🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *36* ۔۔۔۔
بہمن جاذویہ نے اپنے تیار کیے ہوئے لشکر کو آخری بار دیکھا،اور اسےدو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے کو حُصید کی طرف اوردوسرے کو خنافس کی طر ف روانہ کر دیا۔اب اس نے کمان نئے سالاروں کو دے دی تھی۔حُصید والے حصے کا سالار روزبہ تھااور خنافس والے حصے کا زرمہر۔ان کیلئے حکم تھا کہ اپنے اپنے مقام پر جا کر خیمہ زن ہو جائیں اور بنی تغلب اور دوسرے عیسائی قبیلوں کے لشکر کا انتظار کریں ۔قعقاع کے جاسوس نے صحیح اطلاع دی تھی کہ مدائن کے لشکر حُصید اور خنافس کو اجتماع گاہ بنائیں گے اور اگلی کارروائی یہیں سے کریں گے۔عیسائیوں کا لشکر ابھی پوری طرح تیار نہیں ہوا تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ایرانیوں کی طرح عیسائی بھی دو حصوں میں تیار ہو رہے تھے۔ایک کا سردار ہذیل بن عمران تھا اور دوسرے کا ربیعہ بن بجیر۔یہ لشکر حُصید اور خنافس سے کچھ دور دو مقامات ثنٰی اور ذُمیل پر جمع ہو رہے تھے۔مدائن کے لشکر کے دو حصوں اور عیسائیوں کے دو حصوں کو یکجا ہونا تھا۔یہ بہت بڑی جنگی طاقت تھی،مسلمانوں کی تعداد ہر جنگ میں دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی رہی ہے لیکن اب مسلمان آٹے میں نمک کے برابر لگتے تھے۔اسلام کے فدائیوں کا سامنا اتنے بڑے لشکر سے کبھی نہیں ہوا تھا۔ان چاروں خیمہ گاہوں میں رات کو سپاہی اس طرح ناچتے اور گاتے تھے جیسے انہوں نے مسلمانوں کو بڑی بُری شکست دے دی ہو۔انہیں اپنی فتح صاف نظر آرہی تھی۔حالات ان کے حق میں تھے ،نفری ان کی بے پناہ تھی، ہتھیار ان کے بہتر تھے۔گھوڑوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔انعام و اکرام جو انہیں پیش کیے گئے تھے پہلے کبھی نہیں کیے گئے تھے۔مالِ غنیمت کے متعلق انہیں بتایا گیا تھا کہ سب ان کا ہوگا،ان سے کچھ نہیں لیا جائے گا۔ان میں صرف ان پرانے سپاہیوں پر سنجیدگی سی چھائی ہوئی تھی جو مسلمانوں کے ہاتھ دیکھ چکے تھے۔وہ جب کوئی سنجیدہ بات کرتے تھے تو نوجوان سپاہی ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ایسی ایک اور رات فارس کے لشکر نے گاتے بجاتے اور پیتے پلاتے گذاردی۔صبح ابھی سورج نہیں نکلا تھا، اور حُصیدکی خیمہ گاہ میں مدائن کے ایک لشکر کا ایک حصہ سویا ہوا تھا۔انہیں جاگنے کی کوئی جلدی نہیں تھی،انہیں معلوم تھا کہ مسلمان قلعوں میں ہیں اور تعداد میں اتنے تھوڑے کہ وہ باہر آنے کی جرات نہیں کریں گے۔انہوں نے دیکھا تھا کہ ان سے کچھ دور مسلمانوں نے آکر جو ڈیرے ڈالے تھے وہ واپس چلے گئے ہیں۔مسلمان ایک شام پہلے وہاں سے آگئے تھے۔ آتش پرستوں کی خیمہ گاہ کے سنتری جاگ رہے تھے یا چند ایک وہ لوگ بیدار تھے جو گھوڑوں کے آگے چارہ ڈال رہے تھے۔پہلے سنتریوں نے واویلا بپا کیا پھر گھوڑوں کو چارہ وغیرہ ڈالنے والے چلّانے لگے۔ ’’ہوشیار……خبردار……مدینہ کی فوج آگئی ہے‘‘خیمہ گاہ میں ہڑبونگ مچ گئی۔سپاہی ہتھیاروں کی طرف لپکے۔سوار اپنے گھوڑوں کی طرف دوڑے لیکن مسلمان صحرائی آندھی کی مانند آرہے تھے۔ان کی تعداد آتش پرستوں کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑی تھی لیکن یہ غیر متوقع تھا کہ ہ حملہ کریں گے ۔
مسلمانوں کی تعداد صرف پانچ ہزار تھی۔ ان کا سالار قعقاع بن عمرو تھا۔گذشتہ شام خالدؓ اپنے لشکر سمیت پہنچ گئے تھے۔انہوں نے آرام کرنے کے بجائے صورتِ حال معلوم کی۔انہوں نے شام کو ان مختصر سے دستوں کو حُصید اور خنافس سے واپس بلالیا تھا۔اس سے آتش پرستوں کے حوصلے اور بڑھ گئے۔وہ یہ سمجھے کہ مسلمان ان کے اتنے بڑے لشکر سے مرعوب ہوکربھاگ گئے ہیں۔خالدؓنے دوسرا اقدام یہ کیا کہ پانچ ہزار نفری ایک اور سالار ابو لیلیٰ کو دی اور اسے مدائن کے اس لشکر پر حملہ کرنے کو روانہ کیا جو خنافس کے مقام پر خیمہ زن تھا۔ ’’تم پراﷲکی رحمت ہو میرے دوستو!‘‘خالدؓنےان دونوں سالاروں سے کہا۔’’تم دونوں صبح طلوع ہوتے ہی بیک وقت پنے اپنے ہدف پر حملہ کرو گے۔خنافس حُصید کی نسبت دور ہے۔ابو لیلیٰ تجھے تیز چلناپڑے گا۔کیا تم دونوں سمجھتے ہو کہ دونوں لشکروں پر ایک ہی وقت کیوں حملہ کرناہے؟‘‘’اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کو نہ جا سکیں۔‘‘قعقاع بن عمرو نے جواب دیا۔’’ابنِ ولید!تیری اس چال کو ہم ناکام نہیں ہونے دیں گے۔‘‘’’فتح اور شکست اﷲکے اختیار میں ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تمہارے ساتھ صرف پانچ پانچ ہزار سوار اور پیادے ہیں ۔میں دشمن کی تعداد کو دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ یہ لڑائی نہیں ہوگی۔یہ چھاپہ ہوگا۔اتنے بڑے لشکر پر اتنے کم آدمیوں کا حملہ چھاپہ ہی ہوتا ہے……وقت بہت کم ہے میرے رفیقو!جاؤ،میں تمہیں اﷲکے سپرد کرتا ہوں۔‘‘خالدؓخود عین التمر میں اس خیال سے تیاری کی حالت میں رہے کہ عیسائی قبیلے جو ثنّی اور ذمیل میں اکٹھے ہو رہے تھے وہ فارس کے لشکر کے ساتھ جاملنے کو چلیں تو انہیں وہیں اُلجھا لیا جائے۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ خالدؓ کی جنگی ذہانت کا کمال تھا کہ انہوں نے دشمن کی اس صورتِحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ اس کا لشکر ابھی چار حصوں میں بٹا ہوا چار مختلف مقامات پر تھا۔ان چار حصوں کو یکجا ہونا تھا۔خالدؓنے ایسی چال چلی کہ چاروں حصے الگ الگ رہیں اور ایک دوسرے کی مدد کو نہ پہنچ سکیں اور ہ ایک کو الگ الگ شکست دی جائے۔یورپی مؤرخوں نے لکھاہے کہ خالدؓکا یہ حکم تھا۔’’دشمن کو تباہ کرو۔‘‘ان مؤرخوں نے اس حکم کا مطلب یہ لیا ہے کہ جنگی قیدی اکٹھے نہ کیے جائیں ،دشمن کا صفایا کردو۔خالدؓ اتنے طاقتور دشمن کی طاقت کو ختم کرناچاہتے تھے لیکن دیکھنا یہ تھا کہ خالدؓاتنی تھوڑی اور تھکی ہوئی نفری سے تنے طاقت ور دشمن کو ختم کر سکتے تھے؟سالار قعقاع بن عمروتو وقت پر اپنے ہدف پر پہنچ گئے۔دشمن کیلئے ان کا حملہ غیر متوقع تھا۔حُصید کی خیمہ گاہ میں ہڑ بونگ مچ گئی۔مسلمان بند توڑ کر آنے والے سیلاب کی مانند آرہے تھے۔پانچ ہزار نفری کو سیلاب نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن ان پانچ ہزار کی تندی اور تیزی سیلاب سے کم نہ تھی۔
آتش پرستوں کا سالار رُوزبہ اس صورتِ حال سے گھبراگیا۔اس نے ایک قاصد کو اپنے اس لشکر کے سالار زرمہر کی طرف جو خنافس میں خیمہ زن تھا، اس پیغام کے ساتھ دوڑا دیا کہ مسلمانوں نے اچانک حملہ کردیا ہے اور صورتِ حال مخدوش ہے۔قاصد بہت تیز وہاں پہنچا۔فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔سالار زرمہر اپنے ساتھی روزبہ کے اس پیغام پر ہنس پڑا۔اس نے کہا کہ روزبہ کا دماغ چل گیا ہے،مسلمانوں میں اتنی جرات کہاں کہ باہر آکر حملہ کریں۔قاصد نے اسے بتایا کہ وہ کیا دیکھ آیاہے۔زرمہر اپنے لشکر کو وہاں سے کہیں بھی نہیں لے جا سکتا تھا کیونکہ اس کے سالارِ اعلیٰ بہمن جاذویہ کا حکم تھا کہ کسی اور جگہ کچھ بھی ہوتا رہے، کوئی لشکر بغیر اجازت اِدھر اُدھرنہیں ہوگا۔لیکن قاصد نے زرمہر کو پریشان کر دیا تھا۔اس نے بہتر سمجھا کہ لشکر کو خنافس رہنے دے اور خود حُصیدجاکر دیکھے کہ معاملہ کیا ہے۔ وہ جب حُصید پہنچا تو اپنے ساتھی سالار روزبہ کو مشکل میں پھنسا ہوا پایا۔قعقاع کا بڑا زور دار ہلّہ تھا۔اس نے دشمن کو بے خبری میں جا لیا تھا۔دشمن کو یہ سہولت حاصل تھی کہ اس کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔اس افراط کے بل بوتے پر آدھا لشکر بڑی عجلت میں لڑنے کیلئے تیار ہو گیا تھا۔زرمہر بھی آگیا تھا۔اس نے روزبہ کا ساتھ دیا۔توقع یہی تھی کہ آتش پرست مسلمانوں پر چھاجائیں گے۔قعقاع خالدؓ والی شجاعت کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے،وہ روزبہ کو للکار رہے تھے۔روزبہ قلب میں تھا۔قعقاع کی بار بار للکار پر وہ سامنے آگیا۔قعقاع اپنے محافظوں کے نرغے میں اس کی طرف بڑھے جا رہے تھے۔وہ اپنے محافظوں کے حصار سے نکل آیا۔اِدھر قعقاع اپنے محافظوں کو چھوڑ کر آگے ہوئے۔دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیے۔وار روکے، پینترے بدلے، اور زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ قعقاع کی تلوار روزبہ کے پہلو میں بغل سے ذرا نیچے اُتر گئی۔قعقاع نے تلوار کھینچ لی اور گھوڑے کو روک کر پیچھے کو موڑا۔روزبہ گھوڑے پر سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا۔قعقاع نے پیچھے سے آکر تلوار اس کی پیٹھ میں خنجر کی طرح مار دی جو روزبہ کے جسم میں کئی انچ اُتر گئی۔روزبہ گھوڑے سے اس طرح گرا کہ اس کا ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا۔قعقاع نے دیکھ لیا اور گھوڑے کو روزبہ کے گھوڑے کے قریب کرکے گھوڑے کو تلوار کی نوک چبھوئی۔گھوڑا سر پٹ دوڑ پڑااور روزبہ کو زمین پر گھسیٹتا اپنے ساتھ ہی لے گیا۔زرمہر قریب ہی تھا،کسی بھی مؤرخ نے اس مسلمان کماندار کا نام نہیں لکھا جس نے زرمہر کو دیکھ لیا اوراسے للکارا۔زرمہر مقابلے کیلئے سامنے آیا اور اس کا بھی وہی انجام ہواجو اس کے ساتھی روزبہ کا ہو چکا تھا۔فرق صرف یہ تھا کہ اسے اس کے گھوڑے نے گھسیٹا نہیں تھا۔وہ خون سے لت پت اپنے گھوڑے سے گرا اور مر گیا۔مدائن کے اس لشکر میں ایک تو وہ کماندار اور سپاہی تھے جو پہلے بھی مسلمانوں کے ہاتھوں پٹ چکے تھے اور انہیں بے جگری سے لڑتے دیکھ چکے تھے۔انہیں اپنی شکست کا یقین تھا۔ان کے حوصلے اور جذبے میں ذرا سی بھی جان نہیں تھی۔وہ کٹ رہے تھے یا لڑائی سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔جاذویہ نے جن نوجوانوں کو بھرتی کیا تھا وہ تیغ زنی اور تیر اندازی وغیرہ میں تو طاق تھے اور ان میں جوش و خروش بھی تھا لیکن انہوں نے میدانِ جنگ پہلی بار دیکھا تھا اور مسلمانوں کو لڑتا بھی انہوں نے پہلی بار دیکھا تھا۔انہوں نے تڑپتے ہوئے اور پیاس سے مرتے ہوئے زخمی کبھی نہیں دیکھے تھے۔زخم خوردہ گھوڑوں کو بے لگام دوڑتے اور انسانوں کو کچلتے بھی انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اب انہوں نے اتنی غارت گری اور اتنا زیادہ خون دیکھا کہ زمین لال ہو گئی تو انہیں ان پرانے سپاہیوں کی باتیں یاد آنے لگیں جو مسلمانوں سے لڑے اور بھاگے تھے۔اب وہ سپاہی زخمی ہو ہو کر گر رہے تھے یا بھاگ رہے تھے۔نوجوانوں کے حوصلے جواب دے گئے۔تلواروں اور برچھیوں پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔آتش پرستوں کے لشکر کا حوصلہ تو پہلے ہی ٹوٹ رہا تھا انہوں نے جب وہ نعرے سنے تو وہ فرار کا راستہ دیکھنے لگے۔’’خدا کی قسم!‘‘ یہ کسی مسلمان کا نعرہ تھا۔’’زرتشت کے پجاریوں کے دونوں سالار مارے گئے ہیں۔‘‘یہ للکار بلند ہوتی چلی گئی۔پھر دشمن کے اپنے سپاہیوں نے چلّانا شروع کر دیا۔’’روزبہ اور زرمہر ہلاک ہو گئے ہیں۔‘‘اس کے ساتھ یہ بھی للکار سنائی دی۔’’خالدبن ولیدآگیا ہے……خالد بن ولید کا لشکر آگیا ہے۔‘‘اس نعرے نے مدائن کے لشکر کا رہا سہا دم خم بھی ختم کر دیا اور لشکر بکھر کرفرداًفرداً بھاگ اٹھا۔بھاگنے والوں کا رخ خنافس کی طرف تھا جہاں مدائن کے لشکرکا دوسرا حصہ خیمہ زن تھا۔خنافس کے لشکر پر حملہ کرنے کیلئے خالدؓ نے سالار ابو لیلیٰ کو اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ خنافس اور حُصید پر بیک وقت حملے ہوں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔وجہ یہ تھی کہ خنافس حُصید کی نسبت دور تھا۔ابولیلیٰ اپنی پانچ ہزار فوج کو لے کر چلے تو بہت تیز لیکن بر وقت نہ پہنچ سکے۔حُصید پر قعقاع نے پہلے حملہ کر دیا۔تاخیر کا نقصان یہ ہونا تھا کہ دشمن بیدار ہوتا لیکن تاخیر بھی سود مند ثابت ہوئی۔وہ اس طرح کہ ابو لیلیٰ کے پہنچنے سے ذرا ہی پہلے خنافس کے لشکر کو اطلاع مل گئی کہ مسلمانوں نے روزبہ اور زرمہر کو مار ڈالا ہے اور لشکر بُری طر سے کٹ رہا ہے۔ابو لیلیٰ جب دشمن کے سامنے گئے تو دشمن کو لڑائی کیلئے تیار پایا۔دشمن کی تعداد کئی گنا زیادہ تھی ۔ابو لیلیٰ کو سوچ سمجھ کرآگے بڑھنا تھا۔وہ ہلّہ نہیں بول سکتے تھے۔انہیں چالوں کی جنگ لڑنی تھی۔اس انتظار میں کہ دشمن حملے میں پہل کرے ،حُصید سے بھاگے ہوئے سپاہی خنافس کی خیمہ گاہ میں پہنچنے لگے ۔سب سے پہلے گھوڑ سوار آئے ۔ان میں سے بہت زخمی تھے۔یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بلا وجہ نہیں بھاگے ،انہوں نے مسلمانوں کے لشکر کی تعداد اور ان کے لڑنے کے قہر و غضب کو مبالغے سے بیان کیااور ایسی دہشت پھیلائی کہ خنافس کے لشکر کا حوصلہ لڑے بغیر ہی ٹوٹ گیا۔بھگوڑوں نے یہ خبر بھی سنائی کہ خالدؓاپنے لشکر کے ساتھ آگیا ہے۔خنافس والے لشکر کی کمان اب ایک اور آتش پرست سالار مہبوذان کے پاس تھی۔زیادہ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مہبوذان اور دیگر تمام سالاروں کو یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمان قلعوں میں بند ہیں اور ان کی نفری بہت تھوڑی ہے اور یہ بھی کہ خالد جا چکا ہے۔لہٰذا قلعوں پر حملے کرکے مسلمانوں کو ختم کر دینا ہے۔اب صورتِ حال بالکل ہی بدل گئی تھی ۔مدائن کے سالار مہبوذان نے روزبہ کے لشکر کی حالت سنی اور اپنے لشکر کی ذہنی حالت دیکھی اور یہ سنا کہ خالدؓاپنے لشکر کو لے کر آگئے ہیں تو اس نے لڑائی کا ارادہ ترک کر دیا اور اپنے لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا۔ابو لیلیٰ نے بغیر لڑے ہی فتح حاصل کر لی۔اس نے اپنے ایک دوآدمی مہبوذان کے لشکر کے پیچھے بھیجے کہ وہ چھپتے چھپاتے جائیں اور دیکھیں کہ یہ لشکر کہاں جاتا ہے۔
خالدؓعین التمر میں تھے۔انہیں پہلی اطلاع یہ ملی کہ حُصیدکا لشکر بھاگ گیا ہے۔بہت دیر بعد ابولیلیٰ کا بھیجا ہواقاصد خالدؓ کے پاس پہنچا اور یہ خبر پہنچائی کہ خنافس والا لشکر بغیر لڑے پسپا ہو گیا ہے اور مضیح پہنچ کر عیسائیوں کے ساتھ جا ملا ہے۔وہاں جوعیسائی عربوں کالشکر جمع تھا ،اس کی کمان ھذیل بن عمران کے پا س تھی۔اس طرح مضیح میں دشمن کا بہت بڑا لشکر جمع ہوگیا۔خالدؓ سوچ میں پڑ گئے۔وہ آتش پرستوں کے مرکزی مقام مدائن پر حملہ کر سکتے تھے۔مدائن فارس کی جنگی طاقت کا دل تھا۔خالدؓ نے سوچا کہ وہ اس دل میں خنجر اتار سکتے ہیں یا نہیں ۔مشہور مؤرخ طبری لکھتا ہے کہ خالدؓ مدائن پر حملہ کرتے تو فتح کا امکان تھا ،لیکن ان پر عقب سے یہ لشکر حملہ کر سکتا تھا جو مضیح میں جمع ہو گیا تھا۔خالدؓنے اپنے سالاروں سے مشورہ کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ پہلے مضیح کی اجتماع گاہ کو ختم کیاجائے۔یہ فیصلہ اور ارادہ کر لیناکہ اس لشکر کو ختم کیا جائے ،آسان تھا عملاًاتنے بڑے لشکر کو اتنی تھوڑی نفری سے ختم کرنا کہاں تک ممکن تھا۔یہ یقینی نہیں تھا مگر خالدؓ اسے یقینی بنانے پر تُلے ہوئے تھے۔وہ نا ممکن کو ممکن کر دکھانے والے جرنیل تھے۔انہوں نے ایسی اسکیم بنائی جسے آج کے جنگی مبصر بے مثال کہتے ہیں۔’’میرے رفیقو!‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں ،نائب سالاروں اور کمانداروں کو بلا کر کہا۔’’خدا کی قسم!تم نے جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں یہ انسانی سطح سے بالاتر تھیں ۔تم نے پانچ گُنا قوی دشمن کو اس سے بھی زیادہ نفری کو جس طرح کاٹا اور بھگایا ہے ،یہ تمہاری مافوق الفطرت طاقت تھی۔یہ ایمان کی قوت ہے۔تمہیں اس کا اجر خدا دے گا……اب میں تمہیں ایک بڑے ہی کٹھن امتحان میں ڈال رہا ہوں۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘سالار قعقاع بن عمرو نے خالدؓکو ٹوک دیا۔’’کیا اتنی باتوں کو ضروری سمجھتا ہے؟ربّ کعبہ کی قسم!ہم اس اﷲکے حکم سے لڑ رہے ہیں جس نے تجھے ہمارا امیر بنایا ہے۔حکم دے کہ ہم آگ میں کود جائیں پھر ہمارے جسموں کو جلتا ہوا دیکھ۔‘‘، ’’تجھ پر خدا کی رحمت ابنِ عمرو!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں نے یہ باتیں اس لئے ضروری سمجھی تھیں کہ میں تمہیں آگ میں کودنے کا حکم دینے والا ہوں۔میں ڈرتا ہوں کہ کوئی مجاہد یہ نہ کہے کہ ولید کے بیٹے نے بڑا ظالم حکم دے دیا تھا……میرے رفیقو!ہمیں جان کی بازی لگانی ہے ۔تمام مجاہدین سے کہو کہ تمہارے صبر اور استقلال کا ایک اور امتحان باقی ہے اور اسے اﷲکا حکم سمجھنا۔‘‘خالدؓ نے اپنی جو سکیم سب کو بتائی تھی وہ یہ تھی کہ دشمن پر رات کے وقت تین اطراف سے حملہ کرنا ہے اور حملے کے مقام تک اتنی خاموشی سے پہنچنا ہے کہ دشمن کو خبر نہ ہونے پائے۔خالدؓ نے اپنی تمام تر فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ہر حصے میں تقریباً پانچ ہزار سوار اور پیادے تھے۔یہ تینوں حصے ایک جگہ نہیں بلکہ ایک دوسرے سے دور مختلف جگہوں پر تھے۔حُصید ،خنافس اور عین التمر۔ان سب کو اپنے اپنے مقام سے مقررہ راستوں سے مضیح تک پہنچنا تھا۔
خالدؓ نے حملے کی رات بھی مقرر کر دی تھی اور مقام بھی جومضیح میں دشمن کی اجتما گاہ سے کچھ دور تھا۔تینوں حصوں کو رات کے وقت اس مقام پر پہنچنا تھا۔مضیح میں دشمن کا جو لشکر خیمہ زن تھا ،اس کی تعداد کے متعلق مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ دشمن کی تعداد ساٹھ اور ستّر ہزار کے درمیان تھی۔اس پر حملہ کرنے والے مجاہدین کی تعداد پندرہ ہزار تھی۔اس قسم کی اسکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا نا ممکن کی حد تک مشکل تھا۔پانچ پانچ ہزار کے لشکر کیلئے سفر کے دوران خاموشی برقرار رکھنا آسان کام نہیں تھا لیکن بڑی سختی سے خاموشی برقرار رکھنی تھی۔دوسری مشکل خالدؓ کیلئے تھی۔وہ خود عین التمر میں تھے جہاں ان کی فوج کا صرف ایک حصہ تھا۔دوسرے دو حصوں کو حُصید اور خنافس سے چلنا تھا۔انہیں قاصدوں کے ذریعے اپنے رابطے میں رکھنا تھا تاکہ حملے والے مقام پر بروقت پہنچ سکیں۔جو رات مقرر کی گئی تھی وہ نومبر ۶۳۳ء کے پہلے (شعبان ۱۲ ہجری کے چوتھے )ہفتے کی ایک رات تھی۔خالدؓکے مجاہدین کے تینوں حصے اپنے اپنے مقام سے چل پڑے۔گھوڑوں کے منہ باندھ دیئے گئے تھے۔تینوں حصوں نے یہ انتظام کیا تھا کہ چندایک آدمی لشکر کے آگے اور دائیں بائیں جا رہے تھے۔ان کا کام یہ تھا کہ کوئی بھی آدمی رستے میں مل جائے اُسے پکڑ لیں تاکہ وہ دشمن تک خبر نہ پہنچا سکے۔دشمن کے بیدار ہوجانے کی صورت میں مجاہدین کی کامیابی مخدوش ہو جاتی اور دشمن گھات بھی لگا سکتا تھا۔رات کے چلے ہوئے اُسی رات نہیں پہنچ سکتے تھے۔دن کو لشکر کو چھپا کر رکھا گیا۔دیکھ بھال والے آدمی دور دور پھیلے رہے۔خالدؓ نے اپنے جاسوس دشمن کی اجتماع گاہ مضیح تک بھیج رکھے تھے۔وہ دشمن کے متعلق اطلاعیں دے رہے تھے۔ان کی آخری اطلاع یہ تھی کہ دشمن نے ابھی تک کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے پتہ چلے کہ وہ کسی طرف حملہ کیلئے کوچ کرنے والا ہے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ دشمن کے سالار اپنے سالارِ اعلیٰ بہمن جاذویہ کے اگلے حکم کا انتظار کر رہے تھے ۔خالدؓ کے آجانے سے ان کیلئے صورتِ حال بدل گئی تھی۔اس کے مطابق انہوں نے اپنی ساری اسکیم بدلنی تھی۔ اس رات بھی مضیح کی خیمہ گاہ میں دشمن کا لشکر گہری نیند سو رہا تھا جس رات خالدؓ کی فوج کے تینوں حصے بخیرو خوبی سکیم کے عین مطابق مضیح کے قریب مکمل خاموشی سے پہنچ گئے تھے۔بعض مؤرخوں نے اسے محض ایک معجزہ کہا ہے اور کچھ اسے خالدؓ کی دی ہوئی ٹریننگ اور ان کے پیدا کیے ہوئے ڈسپلن کا کرشمہ کہتے ہیں۔ آدھی رات سے ذرا بعد دشمن پر قہر ٹوٹ پڑا۔لشکر سویا ہوا تھا۔مجاہدین نے جگہ جگہ آگ لگا دی تھی۔جس کی روشنی میں اپنے پرائے کی پہچان آسان ہو گئی تھی۔مدائن کے اور عیسائی قبیلوں کے اس لشکر کو سنبھلنے اور تیار ہونے کی مہلت ہی نہ ملی۔مسلمان نعرے لگا رہے تھے۔زخمیوں کی چیخ و پکار اس دہشت میں اضافہ کر رہی تھی،جو دشمن کے لشکر پر طاری ہو گئی تھی۔’’مدینہ کے مجاہدو!‘‘خالدؓ کے حکم سے یہ للکاربڑی بلند تھی۔’’کسی کو زندہ نہ رہنے دو۔دشمن کا صفایا کردو۔‘‘دشمن کے گھوڑے جہاں بندھے تھے، وہیں بندھے رہے۔ان کے سوار ان تک پہنچنے سے پہلے ہی کٹ رہے تھے۔مسلمانوں نے رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھایا تھا۔اسی اندھیرے سے دشمن نے بھی فائدہ اٹھایا ۔کئی آتش پرست اور عیسائی زندہ نکل گئے۔ان کی اجتماع گاہ ڈیڑھ دو میل کے رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔حملہ تین طرف سے کیا گیا تھا۔صبح کا اجالا صاف ہوا تو دشمن کی اتنی وسیع و عریض خیمہ گاہ میں کوئی بھی لشکری زندہ نہیں تھا۔زندہ وہی رہے تھے جو مسلمانوں کے اس پھندے سے نکل گئے تھے۔منظر بڑا ہی ہیبت ناک تھا۔جدھر نظر جاتی تھی سوائے لاشوں کے کچھ نظر نہ آتا تھا۔لاشوں کے اوپر لاشیں پڑی تھیں۔زخمی تڑپ تڑپ کر بے ہوش ہو رہے تھے ۔فضاء خون اور موت کی بُو سے بوجھل تھی۔سالاروں کے خیمے دیکھے گئے۔ان میں سامان وغیرہ پڑا تھا۔شراب کی صراحیاں رکھی تھیں۔ہر چیز ایسے پڑی تھی جیسے ان شاہانہ خیموں کے مکین ابھی ابھی نکل کے گئے ہیں اور ابھی واپس آجائیں گے۔کوئی سالار نظر نہ آیا۔وہ زندہ نکل گئے تھے۔سالار مہبوذان بھی نکل گیا تھا اور عیسائیوں کا سردار اور سالار ھذیل بن عمران بھی زندہ نکل گیا تھا۔
جاسوسوں کی اطلاعوں کے مطابق آتش پرستوں اور عیسائیوں کے سردار ذُومیل چلے گئے تھے جہاں عیسائی قبائل کا دوسرا حصہ خیمہ زن تھا۔وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ابھی تیاری ہی کر رہا تھا۔وہ جس لشکر کا حصہ تھا،اس کے تین حصے تباہ ہو چکے تھے ۔ذومیل والے اس لشکر کا سردار ربیعہ بن بجیر تھا۔مالِ غنیمت میں مسلمانوں کو جو سب سے زیادہ قیمتی اور کارآمد چیز ملی وہ ہزاروں گھوڑے تھے جو انہیں زینوں سمیت مل گئے تھے۔اس سے آگے ثنّی اور ذومیل دو مقامات تھے جہاں بنی تغلب ،نمر اور ایاد کے عیسائی مسلمانوں کے خلاف خیمہ زن تھے ۔وہ بھی مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے ارادے سے گھروں سے نکلے تھے۔عیسائیوں کے سردار عقہ بن ابی عقہ کا بیٹا بلال بن عقہ بھی کہیں آگے تھا۔وہ اپنے باپ کے قتل کا انتقام لینے کیلئے عیسائی لشکر کے ساتھ آیا تھا۔’’خدا کی قسم!‘‘خالدؓ نے مضیح کی معجزہ نما فتح کے بعد اپنے سالاروں سے کہا۔’’میں دومۃ الجندل سے قسم کھا کر چلا تھا کہ بنی تغلب پر اس طرح جھپٹوں گا کہ پھر وہ کبھی اسلام کے خلاف اٹھنے کے قابل نہیں رہیں گے……بنی تغلب ابھی آگے ہیں،ان پر جھپٹنے کی تیاری کرو۔‘‘مضیح کی بستی پر بھی مسلمانوں نے چھاپہ مارا تھا۔یہ عیسائیوں کی بستی تھی۔ وہاں دو ایسے آدمیوں کو مسلمانوں نے قتل کر دیا جو مسلمان تھے۔انہوں نے کسی وقت مدینہ میں آکر اسلام قبول کیا اور واپس اپنی بستی میں چلے گئے تھے۔انہیں مجاہدین نے انجانے میں عیسائی سمجھ کر مارڈالا۔خالدؓ نے اتنی بڑی فتح کی خبر خلیفۃ المسلمین حضرت ابو بکر صدیقؓ کو مدینہ بھیجی اور پیغام میں یہ اطلاع بھی دے دی کہ مجاہدین کے ہاتھوں عیسائیوں کی ایک بستی میں دو مسلما ن بھی غلطی سے مارے گئے ہیں،خلیفۃ المسلمینؓ نے فتح کی خبر کے ساتھ ان دو مسلمانوں کے قتل کی خبر بھی سب کو سنا دی۔’’خالدؓ کو اس کی سزا ملنی چاہیے۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’مسلمان کا خون معاف نہیں کیا جا سکتا۔‘‘’’جو لوگ کفار کے ساتھ رہتے ہیں وہ اس صورتِ حال میں جو وہاں پیدا ہو گئی تھی،مارے جا سکتے ہیں۔‘‘خلیفۃ المسلمینؓ نے کہا۔’’اس قتل کا ذمہ دار خالدہے۔‘‘عمرؓ نے اصرار کیا۔’’اسے سزا ملنی چاہیے۔‘‘’’خلافتِ مدینہ کی طرف سے دونوں مقتولین کے پسماندگان کو خون بہا ادا کیا جائے گا۔‘‘ابو بکر صدیقؓ نے فیصلہ سنایا۔’’اور یہ خون بہا اسی قاصدکے ساتھ بھیج دیا جائے جو فتح کی خبر لایا ہے۔‘‘عمرؓ نے پھر سزا کی بات کی۔’’عمر!‘‘خلیفۃ المسلمینؓ نے گرج کر کہا۔’’خالدواپس نہیں آئے گا،میں اس شمشیر کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے اﷲنے کفار کے خلاف بے نیام کیا ہے۔‘‘(بحوالہ طبری، ابنِ ہشام، ابو سعید، حسین ہیکل)مضیح کے میدانِ جنگ میں ہڈیاں اور کھوپڑیاں رہ گئی تھیں۔جو دور دور تک بکھری ہوئی تھیں۔گدّھ، گیدڑ ، بھیڑیئے ،صحرائی لومڑیاں،گرگٹ،سانپ، اور حشرات الارض ان ہڈیوں سے گوشت کھا گئے تھے۔یہ آتش پرستوں کی اس جنگی قوت کی ہڈیاں تھیں،جس نے عرب عراق اور شام پر دہشت طاری کر رکھی تھی۔ان میں ان عیسائیوں کی ہڈیاں بھی شامل تھیں جو فارس کی جنگی قوت میں اضافہ کرنے آئے تھے۔یہ عیسائی اپنے سرداروں کے خون کا بدلہ لینے آئے تھے ۔اسے انہوں نے مذہبی جنگ بھی سمجھا تھا،وہ اسلام کے راستے میں حائل ہونے آئے تھے۔ان ہڈیوں میں ان ہاتھوں کی ہڈیاں بھی تھیں جنہوں نے حق پرستوں کو کاٹنے کیلئے نیاموں سے تلواریں نکالی تھیں۔ان ہاتھوں میں برچھیاں بھی تھیں۔ان ہاتھوں میں گھوڑوں کی باگیں بھی تھیں۔وہ اس خوش فہمی میں مبتلاہو کر آئے تھے کہ ارض و سما کی طاقت انہی کے ہاتھوں میں ہے اور وہ سمجھتے تھے کہ جب وہ گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں تو ان کے نیچے زمین کانپتی ہے مگر اب وہ زمین جو کبھی کسی انسان اور اس کے گھوڑے کے بوجھ اور خوف سے نہیں کانپی،ان کے نیچے سے نکل گئی تھی،اور زمین نے ان کے مُردہ جسموں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔زمین حق پرستوں کے بوجھ اور رعب سے بھی نہیں کانپتی تھی۔اﷲکا فرمان قرآن کی صورت میں مکمل ہو چکا تھا اور اﷲکو وحدہٗ لا شریک ماننے والے اﷲکے اس فرمان سے آگاہ تھے کہ گردن کو کتنا ہی اکڑا لے، سر کو جتنا اونچا کرلے ، تو پہاڑوں سے اونچا نہیں ہو سکے گا، اور تو کتنے ہی رعب اور دبدبے سے کیوں نہ چلے، زمیں کو تُو نہیں پھاڑ سکے گا۔حق پرستوں کو اﷲ کا یہ وعدہ بھی یاد تھا کہ تم میں دس ایمان والے ہوئے تو ایک سو کفار پر غالب آئیں گے۔یہ ایمان کی ہی قوت تھی کہ دس ایمان والے ایک سو پر اور بیس دوسو پر غالب آگئے تھے۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
’’سالارِ اعلیٰ ابنِ ولید کہے نہ کہے، کیا تم خود نہیں جانتے؟‘‘مسلمانوں کے سالار ابو لیلیٰ اپنے کمانداروں اور چند ایک سپاہیوں کو جو ان کےاردگرد اکٹھے ہو گئے تھے ،کہہ رہے تھے۔’’اگر تم سے ایمان لے لیا جائے تو تمہارے پاس گوشت اور ہڈیوں کے جسم رہ جائیں گے……کیا انجام ہو گا ان جسموں کا……؟وہ دیکھو۔وہ کھوپڑیاں دیکھو۔ان کے اوپر کا گوشت کھایا جا چکا ہے۔ان کے اندر مغز موجود ہیں مگر یہ مغز اب سوچنے کے قابل نہیں رہے۔ان میں کیڑے داخل ہو چکے ہیں اور ان کے مغز کیڑوں کی خوراک بن رہے ہیں۔‘‘وہ ذرا اونچی جگہ کھڑے تھے ۔سب نے اس وسیع میدان کی طرف دیکھاجہاں کسریٰ کی فوج کا اور عیسائیوں کے لشکر کا کیمپ تھا۔تین راتیں پہلے یہاں گہما گہمی تھی۔سپاہی ناچ رہے تھے،اس کے سالار اور سردار خیموں میں شراب پی رہے تھے۔مسلمانوں کا شب خون ان پر قیامت بن کر ٹوٹا تھا۔’’……اور اب دیکھو!‘‘سالار قعقاع بن عمرو نے اپنے ماتحتوں اور سپاہیوں سے کہہ رہے تھے۔’’یہ ان کا انجام ہے جنہوں نے اﷲکو نہ مانا،محمدﷺ کو اﷲکا رسول نہ مانا،انہوں نے اپنے خدا بنائے ہوئے تھے۔ان کے سردار خداؤں کے ایلچی بنے ہوئے تھے۔فارس کے بادشاہ اﷲکے بندوں کو اپنے بندے سجھتے تھے۔سالارِ اعلیٰ ابنِ ولید نے کہا ہے کہ مجاہدین کوبتاؤکہ تمہیں اﷲدیکھ رہا ہے،اور وہی ہے اجر دینے والا، اور اسی نے تمہارے جسموں میں اتنی طاقت بھر دی ہے کہ آرام کا ایک پل نہیں ملتا ۔تمہارے جسم لڑ رہے ہوتے ہیں یا کوچ کر رہے ہوتے ہیں اور اگلے روز اگلی لڑائی کیلئے تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔یہ طاقت جسمانی نہیں، یہ روح کی طاقت ہے اور روح کو ایمان تقویت دیتا ہے۔‘‘’’سالارِ اعلیٰ نے کہا ہے کہ سب سے کہہ دو کہ تم زمین کی ملکیت پر لڑنے نہیں آئے، تم کفر پر غالب آنے کیلئے لڑ رہے ہو۔‘‘سالار زبرقان اپنے دستوں کے کمانداروں سے کہہ رہے تھے۔’’ابنِ ولید نے کہاہے کہ ان جسموں کو ایمان سے اور پاک عزم سے خالی کردوتو ابھی گر پڑو گے اور جسم روحوں سے خالی ہو جائیں گے۔جسم تو دو لڑائیاں لڑ کرہی ختم ہوگئے تھے، اب تمہاری روحیں لڑ رہی ہیں۔‘‘سالار عدی بن حاتم بھی اپنے دستوں کو سالارِ اعلیٰ کا یہی پیغام دے رہے تھے۔سالار عاصم بن عمرو بھی جو سالار قعقاع بن عمرو کے بڑ ے بھائی تھے۔اپنے مجاہدین کے ساتھ یہی باتیں کر رہے تھے۔خالدؓ نے اپنے تمام سالاروں سے کہا تھا کہ مجاہدین کے جسم لڑنے کے قابل نہیں رہے اور یہ عزم کی پختگی کا کرشمہ ہے کہ شل اور چور جسموں سے بھی ہر میدان میں یہ تازہ دم ہو جاتے ہیں، خالدؓنے سالاروں سے کہا تھا کہ ان کے حوصلے اور جذبے کو قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔
’دشمن کے پاؤں اکھڑے ہوئے ہیں۔‘‘خالدؓنے کہا تھا۔اسے سنبھلنے کی مہلت مل گئی تو یہ ہمارے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے……اور میرے رفیقو!جس طرح اﷲہمیں فتح پر فتح عطا کرتا چلا جا رہا ہے، یہ فتوحات بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ہمارا یہ لشکر کہیں یہ نہ سمجھ لے کہ ہمیں شکست ہو ہی نہیں سکتی ۔انہیں بتاؤ کہ انہیں دشمن پر ہر میدان مین غالب کرنے والا صرف اﷲہے۔اس کی ذاتِ باری کو دل سے نہ نکالیں اور تکبر سے بچیں۔‘‘مدینہ کے مجاہدین کا حوصلہ تو بھاگتے دشمن کو، میدانِ جنگ میں اس کے زخمیوں کو تڑپتا اور لاشوں کو سرد ہوتا دیکھ کر تروتازہ ہو جاتا تھا لیکن وہ آخر انسان تھے اور انسان کوتاہی کا مرتکب بھی ہو سکتاہے۔اپنا سر غرور اور تکبر سے اونچا بھی کر سکتا ہے۔خالد اس خطرے کو محسوس کر رہے تھے انہوں نے کفار پر اپنی دہشت طاری کر کے اسے نفسیاتی لحاظ سے بہت کمزور کر دیا تھا لیکن ان مؤرخین کے مطابق جو جنگی امور کو سمجھتے تھے ،خالدؓکو یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ ان کی سپاہ اس مقام تک نہ پہنچ جائے جہاں یکے بعد دیگرے کئی فتوحات کے بعد دشمن کے دباؤ سے تھوڑا سا بھی پیچھے ہٹنا پڑے تو سپاہ بالکل ہی پسپا ہو جائے۔اس خطرے نے انہیں پریشان سا کر دیا تھا۔انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اپنے لشکر کو آرام کیلئے کچھ وقت دے دیں ، وہ ایسی جنگی چالیں سوچ رہے تھے جن سے دشمن کو بے خبری میں دبوچا جا سکے۔ایک چال خالدؓ مضیح میں آزما چکے تھے ۔یہ کامیاب رہی تھی۔یہ تھا شب خون۔پورے لشکر نے دشمن کی خیمہ گاہ پر حملہ کر دیا تھا لیکن ضروری نہیں تھا کہ یہ چال ہر بار کامیاب ہوتی۔کیونکہ پورے لشکر کو خاموشی سے دشمن کی خیمہ گاہ تک پہنچانا آسان کام نہیں تھا۔اس وقت دشمن کا لشکر دو مقامات پر جمع تھا،ایک ذومیل تھا، اور دوسرا تھا ثنّی۔انہی دو مقامات کے متعلق اطلاع ملی تھی کہ آتش پرستوں اور عیسائیوں کے لشکر جمع ہیں۔اب حُصید کا بھاگا ہوا لشکر بھی وہیں جا پہنچا تھا اور مضیح سے دشمن کی جو نفری بچ نکلی تھی، وہ بھی انہی دو مقامات پر چلی گئی تھی۔اس شکست خوردہ نفری نے ثنّی اور ذومیل میں جاکر دہشت پھیلا دی۔وہاں سردار اور سالار بھی تھے،انہیں بہت مشکل پیش آئی۔جذبے کے لحاظ سے لشکر لڑنے کے قابل نہیں تھا۔جسمانی لحاظ سے لشکر تازہ دم تھا۔ثنّی میں ان کی عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی تھے۔عورتوں نے مردوں کو بزدلی اور بے غیرتی کے طعنے دیئے اور انہیں لڑنے کیلئے تیار کیا۔ان دو مقامات پر جنگ کی تیاریوں کا منظر جنگ جیسا ہی تھا۔سوار اور پیادے تیغ زنی کی مشق صبح سے شام تک کرنے لگے۔سوار دستوں کو حملہ کرنے اور حملہ روکنے کی مشقیں کرائی جانے لگیں۔اس وقت تک کسریٰ کے سالار اور ان کے اتحادی عیسائیوں کے سردار خالدؓ کی جنگی چالیں سمجھ چکے تھے۔
’’لیکن چالیں سمجھنے سے کیا ہوتا ہے!‘‘عیسائیوں کے ایک قبیلے کا سردار ربیعہ بن بجیر کہہ رہا تھا۔’’دل کو ذرا مضبوط رکھیں تو ان تھوڑے سے مسلمانوں کو کچلنا کوئی مشکل نہیں۔‘‘اس کے پاس عیسائیوں کے بڑے سردار عقہ بن ابی عقہ کا بیٹا بلال بن عقہ بیٹھا ہوا تھا۔عقہ بن ابی عقہ سرداروں میں سرکردہ سردار تھا۔اس نے للکار کر کہا تھاکہ وہ خالدؓکا سر کاٹ کر لائے گا۔مگر عین التمر کے معرکے میں وہ پکڑا گیا،اس سے پہلے خالدؓ نے قسم کھائی تھی کہ وہ عقہ کو زندہ پکڑیں گے ۔خالدؓکی قسم پوری ہو گئی ۔انہوں نے عقہ کا سر اپنی تلوار سے کاٹا تھا۔بلال عقہ کا جوان بیٹا تھا۔جو اپنے باپ کے خون کا بدلہ لینے آیا تھا۔’’ابنِ بجیر!‘‘اس نے اپنے سردار ربیعہ کی بات سن کر کہا۔’’میں اپنے باپ کے سر کے بدلے خالد کا سر لینے آیا ہوں۔‘‘’’ایک نہیں ہم پر ہزاروں سروں کا قرض چڑھ گیا ہے۔‘‘ربیعہ بن بجیرنے کہا۔وہ کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر بلال بن عقہ چلا گیا۔رات کا وقت تھا۔رات سرد اور تاریک تھی۔مہینہ نومبر کا تھا اور اسی شام رمضان کا چاند نظر آیا تھا۔بلال باہر جا کر رک گیا۔وہ اپنے لشکر کے خیموں سے کچھ دور تھا۔اسے ایک طرف سے اپنی طرف کوئی آتا نظر آیا۔نیا چاند کبھی کا ڈوب چکا تھا۔تاریک رات میں چلتے پھرتے انسان متحرک سائے لگتے تھے۔سایہ جو بلال کی طرف آرہا تھا ،قریب آیا تو بلال نے دیکھا کہ وہ کوئی آدمی نہیں عورت ہے۔’’ابنِ عقہ!‘‘عورت نے کہا۔’’میں صابحہ ہوں……صابحہ بنتِ ربیعہ بن بجیر…… ذرا رُک سکتے ہو میری خاطر؟‘‘’’اوہ!ربیعہ بن بجیر کی بیٹی!‘‘بلال بن عقہ نے مسرور سے لہجے میں کہا۔’’کیا میں ابھی ابھی تیرے گھر سے اٹھ کر نہیں آیا؟‘‘’’لیکن بات جو کہنی ہے وہ میں باپ کے سامنے نہیں کہہ سکتی تھی۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’کیا تو نے مجھے اپنے قابل سمجھا ہے؟‘‘بلا ل نے کہا۔’’بات جو تو کہنا چاہتی ہے وہ پہلے ہی میرے دل میں ہے۔‘‘، ’’غلط نہ سمجھ ابنِ عقہ!‘‘صابحہ نے کہا۔’’پہلے میری بات سن لے!……مجھے بتا کہ مجھ سے زیادہ خوبصورت لڑکی تو نے کبھی دیکھی ہے؟‘‘، ’’نہیں بنتِ ربیعہ!‘‘’’کبھی مدائن گیا ہے تو؟‘‘صابحہ نے کہا۔’’گیا ہوں؟‘‘’’سناہے فارس کی لڑکیاں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’کیا وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت ہیں؟‘‘’’کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ تو وہ بات کہہ دے جو تیرے دل میں ہے؟‘‘بلال نے پوچھا اور کہا۔’’میں نے تجھ سے زیادہ کسی لڑکی کو کبھی حسین نہیں سمجھا۔میں تھجے تیرے باپ سے مانگنا چاہتا تھا۔میں نہیں جانتا تھا کہ تیرے دل میں پہلے ہی میری محبت پیدا ہو چکی ہے۔‘‘’’محبت تو اب بھی پیدا نہیں ہوئی۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’میں کسی اور کو چاہتی ہوں۔آج سے نہیں۔اس دن سے چاہتی ہوں اسے جس دن میں نے محسوس کیا تھا کہ میں جوان ہونے لگی ہوں، اور جوانی ایک ساتھی کا مطالبہ کرتی ہے۔‘‘’’پھر مجھے کیا کہنے آئی ہے تو؟‘‘’’یہ کہ میں نے اسے اپنے قابل سمجھناچھوڑ دیا ہے۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’مرد کی طاقت عورت کے جسم کیلئے ہی تو نہیں ہوتی۔وہ طاقتور اور خوبصورت آدمی ہے۔وہ جب گھوڑے پر بیٹھتا ہے تو مجھے اور زیادہ خوبصورت لگتا ہے۔‘‘’پھر کیا ہوا اُسے؟‘‘، ’’وہ بزدل نکلا۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’وہ لڑائیوں میں سے بھاگ کر آیا ہے۔دونوں بار اسے خراش تک نہیں آئی تھی۔مجھے شک ہے کہ وہ لڑے بغیر بھاگ آتا رہا ہے،وہ میرے پاس آیا تھا،میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ وہ مجھے بھول جائے۔میں کسی بزدل کی بیوی نہیں بن سکتی۔اس نے میرے باپ کو بتایا تو باپ نے مجھے کہا کہ میں تو اس کی بیوی بننے والی ہوں۔میں نے باپ سے بھی کہہ دیا ہے کہ میں میدان سے بھاگے ہوئے کسی آدمی کی بیوی نہیں بنوں گی۔میں نے باپ سے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے اس شخص کی بیوی بنانا ہے تو میری لاش اس کے حوالے کر دو۔
’’کیا اب تم میری بہادری آزمانا چاہتی ہو؟‘‘بلال نے پوچھا۔’’ہاں!‘‘صابحہ نے کہا۔’’اور اس کا انعام دیکھ۔اتنا حسین جسم تجھے کہا ں ملے گا!‘‘’’کہیں نہیں۔‘‘بلال نے کہا۔’’لیکن میں ایک کام کا وعدہ نہیں کروں گا۔ہمارے سردار اور ہمارے قبیلوں کے جوشیلے جوان یہ اعلان کرکے مسلمانوں کے خلاف لڑنے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے سالار خالدبن ولید کا سر کاٹ لائیں گے مگر وہ خود کٹ جاتے ہیں یا بھاگ آتے ہیں۔میں ایسا وعدہ نہیں کروں گا۔خالد کا سر کون کاٹے گا،اس تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا۔‘‘’’میں ایسا وعدہ نہیں لوں گی۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’میں تیرے منہ سے نہیں ، دوسروں سے سننا چاہتی ہوں کہ تو نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے اور مسلمانوں کو شکست دینے میں تیرا ہاتھ سب سے زیادہ ہے۔میں یہ بھی وعدہ کرتی ہوں کہ تو مارا گیا تو میں کسی اور کی بیوی نہیں بنوں گی۔اپنے آپ کو ختم کر دوں گی۔‘‘، ’’میں تجھے ایک بات بتا دیتا ہوں صابحہ!‘‘بلال نے کہا۔’’میں تیری خاطر میدان میں نہیں اُتر رہا۔میرے اوپر اپنے باپ کے خون کا قرض ہے۔میں نے یہ قرض چکانا ہے۔میری روح کو تسکین تب ہی ہوگی کہ میں ابنِ ولید کا سر اپنی برچھی پر لاؤں اور بنی تغلب کے بچے بچے کو دِکھاؤں۔لیکن وہ بات کیوں زبان پر لاؤں جو ہاتھ سے نہ کر سکوں۔اس تک پہنچوں گا ضرور۔راستے میں جو آئے گا اسے کاٹتا جاؤں گا۔میں نے اپنا گھوڑا تبدیل کر لیا ہے۔ہوا سے تیز ہے اور بڑا ہی طاقتور۔‘‘’’میں تیری طاقت اور تیزی اور پھرتی دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’اگر ایسا ہو تو مجھے ساتھ لے چل۔مردوں کی طرح لڑوں گی لیکن اگر تو نے پیٹھ دکھائی تو میری تلوار تیری پیٹھ میں اتر جائے گی۔‘‘’’میں تجھے مالِ غنیمت میں مسلمانوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔‘‘بلال نے کہا۔’’اور یہ بھی سن لے صابحہ!میرا باپ عقہ بن ابی عقہ یہی عہد کرکے گیا تھا کہ وہ خالد بن ولید کو خون میں نہلا کر آئے گا۔مگر اس نے ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔معلوم نہیں مسلمانوں کو کس نے بتادیا یہ شخص ابنِ ولید کا خون بہانے کا عہد کرکے آیاتھا۔ابنِ ولید نے میرے باپ کو قیدیوں سے الگ کیا اور سب کے سامنے اپنی تلوار سے اس کا سر کاٹ دیا……میں تجھے بھی یہی کہتا ہوں کہ وہ بات نہ کہہ جو تو نہیں کر سکتی۔‘‘، ’’اور میں تجھے ایک بات کہنا چاہتی ہوں جو تجھے اچھی نہیں لگے گی۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’اگر اب میرے قبیلے نے میدان ہار دیا تو میں اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کر دوں گی اور ان سے کہوں گی کہ میں اس آدمی کی بیوی بننا چاہتی ہوں جو سب سے زیادہ بہادر ہے۔‘‘’’ہم اس کوشش میں اپنی جانیں لڑا دیں گے کہ مسلمان ہماری عورتوں تک نہ پہنچ سکیں۔‘‘بلال بن عقہ نے کہا۔’’لیکن کوئی نہیں بتا سکتا کیا ہوگا۔ایک طرف تیرے دل میں مسلمانوں کی دشمنی ہے اور دوسری طرف تم اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کی باتیں کرتی ہو۔‘‘’’میں یہ باتیں اس لئے کرتی ہوں کہ میرے دل میں کچھ شک اور کچھ شبہے پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’مجھے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے مذہب مسلمانوں کا ہی سچا ہے۔اتنی تھوڑی تعداد میں وہ فارس کے اور ہمارے تمام قبیلوں کے لشکروں کو ہر میدان میں شکست دیتے چلے آرہے ہیں تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہیں کسی غیبی طاقت کی مددحاصل ہے۔اگر یسوع مسیحؑ خدا کے بیٹے ہوتے تو کیا خدااپنے بیٹے کی امت کو اس طرح ذلیل و خوار کرتا ؟مجھے بتا نے والا کوئی نہیں کہ مسلمان اسی خدا کو اﷲکہتے ہیں یا اﷲکوئی اور ہے۔‘‘’’ایسی باتیں منہ سے نہ نکالو صابحہ!‘‘بلال نے جھنجھلاکر کہا۔’’تم بہت بڑے سردار کی بیٹی ہو۔اپنے مذہب پر ایسا شک نہ کرو کہ اس کی سزا ہم سب کو ملے۔‘‘’’میں مجبور ہوں ابنِ عقہ!‘‘صابحہ نے کہا۔’’میری ذات سے کچھ آوازیں سی اٹھتی ہیں ۔کبھی خیال آتا ہے جیسے میں اپنے قبیلے میں اور اپنے گھر میں اجنبی ہوں۔ایسے لگتا ہے میں کہیں اور کی رہنے والی ہوں……میں کچھ نہیں سمجھتی بلال……میں جو کہتی ہوں وہ کرو پھر میں تمہاری ہوں۔‘‘’’ایساہی ہوگا صابحہ!‘‘بلال نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا۔’’میں اگر زندہ واپس آیا تو فاتح ہو کر آؤں گا۔اگر مارا گیا تو واپس آنے والوں سے پوچھ لیناکہ میں نے مرنے سے پہلے کتنے مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔‘‘بلال ثنّی کی رات کی تاریکی میں غائب ہو گیا۔صابحہ بنتِ ربیعہ بن بجیر وہیں کھڑی بلال کو سائے کی طرح رات کی تاریکی میں تحلیل ہوتا دیکھتی رہی۔تین یا چار راتیں ہی گزری تھیں، ثنّی کی خیمہ گاہ اور عیسائیوں کی بستیاں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں،رمضان ۱۲ ھ کا تیسرا یا چوتھا چاند کبھی کا افق میں اُتر چکا تھا۔انسانوں کا ایک سیلاب ثنّی کی طرف بڑھا آرہا تھا۔یہ مدینہ کے مجاہدین کی فوج تھی جو سیلاب کہلانے کے قابل نہیں تھی کیونکہ ان کی تعداد پندرہ یا سولہ ہزار کے درمیان تھی اور دشمن کی نفری تین چار گنا تھی۔خالدؓ نے ثنّی پر بھی مضیح والا داؤ آزمانے کا فیصلہ کیاتھا۔ انہوں نے اپنے مجاہدین سے کہا تھا کہ دشمن کو اور اپنے آپ کو بھی مہلت دینا خطرناک ہوگا،اﷲہمارے ساتھ ہے۔فتح اور شکست اسی کے ہاتھ میں ہے۔ہم اسی کی ذاتِ باری کے نام پر کفر کی آگ میں کودے ہیں۔خالدؓ نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا۔مجاہدین کے انداز میں جوش و خروش پہلے والا ہی تھا،جسموں میں البتہ وہ دم خم نہیں رہا تھا،لیکن عزم روزِ اول کی طرح زندہ و پائندہ تھا۔
جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ پندرہ سولہ ہزار کے لشکر سے دشمن پر شب خون مارنا اس لیے خطرناک ہوتا ہے کہ خاموشی برقرار نہیں رکھی جا سکتی اور دشمن قبل از وقت بیدار ہو جاتا ہے۔اس میں دشمن کی گھات کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔خالدؓ نے ان خطروں سے نمٹنے کایہ اہتمام کر رکھاتھا کہ پہلے شب خون کی طرح اب کے بھی انہوں نے اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔سالار بھی وہی تھے جنہیں پہلے شب خون کا تجربہ حاصل ہو چکا تھا۔اب جاسوسوں نے انہیں دشمن کے قیام کی جو اطلاعیں دی تھیں ان کے مطابق مدائن کی فوج اور عیسائیوں کا لشکر ایک ہی خیمہ گاہ میں نہیں تھے ۔خیمہ گاہ میں صرف مدائن کی فوج تھی اور عیسائی اپنی بستیوں میں تھے یہ بنی تغلب کی بستیاں تھیں۔جاسوسوں نے ان بستیوں کے محل وقوع بتا دیئے تھے ۔خالدؓنے اپنی فوج کے ایک حصے کی کمان سالار قعقاع کو اور دوسرے حصے کی کمان سالار ابو لیلیٰ کو دی تھی۔تیسرا حصہ اپنی کمان میں رکھا تھا۔انہوں نے قعقاع اور ابو لیلیٰ کو عیسائی قبیلے بنی تغلب کی بستیوں پر شب خون مارنا تھا جو بستیوں کی نسبت ذرا قریب تھی۔تینوں حصوں کو بیک وقت حملہ کرنا تھا۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ خالدؓنے حکم دیاتھا کہ کسی عورت اور کسی بچے پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔کفار کو مضیح کے مقام پر مسلمانوں کے ایک شب خون کا بڑا ہی تلخ تجربہ ہو چکا تھا۔انہوں نے ثنّی کی خیمہ گاہ کے اردگرد پہرے کا بڑا سخت انتظام کر رکھا تھا۔گشتی پہرے کا انتظام بھی تھا۔چار چار گھوڑ سوار خیمہ گاہ سے دور دور تک گشت کرتے تھے۔مسلمان جاسوسوں نے خالدؓ کو اس انتظام کی بھی اطلاع دے دی تھی۔خالدؓنے اس انتظام کو بیکار کرنے کا بندوبست کر دیا تھا۔ثنّی سے کچھ دور خالدؓ کی فوج پہلے سے طے کیے ہوئے منصوبے کے مطابق رُک گئی۔اسے آگے کی اطلاع کے مطابق آگے بڑھنا تھا۔چند ایک شتر سوار جو مثنیٰ بن حارثہ کے آزمائے ہوئے چھاپہ مار تھے، آگے چلے گئے تھے۔وہ اونٹوں کے قافلے کی صورت میں جا رہے تھے۔وہ ثنّی کی خیمہ گاہ سے ابھی دور ہی تھے کہ انہیں کسی نے للکارا۔وہ رُک گئے اور اپنی طرف آتے ہوئے گھوڑوں کے ٹاپ سننے لگے۔چار گھوڑے ان کے پاس آرُکے۔’’کون ہو تم لوگ؟‘‘ایک گھوڑ سوار نے ان سے پوچھا۔’’مسافر ہیں۔‘‘ایک شتر سوار نے ڈرے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔اور کسی بستی کا نام لے کر کہا کہ وہاں جا رہے ہیں۔شتر سوار آٹھ دس تھے، ان میں سے ایک تو گھوڑ سواروں کو بتا رہا تھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔دوسرے شتر سوار اونٹوں کو آہستہ آہستہ حرکت دیتے رہے حتیٰ کہ چار گھوڑ سوار ان کے نرغے میں آگئے- ’’اُترو اونٹوں سے!‘‘ایک گھوڑ سوار نے بڑے رعب سے حکم دیا۔ چار شتر سوار اونٹوں سے اس طرح اُترے کہ اوپر سے ایک ایک گھوڑ سوار پر جھپٹے۔ان کے ہاتھوں میں خنجر تھے جو گھوڑ سواروں کے جسموں میں اُتر گئے۔انہیں گھوڑوں سے گرا کر ختم کر دیا گیا۔چار مجاہدین چاروں گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور دشمن کی خیمہ گاہ تک چلے گئے۔ایک سنتری انہیں اپنی سوار گشت سمجھ کر ان کے قریب آیا۔اندھیرے میں دو گھوڑ سوار اترے اور اس سنتری کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔انہوں نے کئی اور سنتریوں کو خاموشی سے ختم کیا اور واپس آگئے۔خالدؓبے صبری سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔وہ جو اونٹوں پر گئے تھے ،چار گھوڑے بھی ساتھ لے آئے۔انہوں نے خالدؓکو بتایا کہ راستہ صاف ہے۔خالدؓ نے سرگوشیوں میں قاصدوں کو دوسرے سالاروں کی طرف اس پیغام کے ساتھ دوڑادیا کہ ہلہ بول دو۔اس وقت تک گھوڑوں کے منہ بندھے ہوئے تھے وہ ہنہنا نہیں سکتے تھے،سواروں نے سالاروں کے کہنے پر گھوڑوں کے منہ کھول دیئے۔ان کے ہدف دور نہیں تھے،کچھ دور تک گھوڑے پیادوں کی رفتار کے ساتھ آہستہ چلائے گئے پھر رفتار تیز کر دی گئی اور پیادوں کو دوڑناپڑا۔بستیوں کے قریب جا کر مشعلیں جلالی گئیں۔خالدؓنے اپنے دستوں کو اتنی تیزی سے آگے نہ بڑھایا۔انہیں انہوں نے شب خون کی ترتیب میں پھیلا دیا تھا۔یہ ایسی پیش قدمی تھی جس میں کوئی نعرہ نہ لگایا گیا ،نہ کسی کو للکارا گیا۔نومبر ۶۳۳ء کے دوسرے اور رمضان المبارک کی ۱۲ ہجری کے پہلے ہفتے کی وہ رات بہت سرد تھی۔بنی تغلب کی بستیوں میں اور فارس کی فوج کی خیمہ گاہ میں جو وسیع و عریض تھی، لوگ گرم بستروں میں دبکے ہوئے تھے۔کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ کون کیا خواب دیکھ رہا تھا۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر ایک کے ذہن پر مسلمانوں کی فوج اور اس کی دہشت سوار ہو گی۔لوگ اسی فوج کی باتیں کرتے سوئے تھے۔اچانک بستیوں کے گھروں کے دروازے ٹوٹنے لگے۔گلیوں میں گھوڑے دوڑنے لگے۔مجاہدین نے مکانوں سے چارپائیاں اور لکڑیاں باہر لاکر جگہ جگہ ان کے ڈھیر لگائے اور آگ لگادی تاکہ بستیاں روشن ہوجائیں۔عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار نے سرد رات کو ہلا کر رکھ دیا۔عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ باہر آکر ایک طرف کھڑی ہو جائیں۔یہ مجاہدین کی للکار تھی جو بار بار سنائی دیتی تھی۔بنی تغلب کے آدمی کٹ رہے تھے ۔خالدؓکا حکم تھا کہ بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے سوا کسی آدمی کو زندہ نہ رہنے دیا جائے۔
ان لوگوں کو وہ لشکر بچا سکتا تھا جو تھوڑی ہی دور خیمہ گاہ میں پڑ اتھا۔بستیوں کا واویلا لشکر تک پہنچا لیکن وہاں نیند اور سردی نے سب کو بے ہوش ساکر رکھا تھا۔لشکر کو جگانے کیلئے کوئی سنتری زندہ نہ تھا۔آخر خیمہ گاہ میں کچھ لوگ بیدار ہو گئے ۔انہیں ارد گرد کی بستیوں میں روشنی نظر آئی جیسے آگ لگی ہوئی ہو۔شور بھی سنائی دیا۔وہ ابھی سمجھنے بھی نہ پائے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔ویسی ہی ہڑ بونگ خیمہ گاہ کے ایک گوشے میں بپا ہوئی جو آندھی کی مانند بڑھتی اور پھیلتی گئی۔کچھ خیموں کو آگ لگ گئی۔خالدؓ کے دستوں نے آتش پرستوں کی فوج کو کاٹنا شروع کر دیا تھا۔یہ فو ج اب کٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔دشمن کے بہت سے سپاہی خیموں میں دبک گئے تھے۔ان خیموں کی رسیاں مسلمانوں نے کاٹ دیں۔خیمے سپاہیوں کیلئے جال اور پھندے بن گئے۔مسلمانوں نے انہیں بر چھیوں سے ختم کر دیا۔مسلمانوں کے نعرے اور ان کی للکار بڑی دہشت ناک تھی۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کو اتنے وسیع پیمانے پر شب خون مارنے کا دوسرا تجربہ ہوا۔اب انہوں نے یہ انتظام کر دیا تھا کہ کسی کو بھاگنے نہ دیا جائے۔بستیوں اور خیمہ گاہ کے اردگرد مثنیٰ بن حارثہ کے گھوڑ سوار گھوم پھر رہے تھے۔کوئی آدمی بھاگ کے جاتا نظر آتا تو اس کے پیچھے گھوڑا دوڑا دیا جاتا اور برچھی یا تلوار سے اسے ختم کر دیا جاتا۔اگر کوئی عورت بھاگتی نظر آتی تو اسے پکڑ کر اس جگہ پہنچا دیتے جہاں عورتوں اور بچوں جو اکٹھا کیا جارہا تھا۔جوں جوں رات گزرتی جا رہی تھی۔بنی تغلب کی بستیوں میں اور مدائن کی فوج کی خیمہ گاہ میں شوروغوغا اور واویلا کم ہوتا جا رہا تھااور زخمیوں کی کرب ناک آوازیں بلند ہوتی جا رہی تھیں۔مسلمانوں کو تباہ برباد کرنے کیلئے جو نکلے تھے ، ان کی لاشیں ٹھنڈی ہو رہی تھیں اور ان کے زخمی پیاسے مر رہے تھے اور ان کی بیٹیاں مسلمانوں کے قبضے میں تھیں۔صبح طلوع ہوئی تو اُجالے نے بڑا ہی بھیانک اور عبرتناک منظر دکھایا۔لاشوں کے سوا کچھ نظرنہیں آتا تھا۔لاشیں خون سے نہائی ہوئی تھیں۔یہ فتح ایسی تھی جیسے کسریٰ کے بازو کاٹ دیئے گئے ہوں۔خیمہ گاہ اور بستیاں موت کی بستیاں بن گئی تھیں۔جن گھوڑوں پر ان کفارکو نازتھا۔وہ گھوڑے وہیں بندھے ہوئے تھے جہاں گزشتہ شام انہیں باندھا گیا تھا۔عورتیں الگ بیٹھی رو رہی تھیں۔بچے بلبلا رہے تھے۔خالدؓ نے حکم دیا کہ سب سے پہلے عورتوں اور بچوں کو کھانا دیا جائے۔ مجاہدین مالِ غنیمت لا لا کر ایک جگہ جمع کر رہے تھے۔سالار ابو لیلیٰ کے پاس ایک بہت ہی حسین لڑکی کو لایاگیا۔اس نے درخواست کی تھی کہ اسے سالارِ اعلیٰ یا کسی سالار کے ساتھ بات کرنے کی اجازت دی جائے۔’’یہ ایک سردار کی بیٹی ہے۔‘‘اسے لانے والے سالار نے ابو لیلیٰ سے کہا۔’’سالار کا نام ربیعہ بن بجیر بتاتی ہے۔یہ اپنے باپ کی لاش کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔‘‘’’کیا نام ہے تیرا؟‘‘ابو لیلیٰ نے لڑکی سے پوچھا۔’’صابحہ!‘‘لڑکی نے جواب دیا۔’’صابحہ بنتِ ربیعہ بجیر ……میرے باپ کو لڑنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔‘‘’’کیا تو یہی بات کہنے کیلئے ہمارے سالارِ اعلیٰ سے ملنا چاہتی ہے؟‘‘سالار ابو لیلیٰ نے پوچھا۔’’جنہیں لڑنے کا موقع ملا تھا، کیا تو نے ان کا انجام نہیں دیکھا؟……اب بتا تُو چاہتی کیا ہے!‘‘’’تم لوگ مجھے اجازت نہیں دو گے کہ میں لاشوں میں ایک آدمی کی لاش ڈھونڈ لوں۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’اس کا نام بلال بن عقہ ہے۔‘‘’’کیا جلی ہوئی لکڑیوں کے انبار میں کسی ایک خاص درخت کی لکڑی کو ڈھونڈ لے گی؟‘‘ابولیلیٰ نے پوچھا۔’’تو اسے ڈھونڈ کہ کیا کرے گی؟ زندہ ہے تو ہمارا قیدی ہوگا۔مر گیا ہے تو تیرے کس کام کا؟‘‘صابحہ نے سالار ابو لیلیٰ کو وہ گفتگو سنائی جو اس کے اور بلال بن عقہ کے درمیان ہوئی تھی اور کہا کہ وہ دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ زندہ ہے یا مارا گیا ہے۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟