکن دیکھا کہ رومی پیچھے ہٹنے کے بجائے چڑھے آرہے ہیں تو ضرار جوش میں آگئے اور چند ایک مجاہدین کو ساتھ لے کر رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔انہوں نے اپنی مخصوص جرات اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور جو رومی ان کے سامنے آیا وہ کٹ گرا اور اس طرح وہ اندھا دھند بہت آگے نکل گئے۔’’یہ ہے برہنہ جنگجو!‘‘کسی رومی نے نعرہ لگایا۔یہ کوئی سالار ہو سکتا تھا۔اس نے للکار کر کہا۔’’گھیرے میں لے لو، اسے زندہ پکڑو۔

ضرار نیم برہنہ ہو کر لڑنے اور دشمن کو ہر میدان میں حیران کن نقصان پہنچانے میں اتنے مشہور ہو گئے تھے کہ انطاکیہ تک ان کی شجاعت کے چرچے پہنچ گئے تھے،رومیوں نے اس نیم برہنہ جنگجو کو پہچان لیا۔ضرار کے دائیں بازو میں ایک تیر لگ چکا تھا، مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ضرار کے جسم پردو زخم اور بھی تھے۔بہرحال ان کے بازو میں تیر اترنے پر سب متفق ہیں،ضرار نے تیر کھینچ کر بازو سے نکال پھینکا۔تیر نکالنا بڑا ہی اذیت ناک ہوتا ہے۔وہاں سے گوشت باہر نکل آتا ہے لیکن ضرار بن الازور عاشقِ رسولﷺ تھے۔وہ تو جیسے اپنے جسم اور اپنی جان سے دست بردار ہو گئے تھے۔یہ تیر اور تلواریں تو جیسے ان کا کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتی تھیں،رومیوں کا تیر کھا کر انہوں نے تیر یوں نکال پھینکا جیسے ایک کانٹا نکال پھینکا ہو۔ان کا دایاں ہاتھ تلوار کو مضبوطی سے تھامے رہا اور رومی کٹتے اور گرتے رہے۔رومی انہیں زندہ پکڑنے کا تہیہ کر چکے تھے۔انہوں نے ضرار کے آدمیوں کو جو ان کے ساتھ آگے نکل گئے تھے، بکھیر کر الگ الگ کر دیااور ضرار کو گھیرے میں لے لیااس موقع پر انہیں ایک یا دو زخم آئے۔آخر کئی رومیوں نے مل کر انہیں پکڑ لیا،اور انہیں باندھ دیا،رومی بلند آواز سے چلّانے لگے:’’مسلمانو!تمہارا سالار ہمارا قیدی ہو گیا ہے۔‘‘’’ہم نے تمہارے ننگے سالار کو پکڑ لیا ہے۔‘‘’’ہم شہنشاہِ ہرقل کو تحفہ دیں گے۔‘‘رومیوں کی للکار بلند ہوتی جا رہی تھی،وہ ٹھیک کہتے تھے۔شہنشاہِ ہرقل کیلئے ضرار سے بڑھ کر کوئی اور تحفہ اچھا نہیں ہو سکتا تھا،رومی انہیں باندھ کر پیچھے لے گئے۔ان کے زخموں سے خون بڑی تیزی سے بہا جا رہاتھا جس سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ ہرقل تک زندہ نہیں پہنچ سکیں گے،رومیوں نے ان کی مرہم پٹی کردی۔اس دور کی جنگوں میں فوجیں یوں بھی شکست کھا جاتی تھیں کہ سپہ سالار مارا گیا، پرچم گر پڑا، اور پوری کی پوری فوج بھاگ اٹھی، لیکن مسلمانوں کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ضرار جیسا سالار پکڑا گیا تو دشمن کی للکار سن کر کہ اس نے ان کے سالار کو پکڑ لیا ہے، مسلمانوں نے حملوں کی شدت میں اضافہ کر دیا۔وہ لپکتے ہوئے شعلے اور کڑکتی ہوئی بجلیاں بن گئے۔رافع بن عمیرہ ضرار کے نائب سالار تھے، انہوں نے گرج کر اعلان کیا کہ اب کمان ان کے ہاتھ میں ہے، انہوں نے سامنے سے رومیوں پر حملے بھی کرائے ۔خود بھی حملوں کی قیادت کی اوردشمن کی صفوں کو توڑ کر آگے جانے کی کوشش کی۔لیکن رومیوں کی صفیں مل کر بڑی مضبوط دیوار بن گئی تھیں۔رافع ضرار کو رہا کرانے کی کوشش میں تھے۔لیکن ان کی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔مسلمان اپنے سالار کو دشمن سے چھڑانے کیلئے جان کی بازی لگائے ہوئے تھے۔

دوپہر سے ذرا بعد کا وقت تھا۔خالدؓ دمشق کے اردگرد گھوم پھر کر جائزہ لے رہے تھے کہ دیوار کہیں سے توڑی جا سکتی ہے یا نہیں۔دو سالار ان کے ساتھ تھے۔’’خدا کی قسم!دمشق ہمارا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’رومیوں کو کمک نہیں مل سکتی۔ضرار اور رافع ان کی کمک کو بھگا چکے ہوں گے۔‘‘خالدؓ چپ ہو گئے۔ایک گھوڑ سوار ان کی طرف تیز آرہا تھا۔’’قاصد معلوم ہوتا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگاکر اس کی طرف بڑھے۔’’سالارِ اعلیٰ !‘‘گھوڑ سوار نے گھوڑا ان کے قریب روک کر کہا۔’’رومیوں نے ضرار بن الازور کو پکڑ لیا ہے ۔ابنِ عمیرہ نے ان کی جگہ لے لی ہے۔انہوں نے ابن الازور کو رہا کرانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہم ناکام ہو گئے ہیں۔ابنِ عمیرہ نے مجھے اس پیغام کے ساتھ بھیجا ہے کہ کمک کے بغیر ہم رومیوں کو نہیں روک سکیں گے۔‘‘’’کیا میں نے اسے منع نہیں کیا تھا کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھنا؟‘‘خالد نے برہم سا ہو کر کہا۔’’رومی ہمارے اتنے قیمتی سالار کونہیں لے جا سکتے۔‘‘خالدؓنے تمام سالاروں کو بلایا اور انہیں ضرار کی گرفتاری اور بیت لہیا میں رومیوں کے سامنے مسلمانوں کی کمزور حالت کے متعلق بتایا۔’’میں خود ابنِ عمیرہ کی مدد کیلئے جانا چاہتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’لیکن محاصرہ کمزور ہو جائے گا۔رومی باہر آکر تم پر حملہ کردیں گے،ہماری نفری پہلے ہی کم ہو کر رہ گئی ہے،اگر میں نہیں جاتا اور میں کمک نہیں بھیجتا تو ہمارے پانچ ہزار سوار مارے جائیں گے اور رومیوں کی کمک سیدھی یہاں آکر ہلہ بول دے گی۔بتا سکتے ہو مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘’’رافع کی مدد کو پہنچنااور رومیوں کی کمک کو روکنا زیادہ ضروری ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ابنِ ولید! تو سمجھتا ہے کہ تیرا جانا ضروری ہے تو ابھی چلا جا۔ہمیں اور دمشق کے محاصرے کو اﷲ پر چھوڑ۔رومیوں کو باہر آکر حملہ کرنے دے۔وہ زندہ اندر نہیں جا سکیں گے۔‘‘دوسرے سالاروں نے ابو عبیدہؓ کی تائید کرکے خالدؓ کو یقین دلایا کہ ان کی نفری کم ہو بھی گئی تو بھی وہ محاصرے کو درہم برہم نہیں ہونے دیں گے۔’’اگر مجھے جانا ہی ہے تو میں فوراً نہیں جاؤں گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’میں ایسے وقت یہاں سے سواروں کو لے کر نکلوں گا جب دشمن ہمیں نہیں دیکھ سکے گا……ابو عبیدہ!میری جگہ لے لے۔میں آدھی رات کے بعد چار ہزار سوار لے کر نکل جاؤں گا۔تم سب پر اﷲ کی سلامتی ہو،اﷲتمہارا حامی و ناصر ہو۔چار ہزار سواروں کو تیاری کی حالت میں الگ کردو اور انہیں بتا دو کہ آدھی رات کے بعد روانہ ہونا ہے۔‘‘بیت لہیا کم و بیش بیس میل دور تھا۔سورج غروب ہونے تک وہاں رومیوں اور مسلمانوں میں لڑائی ہوتی رہی۔رافع بن عمیرہ نے شام تاریک ہونے کے بعد بھی مجاہدین کو رومیوں کے عقب میں پہاڑیوں کے درمیان سے گزار کر بھیجا مگر ہر ٹولی ناکام واپس آئی۔ ’’جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، ضرار بن الازور موت کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔‘‘رافع نے کئی بار کہا۔’’اﷲکرے وہ زندہ ہو، اﷲاسے زندہ رکھے۔ہم اسے چھڑا کر ضرور لائیں گے۔

رات گزر گئی،صبح کا اجالا ابھی پوری طرح نہیں نکھرا تھا کہ خالدؓچار ہزار سواروں کے ساتھ رافع کے پاس پہنچ گئے۔خالدؓآدھی رات گزر جانے کے بہت بعددمشق سے روانہ ہوئے تھے۔انہوں نے چار ہزار سواروں کو شام کے بعد خاموشی سے محاصرے سے ہٹا کر پیچھے کرنا شروع کر دیا تھااور سوار پیچھے جاکر اکٹھے ہوتے جا رہے تھے۔یہ جگہ دمشق سے ذرا دورتھی۔خالدؓ انہیں ساتھ لے کر روانہ ہوئے تو شہر میں محصوررومیوں کو خبر تک نہ ہوئی۔خالدؓ اور ان کے سوار دستے کو دیکھ کر رافع اور ان کے سواروں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔خالدؓ نے بڑی تیزی سے دشمن کا اور رافع کے سواروں کا جائزہ لیا، اور دونوں دستوں کو ضرورت کے مطابق ترتیب میں کرکے حملے کا حکم دے دیا۔حملہ ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک گھوڑ سوار مسلمانوں کی صفوں سے نکلا اور گھوڑا سر پٹ دوڑاتا خالدؓ سے بھی آگے نکل گیا۔اس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور ایک ہاتھ میں برچھی تھی۔خالدؓ کو اس پر غصہ آیا اور انہوں نے چلا کر اسے پکارا لیکن وہ رومیوں کی اگلی صف تک پہنچ چکا تھا، جسم کے لحاظ سے وہ موٹا تازہ نہیں تھا۔اس کے سر پر سبز رنگ کا عمامہ تھا، اور اس نے اپنا چہرہ ایک کپڑا باندھ کر چھپایا ہوا تھا۔اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔’’یہ خالد ہے!‘‘ رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’ایسی جرات خالد کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔‘‘رافع ایک پہلو پر تھے جہاں سے خالدؓ نظر نہیں آتے تھے۔خالدؓ نے حملہ روک لیا اور وہ رافع کے پاس گئے۔ رافع انہیں دیکھ کر حیران ہوئے۔’’ابنِ ولید!‘‘رافع نے خالدؓ سے کہا۔’’اگر وہ تو نہیں جو رومیوں پر اکیلا ٹوٹ پڑا ہے تو وہ کون ہے؟‘‘’’میں یہی تجھ سے پوچھنے آیا ہوں۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’میں نے ابن الازور کو اسی حرکت سے روکا تھا۔‘‘’’وہ دیکھ ابنِ ولید!‘‘رافع نے کہا۔’’وہ جو کوئی بھی ہے ذرا دیکھ!‘‘وہ جو کوئی بھی تھا مسلمانوں کو بھی اور رومیوں کو بھی حیران کر رہا تھا۔جو رومی اس کے سامنے آتا تھا وہ اس کی برچھی یا تلوار کا شکار ہو جاتا تھا۔یہ سوار رُکتا نہیں تھا۔ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں برچھی ہونے کے باجود اس نے گھوڑے کو اپنے قابومیں رکھا ہوا تھا۔ایک رومی کو گراکر وہ دور چلا جاتا کوئی اس کے تعاقب میں جاتا تو یہ سوار یکلخت گھوڑے کو روک کر یا گھماکر اپنے تعاقب میں آنے والے کوختم کردیتا۔خالدؓ بھی (مؤرخوں کے مطابق ) دم بخود ہو گئے تھے۔ایک بار وہ رومیوں کو گرا کر اس نے گھوڑا دور سے موڑا تو خالدؓکے قریب سے گزرا۔خالدؓ نے چلا کر اسے رکنے کو کہا لیکن سوار نہیں رکا۔دیکھنے والوں کو صرف اس کی آنکھیں نظر آئیں۔ان آنکھوں میں کچھ اور ہی چمک تھی۔بلکہ ان آنکھوں میں دل کشی سی تھی۔اس کی تلوار اوراس کی برچھی کی انّی خون سے سرخ ہو گئی تھی۔وہ ایک بار پھر رومیوں کی طرف جارہا تھا۔ ’ابنِ ولید!‘‘رافع نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’توحملے کا حکم کیوں نہیں دیتا؟خدا کی قسم!یہ جنگ اس اکیلے سوار کی نہیں۔‘‘مجاہدین اس سوار کی حیرت ناک شجاعت کو دیکھ کر جوش سے پھٹ رہے تھے اور وہ بھی حملے کا مطالبہ کر رہے تھے۔خالدؓ نے حملے کا حکم دے دیا۔

اب مجاہدینِ اسلام نے جو حملہ کیاتویہ ایسے غضب ناک سیلاب کی مانند تھا جو بند توڑکر آیا ہو،اس ایک پر اسرار سوار نے مجاہدین کے لشکر میں قہر بھر دیا تھا۔مجاہدین نے خالدؓ کی بتائی ہوئی ترتیب سے حملہ کیا لیکن وہ سوار اپنے لشکر سے الگ تھلگ اپنی طرز کی لڑائی لڑتا رہا،خالدؓاس تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ تو جیسے پاگل ہو چکا تھا یا وہ خود کشی کرنے کے انداز سے لڑ رہا تھا۔ایک بار پھر وہ خالدؓ کے قریب سے گزرا۔’’رک جا اے جان پر کھیلنے والے!‘‘خالدؓ چلّائے۔’’کون ہے تو؟‘‘سوار نے گھوڑا ذرا روکا۔خالدؓ کی طرف دیکھا۔کپڑے کے نقاب سے اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آئیں اور اس نے گھوڑے کو ایڑ لگادی۔خالدؓنے اپنے دو محافظوں سے کہا کہ اس سوار کو گھیر کر لے آئیں ورنہ یہ مارا جائے گا۔’’دیکھو، یہ تھک بھی گیا ہے۔‘‘ دونوں سواروں نے گھوڑے دوڑا دیئے اور اسے جالیا۔’’کیا تو نے سنا نہیں سالارِ اعلیٰ نے تجھے بار بار پکارا ہے؟‘‘ایک محافظ نے اسے کہا۔سوار محافظوں کو چپ چاپ دیکھتا رہا۔’’سالارِاعلیٰ تجھ سے خفا نہیں۔‘‘دوسرے محافظ نے کہا۔’’آ اور اس سے خراجِ تحسین وصول کر۔‘‘سوار نے ایک بار پھر گھوڑے کا رخ دشمن کی طرف کر دیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ ایڑ لگاتا۔ ایک محافظ نے اپنا گھوڑا ا س کے آگے کر دیا اور دوسرے نے اس کی لگام پکڑ لی۔عجیب بات یہ تھی کہ سوار نے کوئی بات نہ کی اور نقاب سے صرف اس کی آنکھیں نظر آتی رہیں، یہ عام سی آنکھیں نہیں تھیں۔محافظ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور خالدؓ کے سامنے جا کھڑا کیا۔اس نے برچھی اور تلوار سے اتنے زیادہ رومیوں کو ہلاک کیاتھا کہ دونوں ہتھیار پورے کے پورے لال ہو گئے تھے اور ان سے خون بہہ بہہ کر اس سوار کے ہاتھوں تک چلا گیا تھا اور کپڑوں پر بھی چھینٹے پڑے تھے۔خالدؓ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو اس نے نظریں جھکا لیں۔’’آنکھوں سے تو نو عمر لڑکالگتا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو نے اپنی شجاعت کاسکہ میرے دل پر بٹھا دیا ہے۔تیری قدر میرے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا۔ خدا کی قسم!میں تیرا چہرہ دیکھوں گا اور تو بتا کہ تو ہے کون؟‘‘’’تو میرا امیر ہے اور میرا سالار ہے۔‘‘سوار نے کہا۔’’اور تو میرے لیے غیر مرد ہے،میں تیرے سامنے اپنا چہرہ کیسے بے نقاب کر دوں۔جسے تو میری شجاعت کہتا ہے یہ ایسا اشتعال اور غصہ ہے جو میرے اختیار سے باہر ہے۔‘‘’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘خالدؓنے اس سوار کی بات سن کر کہا۔’’کس کی بیٹی ہے تو؟کس کی بہن ہے تو؟‘‘’’میں الازور کی بیٹی خولہ ہوں۔‘‘اس نے جواب دیا۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

’’ضرار بن الازور کی بہن!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’خدا کی قسم!‘‘خولہ بنتِ الازور نے کہا۔’’میں اپنے بھائی کو رومیوں کی قید سے چھڑا کر دم لوں گی۔‘‘’’خوش نصیب ہے الازور جس کے گھرمیں ضرار جیسے بیٹے اورخولہ جیسی بیٹی نے جنم لیا ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ لڑائی صرف تیری نہیں بنتِ الازور!ہمارے ساتھ رہ اور دیکھ کہ ہم تیرے بھائی کو کس طرح رہا کراتے ہیں۔‘‘اس دور میں عورتیں بھی اپنے خاوندوں بھائیوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں جایاکرتی تھیں۔خولہ اپنے بھائی ضرار کے ساتھ آئی تھیں۔انہیں پتا چلا کہ رومیوں نے ان کے بھائی کو قید میں لے لیا ہے تو انہوں نے اسے ذاتی جنگ سمجھ لیا۔سپہ سالار خالدؓ کی بھی پرواہ نہ کی اور رومیوں پر ٹوٹ پڑیں۔عورتیں اور بچے دمشق کی مضافات میں تھے ۔خولہ وہاں سے خالدؓ کے چار ہزار مجاہدین کے پیچھے پیچھے چل پڑی تھیں۔جوں ہی رومی اور مسلمان آمنے سامنے آئے خولہ نے گھوڑے کو ایڑ لگادی اور رومیوں پر ٹوٹ پڑیں۔خولہ نے ایسی مثال قائم کر دی جس نے مجاہدینِ اسلام کو نیا حوصلہ اور نیا ولولہ دیا۔اب مسلمانوں کی نفری بھی زیادہ ہو گئی تھی، اور قیادت خالدؓ کی تھی۔خالدؓ کے ساتھ جو چار ہزار سوار گئے تھے وہ تازہ دم تھے۔اس کے علاوہ پورا لشکر ضرار کے قیدی ہو جانے پر آگ بگولہ تھا۔رومیوں کیلئے اس حملے کو برداشت کرنا ناممکن ہو گیا۔انہوں نے جم کر لڑنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ کی چالوں اور ان کے لشکر کے غیض و غضب کے سامنے رومی ٹھہر نہ سکے۔رومیوں کی فوج چونکہ ایک منظم اور تربیت یافتہ فوج تھی اس لیے اس کی پسپائی بھی منظم تھی۔اسے پسپا کرنے میں خالدؓ کو بہت زور لگانا پڑا۔رومیوں کی پسپائی سے یہ مقصد تو پورا ہو گیا کہ دمشق کے دفاعی دستے کمک اور رسد سے محروم رہے۔رومیوں کا یہ کمال تھا کہ وہ جو رسد ساتھ لائے تھے وہ اپنے ساتھ ہی لے جا رہے تھے۔اب دوسرا مقصد سامنے تھا اور وہ تھا ضرار کی رہائی۔اس مقصد کیلئے خالدؓ نے رومیوں کا تعاقب جاری رکھا۔رومی اور تیزی سے پسپا ہونے لگے۔خالدؓ نے ہر داؤ کھیلا مگر رومیوں نے کوئی داؤکامیاب نہ ہونے دیا، خالدؓ نے تعاقب کی رفتار کم نہ کی۔ان کی کوشش یہ تھی کہ رومی کہیں رکنے نہ پائیں۔خالدؓخود پیچھے رہ گئے۔یہ بہن کا ایثار تھا جو اﷲنے قبول کیا، اور یہ ضرار کا عشقِ رسولﷺ تھا جو اﷲکو اچھا لگا۔ضرار کی سرفروشی کو اﷲنے نظر انداز نہ کیا۔پتا چلا کہ ضرار رومیوں کی قید میں زندہ ہیں۔یہ خبر دینے والے دو عربی تھے جو اس علاقے میں آکر آباد ہوئے تھے،خالدؓ کے دو چار سوار ایک چھوٹی سی ایک بستی کے قریب سے گزرتے گزرتے رک گئے۔وہ پانی پینا چاہتے تھے۔بستی کے لوگ اس خیال سے خوفزدہ ہو گئے کہ یہ فاتح فوج کے آدمی ہیں اس لئے یہ لوٹ مار کریں گے اور جوان لڑکیوں پر ہاتھ ڈالیں گے۔آبادی میں ہڑبونگ سی مچ گئی۔دو آدمی مسلمان سواروں کے پاس آئے۔’’ہم بھی عربی باشندے ہیں۔‘‘انہوں نے سواروں سے کہا۔’’ہم مسلمان تو نہیں پھر بھی عرب کی مٹی کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ ہماری خاطر اس بستی پر ہاتھ نہ اٹھائیں-

’’تم نہ کہتے تو بھی ہم اس بستی کی طرف دیکھنا گوارا نہ کرتے۔‘‘ایک مسلمان سوار نے کہا۔’’ان لوگوں سے کہو کہ ہم سے نہ ڈریں، ہم تم سب کے محافظ ہیں،ہم پانی پی کر چلے جائیں گے۔‘‘دونوں عربوں نے بستی کے لوگوں سے کہا کہ وہ ڈریں نہیں اور اپنے گھروں میں رہیں۔ان عربوں نے سواروں کو اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلایا،اور اس دوران وہ سواروں کے ساتھ باتیں بھی کرتے رہے۔باتوں باتوں میں ان عربوں نے سواروں کو بتایا کہ ایک گھوڑے پر رومیوں نے ایک آدمی کو باندھ رکھا تھااس کا سر ننگا تھا اور اس کی قمیض بھی نہیں تھی اور اس کے ایک بازو پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔’’اسے انہوں نے یہاں پانی پلانے کیلئے روکا تھا۔‘‘ایک عرب نے بتایا۔’’وہ تمہارا ساتھی معلوم ہوتا تھا۔‘‘مسلمان سواروں کو شک نہ رہا۔یہ ضرار تھے۔سواروں نے ان عربوں سے مزید معلومات لیں۔ضرار کے ساتھ تقریباً ایک سو رومی تھے۔وہ رومی لشکر کی پسپائی سے بہت پہلے وہاں سے گزرے تھے اور وہ حمص کی طرف جا رہے تھے۔مسلمان سواروں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ وہ پیچھے جاکر سپہ سالار کو ضرار بن الازور کے متعلق یہ اطلاع دے۔’’الحمدﷲ!‘‘خالدؓ نے یہ خبر سن کر کہا۔’’ضرار زندہ ہے اور وہ زندہ رہے گا۔انہوں نے اسے قتل کرنا ہوتا تو کر چکے ہوتے۔وہ اسے اپنے بادشاہ کے پاس لے جا رہے ہیں……ابنِ عمیرہ کو بلاؤ۔‘‘رافع بن عمیرہ آئے تو خالدؓ نے انہیں ضرار کے متعلق جو اطلاع ملی تھی، پوری سنا کرکہا کہ وہ ایک سو سوار چن لیں جو جان پر کھیلنے والے شہسوار ہوں،انہیں ساتھ لے کر حمص کی طرف ایک ایسا راستہ اختیار کریں جو راستہ نہ ہو۔مطلب یہ تھا کہ راستہ چھوٹا کرکے حمص کی طرف جائیں اور ان ایک سو رومیوں کو روکیں، اور ابن الازور کو رہا کرائیں۔رافع جب سواروں کا انتخاب کر رہے تھے تو ضرار کی بہن کو پتا چل گیا کہ رافع ضرار کو آزاد کرانے جا رہے ہیں،وہ رافع کے پاس دوڑی گئیں اور کہنے لگیں کہ وہ بھی ان کے ساتھ جائیں گی۔’’نہیں بنت الازور!‘‘رافع نے کہا۔’’خدا کی قسم!جو کام ہمارا ہے، وہ ہم ایک عورت سے نہیں کرائیں گے۔تجھے تیرا بھائی چاہیے۔وہ تمہیں مل جائے گا۔نہیں ملے گا تو ہم بھی واپس نہیں آئیں گے۔‘‘’’میں اگر سپہ سالار سے اجازت لے لوں!‘‘’’ابنِ ولید تجھے اجازت نہیں دے گا الازور کی بیٹی!‘‘رافع نے کہا۔خولہ مایوس ہو گئیں۔رافع چنے ہوئے ایک سو سواروں کے ساتھ بڑی عجلت سے روانہ ہوگئے۔انہوں نے حمص کی طرف جانے والے راستے کا اندازہ کر لیا تھا۔وہ اس راستے سے دور دور تیز رفتار سے گھوڑے دوڑاتے گئے، وہ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے کہ ایک طرف سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آ رہا تھا۔وہ رومی نہیں ہو سکتا تھا،رومی ہوتا تو اکیلا نہ ہوتا۔وہ خالدؓ کا قاصد ہو سکتا تھا ، کوئی نیا حکم لایا ہوگا۔وہ قریب آیا تو اس کا سبز عمامہ اور چہرے پر کپڑے کا نقاب نظر آیا۔’’ابنِ عمیرہ!‘‘سوار نے للکار کر کہا۔’’اپنے بھائی کو آزاد کرانے کیلئے میں آگئی ہوں۔‘‘

’’کیا سپہ سالار نے تجھے اجازت دے دی ہے؟‘‘رافع نے پوچھا۔’’اپنے بھائی کو قید سے چھڑانے کیلئے مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔‘‘خولہ بنت الازور نے کہا۔’’اگر تو مجھے اپنے سواروں میں شامل ہونے نہیں دے گا تو میں اکیلی آگے جاؤں گی۔‘‘’’خدا کی قسم بنتِ الازور!‘‘رافع نے کہا۔’’میں تجھے اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔آہمارے ساتھ چل۔‘‘یہ جواں سال عورت ساتھ چل پڑی۔ایک سو رومی سوار ضرار بن الازور کو گھوڑے پر اس حالت میں بٹھائے لے جا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے اور پاؤں اس طرح بندھے ہوئے تھے گھوڑے کے پیٹ کے نیچے سے رسی گزار کر دونوں ٹخنوں سے بندھی ہوئی تھی۔رومی ان پر پھبتیاں کستے اور ان کا مذاق اڑاتے جا رہے تھے، اور ضرار چپ چاپ سنتے جا رہے تھے،ایک جگہ راستہ نشیب میں چلا جاتا تھا، اس کے دائیں بائیں علاقہ کھڈوں کا تھا،جب رومی اس نشیب میں سے گزر رہے تھے تو اچانک دائیں بائیں، آگے اور پیچھے سے رافع کے سواروں نے ان پر ہلہ بول دیا۔رومیوں کیلئے یہ حملہ غیر متوقع تھا۔وہ اس طرح جا رہے تھے جیسے میلے پر جا رہے ہوں۔ضرار کی بہن خولہ نے اپنے بھائی کو دیکھا تو اس نے رومیوں پر اس طرح حملے شروع کر دیئے جس طرح وہ پوری رومی فوج پر کر چکی تھی۔رافع بھی ایسے ہی جوش میں تھے۔ان کے سوار ہزاروں میں سے چنے ہوئے تھے۔انہوں نے رومیوں کا ایسا برا حال کر دیا کہ ان میں سے جو مرے نہیں یا زخمی نہیں ہوئے تھے بھاگ اٹھے۔خطرہ یہ تھا کہ رومی ضرار کو قتل کردیں گے۔ان کی بہن تلوار اور برچھی چلاتی ضرار تک پہنچ گئی،رومیوں نے ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہونے دی لیکن رافع نے ایسا ہلہ بولا کہ رومی سوار بکھر گئے۔پھر فرداً فرداً بھاگ اٹھے۔سب سے پہلے ضرار نے رافع سے ہاتھ ملایااور جب بہن بھائی ملے تو وہ منظر رقت انگیز بھی تھا اور ولولہ انگیز بھی۔بہن اپنے بھائی کے زخم دیکھنے کو بیتاب تھی۔بعض مؤرخوں نے خولہ کے یہ الفاظ لکھے ہیں:’’میرے عزیز بھائی!میرے دل کی تپش دیکھ ، کس طرح ترے فراق میں جل رہا ہے۔‘‘’’اپنے زخم دکھاؤ ضرار!‘‘بہن نے بیتابی سے کہا۔’’مت دیکھو خولہ!‘‘ضرار نے بہن سے کہا۔’’اور یہ زخم مجھے بھی نہ دیکھنے دو۔یہ زخم دیکھنے کا وقت نہیں۔‘‘ضرار نے رافع اور ان کے سواروں سے کہا۔’’چلو دوستو!رومی کہاں ہیں؟دمشق کے محاصرے کا کیا بنا؟‘‘
رومی لڑ بھی رہے تھے اور پسپا بھی ہو رہے تھے۔یہ ان کی تنظیم بھی تھی اور جرات بھی کہ وہ بھاگ نہیں رہے تھے۔ایک ایسی جگہ آگئی جس کے دونوں طرف چٹانیں اور کچھ بلند ٹیکریاں تھیں۔رومی لشکر کو سکڑنا پڑا۔خالدؓ نے اپنے دونوں پہلوؤں کے سالاروں سے کہا کہ وہ چٹانوں کی دوسری اطراف میں نکل جائیں،اور سر پٹ رفتار سے رومیوں کے عقب میں چلے جائیں۔رومی نہ دیکھ سکے کہ چٹانوں کے پیچھے سے ان پر کیا آفت ٹوٹنے والی ہے۔خالدؓ نے تعاقب کی رفتار کم کر دی۔رومی سمجھے ہوں گے کہ مسلمان تھک گئے ہیں۔انہوں نے پسپائی روک لی۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو روک لیا۔
اچانک عقب سے رومیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔سامنے سے خالدؓ نے شدید حملہ کر دیا۔رومیوں کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ گھوڑوں کو چٹانوں اور ٹیکریوں پر چڑھالے گئے،اور دوسری طرف اتر کر بھاگنے لگے۔توقع یہ تھی کہ رومی رسد وغیرہ کا جو ذخیرہ ساتھ لا رہے تھے وہ مسلمانوں کے ہاتھ آجائے گا۔لیکن رومیوں نے گھوڑا گاڑیوں اور اونٹوں کو پہلے ہی حمص روانہ کر دیا تھا۔حمص کی طرف جانے والی رہگزر پر رومیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔زخمی تڑپ اور کراہ رہے تھے۔ان کے گھوڑے اِدھر اُدھر آوارہ پھر رہے تھے۔مجاہدین نے حکم ملتے ہی اپنے ساتھیوں کی لاشیں اور زخمیوں کو اٹھانا، زخمی اور مرے ہوئے رومیوں کے ہتھیاروں کو اکٹھا اور ان کے گھوڑوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔’’کاش!میرے پیچھے دمشق نہ ہوتا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں دشمن کے ایک آدمی کو بھی دمشق تک نہ پہنچنے دیتا۔‘‘خالدؓ نے تعاقب ترک کر دیا۔لیکن اس خطرے کے پیشِ نظر کہ رومی کہیں اکٹھے یا حمص سے کمک منگوا کرواپس نہ آجائیں۔اپنے ایک سالار سمط بن الاسود کو بلایا۔’’ایک ہزار سوار اپنے ساتھ لو اور رومیوں کے پیچھے جاؤ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’انہیں کہیں اکٹھے نہ ہونے دینا۔جنگی قیدی نہیں لینے۔جو سامنے آئے اسے ختم کرو۔فوراً روانہ ہو جاؤ۔‘‘’’ولید کے بیٹے!‘‘خالدؓ کو کسی کی پکار سنائی دی۔’’وہ آگیا میرا ننگا جنگجو!‘‘خالدؓ نے ضرار کو آتے دیکھ کر نعرہ لگایا۔ضرار کو اپنے زخموں کی پرواہ نہیں تھی، وہ گھوڑے سے کود کر اترے۔خالدؓ بھی کود کر اترے اور تاریخِ اسلام کے دو عظیم مجاہد ایک دوسرے کے بازوؤں میں جکڑ گئے۔خولہ گھوڑے پر سوار تھی۔اس کا چہرہ نقاب میں تھا۔صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔جن کی چمک اور زیادہ روشن ہو گئی تھی۔
’’خدا کی قسم ابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔’’تیری بہن نے تیری خاطر میرا بھی منہ پھیر دیا تھا۔‘‘’’اس بہن پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘ضرار نے کہا۔’’تو مجھے بتا میں کیا کروں؟‘‘’’کیا تو محسوس نہیں کر رہا کہ تجھے آرام کرنا چاہیے؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’پہلے جرّاح کے پاس جا، اور اسے اپنے زخم دِکھا۔‘‘ضرار بن الازور جراح کے پاس تو چلے گئے لیکن صرف پٹیاں بندھوا کر واپس آگئے۔سالار سمط بن الاسود رومیوں کے تعاقب میں گئے۔رومی بری طرح بھاگے جا رہے تھے ان کی آدھی نفری تو لڑائی اور پسپائی میں ختم ہو گئی تھی اور باقی نصف بکھر گئی تھی۔سمط جب حمص کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ رومی حمص کے قلعے میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔اس دور میں حمص ایک قلعہ بند قصبہ ہوا کرتا تھا۔سمط وہاں جا کر رُک گئے۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ قلعہ کے اندر کتنی فوج ہے، پھر بھی انہوں نے اپنے ہزار سواروں کو قلعے کے اردگرد اس انداز سے دوڑایا جیسے وہ محاصرہ کرنا یا قلعے پر حملہ کرنا چاہتے ہوں۔قلعے کا دروازہ کھلا اور تین چار آدمی جو فوجی نہیں تھے باہر آئے۔وہ رومی نہیں مقامی باشندے تھے۔سالار سمط بن الاسود نے انہیں اپنے پاس بلایا۔ ’’کیوں آئے ہو؟‘‘سمط نے پوچھا۔’’امن اور دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔‘‘ایک نے کہا۔’’رومی مزید لڑائی نہیں چاہتے۔‘‘’’کیا تمہارا شہنشاہ ہرقل بھی مزید لڑائی نہیں چاہتا؟‘‘سمط نے پوچھا۔’’ہم شہنشاہِ روم کی ترجمانی نہیں کر سکتے۔‘‘حمص کے ایک شہری نے کہا۔’’ہم یہ پیہغام لائے ہیں کہ حمص والے نہیں لڑنا چاہتے۔آپ جس قدر سامانِ خوردونوش چاہتے ہیں ہم سے لے لیں۔آپ جتنے دن بھی یہاں قیام کرنا چاہتے ہیں کریں۔آپ کی فوج اور گھوڑوں کو خوراک ہم مہیا کریں گے۔‘‘کسی بھی تاریخ میں نہیں لکھا کہ سالار سمط نے حمص میں رومیوں سے صلح کی کیا شرائط منوائی تھیں۔وہ واپس آگئے۔خالدؓ اپنے لشکر کے ساتھ دمشق جا چکے تھے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓ جب دمشق پہنچے تو شہر کے اندر مایوسی اور خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔شہر والوں کو پہلے یہ اطلاع ملی تھی کہ انطاکیہ سے کمک اور رسد آرہی ہے۔اب انہیں اطلاع ملی کہ کمک کو مسلمانوں نے راستے میں ختم کر دیا ہے۔دمشق میں رومی سالار توما تھا جو شہنشاہِ ہرقل کا داماد تھا۔چند ایک شہری وفد کی صورت میں توما کے پاس گئے۔’’کیا آپ کو کسی نے بتایا ہے کہ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ایک شہری نے کہا۔’’کیا تم لوگ یہ نہیں جانتے کہ یہ بزدلی ہے؟‘‘توما نے کہا۔’’ہم نے ابھی محاصرہ توڑنے کی کاروائی کی ہی نہیں،کیا تم لوگ مجھے یہ مشورہ دینے آئے ہو کہ میں مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دوں؟‘‘’’ہم سالارِ معظم کو شہر کی صورتِ حال بتانے آئے ہیں۔‘‘وفد کے ایک اور آدمی نے کہا۔’’شہر کے لوگ یہ سن کے ہراساں ہیں کہ جس فوج نے محاصرہ کر رکھا ہے اور ہماری کمک کو بھی ختم کر دیا ہے وہ اس شہر میں بھی داخل ہو جائے گی پھر گھر ہمارے لوٹے جائیں گے بچے ہمارے کچلے جائیں گے،اورلڑکیاں ہماری اٹھائی جائیں گی۔‘‘’’ہم یہاں تک نوبت نہیں آنے دیں گے۔‘‘سالار توما نے کہا۔’’سالارِ معظم!‘‘ایک اور شہری نے کہا۔’’آپ کو یقیناً معلوم ہو گا کہ نوبت کہاں تک پہنچ چکی ہے۔شہر میں خوراک کی اتنی کمی رہ گئی ہے کہ لوگوں نے دوسرے وقت کا کھانا چھوڑ دیا ہے، دو تین دنوں بعد صرف پانی رہ جائے گا۔غور کریں۔لوگ فاقہ کشی سے تنگ آکر بغاوت بھی کرسکتے ہیں۔یہ صورت سلطنتِ روم کیلئے اچھی نہیں ہوگی۔‘‘
’’کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ بغاوت کی سزا کیا ہے ۔‘‘توما نے شاہی رعب سے کہا۔ ’’ہم جانتے ہیں سالارِ اعلیٰ!‘‘وفد کے ایک آدمی نے کہا۔’’ہم آپ کوقحط اور اس سے پیدا ہونے والی بغاوت کے نتائج بتانے آئے ہیں، کیا اس تباہی سے اور لوگوں کو بھوکا مارنے سے بہتر نہ ہوگا کہ آپ مسلمانوں سے صلح کر لیں؟‘‘’’دشمن سے صلح کا مطلب ہوتا ہے ہتھیار ڈالنا۔‘‘توما نے کہا۔’’میں لڑے بغیر کوئی ایسا فیصلہ نہیں کروں گا جو روم کی عظیم سلطنت کی توہین کا باعث ہو۔ہم اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اور تم لوگ ایک وقت کی بھوک برداشت نہیں کر سکتے……جاؤ۔کل تک انتظار کرو۔‘‘

وہ ستمبر ۶۳۴ء کے تیسرے ہفتے کی ایک صبح تھی۔رومی سالار توما نے شہر کے ہر دروازے کی حفاظت کیلئے جو دستے متعین کیے ہوئے تھے ، ان سب میں سے زیادہ سے زیادہ نفری نکال کر اکٹھی کی، اور وہ دروازہ کھلوایا جو اس کے اپنے نام سے موسوم تھا۔بابِ توما۔ اور اپنی قیادت میں مسلمانوں کے اس دستے پر حملہ کر دیا جو اس دروازے کے سامنے متعین تھا۔یہ پانچ ہزارمسلمان سواروں کا دستہ تھا۔جس کے سالار شرجیلؓ بن حسنہ تھے۔توما کے حملے کا انداز آج کے دور کی جنگ کا سا تھا۔اس نے دیوار اور بُرجوں سے مسلمانوں پر تیروں کی بوچھاڑیں مارنی شروع کیں اور اس کے ساتھ فلاخنوں سے سنگ باری کی۔تیروں اور پتھروں کے سائے میں توما نے اپنی فوج کو تیز حملے کیلئے آگے بڑھایا تھایہ طریقہ کارگر تھا۔مسلمان پیچھے ہٹنے پر مجبور نظر آنے لگے تھے اور ان کا دھیان تیروں اور پتھروں سے بچنے میں لگ گیا تھا۔’’کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا۔‘‘سالار شرجیلؓ نے چلّا کر کہا۔’’تمام تیر انداز آگے ہو جاؤ۔‘‘مسلمان تیر اندازوں نے جوابی تیر اندازی شروع کر دی۔رومیوں کے پتھر اور تیر چونکہ اوپر سے آرہے تھے اور زیادہ بھی تھے اس لیے مسلمانوں کا نقصان زیادہ ہو رہا تھا۔پہلی بوچھاڑوں میں کئی مسلمان شہید ہو گئے۔ان کے تیروں نے رومیوں کا کچھ نقصان کیا لیکن یہ مسلمانوں کے مقابلے میں کم تھا۔مؤرخ واقدی، طبری اور ابو سعید نے ایک واقعہ بیان کیا ہے، رومی تیروں سے شہید ہونے والوں میں ایک مجاہد ابان بن سعید بھی تھے جن کا پورا نام ابان بن سعید بن العاصؓ تھا۔فوراً ہی ابان کی شہادت کی خبر پیچھے ان خیموں تک پہنچ گئی جن میں مسلمان خواتین اور بچے تھے۔ابان بن سعید کی بیوی بھی وہیں تھیں۔ان کی شادی ہوئے چند ہی دن گزرے تھے۔یہ خاتون لشکر کے ساتھ زخمیوں کی دیکھ بھال اور پانی پلانے کے فرائض کیلئے آئی تھیں،اور محاذ پر ہی اسے ابان شہید نے اپنے عقد میں لے لیا۔کسی بھی مؤرخ نے اس خاتون کا نام نہیں لکھا،اسے پتا چلا کہ اس کا خاوند شہید ہو گیا ہے تو وہ اٹھ دوڑی اور شرجیلؓ کے دستے میں جا پہنچی ’’کہاں ہے میرے خاوندکی لاش؟‘‘وہ چلّانے لگی۔’’کہاں ہے سعید کے بیٹے کی لاش؟‘‘پانچ ہزار گھوڑ سواروں میں جن پر تیر اور پتھر برس رہے تھے ، ابان بن سعید شہید کی بیوہ دوڑتی اور شہید کی لاش کا پوچھتی پھرتی تھی۔کسی نے اسے پیچھے جانے کوکہا اور یہ بھی کہ اس کے خاوند کی لاش اس کے پاس بھیج دی جائے گی لیکن وہ تو صدمے سے دماغی توازن کھو بیٹھی تھی۔کسی نے اسے وہ جگہ دِکھادی جہاں ابان کی لاش پڑی تھی۔ابھی لاشیں نہیں اٹھائی جا سکتی تھیں،ابان تیر انداز تھے۔ان کے جسم میں تین تیر اترے ہوئے تھے،اور وہ گھوڑے سے گر پڑے تھے۔ان کی کمان لاش کے قریب پڑی تھی اور ترکش میں ابھی کئی تیر موجود تھے۔ان کی بیوی نے کمان اور ترکش اٹھائی اور دوڑ کر تیر اندازوں کی صف میں جا پہنچی۔سامنے دیوار پر ایک پادری کھڑا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک بڑے سائز کی صلیب تھی،جو اس نے اوپر کر رکھی تھی۔یہ اس دور کا رواج تھا کہ صلیب فوج کے ساتھ رکھتے تھے تاکہ فوج کا یہ احساس زندہ رہے کہ وہ صلیب کی ناموس کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ابان شہید کی بیوہ اپنے تیر اندازوں سے آگے نکل گئی۔اس کے قریب تیر گرنے اور زمین میں اترنے لگے۔اپنے تیر اندازوں نے اسے پیچھے آنے کو کہا۔لیکن وہ کسی کی سن ہی نہیں رہی تھی،اس کی بے خوفی خولہ بنتِ الازور جیسی تھی۔وہ جوں جوں آگے کو سرکتی جا رہی تھی۔اس کے قریب رومیوں کے آئے ہوئے تیر زمین پر کھڑے ہوتے جا رہے تھے۔یہاں تک کہ ایک تیر اس کے پہلو میں کپڑوں میں لگا اور وہیں لٹک گیا۔یہ تیر بھی اسے آگے بڑھنے سے نہ روک سکا۔آخر وہ رُک گئی اور اس نے کمان میں تیر ڈالا اور کمان سامنے کرکے شست باندھتے کچھ دیر لگائی،اس نے کمان اتنی زیادہ کھینچ لی جتنی زیادہ ایک تندرست مرد کھینچ سکتا ہے، اور اس نے تیر چھوڑ دیا۔اس کا تیر رومی تیروں کی بوچھاڑوں کو چیرتا ہوا اس پادری کی گردن میں اُتر گیا جسنے صلیب کو تھام رکھا تھا ۔پہلے اس کے ہاتھ سے صلیب گری اور لڑھکتی ہوئی باہر آپڑی۔پادری بھی پیچھے یا دائیں بائیں گرنے کے بجائے دیوار پر گرا اور صلیب کے پیچھے پیچھے باہر کی طرف آپڑا۔ابان شہید کی بیوہ نے نعرہ لگایا اور پیچھے آگئی۔’’میں نے انتقام لے لیا ہے……سہاگ کے بدلے صلیب گرا دی ہے……‘‘وہ تیر اندازوں سے آملی اور تیر چلاتی رہی۔صلیب اور پادری کے گرنے کا اثر مسلمانوں پر یہ ہوا کہ ان کا حوصلہ بڑھ گیا اور ان کا حوصلہ اس لیے بھی بڑھا کہ یہ تیر ایک عورت نے چلایا تھا۔صلیب کے گرنے کا اثر جو رومیوں پر ہوا وہ ان کے لڑنے کے جذبے کیلئے اچھانہ تھا۔

دروازہ بابِ توما کھل چکا تھا۔تومانے دیکھ لیا تھا کہ اس کی تیر اندازی اور سنگ باری نے مسلمانوں کی حالت کمزور کر دی ہے۔اس نے حملے کاحکم دے دیا۔عجیب بات یہ ہے کہ اس نے سواروں کے مقابلے میں سوار نہ نکالے۔ا ن پیادوں سے حملہ کرایا،اور کمان خود باہر آکر کی۔وہ سپاہیوں کی طرح لڑرہا تھا۔مؤرخ واقدی اور بلازری نے لکھا ہے کہ توماکی آواز ایسی تھی جیسے اونٹ بدمستی کی حالت میں بڑی بلند اور غصیلی آوازیں نکالتا ہے۔شرجیلؓ نے بڑی تیزی سے اپنے سواروں کو آمنے سامنے کی لڑائی کی ترتیب میں کرلیا۔تومانے یہ چال چلی کہ اپنے دستوں کو پھیلا دیا۔اس کی فوج کی تعداد مسلمانوں کی نسبت زیادہ تھی۔اس کے پیادے سواروں کا مقابلہ بڑی بے جگری اور مہارت سے کررہے تھے ۔شہر کے دوسرے دروازوں کے سامنے مسلمانوں کے جو دستے متعین تھے۔وہ اس وجہ سے شرجیلؓ کی مدد کو نہیں آرہے تھے کہ ایسا ہی حملہ دوسرے دروازوں سے بھی ہو سکتا تھا۔توماگرج اور دھاڑ رہا تھا۔اسے مسلمانوں کا پرچم نظر آگیا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کا سالار وہاں ہے، وہ سیدھا اِدھر آیا،شرجیلؓ نے اسے دیکھ لیا اور تلوار سونت کر اس کے مقابلے کیلئے تیار ہو گئے۔دونوں نے ایک دوسرے کو للکارا، ان میں دس بارہ قدم فاصلہ رہ گیا ہوگا کہ ایک تیر توما کی دائیں آنکھ میں اُتر گیا،اس نے ہاتھ اس آنکھ پر رکھ لیے،اور وہ بیٹھ گیا۔شرجیلؓ نے آگے بڑھ کر اس پر حملہ نہ کیا۔توما کے محافظوں نے اس کے گرد حصار بنالیا پھر اسے اٹھا کر لے گئے۔مؤرخوں نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ وہ تیر ابان بن سعید کی بیوہ نے چلایا تھا۔اپنے سالارکے گرنے سے رومیوں کا حوصلہ بھی گر پڑا اور وہ پیچھے ہٹنے لگے۔شرجیلؓ کے پہلوؤں والے تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑیں مارنی شروع کر دیں۔رومی تیزی سے پیچھے ہٹے اور قلعے کے دروازے میں غائب ہوتے چلے گئے اور پیچھے جو لاشیں چھوڑ گئے ان کا کوئی حساب نہ تھا۔’’رومیوں کا سپہ سالار مارا گیا ہے۔‘‘مسلمانوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔’’ہم رومیوں کے قاتل ہیں……رومی سالار کو ایک عورت نے مارڈالا ہے……توما رومی کو اندھاکرکے مارا ہے……باہر آؤرومیو!اپنی صلیب اور پادری کو اٹھا لے جاؤ۔‘‘دیوار پر کھڑے رومی یہ نعرے سن رہے تھے،اور یہ نعرے شہر کے اندر بھی سنائی دے رہے تھے۔یہ نعرے رومی فوج اور دمشق کے شہریوں کے حوصلے اور جذبے کیلئے تیروں کی طرح مہلک تھے۔مسلمانوں کا جانی نقصان بھی کچھ کم نہیں تھا۔بہت سے مجاہدین رومیوں کے تیروں اور پتھروں سے شہید اور زخمی ہو گئے۔پھر اتنی تعداد لڑائی میں شہید ہوئی۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی