🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *33* ۔۔۔۔
خالدؓ کے ان الفاظ نے نہ عبدالمسیح کو متاثر کیا نہ دوسرے کسی قلعہ دار یاسردار کو۔وہ اپنے انکار پر قائم رہے جب خالدؓ نے انہیں جزیہ کی رقم بتائی تو انہوں نے اسے فوراً قبول کر لیا۔یہ رقم ایک لاکھ نوے ہزار درہم تھی۔جو عہد نامہ تحریر کیا گیا اس کے الفاظ یہ تھے:
بسم اﷲالرحمٰن الرحیم : "یہ عہد نامہ خالد بن ولیدنے حیرہ کے سرداروں عدی بن عدی ،عمرو بن عدی،عمرو بن عبدالمسیح ،ایاس بن قبصیہ الطانی اور حیری بن اکال سے کیا ہے۔اس عہد نامے کو حیرہ کے لوگوں نے قبول کرلیاہے اور اپنے سرداروں کو اس کی تکمیل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔اس عہد نامے کے مطابق اہلِ حیرہ خلافتِ مدینہ کو ایک لاکھ نوے ہزار درہم سالانہ ادا کیا کریں گے۔یہ جزیہ حیرہ کے پادریوں اور راہبوں سے بھی وصول کیا جائے گا۔صرف اپاہجوں ،نادار افراد اور تارک الدنیا راہبوں کویہ جزیہ معاف ہوگا……اگر یہ جزیہ باقاعدگی سے ادا کیا جاتا رہا تو اہلِ حیرہ کے تحفظ کے ذمہ دار مسلمان ہوں گے۔اگر مسلمانوں نے اس ذمہ داری میں کوتاہی کی تو جزیہ نہیں لیا جائے گااور اگر اہلِ حیرہ نے اس عہد نامے کی خلا ف ورزی کی تو مسلمان اپنی ذمہ داری سے بری سمجھے جائیں گے۔یہ معاہدہ ربیع الاول ۱۲ ہجری میں تحریر ہوا-
حیرہ پر مسلمانوں کے قبضےکی تکمیل ہو گئی۔معاہدے کے بعد تمام قلعہ داروں اور امراء نے خالدؓ کی اطاعت قبول کرلی۔یہ دراصل خلیفۃ المسلمین حضرت ابو بکرؓ کی اطاعت تھی۔خالدؓ نمائندگی کر رہے تھے۔اس کے بعد خالدؓ نے اپنی تمام تر فوج کے ساتھ آٹھ رکعت نفل شکرانے کے پڑھے۔فارغ ہونے کے بعد خالدؓ نے اپنی فوج سے مختصر سا خطاب کیا۔"مُوتہ کی لڑائی میں میرے ہاتھ میں نَو تلواریں ٹوٹی تھیں لیکن آتش پرستوں نے جس جوانمردی سے مقابلہ کیا ہے اسے میں ہمیشہ یادرکھوں گا۔انہوں نے الیّس میں ہم سے جو لڑائی لڑی ہے ایسی لڑائی میں نے پہلے نہیں دیکھی……اسلام کے پاسبانو!فتح و شکست اﷲکے اختیارمیں ہے۔اس کے نام کو اس کی نعمتوں کو اور اس کے رسولﷺ کو ہر وقت دل میں رکھو۔حیرہ بہت بڑی نعمت ہے جو اﷲتعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے۔یہ بھی دل میں رکھو کہ ہمارا جہاد ابھی ختم نہیں ہوا۔جب تک کفر کا فتنہ باقی ہے جہاد ختم نہیں ہوگا۔"خالدؓ نے شہیدوں کیلئے دعائے مغفرت کی ،پھرزخمیوں کی عیادت کوگئے۔شہیدوں کی نمازِ جنازہ بڑا ہی رقت آمیز منظر تھا۔وطن سے اتنی دور جاکر شہید ہونے والوں کیلئے ہر آنکھ میں آنسو تھے۔شہیدوں کو قبروں میں اتارا گیا تو یہ قبریں تاریخ کے سنگ ہائے میل بن گئیں ۔خالدؓ جب حیرہ کا نظم و نسق سنبھالنے کیلئے اس محل نما مکان میں گئے جو ازادبہ کا رہائشی مکان تھا تو بے شمار رؤسا ء اور امراء تحفے لئے کھڑے تھے جو انہوں نے خالدؓکو پیش کیے۔ان میں بیش قیمت اشیاء تھیں ہیرے اور جواہرات بھی تھے۔مدینہ کے مجاہدین حیران ہو رہے تھے کہ کوئی قوم اتنی دولت مند بھی ہو سکتی ہے۔خالدؓنے یہ تحفے قبول تو کر لیے لیکن بوریا نشینوں کی قوم کے اس سالارِ اعلیٰ نے اپنے لیے ایک بھی تحفہ نہ رکھا۔تمام تحفے مالِ غنیمت کے ساتھ امیر المومنینؓ کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے مدینہ بھیج دیئے۔مالِ غنیمت زیادہ نہیں تھا کیونکہ حیرہ والوں نے جزیہ تسلیم کرلیا اور اطاعت بھی قبول کرلی تھی۔ایک دلچسپ او رعجیب واقعہ ہو گیا۔کچھ برس پہلے کی بات ہے۔رسولِ کریمﷺ صحابہ کرامؓ میں بیٹھے تھے اور اِدھر اُدھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔باتوں کا رخ کفار کے علاقوں کی طرف مڑ گیااور ذکر فارس کی شہنشاہی کا چل نکلا۔حیرہ اس شہنشاہی کا بڑا ہی اہم مقام تھا۔کسی صحابیؓ نے کہا کہ حیرہ ہاتھ آجائے تو اسے فوجی اڈا بنا کر کسریٰ پر کاری ضربیں لگائی جا سکتی ہیں۔دو مؤرخوں بلاذری اور طبری نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا کہ تھوڑے عرصے بعد حیرہ ہمارے قبضے میں ہوگا۔یہ دونوں مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس محفل میں حیرہ کی اہمیت اور اس علاقے کی خوبصورتی کی باتیں ہونے لگیں۔عبدالمسیح مشہور آدمی تھا۔اس کی ایک بیٹی تھی جس کا نام کرامہ تھا۔اس کے حسن کے چرچے تاجروں وغیرہ کی زبانی دور دور تک پہنچے ہوئے تھے۔اس کے اپنے ملک میں اس کا حسن و جمال ضرب المثل بن گیا تھا۔
بلا ذری اور طبری نے لکھاہے کہ رسولِ کریمﷺ کی اس محفل میں سیدھا سادہ اور عام سا ایک آدمی شویل بھی موجود تھا۔"یا رسول اﷲ!"شویل نے عرض کی۔"اگر حیرہ فتح ہوگیا تو عبدالمسیح کی بیٹی کرامہ مجھے دے دی جائے۔"رسولِ کریم ﷺ مسکرائے اور ازراہِ مزاق کہا۔"حیرہ فتح ہو گیا تو کرامہ بنتِ عبدالمسیح تیری ہوگی۔"ان مؤرخوں نے یہ نہیں لکھا کہ حیرہ کی فتح سے کتنا عرصہ پہلے یہ بات ہوئی تھی۔اب حیرہ فتح ہوگیا ۔خالدؓ کی فوج کا ایک ادھیڑ عمر سپاہی اس وقت ان کے سامنے جا کھڑا ہوا جب کچھ شرائط عبدالمسیح اور خالدؓ کے درمیان طے ہو رہی تھیں"کیا نام ہے تیرا؟"خالدؓ نے اپنے اس سپاہی سے پوچھا۔"اورمیرےپاس کیوں آئے ہو؟""سالارِاعلیٰ!"سپاہی نے کہا۔"میرا نام شویل ہے۔خدا کی قسم!رسول اﷲﷺنے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ عبدالمسیح کی بیٹی کرامہ تجھے دے دی جائے گی۔آج حیرہ فتح ہوگیا ہے ۔شہزادی کرامہ مجھے دی جائے۔""کیا تو کوئی گواہ پیش کر سکتا ہے؟"خالدؓنے کہا۔"خدا کی قسم! میں رسول اﷲ ﷺ کے وعدے کی خلاف ورزی کی جرات نہیں کر سکتا لیکن گواہ نہ ہوئے تو میں تیری بات کو سچ نہیں مان سکتا۔"شویل کو دو گواہ مل گئے۔وہ حیرہ کی فاتح فوج میں موجود تھے۔انہوں نے تصدیق کی کہ رسول اﷲ ﷺنے ان کی موجودگی میں شویل سے یہ وعدہ فرمایا تھا۔"رسول اﷲﷺ کا وعدہ میرے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔"خالدؓ نے عبدالمسیح سے کہا۔"تجھے اپنی بیٹی اس شخص کے حوالے کرنی ہو گی۔""یہ بھی شرائط میں لکھ لو۔"عبدالمسیح نے کہا۔"کہ میری بیٹی کرامہ اس سپاہی کو دے دی جائے۔"یہ حکم عبدالمسیح کے گھر پہنچا کہ کرامہ مسلمانو ں کے سالارِ اعلیٰ کے پاس آجائے۔کرامہ نے پوچھاکہ اسے کیوں بلایا جا رہاہے؟اسے بتایاگیا کہ ایک مسلمان سپاہی نے اس کی خواہش کی ہے اور اسے اس سپاہی کے حوالے کیا جائے گا۔"ایسا نہ ہونے دو۔"گھر میں جو ایک محل کی مانند تھا ،دوسری عورتوں کا شور اٹھا۔"ایسا نہ ہونے دو۔شاہی خاندان کی ایک عورت کو حوالے نہ ہونے دو جو عرب کا وحشی بدو ہے۔""مجھے اس کے پاس لے چلو۔"کرامہ نے کہا۔"اس مسلمان سپاہی نے میری جوانی کے حسن کی باتیں سنی ہوں گی۔وہ کوئی جاہل اور احمق لگتا ہے ۔اس نے کسی سے یہ نہیں پوچھا ہوگا کہ یہ کب کی بات ہے کہ جب میں جوان ہوا کرتی تھی۔"بلاذری کی تحریر کے مطابق کرامہ کو خالدؓ کے سامنے لے جایا گیا۔شویل موجود تھا۔اس نے ایک ایسی بڑھیا دیکھی جس کے چہرے پر جھریاں تھیں اور بال سفید ہو چکے تھے۔مؤرخ طبری نے کرامہ کی عمر اسّی سال لکھی ہے۔اس کے باپ عبدالمسیح نے خالدؓ کو اپنی عمر دو سو سال بتائی تھی۔بعض مؤرخ ان عمروں کو تسلیم نہیں کرتے۔عبدالمسیح کی عمر ایک سو سال سے ذرا ہی زیادہ تھی اور کرامہ کی عمر ساٹھ ستر سال کے درمیان تھی۔بہرحال کرامہ ضعیف العمر تھی۔شویل نے اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر جو خوشی کے آثار تھے وہ اڑ گئے اور وہ مایوس ہو گیا۔اچانک اسے ایک خیال آگیا۔
"امیرِ لشکر!"شویل نے کہا۔"یہ شرط لکھ لی گئی ہے کہ کرامہ بنتِ عبدالمسیح میری لونڈی ہے۔اگر یہ مجھ سے آزادی چاہتی ہے تو مجھے رقم ادا کرے۔""کتنی رقم؟"کرامہ نے پوچھا۔"ایک ہزار درہم!"شویل نے کہا۔"میں اپنی ماں کا بیٹا نہیں ہوں گا کہ ایک درہم بھی بخش دوں۔"، کرامہ کے بوڑھے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔اس نے اس خادمہ کو جو اس کے ساتھ آئی تھی ،اشارہ کیا۔خادمہ دوڑی گئی اور ایک ہزار درہم لے آئی۔کرامہ نے یہ درہم شویل کے حوالے کردیئے اور آزاد ہو گئی۔شویل کا یہ عالم تھا کہ ایک ہزار درہم دیکھ کر حیران ہو رہا تھا جیسے اس کے ہوش گم ہو گئے ہوں۔اس نے اپنے ساتھیوں کو جاکر فاتحانہ لہجے میں بتایا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا تھا کہ اس نے ایک ضعیف العمر عورت کو جوان سمجھ لیا تھا لیکن اس نے اس سے ایک ہزار درہم کما لیے۔"صرف ایک ہزار درہم؟"اس کے ساتھی نے اسے کہا۔"تو ساری عمر احمق ہی رہا۔کرامہ شاہی خاندان کی عورت ہے۔اس سے تو کئی ہزار درہم لے سکتا تھا۔""اچھا؟"شویل نے مایوس ہو کر کہا۔"میں تو سمجھتا تھا کہ ایک ہزار درہم سے زیادہ رقم ہوتی ہی نہیں۔"اس کے ساتھیوں کے ایک زور دار قہقہے نے اسے اور زیادہ مایوس کر دیا۔خالدؓنے مالِ غنیمت کے ساتھ تمام تحفے مدینہ بھیج دیئے۔مدینہ سے خالدؓ کیلئے امیر المومنینؓ نے پیغام بھیجاکہ یہ تحفے اگر مالِ غنیمت میں شامل ہیں یا جزیئے میں تو قابلِ قبول ہو سکتے ہیں،اگر نہیں تو جنہوں نے یہ تحفے دیئے ہیں ان سے ان کی قیمت معلوم کرکے جزیئے میں شامل کر لو۔اگر تم جزیہ وصول کر چکے ہو تو تحفوں کی رقم ان لوگوں کو واپس کردو۔خالدؓ نے ان سب کو بلا کر انہیں تحفوں کی قیمت ادا کر دی۔حیرہ کی فتح کے بعد چند دنو ں میں خالدؓ نے وہاں کا نظم و نسق رواں کر دیا اور حیرہ کے امراء کو ہی انتظامیہ کا ذمہ دار بنا دیا۔"میرے بھائیو!"خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔"میرے پاس وقت نہیں کہ میں یہاں بیٹھا رہوں لیکن نظم و نسق کی بحالی بہت ضروری ہے۔اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ نظم و نسق کو اس بنیاد پر رواں کیا جائے کہ لوگوں کو فائدہ پہنچے۔وہ سکون اور اطمینان محسوس کریں کہ ان کی جان و مال اور ان کی عزت و آبرو کو تحفظ حاصل ہے ۔خدا کی قسم!میں ان لوگوں پر، عیسائیوں پر اور ان آتش پرستوں پر ثابت کروں گا کہ اسلام وہ مذہب ہے جو ظلم کو بہت بڑا گناہ سمجھتا ہے۔رعایا کو اپنی اولاد سمجھو۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں نے نظم و نسق انہی لوگوں کے سپرد کر دیا ہے ؟رب ِ کعبہ کی قسم!میں ان پر اپنا حکم نہیں ٹھونسوں گا۔"اپنا حکم نہ ٹھونسنے کے نتائج چند دنوں میں سامنے آگئے۔اسلام کا بنیادی اصول یہی تھا کہ لوگوں کے دل جیتو مگر دل جیت کر انہیں دھوکا نہ دو۔انہیں ان کے حقوق دو۔خالدؓ اسلام کے پہلے سالار تھے جنہوں نے مدینہ سے نکل کر کسی دوسری قوم کے علاقے فتح کیے اور انہیں اسلام کے اس بنیادی اصول پر عمل کرنے کا موقع ملا ۔مصر کے محمد حسین ہیکل نے بہت سے مؤرخوں کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ خالدؓ نے دشمنوں کے سر اڑانے شروع کیے تو فرات کو لال کر دیا اور ایسے کسی آدمی کو زندہ نہ چھوڑا جس کی طرف سے دینِ اسلام کو ذرا سا بھی خطرہ تھا۔
خالدؓ ذاتی دشمنی کے قائل نہیں تھے ۔متعصّب تاریخ دانوں نے خالدؓ کو ظالم سالار کہا ہے لیکن خالدؓ نے جو بھی علاقہ فتح کیا وہاں کا انتظام مفتوحہ امراء و رؤسا کے سپرد کر دیا۔البتہ ان کے نگران یعنی بالائی حکام مسلمان مقرر کیے جاتے تھے۔حیرہ کو فتح کر کے خالدؓ نے سارے فارس کو فتح نہیں کر لیا تھا۔بلکہ خالدؓ خطروں میں گھر گئے تھے۔آتش پرست ان پر چاروں طرف سے حملے کر سکتے تھے۔اگر بڑے پیمانے پر حملہ نہ کرتے تو شب خون مار مار کر مسلمانوں کی فوج کو نقصان پہنچا سکتے تھے لیکن آتش پرستوں نے ایسی کوئی کارروائی نہ کی۔اس کی اور کئی وجوہات تھیں جن میں ایک یہ تھی کہ مفتوحہ علاقوں کے لوگ مسلمانوں کے سلوک سے متاثر ہوکر ان کے حامی اور معاون بن جاتے تھے۔ حیرہ اور نواحی علاقے میں دیر ناطف نام کی ایک بستی تھی جو عیسائیوں کی بستی کہلاتی تھی ۔وہاں ایک بہت بڑا گرجا تھا جس کے پادری کا نام صلوبابن نسطوناتھا۔وہ عیسائیوں کا مذہبی پیشوا ہی نہیں ان کا عسکری قائد بھی تھا۔وہ میدان ِ جنگ میں کبھی نہیں گیا تھا لیکن جنگ و جدل کے فن میں مہارت رکھتا تھا۔فارس کے عیسائی للکار کر مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تھے اور مسلمانوں کی تلواروں او برچھیوں سے بری طرح کٹے تھے۔ایسے عیسائیوں کی تعداد خاصی کم ہو گئی تھی جو لڑنے کے قابل تھے۔بوڑھے زندہ رہ گئے تھے یا عورتیں زندہ تھیں،صلوبابن نسطونا اکثر کہا کرتا تھا کہ مذہب صرف ایک زندہ رہے گا اور یہ عیسائیت ہوگی۔"زرتشت رہے گا نہ مدینہ کا اسلام!"اس نے اپنے وعظ میں کئی بار کہا تھا۔"سب مٹ جائیں گے اور زمین پر یسوع مسیح کی حکومت ہوگی۔"حیرہ فتح ہونے تک لڑنے والے ہزار ہا عیسائی مٹ گئے تھے،باقی مسلمانوں کے ڈر سے بھاگ کر اِدھر اُدھرجا چھپے تھے۔ان کے سرکردہ افراد نے پادری صلوبابن نسطونا کے ساتھ رابطہ رکھا ہوا تھا۔صلوبا نے کوشش کی تھی کہ عیسائیوں کو یکتا اور متحد کرکے مسلمانوں پر شبخون مارنے کیلئے تیار کرے لیکن عیسائیوں پر مسلمانوں کی ایسی دہشت بیٹھ گئی تھی کہ وہ شب خون اور چھاپہ مار جنگ کیلئے تیار نہ ہوئے۔"مقدس باپ!"ایک رات ایک نامور جنگجو عیسائی شمیل بورزانہ نے پادری صلوبابن نسطونا سے کہا۔"کیا تم اس پر یقین رکھتے ہو کہ گرجے کی گھنٹیاں اور تمہارے وعظ اس تباہی کو روک لیں گے جو ہماری طرف تیزی سے بڑھی آرہی ہے؟""نہیں!" پادری صلوبا نے کہا۔"میرے وعظ اور گرجے کے گھنٹے کی آوازیں اب اس تباہی کو نہیں روک سکتیں۔""پھر تم ہمیں اجازت کیوں نہیں دیتے کہ ہم مسلمانوں کی فوج پر ہر رات شبخون ماریں؟"شمیل بورزانہ نے کہا۔"مدینہ کے مسلمان جن نہیں، بھوت نہیں، انسان ہیں۔ہماری طرح کے انسان ہیں۔""شمیل!"پادری صلوبا نے کہا۔"بے شک وہ انسان ہیں لیکن تمہاری طرح نہیں۔میں نے ان میں کچھ اور ہی بات دیکھی ہے……وہ فتح کا عزم لے کرآئے ہیں۔اگر انہوں نے اپنے جسموں کے متعلق یہی رویہ رکھا توآخری فتح بھی انہی کی ہوگی۔"
"مقدس باپ!"شمیل نے کہا۔"میں جسموں والی بات نہیں سمجھا۔""سمجھنے کی کوشش کرو۔"پادری صلوبا نے کہا۔"یہ لوگ جنہیں کسریٰ اُردشیر عرب کے بدُّو کہتا رہا ہے، جسمانی آسائشوں اور لذتوں کو قبول نہیں کرتے۔""مقدس باپ کی زبان سے دشمن کی تعریف اچھی نہیں لگتی۔"شمیل نے کہا۔"اگر تم اپنے آپ میں دشمن کے اچھے اوصاف پیدا کرلوتو تم شکست سے بچ سکتے ہو۔"پادری صلوبا نے کہا۔"کیا تمہارے دوستوں نے مسلمانوں کو جال میں پھانسنے کیلئے پندرہ حسین لڑکیاں نہیں بھیجی تھیں؟کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اس کا مجھے علم نہیں ہوتا؟تمہاری تلواروں کی دھار کند ہو چکی ہے اس لیے تم لوگوں نے عورتوں کو استعمال کیا ہے۔کیا تم انکار کرو گے؟""نہیں مقدس باپ!"شمیل نے شرمسار سا ہوکہ کہا۔"ہمارے ایک بزرگ نے کہا تھا کہ ایک تلوار ایک وار میں ایک آدمی کو کاٹ سکتی ہے لیکن ایک حسین عورت کا ایک وار ایک سو آدمیوں کو گھائل کر دیتا ہے۔مسلمان سوار گھوڑوں کو جھیل سے پانی پلانے لایا کرتے ہیں۔وہ چار چار چھ چھ کی ٹولیوں میں آتے ہیں۔جھیل کے اردگرد اونچی چٹانیں اور گھنا جنگل ہے۔ہماری لڑکیوں نے مسلمان سواروں کو اپنی طرف کھینچنے کی بہت کوشش کی لیکن ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔ہماری بعض لڑکیاں نیم برہنہ ہر کر انہیں چٹانوں کے پیچھے چلنے کے اشارے کرتی رہیں لیکن ہوا یہ کہ بعض سوار منہ پھیر لیتے اور بعض ہنس پڑتے تھے۔""اور مجھے یہ بھی معلوم ہے شمیل!"پادری صلوبا نے کہا۔"کہ تم لوگوں نے مسلمانوں کے گشتی سنتریوں کو بھی پھانسنے کی کوشش کی تھی اور تم لوگوں نے یہ بھی سوچا تھا کہ مسلمانوں کے سالاروں اور خالدبن ولید کو قتل کرنے کیلئے لڑکیوں کو استعمال کیاجائے۔""ہاںمقدس باپ!"شمیل نے کہا۔"ہم نے ایسا سوچا تھا۔""پھر اس سوچ پر عمل کیوں نہ کیا؟""اس لیے نہ کیا کہ جس فوج کے سپاہیوں کا کردار اتنا مضبوط ہے اس کے سالار تو فرشتوں جیسے ہوں گے۔"شمیل نے جواب دیا۔"اب ہمارے سامنے یہی ایک صورت رہ گئی ہے کہ مسلمان فوج پر شب خون مارنے شروع کر دیں اور انہیں اتنا نقصان پہنچائیں کہ یہ پسپائی پر مجبور ہو جائیں۔""کیا تم کسریٰ کی فوج سے زیادہ طاقتور ہو؟"پادری صلوبا نے کہا۔"وہ جو کہتے تھے کہ زمین پرکوئی طاقت ان کے مقابلے میں اٹھنے کی جرات نہیں کر سکتی اب کہاں ہیں۔ آگ کو پوجنے والوں کے تمام نامور سالار مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گئے ہیں ۔ہم نے ان کی خاطر مسلمانوں سے لڑکر غلطی کی ہے۔""تو کیا مقدس باپ!تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ رکھیں؟"شمیل نے حیران سا ہو کر پوچھا۔"ہاں!"پادری صلوبا نے جواب دیا۔"میں یہی کہنا چاہتا ہوں۔بلکہ میں مسلمانوں کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا ہوں۔""مقدس باپ!"شمیل نے کہا۔"پھر تم کہو گے کہ مسلمانوں کے مذہب کو بھی قبول کرنا چاہتے ہو۔"
"نہیں !ایسانہیں ہوگا۔"پادری صلوبا نے کہا۔"جب سے حیرہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا ہے۔میں یہی دیکھ رہا ہوں کہ ان سے ہمارے مذہب کو کتنا کچھ خطرہ ہے۔میں نے دیکھ لیا ہے کہ عیسائیت کو کوئی خطرہ نہیں۔مسلمان اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں ،وہ زبردستی اپنا مذہب مفتوحہ لوگوں پر نہیں ٹھونستے……کیا انہیں معلوم نہیں کہ یہاں ایک گرجا ہے۔جس میں مجھ جیسا جہاندیدہ اور مذہب پر مر مٹنے والا پادری موجود ہے؟……انہیں معلوم ہے شمیل!میں دو اتوار گرجے میں آنے والے عیسائیوں کے ہجوم میں دو اجنبی آدمیوں کو دیکھتا رہا ہوں۔میں نے ان کے گلوں میں صلیبیں لٹکتی دیکھی تھیں۔وہ ہر لحاظ سے عیسائی لگتے تھے لیکن میری دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ وہ دونوں مسلمان ہیں اور وہ مدینہ کے نہیں فارس کے رہنے والے ہیں۔وہ ولید کے بیٹے خالد کے جاسوس تھے ۔میں اپنے وعظ میں محتاط رہا۔ "مقدس باپ!"شمیل نے کہا۔"اگر تم مجھے اشارہ کر دیتے تو وہ دونوں زندہ واپس نہ جاتے۔ "پھر اس گرجے کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی۔"پادری صلوبانے کہا۔"عقل اور جوش میں یہی فرق ہے شمیل!تم میں جوش ہے اور میں عقل سے کام لے رہا ہوں……میں تم لوگوں کو مسلمانوں پر شب خون مارنے اور لڑنے کی اجازت نہیں دوں گا۔"دو تین روز بعد پادری صلوبابن نسطوناگرجے میں تمام عیسائی سرداروں سے کہہ رہا تھا" ……حقیقت کو دیکھو۔کسریٰ کی اتنی زبردست فوج مدینہ کی قلیل سی فوج کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکی۔تم نے بھی مسلمانوں کا مقابلہ کرکے دیکھ لیا ہے۔اب مسلمانوں سے ٹکرا کرتم تباہ ہوجانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔وقت کا ساتھ دو۔مسلمانوں نے تمہارے مذہب کیلئے کوئی خطرہ پیدا نہیں کیا۔انہوں نے ہمیں اور آتش پرستوں کو بھی اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کی اجازت دے رکھی ہے ۔مسلمانوں نے عدل وانصاف میں جو مساوات قائم کی ہے وہ تم خود دیکھ رہے ہو……اور تم یہ بھی دیکھ رہے ہو کہ تم ان کے خلاف آتش پرستوں کے دوش بدوش لڑے تھے لیکن مسلمانوں نے تمہارے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں کی۔انہوں نے کاشتکاروں کی زمینوں پر قبضہ نہیں کیا۔ان کی فصلوں میں اپنے گھوڑے او ر اونٹ نہیں چھوڑے بلکہ آتش پرست حاکم ان غریب کسانوں پر جو ظلم و تشدد کرتے اور ان کی کھیتیوں کی پیداوار اٹھالے جاتے تھے۔یہ لوٹ کھسوٹ ختم ہو گئی ہے۔اس حقیقت سے انکار نہ کرو کہ مسلمان رعایا کو پورے حقوق دے رہے ہیں۔""تم پر خدائے یسوع مسیح کی رحمت ہو!"ایک سردار نے پادری صلوبا کو ٹوکتے ہوئے کہا۔"کیا تم ہمیں یہ ترغیب دے رہے ہو کہ ہم مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لیں؟""کیا یہ ہماری بے عزتی نہیں؟"ایک اور سردار نے کہا۔"مسلمانوں نے تمہاری عزت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔"پادری صلوبا نے کہا۔"کیا تم نے انہیں پھانسنے اور گمراہ کرنے کیلئے اپنی لڑکیوں کو نہیں بھیجا تھا؟کیا وہ تمہاری لڑکیوں کو اٹھا کر نہیں لے جا سکتے تھے؟……اور مت بھولو کہ کسریٰ کے حاکموں نے تمہاری کتنی لڑکیوں کے ساتھ زبردستی شادی کی تھی۔جسے جو لڑکی اچھی لگی، وہ اسے حکماً لے گیا……
اور یہ بھی سوچو کہ فارس کے وہ سالار اور کماندار کہاں ہیں جن کے ساتھ مل کر تم مسلمانوں کے خلاف لڑے تھے ؟کیا انہوں نے تم سے پوچھا ہے کہ تم کس حال میں ہو؟کیا انہوں نے آکر دیکھا ہے کہ تم میں سے جو مارے گئے ہیں ان کی بیویاں کس حال میں ہیں؟ان کے بچے کس حال میں ہیں؟اور مسلمان تمہیں سزا تو نہیں دے رہے؟""بے شک وہ ہمیں بھول گئے ہیں۔"ایک بوڑھے سردار نے کہا۔"تو بجا کہتا ہے مقدس باپ!"ایک اور سردار بولا۔"اب بتا ہمیں کیا کرنا چاہیے۔تم ہمیں کس راستے پر لے جانا چاہتا ہے؟""یہ تمہاری سلامتی کا راستہ ہوگا۔"پادری صلوبا نے کہا۔"اس میں تمہارے جان و مال کی اور تمہارے مذہب کی سلامتی ہے……میں مسلمانوں کی اطاعت قبول کر رہا ہوں اور میں بانقیا اور بسما کے علاقے کی تمام قابلِ کاشت اراضی کا لگان وصول کرکے مسلمانوں کو ادا کیا کروں گا۔"تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے حسنِ سلوک ،عدل و انصاف اور اسلوبِ حکومت سے متاثر ہو کر دیرناطف کے پادری صلوبا بن نسطونانے سب سے پہلے خالدؓکے سامنے جاکر اطاعت قبول کی اور دس ہزار دینار خالدؓ کو پیش کیے۔اس رقم کے ساتھ وہ ہیرے اور بیش قیمت موتی بھی تھے جو کسریٰ اُردشیر نے پادری صلوبا کو تحفے کے طور پر دیئے تھے ۔یہ موتی دراصل رشوت تھی جو اُردشیر نے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑانے کیلئے پادری صلوبا کو دی تھی۔ یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے
خالدؓ کے حکم سے ایک معاہدہ لکھا گیا:"یہ معاہدہ مدینہ کے سالار خالد بن ولید اور صلوبا بن نسطونا کی قوم کے ساتھ طے ہوا اور تحریر کیا جاتا ہے۔اس کے مطابق صلوبابن نسطونا عیسائی قوم کی طرف سے دس ہزار دینار سالانہ بطور جزیہ ادا کرے گااور کسریٰ کے ہیرے اور موتی اس رقم کے علاوہ وصول کیے جائیں گے۔جزیہ کی رقم صرف ان عیسائیوں سے ہر سال وصول کی جایا کرے گی جو اس کی استطاعت اور توفیق رکھتے ہیں اور جو کمانے کے قابل ہوں گے۔ہرکسی کو جزیہ کا اتنا ہی حصہ دینا پڑے گا جتنا وہ آسانی سے ادا کرسکے گا۔اس معاہدہ کے رُو سے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عیسائیوں کی بستیوں بانقیا اور بسما کو ہر طرح کا تحفظ مہیا کریں۔پادری صلوبا بن نسطونا کو اس کی قوم کا نمائندہ تسلیم کیا جاتا ہے جیسا کہ اسے اس کی قوم نے تسلیم کیا ہے۔اس معاہدے پر جو خالد بن ولید نے کیا ہے،تمام مسلمان رضا مند ہیں اور وہ اس پر عمل کریں گے۔"پادری صلوبا اس علاقے کی نامور شخصیت تھی۔اردگرد کے بڑے بڑے سرداروں اور سرکردہ افراد نے جب دیکھا کہ صلوبا نے خالدؓ کی اطاعت قبول کرلی ہے تو وہ سب حیرہ پہنچے اور خالدؓ کی اطاعت قبول کرنے لگے۔انہوں نے جو نقد جزیہ ادا کیا وہ بیس لاکھ درہم تھا۔مسلمانوں کی شجاعت کی دھاک دور دور تک بیٹھ گئی۔بڑا ہی وسیع علاقہ مسلمانوں کے زیرِ نگین آگیا۔خالدؓ نے وقت ضائع کیے بغیر اس علاقے میں اسلامی حکومت قائم کردی اور انہی سرداروں میں امراء منتخب کرکے مختلف علاقوں میں مقررکر دیئے۔اس کے ساتھ ہی اپنی فوج کے کچھ دستے اس مقصد کیلئے سارے علاقے میں پھیلا دیئے کہ کہیں سے اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت نہ اٹھ سکے۔یہ دستے گھوڑ سوارتھے اور برق رفتار۔ خالدؓ نے اپنے تین بڑے ہی تیز اور پھرتیلے سالاروں ضرار بن الازور، قعقاع اور مثنیٰ بن حارثہ کو ان دستوں کے ساتھ بھیجاتھا۔ان تینوں کا انداز ایسا جارحانہ تھا کہ جدھر جاتے تھے اُدھر لوگ دبک جاتے اور ان کے سردار آگے آکر اطاعت قبول کرلیتے تھے۔اس طرح جون ۶۳۳ء ربیع الآخر ۱۲ہجری میں دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے اسلامی سلطنت میں آگئے۔تخت و تاج کے ہوس کاروں نے اپنی قوموں کو تاریخ کی تاریکیوں میں گم کیااور اپنے ملک دشمن کے حوالے کیے ہیں۔فارس کی شہنشاہی جو ناقابلِ تسخیر سمجھی جاتی تھی اور جس کی فوج زرہ پوش تھی ،اب زوال پزیر تھی۔مسلمانوں کی فوج کی نفری فارس کی فوج کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی۔یہ نفری زرہ پوش بھی نہیں تھی اور آتش پرستوں کی فوج کی طرح اتنی زیادہ مسلح بھی نہیں تھی مگر آتش پرست شکست پہ شکست کھاتے چلے گئے اور فارس کے دارالحکومت مدائن کو خطرہ پیدا ہو گیا،وہاں اب کسریٰ اُردشیر نہیں تھا وہ صدمے سے مر گیا تھا۔تاریخ گواہ ہے اور یہ قرآن کا فرمان ہے کہ" اﷲجس قوم کو اس کے اعمالِ بد کی سزا دینے پر آتا ہے اس پر نااہل اور خود غرض حکمران مسلط کر دیتاہے جو اسی قوم کے افراد ہوتے ہیں ۔"اﷲکا یہ قہر آتش پرستوں پر گرنا شروع ہوگیا تھا ۔مدائن میں اُردشیر کی موت کے بعد اس کے خاندان میں تخت و تاج کی جنگ شروع ہر چکی تھی۔خالدؓ کے جاسوس مدائن میں ہی نہیں،کسریٰ کے محل میں بھی پہنچ چکے تھے۔وہ جو خبریں بھیج رہے تھے وہ خالدؓ کے لیے امید افزاء تھیں۔
"مدائن کا تخت اب وہ تختہ بن چکا ہے جس پر میت کو غسل دیا جاتاہے۔"ایک جاسوس نے مدائن سے آکر خالدؓ کو بتایا۔"یہ تخت کسریٰ کے تین شہزادوں کی جانیں لے چکا ہے۔اُردشیر کی متعدد بیویاں ہیں اور ہر بیوی کے جوان بیٹے ہیں۔ہر بیوی اپنے بیٹے کے سر پر کسریٰ کا تاج رکھنا چاہتی ہے۔اُردشیر کے مرنے کے بعد ایک شہزادے کو تخت پربٹھایا گیا،دو روز بعد وہ اپنے کمرے میں اس حالت میں مردہ پایا گیا کہ اس کا سر اس کے دھڑ سے الگ تھا۔دو نہایت خوبصورت اور جوان لڑکیوں کو ،دربان کواور دو پہرہ داروں کو جلاد کے حوالے کر دیا گیا۔اس شہزادے کے قتل کے شبہے میں ان سب کے سر قلم کر دیئے گئے……اس کی جگہ اُردشیر کی ایک اور بیوہ کے بیٹے کے سر پر کسریٰ کا تاج رکھا گیا۔تیسرے دن اس نے شراب پی اور بے ہوش ہو گیا اور ذرا دیر بعد مر گیا۔اب سات آٹھ آدمیوں اور تین جوان عورتوں کو شہزادے کو شراب میں زہر پلانے کے شبہے میں قتل کر دیا گیا……سالارِ اعلیٰ!تیسرا شہزادہ تخت پر بیٹھا ۔دوسرے روز وہ محل کے باغ میں ایک بڑی دلکش رقاصہ کے ساتھ ٹہل رہا تھا ،کہیں سے بیک وقت دو تیر آئے ۔ایک اس کی آنکھ میں اور دوسرا اس کی شہ رگ میں اتر گیا۔ کسریٰ کا تخت پھر خالی ہو گیا…… تخت ابھی تک خالی ہے۔کسریٰ کے وزیر اور دو سالاروں نے تاجپوشی کا سلسلہ روک دیا ہے۔انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو علاقے فارس کی شہنشاہی میں رہ گئے ہیں،انہیں مسلمانوں سے بچایا جائے۔ انہوں نے دجلہ کے پار اپنی فوج کو اس طرح پھیلا دیا ہے کہ ہم جس طرف سے بھی پیش قدمی کریں ،ہمیں روک لیا جائے۔""ان کی اس فوج کی نفری کتنی ہوگی؟"خالدؓ نے پوچھا۔"ہم سے دگنی ہوگی۔"جاسوس نے جواب دیا۔"اس سے زیادہ ہوگی کم نہیں ہو سکتی۔مدائن دجلہ کے پار ہے۔آتش پرست ہمیں دریا پار نہیں کرنے دیں گے۔""اﷲکے دریا اﷲکی راہ میں لڑنے والوں کو نہیں روک سکتے۔"خالدؓنے کہا۔"آتش پرست ہمیں روکنے کے قابل نہیں رہے۔جس قوم کے سرداروں میں پھوٹ پڑ جاتی ہے اس قوم کی قسمت میں تباہی کے سوا کچھ نہیں رہتا۔""ہم مدائن کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔"خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔"ہم دشمن کو سنبھلنے کی مہلت نہیں دیں گے۔"خالدؓاپنے سالاروں کو کوچ کے احکام دے ہی رہے تھے کہ انہیں اطلاع دی گئی کہ مدینہ سے خلیفۃ المسلمینؓ کا قاصد آیا ہے ۔خالدؓنے فوراً قاصد کو اندر بلا لیا۔ "کیا مدینہ کے لوگ ہمیں اچھے نام سے یاد کرتے ہیں؟"خالدؓنے قاصد سے پوچھا۔"خدا کی قسم!مدینہ کی ہوائیں بھی آ پ کو یاد کرتی ہیں۔"قاصد نے کہا۔"امیر المومنین ؓمسجد میں آپ کا ذکر کرتے ہیں۔وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کیا اب مائیں خالد جیسا ایک اور بیٹا جَن سکیں گی؟لوگ ہر روز آپ کی خبر کا انتظار کرتے ہیں۔""پیغام کیا ہے؟"قاصد نے پیغام خالدؓ کو دے دیا۔خالدؓ پڑھتے جا رہے تھے اور ان کے چہرے کا تاثر بدلتا جا رہا تھا۔وہاں جو سالار موجود تھے وہ پیغام سننے کیلئے بیتاب ہو گئے۔"امیر المومنین کے سوا مجھے کون روک سکتا تھا؟"خالدؓ نے کہا اور سالاروں سے مخاطب ہوکر بولے۔"امیرالمومنین نے حکم بھیجا ہے کہ عیاض بن غنم دومۃ الجندل میں لڑ رہا ہے۔اﷲاسے فتح عطا فرمائے۔اُدھر سے فارغ ہوکر وہ ہمارے پاس آجائے گا۔امیرالمومنین نے کہا ہے کہ جب عیاض اپنی فوج لے کر ہمارے پاس آجائے تو ہم آگے بڑھیں ۔اُس کے آنے تک ہم جہاں ہیں وہیں رکے رہیں۔"خالدؓ کے چہرے پر جو رونق اور آنکھوں میں فتح و نصرت کی جو چمک ہر وقت رہتی تھی وہ بجھ گئی اور وہ گہری سوچ میں کھو گئے،سالاروں کے اس اجلاس پر سناٹا طاری ہو گیا جس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ خلیفۃ المسلمینؓ نے پیش قدمی روک دی تھی بلکہ وجہ یہ تھی کہ خالدؓ کے چہرے پر ایسا تاثر کبھی کبھی آیا کرتا تھا اور یہ تاثر ایک طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتا تھا۔کسی بھی سالار کو خلیفہ کے اس حکم کے متعلق کوئی بات کہنے کی جرات نہ ہوئی۔
چند منٹ بعد خالدؓ گہری سوچ سے بیدار ہوئے اور قاصد کی طرف دیکھا۔"اﷲتجھے سفر میں سلامتی اور رحمت عطا کرے!"خالدؓنے کہا۔"آرام کرنا چاہتا ہے تو کرلے اور واپسی کا سفر اختیار کر……امیر المومنین سے میرا اور میرے ساتھیوں کا سلام کہنا، پھر کہنا کہ جنگ کے حالات کو وہی بہتر سمجھتے ہیں جو میدانِ جنگ میں ہوتے ہیں۔محاذ سے اتنی دور بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرنا لڑنے والوں کیلئے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے……پھر کہنا کہ ولید کا بیٹا خلافت کی حکم عدولی کی جرات نہیں کرے گالیکن حالات نے مجبور کیا اور اسلام کو خطرہ لاحق ہوا تو میں حکم کی پرواہ نہیں کروں گا۔میں خلافتِ مدینہ کا امین اور اسلام کا پاسبان ہوں۔میں دشمن کو اپنے اوپر آتا دیکھ کر ایک شخص کے حکم کو ایک طرف رکھ دوں گا۔مجھے خوشنودی اﷲکی درکار ہے اﷲ کے کسی بندے کی نہیں۔ میں معلوم کروں گا کہ سالار عیاض کے محاذ کی صورتِ حال کیا ہے،ہو سکتا ہے اسے مدد کی ضرورت ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے محاذ سے جلدی فارغ نہ ہو سکے اور آتش پرست اس عرصے میں سنبھل جائیں۔اور خلیفۃ المسلمین سے کہنا کہ ہم نے زرتشت کی آگ کو سرد کر دیا ہے اﷲنے ہمیں ایسی فتح عطا کی ہے کہ جس نے کسریٰ کے محل کو شیطان کا بسیرا بنادیا ہے۔اُردشیر کے تخت پر جو کوئی بیٹھتا ہے وہ دو روز بعد اپنے بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے۔فارس کی شہنشاہی اور اس کی شان و شوکت کو ہم نے دجلہ اور فرات میں ڈبو دیا ہے۔حیرہ جسے فارس کا ہیرا کہتے ہیں ،ہمارا فوجی اڈہ ہے، ہمارے لیے دعاکرتے رہیں۔"قاصد کی روانگی کے بعد خالدؓ نے ایک کماندار کو بلا کر کہا کہ اپنے ساتھ دو بڑے تیز اور توانا سپاہی لے کر بہت تیز رفتار سے دومۃ الجندل جائے اور غور سے دیکھے کہ وہاں کیا صورتِ حال ہے اور سالار عیاض بن غنم کب تک فارغ ہو سکیں گے اور کیا ان کے جلدی فارغ ہونے کا امکان ہے بھی یا نہیں۔کماندار اسی وقت روانہ ہو گیا۔"خلیفۃ المسلمین کے اس حکم کو جو تم نے سنا ہے، ذہن سے اتار دو۔"خالدؓنے اپنے سالاروں سے کہا۔"دل میں خلافتِ مدینہ کا پورا احترام رکھتے ہوئے ان حالات کو دیکھوجو ہم نے آتش پرستوں کیلئے پیدا کر دیئے ہیں۔اگر ہم عیاض کے انتظار میں یہیں بیٹھے رہے تو کسریٰ کی فوج کے سنبھلنے کا موقع مل جائے گا۔خدا کی قسم!تم سب یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہو کہ کسریٰ کی فوج پر تم نے جو خوف طاری کر دیا ہے وہ انہیں کسی میدان میں تمہارے مقابلے میں نہیں ٹھہرنے دے گا……اور مدائن کے محلات میں تخت نشینی پر جو قتل و غارت ہو رہی ہے وہ ہمارے حق میں جاتی ہے۔قوم کے سرداروں میں جب تخت نشینی وجہ پیکار بن جاتی ہے تو فوج ایسی تلوار کی مانند ہو جاتی ہے جو بڑے ہی ڈھیلے اور کمزورہاتھوں میں ہو۔""ہاں ابنِ ولید!"سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔"کسریٰ کے جن سالارں نے فارس کے بچے ہوئے علاقوں میں اپنی فوج پھیلا دی ہے وہ سالار بھی تخت کے خواہشمند ہوں گے ۔وہ ہم پر فتح حاصل کرکے فارس کے تخت پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔""اگرایساہوا تو فارس جلدی تباہ ہوگا۔"سالار عدی بن حاتم نے کہا۔"سالاروں کے دماغوں پر جب تخت و تاج سوار ہو جاتا ہے تو وہ اپنے ملک اور قوم کو بڑی جلدی تباہ کر دیتے ہیں۔""جب توجہ تخت کے لفظ اور اپنی ذات پر مرکوزہو جاتی ہے تو نگاہیں دشمن سے ہٹ جاتی ہیں۔"خالدؓ نے کہا۔"میں ان حالات سے فائدہ اٹھاؤں گا۔اپنی فوج کو تیاری کی حالت میں رکھو۔ہم آخری فیصلہ دومۃالجندل کی صورتِحال معلوم ہو جانے پر کریں گے۔"دومۃ الجندل کی صورتِ حال سالار عیاض بن غنم کیلئے مخدوش تھی۔دومۃ الجندل اس دور کا مشہور تجارتی مرکز تھا۔آج کے عراق اور شام کی شاہراہیں یہیں آکر ملتی تھیں۔رسولِ اکرمﷺنے تبوک پو چڑھائی کی تھی تو اس دوران خالدؓدومۃ الجندل تک پہنچے اور یہاں کے قلعہ سے قلعہ دار اُکیدربن مالک کو گرفتار کرکے رسولِ اکرمﷺ کے حضور پیش کیا تھا۔
اُکیدر بن مالک نے اسلام تو قبول نہ کیا، رسول اﷲﷺ کی اطاعت قبول کر لی تھی لیکن حضور ﷺ کی وفات کے بعد ارتدار کا فتنہ اٹھا تو اس شخص نے مدینہ کی وفاداری ترک کردی اور عیسائیوں اور بت پرستوں کو ساتھ ملا کر اس کا سردار بن گیا تھا۔ابو بکرؓ نے اُکیدر بن مالک کی سرداری کو ختم اور اس کے زیرِ اثر غیر مسلم قبائل کو اپنے زیرِ نگیں کرنے کیلئے سالار عیاض بن غنم کو بھیجا تھا۔عیاض تجربہ کار سالار تھے لیکن دومۃ الجندل پہنچے تو دیکھا کہ عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ جو کلب کہلاتا تھا ،اپنے علاقے کے دفاع کیلئے تیار تھا۔یہ قبیلہ جنگ و جدل میں شہرت رکھتا تھا ۔عیاض نے قلعے کو محاصرے میں لے لیا لیکن عیسائیوں نے باہر سے مسلمانوں کو محاصرے میں لے لیا۔عیاض کی فوج کو آگے بھی اور عقب میں بھی لڑنا پڑا۔اس صورتِ حال نے جنگ کو ایسا طول دیا جوختم ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔اور یہ صورتِ حال عیاض کیلئے روز بروز مخدوش ہوتی جا رہی تھی۔خالدؓ کا بھیجا ہوا کماندار واپس آیا تو اس نے خالدؓکو بتایا کہ عیاض بن غنم کیسے آئے گا؟اسے تو خود مدد کی ضرورت ہے۔کماندار نے دومۃ الجندل میں عیاض اور دشمن کی فوجوں کی پوزیشنیں تفصیل سے بیان کیں۔"خدا کی قسم! میں یہاں انتظا رمیں فارغ نہیں بیٹھ سکتا۔"خالدؓنے پر جوش آواز میں کہا۔"پیشتر اس کے کہ دشمن آگے آجائے۔میں آگے بڑھوں گا۔مدائن کی شہر پناہ مجھے پکار رہی ہے……کوچ کی تیاری کرو۔"مشہور مؤرخ طبری ار بلاذری نے لکھا ہے کہ خالدؓ کی خود سری اور سرکشی مشہور تھی ۔وہ چَین سے بیٹھنے والے سالار نہیں تھے۔اس صورت میں کہ دشمن چار شکستیں کھا چکا تھا اور اس کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا اور مدائن کے شاہی ایوان میں ابتری پھیلی ہوئی تھی ،خالدؓ فارغ بیٹھ ہی نہیں سکتے تھے۔خالدؓکا جاسوسی نظام بڑا تیز اور ذہین تھا۔اس میں زیادہ تر وہ مسلمان تھے جو فارس میں غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہے تھے۔وہ ان علاقوں سے واقف تھے اور مختلف قبیلوں کی ذبانیں بول سکتے تھے اور ان کا بہروپ دھار سکتے تھے۔وہ مدائن کے محلات کے اندر کی خبریں لے آئے تھے۔ انہوں نے خالدؓ کو خبریں دینی شروع کر دیں کہ فارس کی فوج کہاں کہاں موجود ہے اور کس جگہ کیا کیفیت ہے۔ان کی اطلاعوں کے مطابق ایرانیوں کی فوج کی زیادہ تر نفری دو شہروں میں تھی۔ایک تھا عین التمر اور دوسرا انبار۔عین التمرحیرہ کے قریب تھا اور انبار اس سے دگنے فاصلے پر آگے تھا،عین التمر دریائے فرات سے دور ہٹ کر واقع تھا اور انبار فرات کے کنارے پر تھا۔خالدؓنے فیصلہ کیا کہ پہلے انبار پرحملہ کیاجائے،یہ بھی تجارتی شہر تھاجس میں غلّے کے بہت بڑے بڑے ذخیرے تھے۔ جون ۶۳۳ء کے آخر ربیع الاول ۱۲ ھ کے وسط میں خالدؓ نے حیرہ سے کوچ کیا۔ان کے ساتھ ان کی آدھی فوج یعنی نو ہزار نفری تھی جو حملے کیلئے بہت ہی تھوڑی تھی لیکن خالدؓکو اﷲپر اور اپنی جنگی فہم و فراست پر بھروسہ تھا۔وہ مفتوحہ علاقوں کو فوج کے بغیر نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔عیسائی اور دیگر قبیلوں نے اطاعت تو قبول کر لی تھی لیکن مسلمانوں کو بڑے تلخ تجربے ہوئے تھے۔اطاعت قبول کرنے والے موقع ملتے ہی اطاعت سے منکر اور باغی ہو جاتے تھے۔حیرہ میں خالدؓ نے قعقاع بن عمرو اور اقرع بن حابس کو چھوڑا تھا۔
یہاں ایک غلطی کی وضاحت ضروری ہے۔دو چار تاریخ دانوں نے لکھاہے کہ خالدؓحیرہ میں سالار عیاض بن غنم کے انتظار میں ایک سا ل رکے رہے۔یہ غلط ہے،اس دور کی تحریروں سے صاف پتا چلتا ہے کہ خالدؓنے حیرہ میں پورا ایک مہینہ بھی انتظار نہیں کیا نہ انہوں نے امیر المومنینؓ کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ ان کے حکم کے خلاف سالار عیاض بن غنم کا انتظار کیے بغیر مدائن کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔خالدؓ اپنی نَو ہزار سپاہ کے ساتھ فرات کے کنارے کنارے بڑی تیزی سے بڑھتے گئے ۔ان کے جاسوس مختلف بہروپوں میں دریا کے دوسرے کنارے پر آگے آگے جا رہے تھے۔انبار سے تھوڑی دور رہ گئے تو خالدؓ نے فرات عبور کیا اور اس کنارے پر چلے گئے جس پر انبار واقع تھا۔وہاں انہوں نے مختصر سا قیام کیا اور دو خط تحریر کرائے۔ایک کسریٰ کے نام اور دوسرا مدائن کے حکام اور امراء وغیرہ کے نام۔
کسریٰ کے نام خالدؓ نے لکھوایا: "بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔خالد بن ولید کی جانب سے شاہِ فارس کے نام۔میں شکر ادا کرتا ہوں اﷲکا جس نے تمہاری بادشاہی کو تہہ و بالا کر ڈالا ہے اور تہاری عیاریوں کو کامیابی سے محروم رکھا ہے اور تم آپس میں ہی دست و گریبان ہو رہے ہو۔اﷲاگر تمہیں مذید مہلت دیتا تو بھی گھاٹے میں تم ہی رہتے۔اب تمہاری نجات کا ایک ہی راستہ ہے ۔مدینہ کی اطاعت قبول کر لو۔اگر یہ منظور ہے تو میں شرائط طے کرنے کیلئے دوستوں کی طرح آؤں گا۔پھر ہم تمہارے علاقے سے آگے نکل جائیں گے۔اگر پس و پیش کرو گے تو تمہیں ایسی قوم کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑیں گے جسے موت اتنی عزیز ہے جتنا تم زندگی کو عزیز رکھتے ہو۔
خالدؓ نے مدائن کے حکام اور امراء کے نام لکھوایا:"بسم اﷲالرحمٰن الرحیم۔خالد بن ولید کی جانب سے فارس کے امراء کے نام۔تمہارے لیے بہتر صورت یہی ہے کہ اسلام قبول کر لو۔ہم تمہاری سلامتی اور تحفظ کے ذمہ دار ہوں گے ۔اسلام قبول نہ کرو تو جزیہ ادا کرو ،ورنہ سوچ لو کہ تمہارا سامنا ایک ایسی قوم سے ہے جو موت کی اتنی ہی شیدائی ہے جتنے فریفتہ تم شراب پر ہو۔
خالدؓ نے شاہِ فارس کے نام حیرہ کے رہنے والے ایک آدمی کے ہاتھ بھیجا اور امراء وغیرہ کے نام خط لے جانے والا انبار کا رہنے والا ایک آدمی تھا۔کسی بھی مؤرخ نے ان دونوں آدمیوں کے نام نہیں لکھے۔انبار جس علاقے میں تھاوہ ساباط کہلاتا تھا۔ساباط آج کل کے ضلعوں کی طرح تھا اور انبار اس ضلعے کا سب سے بڑا شہر تھا۔ساباط کا حاکم یا امیر شیر زاد تھا جو اس وقت انبار میں مقیم تھا۔وہ دانشمند اور عالم تھا۔اس میں عسکری صلاحیت ذرا کم تھی ،لیکن انبار میں فوج اتنی زیادہ تھی کہ اسے عسکری سوجھ بوجھ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔وہ اپنی فوج کے علاوہ اسے ساتھ عیسائیوں کی بے شمار نفری تھی۔اتنی زیادہ فوج کے علاوہ انبار کی شہر پناہ بڑی مضبوط تھی اور دفاع کا یہ انتظام بھی تھا کہ شہر کے اردگرد گہری خندق تھی جس میں پانی تھا۔اس طرح انبار کو ناقابلِ تسخیر شہر بنا دیا گیا تھا۔خالدؓکیلئے تو یہ اس لئے بھی ناقابلِ تسخیر تھا کہ ان کی فوج کی کل نفری نو ہزار تھی۔انبار کے جاسوسوں نے مسلمانوں کی فوج کو شہر کی طرف آتے دیکھا تو انہوں نے شیرزاد کو جا بتایا، پھر سارے شہر میں خبر پھیل گئی کہ مدینہ کی فوج آ رہی ہے۔
شیرزاد دوڑاگیا اور دیوار پر جا چڑھا۔اسے جاسوسوں نے مدینہ کی فوج کی نفری دس ہزار بتائی تھی۔"نہیں!یہ دھوکا ہے۔"دیوارپر کھڑے شیرزاد نے مسلمانوں کی فوج کو دیکھ کر کہا۔"جنہوں نے ہماری اتنی زبردست فوج کو یکے بعد دیگرے چار لڑائیوں میں شکست دی ہے وہ اتنے احمق نہیں ہو سکتے کہ اتنے بڑے قلعے بند شہر پر حملہ کرنے کیلئے اتنی قلیل فوج لائیں۔یہ ان کی فوج کا ہراول ہوگا۔اگر ہراول نہیں تو اتنی ہی فوج پیچھے آرہی ہو گی یا کسی اور سمت سے آرہی ہوگی۔"شہر کے لوگوں میں افراتفری مچ گئی تھی۔انہوں نے مسلمانوں کے بڑے دہشت ناک قصے سنے تھے۔انہوں نے اپنی شکست خوردہ فوج کے زخمیوں کو اور میدانِ جنگ سے بھاگ کر آنے والوں کو دیکھا تھا۔ان کا خوف و ہراس بھی دیکھا تھا۔پسپائی میں اپنے آپ کو حق بجانب ظاہر کرنے کیلئے انہوں نے لوگوں کو جنگ کے ایسے واقعات سنائے تھے جیسے مسلمان جن بھوت ہوں۔اب وہ مسلمان ان کے اتنے بڑے شہر کو محاصرے میں لینے آئے تھے۔انہوں نے اپنے زیورات اور رقمیں اور اپنی جوان لڑکیا ں چھپانی شروع کر دیں۔شہر میں خوف و ہراس اور بھگدڑ زیادہ دیر نہ رہی کیونکہ دیوار کے اوپر سے بلند آوازیں سنائی دینے لگی تھیں کہ مسلمانوں کی تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ وہ ساری عمر شہر کی دیوار تک نہیں پہنچ سکیں گے ۔پھر دیوار کے اوپر قہقہے بلند ہونے لگے۔"مسلمانو!"آتش پرست مسلمانوں پر آوازے کَس رہے تھے ۔"تمہیں موت یہاں تک لے آئی ہے۔""زندہ رہنا ہے تو مدینہ کو لَوٹ جاؤ۔"شہرِ پناہ پر تیر اندازوں کا ہجوم کھڑا تھا۔مسلمانوں نے شہر کو محاصرے میں لے لیا تھااور خندق نے انہیں روک لیا۔طبری اور یاقوت لکھتے ہیں کہ خندق دیوار کے اتنا قریب تھی کہ اس کے قریب آنے والے اوپر سے چھوڑے ہوئے تیروں کی زد میں آجاتے تھے۔ایسا نہ ہوتا تو بھی خندق کو پھلانگنا ممکن نہ تھا۔یہ بہت چَوڑی تھی۔تیر انداز مسلمانوں پر ہنس رہے تھے اور وہ ہزاروں کی تعداد میں دیوار پر یوں کھڑے تھے جیسے مسلمانوں کا تماشہ دیکھ رہے ہوں۔ "خدا کی قسم!"خالدؓنے بڑی بلند آواز سے کہا۔"یہ لوگ نہیں جانتے جنگ کیا ہے اور کس طرح لڑی جاتی ہے۔"مؤرخ لکھتے ہیں کہ انبار ہر لحاظ سے ناقابلِ تسخیر تھا لیکن خالدؓ کے چہرے پر پریشانی کاہلکاسا بھی تاثر نہیں تھا۔وہ پر سکون تھے۔رات کو انہوں نے اپنے خیمے میں اپنے سالاروں کو یقین دلایا کہ فتح انہی کی ہوگی لیکن قربانی بہت دینی پڑے گی۔انہیں صرف یہ بات فتح کی امید دلا رہی تھی کہ شہر کی دیوار اتنی اونچی نہیں تھی جتنی قلعوں کی ہوا کرتی ہے۔صبح طلوع ہوتے ہی خالدؓ گھوڑے پر سوار ہوئے اور شہر کے اردگرد گھوڑا دوڑانے لگے۔وہ دیوار اور خندق کا جائزہ لے رہے تھے ۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ انہیں ایک ہزارایسے تیر اندازوں کی ضرورت ہے جنہیں اپنے نشانے پر پورا پورا اعتماد ہو اور جن کے بازوؤں میں اتنی طاقت ہو کہ کمانوں کو کھینچیں تو کمانیں دوہری ہو جائیں اور عام تیر اندازوں کی نسبت ان کے تیر بہت دور جائیں۔
"جلدی۔" خالدؓنے کہا۔"بہت جلدی ہمیں شام تک اس شہر میں داخل ہونا ہے ۔"تھوڑی سی دیر میں ایک ہزار تیر انداز آگئے۔یہ چُنے ہوئے تھے اور سب کے سب جوان اور بڑے مضبوط جسموں والے تھے۔"تم سب خندق تک اس طرح ٹہلتے ہوئے جاؤ کہ کمانیں تمہارے ہاتھوں میں لٹک رہی ہوں۔"خالدؓنے کہا۔"ایسا لگے کہ تم ٹہلتے ٹہلتے خندق کے قریب چلے گئے ہو۔جوں ہی خندق کے قریب جاؤ،نہایت تیزی سے ترکشوں سے تیر نکالو ،کمانوں میں ڈالو اور دیوار پر کھڑے دشمن کے تیر اندازوں کی آنکھوں کا نشانہ لے کر تیر چلاؤ۔پیشتر اس کے کہ وہ جان سکیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ایک ایک، اس کے بعد پھر ایک ایک تیر چلاؤ۔"مورخ طبری کے مطابق خالدؓنے حکم دیاتھا۔"صرف آنکھیں ……صرف آنکھیں۔"ایک ہزار تیر انداز خالدؓ کے حکم کے عین مطابق آہستہ آہستہ خندق تک گئے۔دیوار پر دشمن کے سپاہی ہنس رہے تھے اور بے پروائی سے کھڑے تھے ۔انہیں مسلمانوں کا کوئی ارادہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ وہ خندق کو پھلانگنے کی کوشش کریں گے۔خندق کے قریب پہنچ کر ان ایک ہزار تیر اندازوں نے اوپر دیکھا،اِدھر اُدھر دیکھا،خندق میں دیکھا اور احمقوں کی سی حرکتیں کیں۔آتش پرستوں کے تیر اندازوں نے ان پر تیر چلانے کی ضرورت محسوس نہ کی حالانکہ مسلمان تیر انداز ان کی زد میں تھے۔اچانک مسلمان تیر انداز وں نے ترکشوں میں سے ایک ایک تیر نکالا ،پلک جھپکتے تیر کمانوں میں ڈالے، کمانیں آگے ر کھ کے دشمن کی آنکھوں کے نشانے لیے اور تیر چھوڑ دیئے۔ایک ہزار تیروں سے بیشتر آتش پرستوں کے تیر اندازوں کی ایک ایک آنکھ میں اتر گئے۔معاًبعد مسلمان تیر اندازوں نے ایک ہزار تیر چھوڑے ،پھر ایک ہزار اور……"یہ کہنا صحیح نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کا کوئی بھی تیر خطا نہیں گیا تاریخوں میں لکھاہے کہ زیادہ تیر دشمن کی آنکھوں میں لگے اور شہر میں یہ خبر تیز ہوا کی طرح پھیل گئی ہمارے سینکڑوں سپاہیوں کی آنکھیں ضائع ہو گئی ہیں۔اب ان سینکڑوں سپاہیوں کو شہرِپناہ سے اتارا گیا تو شہر کے لوگوں نے ہر ایک کی ایک ایک آنکھ میں تیر اترا ہوا اور ان زخمیوں کو کرب ناک آہ و زاری کرتے دیکھا۔ایک انگریز مبصر سر والٹر نے متعدد مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے تین ہزار تیر اتنی تیزی سے چلے کہ آتش پرست اپنے آپ کو بچا ہی نہ سکے اور تیر جن کی آنکھوں میں نہ لگے ان کے چہروں میں اتر گئے چونکہ فارس کے یہ سپاہی اور ان کی مدد کو آئے ہوئے عیسائی شہر پناہ پر گھنے ہجوم کی طرح کھڑے تھے اس لئے کوئی تیر ضائع نہ گیا ہو۔تیر نے ایک ایک آدمی کو زخمی کیا۔طبری کی تحریر کے مطابق انبا ر کے محاصرے کو "ذات العیون" یعنی آنکھوں کی تکلیف بھی کہا جاتا رہا ہے۔
مسلمانوں کے اس وار نے شہر کے لوگوں پر ہی نہیں فارس کی فوج پر بھی خوف طاری کر دیا۔ مسلمانوں نے تو جادو کاکرتب دکھا دیا تھا۔ساباط کا آتش پرست حاکم شیرزاد دانش مند اور دور اندیش آدمی تھا۔اس نے بھانپ لیا کہ اس کی فوج میں جو لڑنے کا جذبہ موجو دتھا وہ ماند پڑ گیا ہے۔اسے یہ بھی احساس تھا کہ اس کی فوج پہلی شکستوں کی بھی ڈری ہوئی ہے۔چنانچہ مزید قتل و غارت کو روکنے کیلئے اس نے خالدؓ سے صلح کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اس نے دو امراء کو قلعے کے باہر بھیجا۔خندق کے قریب آکر ان دو امیروں نے مسلمانوں سے پوچھا کہ ان کا سالارِ اعلیٰ کہاں ہے ۔خالدؓ کو اطلاع ملی تو وہ آگئے۔"ہمارے امیر شیر زاد نے ہمیں بھیجا ہے۔"شیر زاد کے بھیجے ہوئے دو آدمیوں میں سے ایک نے خالدؓ سے کہا۔"ہم آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسی شرائط پر جو ہمارے لیے قابلِ قبول ہوں۔اگر صلح ہوجائے تو شیرزاد اپنی فوج کو ساتھ لے کر انبار سے چلا جائے گا۔""شیر زاد سے کہو کہ شرطیں منوانے کا وقت گزر گیا ہے۔"خالدؓ نے کہا۔"اب شرطیں ہماری ہوں گی اور تم لوگ ہتھیار ڈالو گے۔"دونوں آدمی واپس چلے گئے اور شیرزاد کو خالدؓ کا پیغام دیا،شیرزاد نے اپنے سالاروں کی طرف دیکھا۔"ہم اتنی جلدی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔"ایک سالارنے کہا۔"ہمارے پاس فوج کی کمی نہیں۔"دوسرے سالارنے کہا۔"مسلمان خندق سے آگے نہیں آسکتے۔"شیرزاد نے سر ہلایا۔یہ ایسا اشارہ تھا جس سے پتہ نہیں چلتا کہ وہ شہر کا دفاع جاری رکھنا یا خالدؓ کے پیغام پر غور کرکے کوئی اور فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔اس کے سالاروں نے اس کے اشارے کو جنگ جاری رکھنے کا حکم سمجھا اور وہ شہرِ پناہ پر آگئے۔ایک ہزار مسلمان تیر اندازجنہوں نے انبار کے دوہزار سے زائد سپاہیوں کی آنکھیں نکال دی تھیں ،پیچھے ہٹ گئے۔خالدؓ نے شہر کے اردگرد ایک اور چکر لگایا۔اب وہ صرف خندق کو دیکھ رہے تھے ۔انہوں نے خندق پار کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی لیکن اتنی کم نہیں تھی کہ دور سے گھوڑا دوڑاتے لاتے اور وہ خندق پھاند جاتا۔خالدؓ کے دماغ میں ایک طریقہ آگیا۔انہوں نے حکم دیا کہ اپنی فوج کے ساتھ جتنے اونٹ کمزور یا بیمار ہوگئے ہیں انہیں آگے لے آؤ۔ایسے بہت سے اونٹ تھے جو پورا سامان اٹھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔خالدؓ کے حکم سے ان اونٹوں کو ذبح کرکے خندق میں اس جگہ پھینکتے گئے جہاں خندق کم چوڑی تھی۔اتنے اونٹ ذبح کرکے خندق میں ترتیب سے پھینک دیئے گئے کہ ایک پُل بن گیا۔"اﷲنے تمہارے لیے گوشت اور ہڈیوں کا پُل بنا دیا ہے۔"خالدؓ نے بلند آواز سے کہا ۔"اب ہم خندق کے پار جا سکتے ہیں۔"
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟