🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 39*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *39* ۔۔۔۔

سفر کے آخری دن کا سورج طلوع ہوکر مجاہدین کو موت کاپیغام دینے لگا۔ کئی مجاہدین اونٹوں پر بے ہوش ہو گئے۔ وہ خوش قسمت تھے جو لڑھک کر گرے نہیں، یہ لشکر اب ایک لشکر کی طرح نہیں جارہا تھا ۔اونٹ بکھر گئے تھے بعض بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ کئی دائیں اور بائیں پھیل گئے تھے ۔رفتار خطرناک حد تک سست ہو گئی تھی۔ یہ پانی کے بغیر دوسرا دن تھا،اور یہ ایک معجزہ تھا کہ وہ اب بھی زندہ تھے۔کون سی طاقت تھی جو انہیں زندہ رکھے ہوئے تھی؟ وہ اﷲکا وہ پیغام تھا جو رسولِ کریمﷺلائے تھے اور یہ مجاہدین انسانیت کی نجات کے لیے اﷲکا یہ پیغام زمین کے گوشے گوشے تک پہنچانے کیلئے صحرا کی آگ میں سے گزر رہے تھے۔اﷲنے انہیں بڑی ہی اذیت ناک آزمائش میں ڈال دیا تھا اور اسی کی ذات انہیں زندہ رکھے ہوئے تھی۔غروبِ آفتاب سے بہت پہلے خالدؓ اپنے اونٹ کو رافع بن عمیرہ کے اونٹ کے قریب لے گئے۔’’ابنِ عمیرہ !‘‘خالدؓ نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ زبان سے نکالے۔’’ کیا اب ہمیں اس چشمے پر نہیں ہونا چاہیے تھا۔جس کا تو نے ذکر کیا تھا ۔سویٰ ایک ہی منزل دور رہ گیا ہو گا۔‘‘’’اﷲتجھے سلامت رکھے ولید کے بیٹے!‘‘ رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’میں آشوبِ چشم کا مریض تھا۔ اس صحرا نے میری آنکھوں کا نور ختم کر دیا ہے۔ میں اب کیسے دیکھوں ؟‘‘’’کیا تو اندھا ہو گیا ہے؟‘‘خالدؓ نے گھبرائی ہوئی آوز میں پوچھا۔’’جو تو دیکھ سکتا تھا وہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا۔کیا ہم بھٹک گئے ہیں؟‘‘مؤرخ واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ رافع بن عمیرہ کی بینائی ختم ہو گئی تھی ۔اس نے ذہن میں کچھ حساب رکھاہوا تھا۔ ان دونوں مؤرخوں نے اس کے صحیح الفاظ اپنی تحریروں میں نقل کیے ہیں۔
’’ابنِ ولید!‘‘ رافع نے کہا۔’’لشکر یہیں روک لے۔اپنے کچھ آدمیوں کو آگے بھیج ،انہیں کہہ کہ وہ عورت کے پستانوں کی شکل کے دو ٹیلوں کو تلاش کریں ۔‘‘خالدؓ نے کچھ آدمیوں کو آگے بھیج دیا یہ آدمی جلد ہی واپس آگئے اور انہوں نے بتایا کہ وہ دو ٹیلے دیکھ آئے ہیں۔رافع نے خالدؓسے کہاکہ اﷲکے کرم سے وہ صحیح راستے پر جا رہے ہیں ۔لشکر کو آگے لے چلو۔’’ابنِ ولید!‘‘ رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’اب اپنے آدمیوں سے کہہ کہ ایک درخت کو ڈھونڈیں جس پر کانٹے ہی کانٹے ہوں گے اور وہ کوئی اونچا درخت نہیں ہو گا۔ وہ دور سے اس طرح نظر آئے گا جیسے کوئی آدمی بیٹھا ہوا ہو۔یہ درخت ان دو ٹیلوں کے درمیان ہو گا۔‘‘ آدمی گھوم پھر کر واپس آگئے اور انہوں نے یہ جانکاہ خبر سنائی کہ انہیں ٹیلوں کے درمیان اور اردگرد بلکہ دور دور تک کوئی ایسادرخت نظر نہیں آیا۔

رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’سمجھ لو کہ ہم سب مر گئے ۔‘‘اس نے کچھ سوچ کر اور قدرے جھنجھلا کر کہا۔’’ایک بار پھر جاؤ ،درخت مل جائے گا،ریت کے اندر ڈھونڈو۔‘‘ آدمی پھر گئے ،برچھیاں اور تلواریں ریت میں مار مار کر مطلوبہ درخت کھوجنے لگے ۔ایک جگہ انہیں ریت کی ڈھیری نظر آئی۔ریت ہٹائی تو وہاں ایک درخت کا ٹنڈ منڈ سا تنا ظاہر ہوا۔یہ خار دار تھا۔’’اکھاڑ دو اس درخت کو ۔‘‘رافع نے کہا۔’’اور اس جگہ سے زمین کھودو۔‘‘زمین اتنی زیادہ نہیں کھودی گئی تھی لیکن پانی امڈ پڑا اور ندی کی طرح بہنے لگا۔اس گڑھے کو کھود کھود کر کھُلا کرتے چلے گئے۔حتٰی کہ یہ ایک وسیع تالاب بن گیا۔لشکر کے مجاہدین اس پانی پر ٹوٹ پڑے ۔واقدی لکھتا ہے کہ یہ پانی اتنا زیادہ تھا کہ اتنے بڑے لشکر نے پیا ،پھر اونٹوں اور گھوڑوں نے پیا، تب بھی یہ امڈتا رہا۔ مجاہدین نے مشکیزے بھر لیے تب انہیں خیال آیا کہ معلوم نہیں ان کے کتنے ساتھی یپچھے رہ گئے ہیں۔اونٹ بھی تروتازہ ہو چکے تھے اور انسان بھی۔اپنے ساتھیوں کا خیال آتے ہی کئی مجاہدین اونٹوں پر سوار ہوئے اور واپس چلے گئے۔ وہ منظر بڑا ہولناک تھا ،جگہ جگہ کوئی نہ کوئی مجاہد اور کوئی اونٹ یا گھوڑا ریت پر بے ہوش پڑا جل رہا تھا۔مجاہدین نے ان کے منہ میں پانی ڈالااور انہیں اپنے ساتھ لے آئے۔ بعض مجاہدین شہید ہو چکے تھے۔ انہیں ان کے ساتھیوں نے وہیں دفن کر دیا۔’’ابنِ عمیرہ !‘‘خالدؓنے رافع بن عمیرہ کو گلے سے لگاکر کہا۔’’ تو نے لشکر کو بچا لیا ہے۔‘‘’’اﷲنے بچایا ہے ابنِ ولید!‘‘رافع نے کہا۔’’میں اس چشمے پر صرف ایک بار آیا تھا اور یہ تیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ میں اس وقت کم سن لڑکا تھااور میرا باپ مجھے اپنے ساتھ لایا تھا۔اس چشمے کو اب ریت نے چھپا لیا تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ یہاں چشمہ موجود ہے۔یہ اﷲکا خاص کرم ہے کہ چشمہ موجود تھا۔‘‘ ان مجاہدین کی مہم اس سفر پر ختم نہیں ہو گئی تھی۔ یہ تو آزمائش کی ایک کڑی تھی جس میں سے وہ گزر آئے تھے ۔ان کا اصل امتحان ابھی باقی تھا۔شام کی سرحد تک پہنچنے کیلئے ابھی دو منزلیں باقی تھیں لیکن وہ کٹھن نہیں تھیں۔اصل مشکل یہ تھی کہ رومی ان کے مقابلے کیلئے اور انہیں شام کی سرحدوں سے دور ہی ختم کرنے کیلئے اتنی زیادہ فوج اکٹھی کر رہے تھے جس کے مقابلے میں مسلمانوں کی یہ نفری کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی تھی۔

اسلامی فوج کی نفری تو پہلے ہی کم تھی اور خالدؓ نو ہزارنفری کی جو کمک لے کر گئے تھے اس کے ہر فرد کو بالکل خشک اور ناقابلِ برداشت حد سے بھی زیادہ گرم صحرا نے پانچ دنوں میں چوس لیا تھا۔ان کے جسموں میں دم خم ختم ہو چکا تھا۔ان میں کچھ تو شہید ہو گئے تھے اور کچھ ایسے تھے جن پر صحرا نے بہت برا اثر کیا تھا۔وہ آٹھ دس دنوں کیلئے بیکار ہو گئے تھے۔باقی نفری کو بھی دو تین دن آرام کی ضرورت تھی لیکن احوال و کوائف ایسے تھے کہ انہیں آرام کی مہلت نہیں مل سکتی تھی ۔دشمن بیدار اور تیار تھا اور یہ بڑا ہی طاقتور دشمن تھا۔اس وقت کے ملک شام پر رومی حکمران تھے اور ان کی فوج اس دور کی مشہور طاقتور اور مضبوط فوج تھی۔اس دور میں دو ہی شاہی فوجیں مشہور تھیں ۔ایک فارس کی فوج اور دوسری رومیوں کی۔دور دور تک ان دونوں فوجوں کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔نفری زیادہ ہونے کے علاوہ ان کے ہتھیار برتر تھے۔روم کی فوج کے متعلق تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ جس راستے سے گزرتی تھی اس راستے کی بستیاں خالی ہو جاتی تھیں۔فارس کی جنگی طاقت کو تو مسلمانوں نے بڑی تھوڑی نفری سے ختم کر دیا تھااور عراق کے بے شمار علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔اب مسلمان دوسری بڑی جنگی طاقت کو للکار رہے تھے۔رومی اکیلے نہیں تھے۔ان کا اتحادی غسان کا بڑا ہی طاقتور قبیلہ تھا۔رومی جب ان علاقوں میں آئے تھے تو غسان واحد قبیلہ تھا جس نے رومیوں کا مقابلہ کیا تھا۔یہ مقابلہ چند دنوں یا مہینوں پر ختم نہیں ہو گیا تھا بلکہ غسانی بڑی لمبی مدت تک لڑتے رہے تھے۔رومیوں نے شام کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تو بھی غسانی لڑتے رہے۔ وہ رومی فوج کی سرحدی چوکیوں پر شب خون مارتے رہتے اور کبھی رومیوں کے مقبوضہ علاقے میں دور اندر جا کر بھی حملے کرتے رہتے۔غسانی اور رومیوں کی یہ جنگ نسل بعد نسل چلتی رہی۔ آخر رومیوں کو تسلیم کرنا پڑا کہ غسانی ایک قبیلہ نہیں قوم ہیں اور انہیں تہہ تیغ نہیں کیا جاسکتا۔چنانچہ رومیوں نے غسانیوں کی الگ قومی حیثیت تسلیم کرلی اور انہیں شام کا کچھ علاقہ دے کر انہیں اس طرح کی خود مختاری دے دی کہ ان کا اپنا بادشاہ ہوگا اور وہ کسی حد تک روم کے بادشاہ کے ماتحت ہوگا،یہ بڑا پرانا واقعہ ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ غسانی قبیلہ ایسی صورت اختیار کر گیا کہ اس کے شاہی خاندان کو روم کا شاہی خاندان سمجھا جانے لگا۔آج کے اردن اور جنوبی شام پرغسانیوں کی حکمرانی تھی۔ یہ بھی رومیوں کی طرح ایک بادشاہی تھی، جس کی فوج منظم اور طاقتور تھی اور اسے ہتھیاروں کے معاملے میں بھی برتری حاصل تھی۔اس بادشاہی کا پایہ تخت بصرہ تھا۔مسلمان رومیوں اور غسانیوں کو للکار کر بہت بڑا خطرہ مول لے رہے تھے۔ جنگ کا یہ دستور ہے کہ حملہ آور فوج کی نفری اس ملک کی فوج سے تین گنا نہ ہو تو دگنی ضرور ہونی چاہیے کیونکہ جس فوج پر حملہ کیا جاتا ہے وہ قلعہ بند ہوتی ہے اور وہ تازہ دم بھی ہوتی ہے۔

حملہ آور فوج بڑا لمبا سفر کرکے آتی ہے اس لیے وہ تازہ دم نہیں ہوتی۔جس فوج پر حملہ کیا جاتا ہے وہ اپنے ملک میں ہوتی ہے جہاں اسے رسد اور کمک کی سہولت موجود ہوتی ہے اس کے مقابلے میں حملہ آور فوج اس سہولت سے محروم ہوتی ہے۔وہاں کا بچہ بچہ حملہ آور فوج کا دشمن ہوتا ہے۔ مسلمان جب شام پرحملہ کرنے گئے تو ان کی نفری ۳۷ ہزار تھی۔ اٹھائیس ہزار پہلے وہاں موجود تھی اورکم و بیش نو ہزار خالدؓ لے کر گئے تھے۔یہ نو ہزار مجاہدین فوری طور پر لڑنے کے قابل نہیں تھے، جس ملک پر وہ حملہ کرنے گئے تھے وہاں کم و بیش ڈیڑھ لاکھ نفری کی تازہ دم فوج موجود تھی اور مقابلے کیلئے بالکل تیار۔ پانچ دنوں کے بھیانک سفر کے بعد جب مجاہدین نے چشمے سے پانی پی لیا کھانا بھی کھا لیا تو ان پر غنودگی کا طاری ہونا قدرتی تھا ۔انہیں توقع تھی کہ انہیں کچھ دیر آرام کی مہلت ملے گی۔ آرام ان کا حق بھی تھا لیکن اپنے سالارِ اعلیٰ خالدؓ کو دیکھا۔ خالدؓ اب اونٹ کے بجائے اپنے گھوڑے پر سوار رتھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک لمحے کابھی آرام نہیں ملے گا۔مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے ہلکی سی زرہ پہن رکھی تھی ،انہوں نے یہ زرہ اس چشمے پر آکر پہنی تھی۔ زرہ مسیلمہ کذاب کی تھی۔ خالدؓ نے جب اسے شکست دی تھی تو اس کی زرہ اترواکر اپنے پاس رکھ لی تھی۔یہ ارتداد پر فتح حاصل کرنے کی یادگارتھی ۔اس فتح کی ایک نشانی اور بھی خالدؓکے پاس تھی، یہ تلوار تھی ۔یہ بھی مسیلمہ کذاب کی ہی تھی۔خالدؓ نے وہی تلوار کمر سے باندھ رکھی تھی۔واقدی کے مطابق خالدؓکے سر پر زنجیروں والی خود تھی اور خود پر انہوں نے عمامہ باندھا ہوا تھا۔ عمامہ کا رنگ سرخ تھا۔ خود کے نیچے انہوں نے جوٹوپی پہن رکھی تھی وہ بھی سرخ رنگ کی ہی تھی۔خالدؓ کے ہاتھ میں سیاہ اور سفید رنگ کا پرچم تھا جو صرف اس لئے مقدس نہیں تھا کہ یہ قومی پرچم تھا بلکہ اس لئے کہ یہ پرچم ہر لڑائی میں رسولِ کریمﷺاپنے ساتھ رکھتے تھے اور جب آپ ﷺنے خالدؓ کو سیف اﷲ(اﷲکی تلوار) کا لقب عطا فرمایا تو اس کے ساتھ انہیں یہ پرچم بھی دیا تھا۔ اس پرچم کا نام عقاب تھا۔نو ہزار مجاہدین میں جہاں صحابہ کرامؓ بھی تھے، وہاں خالدؓ کے اپنے فرزند عبدالرحمٰن بھی تھے جن کی عمر اٹھارہ سال تھی اور ان میں امیرالمومنین ابو بکرؓ کے نوجوان فرزند بھی تھے ان کا نام بھی عبدالرحمٰن ہی تھا۔مجاہدین کھاپی کر اِدھر اُدھر بیٹھ گئے، انہوں نے اپنے سالارِ اعلیٰ کو گھوڑے پر سوار اپنے درمیان گھومتے پھرتے دیکھا تو سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ خالدؓنے زبان سے کچھ بھی نہ کہا۔وہ ہر ایک کی طرف دیکھتے اور مسکراتے تھے۔ ان کی خود اور زرہ دیکھ کر اور ان کے ہاتھ میں رسولﷺکا پرچم دیکھ کر مجاہدین سمجھ گئے کہ ان کے سالارِ اعلیٰ چلنے کو تیار ہیں۔تمام مجاہدین کسی حکم کے بغیر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے اونٹوں کے بجائے گھوڑوں پر سوار ہو گئے۔وہ جان گئے کہ اﷲکی شمشیر تھوڑی دیر کیلئے بھی نیام میں نہیں جائے گی۔

خالدؓکی جانفزا مسکراہٹ نے پورے لشکر کی تھکن دور کر دی۔ لشکر چلنے کیلئے تیار ہو گیا۔ ’’ولید کے بیٹے یہ دیکھ!‘‘ایک آدمی پر جوش لہجے میں کہتا اور دوڑتا آرہا تھا۔’’یہ دیکھ ولید کے بیٹے!اﷲنے میری بینائی مجھے لوٹا دی ہے۔ میں دیکھ سکتا ہوں، میں تجھے دیکھ رہا ہوں۔ ’’بے شک !اﷲایمان والوں پر کرم کرتا ہے۔‘‘ کسی نے بلندآواز سے کہا۔’’اﷲرحیم و کریم ہے۔‘‘کسی اور نے نعرہ لگایا۔یہ تھا رافع بن عمیرہ جس نے اس لشکرکی رہنمائی اس خطرناک صحرا میں کی تھی ،وہ آشوبِ چشم کا مریض تھا ۔ریت کی چمک اور تپش سے اس کی بینائی ختم ہو گئی تھی لیکن جسم میں چشمے کا پانی گیا اور آنکھوں میں پانی کے چھینٹے پڑے تو رافع کی بینائی واپس آگئی ۔خالدؓ کو اس کی بہت زیادہ خوشی ہوئی جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے لشکر کا رہنما اور میدانِ جنگ کا شہسوار ہمیشہ کیلئے اندھا نہیں ہو گیاتھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ رافع بن عمیرہ خالدؓ کا داماد تھا۔مجاہدین بغیر آرام کیے اپنی اگلی منزل کو جا رہے تھے۔ اب ان کا سفر سہل تھالیکن اس دشمن پر فتح سہل نظر نہیں آتی تھی جن سے لڑنے وہ جا رہے تھے۔وہ دشمن بہت طاقتور تھا اس کے وہاں قلعے تھے وہ اس کی زمین اور اس کا ملک تھا۔ مسلمان کھلے میدان میں تھے اور اپنے مستقر سے سینکڑوں میل دور تھے۔ انہیں اپنے لیے اور اپنے جانوروں کیلئے خوراک کا خود ہی انتظام کرنا تھا اور ان کیلئے یہ بہت بڑا مسئلہ تھا۔خالدؓ جب اپنے لشکر کے ساتھ شام کی سرحد کی طرف بڑھ رہے تھے اس وقت غسانی بادشاہ جبلہ بن الایہم اپنے امراء اور سالاروں کو حکم دے چکا تھا کہ مسلمانوں کی فوج سرحدوں پر آگئی ہے اور اسے سرحدوں پر ہی ختم کردینا ہے اس وقت خالد بن سعید کو رومی فوج شکست دے چکی تھی اور مدینہ کا اٹھائیس ہزار مجاہدین کا لشکر چار حصوں میں شام کی سرحد پرپہنچ چکا تھا ۔’’ہم نے رومیوں کو شکستیں دی ہیں۔‘‘ غسانی بادشاہ جبلہ نے اپنے امراء اور سالاروں سے کہا تھا ۔’’رومیوں سے بڑھ کر جابر اور جنگجو اور کون ہو سکتا ہے؟ہم نے اس زبردست فوج کو گھٹنوں بٹھا کر اس سے یہ علاقہ لے لیا تھا جس پر آج ہماری حکمرانی ہے۔ تمہارے سامنے مسلمانوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔یہ مت سوچو کہ مسلمانوں نے فارسیوں کو شکست دی ہے اور انہیں اٹھنے کے قابل نہیں چھوڑا،فارسی بزدل تھے اپنے آباو اجداد کی شجاعت کو یاد کرو ۔اگر تم نے اپنے اوپر مسلمانوں کا خوف طاری کر لیا تو رومی ہی جو آج ہمارے بھائی بنے ہوئے ہیں تم پر چڑھ دوڑیں گے۔ پھر تم دو دشمنوں کے درمیان پس جاؤ گے۔ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے، وہ زیادہ دن تمہارے سامے نہیں ٹھہر سکیں گے۔‘‘

’’شہنشاہ غسان!‘‘ ایک معمر سالار نے کہا۔’’ ان کی تعداد تھوڑی ہے تو کیا وجہ ہے کہ فارس کے تمام نامور سالار ان کے ہاتھوں مارے گئے ہیں؟یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ فارسی بزدل تھے ، کیا ہم اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے رہے؟کیا مسلمانوں نے فراض کے میدان میں رومیوں اور فارسیوں کی متحدہ فوج کو شرمناک شکست نہیں دی؟ ’’ضرور دی ہے۔‘‘جبلہ بن الایہم نے کہا ۔’’میں تمہاری بات کر رہا ہوں، اگر تم نے مسلمانوں کو اپنی تلواروں کے نیچے رکھ لیا تو رومیوں اور فارسیوں پر تمہاری بہادری کی دہشت بیٹھ جائے گی اور تم جانتے ہو کہ اس کا تمہیں کیا فائدہ پہنچے گا۔ میرا حکم یہ ہے کہ سرحد کی ہر ایک بستی میں یہ پیغام پہنچا دو کہ مسلمانوں کا لشکر یا ان کا کوئی دستہ کسی طرف سے گزرے اس پر حملہ کردو اور اسے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرو، ہر وہ شخص کہ جس نے غسانی ماں کا دودھ پیا ہے وہ اپنے قبیلے کی آن پر جان قربان کردے۔لیکن تین چار مسلمانوں کی جان ضرور لے ۔میں اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے رہا، میں ان مسلمانوں کو کمزور نہیں سمجھتا، جو اپنے وطن سے اتنی دور آگئے ہیں، وہ اپنے عقیدے کے بل بوتے پر آئے ہیں ۔ان کا عقیدہ ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے،اور وہ خد اکے برتر بندے ہیں، اور خدا ان کی مدد کرتا ہے، اگر تم اپنے عقیدوں کو مضبوطی سے پکڑ لو تو تم انہیں کچل کر رکھ دو۔ قبیلے کے بچے بچے کو لڑاؤ، عورتوں کو بھی لڑاؤ اور ہر کوئی یہ کوشش کرے کہ مسلمانوں کو یہاں سے کھانے کو ایک دانہ نہ ملے۔ پینے کو پانی کی بوند نہ ملے اور ان کے اونٹ اور گھوڑے اس گھاس کی ایک پتی بھی نہ کھا سکیں، جو تمہاری زمین نے اگائی ہے۔‘‘خالدؓ کی اگلی منزل سویٰ تھی جس کے متعلق انہیں بتایا گیا تھا کہ سرسبزوشاداب جگہ ہے ۔ان کے راستے میں پہلی بستی آئی تواس سے کچھ دور کم و بیش چالیس گھوڑ سواروں نے مسلمانوں کے ہراول پر اس طرح حملہ کیا کہ گھوڑے اچانک ٹیلوں کے پیچھے سے نکلے ،سرپٹ دوڑتے آئے اور برچھیوں سے مجاہدین پر ہلہ بول دیا،مجاہدین بھی شہسوار تھے اور اس طرح کی چھاپہ مار لڑائی میں مہارت رکھتے تھے ۔اس لیے انہیں زیادہ نقصان نہیں اٹھانا پڑا ۔کچھ مجاہدین زخمی ہو گئے اور انہوں نے حملہ آور سواروں میں سے تین چار کو گرالیا۔یہ غسانی سوار تھے جنہوں نے پہلے ہلے میں مسلمانوں کو بتا دیا تھا کہ وہ لڑنا جانتے ہیں، اور ان میں لڑنے اور مرنے کا جذبہ بھی ہے۔وہ ہلہ بول کر آگے نکل گئے اور بکھر گئے تھے ۔دور جا کر وہ پھر واپس آئے۔اب مسلمان پوری طرح تیار تھے۔غسانیوں نے ہلہ بولا، وہ برچھیوں اور تلواروں سے مسلح تھے۔مسلمانوں نے انہیں گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن وہ بے جگری سے لڑتے ہوئے نکل گئے۔

ان کا انداز جم کر لڑنے والا تھا ہی نہیں۔تقریباًاتنے ہی غسانی سواروں نے مجاہدین کے لشکر کے عقبی حصے پر حملہ کیا، یہ بھی چھاپہ مار قسم کا ہلہ تھا، گھوڑے سر پٹ دوڑتے آئے، اور آگے نکل گئے۔خالدؓلشکر کے وسط میں تھے انہیں اطلاع ملی تو انہوں نے لشکر کی ترتیب بدل دی لیکن وہ لشکر کو زیادہ نہ پھیلا سکے کیونکہ وہ علاقہ ہموار نہیں تھا۔کچھ دیر بعد خالدؓ کے سامنے چند ایک غسانی قیدی لائے گئے، انہیں مجاہدین نے گھوڑوں سے گرا لیا تھا، ان سے جب جنگی نوعیت کی معلومات حاصل کی جانے لگیں توان سب نے بڑی جرات سے باتیں کیں۔’’تم جدھر جاؤ گے تم پر حملے ہوں گے۔‘‘ایک قیدی نے کہا۔’’جب آدمی نہیں ہوں گے وہاں تم پر عورتیں حملہ کریں گی۔‘‘ایک اور قیدی نے کہا۔’’تمہیں کس نے بتایا ہے کہ ہم تمہارے دشمن ہیں؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’دشمن نہیں ہو تو یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘ایک قیدی نے جواب دیا۔ ان قیدیوں نے اور کچھ نہ بتایا کہ ان کی فوج کتنی ہے اور کہاں کہاں ہے، ان سے یہ پتہ چل گیا کہ تمام سرحدی بستیوں میں ان کے بادشاہ کا یہ حکم پہنچا تھا کہ مسلمانوں پر حملے کرتے رہیں تاکہ جب مسلمان غسانیوں کی فوج کے مقابلے میں آئیں تو وہ تھکے ہوئے ہوں اور کمزور ہو چکے ہوں۔’’یہاں سے تمہیں اناج کا ایک دانہ نہیں ملے گا۔‘‘ایک قیدی نے کہا۔’’پینے کو پانی کا ایک قطرہ نہیں ملے گا۔‘‘’’تمہارے اونٹوں اور گھوڑوں کو ہم بھوکا مار دیں گے۔‘‘ایک اور قیدی نے کہا۔’’ہماری زمین سے یہ گھاس کی ایک پتی نہیں کھا سکیں گے۔‘‘’’کیا تمہاری موت تمہیں یہاں لے آئی ہے؟‘‘ایک اور قیدی بولا۔’’لڑنے آئے تھے تو خالد بن ولید کو ساتھ لاتے۔‘‘ایک اور قیدی نے کہا۔’’وہ آجاتا تو تم کیاکرتے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’سنا ہے اس کے سامنے اس کا کوئی دشمن پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔‘‘قیدی نے جواب دیا۔’’اور سنا ہے وہ بڑا ظالم آدمی ہے، قیدیوں کو اپنے ہاتھوں قتل کر دیتا ہے۔‘‘’’اگر وہ اتنا ظالم ہوتا،تو تم اس وقت اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوتے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تمہارے سر تمہارے کندھوں پر نہ ہوتے۔‘‘’’کہاں ہے وہ؟‘‘قیدی نے پوچھا۔’’تمہارے سامنے کھڑا ہے۔‘‘خالدؓ بن ولید نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’میں تمہاری بہادری کی تعریف کرتا ہوں، ایسا حملہ بہادر کیا کرتے ہیں جیسا تم نے کیا ہے۔‘‘تمام قیدیوں پر خاموشی طاری ہو گئی تھی اور وہ حیرت زدہ تاثر چہروں پر لیے خالدؓ کو دیکھ رہے تھے۔’’کیا تم مجھ سے ڈر رہے ہو کہ میں تمہیں قتل کر دوں گا؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔ان میں سے کوئی بھی نہ بولا۔’’نہیں۔‘‘خالدؓنے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا۔’’تمہیں قتل نہیں کیا جائے گا، تمہارے بہت سے بھائی ابھی ہماری قید میں آئیں گے۔کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا، قتل وہی ہوگا جو ہمارے مقابلے میں آئے گا……کیا تم غسان کے لشکر کے آدمی ہو؟‘‘’’نہیں!‘‘ایک قیدی نے جواب دیا۔’’ہم اس بستی کے رہنے والے ہیں۔‘‘

’’تم میرا نام کس طرح جانتے ہو؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’ابنِ ولید!‘‘ایک ادھیڑ عمر قیدی نے جواب دیا۔’’تیرا نام غسان کے بچے بچے نے سنا ہے۔غسان کی فوج تیرے نام سے واقف ہے۔فارس کی فوج کو شکست دینے والا سالار عام قسم کا انسان نہیں ہو سکتا۔لیکن ابنِ ولید!اب تیرا مقابلہ قبیلہ غسان سے ہے۔‘‘خالدؓ اس شخص کے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے اس کے ساتھ اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ دوستانہ انداز میں باتیں جاری رکھیں اور ان سے کچھ باتیں معلوم کرلیں،مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ خالدؓکو اندازہ ہی نہیں تھا کہ غسانیوں اور ومیوں تک ان کا صرف نام ہی نہیں پہنچا تھا بلکہ ان کے نام کے ساتھ کچھ روائتیں اور حکایتیں بھی پہنچ گئی تھیں، بعض لوگ خالدؓ کو مافوق الفطرت شخصیت سمجھنے لگے تھے۔خالدؓ آگے بڑھتے گئے،غسانیوں کے گروہوں نے دواور جگہوں پر مسلمانوں کے لشکر پر حملہ کیا، ایک حملہ جو چھاپہ مار قسم کا تھا، خاصا سخت تھا۔مسلمان چونکہ چوکس اور تیار تھے اس لیے ان کا زیادہ نقصان نہ ہوا۔حملہ آوروں کا جانی نقصان زیادہ ہوا۔خالدؓکو قیدیوں سے معلوم ہو چکا تھا کہ ان پر ان حملوں کا مقصد کیا ہے۔انہوں نے سوچا کہ اس طرح مزاحمت جاری رہی توانہیں اپنے لشکر کے کھانے پینے کیلئے بھی کچھ نہیں ملے گا۔وہ سویٰ کے قریب ظہر اور عصر کے درمیان پہنچے تو انہیں بڑا ہی وسیع سبزہ زار نظر آیا۔اس میں بے شمار بھیڑیں ،بکریاں اور مویشی چر رہے تھے۔یہ وسیع چراگاہ تھی اس کے قریب سویٰ کی بستی تھی۔خالدؓ نے اس خیال سے کہ پیشتر اس کے کہ ان پر حملہ ہو،انہوں نے حکم دے دیا کہ تمام بھیڑ بکریاں اور مویشی پکڑ لیے جائیں اور انہیں کھانے کیلئے اور ان میں جودودھ دینے والے جانورتھے انہیں دودھ کیلئے استعمال کیا جائے۔مجاہدین ان جانوروں کو پکڑنے لگے تو بستی والوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔غسانیوں کے گھوڑے اچھے تھے اور ان کے ہتھیار بھی اچھے تھے لیکن مسلمانوں کے آگے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے۔خالدؓنے چراگاہ پر قبضہ کرلیا،جب بستی میں گئے تو وہاں لڑنے والا ایک آدمی بھی نہیں تھا،وہ بوڑھے تھے اور عورتیں تھیں اور بچھے تھے۔مسلمانوں کو دیکھ کر وہ بھاگنے لگے ۔عورتیں اپنے بچوں کو اٹھائے چھپ گئیں یا بھاگ اٹھیں۔خالدؓ کے حکم سے ان سب کو روک کر کہا گیا کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی ۔اگر بستی سے مسلمان لشکرکے خلاف کوئی کاروائی ہوئی تو بستی کو اجاڑ دیا جائے گا۔مخبروں نے خالدؓکو اطلاع دی کہ کچھ دور آگے ایک قلعہ ہے جس میں عیسائی فوج ہے اور اس کا سالار رومی ہے۔یہ اطلاع بھی ملی کہ سویٰ کے بھاگے ہوئے غسانی اس قلعے میں چلے گئے ہیں۔

اس قلعے کا نام اَرک تھا۔سورج غروب ہو چکا تھا۔شام گہری ہو گئی،قلعے کے دروازے سورج غروب ہوتے ہی بند ہو گئے تھے۔اس کے بعد قلعے کے سنتریوں کو جو دیوار پر ٹہل رہے تھے گھوڑوں کے ٹاپ سنائی دیئے۔سنتریوں نے خبردار ہوشیار کی صدائیں لگانی شروع کردیں۔کماندار دیوار پر گئے اور نیچے دیکھا۔بہت سے گھوڑے دوڑے آرہے تھے۔وہ قلعے کے بڑے دروازے پر آکر رک گئے۔ابھی اورگھوڑے اور اونٹ آرہے تھے۔’’کون ہو تم لوگ؟‘‘ دروازے کے اوپر ایک بُرج سے ایک کماندار نے پوچھا۔’’ہم غسانی ہیں۔‘‘ باہر سے ایک سوار نے جواب دیا۔’’مسلمانوں کا لشکر آرہا ہے ۔ہم نے سویٰ میں انہیں روکنے کی کوشش کی تھی لیکن ہم ان کے مقابلے میں جم نہ سکے۔ ہم بستی میں جاتے تو مسلمان ہمیں زندہ نہ چھوڑتے۔‘‘’’کیا تم پناہ لینے آئے ہو؟‘‘’’پناہ بھی لیں گے۔‘‘ایک غسانی سوار نے جواب دیا۔’’اور مسلمانوں کے خلاف لڑیں گے بھی۔تمہیں ہماری ضررت ہو گی۔‘‘رومی سالار کو بلایا گیا۔اس نے ان لوگوں سے اپنی تسلی کیلئے کئی سوال کیے اور ان کیلئے قلعے کا دروازہ کھلوادیا۔انہوں نے رومی سالار کو تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں کی نفری کتنی ہے اور اب وہ کہاں ہیں۔اگلی صبح طلوع ہوئی تو خالدؓکا لشکر قلعے تک پہنچ گیا تھا اور قلعے کو محاصرے میں لے رہا تھا۔عیسائی فوج جو قلعے میں تھی قلعے کی دیواروں پر چلی گئی اور فوج کا ایک حصہ قلعے کے بڑے دروازے سے کچھ دور کھڑا ہوگیا۔اس حصے کو ایسی صورتِ حال کیلئے تیاررکھاگیا کہ دروازہ ٹوٹ جائے تو یہ دستہ حملہ آوروں کو اندر نہ آنے دے اور حکم ملنے پر باہر جا کر مسلمانوں پر حملے کرے۔قلعے کے باہر للکار اور نعرے گرج رہے تھے۔’’قلعہ ہمارے حوالے کر دو۔‘‘خالدؓ کے حکم سے رافع بن عمیرہ نے بلند آواز سے کہا۔’’ورنہ ہر غسانی قتل ہونے کیلئے تیار ہو جائے،ہتھیار ڈال دو اور کسی کو باہر بھیجوجو ہمارے ساتھ صلح کی شرطیں طے کرے۔‘‘’’اے مسلمانو!‘‘اوپر سے ایک کماندار نے للکار کر کہا۔’’یہ قلعہ تمہیں اتنی آسانی سے نہیں ملے گا۔‘‘
واقدی لکھتا ہے کہ قلعہ میں ایک ضعیف العمر عالم تھا۔اس نے رومی سالار کو بلایا۔اس عالم کی قدرومنزلت تھی اور غسانی اس کا حکم مانتے اور اس کی ہر بات کو برحق تسلیم کرتے تھے۔’’کیا اس فوج کا پرچم کالے رنگ کا ہے؟‘‘عالم نے پوچھا۔’’ہاں مقدس باپ!‘‘رومی سالار نے جواب دیا۔’’ان کا جھنڈا نظر آرہا ہے جو سفید اور کالے رنگ کا ہے۔‘‘ یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

’کیا یہ فوج صحرا میں سے اس راستے سے گزر کر آئی ہے جس راستے سے کبھی کوئی نہیں گزرا؟‘‘عالم نے پوچھا۔مؤرخ واقدی، طبری اور ابنِ یوسف نے لکھا ہے کہ دو مخبروں نے اس عالم کو بتایا کہ مسلمانوں کی فوج صحرا کے اس حصے میں سے گزر کر آئی ہے جہاں اونٹ بھی نہیں جاتے اور جہاں سانپ بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔’’کیا اس فوج کے سالار کا قد اونچا ہے؟‘‘معمر عالم نے پوچھا۔’’کیا اس کا جسم گٹھا ہوا ہے، اور اس کے کندھے چوڑے ہیں؟‘‘’’مقدس باپ!‘‘کسی نے جواب دیا۔’’قد تو ان سب کے اونچے ہیں اور جسم بھی سب کے گٹھے ہوئے ہیں لیکن اس کے کندھے سب سے چوڑے ہیں۔‘‘’’کیا اس کی داڑھی زیادہ گھنی ہے؟‘‘ عالم نے پوچھا۔’’اور کیا اس کے چہرے پر کہیں کہیں چیچک کے گہرے داغ ہیں؟‘‘’’ہاں مقدس درویش!‘‘کسی اور نے جواب دیا۔’’اس کی داڑھی دوسروں سے زیادہ گھنی ہے اور یہ داڑھی اس کے چہرے پر بہت اچھی لگتی ہے اور اس کے چہرے پر چیچک کے کچھ داغ ہیں۔‘‘اس عالم درویش نے رومی سالار اور عیسائی سرداروں کی طرف دیکھا اور کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے اپنا سر دائیں بائیں دو بار ہلایا۔’’یہ وہی شخص ہے جس کا مقابلہ کرنے کی ہمت تم میں سے کسی میں بھی نہیں ۔‘‘اس نے کہا۔’’اَے کہ تو جس کا احترام ہم سب پر لازم ہے ،کیا کہہ رہا ہے؟‘‘رومی سالار نے کہا۔’’وہ تو ہمارا قیدی ہو گا جس سے تو ہمیں ڈرا رہا ہے۔‘‘’’کیا تو نے ان کا انجام نہیں دیکھا جنہوں نے اس کا مقابلہ کیا تھا؟‘‘عالم نے کہا۔’’کیا وہ آسمانوں کا کوئی دیوتا ہے جسے زمین کا کوئی انسان شکست نہیں دے سکتا؟‘‘ایک عیسائی سردار نے پوچھا۔’’اے عیسائی سردار!‘‘عالم نے کہا۔’’وہ چوڑے کندھوں اور چیچک کے داغوں والا جو مدینہ سے آیا ہے۔اس کے پاس عَلَم ہے اور میرے پاس علم ہے۔تیرے پاس نہ عَلَم ہے نہ علم۔تو رومی نہیں، تو غسانی بھی نہیں اور جو مجھے نظر آتا ہے وہ تو نہیں دیکھ سکتا……اور تو کہتا ہے کہ وہ آسمان کا دیوتا تو نہیں……سن رومی سالار! اور تو بھی سن عیسائی سردار!جو اپنے لشکر کو اس صحرا میں سے زندہ گزار لایا ہے جہاں کی ریت پہلے اندھا کرتی پھر جسم کوخشک لکڑی بناتی اور پھر جلا دیتی ہے وہ انسان آسمانوں کے دیوتاؤں کو بھی شکست دے سکتا ہے……میں کچھ اور نہیں کہتا سوائے اس کے کہ قلعہ اس کے حوالے کردو،اور اگر لڑنا چاہو تو عقل اور ہوش سے کام لینا لیکن عقل تمہارا ساتھ نہیں دے گی۔‘‘اس وقت جب یہ عالم اور درویش قلعہ دار اور عیسائی سرداروں کو بتا رہا تھا کہ وہ خالدؓ کے مقابلے میں آئیں تو ذرا سوچ لیں، اس وقت قلعے کے اندر مسلمانوں کی للکار سنائی دے رہی تھی۔ ’’دروزے کھول دو……ہتھیار ڈال دو……ہم قلعہ لینے آئے ہیں……اپنے لشکر کو، عورتوں کو اور بچوں کو بچاؤ۔‘‘رومی سالار عیسائی سرداروں کے ساتھ قلعے کی دیوار پر آیا اور ہر طرف جا کر دیکھا۔اسے مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ دکھائی نہیں دے رہی تھی کہ وہ قلعہ سر کر لیتی لیکن وہ مسلمانوں کا پرچم عقاب دیکھتا تو وہ اپنے آپ میں دھچکہ محسوس کرتا تھا۔’’کیا یہی ہے سارا لشکر؟‘‘رومی سالار نے کسی سے پوچھا۔’’یہی نہیں ہو سکتا۔‘‘

’’یہ لشکر اتنا ہی ہے۔‘‘اسے جواب ملا۔’’تیروں کا مینہ برسا دو ان پر!‘‘اس نے حکم دیا۔’’قریب آئیں تو برچھیاں پھینکو۔‘‘دیوار سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔’’خداکی قسم!یہ تیر ہمیں نہیں روک سکتے۔‘‘خالدؓ نے گلا پھاڑ کر کہا۔’’ایسے تیر ہم پر بہت برسے ہیں۔تیر اندازوں کو آگے کرو۔دروازوں پر ہلہ بول دو……اور سب سے کہہ دو کہ یہ شام کا پہلا قلعہ ہے۔اگر ہم پہلے قلعے پر ہار گئے تو شکست ہمارا مقدر بن جائے گی۔‘‘خالدؓ کے قاصدوں نے جب قلعے کے چاروں طرف یہ پیغام پہنچا دیا تو تیر اندازتیروں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھے اور اندھا دھند نہیں بلکہ ایک ایک آدمی کا نشانہ لے کر تیر چلا نے لگے،سب سے زیادہ تیر انداز قلعے کے بڑے دروازے کے سامنے جمع ہو گئے تھے اور دروازے کے اوپر اور بُرجوں میں تیر پھینک رہے تھے۔مجاہدین کی بے خوفی اور شجاعت کا یہ عالم تھا کہ کئی مجاہدین دروازے تک پہنچ گئے اور کلہاڑیوں سے دروازہ توڑنے لگے۔دروازہ مضبوط تھاجسے اس حالت میں توڑنا آسان نہیں تھا کہ اوپر سے تیر آرہے تھے لیکن مجاہدین کی اس جرات نے اور لشکر کے نعروں نے قلعے والوں کا حوصلہ توڑ دیا۔ان پر اپنے عالم درویش کی باتوں کا اثر بھی تھا۔’’اب بھی وقت ہے۔‘‘خالدؓ کے حکم سے ایک بلند آواز مجاہد نے اعلان کیا۔’’قلعہ دے دو گے تو فائدے مین رہو گے ۔قلعہ ہم نے لے لیا تو ہم سے رحم کی امید نہ رکھنا۔‘‘تھوڑی ہی دیر بعد قلعے پر سفید جھنڈا لہرانے لگا۔خالدؓ نے اپنے سالاروں کی طرف قاصد دوڑا دیئے کہ رُک جاؤ۔’’باہر آکر بات کرو۔‘‘مسلمانوں کی طرف سے اعلان ہوا۔قلعے کا دروازہ کھلا۔رومی سالار دو تین عیسائی سرداروں کے ساتھ باہر آیا اورمدینہ کے اس سالار کے سامنے آن کھڑا ہوا جس کے کندھے چوڑے، داڑھی گھنی اور جس کے چہرے پر چیچک کے چند ایک داغ تھے۔’’خدا کی قسم!تو عقل والا ہے۔‘‘خالدؓ نے رومی سالار سے کہا۔’’تو نے اپنی آبادی کو اور اپنے لشکر کو قتلِ عام سے بچا لیا ہے۔اب تو مجھ سے وہ توقع رکھ سکتا ہے جو دوست دوستوں سے رکھا کرتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔رومی سالار نے مصافحہ کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا۔’’ہاتھ نہیں!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’پہلے تلوار۔‘‘رومی سالا رنے اپنی کمر بند سے تلوار مع نیام کھول کر خالدؓ کے حوالے کردی۔پھر عیسائی سرداروں نے اپنی اپنی تلواریں اتار کر خالدؓ کے آگے پھینک دیں۔’’اب بتا اے سالارِ مدینہ!‘‘رومی سالار نے پوچھا۔’’تیری اور شرط کیا ہے؟کیا ہماری جوان لڑکیاں اور بچے تیرے لشکر سے محفوظ رہیں گے؟‘‘’’ہم تمہاری لڑکیاں اٹھانے نہیں آئے اے رومی سالار!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہم جزیہ لیں گے۔کوئی اور محصول نہیں لیں گے۔اگر تو کچھ دیر اور لڑتا اور ہم قلعہ اپنے زور پر لیتے تو اَرک کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی اور اندر لاشوں کے ڈھیر لگے ہوتے۔تو امن سے آیا ہے امن سے جا،اپنی لڑکیوں کو،بچوں کواور ان کی ماؤں کو ساتھ لے جا ……اور دل میں یہ بات رکھ کہ ہم لوٹ مار کرنے نہیں آئے ،ہم کچھ دینے آئے ہیں،یہ ہمارا عقیدہ ہے اسلام، اس پرغور کرنا۔‘‘

مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومی سالار اور عیسائی سردار خوف زدہ حالت میں آئے تھے۔خوف یہ تھا کہ خالدؓانہیں قتل کرادے گا،اور قلعے میں کچھ بھی نہیں چھوڑے گا، لیکن خالدؓ نے جزیہ کے سوا اور کوئی شرط عائد نہ کی۔اب رومی اور عیسائی خوف زدہ نہیں حیرت زدہ تھے۔انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی فاتح مفتوح کے ساتھ اتنی فیاضی سے پیش آسکتا ہے۔ان لوگوں پر کرم یہ کیا گیا کہ صرف فوج کو وہاں سے نکالا گیا۔باقی تمام آبادی امن و امان میں وہاں موجود رہی۔خالدؓ کو وہاں سے مقامی گائیڈ مل گئے تھے۔اَرک سے آگے دومقامات سخنہ اور قدمہ تھے۔خالدؓ نے اَرک پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اپنے لشکر کو قصبے کے باہر خیمہ زن کیا۔رات کو خالدؓ نے اپنے سالاروں کے ساتھ بڑے جذباتی انداز سے اﷲکا شکر ادا کیا۔شام کے پہلے ہی قلعہ دار نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ شام کی سرحد سے قریب پہنچ کر خالدؓ کی چال ڈھال میں تبدیلی سی آگئی تھی۔وہ سرخ رنگ کا عمامہ سر پر رکھتے تھے۔مسیلمہ کذاب کی تلوار ان کے پاس رہتی تھی۔رسولِ اکرمﷺکا دیا ہوا مقدس پرچم ان کے خیمے پر لگا رہتا، اور خالدؓ کو اکثر دیکھا گیا کہ اس مقدس پرچم پر نظریں گاڑے کھڑے ہیں۔کوچ اور پیش قدمی کے دوران بھی وہ اس پرچم عقاب کودیکھتے تو ان کی نظریں کچھ دیر پر چم پر جمی رہتی تھیں۔انہیں شاید یہ احساس پریشان کر رہا تھا کہ وہ وطن سے بہت دور ایک طاقتور ملک کو فتح کرنے آگئے ہیں لیکن ان کی باتوں اور مسکراہٹوں میں حوصلہ مندی صاف نظر آتی تھی۔رات کو خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا۔’’بیشک اﷲغفورالرحیم ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’فتح اور شکست اسی کے ہاتھ میں ہے۔ہم لڑتے ہیں تو اﷲکے نام پر ہی لڑتے ہیں، جانیں دیں گے تو اسی کے نام پر دیں گے……میرے دوستو!کیسے شکر بجالاؤگے رب کریم کا جس نے تمہارے نام کا خوف تمہارے قدم یہاں پڑنے سے پہلے ہی دشمنانِ اسلام کے دلوں پر طاری کر دیا تھا۔کیسے احسان چکاؤگے اپنے اﷲکا جس نے پہلا ہی قلعہ کسی جانی نقصان کے بغیر تمہاری جھولی میں ڈال دیا ہے۔تکبر نہ کرنا، اور یہ نہ بھولنا کہ ہمارے ساتھ وہ پرچم ہے جو رسول اﷲﷺاپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔یہ پرچم نہیں یہ ہمارے رسول اﷲﷺکی روحِ مقدس ہے جو ہمارے ساتھ ہے……‘‘

’’تم نے صبر اور تحمل کی، جرات اور شجاعت کی جو روایت قائم کی ہے یہ ہماری آنے والی نسلوں کو راستہ دکھانے والی روشنی کا کام دے گی۔ہمیں ابھی اور روایات قائم کرنی ہیں، اور یہی روایات اسلام کو زندہ رکھیں گی۔‘‘ایسی کچھ اور باتیں کرکے خالدؓ اپنی اگلی پیش قدمی کے متعلق احکام دینے لگے۔انہوں نے دو دستوں کے سالاروں سے کہا کہ وہ اگلے دو مقامات پر قبضے کیلئے جائیں گے۔ ایک کو سخنہ اوردوسرے کو قدمہ جانا تھا۔خالدؓ نے انہیں کہا کہ انہیں ایک ایک دستے سے ان دونوں بستیوں کو لینا ہے۔جاسوسوں کی اطلاع کے مطابق یہ دونوں بستیاں چھوٹے چھوٹے قلعوں یا قلعہ نما حویلیوں کا مجموعہ تھیں۔’’اَرک کی فتح دونوں بستیوں کی فتح کو مشکل بنا چکی ہوگی۔‘‘خالدؓ نے سالاروں سے کہا۔’’اَرک کے شکست خوردہ آدمی وہاں پہنچ چکے ہوں گے۔عیسائی اور رومی ارک کی شکست کا انتقام ضرور لیں گے۔تمہیں بڑے سخت مقابلے کا سامنا ہوگا۔پسپا نہ ہونا، میں کمک تیاررکھوں گا۔اﷲنے ہمیں یہ اڈہ دے دیا ہے۔میں تمہاری مدد کو پہنچوں گا۔اﷲتمہارے ساتھ ہے۔‘‘خالدؓ نے سالار ابو عبیدہؓ کے نام ایک پیغام لکھوایا اور ایک قاصد کو دے کر کہا کہ فجر کی نماز کے فوراًبعد وہ روانہ ہو جائے گا،اور یہ پیغام ابو عبیدہؓ کو دے آئے۔ابو عبیدہؓ ان اٹھائیس ہزار مجاہدین کے ایک حصے کے سالار تھے جو امیرالمومنین ابوبکرؓنے مدینہ سے تیار کراکے شام کی فتح کیلئے روانہ کیا تھا۔اس لشکر کے چار حصے کیے گئے تھے اور ہر حصہ شام کی سرحد پرایک دوسرے سے دور مختلف جگہوں پر پہنچ گیا تھا۔سالار ابو عبیدہؓ جابیہ کے علاقے میں تھے۔خالدؓ نے انہیں پیغام بھیجا کہ وہ جہاں بھی ہیں وہیں رہیں اور جب تک انہیں خالدؓ کی طرف سے کوئی حکم نہ ملے وہ کوئی حرکت نہ کریں۔’’اور میں تدمُر جارہا ہوں۔‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بتایا۔’’تدمُر باقاعدہ قلعہ ہے۔اسے سرکرنا آسان نہیں ہوگااس لیے اسے میں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے……میرے رفیقو!معلوم نہیں ہم ایک دوسرے کو زندہ مل سکیں گے یا نہیں۔یہ خیال رکھنا کہ ہم اﷲکے حضور اکٹھے ہوں گے تونہ اﷲکے آگے شرمسار ہوں نہ ایک دوسرے کے آگے!‘‘

خالدؓ کے ساتھ مجاہدین کاجو لشکر تھا اس کی تعداد نوہزار پوری نہیں تھی۔اسے بھی خالدؓ نے تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ہر حصے کو ایک ایک مقام فتح کرنا تھا، خالدؓ نے بہت بڑا خطرہ مول لیا تھا لیکن انہیں اﷲکی ذات پر اتنابھروسہ تھا کہ انہوں نے اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا۔صبح ہوتے ہی خالدؓ تدمر کی طرف کوچ کر گئے اور دو سالار اپنے اپنے دستوں کو لے کر سخنہ اور قدمہ کو روانہ ہوگئے۔خالدؓ نے جاتے ہی تدمر کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔اس میں بھی عیسائیوں کی فوج تھی۔خالدؓنے نعروں کے ساتھ قلعے کے دروازوں پر ہلے بولے اور بار بار اعلان کرایا کہ قلعہ ان کے حوالے کر دیا جائے،یہ دیکھا گیا کہ قلعہ کے دفاع میں لڑنے والوں میں کوئی جوش و خروش نہیں تھا۔زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ قلعے کا دروازہ کھلا اور عیسائی سردار باہر آگئے۔انہوں نے خالدؓ سے پوچھا کہ وہ کن شرائط پر صلح کرنا چاہتے ہیں؟’’جزیہ ادا کرو۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اور یہ معاہدہ کہ یہاں سے مسلمانوں کا جوبھی لشکر یا دستہ گزرا کرے گا اسے کھانے پینے کاسامان تم مہیا کرو گے اور قلعہ میں رُکنا ہوا تو تم اسے جگہ دوگے۔‘‘’’تمہاری فوج لوٹ مار تو نہیں کریگی؟‘‘ایک عیسائی سردار نے پوچھا۔’’جزیئے کے عوض تمہاری عزت اور تمہاری جانوں اور اموال کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہوگی۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’کسی اور نے تم پر حملہ کیا تو مسلمان تمہاری مدد کو پہنچیں گے اور تم رومی اور غسانیوں کا ساتھ نہیں دو گے۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘ایک سردار نے کہا۔’’ہم نے جیسا سنا تھا تجھے ویسا ہی پایا۔اب تو ہمیں اپنا دوست پائے گا۔‘‘عیسائیوں کے سب سے بڑے سردار نے اعلیٰ نسل کا ایک گھوڑا خالدؓ کو پیش کیا۔یہ بڑا قیمتی گھوڑا تھا۔یہ دوسرا قلعہ تھا جو خالدؓکے قدموں میں آن پڑا اور خالدؓ اﷲکے حضور سجدے میں گر پڑے۔ادھر سخنہ اور قدمہ میں ایک جیسا ہی معجزہ ہوا۔دونوں دستوں کے سالاروں پر ہیجانی کیفیت طاری تھی۔ایک خطرہ یہ تھا کہ وہ دشمن ملک کے زیادہ اندر یعنی گہرائی میں جا رہے تھے،دوسرے یہ کہ ارک سے فوجی چلے گئے تھے۔ان کا ان قصبوں میں ہونا وہاں کے لوگوں کو ساتھ ملا کر مقابلے میں آنا لازمی تھااور سب سے بڑا خطرہ تو یہ تھا کہ دونوں سالاروں کے پاس صرف ایک ایک دستہ تھا۔دونوں دستے تقریباًایک ہی وقت اپنے اپنے ہدف پر پہنچے۔دونوں سالاروں نے اپنے اپنے طور پر یہ طے کر لیا تھا کہ ان کامقابلہ اگر زیادہ تعداد سے ہو گیا تو وہ جم کر نہیں لڑیں گے بلکہ گھوم پھر کر اوردشمن کو بکھیر کر لڑیں گے۔انہوں نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ خالدؓ سے مدد نہیں مانگیں گے کیونکہ خالدؓ ایک قلعہ پر حملہ کرنے گئے تھے۔

ایمان کے جذبے کی یہ انتہا تھی کہ وہ اتنی قلیل تعداد میں کہاں جا پہنچے تھے۔انہوں نے اپنی جانیں اور اپنے اموال اﷲکے سپرد کر دیئے تھے۔وہ اپنی بیویوں اور اپنے ماں باپ اور اپنے بہن بھائیوں کو فراموش کیے ہوئے تھے۔ان پر یہ نشہ طاری تھا کہ کفر کے فتنے کو ختم کرکے اﷲکے پیغام کو زمین کے دوسرے سرے تک پہنچانا ہے۔ان کے دلوں میں اﷲکا نام اور رسول ﷺکا عشق تھااور ان کے ذہنوں میں کوئی وہم اور کوئی شک نہ تھا،جہاد ان کی عبادت تھی اور وہ اﷲہی سے مدد مانگتے تھے……ایک سالار سخنہ کے قریب اور دوسرا قدمہ کے قریب پہنچا تو دونوں جگہوں پر ایک ہی جیسا منظر دیکھنے میں آیا۔وہاں کے لوگ باہر نکل آئے اور ان کی تعداد بڑھتی گئی۔سالاروں نے اپنے اپنے دستے کو پھیلادیا۔یہاں کوئی دھوکا دکھائی دے رہا تھا،وہ لوگ مسلح نہیں تھے۔ان کی عورتیں اور بچے بھی باہر آگئے اور سب ہاتھ اوپر کرکے ہلا رہے تھے۔سالاروں نے اپنے اپنے دستے کو محاصرے کی ترتیب میں کردیا،ان کی نظریں ان مکانوں پر لگی ہوئی تھیں جو چھوٹے چھوٹے قلعوں کی مانند تھے سالاروں کو خطرہ یہ نظر آرہاتھا کہ وہ اگر آگے بڑھیں گے تو ان مکانوں سے ان پر تیر برسنے لگیں گے۔وہ رک رک کر آگے بڑھنے لگے۔دونوں بستیوں کی آبادی عربی عیسائیوں کی تھی، ان میں سے چار پانچ معمر سفید ریش آگے بڑھے، قریب آکر انہوں نے استقبال کے انداز میں بازو پھیلا دیئے۔’’ہم تمہارا استقبال کرتے ہیں۔‘‘ ایک سفید ریش عیسائی نے کہا۔’’آؤ……دوستوں کی طرح آؤ، ہم امن کے بندے ہیں۔‘‘’’اور اگر ہم پر ایک بھی تیر آیا تو اس بستی کی تباہی دیکھ کر بھی یقین نہیں کروگے۔‘‘سالار نے کہا۔’’مکانوں کے دروازے کھلے ہیں۔‘‘عیسائی بزرگ نے کہا۔’’آبادی کا ایک بچہ بھی اندر نہیں، دیکھ لو، کسی کے ہاتھ میں کمان نہیں، برچھی نہیں تلوار نہیں۔‘‘’’کہاں ہیں وہ جو ارک سے یہاں آئے تھے؟‘‘سالار نے پوچھا۔’’کچھ ہیں کچھ چلے گئے ہیں۔‘‘ایک معمر عیسائی نے کہا۔’’انہوں نے ہی ہمیں بتایا ہے کہ تمہاری فوج لوٹ مار نہیں کرتی، نہتوں اور بے کسوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتی، اور تم ایسی شرطوں پر دوستی قبول کر لیتے ہو جو کسی پر بار نہیں ہوتیں۔‘‘’’اور جو ہماری شرطیں قبول نہ کرے اس کا انجام کچھ اور ہوتا ہے۔‘‘سالار نے کہا۔

’’اے مدینہ کے سالار!‘‘عیسائی سردار نے کہا۔’’بتا تیری شرطیں کیا ہیں؟ ’’وہی جو تمہاری پیٹھ اٹھا سکے گی، اور کمر کو توڑے گی نہیں۔‘‘سالار نے کہا۔’’جزیہ……ہم خود دیکھیں گے کہ جو جزیہ ادا کرنے کے قابل نہیں اس سے ہم کچھ بھی نہیں لیں گے۔‘‘’’کچھ اور؟‘‘’’مسلمانوں کا لشکر، یا کوئی دستہ یا کوئی قاصد یہاں سے گزرے گا تو یہ اس بستی کی ذمہ داری ہوگی کہ اس پر حملہ نہ ہو۔‘‘ سالار نے کہا۔’’اگر وہ یہاں رکنا چاہیں گے تو ان کے جانوروں کا چارہ بستی کے ذمہ ہوگا۔ ان کی کوئی اور ضرورت جو تم پر بار نہیں ہوگی وہ تم پوری کرو گے۔ہمارے لشکر کا کوئی فرد بستی کے کسی گھر میں داخل نہیں ہوگا،تمہاری عزتوں کی اور تمہارے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔رومیوں کی طرف سے، غسانیوں اور فارسیوں کی طرف سے تمہیں کوئی دھمکی ملے گی یا تم پر کوئی حملہ کرے گا تو اس کا جواب ہم دیں گے۔‘‘دونوں بستیوں میں ایسے ہی ہوا، اس دور میں فوجوں کا یہ رواج تھا کہ بستیوں کو لوٹتی اجاڑتی چلی جاتی تھیں۔ کوئی عورت ان سے محفوظ نہیں رہتی تھی، جو آبادیاں ان کے آگے جھک جاتی تھیں، ان کے ساتھ تو فاتح فوجیں اور زیادہ برا سلوک کرتی تھیں ۔لیکن یہ روایت مسلمانوں نے قائم کی کہ جس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، اسے اپنی پناہ میں لے لیا، اور اس کی عزت کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھا۔اسی کا اثر تھا کہ کفار کی بستیاں ان کے ساتھ دوستی کے معاہدے کرتی جارہی تھیں۔خالدؓ کو اطلاع ملی کہ سخنہ اور قدمہ کی آبادی نے اطاعت قبول کرلی ہے تو انہوں نے وہاں کیلئے عمال مقررکرکے دونوں دستوں کو اپنے پاس بلا لیا۔خالدؓنے آگے بڑھنے کا حکم دیا۔آگے قریتین کا قصبہ تھا، جس کی آبادی دوسری بستیوں کی نسبت زیادہ تھی۔خالدؓ نے اس کے قریب پہنچ کر لشکر کو روک لیا اور اپنے دو نائبین سے کہا کہ وہ بستی میں جا کر صلح اور معاہدے کی بات کریں۔یہ دونوں ابھی چلے ہی نہیں تھے کہ وہاں ایک آبادی نے دائیں اور بائیں سے مسلمانوں کے لشکر پر حملہ کر دیا۔یہ حملہ اگر غیر متوقع نہیں تو اچانک ضرور تھا،خالدؓ نے اپنے لشکر کو ہجوم کی صورت میں نہیں بلکہ جنگی تربیت میں رکھا ہوا تھا، وہ آخر دشمن ملک میں تھے، انہوں نے ایک دو دستے پیچھے رکھے ہوئے تھے۔ جوں ہی حملہ ہوا، خالدؓ نے پیچھے والے دستوں کو آگے بڑھا دیا۔حملہ آوروں میں بستی کے لوگ زیادہ معلوم ہوتے تھے، اور ان میں کچھ تعداد باقاعدہ فوجیوں کی بھی تھی۔یہ دوسری جگہوں مثلاً ارک اور تدمر سے آئے ہوئے فوجی تھے۔یہ سب لوگ تعداد میں تو زیادہ تھے لیکن ان کے لڑنے کا انداز اپنا ہی تھا اور یہ انداز باقاعدہ فوج والا نہیں تھا۔

خالد کی جنگی چالوں کے سامنے تو بڑے تجربہ کار سالار بھی نہیں ٹھہر سکے تھے۔تھوڑے ہی وقت میں مجاہدین نے اس ہجوم کی یہ حالت کردی کہ ان کیلئے بھاگ نکلنا بھی محال ہو گیا۔چونکہ یہ لڑائی تھی اور مسلمانوں پر باقاعدہ حملہ ہوا تھا، اس لیے خالدؓ نے جنگی اصولوں کے تحت احکام دیئے۔مسلمانوں نے بستی پر حملہ کیا اور مالِ غنیمت اکٹھا کیا۔قیدی بھی پکڑے اور آگے بڑھے۔ اب خالدؓ پہلے سے زیادہ محتاط ہو گئے تھے۔جوں جوں وہ آگے بڑھتے جا تے تھے۔انہیں دشمن قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا جاتا تھا۔اس جھڑپ سے فارغ ہو کر آگے گئے تو آٹھ نو میل آگے بے شمار مویشی چر رہے تھے۔خالدؓنے حکم دیا کہ تمام مویشی اپنے قبضے میں لے لیے جائیں۔یہ حوّاریں کا علاقہ تھا،مجاہدین مویشیوں کو پکڑ رہے تھے تو ہزاروں آدمیوں نے ان پر حملہ کردیا۔یہ سب عیسائی تھے غسانیوں کی خاصی تعداد نہ جانے کہاں سے ان کی مدد کو آن پہنچی، یہ ایک شدید حملہ تھا۔حملہ آور قہر اور غضب سے لڑ رہے تھے۔ان کا ایک ہی نعرہ سنائی دے رہا تھا۔’’اُنہیں(مسلمانوں کو)کاٹ دو……انہیں زندہ نہ جانے دو۔‘‘خالدؓ کی حاضر دماغی اور مجاہدین کی ہمت اور ان کے استقلا ل نے انہیں اس میدان میں بھی فتح دی لیکن مجاہدین کے جسموں میں اگر کچھ تازگی رہ گئی تھی تو وہ بھی ختم ہو گئی۔کسی بھی تاریخ میں مجاہدین کی شہادت اور زخمی ہونے کے اعدادوشمار نہیں ملتے،ان پر جو حملے ہوئے تھے ان میں یقیناًکئی مجاہدین شہید ہوئے ہوں گے۔بعض شدید زخمی ہو کر ساری عمر کیلئے معذور بھی ہوئے ہوں گے،شہیدوں کی تعداد دشمن کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے ، یہ کہنا کہ کوئی بھی شہید نہیں ہوا، درست نہیں۔اس طرح مجاہدین کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی اور کمک کی کوئی امید نہیں تھی ۔پھر بھی مجاہدین سیلاب کی مانند بڑھے جا رہے تھے۔ خالدؓ اب زنجیروں والی خود جس پر وہ سرخ عمامہ باندھے رکھتے تھے۔رات کو ہی اتارتے تھے، لشکر کا کہیں قیام ہوتا تھا تو خالدؓ مجاہدین کے درمیان گھومتے پھرتے رہتے، ان کے چہرے پر تازگی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی تھی، ان کی مسکراہٹ میں طلسماتی سا تاثر تھا، جو مجاہدین کے حوصلوں اور جذبے کو تروتازہ کر دیتا تھا۔حوّاریں کے لوگوں کو شکست دے کر خالدؓ نے وہاں صرف ایک رات قیام کیا، اور صبح دمشق کی سمت کوچ کر گئے۔شام اور لبنان کے درمیان ایک سلسلہ کوہ ہے، اس کی ایک شاخ شام میں چلی جاتی ہے، دمشق سے تقریباً بیس میل دور دو ہزار فٹ کی بلندی پراک درہ ہے جس کانام ثنیۃ العقاب(درہ عقاب)ہے۔اسے یہ نام خالدؓ نے دیا تھا۔دمشق کی طرف کوچ کے دوران خالدؓکا لشکر تقریباًایک گھنٹے کیلئے رکا تھا اور خالدؓ نے اپنا پرچم عقاب یہاں گاڑا تھا۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓ کتنی دیر وہاں رکے رہے، ایک جگہ کھڑے دمشق کی طرف دیکھتے رہے۔ان کے سامنے زرخیز، سرسبز اور شاداب علاقہ تھا۔ صحراؤں کے یہ مجاہد اتنا سر سبز اور دلنشیں خطہ دیکھ کر حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔دمشق سے گیارہ بارہ میل دور مرج راہط نام کا ایک شہر تھا،اس کی تمام تر آبادی غسانیوں کی تھی۔غسانیوں کی بادشاہی میں ہلچل بپا تھی، ان کے پایہ تخت بصرہ میں اطلاع پہنچ چکی تھی کہ مسلمان بڑی تیزی سے بڑھے چلے آرہے ہیں، اور عیسائی ان کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے جا رہے ہیں۔غسانیوں کا بادشاہ جبلہ بن الایہم غصے میں رہنے لگا تھا۔فارسیوں کی طرح وہ بھی بار بار کہتا تھا کہ ان ذرا جتنے مسلمانوں کو اس کی بادشاہی میں داخل ہونے کی جرات کیسے ہوئی ہے۔ اس نے اپنے جاسوس بھیج کر معلوم کر لیا تھا کہ مسلمان کس طرف سے آرہے ہیں، اور ان کی نفری کتنی ہے، اسے آخری اطلاع یہ ملی کہ خالدؓ بن ولید دمشق سے کچھ دور رہ گیا ہے اور وہ مرج راہط کے راستے دمشق تک پہنچے گا۔’’مرج راہط!‘‘جبلہ غسانی نے کہااور سوچ میں پڑ گیا پھر بھڑک کر بولا۔’’ مرج راہط……کیا ان دنوں وہاں میلہ نہیں لگا کرتا؟‘‘’’میلہ شروع ہے۔‘‘اسے جواب ملا۔جبلہ نے اسی وقت اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں کچھ احکام دیئے اور کہا کہ ان احکام پر فوراً عمل درآمد شروع ہو جائے ۔یہ ایک جال تھا جو اس نے خالدؓ کے لشکر کیلئے مرج راہط کے میلے میں بچھا دیا تھا۔’’وہ عیسائی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔’’مسلمان اس خوشی کے ساتھ آگے بڑھتے آرہے ہیں کہ ان کے راستے میں جو بھی آئے گا ان کی اطاعت قبول کر لے گا۔رومیوں کو نیچا دکھانے والے غسانی عرب کے بدوؤں کی اطاعت قبول نہیں کریں گے۔ہم مرج راہط میں ہی ان کا خاتمہ کر دیں گے۔‘‘
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی