🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *41* ۔۔۔۔
۲۴جولائی ۶۳۴ء کے روز خالدؓ اپنی فوج کے ساتھ اجنادین پہنچ گئے ۔وہ بیت المقد س کے جنوب میں پہاڑیوں میں سے گزرے تھے۔ان پہاڑیوں کے ایک طرف میدان تھا۔ خالدؓ نے وہاں قیام کا حکم دیا۔تقریباًایک میل دور رومی فوج خیمہ زن تھی۔اس کا سالارِ اعلیٰ وردان اور سالار قُبقُلارتھا۔رومی فوج تو جیسے انسانوں کا سمندر تھا۔مسلمانوں کی فوج اس کے مقابلے میں چھوٹا سادریا لگتی تھی۔اسلامی فوج کے جو دستے دوسری جگہوں پر تھے وہ آگئے اور مسلمانوں کی تعداد بتیس ہزار ہو گئی۔ایک میل کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔ مسلمان اونچی جگہوں پر کھڑے ہوکر رومیوں کی خیمہ گاہ کی طرف دیکھتے تھے۔انہیں حدّ نگاہ تک انسان اور گھوڑے نظر آتے تھے۔دو تین دنوں بعد خالدؓ کو بتایا گیا کہ فوج میں کچھ گھبراہٹ سی پائی جاتی ہے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ اُن نو ہزار مجاہدین میں ذرا سی بھی گھبراہٹ نہیں تھی جو خالدؓ کے ساتھ تھے۔وہ عیسائیوں غسانیوں اور رومیوں کے خلاف لڑتے چلے آئے تھے۔وہ رومیوں کی اتنی زیادہ فوج سے خوفزدہ نہیں تھے۔دوسرے دستوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے خالدؓ خیمہ گاہ میں گھومنے پھرنے لگے۔وہ جہاں رکتے ان کے اردگردمجاہدین کا مجمع لگ جاتا۔خالدؓنے سب سے ایک ہی جیسے الفاظ کہے:’’اسلام کے سپاہیو!میں جانتا ہوں تم نے اتنی زیادہ رومی فوج پہلے کبھی نہیں دیکھی لیکن تم اتنی بڑی فوج کو پہلے شکست دے چکے ہو۔ خدا کی قسم!تم ڈر گئے تو ہار جاؤ گے،اور اگر تم نے اس لشکر پر فتح پالی تو رومی ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں گے۔اپنے اﷲکے نام پر لڑو۔ اسلام کے نام پر لڑو۔ اگر تم نے پسپائی اختیار کی تو دوزخ کی آگ میں جلو گے۔جب لڑائی شروع ہو جائے تو اپنی صفوں میں بد نظمی پیدا نہ ہونے دینا۔ قدم جما کر رکھنا۔ جب تک میری طرف سے حکم نہ ملے، نہ پیچھے ہٹنا نہ حملہ کرنا……اﷲتمہارے ساتھ ہے۔‘‘ اُدھر رومیوں کا سالارِ اعلیٰ وردان اپنے کمانداروں سے کہہ رہا تھا:’’اے رومیو!قیصرِ روم کو شکست کی ذلت سے بچانا تمہارا فرض ہے، قیصر روم کو تم پر اعتماد ہے۔اگر تم نے ان عربی مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست نہ دی تو یہ تم پر ہمیشہ کی طرح غالب آجائیں گے ۔یہ تمہاری بہنوں ، بیٹیوں اور بیویوں کو بے آبرو کریں گے۔اپنے آپ کو منتشر نہ ہونے دینا، صلیب کی مددمانگو، فتح تمہاری ہے۔مسلمانوں کی تعدادبہت تھوڑی ہے۔ایک کے مقابلے میں تم تین ہو۔‘‘
دو تین دن مزید گزر گئے۔خالدؓ دشمنوں کی صحیح تعداد اور کیفیت معلوم کرنا چاہتے تھے۔وہ کسی بھی جاسوس کو بھیج سکتے تھے لیکن انہیں جس قسم کی معلومات کی ضرورت تھی وہ کوئی ذہین اور دلیر آدمی حاصل کرسکتا تھا۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ انہیں کوئی آدمی دیا جائے۔’’ابنِ ولید!‘‘سالار ضرار بن الازور نے کہا۔’’کیا میں یہ کام نہیں کر سکوں گا؟خدا کی قسم!مجھ سے بہتر یہ کام کوئی اور نہیں کر سکے گا۔‘‘ضرار وہ سالار تھے جنہوں نے بصرہ کے معرکے میں نہ صرف اپنی زرہ اتار پھینکی بلکہ قمیض بھی اتار کر کمر تک برہنہ ہو گئے اور ایسے جوش سے لڑے کہ سارے لشکر کے جوش و جذبے میں بے پناہ اضافہ ہو گیاتھا۔’’ہاں ابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔’’ تمہارے سوا یہ کام اور کون کر سکتا ہے۔ تم ہی بہتر جانتے ہو کہ تمہیں وہاں کیا دیکھنا ہے۔‘‘ضرار نے قمیض اتار پھینکی اور کمر تک برہنہ ہو گئے ۔وہ گھوڑے پر سوار ہوئے تو خالدؓ اور دوسرے سالاروں نے قہقہہ لگایا۔’’خدا حافظ میرے رفیقو!‘‘ضرار نے ہلکی سی ایڑ لگا کر کہا۔’’اﷲتجھے سلامت رکھے ابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔رومیوں کی خیمہ گاہ کے قریب ایک اونچی ٹیکری تھی۔ ضرار نے گھوڑا نیچے چھوڑا اور ٹیکری پر چڑھ گئے۔مسلمانوں اور رومیوں کی خیمہ گاہ کے درمیان ایک میل کا علاقہ خالی تھا۔دونوں فریقین کے گشتی سنتری اس علاقے میں گردش کرتے رہتے تھے۔یہ گشتی سنتری گھوڑ سوار ہوتے تھے۔ضرار کو رومیوں کے گشتی سوار نہیں دیکھ سکے تھے۔ضرار ٹیکری پر چڑھے تو دوسری طرف رومیوں کے سنتری موجود تھے۔انہوں نے ضرار کو دیکھ لیا۔ضرار تیزی سے نیچے اترے اور کود کر گھوڑے پر سوار ہوئے۔انہیں پکڑنے کیلئے رومی سوارٹیکری کے دونوں طرف سے آئے۔ان کی تعداد (مؤرخوں کے مطابق) تیس تھی۔ضرار نے گھوڑے کو ایڑ لگائی لیکن گھوڑے کو تیز نہ دوڑایا۔رومی سواروں نے بھی گھوڑے تیز نہ دوڑائے۔وہ غالباً محتاط تھے کہ مسلمان سنتری کہیں قریب موجود ہوں گے۔پھر بھی رومی سواروں نے ضرار کا تعاقب جاری رکھااور ضرار معمولی رفتار سے چلے آئے۔رومی سوار انہیں گھیرے میں لینے کیلئے پھیلتے چلے گئے اور وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ضرار ان کے بکھرنے کے ہی منتظر تھے۔ان کے پاس برچھی تھی،ان کی اپنی خیمہ گاہ قریب آگئی تھی۔اچانک ضرار نے تیزی سے گھوڑے کو پیچھے موڑا اور ایڑ لگائی۔ان کا رخ اس رومی سوار کی طرف تھا جو ان کے قریب تھا،انہوں نے اس رومی پر برچھی کا وار کیا۔وار بڑا زوردار تھا۔رومی سنبھل نہ سکا۔ ضرار کا حملہ غیر متوقع تھا۔یہ سوار گھوڑے سے گر پڑا۔دوسرے رومی سوار ابھی سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ یہ کیا ہوا ہے، کہ ضرار کی برچھی ایک اور رومی کے پہلو میں اتر چکی تھی۔تیسرا سوار ضرار کی طرف آیا تو ضرار کی برچھی میں پرویا گیا۔مسلمانوں کی خیمہ گاہ قریب ہی تھی پھر بھی رومی ضرار کو گھیرے میں لینے کی کوشش کر رہے تھے ۔ضرار مانے ہوئے شہسوار تھے،وہ رومیوں کے ہاتھ نہیں آرہے تھے۔رومیوں کی تعداد اب ستائیس تھی۔ضرار بھاگ نکلنے کے بجائے انہی میں گھوڑا دوڑاتے اور پینترے بدلتے پھر رہے تھے۔ان کی برچھی کا کوئی وار خالی نہیں جاتا تھا۔ واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ ضرار نے برچھی کے ساتھ ساتھ تلوار بھی استعمال کی تھی۔ان کی تحریروں کے مطابق ضرار نے تیس میں سے انیس رومی سواروں کو مار ڈالا تھا۔ضرار کو زد میں لینے کی کوششش میں رومی مسلمانوں کی خیمہ گاہ کے اورقریب آگئے تھے۔بہت سے مسلمان سوار ضرار کی مدد کو پہنچنے کیلئے تیار ہونے لگے۔رومیوں نے یہ خطرہ بر وقت بھانپ لیا اور وہ بھاگ گئے۔ضرار اپنی خیمہ گاہ میں داخل ہوئے تو مجاہدین نے دادوتحسین کا شور و غوغا بپا کرکے ان کا استقبال کیا لیکن خالدؓ کے سامنے گئے تو خالدؓ کے چہرے پر خفگی تھی- ’’کیا میں نے تجھے کسی اور کام کیلئے نہیں بھیجا تھا؟‘‘خالدؓ نے درشت لہجے میں کہا۔’’اور تو نے دشمن سے لڑائی شروع کر دی۔ کیا تو نے اپنے فرض کے ساتھ بے انصافی نہیں کی؟‘‘’’ابنِ ولید!‘‘ضرار بن الازور نے کہا۔’’خدا کی قسم!تیرے حکم کا اور تیری ناراضگی کا خیال نہ ہوتا تو جو رومی بچ کر نکل گئے ہیں وہ بھی نہ جاتے۔انہوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔‘‘اس کے بعد خالدؓ نے کسی کو رومی خیمہ گاہ کی جاسوسی کیلئے نہ بھیجا۔تین چار دن اور گزر گئے۔خالدؓ کے لشکر نے آرام کر لیا لیکن خالدؓکے اپنے شب وروز جاگتے سوچتے اور خیمے میں ٹہلتے گزرے۔اپنے سے تین گنا طاقتور فوج کو شکست دینا تو ذرا دور کی بات ہے، اس کے مقابلے میں اترنا ہی ایک بہادری تھی لیکن خالدؓ فتح کے سوا کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔وہ ہر شام سالاروں اور کمانداروں کو بلا کر ان سے مشورے لیتے اور ہدایات دیتے تھے۔
رومی کیمپ میں کچھ اور ہی صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی۔ان کے سالار قُبقُلار کا حوصلہ جواب دے رہا تھا۔متعدد مؤرخوں نے خصوصاًواقدی نے یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔’’میں بڑا ہی خوش قسمت ہوتا اگر میں مسلمانوں کی فوج سے دور رہتا۔‘‘قُبقُلارنے اپنے سالارِ اعلیٰ وردان سے کہا۔’’ایسے نظر آرہا ہے کہ وہ ہم پر غالب آجائیں گے۔‘‘’’ایسی بے معنی بات میں آج پہلی بار سن رہا ہوں۔‘‘وردان نے کہا۔’’کیا ایک آدمی کبھی تین آدمیوں پر غالب آیا ہے؟’’ایسا کئی بار ہوا ہے۔‘‘قبقلار نے کہا۔’’ہاں ایسا کئی بار ہوا ہے۔‘‘وردان نے کہا۔’’اور وہ تم جیسے تین آدمی تھے جو میدان میں اترنے سے پہلے ہی حوصلہ ہار بیٹھے تھے۔‘‘’’کیا وہ ایک آدمی نہیں تھا جس نے ہمارے تیس میں سے انیس سواروں کو مار گرایا ہے؟‘‘قبقلار نے کہا۔’’تیس سوار ایک سوار پر غالب نہیں آسکے۔‘‘’’وہ سپاہی تھے، بزدل تھے۔‘‘وردان نے کہا۔’’تم سالار ہو، تم یہ بھی بھول گئے ہو کہ میدانِ جنگ میں بزدلی کی سزا موت ہے……لیکن مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں ہوا کیا ہے؟کیا تم پر مسلمانوں کا جادو چل گیا ہے؟‘‘’’جب سے ایک مسلمان نے ہمارے تیس آدمیوں کا مقابلہ کیا اور انیس کو مار گرایا ہے میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ اس ایک آدمی میں اتنی طاقت اور اتنی پھرتی کہاں سے آگئی تھی؟‘‘سالار قبقلار نے کہا۔’’میں نے ایک عربی عیسائی کو مسلمانوں کے کیمپ میں بھیج رکھا تھا۔وہ تین چار دن مسلمان بن کر ان کی خیمہ گاہ میں رہا ، کل وہ واپس آیا ہے۔اس نے جوکچھ بتایا ہے اس سے مجھے پتا چلا ہے کہ ان کی طاقت کیا ہے۔‘‘’’ا س نے کیا بتایا ہے؟‘‘وردان نے پوچھا۔’’میں اسے ساتھ لایا ہوں۔‘‘قبقلار نے کہا۔’’ساری بات اسی سے سن لیں۔‘‘جاسوس کو بلایا گیا۔وردان نے اس سے پوچھا کہ مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں اس نے کیا دیکھا ہے۔’’سالارِ اعلیٰ کا رتبہ قیصرِ روم جتنا ہو۔‘‘جاسوس نے تعظیم سے کہا۔’’میں نے اس خیمہ گاہ میں عجیب لوگ دیکھے ہیں۔وہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں، ہم جیسے نہیں۔‘‘’’تم اتنے دن ان کے درمیان کس طرح رہے؟‘‘وردان نے پوچھا۔’’کیا تم پر کسی نے شک نہیں کیا؟‘‘’’میں ان کی زبان بولتا ہوں۔‘‘جاسوس نے جواب دیا۔’’ان کے طور طریقے جانتا ہوں۔ان کے مذہب اور ان کی عبادت سے واقف ہوں،وہ اپنی فوج میں آپ کی طرح کسی کو بھرتی نہیں کرتے، جو کوئی ان کی فوج میں شامل ہونا چاہتا ہے ، اپنا ہتھیار اور اپنا گھوڑا لے کر شامل ہو جاتاہے۔میں مسلمان بن کر ان کی فوج میں شامل ہو گیا تھا……‘‘’’میں نے ان مسلمانوں میں کچھ نئے اصول دیکھے ہیں۔رات کو وہ عبادت گزار ہوتے ہیں، اور دن کو ایسے جنگجو جیسے وہ لڑنے مرنے کے سوا کچھ جانتے ہی نہ ہوں۔اپنے عقیدے کے تحفظ اور اس کے فروغ کیلئے لڑنے اور جان دینے کو یہ اپنا ایمان کہتے ہیں،ان کا ہر ایک سپاہی اس طرح بات کرتا ہے جیسے وہ کسی سالار کے حکم سے نہیں بلکہ اپنی ذاتی لڑائی کیلئے آیا ہو۔وہ سب ایک جیسے ہیں۔ لباس سے سالار اور سپاہی میں فرق معلوم نہیں کیا جا سکتا……‘‘’’میں نے ان میں مساوات کے علاوہ انصاف دیکھا ہے۔ اگر ان کے حاکم یا امیر کا بیٹا چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے ہیں۔اگر وہ کسی عورت کے ساتھ بد کاری کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اسے سرِ عام کھڑا کرکے پتھر مارتے ہیں حتیٰ کہ وہ مر جاتا ہے۔یہ لوگ اتنے مطمئن ہیں کہ انہیں کوئی فکر اور کوئی پریشانی نہیں……’’سالارِ اعلیٰ اگر مجھے معاف کر دیں تو میں کہوں……ہماری فوج میں وہ وصف نہیں جو مسلمانوں میں دیکھ کر آیا ہوں۔مسلمانوں کا کوئی بادشاہ نہیں۔ہمارے سپاہی بادشاہ کے حکم سے لڑتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ بادشاہ انہیں نہیں دیکھ رہا تو وہ اپنی جانیں بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔مسلمان ایک خدا کو اپنا بادشاہ سمجھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘مشہور مؤرخ طبری نے لکھاہے کہ قبقلار بول پڑا۔’’ میں کہتا ہوں میں اس زمین کے نیچے چلا جاؤں جس زمین پر ان سے مقابلہ کرنا پڑے۔کاش، میں ان کے قریب نہ جا سکوں۔نہ خدا اُن کے خلاف میری نہ میرے خلاف اُن کی مدد کرے۔‘‘وردان نے قبقلار سے کہا کہ اسے لڑنا پڑے گا۔ لیکن قبقلار کا لڑنے کا جذبہ ماند پر گیا تھا۔
۲۷ جمادی الاول ۱۳ہجری (۲۹ جولائی ۶۳۴ء) کی شام خالدؓنے اپنے سالاروں کو آخری ہدایات دیں اور اپنے لشکر کی تقسیم کر دی۔۲۸ جمادی الاول ۱۳ ہجری (۳۰ جولائی ۶۳۴ء) کو مجاہدین نے روز مرہ کی طرح فجر کی نماز باجماعت پڑھی۔سب نے گڑگڑاکر بڑے ہی جذباتی اندازمیں دعائیں مانگیں۔بہت سے ایسے تھے جن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ان میں سے نہ جانے کس کس کی یہ آخری نماز تھی۔نماز کے فوراًبعد انہیں اپنے اپنے دستوں کے ساتھ ان جگہوں پر چلے جاناتھا جو ان کیلئے گذشتہ رات مقرر کی گئی تھیں۔سورج نکلنے سے پہلے پہلے خالدؓ کا لشکر اپنی جگہوں پر پہنچ چکا تھا۔رومیوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ اپنی اتنی زیادہ تعداد کے بل بوتے پر اتنا پھیل جائیں گے کہ مسلمان اتنا پھیلے تو ان کی صفوں میں شگاف پڑ جائیں گے۔لیکن خالدؓ نے تعداد کی قلت کے باوجود محاذ پانچ میل لمبا بنا دیا،اس سے یہ خطرہ کم ہو گیا کہ رومی پہلوؤں میں جا کر یا پہلوؤں سے عقب میں جاکر حملہ کریں گے۔خالدؓنے دوسری دانشمندی یہ کی کہ اپنے لشکر کا منہ مغرب کی طرف رکھا تاکہ سورج ان کے پیچھے اور رومیوں کے سامنے رہے اور وہ آنکھوں میں سورج کی چمک پڑنے کی وجہ سے آنکھوں کو کھول نہ سکیں۔ حسبِ معمول خالدؓ نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ایک پہلو کے دستوں کے سالار سعید بن عامر تھے، دوسرے کے امیرالمومنین ابو بکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن،اور قلب کی کمان معاذؓ بن جبل کے پاس تھی۔خالدؓنے دونوں پہلوؤں کے دستوں کی حفاظت کے لئے یا مشکل کے وقت ان کی مدد کو پہنچنے کا یہ اہتمام کیا تھا کہ ان دستوں کے آگے ایک ایک دستہ کھڑا کر دیا تھا۔چار ہزار نفری جس کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے، خالدؓ نے قلب کے عقب میں محفوظہ(ریزرو) کے طور پر رکھ لی، وہاں اس نفری کی موجودگی اس لیے بھی ضروری تھی کہ وہاں عورتیں اور بچے تھے۔خالدؓنے سالاری کے رتبے کے افراد کو اپنے ساتھ رکھ لیا، مقصد یہ تھا کہ جہاں کہیں سالار کی ضرورت پڑے، ان میں سے ایک کو وہاں بھیج دیا جائے، یہ چاروں بڑے قابل اور تجربہ کار سالار تھے۔ عمرؓ کے بیٹے عبداﷲؓ، عمروؓ بن العاص، ضرار بن الازور، اور رافع بن عمیرہ۔سورج طلوع ہوا تورومی سنتریوں نے اپنے سالاروں کو اطلاع دی کہ مسلمان جنگی ترتیب میں تیار ہو گئے ہیں۔ رومیوں کے اجتماع میں ہڑبونگ مچ گئی۔ ان کا خدشہ بجا تھا کہ مسلمان حملہ کر دیں گے۔رومی سالاروں نے بڑی تیزی سے اپنے لشکر کو تیار کیااور مسلمانوں کے سامنے کھڑا کر دیا۔دونوں فوجوں کے درمیان فاصلہ تقریباً چار فرلانگ تھا۔خالدؓنے اپنے محاذ کو کم و بیش پانچ میل لمبا کر دیا تھا۔رومی اپنے لشکر کو اس سے زیادہ پھیلا سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے محاذ کی لمبائی تقریباً اتنی ہی رکھی جتنی خالدؓنے رکھی تھی۔اس سے خالدؓکا یہ مسئلہ تو حل ہو گیا کہ رومی مسلمانوں کے پہلوؤں کیلئے خطرہ نہ بن سکے لیکن رومی لشکر کی گہرائی زیادہ بلکہ بہت زیادہ تھی۔دستوں کے پیچھے دستے اور ان کے پیچھے دستے تھے۔مسلمانوں کیلئے ان کی صفیں توڑنا تقریباًناممکن تھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومیوں کا لشکر جب اس ترتیب میں آیا تو دیکھنے والوں پر ہیبت طاری کرتا تھا۔بہت سی صلیبیں جن میں کچھ بڑی اور کچھ ذرا چھوٹی تھیں ، اس لشکر میں سے اوپر کو ابھری ہوئی تھیں اور کئی رنگوں کے جھنڈے اوپر کو اٹھے ہوئے لہرا رہے تھے۔اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی فوج نہایت معمولی اور بے رعب سی لگتی تھی۔رومیوں کا سالار رودان اور سالار قُبقُلار اپنے لشکر کے قلب کے سامنے گھوڑوں پر سوار کھڑے تھے۔ان کے ساتھ ان کے محافظوں کا ایک دستہ تھا جو لباس وغیرہ سے بڑی شان والے لگتے تھے۔
رومیوں کی تعداد اور ان کے ظاہری جاہ وجلال کو دیکھ کر خالدؓ نے محسوس کیا ہوگا کہ ان کے مجاہدین پر رومیوں کا ایسا اثر ہو سکتا ہے کہ ان کا جذبہ ذرا کمزور ہو جائے۔شاید اسی لیے خالدؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ گائی اور گھوڑے کا رخ اپنی فوج کے ایک سرے کی طرف کر دیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اپنامحاذ اتنا زیادہ پھیلایا تھا،انہوں نے گھوڑا ایک پہلو کے دستے کے سامنے جا روکا۔’’یاد رکھنا کہ تم اس اﷲ کے نام پر لڑنے آئے ہو جس نے تمہیں زندگی عطا کی ہے۔‘‘خالدؓنے ایک ہاتھ اور اس ہاتھ کی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کرکے انتہائی بلند آواز میں کہا۔’’اﷲکسی اور طریقے سے بھی اپنی دی ہوئی زندگی تم سے واپس لے سکتا ہے۔اﷲنے تمہارے ساتھ ایک رشتہ قائم کر رکھا ہے ،کیا یہ اچھا نہیں کہ تم اﷲکی خاطر اپنی جانیں قربان کردو؟اﷲاس کا اجر دے گا۔ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے کہ تم تھوڑے تھے اور تمہارا مقابلہ اس دشمن سے ہوا جو تم سے دوگنا اور تین گناتھااور اتنا طاقتور دشمن تمہاری ضرب سے اس طرح بھاگا جس طرح بکری شیر کو اور بھیڑ بھیڑیئے کو دیکھ کر بھاگتی ہے……رومیوں کی ظاہری شان و شوکت کو نہ دیکھو۔شان و شاکت ایمان والوں کی ہوتی ہے۔جاہ و جلال ان کا ہے جن کے ساتھ اﷲہے۔اﷲتمہارے ساتھ ہے۔آج اپنے اﷲپر اور اﷲکے رسولﷺ پر ثابت کر دو کہ تم باطل کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنیو الے ہو- یہ تو جذباتی باتیں تھیں جو خالدؓ نے کیں، اور ان کا اثر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا ، خالدؓنے ان باتوں کے علاوہ کچھ ہدایات دیں، مورخوں نے ان کے صحیح الفاظ لکھے ہیں:’’جب آگے بڑھ کر حملہ کرو تو مل کر دشمن پر دباؤ ڈالو، جیسے ایک دیوار بڑھ رہی ہو، جب تیر چلاؤ تو سب کے تیر اکٹھے کمانوں سے نکلیں اور دشمن پر بوچھاڑ کی طرح گریں، دشمن کو اپنے ساتھ بہا لے جاؤ۔‘‘خالدؓ تمام دستوں کے سامنے رُکے، اور یہی الفاظ کہے۔ اس کے بعد وہ عقب میں عورتوں کے پاس چلے گئے۔’’دعا کرتی رہنا اپنے خاوندوں کیلئے ۔ اپنے بھائیوں اور اپنے باپوں کیلئے!‘‘خالدؓنےعورتوں سے کہا۔’’تم دیکھ رہی ہو کہ دشمن کی تعداد کتنی زیادہ ہے، اور ہم کتنے تھوڑے ہیں، ایسا ہو سکتا ہے کہ دشمن ہماری صفوں کو توڑکے پیچھے آجائے ۔خدا کی قسم!مجھے پوری امید ہے کہ اپنی عزت اور اپنی جانیں بچانے کیلئے تم مردوں کی طرح لڑو گی۔ ہم انہیں تم تک پہنچنے نہیں دیں گے لیکن وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جو ہم نہیں چاہتے کہ ہو جائے۔‘‘’’ولید کے بیٹے!‘‘ایک عورت نے کہا۔’’کیا وجہ ہے کہ ہمیں آگے جا کر لڑنے کی اجازت نہیں؟‘‘’’مرد زندہ ہوں تو عورت کیوں لڑے!‘‘خالدؓنے کہا۔’’اور اپنے آپ کو بچانے کیلئے لڑنا تم پر فرض ہے، اور تم پر فرض ہے کہ مرد تھوڑے رہ جائیں، دشمن غالب آرہا ہو تو آگے بڑھو، اور مردوں کی طرح لڑو، اور اپنے اوپر غیر مرد کا غلبہ قبول نہ کرو۔‘‘یہ پہلا موقع تھا کہ خالدؓ نے عورتوں کو بھی دشمن سے خبردار کیا اور انہیں اپنے دفاع میں لڑنے کیلئے تیار کیاتھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں خاصی تشویش تھی۔انہوں نے کسریٰ کی فوجوں کو شکست پہ شکست دی تھی لیکن رومی فارسیوں کی نسبت زیادہ منظم اور طاقتور تھے۔خالدؓ کے سامنے یقیناً یہ پہلو بھی ہو گا کہ مجاہدین کو گھروں سے نکلے خاصا عرصہ ہو چکا تھا، اور وہ مسلسل لڑائیوں کے تھکے ہوئے بھی تھے۔انہیں اپنے اﷲپر، اﷲکی دی ہوئی روحانی طاقتوں پر اور ایمان پر بھروسہ تھا۔دونوں فوجیں لڑائی کیلئے تیار ہو گئیں۔رومیوں کی طرف سے ایک معمر پادری آگے آیا اور مسلمانوں سے کچھ دور آکر رک گیا۔’’اے مسلمانو!‘‘اس نے بلند آواز سے کہا۔’’تم میں کوئی ایسا ہے جو میرے پاس آکر بات کرے؟‘‘خالدؓنے اپنے گھوڑے کی لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور پادری کے سامنے جا گھوڑا روکا۔’’تم سالار ہو۔‘‘بوڑھے پادری نے کہا۔’’کیا تم میں مجھ جیسا کوئی مذہبی پیشوا نہیں؟‘‘’’نہیں!‘‘خالدؓنے جواب دیا۔’’ہمارے ساتھ کوئی مذہبی پیشوا نہیں ہوتا،سالار ہی امام ہوتا ہے۔ میں سپہ سالار ہوں اور میں معزز پادری کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ میں اس وقت تک سپہ سالار رہوں گا جب تک میری قوم اور میری فوج چاہے گی۔اگر میں اپنے اﷲ وحدہ لا شریک کے احکام اور اس کے رسول ﷺکے فرمان سے انحراف کروں گاتومجھے سپہ سالار نہیں رہنے دیا جائے گا۔اگر اس حالت میں بھی سپہ سالار رہوں گا تو سپاہیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ میرا کوئی حکم نہ مانیں۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ معمر پادری پر خاموشی طاری ہو گئی،اور وہ کچھ دیر خالدؓکے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔’’شاید یہی وجہ ہے۔‘‘پادری نے ذرا دبی زبان میں کہا۔’’یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ فتح ہمیشہ تمہاری ہوتی ہے۔‘‘’’وہ بات کر معزز پادری جو تو کرنے آیا ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔ ’’ہاں!‘‘پادری نے جیسے بیدار ہوکر کہا۔’’اے عرب سے فتح کی امید لے کر آنے والے!کیا تو نہیں جانتا کہ جس زمین پر تو فوج لے کر آیا ہے،اس پر کسی بادشاہ کو کبھی پاؤں رکھنے کی جرات نہیں ہوئی تھی؟ تو اپنے آپ کوکیا سمجھ کر یہاں آگیا ہے، فارسی آئے تھے لیکن ان پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ بھاگ گئے کئی دوسرے بھی آئے تھے وہ بڑی بہادری سے لڑے تھے لیکن ناکامی اور مایوسی کے سوا انہیں کچھ حاصل نہ ہوا، اور وہ چلے گئے……تجھے ہمارے خلاف کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن یہ خیال دماغ سے نکال دے کہ ہر میدان میں فتح تو ہی پائے گا۔‘‘مؤرخوں کے مطابق خالدؓ خاموشی سے سن رہے تھے، اور بوڑھا پادری پُر اثر لہجے میں بول رہا تھا۔’’میرا سپہ سالار وردان جومیرا آقا ہے، تجھ پر کرم اور نوازش کرنا چاہتا ہے ۔‘‘پادری کہہ رہا تھا۔’’اس سے بڑی نوازش اور کیا ہوگی کہ اس نے تیری فوج کو کاٹ دینے کے بجائے مجھے یہ پیغام دے کر تیرے پاس بھیجا ہے کہ اپنی فوج کو ہمارے ملک سے واپس لے جا۔میرا آقا تیرے ہر سپاہی کو ایک دینار، ایک قبا، اور ایک عمامہ دیگا اور تجھے ایک سو عمامے، ایک سو قبائیں، اور ایک سو دینارعطا کرے گا۔تیرے لیے یہ فیاضی معمولی نہیں،کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ ہمارا لشکر ریت کے ذروں کی طرح بے حساب ہے؟تو جن فوجوں سے لڑ چکا ہے ہماری فوج ان فوجوں جیسی نہیں۔ تو نہین جانتا کہ اس فوج پر قیصر روم کا ہاتھ ہے۔ اس نے منجھے ہوئے تجربہ کار سالار اور چوٹی کے پادری اس فوج کو دیئے ہیں……بول……تیرا کیا جواب ہے؟ انعام چاہتا ہے یا اپنی اور اپنی فوج کی تباہی؟‘‘’’دو میں سے ایک!‘‘خالدؓنے جواب دیا۔’’میری دو شرطوں میں سے ایک پوری کر دو تو میں اپنی فوج کو لے کر چلاجاؤں گا……اپنے آقا سے کہو کہ اسلام قبول کر لو یا جزیہ ادا کرو،اگر نہیں تو ہماری تلواریں فیصلہ کریں گی۔میں تیرے آقا کے کہنے پر واپس نہیں جاؤں گا……تیرے آقا نے جو دینار قبائیں اور عمامے پیش کیے ہیں وہ تو ہم وصول کر ہی لیں گے۔‘‘’’ایک بار پھر سوچ عربی سالار!‘‘’’عرب کے سالار نے سوچ کر جواب دیا ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’جا اپنے آقا تک میرا جواب پہنچا دے۔‘‘بوڑھے پادری نے رومی سپہ سالار وردان کو خالدؓ کا جواب دیا۔’’عرب کے ڈاکوؤں کی یہ جرات؟‘‘وران نے غصے سے پھٹتے ہوئے کہا۔’’کیا وہ نہیں جانتے کہ میں ان سب کو ایک ہی ہلہ میں ختم کر سکتا ہوں؟‘‘اس نے اپنی سپاہ کی طرف گھوڑا گھما کر حکم دیا۔’’تیر انداز آگے جائیں اور ان بد بختوں کو فنا کرنے کیلئے تیار ہو جائیں، فلاخن بھی آگے لے آؤ۔‘‘تیر انداز آگے آئے تو مسلمانوں کے قلب کے سالار معاذؓ بن جبل نے اپنے دستوں کو حملے کی تیاری کا حکم دیا۔’’ٹھہر جا ابنِ جبل!‘‘خالدؓنے کہا۔’’جب تک میں نہ کہوں حملہ نہ کرنا۔ سورج سر پر آکر آگے جانے لگے گا تو ہم حملہ کریں گے۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘معاذؓ بن جبل نے کہا۔’’کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ ان کی کمانیں ہم سے اچھی اور بڑی ہیں جو بہت دور تک تیر پھینک سکتی ہیں؟وہ ہمارے تیر اندازوں کی زد سے دور ہیں ۔میں ان تیر اندازوں پر حملہ کرکے انہیں بیکار کرناچاہتا ہوں، ان کے فلاخن دیکھو۔ یہ پتھر برسائیں گے۔‘‘’’رومی ترتیب میں کھڑے ہیں ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہم نے حملے میں پہل کی تو ہمیں پسپا ہونا پڑے گا ۔ان کی ترتیب ذرا اکھڑنے دو۔ان کا کوئی نہ کوئی کمزور پہلو ہمارے سامنے آجائے گا۔‘‘رومیوں نے کچھ دیر انتظار کیا،مسلمانوں نے کوئی حرکت نہ کی تو وردان کے حکم پر اس کے تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑیں پھینکنی شروع کر دیں اور فلاخن سے وہ پتھر پھینکنے لگے۔کئی مسلمان شہید اور زخمی ہو گئے۔خالدؓنے یہ نقصان دیکھ کر بھی حملے کاحکم نہ دیا۔رومی تیر اندازوں کو تیروں سے مؤثر جواب نہیں دیا جا سکتا تھا کیونکہ مسلمانوں کی کمانیں نسبتاً چھوٹی ہونے کی وجہ سے دور تک تیر نہیں پھینک سکتی تھیں۔اُدھر سے تیر اور پتھر آتے رہے۔ تب مسلمانوں میں ہیجان اور اضطراب نظر آنے لگا،وہ حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں حکم نہیں مل رہا تھا۔سالار ضرار بن الازور دوڑے دوڑے خالدؓکے پاس گئے۔’’ابنِ ولید!‘‘ضرار نے خالدؓ سے کہا۔’’تو کیا سوچ رہاہے؟کیا تو دشمن کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ ہم اس سے ڈر گئے ہیں؟……اگر اﷲہمارے ساتھ ہے تو مت سوچ !حملے کا حکم دے۔‘‘خالدؓکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی، یہ اطمینان اور سکون کی مسکراہٹ تھی۔ ان کے سالار اور سپاہی پسپائی کے بجائے حملے کی اجازت مانگ رہے تھے۔’’ابن الازور!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو آگے جا کر دشمن کو مقابلے کیلئے للکار سکتا ہے۔‘‘ضرار نے زرہ اورخود پہن رکھی تھی۔ان کے ایک ہاتھ میں چمڑے کی ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی۔انہوں نے پچھلے ایک معرکے میں یہ ڈھال ایک رومی سے چھینی تھی،ضرار آگے گئے تو رومی تیر اندازوں نے اپنے سالار کے حکم سے کمانیں نیچے کرلیں۔
یہ اس زمانے کا رواج تھا کہ فوجوں کی لڑائی سے پہلے دونوں فوجوں میں سے کسی ایک کا ایک آدمی اپنے دشمن کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارتا تھا۔اُدھر سے ایک آدمی آگے آتااور دونوں زندگی اور موت کا معرکہ لڑتے تھے۔اس کے بعد جنگ شروع ہوتی تھی۔مقابلے کیلئے للکارنے والا اپنے دشمن کو توہین آمیز باتیں کہتا تھا۔ضرار بن الازور رومیوں کے سامنے گئے اور انہیں للکارا:’’میں سفید چمڑی والوں کیلئے موت کا پیغام لایا ہوں۔’’رومیو!میں تمہارا قاتل ہوں۔‘‘’’میں خدا کا قہر بن کر تم پر گروں گا۔‘‘’’میرا نام ضرار بن الازور ہے۔‘‘رومیوں کی طرف سے ضرار کے مقابلے کیلئے آنا تھا لیکن چار پانچ رومی سوار آگے آگئے۔ضرار نے پہلے اپنی خود اتاری پھر زرہ اتاری پھر قمیض بھی اتاردی، اور کمر تک برہنہ ہو گئے۔تب ان رومیوں نے انہیں پہچانا جو بصرہ میں انہیں اس حالت میں لڑتے دیکھ چکے تھے،اور وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اس شخص میں جنات جیسی پھرتی اور طاقت ہے حقیقت بھی یہی تھی۔ضرار ایک سے زیادہ آدمیوں کا مقابلہ کرنے کی خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ضرار کے مقابلے میں جو رومی آئے تھے ان میں دوسالار بھی تھے۔ایک طبریہ کا اور دوسرا عمان کا حاکم یا امیر تھا۔باقی بھی کوئی عام سپاہی نہیں تھے۔وہ کمانداروں کے رتبے کے تھے۔انہوں نے ضرار کو گھیرے میں لینے کیلئے گھوڑوں کے رخ موڑے۔ضرار نے اچانک گھوڑے کو ایڑ لگائی اور جب وہ عمان کے حاکم کے قریب سے گزر گئے تو یہ سالار اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر ہی دوہرا ہو گیا پھر گھوڑے سے لڑھک کر نیچے جا پڑا۔ضرار کی تلوار اس کے پہلو سے اس کے جسم میں گہری اتر گئی تھی۔حیران کن پھرتی سے ضرار کا گھوڑا مڑااور ایک اور رومی ان کی تلوار سے کٹ کر گرا۔ضرار ایسی چال چلتے اور ایسا پینترا بدلتے تھے کہ رومی سواروں کے دو تین گھوڑے آپس میں ٹکراجاتے یا ایک دوسرے کے آگے آجاتے تھے۔اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ضرار ان میں سے ایک کو تلوار سے کاٹ جاتے تھے۔کوئی رومی سوار گرتا تھا تو مسلمان بڑے جوش سے نعرے لگاتے تھے۔ضرار کا یہ عالم تھا جیسے ان میں مافوق الفطرت طاقت آگئی ہو۔اپنے مقابلے میں آنے والے رومیوں میں سے زیادہ تر کو انہوں نے گرا دیا۔ان میں سے ایک دو ایسے بھی تھے جنہیں مہلک زخم نہیں آئے تھے لیکن وہ دوڑتے گھوڑوں کے قدموں تلے کچلے گئے۔دو رومی سوار بھاگ کر اپنے لشکر میں چلے گئے- ضرارفاتحانہ انداز سے خون ٹپکاتی تلوار کو لہراتے اور رومیوں کو للکار رہے تھے:’’میں سفید چمڑی والوں کا قاتل ہوں……رومیو!میری تلوار تمہارے خون کی پیاسی ہے۔‘‘مؤرخوں (واقدی، ابنِ ہشام اور طبری)نے لکھاہے کہ دس رومی سوار گھوڑے دوڑاتے آگے آئے۔یہ سب سالاری سے ذرا نیچے کے عہدوں کے رومی تھے۔خالدؓ نے جب دس سواروں کو آگے آتے دیکھاتو اپنے محافظ دستے میں سے انہوں نے دس سوار منتخب کیے اور انہیں آگے لے گئے۔رومی سوار ضرار کی طرف آرہے تھے۔خالدؓ نے نعرہ لگایا۔’’خدا کی قسم!ضرار کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘اس کے ساتھ انہوں نے اپنے دس سواروں کو اشارہ کر کے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔دس سوار ان کے ساتھ گئے۔رومی سواروں کی نظریں ضرار پر لگی ہوئی تھیں۔خالدؓ اور ان کے سوار رومی سواروں پر جا جھپٹے۔ضرار کی تلوار بھی حرکت میں آگئی۔رومیوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ اور ان کے سواروں کی تیزی اور تندی نے رومیوں کی ایک نہ چلنے دی اور سب کٹ گئے۔رومی سالاروں نے اسے اپنی بے عزتی سمجھااور مزید آدمیوں کو انفرادی مقابلوں کیلئے آگے بھیجنے لگے۔ضرار نے ان میں سے دو تین کو ہلاک کر دیا۔ مقابلے کیلئے آگے آنے والے ہر رومی کے ساتھ ضرار ہی مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن خالدؓ نے انہیں پیچھے بلالیا، اور دوسرے مجاہدین (تاریخوں میں ان کے نام نہیں)کو باری باری آگے بھیجا۔ہر مقابلے میں مجاہدین فاتح رہے۔ دونوں فوجوں کے درمیان بہت سے رومیوں کی لاشیں پڑی تھیں۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
مؤرخوں کے مطابق یہ مقابلے کم و بیش دو گھنٹے جاری رہے اور سورج اس مقام پر آگیاجس مقام پر خالدؓ چاہتے تھے کہ آجائے تو حملہ کریں گے۔مقابلوں کے دوران تیر انداز اور فلاخن سے پتھر پھینکنے والے خاموش کھڑے تھے۔مقابلہ ابھی جاری تھا، خالدؓ نے حملے کا حکم دے دیا۔یہ عام قسم کا حملہ تھا جسے ہلہ یا چارج کہا جاتا ہے۔اس سے پہلے رومی تیر اندازاور فلاخن بہت بڑی رکاوٹ تھے۔انہیں خاموش دیکھ کر خالدؓ نے حملہ کیا تھا۔حملہ اتنا زور دار تھا اور مجاہدین میں اتنا قہر بھرا ہواتھاکہ رومی سالارِ اعلیٰ وردان کو کوئی چال چلنے کی مہلت ہی نہ ملی۔وہ اپنے لشکر کے آگے کھڑا مقابلے دیکھ رہا تھا، اس نے پیچھے کو بھاگ کر اپنی جان بچائی۔توقع یہ تھی کہ وردان اپنی تعداد کی افراط کے بل بوتے پر اپنے پہلوؤں کو آگے بڑھا کر خالدؓ کے پہلوؤں سے آگے نکلنے اور عقب میں آنے کی کوشش کرے گا لیکن اسے اتنا ہوش ہی نہیں تھا،اس نے اپنے لشکر کو پھیلانے کے بجائے اس کی گہرائی زیادہ کر دی تھی یعنی دستوں کے پیچھے دستے رکھے تھے۔اس کی یہ ترتیب بڑی اچھی تھی،لیکن خالدؓکی چال نے اس کی ترتیب کو اس کیلئے ایک مسئلہ بنا دیا۔مسلمان دستوں نے سامنے سے حملہ کیا تو رومیوں کے اگلے دستے پیچھے ہٹنے لگے۔پچھلے دستوں کو اور پیچھے ہونا پڑا۔پھر ان کی ترتیب گڈ مڈ ہوگئی۔مسلمانوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچا، یہ بڑا ہی شدید معرکہ تھا اور بڑا ہی خونریز۔سورج مغرب کی سمت ڈھل گیا تھا۔خالدؓنے محسوس کیا کہ مجاہدین تھک گئے ہوں گے،انہوں نے مجاہدین کو معرکے سے نکلنے کا حکم دیا۔ ایسے لگا کہ رومی سالار بھی یہی چاہتے تھے۔انہوں نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹانا بہتر سمجھا۔جب دونوں فوجیں پیچھے ہٹیں تو پتہ چلا کہ رومی ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے ہیں، اور زخمیوں کی تعداد بھی بے شمار ہے۔اس کے مقابلے میں مسلمانوں کا نقصان بہت ہی تھوڑا تھا۔سورج غروب ہونے کو تھا اس لیے دونوں میں سے کوئی بھی فوج حملہ نہیں کر سکتی تھی ۔اس طرح پہلے روز کی جنگ ختم ہو گئی۔رات کو دونوں فوجوں کے سالاروں نے اپنے اپنے نائب سالاروں وغیرہ کو بلایا، اور اپنے اپنے نقصان کا جائزہ لینے لگے اور اگلی کاروائی کے متعلق سوچنے لگے۔رومیوں کے سالارِ اعلیٰ وردان کی کانفرنس میں گرما گرمی زیادہ تھی۔وردان نے صاف کہہ دیا کہ جنگ کی یہی صورتِ حال رہی جو آج ہو گئی تھی تو نتیجہ ظاہر ہے کیا ہو گا اور اس نتیجے کا نتیجہ کیا ہوگا۔’’کیا میں نے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا؟وردان کے سالار قُبقُلار نے کہا۔’’میں اب بھی کہتا ہوں کہ اور زیادہ سوچو اور وجہ معلوم کرو کہ ہر میدان میں فتح مسلمانوں کی ہی کیوں ہوتی ہے اور وہی خوبی ہماری فوج میں کیوں پیدا نہیں ہوتی،آج کی لڑائی دیکھ کر مجھے اپنی فتح مشکوک نظر آنے لگی ہے۔ ’’کیا تو یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہم میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں؟‘‘وردان نے کہا۔’’میں تم سب کو کہتا ہوں کہ اپنی اپنی رائے اور مشورہ دو کہ ہم مسلمانوں کو کس طرح شکست دے سکتے ہیں۔‘‘قُبقُلار کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ آگئی۔اس نے کچھ بھی نہ کہااور دوسرے سالار اپنی آراء اور مشورے دینے لگے۔ان سالاروں کے مشورے مختلف تھے لیکن ایک بات مشترک تھی ۔سب کہتے تھے کہ مسلمانوں کو شکست دینی ہے اور ایسی شکست کہ ان میں سے زندہ وہی رہے جو جنگی قیدی ہو۔’’اگر خالد ان کا سالار نہ ہو تو انہیں شکست دینا آسان ہو جائے۔‘‘ایک سالا رنے کہا۔’’وہ جدھر جاتا ہے اس کی شہرت اور دہشت اس کے آگے آگے جاتی ہے۔ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کے اس سالار میں اتنی زیادہ جنگی مہارت ہے جو بہت کم سالاروں میں ہوتی ہے ……میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں۔‘‘سب متوجہ ہوئے۔’’مسلمانوںکو خالد سے محروم کر دیا جائے۔‘‘اس نے کہا۔’’اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے……قتل!‘‘’’کل کی لڑائی میں اسے قتل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘وردان نے کہا۔’’یہ مشورہ کوئی مشورہ نہیں۔‘‘’’لڑائی میں ابھی تک اسے کوئی قتل نہیں کر سکا۔‘‘مشورہ دینے والے سالار نے کہا۔’’میری تجویز یہ ہے کہ ہماری طرف سے ایک ایلچی خالد کے پاس جائے اور کہے کہ ہم مزید خون خرابہ روکنا چاہتے ہیں۔ہمارے پاس آؤ، اور ہمارے ساتھ بات چیت طے کرلو۔وہ جب ہمارے سالارِ اعلیٰ وردان سے ملنے آرہا ہوتو کم از کم دس آدمی راستے میں گھات میں بیٹھے ہوئے ہوں۔وہ خالد کو اس طرح قتل کریں کہ اس کے جسم کی بوٹی بوٹی کردیں۔‘‘’’بہت اچھی تجویز ہے۔‘‘وردان نے کہا۔میں ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں……داؤد کو بلاؤ۔‘‘تھوڑی ہی دیر بعد ایک عیسائی جس کا نام تاریخوں میں داؤد لکھا ہے وردان کے سامنے کھڑا تھا۔’’داؤد!‘‘رودان نے اس عیسائی عرب سے کہا۔’’ابھی مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں جاؤاور ان کے سپہ سالار خالدبن ولید کو ڈھونڈ کر اسے بتانا کہ میں رومیوں کے سالار کا ایلچی ہوں۔اسے میری طرف سے یہ پیغام دینا کہ ہم اس کے ساتھ صلح کی بات کرنا چاہتے ہیں۔وہ ہمارے پاس کل صبح آئے اور ہمارے ساتھ بات کرے کہ کن شرائط پر صلح ہو سکتی ہے۔اسے یہ بھی کہنا کہ اس بات چیت میں صرف وہ اور میں اکیلے ہوں گے۔ہم دونوں کے ساتھ ایک بھی محافظ نہیں ہوگا۔‘‘داؤد معمولی آدمی نہیں تھا، نہ وہ فوجی تھا۔وہ قیصرِ روم کا ایک طرح کا نمائندہ تھا، اور اس کا رُتبہ وردان سے ذرا ہی کم تھا۔
’’وردان!‘‘داؤد نے کہا۔’’میرا خیال ہے کہ تم قیصرِ روم کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔ کیا شہنشاہِ ہرقل نے یہ حکم نہیں بھیجاتھا کہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کردو؟میں سمجھ نہیں سکتا کہ تم صلح اور شرائط کی بات کس کے حکم سے کر رہے ہو……میں صلح کا پیغام لے کر نہیں جاؤں گا۔’’پھر تمہیں اپنے راز میں شریک کرنا پڑے گا۔‘‘وردان نے کہا۔’’میں مسلمانوں کو تباہ برباد کرنے کا ہی منصوبہ بنارہاہوں۔میں خالد بن ولید کو صلح کا دھوکا دے رہا ہوں،وہ اگر آگیا تو مجھ تک اس کی لاش پہنچے گی۔میں نے راستے میں اس کے قتل کا انتطام کر رکھاہے۔‘‘’’اگر یہ کام کرنا ہے تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘داؤد نے کہا۔’’میں ابھی جاتا ہوں۔‘‘داؤد مسلمانوں کے کیمپ میں چلاگیا۔ہر طرف چھوٹی بڑی مشعلیں جل رہی تھیں۔داؤد نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ رومیوں کا ایلچی ہے، اور ان کے سپہ سالار کیلئے پیغام لایا ہے۔اسے اسی وقت خالدؓکے خیمے تک پہنچا دیا گیا۔داؤد آداب بجالایا اور اپنا تعارف کراکے وردان کا پیغام دیا۔خیمے میں مشعلوں کی روشنی تھی۔خالدؓ نے داؤد سے اتنا بھی نہ کہا کہ وہ بیٹھ جائے۔وہ خالدؓ کے سامنے کھڑا رہا۔خالدؓآہستہ آہستہ اٹھے، اور اس کے تھوڑا اور قریب چلے گئے۔ان کی نظریں داؤد کی آنکھوں میں گڑ گئی تھیں۔انہوں نے داؤد سے کچھ بھی نہ کہااور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے، خالدؓدراز قد اور قوی ہیکل تھے۔ان کی شخصیت کا پر تو ان کی آنکھوں کی چمک میں تھا۔اس دور کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ خالدؓ کی آنکھوں کا سامنا کوئی مضبوط دل گردے والا ہی کرسکتا تھا۔یہ ایمان کا جلال تھا اور آنکھوں کی اس چمک میں عشقِ رسولﷺرچا بسا تھا۔اس کے علاوہ خالدؓ شام کے علاقے میں خوف و ہراس کا ایک نام بن گیا تھا۔خالدؓ داؤد کو دیکھے جا رہے تھے۔ داؤد کا ضمیر مجرمانہ تھا، وہ خالدؓکی نظروں کی تاب نہ لا سکا، مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓکے چہرے پر ایک یا دو زخموں کے نشان تھے جن سے ان کا چہرہ بگڑا تو نہیں تھا لیکن زخموں کے نشانات کا اپنا ایک تاثر تھا جو داؤد کیلئے غالباً دہشت ناک بن گیا تھا۔’’اے عربی سالار!‘‘داؤد بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔’’میں فوجی نہیں ہوں، میں ایلچی ہوں۔‘‘’’سچ بول داؤد!‘‘خالدؓنے اس کے ذرا اور قریب آکر کہا۔’’تو ایک جھوٹ بول چکا ہے ، اب سچ بول اور اپنی جان سلامت لے جا۔‘‘داؤد خالدؓ کے سامنے کھڑا چھوٹا سا آدمی لگتا تھا۔ حالانکہ قد اس کا بھی کچھ کم نہیں تھا۔’’اے عربی سالار!‘‘داؤد نے اپنے جھوٹ کو دہرایا۔’’میں صلح کا پیغام لے کر آیا ہوں، اور اس میں کوئی دھوکا نہیں۔‘‘’’اگر تو دھوکا دینے آیا ہے تو میری بات سن لے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’جتنی مکاری اور عیاری ہم لوگوں میں ہے اتنی تم میں نہیں۔مکروفریب میں ہمیں کوئی مات نہیں دے سکتا۔اگر تمہارے سپہ سالار وردان نے کوئی فریب کاری سوچی ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ رومیوں کی تباہی کا عمل اس سے تیز ہوجائے گا جتنا میں نے سوچا تھا……اور اگر اس نے سچی نیت سے صلح کا پیغام بھیجا ہے تو جاؤ اسے کہو کہ جزیہ ادا کردے پھر ہم صلح کر لیں گے۔
داؤد میں اتنی سی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ کوئی اور بات کرتا۔وہ آداب بجا لاکر چل پڑا۔خیمے کے دروازے میں جاکر پیچھے دیکھا، خالدؓکی نظریں ابھی تک اسے گھور رہی تھیں۔داؤد نے منہ پھیر لیا لیکن چلا نہیں ، وہیں کھڑا رہا۔وہ محسوس کر رہا تھا کہ خالدؓ کی نظریں اس کی کھوپڑی میں سے گزر کر اس کی آنکھوں میں داخل ہو رہی ہیں۔وہ خالدؓکی طرف گھوما، اور اچانک اس طرح تیز قدم اٹھائے جیسے خالدؓ پر جھپٹنے لگا ہو۔’’ابنِ ولید!‘‘داؤد نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔’’میں تجھے دھوکا دینے آیا تھا۔‘‘اس نے وردان کی سازش پوری کی پوری بیان کر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ کل صبح وردان کے دس آدمی کس جگہ گھات میں ہوں گے۔ ’کیا تو بتا سکتا ہے؟‘‘خالدؓ نے داؤد سے پوچھا۔’’کہ تو جاتے جاتے رک کیوں گیا اور تو نے یہ سچ کیوں بولا؟‘‘’’سچ کا صلہ لینے کیلئے۔‘‘داؤد نے کہا۔’’مجھے نقد انعام کی ضرورت نہیں۔جس فوج کے سالار کی نظریں انسانوں کے جسموں میں برچھی کی طرح اتر جانے والی ہوں اس فوج کو کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی……اے عربی سالار!میرا تجربہ اور میری عقل بتاتی ہے کہ فتح تیری ہوگی۔میں صرف اتنا صلہ مانگتا ہوں کہ جب تو ہماری بستیوں پر قبضہ کرلے تو میرے خاندان پر رحم کرنا، اور ان کی عزت کا ان کی جان و مال کا خیال رکھنا۔‘‘ اس نے بتایا کہ اس کا خاندان کون سی بستی میں رہتا ہے۔خالدؓ نے داؤد کو رخصت کر دیا۔داؤد نے واپس جاکر وردان کو بتایا کہ وہ خالدؓکو پیغام دے کر آگیا ہے اور خالدؓمقررہ وقت پر اکیلے آئیں گے۔داؤد نے خالدؓ کی شخصیت سے ایسا تاثر لیا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا تھا کہ رومی ہاریں گے اور فتح مسلمانوں کی ہوگی۔اس نے اپنی فوج کے سالارِ اعلیٰ سے جھوٹ بولاکہ خالدؓمقررہ وقت پر آجائیں گے۔صبح طلوع ہوئی۔ابو عبیدہؓ خالدؓکے پاس آئے۔خالدؓ نے انہیں رومی سالار وردان کی سازش بتائی۔ ’’وہ دس رومی مجھے قتل کرنے کیلئے گھات میں پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’میں چاہتا ہوں کہ اکیلا جاکر ان دس آدمیوں کو ختم کردوں۔بڑا اچھا شکار ہے۔‘‘’’نہیں ابنِ ولید!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’یہ تیرا کام نہیں۔دس آدمیوں کے مقابلے میں تو قتل یا زخمی ہو سکتا ہے۔تو بڑا قیمتی آدمی ہے۔ یوں کر، دس آدمی ایسے چن لے جو بہت ہی بہادر ہوں۔انہیں وہ جگہ بتا کر بھیج دے۔‘‘خالدؓنے دس مجاہدین منتخب کیے اور انہیں بتایا کہ کہاں کہاں جانا اور کیا کرنا ہے۔ان میں ضرار بن الازور بھی تھے۔انہیں ان دس آدمیوں کا کماندار مقررکیا گیا۔ مشہور مؤرخ واقدی نے یہ واقعہ ذرا مختلف بیان کیا ہے۔وہ لکھتا ہے کہ طے یہ پایا تھا کہ خالدؓ اور وردان کی ملاقات ہوگی۔وردان خالدؓکو دبوچ لے گا۔اور اس کی پکار پر اس کے دس رومی گھات سے نکل کر خالدؓ کو قتل کر دیں گے۔تین اور مؤرخوں نے بھی یہ واقعہ اسی طرح بیان کیا ہے۔ وردان نے اپنے دس آدمی رات کے آخری پہر کی تاریکی میں گھات لگانے کیلئے بھیج دیئے تھے،خالدؓ نے اپنے دس آدمی اسی وقت کے لگ بھگ بھیج دیئے۔اس کے ساتھ ہی خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا کہ وہ گذشتہ روز کی ترتیب سے میدانِ جنگ میں کھڑے ہو جائیں اور حملے کیلئے تیار رہیں۔وردان نے مسلمانوں کو جنگی ترتیب میں آتے دیکھ کر جنگی ترتیب میں ہوجانے کا حکم دیااور صبح طلوع ہوتے ہی وہ شاہانہ جنگی لباس میں اس جگہ چلا گیا جہاں اس نے خالدؓ کو ملاقات کیلئے بلایا تھا۔اُدھر سے خالدؓ بھی آگئے اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔’’او عرب کے بدو!‘‘وردان نے خالدؓ سے کہا۔’’تو اور تیرے لوگ عرب میں بھوکے مرتے ہیں اور تُو قیصرِ روم کی شاہی فوج کے مقابلے میں آگیا ہے؟……او لٹیرے!کیا میں نہیں جانتا کہ تم لوگ وہاں مفلسی کی بد ترین زندگی گزارتے ہو؟‘‘’’او رومی کتے!‘‘خالدؓ نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’میں تجھے آخری بار کہتا ہوں اسلام قبول کر لے یا جزیہ ادا کر۔‘‘وردان نے جھپٹ کر خالدؓکو اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا۔’’آؤ، آؤ!‘‘وردان نے اپنے دس آدمیوں کو پکارا جو قریب کہیں چھپے ہوئے تھے۔
خالدؓ کم طاقتور تو تھے نہیں لیکن وردان بھی طاقت میں کچھ کم نہ تھا۔خالدؓنے بہت زور لگایا کہ وردان سے ذرا سا آزاد ہو جائیں، تاکہ تلوار نیام سے نکال سکیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔انہوں نے دیکھا کہ دس رومی اپنی فوجی وردی میں ان کی طرف دوڑے آرہے ہیں ۔خالدؓ کو اپناآخری وقت نظر آنے لگا۔انہیں توقع تھی کہ ضرار اور ان کے نو مجاہدین نے گھات والے دس رومیوں کو ختم کر دیا ہوگا مگر وہ دس کے دس زندہ چلے آرہے تھے۔خالدکو خیال آیا کہ ضرار اور ان کے مجاہدین رومیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں یا بروقت پہنچ نہیں سکے۔رومی جب قریب آئے تو ایک نے خود، زرہ اور قمیض اتار کر پھینک دی، اور اﷲاکبر کا نعرہ لگایا۔تب خالدؓنے دیکھا کہ یہ تو ضرار ہے۔انہوں نے باقی نو کو قریب سے دیکھا تو وہ ان کے اپنے ہی منتخب کیے ہوئے مجاہدین تھے۔یہ مذاق ضرار بن الازور نے کیا تھا۔انہوں نے گھات میں بیٹھے ہوئے رومیوں کو بڑے اطمینان سے قتل کر دیا تھا پھر ان کی وردیاں اتار کر پہن لیں۔انہیں معلوم تھا کہ وردان پکارے گا۔وہ وردان کی پکار پر نکل آئے۔وردان خوش ہو گیا کہ اس کی سازش کامیاب ہو گئی ہے۔’’پیچھے ہٹ ابنِ ولید!‘‘ضرار نے تلوار نکال کر کہا۔’’یہ میرا شکار ہے۔‘‘اور وہ وردان کی طرف بڑھنے لگے۔’’قسم ہے تجھے اس کی جوکوئی بھی تیرا معبود ہے۔‘‘وردان نے خالدؓسے کہا۔’’مجھے اپنی تلوار سے ختم کر اور اس شیطان کو مجھ سے دور رکھ۔ ضرار نے اپنی ایک دہشت ناک مثال قائم کر رکھی تھی ، وردان نے ضرار کو ذاتی مقابلوں میں رومیوں کو کاٹتے بھی دیکھا تھا۔اسے ڈر تھا کہ ضرار اسے اذیت دے دے کر ماریں گے،اس کیلئے اب بھاگ نکلنا نا ممکن تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اسے جلدی مار دیاجائے۔خالدؓ نے ضرا ر کو اشارہ کیا اور ہاتھ ان کی طرف بڑھایا۔ضرار نے اپنی تلوار خالدؓ کو دے دی۔وردان نے دوسری طرف منہ کر لیا، خالدؓکے ایک ہی وار سے وردان کا سر زمین پر جا پڑا۔خالدؓ وہاں رُکے نہیں۔فوراًاپنی فوج تک پہنچے اور حملے کا حکم دے دیا۔یہ حملہ بھی گذشتہ روز کی مانند تھا۔خالدؓنے قلب اور دونوں پہلوؤں کے دستوں کو ایک ہی بار ہلہ بولنے کا حکم دیا۔انہوں نے چار ہزار مجاہدین کا محفوظہ جس کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے، پیچھے رکھا۔مسلمان حملہ کرتے اور پیچھے ہٹ آتے تھے اور پھر حملہ کرتے تھے ۔رومی تعداد میں بہت زیادہ تھے لیکن ان کا سالارِ اعلیٰ ان میں نہیں تھا۔اس کی جگہ ان کا سالار قُبقُلار کما ن کر رہا تھا۔رومی جم کر مقابلہ کر رہے تھے لیکن مسلمانوں کے حملے غضب ناک تھے۔ان کے سالار سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے۔خود خالدؓ سالارسے سپاہی بن گئے تھے۔رومی سالار لڑا نہیں کرتے بلکہ حکم دیا کرتے تھے۔لیکن اس معرکے میں وہ مسلمان سالاروں کی دیکھا دیکھی سپاہیوں کی طرح لڑنے لگے۔جنگ کی شدت اور خونریزی بڑھتی چلی گئی ۔دونوں طرف کوئی چال نہیں چلی جا رہی تھی۔زیادہ نقصان رومیوں کا ہو رہا تھا، ان کا لشکر تہہ در تہہ تھا۔خالدؓنے یہ سوچ کر اتنا شدید حملہ کرایا تھا کہ دشمن کا سالارِ اعلیٰ مارا جا چکا ہے اور مجاہدین یہ دیکھ کر تابڑ توڑ حملے کرتے تھے کہ رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ ایک دوسرے میں پھنس کہ رہ گئے ہیں۔ خالدؓحملے کا اک اور مرحلہ شروع کرنا چاہتے تھے جس کیلئے وہ موزوں موقع دیکھ رہے تھے۔چند گھنٹوں بعد انہیں یہ موقع ملا۔دونوں فوجیں تھک گئی تھیں۔رومیوں کو پتا چل گیا تھا کہ ان کا سالارِ اعلیٰ ان میں نہیں۔البتہ دوسرے رومی سالار پورے جوش و خروش سے لڑ بھی رہے تھے اور لڑا بھی رہے تھے۔خالدؓنے چار ہزار نفری کے محفوظہ کو جس کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے، دشمن کے قلب پر حملے کا حکم دیا۔یہ چار ہزار مجاہدین تازہ دم تھے اور لڑائی میں شریک ہونے کیلئے اتنے بیتاب کہ نعرے لگاتے اور بے قابو ہوئے جاتے تھے۔حکم ملتے ہی وہ رُکے ہوئے سیلاب کی طرح گئے اور اتنا شدید حملہ کیا کہ رومیوں کی صفوں کے اندر تک چلے گئے۔مجاہدین کے سالار رومیوں کے سالار قُبقُلار کو ڈھونڈ رہے تھے۔مرکزی جھنڈا اسی کے پاس تھااور وہ وردان کا قائم مقام تھا۔پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس نے وردان سے کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتہ کر لیا جائے۔اس کی دور بین نگاہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمان رومیوں پر غالب آجائیں گے۔وردان نے اسے ڈانٹ دیا تھا۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟