⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟟⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ آدمی خاموش ہوگئے موبی دبے پاؤں آگے بڑھی اسے بائیں طرف قدموں کی آہٹ سنائی دی اس نے چونک کر دیکھا درختوں کے درمیان اسے ایک سیاہ سایہ جو کسی انسان کا تھا جاتا نظر آیا اس نے رخ بدل لیا اور ٹیلے کی طرف آنے لگا موبی کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی وہ ٹیلے پر چڑھنے لگی ٹیلا اونچا نہیں تھا
فوراً ہی اوپر چلی گئی وہ تھی تو بہت ہوشیار لیکن ہر انسان ہر قدم پر پوری احتیاط نہیں کر سکتا وہ ٹیلے کی چوٹی پر کھڑی ہوگئی اس کے پس منظر میں ستاروں سے بھرا ہوا آسمان تھا سمندر اور صحرا کی فضا رات کو آئینے کی طرح شفاف ہوتی ہے درختوں میں جاتے ہوئے آدمی نے ٹیلے کی چوٹی پر ٹنڈ منڈ درخت کے تنے کی طرح کا ایک سایہ دیکھا موبی نے پہلو اس آدمی کی طرف کر دیا اس کے بال کھلے ہوئے تھے جنہیں اس نے ہاتھ سے پیچھے کیا اس کی ناک کا ابھار اور لمبا لبادہ تاریکی میں بھی راز کو فاش کرنے لگا یہ آدمی سنتریوں کا کماندار تھا وہ آدھی رات کے وقت کیمپ کے گشت پر نکلا اور سنتریوں کو دیکھتا پھر رہا تھا یہ سنتریوں کی تبدیلی کا وقت تھا کماندار اس لیے زیادہ چوکس تھا کہ سلطان ایوبی تین سالاروں کے ساتھ کیمپ میں موجود تھا
سلطان ڈسپلن کا بڑا ہی سخت تھا ہر کسی کو ہر لمحہ خطرہ لگا رہتا تھا کہ سلطان رات کو اٹھ کر گشت پر آجائے گا کماندار سمجھ گیا کہ ٹیلے پر کوئی لڑکی کھڑی ہے
اسی شام کمان داروں کو خبردار کیا گیا تھا کہ صلیبیوں نے جاسوسی اور تخریب کاری کیلئے لڑکیوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے
یہ لڑکیاں صحرائی خانہ بدوشوں کے بہروپ میں بھی ہو سکتی ہیں اور ایسی غریب لڑکیوں کے بھیس میں بھی جو فوجی کیمپوں میں کھانے کی بھیگ مانگنے آتی ہیں اور یہ لڑکیاں اپنے آپ کو مغویہ اور مظلوم ظاہر کر کے پناہ مانگ سکتی ہیں
کمانداروں کو بتایا گیا تھا کہ آج رات سات لڑکیاں سلطان کی پناہ میں آئی ہیں
جنہیں بظاہر رحم کرکے مگر انہیں مشتبہ سمجھ کر پناہ میں لے لیا گیا ہے اس کے کماندار نے یہ احکام سن کر اپنے ایک ساتھی سے کہا تھا
اللّٰہ کرے ایسی کوئی لڑکی مجھ سے پناہ مانگے اور وہ دونوں ہنس پڑے تھے اب آدھی رات کے وقت جب سارا کیمپ سو رہا تھا
اسے ٹیلے پر ایک لڑکی کا ہیولا نظر آرہا تھا پہلے تو وہ ڈرا کہ یہ چڑیل یا جن ہو سکتا ہے اس نے نئے سنتری کو لڑکیوں کے خیمے پر کھڑا کرکے اسے بتایا تھا کہ اندر سات لڑکیاں ہیں
اس نے پردہ اُٹھا کر دیکھا تو دئیے کی روشنی میں اسے سات بستر نظر آئے تھے ہر لڑکی نے منہ بھی کمبلوں میں ڈھانپ رکھا تھا سردی زیادہ تھی اس نے اندر جا کر یہ نہیں دیکھا کہ ساتواں بستر خالی ہے اور اس پر کمبل اس طرح رکھے گئے ہیں جیسے ان کے نیچے لڑکی سوئی ہوئی ہو اسے معلوم نہیں تھا کہ ساتویں لڑکی ٹیلے پر اس کے سامنے کھڑی ہے
وہ کچھ دیر سوچتا رہا کہ اسے آواز دے یا اس تک خود جائے یا اگر وہ جن یا چڑیل ہے تو اس کے غائب ہونے کا انتظار کرے تھوڑی سی دیر کے انتظار کے بعد بھی لڑکی غائب نہ ہوئی بلکہ وہ تین قدم آگے چلی اور پھر پیچھے کو چل پڑی اور پھر رُک گئی کماندار جس کا نام فخر المصری تھا
آہستہ آہستہ ٹیلے تک گیا اور کہا کون ہو تم ؟
نیچے آؤ لڑکی نے ہرن کی طرح چوکڑی بھری اور ٹیلے کی دوسری طرف اُتر گئی فخر کو یقین آگیا کہ کوئی انسان ہے جن چڑیل نہیں وہ تنومند مرد تھا ٹیلا اونچا نہیں تھا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ٹیلے پر چڑھ گیا اُدھر بھی اندھیرا تھا رات کی خاموشی میں اسے لڑکی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی وہ ٹیلے سے دوڑتا اُترا اور لڑکی کے پیچھے گیا لڑکی اور تیز دوڑ پڑی فاصلہ بہت کم تھا لیکن فخر مرد تھا فوجی تھا چیتے کی رفتار سے دوڑ رہا تھا۔
ٹیلے کے پیچھے اُونچی نیچی زمین خشک جھاڑیاں اور کہیں کہیں کوئی درخت تھا بہت سا دوڑ کر فخر المصری نے محسوس کیا کہ اس کے آگے تو کوئی بھی نہیں اِس نے رُک کر اِدھر اُدھر دیکھا اسے اپنے پیچھے بائیں کو لڑکی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی وہ تربیت یافتہ لڑکی تھی جہاں اسے حُسن اور شباب کے استعمال کی تربیت دی گئی تھی وہاں اسے فوجی ٹریننگ بھی دی گئی تھی اور خنجر زنی کے داؤ پیچ بھی سکھائے گئے تھے
وہ ایک درخت کی اوٹ میں چھپ گئی تھی
فخر آگے گیا تو وہ دوسری طرف دوڑ پڑی یہ تعاقب آنکھ مچولی کی مانند تھا فخر کو اندھیرا پریشان کر رہا تھا موبی کے قدم خاموش ہوجاتے تو وہ رُک جاتا قدموں کی آواز سنائی دیتی تو وہ دوڑ پڑتا غصے سے وہ باولا ہوا جارہا تھا اس نے یہ جان لیا تھا کہ یہ کوئی جوان لڑکی ہے
اگر بڑی عمر کی ہوتی تو اتنی تیز اور اتنا زیادہ نہ بھاگ سکتی تعاقب میں فخر دو میل فاصلہ طے کر گیا موبی نے جھاڑیوں اور اونچی نیچی زمین سے بہت فائدہ اُٹھایا اس کے مرد ساتھیوں کا ڈیرہ قریب آگیا تھا
وہ دوڑتی ہوئی وہاں تک جا پہنچی اس نے اپنے آدمیوں کو آوازیں دیں وہ گھبرا کر جاگے اور خیمے سے باہر آئے ایک نے مشعل جلالی یہ ڈنڈے کے سرے پر لپٹے ہوئے کپڑے تھے ان کی آگ کی روشنی بہت زیادہ تھی
فخر نے تلوار سونت لی اور ہانپتا کانپتا ان کے سامنے جا کھڑا ہوا
اس نے دیکھا کہ یہ پانچ آدمی لباس سے سفری تاجر نظر آتے ہیں اور مسلمان لگتے ہیں لڑکی ان میں سے ایک کی ٹانگوں کو دونوں بازوؤں میں مضبوطی سے پکڑے بیٹھی ہوئی تھی مشعل کے ناچتے شعلے میں اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور خوف نظر آ رہا تھا اس کا سینہ اُبھر اور بیٹھ رہا تھا اس کی سانسیں بُری طرح اُکھڑی ہوئی تھیں یہ لڑکی میرے حوالے کر دو فخر المصری نے حکم کے لہجے میں کہا یہ ایک نہیں ایک آدمی نے التجا کے لہجے میں جواب دیا ہم نے تو سات لڑکیاں آپ کے سلطان کے حوالے کی ہیں
آپ اسے لے جا سکتے ہیں
نہیں موبی نے اس کی ٹانگوں کو اور مضبوطی سے پکڑتے ہوئے روتے ہوئے اور خوف زدہ لہجے میں کہا میں اس کے ساتھ نہیں جاؤں گی یہ لوگ عیسائیوں سے زیادہ وحشی ہیں
ان کا سلطان انسان نہیں سانڈ ہے درندہ ہے اس نے میری ہڈیاں بھی توڑ دی ہیں
میں اس سے بھاگ کر آئی ہوں کون سلطان؟
فخر نے حیران سا ہو کر پوچھا وہی جسے تم صلاح الدین ایوبی کہتے ہو موبی نے جواب دیا وہ اب مصر کی زبان بول رہی تھی
یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے فخر نے کہا اور پوچھا یہ ہے کون ؟
تمہاری کیا لگتی ہے ؟
اندر آجاؤ دوست باہر سردی ہے ایک آدمی نے فخر سے کہا تلوار نیام میں ڈال لو ہم تاجر ہیں ہم سے آپ کو کیا خطرہ آؤ اس لڑکی کی بپتا سن لو اس نے آہ بھر کر کہا میں آپ کے سلطان کو مردِ مومن سمجھتا تھا مگر ایک خوبصورت لڑکی دیکھ کر وہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا وہ باقی چھ لڑکیوں کا بھی یہی حشر کر رہا ہوگا ان کا یہ حشر دوسرے سالاروں نے کیا ہے موبی نے کہا شام کو ان بے چاریوں کو اپنے خیمے میں لے گئے تھے اور انہیں بے سُدھ کر کے خیمے میں ڈال دیا وہ خیمے میں بے ہوش پڑی ہیں
فخرالمصری تلوار نیام میں ڈال کر ان کے ساتھ خیمے میں چلا گیا اندر جا کر بیٹھے تو آدمی نے آگ جلا کر قہوے کے لیے پانی رکھا اور اس میں جانے کیا کچھ ڈالتا رہا دوسرے آدمی نے فخر سے پوچھا کہ اس کا رُتبہ کیا ہے اس نے بتایا کہ وہ کمان دار اور عہدے دار ہے انہوں نے اس کے ساتھ بہت سی باتیں کیں جن سے انہوں نے اندازہ کر لیا کہ یہ شخص عام قسم کا سپاہی نہیں اور ذمہ دار فرد ہے
ذہین اور دلیر بھی ہے ان لوگوں میں سے ایک (کرسٹوفر تھا) فخر کو سات لڑکیوں کی بالکل وہی کہانی سنائی جو انہوں نے صلاح الدین ایوبی کو سنائی تھی انہوں نے فخر کو یہ بھی بتایا کہ سلطان ایوبی نے ان کے متعلق کیا کہا تھا ان لڑکیوں نے سلطان کو پیشکش بھی کی تھی کہ وہ اپنے گھروں کو تو واپس نہیں جا سکتیں اور عیسائیوں کے پاس بھی نہیں جانا چاہتیں اس لیے وہ مسلمان ہونے کو تیار ہیں ، بشرطیکہ کوئی اچھے رتبوں والے عسکری اُن کے ساتھ شادی کر لیں ہم نے سنا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کردار کے لحاظ سے پتھر ہے ۔
ہم ہر روز سفر پر رہنے والے تاجر ہیں انہیں کہاں ساتھ لیے پھرتے اُنہیں سلطان کے حوالے کر دیا گیا مگر سلطان نے اس لڑکی کے ساتھ جو سلوک کیا وہ اس کی زبانی سن لو۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
فخر المصری نے لڑکی کی طرف دیکھا تو لڑکی نے کہا :ہم بہت خوش تھیں کہ خدا نے ہمیں ایک فرشتے کی پناہ دی ہے سورج غروب ہونے کے بعد سلطان کا ایک محافظ آیا اور مجھے کہا کہ سلطان بلا رہا ہے میں باقی چھ لڑکیوں کی نسبت ذرا زیادہ خوبصورت ہوں مجھے توقع نہیں تھی کہ تمہارا ایوبی بُری نیت سے بلا رہا ہے میں چلی گئی سلطان ایوبی نے شراب کی صراحی کھولی ایک پیالہ اپنے آگے رکھا اور ایک مجھے دیا میں عیسائی ہوں شراب سو بار پی ہے بحری جہاز میں عیسائی کمان داروں نے میرے جسم کو کھلونہ بنائے رکھا ہے
صلاح الدین ایوبی بھی میرے جسم کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا
لیکن ایوبی کو میں فرشتہ سمجھتی تھی میں اس کے جسم کو اپنے ناپاک جسم سے دور رکھنا چاہتی تھی
مگر وہ ان عیسائیوں سے بدتر نکلا جو مجھے بحری جہاز میں لائے تھے اور جب اُن کا جہاز ڈوبنے لگا تو انہوں نے ہمیں ایک کشتی میں ڈال کر سمندر میں اُتار دیا ان میں سے کسی نے ہمارا ساتھ نہ دیا ہمارے جسم چچوڑے ہوئے اور ہڈیاں چٹخی ہوئی تھی
خدا نے ہمیں بچالیا اور اس آدمی کی پناہ میں پھینک دیا جو فرشتے کے روپ میں درندہ ہے
مجھے سلطان نے ہی بتایا تھا کہ میرے ساتھ کی باقی چھ لڑکیاں اس کے سالاروں کے خیموں میں ہیں
میں نے سلطان کے پاؤں پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ شادی کرلو اس نے کہا اگر تم مجھے پسند کرتی ہو تو شادی کے بغیر تمہیں اپنے حرم میں رکھ لوں گا اس نے میرے ساتھ وحشیوں کا برتاؤ کیا شراب میں بد مست تھا۔
جوں ہی اس کی آنکھ لگی میں وہاں سے بھاگ آئی اگر میری بات کا اعتبار نہ آئے تو اس کے محافظوں سے پوچھ لو اس دوران ایک آدمی نے فخر کو قہوہ پلایا ذرا سی دیر بعد فخر کا مزاج بدلنے لگا اس نے نفرت سے قہقہہ لگایا اور کہا ہمیں حکم دیتے ہیں کہ عورت اور شراب سے دور رہو اور خود شراب پی کر راتیں عورتوں کے ساتھ گزارتے ہیں
فخر محسوس ہی نہ کر سکا کہ لڑکی کی کہانی محض بے بنیاد ہے اور نہ ہی وہ محسوس کر سکا کہ اس کا مزاج کیوں بدل گیاہے اُسے حشیش پلا دی گئی تھی اس پر ایسا نشہ طاری ہوچکا تھا جسے وہ نشہ نہیں سمجھتا تھا وہ اب اپنے تصوروں میں بادشاہ بن چکا تھا لڑکی کے چہرے پر مشعل کے شعلے کی روشنی ناچ رہی تھی اس کے بکھرے ہوئے سیاہی مائل بھورے بال چمک رہے تھے وہ فخر کو پہلے سے زیادہ حسین نظر آنے لگی اس نے بے تاب ہوکر کہا تم اگر چاہو تو میں تمہیں پناہ میں لیتا ہوں نہیں لڑکی ڈر کر پیچھے ہٹ گئی اور بولی تم بھی میرے ساتھ اپنے سلطان جیسا سلوک کرو گے تم مجھے اپنے خیمے میں لے جاؤ گے اور میں ایک بار پھر تمہارے سلطان کے قبضے میں آجاؤں گی ہم تو اب دوسری چھ لڑکیوں کو بھی بچانے کی سوچ رہے ہیں
ایک تاجر نے کہا ہم ان کی عزت بچانا چاہتے تھے مگر ہم سے بھول ہوئی فخر المصری کی نگاہیں لڑکی پر جمی ہوئی تھیں
اس نے اتنی خوب صورت لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی خیمے میں خاموشی طاری ہوگئی جسے کرسٹوفر نے توڑا اس نے کہا تم عرب سے آئے ہویا مصری ہو؟
مصری فخرنے کہا میں دو جنگیں لڑ چکا ہوں اسی لیے مجھے یہ عہدہ دیا گیا ہے سوڈانی فوج کہاں ہے
جس کا سالار ناجی ہے
کرسٹوفر نے پوچھا اُس فوج کا ایک سپاہی بھی ہمارے ساتھ نہیں آیا فخر نے جواب دیا جانتے ہو ایسا کیوں ہوا ہے؟
کرسٹوفر نے کہا سوڈانیوں نے صلاح الدین ایوبی کی امارات اور کمان کو تسلیم نہیں کیا وہ فوج اپنے آپ کو آزاد سمجھتی ہے
ناجی نے سلطان ایوبی کو بتا دیا تھا کہ وہ مصر سے چلے جائیں کیونکہ وہ غیر ملکی ہیں اسی لیے ایوبی نے مصریوں کی فوج بنائی اور لڑانے کے لیے یہاں لے آیا اس نے تم لوگوں کو شرافت اور نیکی کا جھانسہ دیا اور خود عیش کر رہا ہے
کیا تمہیں مالِ غنیمت ملا ہے؟
اگر تمہیں ملا بھی تو سونے چاندی کے دو دو ٹکڑے مل جائیں گے صلیبیوں کے جہازوں سے بے بہا خزانہ سلطان ایوبی کے ہاتھ آیا ہے وہ سب رات کے اندھیرے میں سینکڑوں اونٹوں پر لاد کر قاہراہ روانہ کر دیا گیا ہے جہاں سے دمشق اور بغداد چلا جائے گا سوڈانی لشکر کو سلطان نہتا کر کے غلاموں میں بدل دینا چاہتا ہے پھر عرب سے فوج آجائے گی اور تم مصری بھی غلام ہو جاؤ گے.
اس عیسائی کی ہر ایک بات فخر المصری کے دل میں اُترتی جا رہی تھی اثر باتوں کا نہیں بلکہ موبی کے حسن اور حشیش کا تھا
عیسائیوں نے یہ حربہ حسنِ بن صباح کے حشیشین سے سیکھا تھا موبی کو بالکل توقع نہیں تھی کہ یہ صورتِ حال پیدا ہوجائے گی کہ ایک مصری اس کے تعاقب میں اس کے دام میں آجائے گا انہیں معلوم ہوگیا کہ فخر مصر کی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتا موبی نے اپنے پانچوں ساتھیوں کو سنانا شروع کر دیا کہ رابن زخمی ہونے کا بہانہ کرکے زخمیوں کے خیمے میں پڑا ہے اور اس نے کہا ہے کہ ناجی سے مل کر معلوم کرو کہ اس نے بغاوت کیوں نہیں کی یا اس نے عقب سے صلاح الدین ایوبی پر حملہ کیوں نہیں کیا اور یہ بھی معلوم کرو کہ اس نے ہمیں دھوکہ تو نہیں دیا؟
وہ باتیں کر رہی تھی تو فخر نے پوچھا یہ کیا کہہ رہی ہے؟
یہ کہہ رہی ہے
ایک نے جواب دیا اگر یہ شخص یعنی تم صلاح الدین کی فوج میں نہ ہوتے تو یہ تمہارے ساتھ شادی کرلیتی یہ مسلمان ہونے کو بھی تیار ہے لیکن کہتی ہے کہ اسے اب مسلمانوں پر بھروسہ نہیں رہا فخر نے بے تابی سے لپک کر لڑکی کو بازو سے پکڑا اور اپنی طرف گھسیٹ کر کہا اگر میں بادشاہ ہوتا تو خدا کی قسم تمہاری خاطر تخت اور تاج قربان کر دیتا اگر شرط یہی ہے کہ میں صلاح الدین ایوبی کی دی ہوئی تلوار پھینک دوں تو یہ لو اس نے کمر بند سے تلوار کھولی اور نیام سمیت لڑکی کے قدموں میں رکھ دی کہا میں اب سے ایوبی کا سپاہی اور کمان دار نہیں ہوں مگر ایک شرط اور بھی ہے لڑکی نے کہا میں اپنا مذہب تمہاری خاطر ترک کر دیتی ہوں لیکن صلاح الدین ایوبی سے انتقام ضرور لوں گی کیا اسے میرے ہاتھ سے قتل کرانا چاہتی ہو؟
فخر نے پوچھا لڑکی نے اپنے آدمیوں کی طرف دیکھا سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا آخر کرسٹوفر نے کہا ایک صلاح الدین ایوبی نہ رہا تو کیا فرق پڑے گا؟
ایک اور سلطان آجائے گا وہ بھی ایسا ہی ہوگا مصریوں کو آخر غلام ہی ہونا پڑے گا تم ایک کام کرو سوڈانیوں کے سالار ناجی کے پاس پہنچو اور یہ لڑکی اس کے سامنے کر کے اسے بتاؤ کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اصل میں کیا ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں ؟
ان لوگوں کو یہ تو علم تھا کہ ناجی کا صلیبیوں کے ساتھ رابطہ ہے اور موبی اس کے ساتھ بات کرے گی لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ ناجی اور اس کے معتمد سالار خفیہ طریقے سے مروائے جاچکے ہیں اس تک لڑکی کو ہی جانا تھا اس کا اکیلے جانا ممکن نہیں تھا اتفاق سے انہیں فخر المصری مل گیا لہٰذا اسی کو استعمال کرنے کا فیصلہ ہوگیا یہ آدمی چونکہ سلطان ایوبی کی نظر میں آگئے تھے اس لیے بھی اس کی نظر میں رہنا چاہتے تھے اس کے علاوہ انہوں نے موبی سے سن لیا تھا کہ ان کے شعبہ جاسوسی اور تخریب کاری کا سربراہ رابن اسی کیمپ میں ہے اور فرار ہوگا اس لیے وہ اسے مدد دینے کے لیے بھی وہاں موجود رہنا چاہتے تھے ان کے ارادے معلوم نہیں کیا تھے صلاح الدین ایوبی پر چلایا ہوا اِن کا تیر خطا گیا تو انہیں سلطان ایوبی کے سامنے لے جایا گیا تھا
ان کا بہروپ اور ڈرامہ کامیاب رہا لیکن ان کا مشن تباہ ہوگیا تھا
لہٰذا اب وہ بدلی ہوئی صورتِ حال اور اتفاقات سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کررہے تھے فخر المصری حسن اور حشیش کے جال میں آگیا تھا، اس نے واپس کیمپ میں نہ جانے کا فیصلہ کرلیا تھا
اسکو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ لڑکی کو لے کر روانہ ہوجائے اُن لوگوں نے اسے اپنا ایک اونٹ دے دیا پانی کا ایک مشکیزہ دیا اور تھیلے میں کھانے کا بہت سارا سامان ڈال دیا ان اشیاء میں کچھ ایسی تھیں جن میں حشیش ملی ہوئی تھی موبی کو ان کا علم تھا فخر کو ایک لمبا چغہ اور تاجرروں والی دستار پہنا دی گئی لڑکی اونٹ پر سوار ہوئی اس کے پیچھے فخر سوار ہوگیا اور اونٹ چل پڑا فخر گرد و پیش سے بے خبر تھا اور وہ اپنے ماضی سے بھی بے خبر ہوگیا تھا صرف یہ احساس اس پر غالب تھا کہ روئے زمین کی حسین ترین لڑکی اس کے قبضے میں ہے جس نے سلطان کو ٹھکرا کر اسے پسند کیا ہے موبی نے کہا تم عیسائی کمان داروں اور اپنے سلطان کی طرح وحشی تو نہیں بنو گے؟
میں تمہاری ملکیت ہوں کہو تو میں اونٹ سے اُتر جاتا ہوں فخر نے کہا مجھے صرف یہ بتادو کہ تم مجھے دل سے چاہتی ہو یا محض مجبوری کے عالم میں میری پناہ لی ہے ؟'
پناہ تو میں ان تاجروں کی بھی لے سکتی تھی موبی نے جواب دیا لیکن تم مجھے اتنے اچھے لگے کہ تمہاری خاطر مذہب تک چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اس نے جذباتی باتیں کرکے فخر کے اعصاب پر قبضہ کر لیا اور رات گزرتی چلی گئی سفر کم و بیش پانچ دنوں کا تھا، لیکن فخر المصری عام راستوں سے ہٹ کر جا رہا تھا کیونکہ وہ بھگوڑا فوجی تھا ۔
موبی کو نیند آنے لگی گہری نیند سوگئی اونٹ چلتا رہا فخر جاگتا رہا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*