🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 42*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *42* ۔۔۔۔

مؤرخ طبری اور ابو سعید نے لکھا ہے کہ مجاہدین کو قُبقُلار مل گیا۔اسے دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔وہ سالار لگتا ہی نہیں تھا۔وہ تو جنگ سے لا تعلق کھڑا اس نے اپنے سر پر اس طرح کپڑا لپیٹا ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں بھی ڈھکی ہوئی تھیں اس کے محافظوں نے بے دلی سے مقابلہ کیا شاید اس لیے کہ وہ اپنے سپہ سالار کو نیم مردہ سمجھ رہے تھے انہی سے پتا چلا تھا کہ یہ ہے قُبقُلار۔مجاہدین نے اسے اسی حالت میں قتل کر دیا، بعض مؤرخوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ قُبقُلار نے اپنی آنکھوں پر اس لیے کپڑا ڈال رکھا تھا کہ وہ اپنے لشکر کا قتل ِ عام نہیں دیکھ سکتا تھا۔اس کی قوتِ برداشت جواب دے گئی تھی۔رومیوں کا مرکزی پرچم گر پڑا۔ مجاہدین اب یہ نعرے لگا رہے تھے’’خدا کی قسم!ہم نے رومیوں کے دونوں سپہ سالاروں کو قتل کر دیا ہے۔‘‘’’رومیو !تمہارا پرچم کہاں ہے؟‘‘’’شہنشاہ ہرقل کو بلاؤ۔‘‘’’رومیو!تمہاری صلیبیں اور جھنڈے کہاں ہیں؟‘‘مجاہدین ِ اسلام تواپنے اﷲ و رسولﷺ اور ایک عقیدے کی خاطر لڑ رہے تھے لیکن رومی جن کے حکم سے لڑ رہے تھے وہ مارے جا چکے تھے۔ مجاہدین کے پاس ایمان کی قوت تھی، وہ جادو کی طرح رومیوں پر غالب آگئے۔رومی بھاگنے لگے۔ان میں سے کچھ بیت المقدس کی طرف بھاگے جا رہے تھے کچھ غزہ اور بعض یافا کی طرف۔رومیوں کی جنگی طاقت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کیلئے خالدؓنے اپنے سوار دستوں کو حکم دیا کہ بھاگتے دشمن کا تعاقب کریں اور کسی کو زندہ نہ چھوڑیں ۔وہ ایک عبرت ناک منظر تھا۔رومی جانیں بچانے کیلئے اِددھر اُدھر بھاگ رہے تھے اور مسلمان سوار ان کے تعاقب میں جاکر انہیں برچھیوں میں پرو رہے تھے۔ان رومیوں نے اپنی تعداد پر بھروسہ کیا تھا، شراب کے نشے کو وہ اپنی طاقت سمجھے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کوغریب اور نادار سمجھ کر انہیں ایک ایک دینار پیش کیا تھا۔خالدؓ نے انہیں کہا تھا کہ تم سے دینار تو ہم لے ہی لیں گے۔اب ان رومیوں کو کہیں پناہ نہیں مل رہی تھی،ان کا میدانِ جنگ میں اتنا نقصان نہیں ہوا تھا جتنا میدانِ جنگ سے بھاگتے وقت ہوا۔ ان میں سے خوش قسمت وہ تھے جو بیت المقدس پہنچ گئے اور شہر میں داخل ہو گئے تھے۔یہ قتل عام اس وقت رُکا جب سورج غروب ہو گیا اور اندھیرا اتنا کہ سواروں کو اپنے گھوڑوں کے سر نظر نہیں آتے تھے۔اس وقت خالدؓ اپنے خیمے میں تھے۔انہیں بتایا گیا کہ داؤد نام کا اک عیسائی عرب ان سے ملنے آیا ہے۔خالدؓ نام سنتے ہی باہر کو دوڑے۔’’خدا کی قسم داؤد!‘‘خالدؓ اسے گلے لگا کر بولے۔’’تو نے میری فتح آسان کر دی ہے۔(بندوں کا شکریہ ادا کرنا بھی اعلیٰ اخلاق کی علامت ہوتی ہے)۔

کوئی بھی انعام کافی نہیں ہو سکتا جو میں تجھے دوں……کہاں ہیں تیرے بیوی بچے؟کسی نے ان پر ہاتھ تو نہیں اٹھایا؟‘‘’’نہیں ابنِ ولید!‘‘داؤد نے کہا۔’’میں کوئی انعام لینے نہیں آیا۔مجھے انعام مل چکا ہے۔دیکھ میں زندہ ہوں اورمیرا سارا خاندان زندہ ہے۔اب ایک انعام مجھے یہ دے کہ یہ راز تیرے سینے میں رہے کہ میں نے تیری کچھ مدد کی تھی۔روم کی شہنشاہی زندہ ہے۔ابھی تو تُو اس شہنشاہی میں داخل ہوا ہے۔‘‘’’تیرا راز قیصرِ روم تک نہیں پہنچے گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اور خداکی قسم!تو مالِ غنیمت کے حصے کا حقدار ہے۔میں تجھے حصہ دوں گا اور تو جو مانگے گا دوں گا۔‘‘چند روز بعد مدینہ میں عید جیسی خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔خالدؓنے امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ کو خط لکھاتھا کہ تین گنا طاقتور رومیوں پر کس طرح فتح حاصل کی گئی ہے، جس میں پچاس ہزاررومی ہلاک ہوئے ہیں۔اس کے مقابلے میں شہید ہونے والے مجاہدین کی تعدادچار سو پچاس تھی،خالدؓ کا یہ خط پہلے مسجد میں پڑھ کر سنایا گیا۔پھر مدینہ کی گلیوں میں لوگوں کو اکٹھا کرکے سنایا گیا،لوگ ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے لگے۔مدینہ فتح و مسرت کے نعروں سے گونجنے لگا۔خالدؓنے امیر المومنینؓ کو بھی یہی لکھا تھا کہ اب وہ دمشق کو محاصرے میں لیں گے جو شام کا یعنی روم کی شہنشاہی کا بڑا ہی اہم شہر تھا۔روم کی شہنشاہی بہت ہی وسیع تھی۔جب مدینہ اور گردونواح کے لوگوں کو یہ خبر ملی کہ خالدؓ رومیوں پر ایک فتح حاصل کرکے دمشق کی طرف بڑھ رہے ہیں تو کئی مسلمان خالدؓکی فوج میں شامل ہونے کیلئے تیار ہو گئے۔ان میں ابو سفیانؓ بھی تھے جو مشہور شخصیت تھے۔وہ اپنی بیوی ہند کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ایک ہزار تین سو باون سال پہلے ماہ اگست کے ایک روز جب مدینہ میں مسلمان اجنادین کی فتح پر خوشیاں منا رہے تھے ،مدینہ سے دور، بہت ہی دور، شمال میں روم کی شہنشاہی کے ایک اہم شہر حمص پر مایوسی اور ماتم کی سیاہ کالی گھٹا چھا گئی تھی۔رومیوں کے شہنشاہ پرقل کے محل میں قہر اور غضب کی آوازیں گرج رہی تھیں۔بصرہ کی شکست کی خبر لے کر جانے والا قاصد اگر وہاں سے کھسک نہ آتا تو ہرقل غصے میں اس کا سر کاٹ دیتا۔’’ہمارے سپہ سالار وردان کو کیا ہو گیا تھا؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے غضب ناک آواز میں پوچھا۔’’مارا گیا ہے۔‘‘اسے کانپتی ہوئی آواز میں جواب ملا۔’’اور وہ قُبقُلار؟……وہ کہتا ہے کہ میری تلوار کی ہوا سے ہی دشمن کٹ جاتا ہے۔‘‘’’وہ بھی مارا گیا ہے۔‘‘’’اورفاموس؟‘‘’’وہ لڑائی سے پہلے ذاتی مقابلے میں مارا گیا تھا۔

شہنشاہِ ہرقل نے ان تمام سالاروں کے نام لیے جو اجنادین کی لڑائی میں شامل تھے،اور جن کی بہادری اور جنگی قیادت پر اسے بھروسہ تھا۔اسے یہی جواب ملا کہ مارا گیا ہے یا شدید زخمی ہو گیا ہے۔وہ سب ہلاک یا زخمی نہیں ہوئے تھے۔ان میں سے بعض بھاگ گئے تھے۔’’……اور اب مسلمان دمشق کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘شہنشاہِ ہرقل کو بتایاگیا۔’’دمشق کی طرف؟‘‘اس نے ہڑبڑا کر کہا۔’’نہیں……نہیں……میں انہیں دمشق تک پہنچنے نہیں دوں گا۔وہ دمشق ہم سے نہیں لے سکتے۔وہاں میرا شیر موجود ہے……تُوما……دمشق کا سالار تُوما ہے۔‘‘ہر قل تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے شاہانہ کمرے میں چل رہا تھا اور اپنی ایک ہتھیلی پر دوسرے ہاتھ کے مکے مارے جا رہا تھا۔اس کے خوشامدی، درباریوں ، خاص خادموں اور اس کی خدمت میں حاضر رہنے والی بڑی حسین لڑکیوں کو معلوم تھا کہ جب شہنشاہ پریشانی ، یاسیّت ، اور غصے کی کیفیت میں ہوتا ہے تو سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی شراب پیش کرتی ہے۔ایک لڑکی جو باریک ریشمی لباس میں برہنہ لگتی تھی، چاندی کے پیالے میں شراب لے کر آئی، اور اشتعال انگیز ادا سے ہرقل کے سامنے گئی۔ہرقل بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح پھنکار رہا تھا۔اس نے لڑکی کے ہاتھوں میں طشتری دیکھ کر بڑی زور سے طشتری کے نیچے ہاتھ مارا۔شراب کا پیالہ لڑکی کے منہ پر لگا، طشتری چھت تک جا کر واپس آئی۔ہرقل نے لڑکی کو دھکا دیا تووہ دروازے میں جا پڑی۔’’شراب……شراب……شراب!‘‘ہرقل نے غصے سے کہا۔’’تم نے شراب اور حسین لڑکیوں سے دل بہلانے اور بدمست رہنے والوں کا انجام نہیں دیکھا؟تم نہیں دیکھ رہے وہ سلطنتِ روم کو ذلت و رسوائی میں پھینک رہے ہیں……اور جنہوں نے ہمیں شکست دی ہے انہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر رکھی ہے۔اس نے حکم دیا۔گھوڑا تیار کرو۔میں انطاکیہ جارہا ہوں،اور میں اس وقت وہاں سے واپس آؤں گا جب میں آخری مسلمان کی بھی لاش دیکھ لوں گا۔‘‘بادشاہ جنگ کیلئے جب کوچ کرتے تھے تو اس کیلئے بہت سے انتظامات کیے جاتے تھے ۔محافظ دستہ اور بادشاہ کی من پسند عورتیں ساتھ جاتی تھیں۔ایسے انتظامات ہر وقت تیار رہتے تھے۔مگر اب کے ہرقل تو جیسے اُڑ کر انطاکیہ پہنچنے کی کوشش میں تھا۔اس کے کوچ کے انتظامات کرنے والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی،اور وہ انتظامات میں مصرو ف ہو گئے۔

خالدؓاجنادین میں سات روز رہے۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ دشمن کو کہیں سستانے اور دم لینے کی مہلت نہ دو۔اسے اتنی مہلت نہ دو کہ وہ اپنی بکھری ہوئی جمیعت کو اکٹھا کر سکے۔اس اصول کے تحت دمشق کی طرف ان کا کوچ بہت تیز تھا۔انہوں نے اپنے جاسوس پہلے بھیج دیئے تھے۔اب خالدؓ نے جاسوسی کا نظام مزید بہتر بنا دیاتھا۔وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے کہ قیصرِ روم کی سلطنت بہت وسیع ہے، اور اس کے مطابق اس کی فوج بھی زیادہ ہے اور برتر بھی۔ایسی فوج پر غلبہ پانے کیلئے اس کے احوال و کوائف کا قبل از وقت معلوم کرنا ضروری تھا،اور اتنا ہی ضروری ان علاقوں کے خدوخال کا جاننا تھا جہاں جہاں اس فوج کے دستے موجود تھے ان کی نقل و حرکت کے متعلق قبل از وقت معلومات حاصل کرنا بھی سودمند تھا۔راستے میں بیت المقدس آتا تھا۔خالدؓ نے اس اہم شہر کو نظر انداز کر دیا اورا س سے کچھ فاصلے سے آگے چلے گئے۔لیکن ایک مقام کو نظر انداز کرنامشکل تھا۔اس بستی کا نام فحل تھا جو ایک مضبوط قلعہ تھا۔خالدؓاس کے قریب پہنچے تو ایک فقیر نے جو پاگل لگتا تھا، خالدؓ کا راستہ روک لیا۔ خالدؓبن ولید نے اسے اپنے پاس بلالیا۔’’کیاخبرلائے ہو؟‘‘خالدؓ نے اس سے پوچھا۔وہ خالدؓ کا جاسوس تھا۔’’اس بستی کا نام فحل ہے۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’آپ دیکھ رہے ہیں یہ قلعہ ہے۔اس کے اندر فوج ہے۔باہر کچھ بھی نہیں۔رومیوں سے ہماری جہاں کہیں بھی ٹکر ہو گی، اس قلعے سے رومیوں کو کمک اور دیگر مدد ملے گی۔‘‘خالدؓ نے اس قلعے کا محاصرہ ضروری نہ سمجھا۔وہ اپنی نفری کم نہیں کرنا چاہتے تھے۔دمشق کی تسخیر کوئی معمولی مہم نہیں تھی۔بلکہ اپنی شکست کے امکانات بڑھتے جا رہے تھے،خالدؓ نے اپنے ایک نائب سالار ابوالاعور کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ ایک سوار دستہ اپنے ساتھ رکھے اور فحل کے قریب کہیں تیاری کی حالت میں موجودرہے۔یہاں سے فوج باہر نکلے تو تیروں کی بوچھاڑیں مارے اور کسی کو باہر نہ نکلنے دے۔خالدؓ وہاں رُکے نہیں۔ابوالاعور نے ایک سوار دستہ وہاں روک لیا اور اس قلعہ بندبستی کے جتنے دروازے تھے ان سب کے سامنے سوار متعین کر دیئے۔سواروں کو گھوڑوں سے اترنے کی اور محدود سے فاصلے تک گھومنے پھرنے کی اجازت دے دی گئی-
خالدؓ کی فوج جس کی تعداد بتیس ہزار سے کم ہو گئی تھی ،بظاہر بے ترتیب قافلے کی صورت میں دمشق کی جانب جا رہی تھی ، لیکن اس کے ہر دستے کو اپنے فرائض کا علم تھا۔ان میں ہراول دستہ بھی تھا اور ان میں عقب اور پہلوؤں کے حفاظتی دستے بھی تھے اور یہ تمام دستے چوکنے ہو کر چلے جارہے تھے،کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت ان پر حملہ ہو سکتا تھا،داؤد عیسائی نے خالدؓکو خبردار کیا تھا کہ وہ تو ابھی روم کی شہنشاہی میں داخل ہوئے ہیں اور اس شہنشاہی کی حدود بہت وسیع ہیں۔اس وقت تک رومی فوج کے دستے جہاں جہاں تھے وہاں ہرقل کا یہ حکم پہنچ چکا تھا کہ مسلمانوں کی فوج کو روکاجائے۔اس حکم کے تحت دمشق کی طرف جانے والے راستوں پر رومیوں نے اپنے جاسوس بھیج دیئے تھے ۔دریائے یرموک کے کنارے واقوصہ ایک قصبہ تھا۔کسی رومی جاسوس نے خالدؓ کے لشکر کو آتے دیکھ لیااور پیچھے جاکر اطلاع دی۔جب خالدؓ واقوصہ کے قریب پہنچے تو رومی فوج کے بہت سے دستے خالدؓکا راستہ روکنے کیلئے تیار کھڑے تھے۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اجنادین کی لڑائی سے بھاگے ہوئے کئی رومی فوجی واقوصہ پہنچ چکے تھے۔انہیں بھی ان دستوں میں شامل کر لیا گیا تھا جو مسلمانوں کو روکنے کیلئے جنگی ترتیب میں کھڑے تھے مگر ان میں لڑنے کا جذبہ سرد تھا۔ کیونکہ ان پر مسلمانوں کا خوف طاری تھا،جن کمانداروں اور سپاہیوں نے ابھی مسلمانوں سے جنگ نہیں لڑی تھی ، وہ اجنادین کے بھگوڑوں سے پوچھتے تھے کہ مسلمان لڑنے میں کیسے ہیں؟’’دیکھ لو!‘‘انہیں کچھ اس قسم کے جواب ملے۔’’تیس ہزار نے نوّے ہزار کو اس طرح شکست دی ہے کہ سپہ سالار سے چھوٹے سے سالار تک ایک بھی زندہ نہیں……انہوں نے ہماری آدھی نفری مار ڈالی ہے۔زخمیوں کا کوئی حساب ہی نہیں……مت پوچھو دوستو، مت پوچھو۔ میں تو انہیں انسان سمجھتا ہی نہیں۔ان کے پاس کوئی جادو ہے یا وہ جنات جیسی کوئی مخلوق ہیں……ان کا ایک ایک آدمی دس دس آدمیوں کا مقابلہ کرتا ہے……ان کے سامنے کوئی جم کر لڑ ہی نہیں سکتا……پوچھتے کیا ہو، وہ آرہے ہیں۔خود دیکھ لینا۔‘‘’’وہ‘‘آئے اور ’’انہوں‘‘نے دیکھ لیا۔دیکھ یہ لیا کہ مسلمان جو بے ترتیب قافلے کی طرح آرہے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ جنگی ترتیب میں ہو گئے۔عورتیں اور بچے پیچھے رہ گئے،اور ان کا حفاظتی دستہ اپنی جگہ پر چلا گیا۔خالدؓ اپنے محافظوں وغیرہ کے ساتھ آگے ہو گئے اور دونوں فوجیں آمنے سامنے آگئیں۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ خالدؓکی جنگی چالوں کااور مجاہدین کو لڑانے کا انداز ایسا تھا کہ دشمن بوکھلا جاتا پھر مسلمانوں کے حملے کی شدت سے دشمن کے سپاہیوں پر خوف طاری ہو جاتا تھا۔ان میں سے جو سپاہی بھاگ نکلتے تھے ، وہ جہاں جاتے اس خوف کو اپنے ساتھ لے جاتے، اور فوج میں پھیلاتے تھے۔یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بلاوجہ نہیں بھاگے، وہ اس خوف کو مبالغے سے اور ایسے طریقے سے بیان کرتے کہ سننے والے یہ سجھ لیتے کہ مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت قوت ہے۔اس طرح خالدؓنے دشمن پر ایک نفسیاتی اثر ڈال رکھا تھا جو ہر میدان میں ان کے کام آتا تھا۔

یہ قوت مافوق الفطرت ہی تھی جو عقیدے کی سچائی ، ایمان کی پختگی اور جذبے کی شدت سے پیدا ہوئی تھی۔مسلمان اﷲکے حکم سے لڑتے تھے ، ان کے دلوں میں کوئی ذاتی غرض یا لالچ نہیں تھا۔واقوصہ کے میدان میں جب رومی مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تو ان کے انداز میں جوش و خروش تھا اور جارحیت بھی شدید نظر آتی تھی لیکن خالدؓنے جب حملہ کیا تو رومیوں میں لڑنے کا جذبہ اتنا شدید نہ تھا جتنا ہونا چاہیے تھا۔خالدؓنے سامنے سے حملہ کیا اور دونوں پہلوؤں کے کچھ دستوں کو پھیلا کر اس حکم کے ساتھ آگے بڑھایا کہ دشمن کے پہلوؤں کی طرف جاکر حملہ کریں۔مؤرخوں کے مطابق رومی سامنے سے حملے کو روکنے کیلئے ایسی صورت اختیار کر بیٹھے کہ اپنے پہلوؤں کو نہ دیکھ سکے۔ان پر جب دائیں اور بائیں سے بھی حملہ ہوا اور ان کے دائیں بائیں کے دستے مسلمانوں کے دباؤ سے اندر کو سکڑنے اور سمٹنے لگے تو وہ گھبرا گئے،اور ان پر وہ خوف طاری ہو گیا جوخالدؓ کے نام سے منسوب تھا،اس خوف نے رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے۔ان رومی دستوں کیلئے حکم یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ دنوں تک روکے رکھیں۔وجہ یہ تھی کہ دمشق میں جو رومی فوج تھی اس میں دوسری جگہوں سے دستے بھیج کر اضافہ کیا جا رہا تھا۔ہرقل ا س کوشش میں تھا کہ اس کے یہ دستے مسلمانوں سے پہلے دمشق پہنچ جائیں۔اس کیلئے ضروری تھا کہ واقوصہ میں مسلمانوں کی فوج کو روک لیا جاتا اور ایسی لڑائی لڑی جاتی جو طول پکڑ جاتی۔ایسی لڑائی کے طور طریقے مختلف ہوتے ہیں۔خالدؓ نے رومیوں کو کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہ دی۔رومی بے شمار لاشیں اور زخمی میدان میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔خالدؓوہاں اتنا ہی رُکے کہ اپنے شہیدوں کا جنازہ پڑھ کر دفن کیا، زخمیوں کو ساتھ لیا،اور مالِ غنیمت اکٹھا کیا اور چل پڑے۔یہ اگست ۶۳۴ء کا تیسرا ہفتہ (جمادی الآخر ۱۳ ھ)تھا۔

شہنشاہِ ہرقل انطاکیہ جا پہنچا اور وہاں اپنا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔حمص سے انطاکیہ کو روانہ ہونے سے پہلے اس نے دمشق کی رومی فوج کے سالاروں توما، ہربیس، اور عزازیر کو پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ فوراً انطاکیہ پہنچیں ۔ہرقل کے پہنچتے ہی تینوں سالار انطاکیہ پہنچ گئے۔’’کیا تم نے سن لیا ہے کہ تمہارے سالار وردان اور قبقلار بھی مارے جا چکے ہیں؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے ان سے پوچھا۔’’کیا تم بھی قیصرِ روم کی عظمت کو ذہن سے اتار دو گے؟کیا تمہاری نظروں میں بھی صلیب کا تقدس ختم ہو چکا ہے؟‘‘’’مسلمان ابھی تو ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔‘‘سالار توما نے کہا۔’’ہمیں ابھی نہ آپ نے آزمایا ہے نہ مسلمانوں نے۔انہیں آنے دیں۔میں آپ کی بیٹی کے آگے شرمسار نہیں ہوں گا۔‘‘توما شہنشاہِ ہرقل کا داماد تھااور وہ دمشق کا سپہ سالار تھا۔بڑا پکا مذہبی آدمی تھا اور اپنے مذہب عیسائیت کے فروغ اور تحفظ کیلئے سرگرم رہتاتھا۔’’توما!‘‘ہرقل نے اسے کہا۔’’تم مذہب میں اتنے مگن رہتے ہو کہ دمشق کے دفاع کی طرف پوری توجہ نہیں دے رہے۔‘‘’’میں تو یہ سمجھتاہوں کہ مذہب نہ رہا تو دمشق بھی نہیں رہے گا۔‘‘توما نے کہا۔’’کیا آپ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ بھی مذہب میں شامل ہے؟……میں یہاں اکیلا تو نہیں۔جنگی معاملے سالار ہربیس کے پاس ہیں،اور سالار عزازیر بھی میرے ساتھ ہے۔کیا عزازیر فارسیوں کو اور پھر ترکوں کوکئی لڑائیوں میں شکستیں نہیں دے چکا ہے؟‘‘’’جتنا بھروسہ مجھے عزازیر پر ہے اتنا تم دونوں پر نہیں۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’عزازیر تجربہ کار سالار ہے۔تم دونوں کوابھی ثابت کرناہے کہ تم عزازیر کے ہم پلہ ہو۔‘‘عزازیر رومیوں کا بڑا ہی قابل اور دلیر سالار تھا۔اس نے بہت سی لڑائیاں لڑیں اور ہر میدان میں فتح حاصل کی تھی،عربی زبان پر اسے اتنا عبور حاصل تھا کہ وہ عربی بولتا تو شک ہوتا تھا کہ عرب کا رہنے والا ہے۔دمشق کی فوج کا کمانڈر دراصل وہی تھا۔انطاکیہ میں کُلوس نام کا ایک رومی سالار تھا۔اسے ہرقل نے پانچ ہزارنفری کی فوج دے کر دمشق جانے کو کہا۔
’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘کُلوس نے کہا۔’’میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں آپ کے سامنے اس وقت آؤں گا جب میری برچھی کی انّی کے ساتھ مدینہ کے سالار خالد بن ولید کا سر ہوگا۔‘‘’’تم مجھے صرف حلف سے خوش نہیں کر سکتے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں صرف ابنِ ولید کا سر نہیں، تمام مسلمانوں کی لاشیں دیکھناچاہتا ہوں……فوراً دمشق پہنچو۔ وہاں کمک کی ضرورت ہے۔سب چلے جاؤ اور دمشق کو بچاؤ۔‘‘

تمام سالار فوراً روانہ ہو گئے ۔ہرقل کا ایک مشیرِ خاص ہرقل کے پاس موجود رہا۔’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘اس مشیر نے کہا۔’’سالار کُلوس کو دمشق نہ بھیجتے تو اچھا تھا۔اگر اسے بھیجنا ہی تھا تو سالار عزازیر کو دمشق سے نکال لیتے۔‘‘’’کیوں؟‘‘’’کیا شہنشاہ بھول گئے ہیں کہ ان دونوں میں ایسی چپقلش ہے جو دشمنی کی صورت اختیار کر جایا کرتی ہے۔‘‘مشیر نے کہا۔’’ان کی آپس میں بول چال بند ہے……دراصل کُلوس عزازیر کی اچھی شہرت سے حسد کرتا ہے، کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘’’کیا تم یہ خطرہ محسوس کر رہے ہوکہ وہ لڑائی کے دروان ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’ہاں شہنشاہِ روم!‘‘مشیر نے کہا۔’’میں یہی خطرہ محسوس کررہا ہوں۔‘‘’’ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’انہیں یہ احساس تو ضرور ہوگا کہ وہ مل کرنہ لڑے تو بڑی بُری شکست کھائیں گے،اور وہ مجھے خوش کرنے اور ایک دوسرے کو میری نظروں میں گرانے کیلئے جوش و خروش سے لڑیں گے……اور اگر انہوں نے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو انہیں یقیناًمعلوم ہو کہ ان کی سزا کیا ہوگی۔‘‘مشیر خاموش ہو گیا لیکن اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار پہلے سے زیادہ ہو گئے۔خالدؓ کے مجاہدین دمشق کی جانب بڑھے جا رہے تھے۔رومی سالار عزازیر نے دمشق پہنچتے ہی شہر کے دفاع کو مضبوط بنانا شروع کر دیا۔دمشق کی شہرِ پناہ کے چھ دروازے تھے اور ہر دروازے کا ایک نام تھا۔عزازیر نے دمشق کو محاصرے سے بچانے کا یہ انتظام کیا کہ زیادہ فوج شہر کے باہر رکھی تاکہ مسلمانوں کو شہر تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے۔انہیں شہر سے باہر ختم کر دیا جائے۔شہر میں خاص طور پر منتخب کیے ہوئے دستے رکھے گئے۔ان میں ایک محافظ دستہ تھا جسے جانباز دستہ کہا جاتا تھا۔اس ایک میل سے کچھ زیادہ لمبے اور چار فرلانگ چوڑے شہر کی آبادی میں اس خبرنے ہڑبونگ بپاکردی تھی کہ مسلمان شہرکو محاصرے میں لینے آرہے ہیں۔اس خبرسے پہلے مسلمانوں کی دہشت شہر میں داخل ہو چکی تھی۔سالار شہریوں کو بھی شہر کے دفاع کیلئے تیار کر رہے تھے لیکن شہریوں سے انہیں تعاون نہیں مل رہا تھاشہری تو اپنا مال و دولت اور اپنی جوان لڑکیوں کو چھپاتے پھر رہے تھے۔ان میں سے بعض نے اپنے کنبوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگنے کی بھی کوشش کی لیکن فوج نے انہیں روک دیا۔مجاہدین کا لشکر دمشق سے زیادہ دور نہیں رہ گیا تھا۔جاسوس جو آگے گئے ہوئے تھے وہ باری باری پیچھے آتے ، رپورٹ دیتے اور پھر آگے چلے جاتے تھے۔اب مجاہدین کی جذباتی کیفیت ایسی تھی جیسے ان کا کوئی گھر نہ ہو، کوئی وطن نہ ہو، بیوی نہ ہو، بچہ نہ ہو، بس اﷲہی اﷲہو، جس کے نام کا وہ ورد کرتے جاتے یا چند مجاہدین مل کرکوئی جنگی ترانہ گاتے تھے۔انہوں نے اپنا رشتہ اﷲکے ساتھ اور رسول اﷲﷺکی روحِ مقدس کے ساتھ جوڑلیا تھا۔انہوں نے اپنی جانیں اﷲکی قربان گاہ پر رکھ دیں تھیں۔رومیوں کیلئے وہ جسم تھے لیکن اپنے لیے وہ روحیں تھیں، اور اپنے جسموں اور تکالیف اور ضروریات سے وہ بے نیاز ہو گئے تھے-

انہیں تو جیسے یہ احساس بھی نہیں رہا تھا کہ ان کی تعداد بہت کم ہے اوردشمن کی تعداد کئی گنا ہے۔ان کے سپہ سالار خالدؓ کی جذباتی کیفیت بھی ایسی ہی تھی لیکن تاریخ کے اس عظیم جرنیل کی نگاہ حقائق پر تھی۔وہ سوچتے رہتے تھے کہ اتنی کم نفری کو اتنی زیادہ نفری کے خلاف کس طرح استعمال کیا جائے کہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں۔انہوں نے رومیوں کو دیکھ لیا اور تسلیم کر لیا تھا کہ یہ ایک عمدہ فوج ہے۔انہوں نے یہ بھی پیشِ نظر رکھا تھا کہ رومی اپنے ملک میں ہیں اور جو سہولتیں انہیں حاصل ہیں وہ ہمیں نہیں مل سکتیں۔شکست کی صورت میں مسلمانوں کیلئے وہاں کوئی پناہ نہیں تھی۔اس صورت میں انہیں قید یا قتل ہونا تھا۔ان احوال و کوائف کے پیشِ نظر خالدؓ نے اپنی فوج میں کچھ تبدیلیاں کی تھیں۔ایک تو انہوں نے جاسوسی کے انتظامات اور ذرائع کو پہلے سے بہتر بنا کر انہیں منظم کردیا،چند اور تبدیلیوں میں قابلِ ذکر یہ ہے کہ خالدؓنے ایک سوار دستہ بنایا جس میں چار ہزار منتخب گھوڑ سوار رکھے۔یہ تیز رفتار اور متحرک دستہ تھا۔اسے طلیعہ کہتے تھے۔متحرک سے مراد یہ ہے کہ اس رسالے نے جم کر نہیں بلکہ بھاگتے دوڑتے ، اور اِدھر اُدھر ہو جاتے اور دشمن کو گھما پھرا کر لڑاتے جنگ میں شریک رہنا تھا۔خالدؓ نے اس دستے کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھی،دمشق کی جانب کوچ کے دوران یہ سوار دستہ مسلمانوں کے لشکر کے ہراول میں تھا۔کوچ کا چوتھا دن تھا۔ہراول کا یہ سوار دستہ ایک بستی مراج الصفر کے قریب پہنچا تو آگے گئے ہوئے دو جاسوس آئے۔خالدؓ اس دستے کے ساتھ تھے۔جاسوسوں نے انہیں بتایا کہ تھوڑی دور آگے رومی فوج تیاری کی حالت میں پڑاؤ کیے ہوئے ہے۔جاسوسوں کے اندازے کے مطابق وہ مقام دمشق سے بارہ تیرہ میل دور تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس رومی فوج کی تعداد بارہ ہزار تھی،اور اس میں زیادہ تر سوار تھے،اس کے دو سالار تھے،ایک عزازیر اور دوسرا کلوس۔یہ وہی سالار تھے جن کی آپس میں دشمنی تھی۔انہیں دمشق کے سپہ سالارتوما نے اس منصوبے کے تحت بھیجا تھا کہ مسلمانوں کے لشکر کو دمشق تک نہ پہنچنے دیا جائے۔اگر اسے تباہ نہ کیا جا سکے تو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ واپس چلاجائے۔اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اتنی سی کامیابی ہر قیمت پر حاصل کی جائے کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ دن دمشق سے دور رکھا جائے تاکہ دمشق کے دفاع کیلئے مزید دستے وہاں پہنچائے جا سکیں اور شہر میں اتنی خوراک پہنچا کر جمع کی جا سکے کہ محاصرہ طول پکڑ اجائے تو شہر میں قحط کی صورت پیدا نہ ہو۔خالدؓ کیلئے یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ ان کے ساتھ ہراول کا صرف یہ سوار دستہ تھا جس کی نفری چار ہزار تھی۔باقی لشکر ابھی بہت دور تھا۔ہراول کی رفتار تیز تھی۔دشمن کی موجودگی کی اطلاع پر خالدؓ نے رفتار سست کردی۔اس کا ایک مقصد یہ تو تھا کہ پورا لشکر آجائے،اور دوسرا یہ کہ دشمن کے قریب شام کو پہنچیں تاکہ رات کو آرام کیا جاسکے،اور علی الصباح لڑائی شروع کی جائے۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

اگر جاسوس آگے گئے ہوئے نہ ہوتے تو خالدؓ لاعلمی میں چار ہزار سواروں کے ساتھ دشمن کے سامنے جا پہنچتے۔پھر صورتِ حال ان کے حق میں نہ رہتی۔رومیوں کے اس بارہ ہزار لشکر نے بڑی اچھی جگہ پڑاؤ ڈالاہوا تھا،وہاں ایک وادی تھی جس میں گھنے درخت تھے اور ایک پہاڑی تھی۔رومی اس پہاڑی کے سامنے اور وادی کے منہ میں تھے،انہوں نے لڑائی کیلئے یہ جگہ منتخب کی تھی جو ان کو کئی جنگی فائدے دے سکتی تھی۔مسلمان اس پھندے میں آسکتے تھے۔خالدؓ نے اپنی رفتار ایسی رکھی کہ سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے دشمن کے سامنے پہنچے۔دشمن سے ان کا فاصلہ ایک میل کے لگ بھگ تھا۔خالدؓ نے اپنے دستے کو روک لیا اور وہیں پڑاؤ کرنے کو کہا۔سورج غروب ہو گیا اس لیے یہ خطرہ نہ رہا کہ دشمن حملہ کردے گا۔جمادی الثانی ۱۳ ہجری کے چاند کی اٹھارہویں تاریخ تھی۔آدھی رات کو چاندنی بڑی صاف تھی۔خالدؓپاپیادہ آگے چلے گئے۔رومیوں کے سوار گشتی سنتری گشت پر تھے۔خالدؓ ان سے بچتے پہاڑی تک گئے۔وہ زمین کے خدوخال کا جائزہ لے رہے تھے۔رات گزرتے ہی انہیں یہاں لڑنا تھا،وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سوار دستے کیلئے بھاگنے دوڑنے کی جگہ ہے یا نہیں۔خالدؓکیلئےپریشانی یہ تھی کہ ان کا لشکر بہت دور تھا۔انہوں نے پیغام تو بھیج دیاتھا کہ رفتار تیز کریں۔پھر بھی لشکر جلدی نہیں پہنچ سکتا تھا۔اس کی رفتار تو پہلے ہی تیز تھی۔مسلمانوں کا کوچ ہوتا ہی تیز تھا۔۱۹ اگست ۶۳۴ء (۱۹جمادی الثانی ۱۳ ھ)کی صبح طلوع ہوئی۔فجر کی نمازسے فارغ ہوتے ہی خالدؓنے اپنے سوار دستے کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا۔رومی بھی تیاری میں آگئے۔خالدؓ نے رومیوں کی ترتیب دیکھی تو انہیں شک ہو اکہ رومی حملے میں پہل نہیں کرنا چاہتے۔خالدؓ بھی پہل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔انہیں اتنا وقت درکار تھا کہ باقی لشکر پہنچ جائے۔خالدؓنے رومیوں کا ارادہ معلوم کرنے کیلئے اپنے سوار دستے کے ایک حصے کو حملہ کرکے پیچھے یا دائیں بائیں نکل جانے کا حکم دیا،تقریباًایک ہزار گھوڑے سمندری طوفان کی موجوں کی طرح گئے ۔رومیوں نے حملہ روکنے کے بجائے یہ حرکت کی کہ پیچھے ہٹنے لگے۔

مسلمان سوار اس خیال سے آگے نہ گئے کہ دشمن گھیرے میں لے لے گا،ویسے بھی انہیں آمنے سامنے کی لڑائی نہیں لڑنی تھی۔وہ جس رفتار سے گئے تھے اسی رفتار سے گھوڑے موڑتے ہوئے دور کا چکر کاٹ کر آگئے۔چند ایک سالار خالدؓکے ساتھ تھے۔سب کو توقع تھی کہ اب رومی حملے کیلئے آئیں گے۔ان کی فوج تین گنا تھی مگر انہوں نے کوئی جوابی حرکت نہیں کی۔’’خدا کی قسم!رومی کچھ اور چاہتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’یہ ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں اور میں اپنے لشکر کے انتظار میں ہوں۔‘‘’’ان کے ساتھ کھیلو ابنِ ولید!‘‘سالار ضرار بن الازور نے کہا۔’’یہ لڑنا نہیں چاہتے۔ہمارا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔‘‘’’اور انہیں شاید معلوم نہیں کہ ہمارا لشکر ابھی دور ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ بھی سوچ ابنِ ولید!‘‘سالار شرجیلؓ نے کہا۔’’کیا یہ چوکس نہیں کہ ہمارا لشکر شاید کسی اور طرف سے ان پر حملہ کر دے گا؟‘‘’’میں ان کا دھیان پھیر دیتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔رومیوں کی توجہ اپنی طرف کرنے کیلئے خالدؓ نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ دشمن کو انفرادی مقابلوں کیلئے للکارا۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس دور میں جب فوجوں کی لڑائی سے پہلے دونوں فوجوں میں سے ایک ایک آدمی سامنے آتا اور ان میں انفرادی لڑائی ہوتی تھی۔خالدؓنے ضرار بن الازور، شرجیلؓ بن حسنہ اور امیرالمومنین ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن کو مقابلے کیلئے آگے کیا۔یہ تینوں سالار تھے۔وہ دونوں فوجوں کے درمیان جا کر گھوڑے دوڑانے اور دشمن کو للکارنے لگے۔رومیوں کی صفوں سے تین سوار نکلے۔وہ بھی سالاری کے رتبے کے آدمی تھے۔رومی جنگجو قوم تھی۔اس قوم نے تاریخ ساز تیغ زن اور شہسوار پیدا کیے ہیں۔خالدؓ کے ان تین سالاروں کے مقابلے میں جو رومی نکلے وہ زبردست لڑاکے تھے۔کھلے میدان میں مقابلے شروع ہو گئے۔یہ تین جوڑیوں کامقابلہ تھا۔تینوں جوڑ الگ ہو گئے۔گھوڑے دوڑ رہے تھے گھوم رہے تھے،اور برچھیوں سے برچھیاں ٹکرا رہی تھیں۔دونوں فوجوں کے نعرے گرج رہے تھے ۔گھوڑے اپنی اُڑائی ہوئی گرد میں چھپتے جا رہے تھے ۔پھر گرد سے ایک گھوڑا نکلا۔اس کا سوار ایک طرف لڑھک گیا تھا۔گھوڑا بے لگام ہو کر اِدھر اُدھر دوڑ رہا تھا۔وہ ایک رومی سالار تھا جو بڑا گہرا زخم کھا کر گھوڑے سے گر رہا تھا۔رومیوں کی صفوں سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا نکلا اور گرتے ہوئے سوار کے پیچھے گیا۔اس نے گھوڑے کے سوار کو گھوڑے کی پیٹھ پر کردیا لیکن وہ مر چکا تھا۔تھوڑی ہی دیر بعد ایک اور رومی سوار گرا پھر تیسرا بھی گر پڑا،تینوں رومی مارے گئے۔ضرار بن الازور کا انداز وہی تھا کہ مقابلے میں اترتے ہی انہوں نے خود، زِرہ اور قمیض اتار کر پھینک دی تھی۔مقابلہ ختم ہوا تو تین رومیوں کی لاشیں ایک دوسرے سے دور دور پڑی تھیں۔ضرار، شرجیلؓ اور عبدالرحمٰن رومیون کی اگلی صف کے قریب جا کر گھوڑے دوڑاتے اور انہیں للکارتے۔

’’رومیو!یہ لاشیں اٹھاؤ۔آگے آؤ بزدلو!‘‘’’ہے کوئی اور موت کا طلبگار!‘‘’’ہم رومیوں کے قاتل ہیں۔‘‘’’رومیو!یہ زمین تم پر تنگ ہو گئی ہے۔‘‘ادھر مجاہدینِ اسلام نے وہ شوروغل بپا کر رکھا تھا کہ آسمان ہلنے لگتا تھا۔ایک اور آدمی گھوڑا دوڑاتا میدان میں آیااور اس نے تلوار لہرا کر گھوڑا چکر میں دوڑایا۔عبدالرحمٰن بن ابی بکر اس کی طرف گئے تو ضرار نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور چلّائے۔’’پیچھے رہ ابی بکر کے بیٹے!اسے میرے لیے چھوڑ دے۔‘‘وہ عبدالرحمٰن کے قریب سے گزر گئے۔رومی نے گھوڑا ان کی طرف موڑا لیکن ضرار نے اس کے گھوڑے کو پوری طرح سے مڑنے بھی نہیں دیا،انہوں نے تلوار کی نوک رومی کے پہلو میں اتاردی۔لیکن اتنی نہیں کہ وہ گر پڑتا۔ضرا ر نے اسے مقابلے کا موقع دیاتھا۔اس نے مقابلہ کیا لیکن اس کا دم خم پہلے زخم سے ہی ختم ہو چکا تھا۔ضرار اس کے ساتھ کھیلتے رہے آخر ایسا بھرپوروار کیا کہ وہ گھوڑے پر دُہرا ہوا اور پھر لڑھک کے نیچے آپڑا۔مدینہ کے ان تین سالاروں کے مقابلے میں چند اور رومی آئے اور مارے گئے۔ضرار، شرجیلؓ اور عبدالرحمٰن نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ رومیوں کی اگلی صف کے قریب جاکر گھوڑے دوڑاتے اور انہیں للکارتے تھے بلکہ کوئی رومی صف سے آگے ہوکر ان کی طنزیہ للکار کا جواب دیتا تو وہ ان تینوں میں سے جس کے سامنے ہوتا اسے برچھی یا تلوار سے ختم کر دیتا۔اس طرح انہوں نے چند ایک رومیوں کو بھی زخمی کیا اور قتل بھی۔خالدؓ پہلے تو تماشہ دیکھتے رہے پھر وہ جوش میں آگئے۔انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آگے چلے گئے۔’’پیچھے آجاؤ تم تینوں!‘‘خالدؓ نے بڑی بلند آواز میں کہااور میدان میں گھوڑا دوڑانے لگے۔ان کے ہاتھ میں برچھی تھی ۔مؤرخوں نے ان کی للکار کے الفاظ لکھے ہیں۔’’میں اسلام کا ستون ہوں۔‘‘’’میں اﷲکے رسولﷺ کا صحابی ہوں۔‘‘’’میں خالد بن ولید ہوں۔‘‘’’میں اپنی فوج کا سپہ سالار ہوں۔میرے مقابلے میں سپہ سالار آئے۔‘‘واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ رومی سالاروں عزازیر اور کلوس کے درمیان چپقلش تھی۔جب خالدؓنے کہا کہ ان کے مقابلے میں سپہ سالار آئے تو رومی سالار عزازیر نے اپنے ساتھی سالار کلوس کی طرف دیکھا اور کہا کہ کلوس اپنے آپ کو سپہ سالار سمجھتاہے،میں تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں،کلوس یہ سن کر خاموش رہا اور مقابلے کیلئے آگے بھی نہ بڑھا۔’’ہمارا سالار کلوس ڈر گیا ہے۔‘‘عزازیر نے طنزیہ کہا۔اس نے کلوس کو کچھ اور طعنے بھی دیئے۔کلوس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ خالدؓکے مقابلے میں ہچکچا رہا ہے۔لیکن عزازیر اس پر طعنوں کے تیر چلا رہا تھا۔ان سے تنگ آکر کلوس نے گھوڑا بڑھایا اور خالدؓکی طرف گیا۔

چار مؤرخوں نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ خالدؓ کے ہاتھ میں برچھی تھی۔کلوس ان کی طرف آیا تو اس کا انداز حملے والا نہیں تھا اور اس نے خالدؓ کو کچھ ایسا اشارہ کیا تھا جیسے کوئی بات کرنا چاہتا ہو۔خالدؓ نے اس کے اشارے کی پرواہ نہیں کی، دشمن کا دوستانہ اشارہ دھوکا بھی ہو سکتا تھا۔ خالدؓنے اپنا گھوڑا اس کی طرف دوڑایا اور اس پر برچھی کا وار کیا۔کلوس تجربہ کار جنگجو تھا۔اس نے اپنے آپ کو اس وار سے صاف بچا لیا۔خالدؓ نے آگے جا کر گھوڑا موڑا اور کلوس پر دوسرے حملے کیلئے گئے۔اب کہ انہوں نے سنبھل کر کلوس کو برچھی ماری۔کلوس نے اب پھر ان کا وار بیکار کر دیا۔خالدؓنے برچھی پھینک دی۔کلوس نے دیکھا کہ اب خالدؓ خالی ہاتھ آرہے ہیں۔تو اس نے تلوار تانی۔خالدؓ نے گھوڑ اس کی طرف لیا اور گھوڑے کو زیادہ آگے نہ جانے دیا،اسے فوراً روک کر موڑا اور کلوس پرآئے۔کلوس نے گھوڑا موڑا وہ بہتر پوزیشن میں آکروار کرنا چاہتا تھا۔ لیکن خالدؓنے پیچھے سے آکر اسے مضبوطی سے پکڑ لیا اور گھوڑے سے گرا دیا۔انہوں نے گھوڑے سے کود کر کلوس کو دبوچ لیاکلوس زمین پر پڑا تھا۔اس نے اٹھنے کی ذرا سی بھی کوشش نہ کی۔خالدؓ نے اپنے محافظوں کو پکارا کہ آئیں ۔دو تین محافظ دوڑے گئے۔خالدؓنے انہیں کہا کہ کلوس کو قیدی بنا لیں۔اس طرح کلوس مرنے سے بچ گیا اور قیدی بن گیا۔جب کلوس کو قیدی بنا کر خالدؓکے محافظ لے گئے تواسے پیچھے لے جانے کے بجائے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔تاکہ رومی اسے دیکھتے رہیں۔خالدؓ پھر گھوڑے پر سوار ہو گئے،اور گھوڑا چکر میں دوڑاتے اور رومیوں کو للکارتے تھے اور ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔کلوس کا گھوڑا ایک جگہ رُک گیا تھا ۔خالدؓکے اشارے پر ان کا ایک محافظ کلوس کا گھوڑا پکڑ لایا۔خالدؓ کی للکار کے جواب میں اب رومی سالار عزازیر سامنے آیا۔’’او کلوس!‘‘سالار عزازیر نے خالدؓکو للکارنے کے بجائے اپنے ساتھی سالار کلوس کو للکار کر طعنہ دیا۔’’دیکھ لے اپنا انجام بزدل کمینے!تو مجھے رسوا کر رہا تھا۔اب میری تلوار کا کمال دیکھ۔‘‘اس نے خالدؓ پر حملہ کرنے کے بجائے گھوڑا عام چال سے خالدؓ کی طرف بڑھایا،اور خالدؓ سے طنزیہ لہجے میں کہا۔’’عربی بھائی!میں تجھ سے کچھ پوچھوں گا۔میرے قریب آجا۔‘‘’’او اﷲکے دشمن!‘‘خالدؓ نے اس کے طنز کو سمجھتے ہوئے کہا۔’’میں تیرے قریب گیا تو تیرا سر تیرے جسم کے ساتھ نہیں رہے گا۔تو ہی آجا۔‘‘عزازیر نے تلوار نکالی اور خالدؓ کی طرف آیالیکن وہ ہنس رہا تھا جیسے خالدؓ کو کچھ سمجھتا ہی نہ ہو۔وہ خالدؓ سے کچھ دور رک گیا۔’’عربی بھائی!‘‘اس نے کہا۔’’تجھے میرے مقابلے میں آنے کیلئے کس نے کہا ہے؟کیا تو نے سوچا نہیں کہ تو میرے ہاتھوں مارا جائے گا تو تیرے ساتھی سالار تیرے بغیر کیاکریں گے-

’’اﷲسے دشمنی رکھنے والے رومی!‘‘خالدؓنے کہا۔’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ میرے ساتھیوں نے کیا کردکھایا ہے؟انہیں اگر میری اجازت ہوتی تو یہ تیرے اس سارے لشکر کو اسی طرح کاٹ دیتے جس طرح تیرے یہ ساتھی کٹے ہوئے مردہ پڑے ہیں۔میرے ساتھی آخرت سے محبت کرتے ہیں۔یہ
دنیا اور یہ زندگی تو ان کیلئے کچھ بھی نہیں……تو ہے کون؟میں تجھے نہیں جانتا۔‘‘’’او بد قسمت عربی!‘‘عزازیر نے خالدؓ کا مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا۔’’میں اس ملک کا جابر سالار ہوں میں تیرے لیے قہر ہوں۔میں فارسیوں کے لشکر کا قاتل ہوں۔ترکوں کے لشکر کو برباد کرنے والا ہوں۔‘‘’’میں تیرا نام پوچھ رہا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں موت کا فرشتہ ہوں۔‘‘عزازیر نے کہا۔’’میرا نام عزازیر ہے لیکن میں عزرائیل ہوں۔‘‘’’خد اکی قسم !جس موت کا تو فرشتہ ہے وہ موت تجھے ڈھونڈ رہی ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’وہ تجھے جہنم کے سب سے نیچے والے حصے میں پہنچائے گی۔‘‘عزازیر کو خالدؓکے اس طنز پر بھڑک اٹھنا چاہیے تھا۔لیکن اس نے اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھا۔’’میرے عربی بھائی!‘‘اس نے خالدؓ سے کہا۔’’تو کلوس کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے جو تیری قید میں ہے؟‘‘’’وہ دیکھ رومی سالار!‘‘خالدؓ نے جواب دیا۔’’تیرا سالار بندھا ہوا ہے۔‘‘عزازیر کا رویہ اور لہجہ اور زیادہ ٹھنڈا ہو گیا۔’’کیا وجہ ہے کہ تونے ابھی تک اسے قتل نہیں کیا؟‘‘عزازیر نے کہا۔’’تو نہیں جانتا کہ رومیوں میں اگر کوئی سب سے زیادہ عیار اور شیطان ہے تو وہ کلوس ہے……تو اسے قتل کیوں نہیں کرتا؟‘‘’’کوئی وجہ نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’صرف یہ ارادہ ہے کہ تم دونوں کو اکٹھا قتل کروں گا۔‘‘ان دونوں رومی سالاروں کی آپس میں دشمنی اتنی زیادہ تھی کہ وہ خالدؓ کی کسی بات پر بھڑکتا ہی نہیں تھا۔’’میری ایک بات پر کان دھر عربی سالار!‘‘عزازیر نے دوستانہ لہجے میں کہا۔’’اگر تو کلوس کومیرے سامنے قتل کر دے تو میں تجھے ایک ہزار دینار، دس قبائیں ریشم کی اور اعلیٰ نسل کے پانچ گھوڑے دوں گا۔‘‘’’او روم کے جابر سالار!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ سب تو مجھے کلوس کو قتل کرنے کا انعام دے رہا ہے ، یہ بتا کہ میرے ہاتھوں قتل ہونے سے بچنے کیلئے تو مجھے کیا دے گا؟اپنی جان کی قیمت بتا دے؟‘‘’’تو ہی بتا۔‘‘عزازیر نے کہا۔’’کیا لے گا؟‘‘’’جزیہ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اگر نہیں تو اسلام قبول کرلے۔‘‘اب عزازیر بھڑکا۔’’آعرب ے بدو!‘‘عزازیر نے کہا۔’’اب میرا وار دیکھ۔ہم عظمت کی طرف جاتے ہیں۔تو ذلت میں جاتا ہے۔آ، اپنے آپ کو میرے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا۔‘‘

اس نے تلوار ہوا میں لہرائی اور خالدؓ پر حملہ کرنے کیلئے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔خالدؓ اس سے تیز نکلے۔انہوں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔عزازیر ان کے قریب ہی تھا۔خالدؓ نے تلوار کا وار کیا جو عزازیر نے پھرتی سے ایک طرف ہٹ کر بے کار کر دیا۔اس کے بعد خالدؓ نے ہر طرف سے آکر اس رومی سالار پر وار کیے مگر وہ بڑی پھرتی سے اِدھر اُدھر ہو کر وار بچاتا رہا۔اس نے بعض وار اپنی تلوار پر روکے۔مؤرخ واقدی نے اس دور کی تحریروں کے حوالے سے خالدؓ اور عزازیر کے مقابلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔عزازیر وار روکتا تھا اور وار کرتا نہیں تھا۔رومی لشکر سے تو دادوتحسین کا شور اٹھ ہی رہا تھا ۔مسلمانوں نے بھی عزازیر کی پھرتی کی داددی۔خالدؓ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔’’اے عرب کے سالار!‘‘عزازیر نے کہا۔’’کیا میں تجھے قتل نہیں کر سکتا؟……میں تجھے زندہ پکڑوں گا اور تجھ سے یہ شرط منواؤں گا کہ تو جدھر سے آیا ہے ،اپنے لشکر کے ساتھ اُدھر ہی چلاجائے۔‘‘’’خداکی قسم!اب تو میرے ہاتھوں زندہ گرفتارہوگا۔‘‘خالدؓ نے بھڑک کر کہا اور اس پر جھپٹے۔عزازیر نے گھوڑے کو تیزی سے موڑااور بھاگ نکلا۔خالدؓ نے گھوڑا س کے پیچھے ڈال دیا۔عزازیرنے گھوڑا تیز کر دیااور دونوں فوجوں کے درمیان چکر میں گھوڑا دوڑانے لگا۔اب مسلمانوں کالشکر نعرے لگانے لگا۔خالدؓ اس کے تعاقب میں رہے۔عزازیر اپنا گھوڑا ذرا آہستہ کرلیتا اور جب خالدؓ اس تک پہنچتے تو وہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتا۔اس دوڑ اور تعاقب میں بہت سا وقت گزر گیا۔خالدؓ کا گھوڑا سست پڑنے لگا اور اس کا پسینہ پھوٹ آیا۔عزازیر کا گھوڑا خالدؓ کے گھوڑے سے بہتر اور زیادہ طاقتور تھا،عزازیر نے دیکھ لیا کہ خالدؓ کا گھوڑا رہ گیا ہے اس نے اپنا گھوڑا گھمایا اور خالدؓ کے اردگرد چکر کاٹنے لگا۔’’او عربی!‘‘عزازیر نے للکار کر کہا۔’’تو سمجھتا ہے میں تیرے ڈر سے بھاگ اٹھا ہوں۔میں تجھے کچھ دیر اور زندہ دیکھنا چاہتا تھا۔میں تیری روح نکالنے والا فرشتہ ہوں۔‘‘خالدؓنے دیکھا کہ ان کا گھوڑا عزازیر کے گھوڑے کاساتھ نہیں دے سکتا تو وہ اپنے گھوڑے سے کود کر اُترے۔ان کے ہاتھ میں تلوار تھی۔عزازیر نے خالدؓکو آسان شکار سمجھا،اور ان پر گھوڑا دوڑا دیا۔خالدؓ کھڑے رہے۔عزازیر قریب آیا تو اس نے گھوڑے سے جھک کر خالدؓ پر وار کیا۔خالدؓ بچتے نظر نہیں آتے تھے،لیکن انہوں نے سر نیچے کرکے وار کو بیکارکر دیا۔عزازیر گھوڑے کو گھما کر آیا۔خالدؓ پہلے کی طرح کھڑے رہے۔اب کے پھر عزازیر نے اُن پر وار کیا،خالدؓ نے نہ صرف یہ کہ جھک کر اپنے آپ کو بچا لیا،بلکہ دشمن کے گھوڑے کی اگلی ٹانگوں پر ایسی تلوار ماری کہ گھوڑے کی ایک ٹانگ کٹ گئی،اور دوسری گھوڑے کے بوجھ کے نیچے دوہری ہو گئی۔گھوڑا گرااور عزازیر گھوڑے کے آگے جا پڑا۔وہ بڑی تیزی سے اٹھا لیکن خالدؓنے اسے پوری طرح اٹھنے نہ دیا۔تلوار پھینک کر اسے دبوچ لیا اور اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔اسے پھر اٹھایا اور پہلے سے زیادہ زور سے پٹخا۔عزازیر کو اس خوف نے بے جان کر دیا کہ خالدؓ اسے مار ڈالیں گے لیکن خالدؓ نے اسے گھسیٹا اور اسی طرح اپنے لشکر کی طرف لے گئے اور کلوس کے پا س جا کھڑا کیا۔’’یہ لے!‘‘خالدؓنے اسے کہا۔’’اپنے دوست کلوس سے مل۔‘‘خالدؓ نے حکم دیا کہ عزازیر کو بھی باندھ دیا جائے۔

ادھر اﷲنے دشمن کے دو سپہ سالار مسلمانوں کو دے دیئے اُدھر شور اٹھا کہ باقی لشکر آگیا ہے۔خالدؓ اپنے اسی لشکر کے انتظار میں تھے اور وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس لشکر کے ساتھ تاریخ اسلام کے دو عظیم سالار تھے۔عمروؓ بن العاص اور ابو عبیدھؓ۔
خالدؓ نے ذرا سا بھی وقت ضائع کیے بغیر اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کیا۔چار ہزار جانباز سواروں کے دستے طلیعہ کو اپنی کمان میں رکھا اور حملے کا حکم دے دیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کے برابر تھی بلکہ کچھ زیادہ ہی تھی۔رومیوں نے مقابلہ تو کیا لیکن ان کے انداز میں جارحیت نہیں تھی، وہ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔ان کا حوصلہ اور جذبہ تو اسی ایک وجہ سے ٹوٹ گیا تھاکہ ان کے دو سپہ سالار مسلمانوں کی قید میں تھے،اور باقی سالار انفرادی مقابلوں میں مارے جاچکے تھے۔اس رومی فوج میں پہلی جنگوں سے بھاگے ہوئے آدمی بھی تھے۔ان پر مسلمانوں کا خوف طاری تھا۔انہوں نے مسلمانوں کو قہر اورغضب سے لڑتے اور اپنے ساتھیوں کو کٹتے دیکھا تھا۔انہوں نے بے دلی سے مقابلہ کیا اور پیچھے ہٹتے گئے۔انہیں لڑانے والا کوئی تھا ہی نہیں۔مسلمانوں نے انہیں پسپائی سے روکنے کیلئے ان کے عقب میں جانے کی کوشش کی لیکن پیچھے درختوں سے اٹی ہوئی وادی تھی جس میں وہ غائب ہوتے جا رہے تھے۔ان کی پیٹھ کے پیچھے دمشق تھا جو قلعہ بند شہر تھا۔فاصلہ بارہ میل تھا۔یہ رومیوں کیلئے ایک کشش تھی۔پناہ قریب ہی تھی۔چنانچہ وہ فرداً فرداً درختوں کے جھنڈ میں سے گزرتے دمشق کی طرف بھاگ رہے تھے۔رومی ایسی بری طرح مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے تھے کہ میدانِ جنگ ان کی لاشوں اور تڑپتے ہوئے زخمیوں سے اَٹ گیا۔دوڑتے گھوڑے اور پیادے انہیں کچل رہے تھے۔رومیوں نے اپنے پہلوؤں کے دستوں کو عام پسپائی کیلئے کہہ دیا۔مسلمانوں نے تعاقب نہ کیا کیونکہ خالدؓ اپنی نفری کو بچانا چاہتے تھے۔وہ بڑے کوچ کے تھکے ہوئے بھی تھے۔بچے کچھے رومی دمشق پہنچ گئے اور شہر کے اردگرد دیوار نے انہیں پناہ میں لے لیا۔مسلمانوں نے مالِ غنیمت اکٹھا کیا۔عورتوں نے زخمیوں کو اٹھایااور انہیں مرہم پٹی کیلئے پیچھے لے گئیں۔شہیدوں کی لاشیں ایک جگہ رکھ کر جنازہ پڑھایا گیا اور انہیں الگ الگ قبروں میں دفن کیا گیا۔خالدؓ نے رات وہیں گزارنے کا حکم دیااور تمام سالاروں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں بتایا کہ دمشق کے محاصرے کو کامیاب کرنے کیلئے ضروری ہوگا کہ دمشق کی طرف آنے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی جائے تاکہ دشمن اپنے دمشق کے دستوں کو کمک اور رسد نہ پہنچا سکے۔خالدؓ نے فحل کے قلعے کے قریب پہلے ہی ایک گھوڑ سوار دستہ چھوڑ دیا تھا۔وہاں سے امداد آنے کی توقع تھی۔خالدؓ نے دو گھوڑ سوار دستے دو مقامات پر بھیج دیئے۔ان کیلئے حکم تھا کہ ان راستوں سے کمک آئے تو اس پر حملہ کردیں۔۲۰ اگست ۶۳۴ء (۲۰ جمادی الآخر ۱۳ھ)خالدؓ نے دمشق پہنچ کر اس شہر کو محاصرے میں لے لیا۔دمشق کے اندر جو رومی فوج تھی اس کی تعداد سولہ ہزار کے لگ بھگ تھی،خالدؓ کے لشکر میں بیس ہزار مجاہدین تھے۔شہیدوں اور شدید زخمیوں کی وجہ سے تعداد اتنی کم رہ گئی تھی۔
کچھ دستے مختلف مقامات پر رومیوں کی کمک کو روکنے کیلئے بھیج دیئے گئے۔یہ وجہ تھی کہ مجاہدین کی تعداد بیس ہزار رہ گئی تھی۔دمشق بڑا شہر تھا۔اس کے چھ دروازے تھے اور ہر دروازے کا نام تھا۔ باب الشرق، باب توما، باب حابیہ، باب فرادیس، باب کیسان، اور باب صغیر۔ خالدؓ نے ہردروزے کے سامنے دودو تین تین ہزار نفری کے دستے کھڑے کردیئے۔ہر دروازے کیلئے ایک سالار مقررکیا۔رافع بن عمیرہ، عمروؓ بن العاص، شرجیلؓ بن حسنہ، ابوعبیدہؓ، یزیدؓ بن ابی سفیان۔ یزیدؓ کی ذمہ داری میں دو دروازے دے دیئے گئے۔ضرار بن الازور کو منتخب سواروں کا دو ہزار نفری کا دستہ اس مقصد کیلئے دے دیا گیا کہ وہ قلعے کے اردگرد گھومتے پھرتے رہیں اور اگر رومی باہر آکر کسی دستے پر حملہ کریں تو ضرار اس کی مدد کو پہنچیں۔شہر کی دیوار پر رومی کمانیں اور برچھیاں لیے کھڑے تھے۔ان میں دوسرے سالاروں کے علاوہ دمشق کے دفاع کا ذمہ دار سالار توما بھی تھا جو شہنشاہِ ہرقل کا داماد بھی تھا۔خالدؓ نے حکم دیا کہ رومیوں کے دونوں قیدی سالاروں عزازیر اور کلوس کو آگے لایا جائے۔دونوں بندھے ہوئے لائے گئے۔انہیں دیوار کے اتنا قریب لے جایا گیا جہاں وہ دیوار پر کھڑے رومیوں کو نظر آسکتے تھے۔’’کیا تم دونوں اسلام قبول کرو گے؟‘‘خالدؓ نے دونوں سے بلند آواز میں پوچھا۔’’نہیں۔‘‘دونوں نے اکٹھے جواب دیا۔خالدؓ نے ضرار بن الازور کو آگے بلایا اور کہا کہ انہیں ان کے انجام تک پہنچادو۔ضرار نے تلوار نکالی اور دونوں کی گردنوں پر ایک ایک وار کیا۔دونوں کے سر زمین پر جا پڑے، ان کے دھڑ گرے ، تڑپے، اور ساکت ہو گئے۔دیوار سے تیروں کی بوچھاڑ آئی لیکن خالدؓ اور ضرار ان کی زد سے نکل آئے تھے۔دمشق کا محاصرہ رومیوں کی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ بلکہ حادثہ اور المیہ تھا اور مسلمانوں کی تاریخ کا بھی یہ بہت بڑا اور بعض تاریخ نویسوں کیلئے حیران کن واقعہ تھا۔حیران کن تو رومیوں کیلئے بھی تھا کیونکہ روم کی فوج اس دور کی بہترین فوج اور ناقابلِ تسخیر جنگی طاقت سمجھی جاتی تھی۔رومی فوج دہشت اور تباہی کا دوسرا نام تھا۔اس فوج نے ہر میدان میں فتح پائی تھی۔کسریٰ کی فوج بھی اس سے کم نہ تھی لیکن رومی فوج نے اسے بھی شکست دے کر الگ بٹھا دیاتھا۔لیکن اتنی دور سے آئے ہوئے اور اتنے تھوڑے سے مسلمان اسی رومی فوج کو شکست پہ شکست دیئے چلے جا رہے تھے اور انہوں نے دمشق کو محاصرے میں لے لیا تھا جو رومیوں کا بڑا ہی اہم اور قیمتی شہر تھا۔قیصرِ روم نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کی بہترین اور دہشت ناک فوج کو اس مقام پر لے آئے گی کہ اس کیلئے رومیوں کی روایات اور وقار کا تحفظ محال ہو جائے گا-
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی