👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟜⭐🌴


👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟜⭐🌴
داستان ایمان فروشوں کی,صلاح الدین ایوبی,تاریخی واقعات,عنایت اللہ التمش,
⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟜⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ناجی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس آکر کہا امیر مصر کا اقبال بلند ہو اس لڑکی کا نام زکوئی ہے اسے میں نے آپکی خاطر اسکندریہ سے بلوایا ہے یہ پیشہ ور رقاصہ نہیں یہ طوائف بھی نہیں اسکو رقص سے پیار ہے شوقیہ ناچتی ہے کسی محفل میں نہیں جاتی میں اسکے باپ کو جانتا ہوں ساحل پر مچھلیوں کا کاروبار کرتا ہے 
یہ لڑکی آپکی عقیدت مند ہے آپکو پیغمبر مانتی ہے میں اتفاق سے اسکے گھر اس کے باپ سے ملنے گیا تو اس لڑکی نے استدعا کی کہ سنا ہے سلطان صلاح الدین ایوبی امیر مصر بن کر آئے ہیں اللّٰہ کے نام پر مجھے اس سے ملوا دو میرے پاس اپنی جان اور رقص کے سوا کچھ بھی نہیں جو میں اس عظیم ہستی کے پاؤں میں پیش کرسکوں قابل صد احترام امیر میں نے آپ سے رقص اور ناچ کی اجازت اس لیے مانگی تھی کہ میں اس لڑکی کو آپکے حضور پیش کرنا چاہتا تھا
کیا آپ نے اسے بتایا تھا کہ میں کسی لڑکی کو رقص یا عریانی کی حالت میں اپنے سامنے نہیں دیکھ سکتا؟ 
یہ لڑکیاں جسے آپ ملبوس لائے ہیں بلکل ننگی ہے سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا عالی مقام میں نے بتایا تھا کہ امیر مصر رقص کو ناپسند کرتے ہیں لیکن یہ کہتی تھی کہ امیر مصر میرا رقص پسند کرینگے کیونکہ اس میں گناہ کی دعوت نہیں یہ ایک باعصمت لڑکی کا رقص ہوگا میں صلاح الدین ایوبی کے حضور اپنا جسم نہیں اپنا رقص پیش کرونگی اگر میں مرد ہوتی تو سلطان کی جان کی حفاظت کے لیے محافظ دستے میں شامل ہو جاتی ناجی نے کھسیانہ ہوکر کہا۔
آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ 
اس لڑکی کو اپنے پاس بلا کر خراج تحسین پیش کروں کہ تم ہزاروں لوگوں کے سامنے اپنا جسم ننگا کر کہ بہت اچھا ناچتی ہو؟ 
اسے اس پر شاباش دوں کہ تم نے مردوں کے جنسی جذبات بھڑکانے میں خوب مہارت حاصل کی ہے۔۔؟ 
سلطان صلاح الدین ایوبی نے پوچھا
نہیں امیر مصر میں اسے اس وعدے پر یہاں لایا ہوں کہ آپ ا سے شرف بازیابی بخشیں گے یہ بڑی دور سے اسی امید پر آئی ہے
زرا دیکھیئے اسے اسکی رقص میں پیشہ وارنہ تاثر نہیں خود سپردگی ہے
دیکھیئے وہ آپکو کیسی نظروں سے دیکھ رہی ہے بیشک عبادت صرف اللّٰہ کی کیجاتی ہے لیکن یہ رقص کی اداؤں سے عقیدت سے آپکی عبادت کر رہی ہے 
آپ اسے اپنے خیمے میں اندر آنے کی اجازت دیں 
تھوڑی سی دیر کے لیے اسے مستقبل کی وہ ماں سمجھیں جس کی کوکھ سے اسلام کے جانباز پیدا ہونگے یہ اپنے بچوں کو فخر سے بتایا کرے گی کہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی سے تنہائی میں باتیں کرنے کا شرف حاصل کیا تھا
ناجی نے نہایت پر اثر اور خوشامدی لہجے میں سلطان صلاح الدین ایوبی سے منوالیا کہ یہ لڑکی جسے ناجی نے ایک بردہ فروش سے خریدا تھا شریف باپ کی باعصمت بیٹی ہے ناجی نے سلطان صلاح الدین ایوبی سے کہلوا لیا کہ اچھا اسے میرے خیمے میں بھیج دینا زکوئی نہایت آہستہ آہستہ جسم کو بل دیتی اور بار بار سلطان صلاح الدین ایوبی کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی
باقی لڑکیاں تتلیوں کی طرح جسے اسکے آس پاس اڑ رہی تھیں یہ اچھل کود والا رقص نہیں تھا 
مشعلوں کی روشنی میں کبھی تو یوں لگتا تھا جیسے ہلکے نیلے شفاف پانی میں جل پریاں تیر رہی ہوں۔
چاندنی کا اپنا ایک تاثر تھا سلطان صلاح الدین ایوبی کے مطلق کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ بیٹھ کر کیا سوچ رہا تھا ناجی کے سپاہی جو شراب پی کر ہنگامہ کر رہے تھے وہ بھی جیسے مر گئے تھے زمین اور آسمان پر وجد طاری تھا ناجی اپنی کامیابی پر بہت مسرور تھا اور رات گزرتی جا رہی تھی
نصف شب کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے خیمے میں داخل ہوا جو ناجی نے نصب کیا تھا اندر اس نے قالین بچھا دیئے تھے پلنگ پر چیتے کی کال کی مانند پلنگ پوش تھا فانوس جو رکھوایا تھا اسکی ہلکی نیلی روشنی صحر کی شفاف چاندنی کی مانند تھی اور اندر کی فضا عطر بیز تھی خیمے کے اندر ریشمی پردے آویزاں تھے ناجی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ خیمے میں اندر گیا اور کہا اسے زرا سی دیر کے لیے بیھج دو۔
میں وعدہ خلافی سے بہت ڈرتا ہوں
بھیج دو سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا
اور ناجی ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا خیمے سے باہر گیا تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے محافظوں نے ایک رقاصہ کو اسکے خیمے کی طرف آتے دیکھا

خیمے کی ہر طرف مشعلیں روشن تھیں روشنی کا یہ انتظام علی بن سفیان نے کرایا تھا کہ رات کے وقت محافظ گرد وپیش میں اچھی طرح سے دیکھ سکے رقاصہ قریب آئی تو انہوں نے اسے پہچان لیا انہوں نے اسے رقص میں دیکھا تھا یہ وہی لڑکی تھی جو ٹوکرے میں سے نکلی تھی وہ زکوئی تھی وہ رقص کے لباس میں تھی یہ لباس توبہ شکن تھا 
محافظوں کے کمانڈروں نے اسے روک لیا زکوئی نے بتایا کہ اسے امیر مصر نے بلوایا ہے کمانڈر نے اسے بتایا کہ یہ ان امیروں میں سے نہیں کہ یہ تم جیسی فاحشہ لڑکیوں کے ساتھ راتیں گزاریں 
آپ ان سے پوچھ لیں میں بن بلائے آنے کی جرات نہیں کر سکتی
انکا بلاوا تم کو کس نے دیا کمانڈر نے پوچھا۔
سالار ناجی نے کہا کہ تمہیں امیر مصر بلا رہے ہیں 
آپ کہتے ہو تو میں چلی جاتی ہوں امیر نے جواب طلبی کی تو تم خود بھگت لینا زکوئی نے کہا کمانڈر تسلیم نہیں کر سکتا تھا کہ امیر مصر نے ایک رقاصہ کو اپنے خیمے میں بلوایا ہے وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے کردار سے واقف تھا وہ اسکے اس حکم سے بھی واقف تھا کہ ناچنے گانے والیوں سے تعلق رکھنے والے کو 100 درے بھی مارے جائیں گے کمانڈر شش و پنج میں پڑ گیا سوچ سوچ کر اس نے ہمت کی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے میں اندر چلا گیا صلاح الدین ایوبی اندر ٹہل رہا تھا کمانڈر نے ڈرتے ڈرتے کہا باہر ایک رقاصہ کھڑی ہے کہتی ہے کہ حضور نے اسے بلوایا ہے 
اسے اندر بھیج دو سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا کمانڈر باہر نکلا اور زکوئی کو اندر بھیج دیا سپاہیوں کو توقع تھی کہ ان کا امیر اور سالار اس لڑکی کو باہر نکال دے گا وہ سب سلطان صلاح الدین ایوبی کی گرجدار آواز سننے کے لیے تیار ہوئے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا رات گزرتی جا رہی تھی اندر سے دھیمی دھیمی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں 
محافظ دستے کا کمانڈر بے قراری کے انداز میں ٹہل رہا تھا تو ایک سپاہی نے کہا کیا یہ حکم صرف ہمارے لیے ہے کہ کسی فاحشہ کے ساتھ تعلق رکھنا جرم ہے؟
ہاں حکم صرف ماتحتوں اور قانون صرف رعایا کے لیے ہوتا ہے کمانڈر نے کہا
امیر مصر کو درے نہیں لگائے جاسکتے۔۔؟
بادشاہوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا سلطان صلاح الدین ایوبی شراب بھی پیتا ہوگا ہم پر جھوٹی پارسائی کا رعب جمایا جاتا ہے
کمانڈر نے کہا انکی نگاہوں میں صلاح الدین ایوبی کا جو بت تھا وہ ٹوٹ گیا تھا اس بت میں سے ایک عربی شہزادہ نکلا جو عیاش تھا پارسائی کے پردے میں گناہ کا مرتکب ہو رہا تھا
ناجی بہت خوش تھا سلطان صلاح الدین ایوبی کی خوشنودی کے لیے اس نے شراب سونگی بھی نہیں تھی وہ اپنے خیمے میں بیٹھا مسرت سے جھوم رہا تھا اسکے سامنے اسکا نائب سالار اوروش بیٹھا ہوا تھا 
اسے گئے بہت وقت ہوگیا ہے معلوم ہوتا ہے ہمارا تیر سلطان صلاح الدین ایوبی کے دل میں اتر گیا ہے
اوروش نے کہا ہمارا تیر خطا کب گیا تھا اگر خطا جاتا بھی تو اب تک ہمارے پاس آجاتا ناجی نے قہقہ لگا کر کہا 'تم ٹھیک کہتے ہو زکوئی انسان کے روپ میں ایک طلسم ہے معلوم ہوتا ہے یہ لڑکی حشیشن کے ساتھ رہی ہے ورنہ سلطان صلاح الدین ایوبی جیسا بت کبھی نہیں توڑ سکتی اوروش نے کہا
میں نے اسے جو سبق دیئے تھے وہ حشیشن کے کبھی وہم و گمان میں بھی نہ آئے ہونگے اب سلطان صلاح الدین ایوبی کے حلق سے شراب اتروانی باقی رہ گئی ہے ناجی نے کہا 
ناجی کو باہر آہٹ سنائی دی ناجی نے دور سے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے کی طرف دیکھا پردے گرے ہوئے تھے اور سپاہی کھڑے تھے اس نے اندر جا کر اوروش سے کہا میری زکوئی نے بت توڑ ڈالا ہے

رات کا آخری پہر تھا جب زکوئی سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے سے باہر نکلی ناجی کے خیمے میں جانے کے بجائے وہ دوسری طرف چلی گئی راستے میں ایک آدمی کھڑا تھا جو سر سے پاؤں تک ایک ہی لبادے میں چھپا ہوا تھا اس نے دھیمی سی آواز میں زکوئی کو پکارا وہ اس آدمی کے پاس چلی گئی وہ اسکو خیمے میں لے گیا
بہت دیر بعد وہ اس خیمے سے نکلی اور ناجی کے خیمے کا رخ کیا ناجی اس وقت تک جاگ رہا تھا اور کئی بار سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے کی طرف باہر نکل کر دیکھ چکا تھا کہ زکوئی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو پھانس لیا ہے اور اسے آسمان کی بلندیوں سے گھسیٹ کر ناجی کی پست ذہنیت میں لے آئی اوروش رات گزر گئی ہے 
وہ ابھی تک واپس نہیں آئی ناجی نے کہا وہ اب آئے گی بھی نہیں ایسے ہیرے کو کوئی شہزادہ واپس نہیں کرتا وہ اسے اپنے ساتھ لے جائے گا تم نے اس پر بھی غور کیا ہے۔۔؟ اوروش نے کہا۔
نہیں میں نے اپنی چال کا یہ پہلو تو سوچا ہی نہیں تھا ناجی نے کہا۔
کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ امیر مصر زکوئی کے ساتھ شادی کر لیں اس صورت میں لڑکی ہمارے کام کی نہیں رہے گی اوروش نے کہا وہ ہے تو ہوشیار  مگر رقاصہ کا کیا بھروسہ وہ رقاصہ کی بیٹی ہے اور تجربہ کار بھی دھوکہ بھی دے سکتی ہے
ناجی نے کہا وہ گہری سوچ میں تھا کہ زکوئی خیمے میں داخل ہوئی، اس نے ہنس کر کہا اپنے امیر مصر کا وزن کرو لاؤ اتنا سونا آپ نے میرا یہی انعام مقرر کیا تھا نا۔۔؟
پہلے بتاؤ ہوا کیا ناجی نے بے قراری سے کہا جو آپ چاہتے تھے آپکو یہ کس نے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی پتھر ہے فولاد ہے اور وہ مسلمانوں کے لیے اللّٰہ کا سایہ ہے 
اس نے زمین پر پاؤں کا ٹھڈ مار کر کہا وہ اس ریت سے زیادہ بے بس ہے جس کو ہوا کے جھونکے اڑاتے پھرتے ہیں زکوئی نے کہا۔۔۔
تمہارے حسن کے جادو اور زبان کے طلسم نے اسے ریت بنایا ورنہ یہ کمبخت چٹان ہے اوروش نے کہا 
ہاں چٹان تھا لیکن اب رتیلا ٹیلا بھی نہیں زکوئی نے کہا
میرے متعلق کوی بات ہوئی؟  ناجی نے کہا 
ہاں پوچھ رہا تھا کہ ناجی کیسا انسان ہے میں نے کہا کہ مصر میں اگر آپکو کسی پر بھروسہ کرنا چاہیے تو وہ ناجی ہے اس نے کہا کہ تم کس طرح ناجی کو جانتی ہو میں نے کہا کہ وہ میرے باپ کے گہرے دوست ہیں ہمارے گھر گئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا غلام ہوں مجھے سمندر میں کودنے کا حکم دینگے تو میں کود جاؤنگا پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم باعصمت لڑکی ہو میں نے کہا میں آپکی لونڈی ہوں آپکا ہر حکم سر آنکھون پر کہنے لگا کہ کچھ دیر میرے پاس بیٹھو میں بیٹھ گئی پھر وہ اگر پتھر تھا تو موم بن گیا اور میں نے موم کو اپنے سانچے میں ڈال لیا اس سے رخصت ہونے لگی تو اس نے مجھ سے معافی مانگی کہنے لگا میں نے زندگی میں پہلا گناہ کیا ہے 
میں نے کہا یہ گناہ نہیں آپ نے میرے ساتھ کوئی دھوکہ نہیں کیا زبردستی نہیں کی مجھے بادشاہوں کی طرح حکم دے کر نہیں بلوایا میں خود آئی تھی اور پھر بھی آؤں گی زکوئی نے ہر بات اس طرح کھل کر سنائی جس طرح اسکا جسم عریاں تھا ناجی نے جوش مسرت سے اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا اوروش زکوئی کو خراج تحسین اور ناجی کو مبارک باد دے کر خیمے سے نکل گیا 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صحرا کی اس پُر اسرار رات کی کوکھ سے جس صبح نے جنم لیا وہ کسی بھی صحرائی صبح سے مختلف نہیں تھی مگر اس صبح کے اجالے نے اپنے تاریک سینے میں ایک راز چھپا لیا تھا جس کی قیمت اس سلطنت اسلامیہ جتنی تھی جس کے قیام اور استحکام کا خواب سلطان صلاح الدین ایوبی نے دیکھا اور اس کی تعبیر کا عزم لیکر جوان ہوا گزشتہ رات اس صحرا میں جو واقعہ ہوا اسکے 2 پہلو تھے ایک پہلو سے ناجی اور اوروش واقف تھے دوسرے سے سلطان صلاح الدین ایوبی کا محافظ دستہ واقف تھا اور سلطان صلاح الدین ایوبی اسکا سراغرساں اور جاسوس علی بن سفیان اور زکوئی تین ایسے افراد تھے جو اس واقعے کے دونوں پہلوں سے واقف تھے 
سلطان صلاح الدین ایوبی اور اسکے سٹاف کو ناجی نے نہایت ہی شان اور عزت کے ساتھ رخصت کیا ، سوڈانی فوج دو رویہ کھڑی سلطان صلاح الدین ایوبی زندباد کے نعرے لگا رہی تھی، 
سلطان صلاح الدین ایوبی نے نعروں کے جواب میں ہاتھ لہرانے مسکرانے اور دیگر تکلفات کی پرواہ نہیں کی ناجی سے ہاتھ ملایا اور اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اسکے پیچھے اپنے محافظ اور دیگر سٹاف کو بھی اپنے گھوڑے دوڑانے پڑے اپنے مرکزی دفتر پہنچ کر وہ علی بن سفیان اور اپنے نائب کو اندر لے گیا اور دروازہ بند کر دیا وہ سارا دن کمرے میں بند رہے سورج غروب ہوا تاریکی چھا گئی کمرے کے اندر کھانا تو دور پانی بھی نہیں گیا رات خاصی گزر چکی تھی جب وہ تینوں کمرے سے نکلے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے علی بن سفیان ان سے الگ ہوا تو محافظ دوستوں کے ایک کمانڈر نے اسے روکا اور کہا
محترم ۔۔! ہمارا فرض ہے کہ حکم مانیں اور زبانیں بند رکھیں لیکن میرے دستے میں ایک مایوسی پھیل گئی ہے خود میں بھی اسکا شکار ہوا ہوں
کیسی مایوسی علی بن سفیان نے کہا 

کمانڈر نے کہا محافظ کہتے ہیں کہ فوج کو اگر شراب پینے کی اجازت ہے تو ہمیں اس سے کیوں منع کیا گیا ہے اگر آپ میری شکایت کو گستاخی سمجھیں تو سزا  دے دیں 
لیکن میری شکایت سنیں ہم اپنے امیر کو اللّٰہ کا برگزیدہ انسان سمجھتے تھے اور اس پر دل و جان سے فدا تھے مگر رات
مگر رات کو اسکے خیمے میں ایک رقاصہ گئی علی بن سفیان نے کمانڈر کی بات مکمل کرتے ہوے کہا تم نے کوئی گستاخی نہیں کی گناہ امیر کریں یا غلام سزا میں کوئی فرق نہیں گناہ بہرحال گناہ ہے میں یقین دلاتا ہوں آپکو کہ امیر مصر اور رقاصہ کے پچھلی رات کی ملاقات میں گناہ کا کوئی عنصر نہیں کوئی تعلق نہیں یہ کیا تھا۔۔؟ 
ابھی میں تم کو نہیں بتاونگا آہستہ آہستہ وقت گزرتے ہوئے تم سب کو پتہ چل جائے گا کہ رات کو کیا ہوا تھا علی بن سفیان نے کمانڈر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا میری بات غور سے سنو عامر بن صالح تم پرانے عسکری ہو اچھی طرح جانتے ہو کہ فوج اور فوج کے سربراہوں کے کچھ راز ہوتے ہیں جن کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے رقاصہ کا امیر مصر کے خیمے میں جانا بھی ایک راز ہے اپنے جانبازوں کو شک میں نہ پڑنے دو اور کسی سے ذکر تک نہ ہو کہ رات کو کیا ہوا تھا علی بن سفیان نے کہا
یہ کمانڈر پرانا تھا اور علی بن سفیان کی قابلیت سے آگاہ تھا سو اس نے اپنے دستے کے تمام شکوک رفع کیئے اگلے روز سلطان صلاح الدین ایوبی دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع دی گئی کہ ناجی آئے ہیں 
سلطان صلاح الدین ایوبی کھانے سے فارغ ہوکر ناجی سے ملے ناجی کا چہرہ بتا رہا تھا کہ غصہ میں ہے اور گھبرایا ہوا ہے اس نے ہکلاتے ہوے لہجے میں کہا
قابل صد احترام امیر مصر کیا یہ حکم آپ نے جاری کیا ہے کہ سوڈانی فوج کی پچاس ہزار نفری مصر کی اس فوج میں مدغم کردی جائے جو حال ہی میں تیار ہوئی ہے
ہاں ناجی میں نے کل سارا دن اور رات کا کچھ حصہ صرف کر کہ اور بڑی گہری سوچ و بچار کے بعد یہ فیصلہ تحریر کیا ہے کہ جس فوج کے تم سالار ہو اسے مصر کی فوج میں اس طرح مدغم کر دیا جائے کہ ہر دستے میں سوڈانیوں کی نفری صرف دس فیصد ہو اور تمہیں یہ حکم بھی مل چکا ہوگا کہ اب تم اس فوج کے سالار نہیں ہوگے تم فوج کے مرکزی دفتر میں آجاؤ گے 
سلطان صلاح الدین ایوبی نے تحمل سے جواب دیا
عالی مقام مجھے کس جرم کی سزا دی جارہی ہے
ناجی نے کہا
اگر تمہیں یہ فیصلہ پسند نہیں تو فوج سے الگ ہو جاو سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا۔
معلوم ہوتا ہے میرے خلاف سازش کردی گئی ہے آپ کو بلند دماغ اور گہری نظر سے چھان بین کرنی چاہیے مرکز میں میرے بہت سے دشمن ہیں ناجی نے کہا۔
میرے دوست میں نے یہ فیصلہ صرف اسلئے کیا کہ میری انتظامیہ اور فوج سے سازشوں کا خطرہ ہمیشہ کے لیے نکل جائے اور میں نے یہ فیصلہ اسلئے کیا ہے کہ کسی کا عہدہ کتنا ہی کیوں نہ بلند ہو اور کتنا ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو وہ شراب نہ پیئے ہلڑ بازی نہ کرے اور فوجی جشنوں میں ناچ گانے نہ ہوں"صلاح الدین ایوبی نے کہا۔

لیکن عالی جاہ میں نے تو حضور سے اجازت لی تھی ناجی نے کہا۔
میں نے شراب اور ناچ گانے کی اجازت صرف اسلیئے دی تھی کہ اس فوج کی اصل حالت میں دیکھ سکوں جسے تم ملت اسلامیہ کی فوج کہتے ہو میں پچاس ہزار نفری کو برطرف نہیں کرسکتا مصری فوج میں اس کو مدغم کر کے اسکے کردار کو سدھار لوں گا اور یہ بھی سن لو کہ ہم میں کوئی مصری سوڈانی شامی عجمی نہیں ہیں ہم سب مسلمان ہیں ہمارا جھنڈا ایک اور مذہب ایک ہے سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا۔
امیر عالی مرتبت نے یہ تو سوچا ہوتا کہ میری کیا عزت رہ جائے گی؟ ناجی نے کہا۔
جس کے تم اہل ہو اپنے ماضی پر ہی نظر ڈالو ضروری نہیں کہ اپنی کارستانیوں کی داستانیں مجھ سے ہی سنو فوراً واپس جاؤ اور اپنی فوج کی نفری سامان جانور سامان خوردونوش وغیرہ کے کاغذات تیار کر کے میرے نائب کے حوالے کرو سات دن کے اندر اندر میرے حکم کی تعمیل ضرور ہونی چاہیے سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا
ناجی نے کچھ کہنا چاہا لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی ملاقات کے کمرے سے باہر نکل گئے 
یہ بات ناجی کے خفیہ حرم میں پہنچ گئی تھی کہ زکوئی کو شاہ مصر نے رات بھر شرف بازیابی بخشا ہے، زکوئی کے خلاف حسد کی آگ پہلے ہی پھیلی ہوئی تھی، 
اسے آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا لیکن آتے ہی ناجی نے اسکو اپنے پاس رکھا تھا 
اسے زرا سی دیر کے لیے بھی اس حرم میں جانے نہیں دیتا جہاں ناجی کی دلچسپ ناچنے والی لڑکیاں رہتی تھیں زکوئی کو اس نے الگ کمرہ دیا تھا، 
انھیں یہ تو معلوم نہ تھا کہ ناجی زکوئی کو صلاح الدین ایوبی کو موم کرنے کی ٹرینگ دے رہا ہے اور کس بڑے تخریبی منصوبے پر کام کر رہا ہے یہ رقاصائیں بس یہی دیکھ کر جل بھن گئی تھیں کہ زکوئی نے ناجی پر قبضہ کرلیا تھا
اور ناجی کے دل میں ان کے خلاف نفرت پیدا کردی گئی ہے حرم کی دو لڑکیاں زکوئی کو ٹھکانے لگانے کی سوچ رہی تھیں
اب انھوں نے دیکھا کہ زکوئی کو امیر مصر نے بھی رات بھر اپنے خیمے میں رکھا تو وہ پاگل ہو گئیں، 
اسکو ٹھکانے لگانے کا واحد طریقہ قتل تھا قتل کے دو ہی طریقے ہو سکتے تھے زہر یا کرائے کے قاتل جو زکوئی کو سوتے ہوئے ہی قتل کردیں، 
دونوں ہی طریقے ناممکن لگ رہے تھے کیونکہ زکوئی باہر نہیں نکلتی تھی اور اندر جانے تک اسکو رسائی کا کوئی زریعہ نہیں تھا
ان دونوں نے حرم کی سب سے زیادہ ہوشیار چالاک ملازمہ کو اعتماد میں لیا تھا 
اسے انعام و اکرام دیتی رہتی تھیں، جب حسد کی انتہا نے انکی آنکھوں میں خون اتار دیا تو انھوں نے اس ملازمہ کو منہ مانگا انعام دے کر اپنا مدعا بیان کیا یہ ملازمہ بڑی خرانٹ اور منجھی ہوئی عورت تھی
اس نے کہا کہ سالار کی رہائشگاہ میں جاکر زکوئی کو زہر دینا مشکل نہیں
موقعہ محل دیکھ کر اسکو خنجر سے قتل کیا جاسکتا ہے اس کے لیے وقت چاہیے اس نے وعدہ کیا کہ وہ زکوئی کی نقل وحرکت پر نظر رکھے گی ہوسکتا ہے کوئی موقع مل جائے اس جرائم پیشہ عورت نے یہ بھی کہا کہ اگر موقع نہیں ملا تو حشیشن( ذکر پہلے ہو چکا ہے ) بلیٹ کی مدد لی جا سکتی ہے مگر وہ معاوضہ بہت زیادہ لیتے ہیں دونوں لڑکیوں نے اسکو یقین دلایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ دے سکتی ہیں۔
ناجی اپنے کمرے میں بہت غصے کے عالم میں ٹہل رہا تھا زکوئی اسکو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی تھی 
لیکن اسکا غصہ مزید بڑھتا چلا جا رہا تھا
آپ مجھے اسکے پاس جانے دیں میں اسکو شیشے میں اتار لونگی زکوئی نے کہا

بیکار ہے وہ کمبخت حکم نامہ جاری کرچکا ہے 
جس پر عمل بھی ہوچکا ہے مجھے اس نے کہیں کا نہیں رہنے دیا اس پر تمہارا جادو نہیں چل سکا مجھے معلوم ہے میرے خلاف سازش کرنے والے لوگ کون ہیں 
وہ میری ابھرتی ہوئی حیثیت سے حسد محسوس کر رہے ہیں میں امیر مصر بننے والا تھا 
یہاں کے حکمرانوں پر میں نے حکومت کی ہے حالانکہ میں معمولی سا سالار تھا اب میں سالار بھی نہیں رہا ناجی نے دربان کو بلا کر کہا کہ اوورش کو بلائے اسکا ہمراز اور نائب آیا تو اس نے بھی اسی موضوع پر بات کی اسے وہ کوئی نئی خبر نہیں سنا رہا تھا،
اوورش کے ساتھ وہ صلاح الدین ایوبی کے نئے حکم نامے پر تفصیلی تبادلہ خیال کرچکا تھا مگر دونوں اسکے خلاف کوئی تفصیلی کاروائی نہیں سوچ سکے تھے اب ناجی کے دماغ میں جوابی کاروائی آگئی تھی اس نے اوورش کو کہا میں نے جوابی کاروائی سوچ لی ہے

کیا؟ 
اوورش نے کہا۔
بغاوت ناجی نے کہا اور اوورش اسکو چپ چاپ دیکھتا رہا ناجی نے اسکو کہا تم حیران ہو گئے ہو کیا تمہیں شک ہے کہ یہ 50 ہزار سوڈانی فوج ہماری وفادار نہیں۔۔۔؟ 
کیا سلطان کے مقابلے میں مجھے اور تمہیں اپنا سالار اور خیر خواہ نہیں سمجھتی ۔۔؟ 
کیا تم اس فوج کو یہ کہہ کر بغاوت پر آمادہ نہیں کر سکتے کہ تمہیں مصر کا غلام بنایا جا رہا ہے مصر تمھارا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ 
میں نے اس اقدام پر غور نہیں کیا تھا بغاوت کا انتظام ایک اشارے پر ہو سکتا ہے لیکن مصر کی نئی فوج بغاوت کو دبا سکتی ہے اور اس نئی فوج کو کمک بھی مل سکتی ہے 
حکومت سے ٹکر لینے سے پہلے ہمیں ہر پہلو پر غور کرنا چاہیے اوورش نے کہا۔
میں غور کرچکا ہوں میں عیسائی بادشاہوں کو مدد کے لیے بلا رہا ہوں تم دو پیامبر تیار کرو انہیں بہت دور جانا ہے آؤ میری بات بہت غور سے سنو زکوئی تم اپنے کمرے میں چلی جاو ناجی نے کہا زکوئ اپنے کمرے میں چلی گئی اور وہ دونوں ساری رات اپنے کمرے میں بیٹھے رہے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی