🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 37*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *37* ۔۔۔۔

مسلمان سالاروں نے چند عیسائیوں کو اس مقصد کیلئے زندہ پکڑ لیا تھا کہ ان سے اس علاقے اور علاقے کے لوگوں کے متعلق معلومات اور جنگی اہمیت کی معلومات لی جائیں۔ابولیلیٰ کے حکم سے ایسے دو تین آدمیوں کو بلا کر بلال بن عقہ کے متعلق پوچھا۔’’دو تین روز پہلے تک وہ یہیں تھا۔‘‘ایک عیسائی نے بتایا۔’’وہ ذومیل چلا گیا ہے۔‘‘’’کیا اسے وہاں ہونا چاہیے تھا یا یہاں؟‘‘ابولیلی ٰنے پوچھا۔’’وہ قبیلے کے سردار کا بیٹا ہے۔‘‘عیسائی نے بتایا۔’’وہ کسی کے حکم کا پابند نہیں۔وہ حکم دینے والوں میں سے ہے۔‘‘’’کیا وہ اپنے باپ کے خون کا انتقام لینے آیا ہے؟‘‘’’اس نے کئی بار کہا ہے کہ وہ ابنِ ولید سے اپنے باپ کے خون کا انتقام لے گا۔‘‘دوسرے عیسائی نے جواب دیا۔’’اب بتا لڑکی!‘‘ابو لیلیٰ نے صابحہ سے پوچھا۔’’میں تمہاری قیدی ہوں۔‘‘ صابحہ نے کہا۔’’میرے ساتھ لونڈیوں اور باندیوں جیساسلوک کرو گے تو میں تمہیں نہیں روک سکوں گی۔سنا ہے مسلمانوں کے دلوں میں رحم ہوتا ہے۔میری ایک التجا ہے……میں اک سردار کی بیٹی ہوں، کیا میری اس حیثیت کا خیال رکھا جائے گا؟‘‘، ’’اسلام میں انسانوں کو درجوں میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔‘‘بولیلیٰ نے کہا۔’’ہم اس شخص کو بھی اپنا سردار مان لیا کرتے ہیں جس کے آباء اجداد نے کبھی خواب میں بھی سرداری نہیں دیکھی ہوتی۔ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ سرداری کا اہل ہے اور اس کا اخلاق بہت اونچا اور پاک ہے اور ا س کو اپنی ذات کا کوئی لالچ نہیں ……پریشان نہ ہو لڑکی!تو خوبصورت ہے۔ایسا نہیں ہو گا کہ تجھے جو چاہے گا اپنا کھلونا بنا لے گا۔کوئی ہمت والا تجھے خریدے گا اور تیرے ساتھ شادی کر لے گا۔‘‘’’تمہاری قیدی ہو کر میری پسند اور ناپسند ختم ہو گئی ہے۔اگر مجھے پسند کی ذرا بھی آزادی دی جائے تو میں تم میں سے اس کی بیوی بننا پسند کروں گی جو سب سے زیادہ بہادر ہے ۔جو اپنی قوم اور قبیلے کی عزت اور غیرت پر جان دینے والا ہو۔میدان سے بھاگنے والا نہ ہو……عورت کا مذہب وہی ہوتا ہے جو اس آدمی کا مذہب ہے جس کی ملکیت میں اسے دے دیا جاتا ہے لیکن عقیدے دلوں میں ہوتے ہیں۔عورت کے جسم کو ملکیت میں لے سکتے ہو،اس کے دل کا مالک کوئی نہیں بن سکتا……میں وعدہ کرتی ہوں کہ مجھے کوئی مضبوط دل والا اور قبیلے کی غیرت پر دشمن کا خون بہانے والا اور اپنا سر کٹوانے والا آدمی مل جائے تو میں اپنا دل اور اپنے عقیدے اس پر قربان کر دوں گی۔‘‘’’خداکی قسم!تو غیرت اور عقل والی لڑکی ہے۔‘‘ابولیلیٰ نے کہا۔’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ تو نے بلال بن عقہ سے جو وعدہ کیا تھا وہ میں پورا کروں گا،شرط یہ ہوگی کہ وہ اپنا وعدہ پورا کردے۔وہ ہمارے سالارِ اعلیٰ خالد بن ولید کو اپنے ہاتھوں قتل کردے، لیکن بنتِ ربیعہ !وہ ایسا نہیں کر سکے گا۔ابنِ ولید کے سر پر اﷲکا ہاتھ ہے، اسے رسول ﷺ نے اﷲکی تلوار کہاہے۔پھر بھی تم انتظار کرو۔ذومیل میں بلال کے ساتھ ہماری ملاقات ہو گی۔‘‘’’کیا میں اپنے گھر میں رہ سکتی ہوں؟‘‘’’کیا ہے اس گھر میں ؟‘‘ابولیلیٰ نے کہا۔’’وہاں تیرے باپ، بھائیوں اور محافظوں کی لاشوں کے سوا رہ ہی کیا گیا ہے؟ اپنے قبیلے کی عورتوں کے ساتھ رہ، کوئی تکلیف نہیں ہو گی تجھے۔ہمارا کوئی آدمی کسی عورت کے قریب نہیں جائے گا۔‘‘صابحہ بنتِ ربیعہ بجیر رنجیدہ سی چال چلتی ہوئی ایک مجاہد کے ساتھ اس طرف چلی گئی جہاں عورتوں اور بچوں کو رکھا گیا تھا۔اس کی رنجیدہ چال میں اور ملول چہرے پر تمکنت تھی ۔صاف پتا چلتا تھا کہ وہ عام سے کردار کی لڑکی نہیں۔

’’ابنِ حارثہ!‘‘خالدؓنےفتح کی مسرت سے لبریزلہجے میں مثنیٰ بن حارثہ سے کہا۔’’کیا اﷲنے تیری ہر خواہش پوری نہیں کردی؟‘‘’’لاریب،لاریب!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے جوشیلے لہجے میں کہا۔’’کفار کی آنے والی نسلیں کہیں گی کہ مسلمانوں نے ان کے آبا ء اجداد پر بہت ظلم کیا تھا اور ہماری نسلیں انہیں اپنے اﷲکا یہ فرمان سنائیں گی کہ جس پرظلم ہوا وہ اگر ظالم پر ظلم کرے تو اس پر کوئی الزام نہیں……تو نہیں جانتا ولید کے بیٹے !ان آتش پرستوں نے اور صلیب کے پجاریوں نے جو ظلم ہم پر توڑے ہیں، تو نہیں جانتا۔تو نے سنے ہیں، ہم نے سہے ہیں۔‘‘’’اب یہ لوگ اﷲکی گرفت میں آگئے ہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’لیکن حارثہ کے بیٹے!میں ڈرتا ہوں تکبر اور غرورسے……دل میں بار بار یہ ارادہ آتا ہے حج پر جاؤں۔ میں خانہ کعبہ میں جا کر اﷲکا شکر اداکروں گا۔کیا اﷲمجھے یہ موقع دے گا کہ میں اپنا یہ ارادہ پورا کر سکوں؟‘‘’’تو نے ارادہ کیا ہے تو اﷲتجھے ہمت بھی دے گا۔موقع بھی پیدا کر دے گا۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔کچھ دیر بعد تمام سالار خالدؓکے سامنے بیٹھے تھے اور خالدؓ انہیں بتا رہے تھے کہ اگلا ہدف ذومیل ہے۔جاسوسوں کو ذومیل بھیج دیاگیا تھا۔پہلے یوں ہوتا رہا ہے کہ ایک جگہ ہم حملہ کرتے تھے تو دشمن کے آدمی بھاگ کر کہیں اور اکٹھے ہو جاتے تھے۔خالدؓ نے کہا۔’’اب ہم نے کسی کو بھاگنے نہیں دیا۔ثنّی سے شاید ہی کوئی بھاگ کر ذومیل پہنچا ہو۔لیکن ذومیل خالی نہیں۔وہاں بھی دشمن موجود ہے اور وہ بے خبر بھی نہیں ہوگا۔کل رات ذومیل کی طرف کوچ ہو گا اور اگلی رات وہاں اسی قسم کا شب خون مارا جائے گا۔‘‘تاریخی کُتب  میں یہ نہیں لکھا کہ ثنّی میں خالدؓنے کس سالار کو چھوڑا۔سورج غروب ہوتے ہی مسلمانوں کا لشکر ذومیل کی سمت کوچ کر گیا۔ساری رات چلتے گزری۔دن نشیبی جگہوں میں چھپ کر گزرا اور سورج کا سفر ختم ہوا تو مجاہدین اپنے ہدف کی طرف چل پڑے۔ذومیل میں بھی دشمن سویا ہوا تھا۔سنتری بیدار تھے ۔یہاں بھی گشتی سنتریوں اور دیگر سنتریوں کو اسی طریقے سے ختم کیا گیا جو مضیح اور ثنّی وغیرہ میں آزمایا گیا تھا ۔مسلمانوں کی ترتیب وہی تھی یعنی ان کا لشکر تین حصوں میں تقسیم تھا۔یہ شب خون بھی پوری طرح کامیاب رہا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ کسی ایک بھی آدمی کو زندہ نہ نکلنے دیاگیا۔یہاں بھی عورتوں اور بچوں کو الگ کر لیاگیا تھا۔سالار ابولیلیٰ نے بلال بن عقہ کے متعلق معلوم کیا۔پتہ چلا کہ وہ ایک روز پہلے یہاں سے نکل گیا تھا۔یہ بھی پتا چلا لیا گیا کہ ذومیل سے تھوڑی دور رضاب نام کی ایک بستی ہے جس میں عیسائیوں کی خاصی تعداد جمع ہو گئی ہے اور ان کے ساتھ مدائن کی فوج کے ایک دو دستے بھی ہیں۔خالدؓ نے دو حکم دیئے۔ایک یہ کہ ثنّی سے مالِ غنیمت اوردشمن کی عورتوں اور بچوں کو ذومیل لایا جائے ۔دوسرا حکم یہ کہ فوری طور پر رضاب پر حملہ کیا جائے،آتش پرستوں کا لڑنے کا جذبہ تو جیسے بالکل سرد پڑ گیا تھا۔مسلمان تین اطراف سے رضاب پر حملہ آور ہوئے لیکن یہ گھونسہ ہوا میں لگا۔رضاب بالکل خالی تھا۔پتہ چلتا تھا کہ یہاں فوج موجود رہی ہے لیکن اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔اپنے باپ عقہ بن ابی عقہ کا بیٹا بلال بھی لا پتا تھا۔فوج کا ایک سوار دستہ دوردور تک گھوم آیا۔دشمن کا کہیں نام و نشان نہیں ملا۔آخر فوج واپس آگئی۔ثنّی کی عورتیں ذومیل لائی جا چکی تھیں۔مالِ غنیمت بھی آگیا۔خالدؓنے خلافتِ مدینہ کا حصہ الگ کرکے باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔ابولیلیٰ نے صابحہ کو بلایا۔

’’بلال بن عقہ یہاں سے بھی بھاگ گیا ہے۔‘‘ابولیلیٰ نے اسے کہا۔’’اس نے اپنے باپ کے خون کا انتقام لینا ہوتا تو یوں بھاگانہ پھرتا۔کیا اب بھی تو اس کا انتظار کرے گی؟‘‘’’میں اپنی مرضی سے تو کچھ بھی نہیں کرسکتی۔‘‘صابحہ نے کہا۔ابولیلیٰ خالدؓ سے بات کر چکے تھے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس لڑکی کی خوبصورتی اور جوانی کو دیکھ کر سب کا خیال یہ تھا کہ خالدؓ اس سے شادی کر لیں گے۔صابحہ کی یہ خواہش بھی پوری ہو سکتی تھی کہ وہ سب سے زیادہ بہادر اور بے خوف آدمی کی بیوی بننا چاہتی ہے لیکن خالدؓ نے کہا کہ مجھ سے زیادہ بہادر موجود ہیں۔چنانچہ خالدؓ نے اس پیغام کے ساتھ مالِ غنیمت اور عورتیں مدینہ کو روانہ کر دیں۔جو دستہ مالِ غنیمت کے ساتھ بھیجا گیا اس کے کماندار نعمان بن عوف شیبانی تھے۔انہوں نے صابحہ کے متعلق مدینہ میں بتایا کہ یہ لڑکی کون ہے۔کیسی ہے اور اس کی خواہش کیا ہے۔مؤرخوں کے مطابق صابحہ کو حضرت علیؓ نے خریدلیا۔صابحہ نے بخوشی اسلام قبول کر لیا اور حضرت علیؓ نے اس کے ساتھ شادی کرلی۔حضرت علیؓ کے صاحبزادے عمر اور صاحبزادی رقبعہ صابحہ کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔مدائن میں کسریٰ کے محل پہلے کی طرح کھڑے تھے۔ان کے درودیوار پر خراش تک نہ آئی تھی۔ان کا حسن ابھی جوان تھا لیکن ان پر ایسا تاثر طاری ہو گیا تھا جیسے یہ کھنڈر ہوں۔ایران کی اب کوئی رقاصہ نظر نہیں آتی تھی۔رقص و نغمہ کی محفلیں اب سوگوار تھیں۔یہ وہی محل تھا جہاں سے انسانوں کی موت کے پروانے جاری ہوا کرتے تھے۔یہاں کنواریوں کی عصمتیں لٹتی تھیں۔رعایا کی حسین بیٹیوں کو زبردستی نچایا جاتا تھا۔عرب کے جو مسلمان عراق میں آباد ہو گئے تھے انہیں فارس کے شہنشاہوں نے بھیڑ بکریاں بنا دیاتھا۔عراق فارس کی سلطنت میں شامل تھا۔مسلمانوں کو آتش پرستوں نے دجلہ اور فرات کے سنگم کے دلدلی علاقے میں رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ان کی فصل ان کے خون پسینے کی کمائی اور ان کے مال و اموال پر ان کا کوئی حق نہ تھا۔حد یہ کہ مسلمانوں کی بیٹیوں بہنوں اور بیویوں پر بھی ان کا حق نہیں رہا تھا۔کسریٰ کا کوئی حاکم کسی بھی مسلمان خاتون کو جب چاہتا زبردستی اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ یہی وہ حالات ہوتے ہیں جو مثنیٰ بن حارثہ جیسے مجاہدین کو جنم دیا کرتے ہیں،مثنیٰ بن حارثہ کو پکڑ کر قتل کردینے کا حکم انہی محلات میں سے جاری ہوا تھااور اب ان محلات میں یہ خبر پہنچی تھی کہ مدینہ کے مسلمانوں کا لشکر فارس کی سرحد میں داخل ہو گیا ہے تو یہاں سے فرعونوں جیسی آواز اٹھی تھی کہ عرب کے ان بدوؤں کو یہ جرات کیسے ہوئی……تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ فرعونوں کے ان محلات میں موت کا سناٹا طاری تھا۔ان کا کوئی سالار مسلمانوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکا تھا،نامی گرامی سالار مارے گئے تھے اور جو بچ گئے تھے وہ بھاگے بھاگے پھر رہے تھے۔’’مدائن کو بچاؤ۔‘‘اب کسریٰ کے محلات سے بار بار یہی آواز اٹھتی تھی۔

’’مدائن مسلمانوں کا قبرستان بنے گا۔‘‘یہ آواز ہارے ہوئے سالاروں کی تھی۔’’وہ مدائن پر حملے کی جرات نہیں کریں گے۔‘‘’’کیا تم اب بھی اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہو؟‘‘کسریٰ کا جانشین کہہ رہا تھا۔’’کیا وہ مدائن تک آنے کی جرات نہیں کریں گے جنہوں نے چند دنوں میں چار میدان اس طرح مار لیے ہیں کہ ہماری تجربہ کار فوج کو ختم کر ڈالا ہے؟ہماری فوج میں رہ کیا گیا ہے؟ڈرے ہوئے شکست خوردہ سالار اور اناڑی نوجوان سپاہی……کیا کوئی عیسائی زندہ رہ گیا ہے؟……مدائن کو بچاؤ۔‘‘خالدؓ کی منزل مدائن ہی تھی،مدائن فارس کی شہنشاہی کا دل تھا لیکن مدائن پر شب خون نہیں مارا جا سکتا تھا۔خالدؓجانتے تھے کہ مدائن کوبچانے کیلئے کسریٰ ساری جنگی طاقت داؤ پر لگا دیں گے اور خالدؓ یہ بھی جانتے تھے کہ غیر مسلموں خصوصاًعیسائیوں کے چھوٹے چھوٹے قبیلے ہیں جو کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے۔خطرہ تھا کہ آتش پرست ان قبیلوں کو اپنے ساتھ ملا لیں گے اور مدائن کے اردگرد انسانوں کی بڑی مضبوط دیوار کھڑی ہو جائے گی۔اس خطرے سے نمٹنے کیلئے ضروری تھا کہ ان قبیلوں کو اپنا وفادار بنا لیا جائے۔اس مقصد کیلئے خالدؓ نے اپنے ایلچی مختلف قبیلوں کے سرداروں سے ملنے کیلئے روانہ کر دیئے صرف یہ دیکھنے کیلئے کہ یہ لوگ سوچتے کیا ہیں اور ان کا رجحان کیا ہے۔’’ان قبیلوں پر ہماری دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘ایک جاسوس نے خالدؓ کو تفصیلی اطلاع دی۔’’وہ اپنی عورتوں اور اموال کی وجہ سے پریشان ہیں۔انہیں کسریٰ پر بھروسہ نہیں رہا۔‘‘’’……اور وہ نوشیرواں عادل کے دور کو یاد کرتے ہیں۔‘‘ایک ایلچی نے آکر بتایا۔’’وہ مدائن کی خاطر لڑنے پر آمادہ نہیں۔انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ بنی تغلب ،نمر اور ایاد۔ جیسے بڑے اور جنگجو قبیلوں کا کیا انجام ہوا ہے۔‘‘’’وہ اطاعت قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔‘‘ایک اور ایلچی نے بتایا۔’’بشرطیکہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے اور محصولات کیلئے انہیں مفلس اور کنگال نہ کر دیاجائے۔‘‘’’خداکی قسم!وہ مانگیں گے ہم انہیں دیں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’کیا انہیں کسی نے بتایا نہیں کہ ہم زمین پر قبضہ کرنے اور یہاں کے انسانوں کو غلام بنانے نہیں آئے؟……بلاؤ……ان سب کے سرداروں کو بلاؤ۔‘‘ایک دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓنے عراق کے طول و عرض میں جگہ جگہ حملے کرکے اور شب خون مار کر تمام قبیلوں کو اپنا مطیع بنا لیا تھا۔یہ صحیح نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جو زیادہ تر مؤرخوں نے بیان کی ہے کہ خالدؓ نے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر ان قبیلوں کو اپنا اتحادی بنا لیا تھا،ان کے اطاعت قبول کرنے میں خالدؓکی دہشت بھی شامل تھی۔یہ خبر صحرا کی آندھی کی طرح تما م تر قبیلوں کو پہنچ گئی تھی کہ مسلمانوں میں کوئی ایسی طاقت ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی فوج بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ایرانیوں کے متعلق بھی انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ ہر میدان میں انہوں نے مسلمانوں سے شکست کھائی ہے اور عیسائیوں کو آگے کر کے خود بھاگ کر آتے رہے ہیں۔

ان کے علاوہ ایرا ن کے بادشاہوں اور ان کے حاکموں نے انہیں زرخرید غلام بنائے رکھا اور ان کے حقوق بھی غصب کیے تھے۔خالدؓ نے ان کے ساتھ دوستی کے معاہدے کرکے ان سے اطاعت بھی قبول کروا لی اور انہی میں سے عمال مقررکرکے محصولات وغیرہ کی فراہمی کا بندوبست کر دیا۔انہیں مذہبی فرائض کی ادائیگی میں پوری آزادی دی۔ان لوگوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ مسلمان ان کی اتنی خوبصورت عورتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔خالدؓنے ان کے ساتھ معاہدے میں یہ بھی شامل کرلیا کہ مسلمان ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ ’’ولید کے بیٹے!‘‘ایک قبیلے کے بوڑھے سردار نے خالدؓ سے کہا تھا۔’’نوشیرواں عادل کے دور میں ایسا ہی انصاف تھا۔یہ ہمیں بڑی لمبی مدت بعد نصیب ہوا ہے۔‘‘خالدؓنے دریائے فرات کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔آگے عراق (فارس کے زیرنگیں)کی سرحد ختم ہوتی اور رومیوں کی سلطنت شروع ہوتی تھی۔شام پر رومیوں کا قبضہ تھا۔خالدؓنے بڑے خطرے مول لیے تھے مگر یہ خطرہ جس میں وہ جا رہے تھے ،سب سے بڑا تھااور مسلمانوں کی فتوحات پر پانی پھیر سکتا تھا۔یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یکے بعد دیگرے اتنی زیادہ فتوحات نے خالدؓ کا دماغ خراب کر دیا ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ حقائق کا جائزہ لے کر سوچتے تھے ۔ان کا کوئی قدم بلاسوچے نہیں اٹھتا تھا۔’’خدا کی قسم!ہم نے مدینہ کو زرتشت کے پجاریوں سے محفوظ کر لیا ہے۔‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’اب ایسا خطرہ نہیں رہا کہ وہ ہماری خلافت کے مرکز پر حملہ کریں گے۔‘‘’’کیا یہ اﷲکا کرم نہیں کہ فارسیوں کو اب اپنے مرکز کا غم لگ گیا ہے؟‘‘سالار قعقاع نے کہا۔’’وہ اب عرب کی طرف دیکھنے سے بھی ڈریں گے۔‘‘’’لیکن سانپ ابھی مرا نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اگر ہم یہیں سے واپس چلے گئے تو کسریٰ کی فوج پھر اٹھے گی اور یہ علاقے واپس لینے کی کوشش کرے گی جو ہم نے فارسیوں سے چھین لیے ہیں،ہمیں ان کے راستے بند کرنے ہیں……اور میرے بھائیو!کیا تم میں سے کسی نے ابھی سوچا نہیں کہ آتش پرستوں کے پہلو میں رومی ہیں،اگر رومیوں میں کچھ عقل ہے تو وہ اس صورتِ حال سے جو ہم نے عراق میں پیدا کر دی ہے،فائدہ اٹھائیں گے۔وہ آگے بڑھیں گے اور اگر وہ کامیاب ہو گئے تو عرب کیلئے وہی خطرہ پیدا ہو جائے گا جو اس سے پہلے ہمیں زرتشت کے پجاریوں سے تھا۔‘‘خالدؓنے زمین پر انگلی سے لکیریں کھینچ کر اپنے سالاروں کو بتایا کہ وہ کون سا راستہ ہے جس سے رومی آسکتے ہیں،اور وہ کون سا مقام ہے جہاں قبضہ کرکے ہم اس راستے کو بندکر سکتے ہیں۔ وہ مقام فراض تھا۔یہ شہر فرات کے مغربی کنارے پر واقع تھا۔وہاں پر رومیوں اور فارسیوں کی یعنی شام اور عراق کی سرحدیں ملتی تھیں۔عراق کے زیادہ تر علاقے پر اب مسلمان قابض ہو گئے تھے۔یہی علاقے خطرے میں تھے۔فراض سے خشکی کے راستے کے علاوہ رومی یا فارسی دریائی راستہ بھی اختیار کر سکتے تھے۔مشہور یورپی مؤرخ لین پول اور ہنری سمتھ جو جنگی امور پر زیادہ نظر رکھتا تھا ،لکھتے ہیں کہ خالدؓ نہ صرف میدانِ جنگ میں دشمن کو غیر متوقع چالیں چل کر شکست دینے کی اہلیت رکھتے تھے بلکہ جنگی تدبر بھی ان میں موجود تھا اور ان کی نگاہ دور دور تک دیکھ سکتی تھی۔وہ آنے والے وقت کے خطروں کو پہلے ہی بھانپ لیا کرتے تھے۔خالدؓ جب فراض کی طرف کوچ کر رہے تھے اس وقت ایک خطرے سے وہ آگاہ نہیں تھے،وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ دشمن فوجوں کے درمیان آجائیں گے۔رومیوں کے دربار میں ایسی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جن میں ضروری پن تھا، اور صاف پتا چلتا تھا کہ کوئی ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔تخت شاہی کے سامنے رومی فوج کے بڑے بڑے جرنیل بیٹھے تھے۔’’خبر ملی ہے کہ مسلمان فراض تک پہنچ گئے ہیں۔یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کا ارادہ کیا ہے۔‘‘’’وہ کسی اچھے ارادے سے تو نہیں آئے……کیا آپ کو فارسیوں کے متعلق کوئی خبر نہیں ملی؟‘‘’’ان کے پاس مدائن کے سوا کچھ نہیں رہا۔‘‘’’پھر ہمیں انتظار نہیں کرنا چاہیے۔پیشتر اس کے کہ مسلمان ہمارے ملک میں داخل ہو جائیں ہمیں ان پر حملہ کر دینا چاہیے۔‘‘’’کیا تم سے بڑھ کر کوئی احمق ہماری فوج میں کوئی اور ہو گا؟کیا تم نے سنا نہیں کہ فارس کی فوج کو اور ان کے ساتھی ہزار ہا عیسائیوں کو ان مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ ہر جگہ شکست دی ہے بلکہ ان کے نامور جرنیلوں کواورہزاروں سپاہیوں کو مار ڈالا ہے؟‘‘’’آپ نے ٹھیک کہا ہے۔یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مدینہ والوں کے لڑنے کا طریقہ کیا ہے۔‘‘’’ بہت ضروری ہے دیکھنا۔جو اتنی تھوڑی تعداد میں اتنی زیادہ تعداد کو شکست دے کر ختم کر چکے ہیں، ان کا کوئی خاص طریقہ جنگ ہو گا، ہم بھی فارس کی فوج کے خلاف لڑ چکے ہیں، یہ صحیح ہے کہ ہم نے فارسیوں کو شکست دی تھی لیکن ہماری فوج کی نفری ان سے زیادہ تھی۔‘‘’’اب میرا فیصلہ سن لو۔ہم فارسیوں کو ساتھ ملا کر مسلمانوں کے خلاف لڑیں گے۔‘‘’’فارسیوں کو ساتھ ملا کر؟کیا ہیمں یہ بھول جانا چاہیے کہ فارسیوں کے ساتھ ہماری دشمنی ہے؟ہماری آپس میں جنگیں ہو چکی ہیں۔‘‘’’ہاں!ہمیں بھول جانا چاہیے۔مسلمان ان کے اور ہمارے مشترکہ دشمن ہیں۔ایسے دشمن کو شکست دینے کیلئے اپنے دشمن کو دوست بنالینا دانشمندی ہوتی ہے۔ہم فارسیوں کی طرح شکست نہیں کھانا چاہتے۔اگر فارسی ہمارے ساتھ دوستی کا معاہدہ کر لیتے ہیں تو ان کے ساتھ عیسائی قبیلے بھی آجائیں گے۔‘‘

اس فیصلے کے مطابق رومیوں کا ایلچی دوستی کا پیغام لے کر مدائن گیا تو آتش پرستوں نے بازو پھیلا کر ایلچی کا استقبال کیا۔تحائف کا تبادلہ ہوا اور ایلچی کے ساتھ معاہدے کی شرطیں طے ہو گئیں۔فارس والوں کو اپنا تخت الٹتا نظر آرہا تھا۔رومیوں کے اس پیغام کو انہوں نے غیبی مدد سمجھا۔مدائن کے دربار سے ان تمام عیسائی قبیلوں کے سرداروں کو بلاوابھیجا گیا۔یہ وہی تین قبیلے بنی تغلب، نمر اور ایاد تھے جو مسلمانوں سے بہت بری شکست کھا چکے تھے۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ انہیں جوں ہی اطلاع ملی تو وہ فوراًمدائن پہنچے۔وہ اپنے ہزار ہا مقتولین کا انتقام لینا چاہتے تھے اور وہ اسلام کے پھیلاؤ کو بھی روکنا چاہتے تھے۔ان قبیلوں میں جو لڑنے والے تھے وہ مسلمانون کے ہاتھوں مارے جا چکے تھے ۔جواں سال آدمی بہت کم رہ گئے تھے۔اب اکثریت ادھیڑ عمرلوگوں کی تھی۔خالدؓ کا فراض کی طرف کوچ ان کی خود سری کا مظاہرہ تھا۔امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں صرف فارس والوں سے لڑنے کی اجازت دی تھی۔امیر المومنینؓ کو یہ بھی توقع نہیں تھی کہ اپنی اتنی کم فوج فارس جیسی طاقتور فوج کو شکست دے گی لیکن امیرالمومنینؓ ایسا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے کہ اتنی لڑائیاں لڑکر رومیوں سے بھی ٹکر لی جائے،رومیوں کی فوج فارسیوں کی فوج سے بہتر تھی۔یہ خالدؓ کا اپنا فیصلہ تھا، کہ فراض کے مقام پر جا کر رومیوں اور فارسیوں کی ناکہ بندی کردی جائے۔ خالدؓ چَین سے بیٹھنے والے سالار نہیں تھے۔اس کے علاوہ وہ رسول کریمﷺ کے جنگی اصولوں کے شائق تھے۔مثلاًیہ کہ دشمن کے سر پر سوار رہو۔اگر دشمن کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے تو اس کے حملے کا انتظار نہ کرو۔آگے بڑھو اور حملہ کردو۔خالدؓنے اپنے آپ پر جہادکا جنون طاری کر رکھا تھا۔جب خالدؓ کے جاسوسوں نے انہیں اطلاعیں دینی شروع کیں تو خالدؓکے چہرے پر سنجیدگی طاری ہو گئی ۔انہیں پتا چلا کہ وہ دو فوجوں کے درمیان آگئے ہیں۔ ایک طرف رومی اور دوسری طرف فارسی اور ان کے ساتھ عیسائی قبیلوں کے لوگ بھی تھے۔خالدؓ کے ساتھ نفری پہلے سے کم ہو گئی تھی کیونکہ جو علاقے انہوں نے فتح کیے تھے وہیں اپنی کچھ نفری کا ہونا لازمی تھا۔بغاوت کا بھی خطرہ تھااور آتش پرست فارسیوں کے جوابی حملے کابھی۔خالدؓ فراض میں رمضان۱۲ھ دسمبر ۶۳۳ء کے پہلے  ہفتے میں پہنچے تھے۔مجاہدین روزے سے تھے۔مسلمانوں کی فوج دریائے فرات کے ایک کنارے پر خیمہ زن تھی۔دوسرے کنارے پر بالکل سامنے رومی، ایرانی او رعیسائی پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔دونوں طرف کے سنتری فرات کے کناروں پر ہر وقت پہرے پر کھڑے رہتے اور گشتی سنتری گھوڑوں پر سوار دریا کے کناروں پر پھرتے رہتے تھے۔خود خالدؓ دریا کے کنارے دور تک چلے جاتے اور دشمن کو دیکھتے تھے۔ایک شام رومیوں اور ایرانیوں کی خیمہ گاہ میں ہڑبونگ مچ گئی، اور وہ لڑائی کیلئے تیار ہو گئے۔وجہ یہ ہوئی کہ مسلمانوں کے کیمپ سے ایک شور اٹھا تھااور دف اور نقارے بجنے لگے تھے۔تمام فوج اچھل کود کررہی تھی،دشمن اسے حملے سے پہلے کا شور سمجھا۔اس کے سالار وغیرہ فرات کے کنارے پر آکر دیکھنے لگے۔ ’’ان کے گھوڑے زینوں کے بغیر بندھے ہوئے ہیں۔‘‘دشمن کے کسی آدمی نے چلا کر کہا۔’’وہ تیاری کی حالت میں نہیں ہیں۔‘‘کسی اور نے کہا۔’’وہ دیکھو!‘‘ایک اور نے کہا۔’’آسمان کی طرف دیکھو۔مسلمانوں نے عیدکا چاند دیکھ لیا ہے ۔آج رات اور کل سارا دن یہ لوگ خوشیاں منائیں گے۔‘‘اگلے روز مسلمانوں نے ہنگامہ خیز طریقے سے عیدالفطر کی خوشیاں منائیں۔اسی خوشی میں فتوحات کی مسرتیں بھی شامل تھیں۔مسلمان جب عید کی نمازکیلئے کھڑے ہوئے تو دریا کے کنارے اور کیمپ کے اردگرد سنتریوں میں اضافہ کردیا گیا تاکہ دشمن نماز کی حالت میں حملہ نہ کر سکے۔’’مجاہدینِ اسلام!‘‘خالدؓ نے نماز کے بعد مجاہدین سے مختصرسا خطاب کیا۔’’نماز کے بعد ایسے انداز سے اس تقریب ِ سعید کی خوشیاں مناؤ کہ دشمن یہ تاثر لے کہ مسلمانوں کو کسی قسم کا اندیشہ نہیں اور انہیں اپنی فتح کا پورا یقین ہے۔دریاکے کنارے جاکر ناچوکودو،تم نے جس طرح دشمن پر اپنی تلوار کی دھاک بٹھائی ہے، اس طرح اس پر اپنی خوشیوں کی دہشت بٹھا دو۔لیکن میرے رفیقو! اس حقیقت کو نہ بھولنا کہ تم اﷲکی طرف سے آئی ہوئی ایک سے ایک کٹھن آزمائش میں پورے اترے ہو ،مگر اب تمہارے سامنے سب سے زیادہ کٹھن اور خطرناک آزمائش آگئی ہے۔تمہارا سامنا اس وقت کی دو طاقتور فوجوں سے ہے جنہیں عیسائیوں کی مدد بھی حاصل ہے۔میں جانتا ہوں تم جسمانی طور سے لڑنے کے قابل نہیں رہے۔ لیکن اﷲنے تمہیں روح کی جو قوتیں بخشی ہیں انہیں کمزور نہ ہونے دینا، کیونکہ تم ان قوتوں کے بل پر دشمن پر غالب آتے چلے جا رہے ہو۔میں بتا نہیں سکتا کہ کل کیا ہوگا۔ ہر خطرے کیلئے تیار رہو۔اﷲتمہارے ساتھ ہے۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

خالدؓکے خاموش ہوتے ہی مجاہدین کے نعروں نے ارض و سما کو ہلا ڈالا۔پھر سب دوڑتے کودتے دریا کے کنارے جا پہنچے۔انہوںنے دریا کے کنارے گھوڑے بھی دوڑائے اور ہر طرح عید کی خوشی منائی۔خالدؓ کے سالاروں کو توقع تھی کہ خالدؓ بن ولید یہاں بھی شب خون کی سوچ رہے ہوں گے۔خالدؓ نے اتنے دن گزر جانے کے باوجود بھی سالاروں کو نہیں بتایا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ایک مہینہ گزر چکا تھا۔فوجیں آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔آخر خالدؓ نے اپنے سالاروں کو مشورے تجاویز اور احکام کیلئے بلایا۔’’میرے رفیقو!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’شاید تم یہ سوچ رہے ہو گے کہ یہاں بھی شب خون مارا جائے گالیکن تم دیکھ رہے ہو کہ یہاں صورتِ حال شب خون والی نہیں۔دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ہم ہمیشہ قلیل تعداد میں لڑے ہیں لیکن یہاں ہمارے درمیان دریا حائل ہے۔دشمن اس دریا سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ دشمن اتنی زیادہ تعداد کے باوجود ہم پر حملہ نہیں کر رہا ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ احتیاط سے کام لے رہا ہے۔ہمارے لیے بہتر یہ ہے کہ اس کی احتیاط کو ہم اور طول دیں اور حملے میں پہل نہ کریں۔میں چاہتا ہوں کہ حملے میں پہل وہ کرے۔اگر تم کوئی مشورہ دینا چاہو تو میں اس پر غور اور عمل کروں گا۔‘‘ تقریباً تمام سالاروں نے متفقہ طور پر کہا کہ ہم پہل نہ کریں اور کوئی ایسی صورت پیدا کریں کہ دشمن دریا عبور کرآئے۔کچھ دیر سالاروں نے بحث و مباحثہ کیا اور ایک تجویز پر متفق ہو گئے،اور اسی روز اس پر عمل شروع کر دیا گیا۔اس کے مطابق کوئی ایک دستہ تیار ہو کر دریا کے ساتھ کسی طرف چل پڑتا۔دشمن یہ سمجھتا کہ مسلمان کوئی نقل و حرکت کر رہے ہیں چنانچہ اسے بھی اس کے مطابق کوئی نقل و حرکت یا پیش بندی کرنی پڑتی۔یہ سلسلہ پندرہ سولہ دن چلتا رہا۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رومی مسلمانوں کی ان حرکات سے تنگ آگئے۔وہ پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف کسی میدان میں نہیں لڑے تھے،ان کے سالاروں کے ذہنوں پر یہ بات آسیب کی طرح سوار ہو گئی تھی کہ جس قلیل فوج نے فارسیوں جیسی طاقت ور فوج کو ہلنے کے قابل نہیں چھوڑا، وہ فوج کوئی خاص داؤ چلتی ہے جسے ان کے سوا کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔پہلے کہا جا چکا ہے کہ خالدؓ دشمن پر نفسیاتی وار کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔اس صورتِ حال میں بھی انہوں نے رومیوں کو تذبذب میں مبتلا کرکے ان کے ذہنوں پر ایسا نفسیاتی اثر ڈالا کہ وہ نہ کچھ سمجھنے کے اور نہ کوئی فیصلہ کرنے کے قابل رہے۔۲۱ جنوری ۶۳۴ء  ، ۱۵ ذیقعد ۱۲ھ کے روز دشمن اس قدر تنگ آگیا کہ کے ایک سالار نے دریا کے کنارے کھڑے ہوکر بڑی بلند آواز سے مسلمانوں سے کہا ۔’’ کیا تم دریا پار کرکے ادھر آؤ گے یا ہم دریا پار کرکے اُدھر آجائیں؟لڑنا ہے تو سامنے آؤ۔‘‘’’ہم تعداد میں بہت تھوڑے ہیں۔‘‘خالدؓ بن ولید نے اعلان کروایا۔’’ہم سے ڈرتے کیوں ہو؟تمہاری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ تمہیں ہم سے پوچھے بغیر ادھر آجانا چاہیے۔‘‘’’پھر سنبھل جاؤ۔‘‘دشمن کی طرف سے للکار سنائی دی۔’’ہم آرہے ہیں۔‘‘دشمن نے دریا عبور کرنا شروع کر دیا۔خالدؓ نے اپنے مجاہدین کو دریا کے کنارے سے ہٹا کر کچھ دور لڑائی کی ترتیب میں کرلیا۔حسبِ معمول ان کی فوج تین حصوں میں بٹی ہوئی تھی،اور خالدؓ خود درمیانی حصے کے ساتھ تھے۔جنگی مبصروں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے دشمن کیلئے اتنی زیادہ جگہ خالی کردی کہ دشمن اور اس کے پیچھے دریا، ان دونوں کے درمیان اتنی جگہ خالی رہے کہ اس کے عقب میں جانا پڑے تو جگہ مل جائے ورنہ دریا ان کے عقب کی حفاظت کرتا۔جب دشمن میدان میں آگیا تو رومی جرنیلوں نے فارسیوں اور عیسائیوں کے لشکر کو ان کے قبیلوں کے مطابق تقسیم کر دیا۔انہوں نے ایرانی سالاروں سے کہا کہ اس تقسیم سے یہ پتہ چل جائے گا کہ کون کس طرح لڑا ہے؟ بھاگنے والوں کے قبیلے کا بھی علم ہو جائے گا۔‘‘یہ تقسیم اس طرح ہوئی کہ رومی الگ ہو گئے، مدائن کی فوج ان سے کچھ دور الگ ہو گئی، اور عیسائیوں کے قبیلے مدائن کی فوج سے الگ اور ہر قبیلہ ایک دوسرے سے الگ الگ ہو گیا۔رومی جرنیلوں نے (مؤرخوں کے مطابق)یہ تقسیم اس لیے بھی کی تھی کہ مسلمانوں کو بھی اس تقسیم کے مطابق اپنی تقسیم کرنی پڑے گی جس کے نتیجے میں وہ بکھر جائیں گے اور انہیں آسانی سے شکست دی جا سکے گی۔

’’میرے رفیقو!‘‘خالدؓ نے دشمن کو اس طرح تقسیم ہوتے دیکھ کر اپنے سالاروں کو بلایا اور ان سے کہا۔’’خدا کی قسم !دشمن خود احمق ہے یا  ہمیں احمق سمجھتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ دشمن نے اپنی جمیعت کو کس طرح بکھیر دیا ہے؟‘‘’’دشمن نے ہمارے لیے مشکل پیدا کر دی ہے ابنِ ولید!‘‘سالار قعقاع بن عمرو نے کہا۔’’اس کے مطابق ہمیں بھی بکھرنا پڑے گا۔پھر ایک ایک کا مقابلہ دس دس کے ساتھ ہو گا۔‘‘’’دماغوں کو روشنی دینے والا اﷲہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’ہم آمنے سامنے کی لڑائی نہیں لڑیں گے۔سوار دستوں کے سالار سن لیں ۔فوراًسوار دو حصوں میں تقسیم ہو کر دشمن کے دائیں اور بائیں چلے جائیں۔پیادے بھی ان کے ساتھ رہیں اور دائیں اور بائیں پہنچ کر عقب میں جانے کی کوشش کریں۔میں اپنے دستوں کے ساتھ دشمن کے سامنے رہوں گا،دشمن پر ہر طرف سے شدید حملہ کردو۔دشمن ابھی لڑائی کیلئے تیار نہیں ہوا۔چاروں طرف سے دشمن پر ایسا حملہ کردو کہ اس کی تقسیم درہم برہم ہوجائے۔اﷲکا نام لو اور نکل جاؤ۔‘‘رومی ایرانی اور عیسائی تقسیم تو ہو گئے تھے لیکن ابھی لڑائی کیلئے تیار نہیں ہوئے تھے۔خالدؓکے اشارے پر مسلمانوں نے ہر طرف سے حملہ کر دیا۔دشن پر جب حملے کے ساتھ ہر طرف سے تیر برسنے لگے تو اس کے بٹے ہوئے حصے اندر کی طرف ہونے لگے اور ہوتے ہوتے وہ ہجوم کی صورت میں یکجا ہوگئے۔مسلمان سواروں نے تھوڑی سی تعداد میں ہوتے ہوئے اتنے کثیر دشمن کو گھیرے میں لے لیا۔دشمن کی حالت ایک گھنے ہجوم کی سی ہو گئی جس سے گھوڑوں کے گھومنے پھرنے کیلئے جگہ نہیں رہی۔ایرانی اور عیسائی پہلے ہی مسلمانوں سے ڈرے ہوئے تھے،وہ چھپنے یا پیچھے ہٹنے کے انداز سے رومی دستوں کے اندر چلے گئے اور انہیں حرکت کے قابل نہ چھوڑا۔مسلمان سواروں نے دوڑتے گھوڑوں سے دشمن کے اس ہجوم پر تیر برسائے جیسے دشمن کی اتنی بڑی تعداد اور زیادہ سمٹ گئی۔اس کیفیت میں پیادہ مجاہدین نے  ہلّہ بول دیا۔عقب سے حملہ ایک سوار دستے نے کیا۔خالد ؓنے اپنے تمام سوار دستوں کو ایک ہی بار حملے میں نہ جھونک دیا۔دستے باری باری حملے کرتے تھے۔خالدؓنے ایسی چال چلی تھی کہ لڑائی کی صورت لڑائی کی نہ رہی بلکہ یہ رومیوں آتش پرستوں اور عیسائیوں کا قتلِ عام تھا۔رومیوں نے دفاعی لڑائی لڑنے کی کوشش کی لیکن میدانِ اس کے زخمیوں اور اس کی لاشوں سے بھر گیا۔سپاہیوں کا حوصلہ ٹوٹ گیا اور وہ میدان سے بھاگنے لگے۔’’پیچھے جاؤ۔‘‘ خالدؓ نے حکم دیا۔’’ان کے پیچھے جاؤ۔ کوئی زندہ بچ کر نہ جائے۔‘‘ مجاہدین نے تعاقب کرکے بھاگنے والوں کو تیروں اور برچھیوں سے ختم کیا اور معرکہ ختم ہو گیا۔تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس معرکے میں ایک لاکھ رومی، ایرانی اور عیسائی مارے گئے تھے۔ایک بہت بڑی اتحادی فوج ختم ہو گئی، مسلمانوں کی تعداد پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔خالدؓدس روز وہیں رہے، انہوں نے بڑی تیزی سے وہاں کا انتظامی ڈھانچہ مکمل کیا۔ایک دستہ وہاں چھوڑا، اور ۳۱ جنوری ۶۳۴ء (۲۵ ذیقعد ۱۲ھ)کے روز لشکر کو حیرہ کی طرف کوچ کا حکم دیا۔’’کیا تم دیکھ نہیں رہے، ابنِ ولید چپ سا ہو گیا ہے؟‘‘ایک سالار اپنے ساتھی سالار سے کہہ رہا تھا۔’’خدا کی قسم!میں نہیں مانوں گا کہ ابنِ ولید تھک گیا ہے یا مسلسل معرکوں سے اُکتا گیا ہے۔‘‘’’اور میں یہ بھی نہیں مانوں گا کہ ابنِ ولید ڈر گیا ہے کہ وہ اپنے مستقر سے اتنی دور دشمن ملک کے اندر آگیا ہے۔‘‘دوسرے سالار نے کہا۔’’لیکن میں اسے کسی سوچ میں ڈوبا ہوا ضرور دیکھ رہا ہوں۔‘‘’’ہاں وہ کچھ اور سوچ رہا ہے۔‘‘’’پوچھ نہ لیں؟‘‘’’ہم نہیں پوچھیں گے تو اور کون پوچھنے آئے گا؟‘‘خالدؓ سوچ میں ڈوب ہی جایا کرتے تھے۔یہ ایک معرکے کی فراغت کے بعد اگلے معرکے کی سوچ ہوتی تھی۔وہ سوچ سمجھ کر اور تمام تر دماغی قوتوں کو بروئے کار لا کر لڑاکرتے تھے۔دشمن کے پاس بے پناہ جنگی قوت تھی۔وہ گہری سوچ کے بغیر اپنی فوج کی برتری اور افراط کے بل بوتے پر بھی لڑ سکتا تھا۔ مسلمان ایساخطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ان کی تعداد کسی بھی معرکے میں اٹھارہ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ان کی تعداد پندرہ اور اٹھارہ ہزارکے درمیان رہتی تھی۔ایک ایک مجاہد کا مقابلہ تین سے چھ کفار سے ہوتا تھا۔لہٰذا انہیں عقل اور ہوشمندی کی جنگ لڑنی پڑتی تھی۔

ایسی عقل اورہوشمندی میں خالدؓ کا کوئی ثانی نہ تھاانہی اوصاف کی بدولت رسولِ اکرمﷺ نے انہیں اﷲکی تلوار کہا تھا۔جذبہ تو خالدؓ میں تھا ہی لیکن انہیں دماغ زیادہ لڑانا پڑتا تھا۔ہر معرکے سے پہلے خالدؓ جاسوسوں سے دشمن کی کیفیت اور اس کی زمین اور نفری وغیرہ کی تفصیلات معلوم کرکے گہری سوچ میں ڈوب جاتے پھر اپنے سالاروں سے صلاح و مشورہ کرتے تھے لیکن فراض کی جنگ کے بعد ان پر ایسی خاموشی طاری ہو گئی تھی جوکچھ اور ہی قسم کی تھی۔ان کی اس خاموشی کو دیکھ کر ان کے سالار کچھ پریشان سے ہو رہے تھے، یہ فراض سے حیرہ کی طرف کوچ (۲۵ذیقعد ۱۲ ھ)سے دو روز پہلے کا واقعہ ہے۔تین چار سالار خالدؓکے خیمے میں جا بیٹھے۔’’ابنِ ولید!‘‘سالار قعقاع بن عمرو نے کہا۔’’خدا کی قسم!جس سوچ میں تو ڈوبا ہوا ہے اس کا تعلق کسی لڑائی کے ساتھ نہیں ہے۔ ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں، تجھے اکیلا پریشان نہیں ہونے دیں گے۔‘‘خالدؓ نے سب کی طرف دیکھا اور مسکرائے۔ ’’ابنِ عمرو ٹھیک کہتا ہے۔‘‘ خالدؓنے کہا۔’’میں جس سوچ میں پڑا رہتا ہوں اس کا تعلق کسی لڑائی کے ساتھ نہیں۔‘‘’’کچھ ہمیں بھی بتا ابنِ ولید!‘‘ایک اور سالار نے کہا۔’’خدا کی قسم!تو پسند نہیں کرے گا کہ ہم سب تجھے دیکھ دیکھ کر پریشان ہوتے رہیں۔‘‘’’نہیں پسند کروں گا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تم میں سے کوئی بھی پریشان ہو گا تو یہ مجھے ناپسند ہو گا۔میں کسی لڑائی کیلئے کبھی پریشان نہیں ہوا۔تین تین دشمنوں کی فوجیں مل کر ہمارے خلاف آئیں ، میں پریشان نہیں ہوا۔میں نے خلیفۃ المسلمین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رومیوں کو جا للکارا۔ میں نے ایک خطرہ مول لیا تھا۔میں پریشان نہیں ہوا۔ مجھے ہر میدان میں اور ہر مشکل میں اﷲنے روشنی دکھائی ہے اور تمہیں اﷲنے ہمت دی ہے کہ تم اتنے جری دشمن پر غالب آئے……‘‘’’اب میری پریشانی یہ ہے کہ میں فریضہ حج ادا کرنا چاہتا ہوں لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ میں کہاں ہوں اور میری ذمہ داریاں کیا ہیں۔کیا میں اس فرض کو چھوڑ کر حج کا فرض ادا کر سکتا ہوں؟……نہیں کر سکتا میرے رفیقو! لیکن میرا دل میرے قابو سے باہر ہو گیا ہے۔ خدا کی قسم!یہ میری روح کی آواز ہے کہ ولید کے بیٹے، کیا تجھے یقین ہے کہ تو اگلے حج تک زندہ رہے گا؟……مجھے یقین نہیں میرے رفیقو!ہم نے جن دو دشمنوں کو شکستیں دی ہیں ، ان کی جنگی طاقت تم نے دیکھ لی ہے اور تم نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ تمام قبیلے فوراً ان سے جا ملتے ہیں۔میں محسوس کر رہا ہوں کہ میری زندگی چند روزہ رہ گئی ہے……اور میرے رفیقو! میں کچھ بھی نہیں۔تم کچھ بھی نہین۔صرف اﷲہے جو ہمارے سینوں میں ہے۔ وہی سب کچھ ہے۔ پھر میں کیوں نہ اس کے حضور اس کے عظیم گھر میں جا کر سجدہ کروں۔ کیا تم مجھے اجازت دو گے کہ میں اپنی طرف سے تم سب کی طرف سے اور ہر ایک مجاہد کی طرف سے خانہ کعبہ جاکر اﷲکے حضور شکر ادا کروں؟‘‘’’بے شک، بے شک۔ ‘‘ایک سالار نے کہا۔’’کون رَد کر سکتا ہے اس جذبے کو اور اس خواہش کو جو تو نے بیان کی ہے!‘‘’’لیکن تو حج پر جائے گا کیسے ابنِ ولید؟‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے پوچھا۔’’ پیچھے کچھ ہو گیا تو؟‘‘’’میں کسی لڑائی میں مارا جاؤں گا تو خدا کی قسم تم یہ نہیں سوچو گے کہ اب کیا ہوگا؟‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’کیا میرے نہ ہونے سے تمہارے حوصلے ٹوٹ جائیں گے؟ ……نہیں……نہیں……ایسا نہیں ہو گا۔‘‘’’رب کعبہ کی قسم ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ قعقاع بن عمرو نے کہا۔’’ہم میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہو گا تو وہ اسلام کے پرچم کو گرنے نہیں دے گا……یوں کر ابنِ ولید!آج ہی قاصد کو روانہ کر دے کہ وہ امیرالمومنین سے اجازت لے آے کہ تو حج پر جا سکتا ہے۔‘‘

’’جس سوچ نے مجھے پریشان کر رکھا ہے یہی وہ سوچ ہے۔‘‘ خالدؓنےمسکرا کر کہا۔’’ میں جانتا ہوں امیر المومنین اجازت نہیں دیں گے۔انہیں یہاں کے حالات کا علم ہے۔ اگر وہ اجازت دے بھی دیں تو یہ خطرہ پیدا ہو جائے گا کہ دشمن کو پتا چل جائے گا کہ ابنِ ولید چلا گیا ہے۔ میں اپنے لشکر کو بھی نہیں بتانا چاہتا کہ میں ان کے ساتھ نہیں ہوں۔ میں بہت کم وقت میں جا کر واپس آنا چاہتا ہوں۔‘‘ ’’خدا کی قسم ولید کے بیٹے!‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’تو نہیں جانتا کہ تو جو کہہ رہا ہے یہ نا ممکن ہے۔‘‘ ’’اﷲناممکن کو ممکن بنا دیا کرتا ہے۔‘‘ خالدؓنے کہا۔ ’’انسان کو ہمت کرنی چاہیے۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کیا کروں گا۔ اور کس راستے سے جاؤں گا۔‘‘خالدؓنے انہیں پہلے یہ بتایا کہ وہ کیا کریں پھر وہ راستہ بتایا جس راستے سے انہیں حج کیلئے مکہ جانا اور آناتھا۔حج میں صرف چودہ دن باقی تھے۔ اور فراض سے مکہ تک کی مسافت تیز چلنے سے اڑھائی مہینے سے کچھ زیادہ تھی۔خالدؓ کو کوئی چھوٹا راستہ دیکھنا تھا لیکن کوئی چھوٹا راستہ نہیں تھا۔خالدؓتاجر خاندان کے فرد تھے، قبولِ اسلام سے پہلے خالدؓ نے تجارت کے سلسلے میں بڑے لمبے اور کٹھن سفر کئے تھے۔ وہ ایسے راستوں سے بھی واقف تھے جو عام راستے نہیں تھے۔ بلکہ وہ راستے کہلاتے ہی نہیں تھے۔خالدؓ نے اپنے سالاروں کو ایک ایسا ہی راستہ بتایا۔’’خدا کی قسم ابنِ ولید!‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’تیرا دماغ خراب نہیں ہوا، پھر بھی تو نے ایسی بات کہہ دی ہے جو ٹھیک دماغ والے نہیں کہہ سکتے۔ تو جو راستہ بتا رہاہے وہ کوئی راستہ نہیں، وہ ایک علاقہ ہے اور اس علاقے سے صحرا کی ہوائیں بھی ڈر ڈر کر گزرتی ہیں، کیا تو مرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں جانتا!کیا میں اس علاقے سے واقف نہیں؟‘‘’’جس اﷲنے ہمیں اتنے زبردست دشمنوں پر غالب کیا ہے وہ مجھے اس علاقے سے بھی گزاردے گا۔‘‘ خالدؓ نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جس میں عزم اور خود اعتمادی تھی۔ ’’میں یقین سے کہتا ہوں کہ تم مجھے جانے سے نہیں روکو گے اور میرے اس راز کواس خیمے سے باہر نہیں جانے دو گے۔ میں راز امیر المومنین سے بھی چھپا کر رکھوں گا۔‘‘’’اگر امیر المومنین بھی حج پر آگئے تو کیا کرے گا تو؟‘‘ایک سالار نے پوچھا۔’’میں ان سے اپنا چہرہ چھپا لوں گا۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’تم سب میرے لیے دعا تو ضرور کرو گے۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس طرح تم سے آملوں گا کہ تم کہو گے کہ یہ شخص راستے سے واپس آگیا ہے۔‘‘ زیادہ تر مؤرخین ، خصوصاً طبری نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ خالدؓ نے ۱۲ ہجری کا حج کس طرح کیا ۔ان حالات میں کہ ان کی ٹکر فارس کی شہنشاہی سے تھی اور انہوں نے روم کی شہنشاہی کے اندر جاکر حملہ کیا تھا ، یہ خطرہ ہر لمحہ موجود تھا کہ یہ دونوں بادشاہیاں مل کر حملہ کریں گی۔ اس خطرے کے پیشِ نظر خالدؓوہاں سے غیر حاضر نہیں ہو سکتے تھے، لیکن حج کا عزم اتناپکا اور خواہش اتنی شدید تھی کہ اسے وہ دبا نہ سکے۔پہلے سنایا جاچکا ہے کہ لشکرفراض سے حیرہ کو کوچ کر رہا تھا۔خالدؓنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ایک حصہ ہراول تھا۔دوسرا اس کے پیچھے اور تیسرا حصہ عقب میں تھا۔خالدؓ نے خاص طور پر اعلان کرایا کہ وہ عقب کے ساتھ ہوں گے۔لشکر کو حیرہ تک پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔تیز کوچ اس صورت میں کیا جاتا تھا جب کہیں حملہ کرنا ہوتا یا جب اطلاع ملتی تھی کہ فلاں جگہ دشمن حملے کی تیاری کر رہاہے۔ اب ایسی صورت نہیں تھی۔لشکر کے کوچ کی رفتار تیز نہ کرنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ کوچ میدانِ جنگ کی طرف نہیں بلکہ اپنے مفتوحہ شہر کی طرف ہو رہا تھا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ مجاہدین متواتر لڑائیاں لڑتے اور پیش قدمی کرتے رہے تھے۔ان کے جسم شل ہو چکے تھے ۔خالدؓ نے کوچ معمولی رفتارسے کرنے کا حکم ایک اور وجہ سے بھی دیا تھا۔ اس وجہ کا تین سالاروں اور خالدؓ کے چند ایک ساتھیوں کے سوا کسی کو علم نہ تھا۔وہ وجہ یہ تھی کہ خالدؓ کو کوچ کے دوران لشکر کے عقبی حصے سے کھسک جاناتھا،اور اک گمنام راستے سے مکہ کو روانہ ہونا تھا۔لشکر ۳۱ جنوری ۶۳۴ء کے روز چل پڑا۔ تاریخ میں اس مقام کا پتا نہیں ملتا جہاں لشکر نے پہلا پڑاؤ کیا تھا۔رات کو جب لشکر گہری نیند سو گیا تو خالدؓاپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ خیمہ گاہ سے نکلے اور غائب ہو گئے۔ کسی بھی مؤرخ نے ان کے ساتھیوں کے نام نہیں لکھے جو ان کے ساتھ حج کرنے گئے تھے۔خالدؓ اور ان کے ساتھی اونٹوں پر سوار تھے ، جس علاقے میں سے انہیں گزرنا تھا۔ وہاں سے صرف اونٹ گزر سکتا تھا۔گھوڑا بھی جواب دے جاتا تھا۔صحراؤں میں بعض علاقے بے حد دشوار گزار ہوتے تھے۔مسافر ادھرسے گزرنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔صحرائی قزاق اور بڑے پیمانے پر رہزنی کرنے والے انہی علاقوں میں رہتے تھے اور لوٹ مار کا مال وہیں رکھتے تھے۔ان میں کچھ علاقے ایسے خوفناک تھے کہ قزاق اور رہزن بھی ان میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرتے تھے۔اس دور میں صحرا کے جس علاقے کو دشوار گزار اور خطرناک کہنا ہوتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ وہاں تو ڈاکو اور رہزن بھی نہیں جاتے۔خالدؓ نے مکہ تک جلدی پہنچنے کا جو راستہ اختیار کیا تھا وہ ایسا ہی تھا جہاں ڈاکو اور رہزن بھی نہیں جاتے تھے۔اتنے خطرناک اور وسیع علاقے سے زندہ گزر جانا ہی ایک کارنامہ تھا لیکن خالدؓ دنوں کی مسافت منٹوں میں طے کرنے کی کوشش میں تھے ۔انہیں صرف یہ سہولت حاصل تھی کہ موسم سردیوں کا تھا لیکن سینکڑوں میلوں تک پانی کا نام و نشان نہ تھا۔

اس علاقے میں ایک اور خطرہ ریت اور مٹی کے ان ٹیلوں کا تھا جن کی شکلیں عجیب و غریب تھیں۔یہ کئی کئی میل وسیع نشیب میں کھڑے تھے۔بعض چٹانوں کی طرح چوڑے تھے ۔بعض گول اور بعض ستونوں کی طرح اوپر کو اٹھے ہوئے تھے۔ایسے نشیب بھول بھلیوں کی طرح تھے۔ان میں بھٹک جانے کا خطرہ زیادہ تھا۔گھوم پھر کر انسان وہیں کا وہیں رہتا تھا اور سمجھتا تھا کہ وہ بہت سا فاصلہ طے کر آیا ہے۔حتٰی کہ وہ ایک جگہ ہی چلتا، اور مڑتا تھک کر چور ہو جاتا تھا۔پانی پی پی کر پانی کا ذخیرہ بھی وہیں ختم ہو جاتا تھا۔اس دور کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ صحرا کے اس حصے کی صعوبتیں ، دشواریاں اور وہاں کے خطرے ایسے تھے جو دیکھے بغیر انسان کے تصور میں نہیں آسکتے۔کئی جگہوں پر اونٹ یوں بدک گئے جیسے انہوں نے کوئی ایسی چیز دیکھ لی ہو جو انسانوں کو نظر نہیں آسکتی تھی۔اونٹ صحرائی جانور ہونے کی وجہ سے اس پانی کی بُو بھی پالیتا ہے جو زمین کے نیچے ہوتا ہے،کہیں چشمہ ہو جو نظر نہ آتا ہو۔اونٹ اپنے آپ اس طرف چل پڑتا ہے ،اونٹ خطروں کو بھی دور سے سونگھ لیتا ہے۔خالدؓ کے مختصر سے قافلے کے اونٹ کئی جگہوں پر بِدکے ۔ان کے سواروں نے اِدھر اُدھر اور نیچے دیکھا مگر انہیں کچھ بھی نظر نہ آیا۔زیادہ خطرہ صحرائی سانپ کا تھا جو ڈیڑھ یا زیادہ سے زیادہ دو بالشت کا ہوتا ہے۔یہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے سانپوں کی طرح آگے کو نہیں رینگتا بلکہ پہلو کی طرف رینگتا ہے، انسان یا جانور کو ڈس لے تو دوچار منٹوں میں موت واقع ہو جاتی ہے،صحرائی بچھو اس سانپ کی طرح زہریلا ہوتا ہے۔ایک مؤرخ یعقوبی نے خالدؓکے اس سفر کو بیان کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا ہے۔اس نے اپنے دور کے کسی عالم کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ ایک معجزے وہ تھے جو خدا نے پیغمبروں کو دکھائے، اور خالدؓ کا یہ سفر ان معجزوں میں سے تھا جو انسان اپنی خداداد قوتوں سے کر دکھایا کرتے ہیں۔خالدؓ اپنے ساتھیوں سمیت بروقت مکہ پہنچ گئے۔انہیں اس خبر نے پریشان کر دیا کہ خلیفۃ المسلمین ابو بکر صدیقؓ بھی فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے آئے ہوئے ہیں۔خالدؓنے سنت کے مطابق اپنا سر استرے سے منڈوادیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اپنے چہرے چھپا کر رکھیں تاکہ انہیں کوئی پہچان نہ سکے۔فریضہ حج ادا کرکے خالدؓ نے بڑی تیزی سے پانی اور دیگر زادِ راہ اکٹھا کیا اور واپسی کے سفر کو روانہ ہو گئے۔یوں کہناغلط نہ ہوگا کہ وہ ایک بار پھر موت کی وادی میں داخل ہو گئے۔ تمام مؤرخ متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ خالدؓ اس وقت حیرہ پہنچے جب فراض سے چلا ہوا ان کا لشکر حیرہ میں  داخل ہو رہا تھا۔لشکر کا عقبی حصہ جس کے ساتھ خالدؓ کو ہونا چاہیے تھا، وہ ابھی حیرہ سے کچھ دور تھا۔خالدؓ خاموشی سے عقبی حصے سے جا ملے اور حیرہ میں اس انداز سے داخل ہوئے جیسے وہ فراض سے آرہے ہوں۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ لشکر نے جب دیکھا کہ ان کے سالارِ اعلیٰ خالدؓ اور چند اور افراد کے سر استرے سے صاف کیے ہوئے ہیں تو لشکر میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں لیکن سر منڈوانا کوئی عجیب چیز نہیں تھی۔ اگر لشکر کو خالدؓ خود بھی بتاتے کہ وہ حج کرکے آئے ہین توکوئی بھی یقین نہ کرتا۔مشہور مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ خالدؓ مطمئن تھے کہ انہیں مکہ میں کسی نے نہیں پہچانا۔چار مہینے گزر گئے۔کسریٰ کے خلاف جنگی کارروائیاں ختم ہو چکی تھیں۔عراق کا بہت سا علاقہ کسریٰ سے چھین کر سلطنتِ اسلامیہ میں شامل کر لیا گیا تھا۔کسریٰ کی جنگی طاقت کا دم خم توڑ دیا گیاتھا۔آتش پرست فارسیوں کی دھونس اوردھاندلی ختم ہو چکی تھی۔یہ خطرہ اگر ہمیشہ کیلئے نہیں تو بڑی لمبی مدت کیلئے ختم ہوگیا تھاکہ فارس کی جنگی طاقت حملہ کرکے مسلمانوں کو کچل ڈالے گی۔فارس آتش پرستوں کے نامور جرنیل قارن، ہرمز، بہمن جاذویہ، اندرزغر، روزبہ، اور زرمہر اور دوسرے جن کی جنگی اہلیت اور دہشت مشہور تھی۔خالدؓ اور ان کے مجاہدین کے ہاتھوں مختلف معرکوں میں مارے گئے تھے۔ان جیسے جرنیل پیدا کرنے کیلئے بڑی لمبی مدت درکار تھی۔اب تو پورے عراق میں اور مدائن کے محلات کے اندر بھی ان مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی جنہیں انہی محلات میں عرب کے بدو اور ڈاکو کہا گیا تھا۔سب سے بڑی فتح تو یہ تھی کہ اسلام نے اپنی عظمت کا احساس دلادیا تھا۔خالدؓ نے حیرہ میں چار مہینے گزار کر اپنے لشکر کو آرام کرنے کی مہلت دی اور اس خیال سے جنگی تربیت بھی جاری رکھی کہ مجاہدین ِ لشکر سست نہ ہوجائیں۔اس کے علاوہ خالدؓنے مفتوحہ علاقوں کا نظم و نسق اور محصولات کی وصولی کا نظام بھی بہتر بنایا۔مئی ۶۳۴ء کے آخری ہفتے میں خالدؓ کو امیر المومنین ابو بکر ؓ کا خط ملا جس کا پہلا فقرہ خالدؓ کے حج کے متعلق تھا جس کے متعلق خالدؓ مطمئن تھے کہ امیر المومنینؓ اس سے بے خبر ہیں۔خط میں خالدؓ کے حج کا اشارہ کرکے صرف اتنا لکھا تھا ۔ آئندہ ایسا نہ کرنا۔باقی خط کا متن یہ تھا:’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔ عتیق بن ابو قحافہ کی طرف سے خالد بن ولید کے نام۔ (یاد رہے کہ امیر المومنین اوّل ابو بکر صدیقؓ کہلاتے تھے لیکن انکا نام عبداﷲ بن ابی قحافہ تھا اور عتیق ان کا لقب تھا جو انہیں رسولِ کریم ﷺنے عطا فرمایا تھا)۔السلام و علیکم۔ تعریف اﷲکیلئے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔درود و سلام محمد الرسول اﷲ ﷺ  پر……’’حیرہ سے کوچ کرو اور شام (سلطنت روما)میں اس جگہ پہنچو جہاں اسلامی لشکر جمع ہے۔ لشکر اچھی حالت میں نہیں، مشکل میں ہے۔ میں اس تمام لشکر کا جو تم اپنے ساتھ لے جاؤ گے اور اس لشکر کا جس کی مدد کو تم جا رہے ہو، سپہ سالار مقررکرتا ہوں۔ رومیوں پر حملہ کرو۔ ابو عبیدہ اور اس کے ساتھ کے تمام سالار تمہارے ماتحت ہوں گے…… ابوسلیمان!(خالدکا دوسرا نام)پختہ عزم لے کر پیش قدمی کرو۔ اﷲکی حمایت اور مدد سے اس مہم کو پورا کرو۔ اپنے لشکر کو جو اس وقت تمہارے پاس ہے، دو حصوں میں کردو۔ ایک حصہ مثنیٰ بن حارثہ کے سپرد کر جاؤ۔ عراق (سلطنت فارس کے مفتوحہ علاقوں ) کا سپہ سالار مثنیٰ بن حارثہ ہوگا۔ لشکر کا دوسرا حصہ اپنے ساتھ لے جاؤ۔ اﷲتمہیں فتح عطا فرمائے۔ اس کے بعد یہیں واپس آجانا اور اس علاقے کے سپہ سالار تم ہوگے……تکبر نہ کرنا، تکبر اور غرور تمہیں دھوکہ دیں گے۔ اور تم اﷲکے راستے سے بھٹک جاؤ گے ۔کوتاہی نہ ہو۔ رحمت و کرم اﷲکے ہاتھ میں ہے، اور نیک اعمال کا صلہ اﷲہی دیا کرتا ہے۔‘‘خط پڑھتے ہی خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا اور کچھ کھسیانا سا ہوکے انہیں بتایا کہ ان کے خفیہ حج کا امیر المومنینؓ کو پتا چل گیا ہے۔’’اور میں خوش ہوں اس پر،  کہ فراغت ختم ہو گئی ہے۔‘‘
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی