👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟠⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟠⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صلاح الدین ایوبی صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا ہی تھا کہ دربان نے اطلاع دی کہ علی بن سفیان آیا ہے 
سلطان دوڑ کر باہر نکلا اس کے منہ سے علی بن سفیان کے سلام کے جواب سے پہلے یہ الفاظ نکلے اُدھر کی کیا خبر ہے ؟
ابھی تک خیریت ہے علی بن سفیان نے جواب دیا مگر سوڈانی لشکر میں بے اطمینانی بڑھتی جارہی ہے 
میں نے اس لشکر میں اپنے جو مخبر چھوڑے تھے 
ان کی اطلاع سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ایک بھی کماندار نے قیادت سنبھال لی تو بغاوت ہوجائے گی صلاح الدین ایوبی اسے اپنے خیمے میں لے گیا علی بن سفیان کہہ رہا تھا
ناجی اور اس کے سرکردہ سالاروں کو تو ہم نے ختم کردیا ہے 
لیکن وہ مصری فوج کے خلاف سوڈانیوں میں نفرت کا جو زہر پھیلا گئے تھے اس کا اثر ذرہ بھر کم نہیں ہوا ان کی بے اطمینانی کی دوسری وجہ اُن کے سالاروں کی گمشدگی ہے 
میں نے اپنے مخبروں کی زبانی یہ خبر مشہور کرا دی ہے کہ اُن کے سالار بحیرۂ روم کے محاذ پر گئے ہوئے ہیں  مگر امیرِ محترم !مجھے شک ہوتا ہے کہ سوڈانیوں میں شکوک اور شبہات پائے جاتے ہیں 
جیسے انہیں علم ہوگیا ہے کہ ان کے سالاروں کو قید کرلیا گیا ہے اور مار بھی دیا گیا ہے اگر بغاوت ہوگئی تو مصر میں ہمارے جو دستے ہیں وہ اسے دبا سکیں گے؟
صلاح الدین ایوبی نے پوچھا کیا وہ پچاس ہزار تجربہ کار فوج کا مقابلہ کر سکیں گے؟
مجھے شک ہے بلکہ یقین ہے کہ ہماری قلیل فوج سوڈانیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی علی بن سفیان نے کہا میں اس کا بندوبست کر آیا ہوں میں نے عالی مقام نور الدین زنگی کی طرف دو تیز رفتار قاصد بھیج دئیے ہیں 
میں نے پیغام بھیجا ہے کہ مصر میں بغاوت کی فضا پیدا ہورہی ہے اور ہم نے جو فوج تیار کی ہے وہ تھوڑی ہے اور اس میں سے آدھی فوج محاذ پر ہے متوقع بغاوت کو دبانے کے لیے ہمیں مدد بھیجی جائے 
مجھے اُدھر سے مدد کی اُمید کم ہے سلطان ایوبی نے کہا پرسوں ایک قاصد یہ خبر لایا تھا کہ زنگی نے فرینکوں پر حملہ کردیا تھا
یہ حملہ انہوں نے ہماری مدد کے لیے کیا تھا فرینکوں کے اُمراء اور فوجی قائدین بحیرۂ روم میں صلیبیوں کے اتحادی بیڑے میں تھے اور فرینکوں کی کچھ فوج مصر میں داخل ہوکر عقب سے حملہ کرنے اور ہمارے سوڈانی لشکر کی پشت پناہی کے لیے مصر کی سرحد پر آگئی تھی محترم زنگی نے ان کے ملک پر حملہ کر کے اُن کے سارے منصوبے کو ایک ہی وار میں برباد کردیا ہے اور شاہ فرینک کے بہت سے علاقے پر قبضہ کرلیا ہے انہوں نے صلیبیوں سے کچھ رقم بھی وصول کی ہے صلاح الدین ایوبی خیمے کے اندر ٹہلنے لگا جزباتی لہجے میں بولا سلطان زنگی کے قاصد کی زبانی وہاں کے کچھ ایسے حالات معلوم ہوئے ہیں جنہوں نے مجھے پریشان کر رکھا ہے 
کیا اب صلیبی اُدھر یلغار کریں گے ؟
علی بن سفیان نے پوچھا مجھے صلیبیوں کی یلغار کی ذرہ بھر پروا نہیں سلطان ایوبی نے جواب دیا پریشانی یہ ہے کہ کفار کی یلغار کو روکنے والے شراب کے مٹکوں میں ڈوب گئے ہیں 
اسلام کے قلعے کے پاسبان حرم میں قید ہوگئے ہیں
عورت کی زلفوں نے انہیں پابہ زنجیر کردیا ہے 
علی چچا اسد الدین شیر کوہ کو اسلام کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی کاش وہ آج زندہ ہوتے میدانِ جنگ میں مجھے وہی لائے تھے ہم نے دستے کی کمان کی ہے 
میں اُن کے ساتھ صلیبیوں محاصرے میں تین مہینے رہا ہوں مجھے شیر کوہ ہمیشہ سبق دیا کرتے تھے کہ گھبراہٹ اور خوف سے بچنا تائید ایزدی اور رضائے الٰہی کا قائل رہنا اور اسلام کا علم بلند رکھنا میں شیر کوہ کی کمان میں مصریوں اور صلیبیوں کی مشترک فوج کے خلاف بھی لڑا ہوں سکندریہ میں محاصرے میں رہا ہوں شکست میرے سر پر آگئی تھی میرے مٹھی بھر عسکری بددِل ہوتے جارہے تھے میں نے کس طرح اُن کے حوصلے اور جذبے تروتازہ رکھے؟  یہ میرا خدا ہی بہتر جانتا ہے چچا شیر کوہ نے حملہ آور ہوکر محاصرہ توڑا تم یہ کہانی اچھی طرح جانتے ہو ایمان فروشوں نے کفار کے ساتھ مل کر ہمارے لیے کیسے کیسے طوفان کھڑے کیے مگر میں گھبرایا نہیں دِل نہیں چھوڑا 
مجھے سب کچھ یاد ہے سلطان علی بن سفیان نے کہا اس قدر معرکہ آرائیوں اور قتل و غارت کے بعد توقع تھی کہ مصری راہِ راست پر آجائیں گے مگر ایک غدار مرتا ہے تو ایک اور اس کی جگہ لے لیتا ہے میرا مشاہدہ یہ ہے کہ غدار کمزور خلافت کی پیداوار ہوتے ہیں ، اگر فاطمی خلافت حرم میں گم نہ ہوجاتی تو آج آپ صلیبیوں سے یورپ میں لڑرہے ہوتے مگر ہمارے غدار بھائی انہیں سلطنتِ اسلامیہ سے باہر نہیں جانے دے رہے جب بادشاہ عیش و عشرت میں پڑجائیں تو رعایا میں سے بھی کچھ لوگ بادشاہی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں  وہ کفار کی طاقت اور مدد حاصل کرتے ہیں ، ایمان فروشی میں وہ اس قدر اندھے ہوجاتے ہیں کہ کفار کے عزائم اور اپنی بیٹیوں کی عصمتوں تک کو بھلا دیتے ہیں ۔
مجھے ہمیشہ انہی لوگوں سے ڈر آتا ہے صلاح الدین ایوبی نے کہا اللہ نہ کرے اسلام کا نام جب بھی ڈوبا مسلمانوں کے ہاتھوں سے ڈوبے گا ہماری تاریخ غداروں کی تاریخ بنتی جارہی ہے یہ رجحان بتا رہا ہے کہ ایک روز مسلمان جو برائے نام مسلمان ہوں گے اپنی سرزمین کفار کے حوالے کردیں گے اگر اسلام کہیں زندہ رہا تو وہاں مسجدیں کم اور قحبہ خانے زیادہ ہوں گے ہماری بیٹیاں صلیبیوں کی طرح بال کھلے چھوڑ کر بےحیا ہوجائیں گی کفار انہیں اسی راستے پر ڈال رہے ہیں بلکہ ڈال چکے ہیں، اب مصر سے پھر وہی طوفان اُٹھ رہاہے علی تم اپنے محکمے کو اور مضبوط اور وسیع کرلو میں نے اپنے رفیقوں سے کہہ دیا ہے کہ دشمن کے علاقوں میں جاکر شب خون مارنے اور خبریں لانے کے لیے تنو مند اور ذہین جوانوں کا انتخاب کرو صلیبی اس محاذ کو مضبوط اور پُر اثر بنارہے ہیں تم فوری طور پر جاسوسی کرو جنگ کی تیاری کرو 
فوری طور پر کرنے والا کام یہ ہے کہ سمندر سے کئی ایک صلیبی بچ کر نکلے ہیں ان میں زیادہ تر زخمی ہیں اور جو زخمی نہیں وہ کئی کئی دِن سمندر میں ڈوبنے اور تیرنے کی وجہ سے زخمیوں سے بدتر ہیں ان سب کا علاج معالجہ ہو رہا ہے میں نے سب کو دیکھا ہے تم بھی انہیں دیکھ لو اور اپنی ضرورت کے مطابق ان سے معلومات حاصل کرو
سلطان ایوبی نے دربان کو بلا کر ناشتے کے لیے کہا اور علی بن سفیان سے کہا کل کچھ زخمی اور کچھ بھلی لڑکیاں میرے سامنے لائی گئی تھیں چھ تو سمندر سے نکلے ہوئے قیدی ہیں ان میں ایک پر مجھے شک ہے کہ وہ سپاہی نہیں رتبے اور عہدے والا آدمی ہے سب سے پہلے اسے ملو پانچ تاجر سات عیسائی لڑکیوں کو ساتھ لائے تھے اس نے علی بن سفیان کو لڑکیوں کے متعلق وہی کچھ بتایا جو تاجروں نے بتایا تھا سلطان ایوبی نے کہا میں نے لڑکیوں کو دراصل حراست میں لیا ہے لیکن انہیں بتایا ہے کہ میں انہیں پناہ میں لے رہا ہوں لڑکیوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ غریب گھرانوں کی لڑکیان ہیں اور پھر ان کا یہ بیان کہ انہیں ایک جلتے ہوئے جہاز میں سے کشتی میں بٹھا کر سمندر میں اُتارا گیا اور کشتی انہیں ساحل پر لے آئی مجھے شکوک میں ڈال رہا ہے میں نے انہیں الگ خیمے میں رکھا ہے اور سنتری کھڑا کر دیا ہے تم ناشتے کے فوراً بعد اس قیدی اور ان لڑکیوں کو دیکھو
آخر میں صلاح الدین ایوبی نے مُسکرا کر کہا کل دِن کے وقت ساحل پر ٹہلتے ہوئے مجھ پر ایک تیر چلایا گیا تھا جو میرے پاؤں کے درمیان ریت میں لگا اس نے تیر علی بن سفیان کو دے کر کہا علاقہ چٹانی تھا محافظ تلاش اور تعاقب کے لیے بہت دوڑے مگر انہیں کوئی تیر انداز نظر نہیں آیا اس علاقے سے انہیں یہ پانچ تاجر ملے  جنہیں محافظ میرے پاس لے آئے انہوں نے یہ سات لڑکیاں بھی میرے حوالے کیں اور چلے گئے 
اور وہ چلے گئے ؟
علی بن سفیان نے حیرت سے کہا آپ نے انہیں جانے کی اجازت دے دی ؟
محافظون نے ان کے سامان کی تلاشی لی تھی 
سلطان ایوبی نے کہا اُن سے ایسی کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی جس سے اُن پر شک ہوتا
علی بن سفیان تیر کو غور سے دیکھتا رہا اور بولا سلطان اور سراغ رساں کی نظر میں بڑا فرق ہوتا ہے 
میں سب سے پہلے ان تاجروں کو پکڑنے کی کوشش کروں گا
علی بن سفیان صلاح الدین ایوبی کے خیمے سے باہر نکلا تو دربان نے اسے کہا یہ کمان دار اطلاع لایا ہے کہ کل سات عیسائی لڑکیاں قید میں آئی تھیں اُن میں سے ایک لاپتہ ہے 
کیا سلطان کو یہ اطلاع دینا ضروری ہے ؟
یہ کوئی اہم واقعہ تو نہیں کہ سلطان کو پریشان کیا جائے
علی بن سفیان گہری سوچ میں پڑگیا کمان دار جو اطلاع دینے آیا تھا اس نے علی بن سفیان کے قریب آکر آہستہ سے کہا ایک عیسائی لڑکی کا لاپتہ ہوجانا تو اتنا اہم واقعہ نہیں مگر اہم یہ ہے کہ فخر المصری نام کا کماندار بھی رات سے لاپتہ ہے رات کے سنتریوں نے بتایا ہے کہ وہ لڑکیوں کے خیمے تک گیا تھا وہاں سے زخمیوں کے خیموں کی طرف گیا اور پھر کہیں نظر نہیں آیا رات وہ گشت پر نکلا تھا 
علی بن سفیان نے ذرا سوچ کر کہا یہ اطلاع سلطان تک ابھی نہ جائے رات کے اُس وقت کے تمام سنتریوں کو اکٹھا کرو جب فخر گشت پر نکلا تھا اس نے سلطان ایوبی کے محافظ دستے کے کمان دار سے کہا کہ کل سلطان کے ساتھ جو محافظ ساحل تک گئے تھے انہیں لاؤ  وہ وہیں تھے چاروں سامنے آگئے تو علی بن سفیان نے انہیں کہا کل جہاں تم نے تاجروں اور لڑکیوں کو دیکھا تھا وہاں فوراً پہنچو اگر وہ تاجر ابھی تک وہیں ہیں تو انہیں حراست میں لے لو اور وہیں میرا انتظار کرو اور اگر جاچکے ہوں تو فوراً واپس آؤ 
محافظ روانہ ہوگئے تو علی بن سفیان لڑکیوں کے خیمے تک گیا چھ لڑکیاں باہر بیٹھی تھی اور سنتری کھڑا تھا علی نے لڑکیوں کو اپنے سامنے کھڑا کر کے عربی زبان میں پوچھا ساتویں لڑکی کہاں ہے ؟'
لڑکیوں نے ایک دوسری کے منہ کی طرف دیکھا اور سر ہلائے علی بن سفیان نے کہا تم سب ہماری زبان سمجھتی ہو
لڑکیاں اسے حیران سا ہوکے دیکھتی رہیں علی اُن کے چہروں اور ڈیل ڈول سے شک میں پڑگیا تھا وہ لڑکیوں کے پیچھے جا کھڑا ہوا اور عربی زبان میں کہا ان لڑکیوں کے کپڑے اُتار کر ننگا کردو اور بارہ وحشی قسم کے سپاہی بلا لاؤ 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تمام لڑکیاں بدک کر پیچھے کو مُڑیں دو تین نے بیک وقت بولنا شروع کردیا وہ عربی زبان بول رہی تھیں لڑکیوں کے ساتھ تم ایسا سلوک نہیں کر سکتے ایک نے کہا ہم تمہارے خلاف نہیں لڑیں
علی بن سفیان کی ہسنی نکل گئی اس نے کہا میں تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کروں گا تم نے جس طرح ایک ہی دھمکی سے عربی بولنی شروع کردی ہے اب بغیر کسی دھمکی کے یہ بتا دو کہ ساتویں لڑکی کہاں ہے
سب نے لاعلمی کا اظہار کیا علی نے کہا میں اس سوال کا جواب لے کر رہوں گا تم نے سلطان پر ظاہر کیا ہے کہ تم ہماری زبان نہیں جانتیں اب تم ہماری زبان ہماری طرح بول رہی ہو کیا میں تمہیں چھوڑ دوں گا؟
اس نے سنتری سے کہا انہیں خیمے کے اندر بٹھا دو
رات کے سنتری آگئے تھے فخر المصری کی گشت کے وقت کے سنتریوں سے علی بن سفیان نے پوچھ گچھ کی آخر لڑکیوں کے خیمے والے سنتری نے بتایا کہ فخر رات اُسے یہاں کھڑا کر کے زخمیوں کے خیموں کی طرف گیا تھا تھوڑی دیر بعد اسے اس کی آواز سنائی دی کون ہو تم؟ نیچے آو سنتری نے اُدھر دیکھا تو اندھیرے میں اسے کچھ بھی نظر نہ آیا سامنے مٹی کے ٹیلے پر اُسے ایک آدمی کا سایہ نظر آیا اور وہ سایہ وہیں غائب ہوگیا

علی بن سفیان فوراً وہاں گیا یہ ٹیلہ ساحل کے قریب تھا اس کی مٹی ریتلی تھی ایک جگہ سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہاں کوئی اوپر گیا ہے وہاں زمین پر دو قسم کے پاؤں کے نشان تھے ایک نشان تو مرد کا تھا جس نے فوجیوں والا جوتا پہن رکھا تھا دوسرا نشان چھوٹے جوتے کا تھا اور زنانہ لگتا تھا زمین کچی اور ریتلی تھی تھی زنانہ نشان جدھر سے آیا تھا علی بن سفیان اُدھر کو چل پڑا یہ نشان اُسے اس خیمے تک لے گئے جہاں موبی رابن سے ملی تھی اس نے خیمے کا پردہ اُٹھایا اور اندر چلا گیا

اس کی چہرہ شناس نگاہوں نے زخمی قیدیوں کو دیکھا سب کے چہرے بھانپے رابن بیٹھا ہوا تھا اس نے علی بن سفیان کو دیکھا اور فوراً ہی کراہنے لگا جیسے اسے درد کا اچانک دورہ پڑا ہو علی نے اسے کندھے سے پکڑ کر اُٹھا لیا اور خیمے سے باہر لے گیا اس سے پوچھا رات کو ایک قیدی لڑکی اس خیمے میں آئی تھی کیوں آئی تھی؟
رابن اسے ایسی نظروں سے دیکھنے لگا جن میں حیرت تھی اور ایسا تاثر بھی جیسے وہ کچھ سمجھا ہی نہ ہو علی بن سفیان نے اُسے آہستہ سے کہا تم میری زبان سمجھتے ہو دوست! میں تمہاری زبان سمجھتا ہوں بول سکتا ہوں لیکن تمہیں میری زبان میں جواب دینا ہوگا رابن اس کا منہ دیکھتا رہا علی نے سنتری سے کہا اسے خیمے سے باہر رکھو
علی بن سفیان خیمے کے اندر چلا گیا اور قیدیوں سے اُن کی زبان میں پوچھا رات کو لڑکی اس خیمے میں کتنی دیر رہی تھی؟  اپنے آپ کو اذیت میں نہ ڈالو
سب چپ رہے مگر ایک اور دھمکی سے ایک زخمی نے بتا دیا کہ لڑکی خیمے میں آئی تھی اور رابن کے پاس بیٹھی یا لیٹی رہی تھی یہ زخمی سمندر سے جلتے جہاز سے کودا تھا اس نے آگ کا بھی اور پانی کا بھی قہر دیکھا تھا وہ اتنا زخمی نہیں جتنا خوف زدہ تھا وہ کسی اور مصیبت میں پڑنے کے لیے تیار نہیں تھا اس نے بتایا کہ اسے یہ معلوم نہیں کہ رابن اور لڑکی کے درمیان کیا باتیں ہوئیں اور لڑکی کون تھی اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ رابن کا عہدہ کیا ہے وہ اس کے صرف نام سے واقف تھا اس نے یہ بھی بتادیا کہ رابن اس کیمپ میں آنے تک بالکل تندرست تھا یہاں آکر وہ اس طرح کراہنے لگا جیسے اُسے اچانک کسی بیماری کا دورہ پڑگیا ہو
علی بن سفیان ایک محافظ کی راہنمائی میں اُن پانچ آدمیوں کو دیکھنے چلاگیا جو تاجروں کے بہروپ میں کچھ دُور خیمہ زن تھے محافظوں نے انہیں الگ بٹھا رکھا تھا علی کو انہوں نے پہلی اطلاع یہ دی کہ اُن کے پاس کل دو اونٹ تھے مگر آج ایک ہی ہے یہی اشارہ کافی تھا وہ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے کہ دوسرا اونٹ کہاں ہے دوسرے اونٹ کے پاؤں کے نشان مل گئے علی بن سفیان نے انہیں کہا تمہارا جُرم معمولی چوری چکاری نہیں ہے تم ایک پوری سلطنت اور اس کی تمام تر آبادی کے لیے خطرہ ہو اسلیے میں تم پر ذرہ بھر رحم نہیں کروں گا کیا تم تاجر ہو؟
ہاں سب نے سر ہلا کر کہا ہم تاجر ہیں جناب ہم بےگناہ ہیں
علی بن سفیان نے کہا اپنے ہاتھوں کی اُلٹی طرف میرے سامنے کرو پانچوں نے ہاتھ اُلٹے کر کے آگے کردئیے علی نے سب کے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی اُنگلی کی درمیانی جگہ کو دیکھا اور ایک آدمی کو کلائی سے پکڑ کر گھسیٹ لیا اسے کہا کمان اور ترکش کہاں چھپا رکھی ہے؟
اس آدمی نے معصوم بننے کی بہت کوشش کی علی نے سلطان ایوبی کے ایک محافظ کو اپنے پاس بلا کر اس کے بائیں ہاتھ کی اُلٹی طرف اسے دکھائی اس کے انگوٹھے کے اُلٹی طرف اُس جگہ جہاں انگوٹھا ہتھیلی کے ساتھ ملتا ہے یعنی جہاں جوڑ ہوتاہے وہاں ایک نشان تھا
ایسا نشان اس آدمی کے انگوٹھے کے جوڑ پر بھی تھا
علی نے اسے اپنے محافظ کے متعلق بتایا یہ سلطان ایوبی کا بہترین تیر انداز ہے اور یہ نشان اس کا ثبوت ہے کہ یہ تیر انداز ہے اس کے انگوٹھے کی اُلٹی طرف ایک مدھم سا نشان تھا جیسے وہاں بار بار کوئی چیز رگڑی جاتی رہی ہو یہ تیروں کی رگڑ کے نشان تھے تیر دائیں ہاتھ سے پکڑا جاتا ہے کمان بائیں ہاتھ سے پکڑی جاتی ہے تیر کا اگلا حصہ بائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ہوتا ہے اور جب تیر کمان سے نکلتا ہے تو انگوٹھے پر رگڑ کھا جاتا ہے  ایسا نشان ہر ایک تیر انداز کے ہاتھ میں ہوتا تھا
علی بن سفیان نے کہا ان پانچ میں تم اکیلے تیر انداز ہو کمان اور ترکش کہاں ہے؟ پانچوں چپ رہے علی نے ان پانچ میں سے ایک کو پکڑ کر محافظوں سے کہا اس کو اُس درخت کے ساتھ باندھ دو اسے کھجور کے درخت کے ساتھ کھڑا کر کے باندھ دیا گیا علی نے اپنے تیر انداز کے کان میں کچھ کہا تیر انداز نے کندھے سے کمان اُتار کر اس میں تیر رکھا اور درخت سے بندھے ہوئے آدمی کا نشانہ لے کر تیر چھوڑا تیر اس آدمی کی دائیں آنکھ میں اتر گیا وہ تڑپنے لگا علی نے باقی چار سے کہا تم میں کتنے ہیں جو صلیب کی خاطر اس طرح تڑپ تڑپ کر جان دینے کو تیار ہیں؟ 
اس کی طرف دیکھو انہوں نے دیکھا وہ آدمی چیخ رہا تھا تڑپ رہا تھا اس کی آنکھ سے خون بُری طرح بہہ رہا تھا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں علی بن سفیان نے کہا کہ باعزت طریقے سے تم سب کو سمندر پار بھیج دوں گا دوسرے اونٹ پر کون گیا ہے؟  کہاں گیا ہے ؟
تمہارا اپنا ایک کمان دار ہمارا ایک اونٹ ہم سے چھین کر لے گیا ہے ایک آدمی نے کہا اور ایک لڑکی بھی 'علی بن سفیان نے کہا تھوڑی ہی دیر بعد علی بن سفیان کے فن نے اُن سے اعتراف کروا لیا کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں  مگر انہوں نے یہ جھوٹ بولا کہ لڑکی رات خیمے سے بھاگ آئی تھی اور اس نے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی نے رات اسے اپنے خیمے میں رکھا تھا اس نے شراب پی رکھی تھی اور لڑکی کو بھی پلائی تھی اور لڑکی گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں آئی تھی اس کے تعاقب میں فخر المصری نام کا ایک کمان دار آیا اور اس نے جب لڑکی کی باتیں سنیں تو اسے ہمارے اونٹ پر بٹھا کر زبردستی لے گیا انہوں نے وہ تمام بہتان علی بن سفیان کو سنائے جو لڑکی نے سلطان ایوبی پر لگائے تھے ۔
علی نے مُسکرا کر کہا تم پانچ تربیت یافتہ عسکری اور تیر انداز اور ایک آدمی تم سے لڑکی بھی لے گیا اور اونٹ بھی ؟
اس نے انہی کی نشاندہی پر زمین میں دبائی ہوئی کمان اور ترکش بھی نکلوالی ان چاروں کو خیمہ گاہ میں بھجوا دیا گیا پانچواں آدمی تڑپ تڑپ کر مرچکا تھا اونٹ کے پاؤں کے نشان صاف نظر آرہے تھے علی بن سفیان نے نہایت سرعت سے دس سوار بلائے اور انہیں اپنی کمان میں لے کر اس طرف روانہ ہوگیا جدھر اونٹ گیا تھا
مگر اونٹ کی روانگی اور اس کے تعاقب میں علی بن سفیان کی روانگی میں چودہ پندرہ گھنٹوں کا فرق تھا اونٹ تیز تھا اور اسے آرام کی بھی زیادہ ضرورت نہیں تھی اونٹ پانی اور خوراک کے بغیر چھ سات دِن تروتازہ رہ سکتا ہے اسکے مقابلے میں گھوڑوں کو راستے میں کئی بار آرام پانی اور خوراک کی ضرورت تھی ان عناصر نے تعاقب ناکام بنا دیا اونٹ نے چودہ پندرہ گھنٹوں کا فرق پورا نہ ہونے دیا فخر المصری نے تعاقب کے پیشِ نظر قیام بہت کم کیا تھا علی بن سفیان کو راستے میں صرف ایک چیز ملی یہ ایک تھیلا تھا اس نے رُک کر تھیلا اُٹھایا کھول کر دیکھا اس میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں اسی تھیلے میں ایک اور تھیلا تھا اس میں بھی وہی چیزیں تھیں علی بن سفیان کے سونگھنے کی تیز حس نے اسے بتا دیا کہ ان اشیاء میں حشیش ملی ہوئی ہے راستے میں اُسے دو جگہ ایسے آثار ملے تھے جن سے پتہ چلتا تھا کہ یہاں اونٹ رُکا ہے اور سوار یہاں بیٹھے ہیں کھجوروں کی گٹھلیاں پھلوں کے بیج اور چھلکے بھی بکھرے ہوئے تھے تھیلے نے اسے شک میں ڈال دیا اس کے ذہن میں یہ شک نہ آیا کہ فخرالمصری کو حشیش کے نشے میں لڑکی اپنے محافظ کے طور پر ساتھ لے جا رہی ہے تاہم اس نے تھیلا اپنے پاس رکھا مگر تھیلے کی تلاشی اور قیام نے وقت ضائع کر دیا تھا۔ 
فخر المصری اور موبی منزل پر نہ بھی پہنچتے اور راستے میں پکڑے بھی جاتے تو کوئی فرق نہ پڑتا سوڈانی لشکر میں ناجی ، اوروش اور ان کے ساتھی جو زہر پھیلا چکے تھے وہ اثر کر گیا تھا فاطمی خلافت کے وہ فوجی سربراہ جو برائے نام جرنیل اور دراصل حاکم بنے ہوئے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی کو ایک ناکام امیر اور بے کار حاکم ثابت کرنا چاہتے تھے مسلمان حکمران حرم میں اُن لڑکیوں کے اسیر ہوگئے تھے حکومت کا کارو بار خود ساختہ افسر چلا رہے تھے من مانی اور عیش و عشرت کر رہے تھے 
وہ نہیں چاہتے تھے کہ صلاح الدین ایوبی جیسا کوئی مذہب پسند اور قوم پرست قائد قوم کو جگا دے اور حکمرانوں اور سلطانوں کو حرم کی جنت سے باہر لاکر حقائق کی دُنیا میں لے آئے سلطان ایوبی کے پہلے معرکوں سے جو اس نے اپنے چچا شیر کوہ کی قیادت میں لڑے تھے یہ لوگ جان چکے تھے کہ اگر یہ شخص اقتدار میں آگیا تو اسلامی سلطنت کو مذہب اور اخلاقیات کی پابندیوں میں جکڑلے گا لہٰذا انہوں نے ہر وہ داؤ کھیلا جو سلطان ایوبی کو چاروں شانے چت گرا سکتا تھا انہوں نے درپردہ صلیبیوں سے تعاون کیا اور ان کے جاسوسوں اور تخریب کاروں کے لیے زمین ہموار کی اور اس کے راستے میں چٹانیں کھڑی کیں اگر نور الدین زنگی نہ ہوتا تو آج نہ صلاح الدین ایوبی کا تاریخ میں نام ہوتا نہ آج نقشے پر اتنے زیادہ اسلامی ممالک نظر آتے
نور الدین زنگی نے ذرا سے اشارے پر بھی سلطان ایوبی کو  مدد بھیجی صلیبیوں نے مصری فوج کے سوڈانیوں کے بلاوے پر بحیرۂ روم سے حملہ کیا تو نورالدین زنگی نے اطلاع ملتے ہی خشکی پر صلیبیوں کی ایک مملکت پر حملہ کر کے اُن کے اس لشکر کو مفلوج کردیا جو مصر پر حملہ کرنے کے لیے جارہا تھا۔یہ تو سلطان ایوبی کا نظامِ جاسوسی ایسا تھا کہ اس نے صلیبیوں کا بیڑہ غرق کردیا۔ اب علی بن سفیان نے زنگی کی طرف برق رفتار قاصد یہ خبر دینے کے لیے دوڑا دئیے تھے کہ سوڈانیوں کی بغاوت کا خطرہ ہے اور ہماری فوج کم بھی ہے ، دو حصوں میں بٹ بھی گئی ہے ۔قاصد پہنچ گئے تھے اور نورالدین زنگی نے خاصی فوج کو مصر کی طرف کوچ کا حکم دے دیا تھا۔ بعض مورخین نے اس فوج کی تعداد دو ہزار سوار اور پیادہ لکھی ہے اور کچھ اس سے زیادہ بتاتے ہیں 
بہر حال زنگی نے اپنی مشکلات اور ضروریات کی پروا نہ کرتے ہوئے سلطان ایوبی کی مشکلات اور ضروریات کو اہمیت اور اولیت دی مگر اس کی فوج کو پہنچنے کے لیے بہت دِن درکار تھے ۔
مسلمان نام نہاد فوجی اور دیگر سرکردہ شخصیتوں نے دیکھا کہ مصر میں سلطان ایوبی کے خلاف بے اطمینانی اور بغاوت پھوٹ رہی ہے تو انہوں نے اسے ہوا دی در پردہ سوڈانیوں کو اُکسایا اور اپنے مخبروں کے ذریعے یہ بھی معلوم کرلیا کہ سوڈانیوں کے سالاروں کو مروا کر خفیہ طریقے سے دفن کردیا گیا ہے  سوڈانی لشکر کے کم رتبے والے کماندار سالار بن گئے اور صلاح الدین ایوبی کی اس قلیل فوج پر حملہ کرنے کے منصوبے بنانے لگے جو مصر میں مقیم تھی 
وہ سلطان ایوبی کی آدھی فوج اور سلطان کی دار الحکومت سے غیر حاضری سے فائدہ اُٹھانا چاہتے تھے منصوبہ ایسا تھا کہ جس کے تحت پچاس ہزار سوڈانی فوجی سیاہ گھٹا کی طرح مصر کے آسمان سے اسلام کے چاند کو روپوش کرنے والی تھی

علی بن سفیان قاہرہ پہنچ گیا وہ جن کے تعاقب میں گیا تھا اُن کا اُس سے آگے کوئی سراخ نہیں مل رہا تھا اس نے اپنے اُن جاسوسوں کو بلایا جو اس نے سوڈانی ہیڈ کوارٹر اور فوج میں چھوڑ رکھے تھے ان میں سے ایک نے بتایا کہ گزشتہ رات ایک اونٹ آیا تھا اندھیرے میں جو کچھ نظر آسکا وہ دوسوار تھے ایک عورت اور ایک مرد جاسوس نے یہ بھی بتایا کہ وہ کون سی عمارت میں داخل ہوئے تھے علی بن سفیان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ وہاں چھاپہ مارتا سوڈانی فوج سلطنتِ اسلامیہ کی فوج تھی کوئی آزاد فوج نہیں تھی مگر علی نے اس خدشے کے پیش نظر چھاپہ نہ مارا کہ یہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا اس کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ موبی اور فخر المصری کو گرفتار کرنا ہے بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ سوڈانی قیادت کے عزائم اور آئندہ منصوبے معلوم کیے جائیں تاکہ پیش بندی کی جاسکے اس نے اپنے جاسوسوں کو نئی ہدایات جاری کیں جاسوسوں میں غیر مسلم لڑکیاں بھی تھیں جو عیسائی یا یہودی نہیں تھیں
یہ قحبہ خانوں کی بڑی ذہین اور تیز طرار لڑکیاں تھیں مگر علی بن سفیان نے ان پر کبھی سو فیصد بھروسہ نہیں کیا تھا کیونکہ وہ دوغلا کھیل بھی کھیل سکتی تھیں ان لڑکیوں سے بھی اُس لڑکی موبی کا سراغ نہ مل سکا جس کے تعاقب میں علی آیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی