👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟚⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟚⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انکی نظر میں سلطان صلاح الدین ایوبی طفل مکتب تھا
لیکن اس طفل مکتب نے جب انکا سامنا کیا اسکی باتیں سنیں تو ان کا احتجاج سرد پڑگیا
مورخ لین پول کے مطابق سلطان صلاح الدین ایوبی ڈسپلن کا بہت ہی سخت ثابت ہوا
اس نے تفریح عیاشی اور آرام کو اپنے  لیے اور اپنی افواج کے لیے حرام قرار دیا
اس نے اپنی تمام جسمانی اور ذہنی قوت صرف اس میں خرچ کی کہ ملت اسلامیہ کو پھر سے ایک کر سکیں اور صلیبیوں کو یہاں کی سرزمین سے نکال سکیں سلطان صلاح الدین ایوبی فلسطین پر ہر قیمت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا 
اور یہی مقاصد سلطان صلاح الدین نے اپنی فوج کو دیئے 
مصر کا وائسرائے بن کر سلطان نے کہا: اللہ نے مجھے مصر کی سرزمین دی ہے اور اللہ ہی مجھے فلسطین بھی عطا کرے گا
مگر مصر پہنچ کر سلطان پر انکشاف ہوا کہ اسکا مقابلہ صرف صلیبیوں سے نہیں ہے بلکل اسکے اپنے مسلمان بھائیوں نے اسکی راہ میں بڑے بڑے حسین جال بنا رکھے ہیں جو صلیبیوں کے عزائم اور جنگی قوتوں سے زیادہ خطرناک ہے
مصر میں جن زعما نے سلطان کا استقبال کیا ان میں ایک ناجی نامی سالار بہت اہمیت کا حامل تھا، سلطان نے سب کو سر سے پاؤں تک دیکھا سلطان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور زبان پر پیار کی چاشنی تھی
بعض پرانے افسروں نے سلطان کو ایسی نظروں سے دیکھا جن میں طنز اور تمسخر تھا
وہ صرف سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام سے واقف تھے یا یہ کہ یہ ایک شاہی خاندان کا فرد ہے اور اپنے چچا کا جانشین ہے
وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نورالدین زنگی کے ساتھ سلطان صلاح الدین ایوبی کا کیا رشتہ ہے
ان سب کی نگاہوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی اہمیت بس اسکے خاندان کی بدولت تھی یا صرف یہ کہ وہ مصر کا وائسرائے بن کر آیا تھا اس کے سوا انہوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو کوئی وقعت نہ دی ایک بوڑھے افسر نے اپنے ساتھ کھڑے افسر کے کان میں کہا۔
بچہ ہے۔۔۔۔۔ اسے ہم پال لینگے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت کے مورخ یہ نہیں لکھ پائے کہ آیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے انکی نظریں بھانپ لی تھیں کہ نہیں وہ استقبال کرنے والے اس ہجوم میں بچہ لگ رہا تھا، البتہ جب وہ ناجی کے سامنے ہاتھ ملانے کے لیے رکا تو اسکے چہرے پر تبدیلی سی آ گئی تھی
وہ ناجی سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا لیکن ناجی جو اسکے باپ کے عمر کا تھا سب سے پہلے درباری خوشامدیوں کی طرح جھکا پھر ایوبی سے بغل گیر ہوگیا اس نے ایوبی کی پیشانی کو چوم کر کہا
میرے خون کا آخری قطرہ بھی آپکی حفاظت کے لیے ہوگا تم میرے پاس زنگی اور شردہ کی امانت ہو
سلطان نے کہا: میری جان عظمت اسلام سے زیادہ قیمتی نہیں محترم اپنے خون کا ایک ایک قطرہ سنبھال کر رکھیں، صلیبی سیاہ گھٹاوں کی طرح چھا رہے ہیں
ناجی جواب میں صرف مسکرایا جیسے سلطان نے کوئی لطیفہ سنایا ہو
سلطان صلاح الدین ایوبی اس تجربہ کار سالار کی مسکراہٹ کو غالباً نہیں سمجھ سکا
ناجی فاطمی خلافت کا پروردہ سالار تھا
وہ مصر میں باڈی گارڈز کا کمانڈر تھا
جس کی نفری پچاس ہزار تھی اور ساری کی ساری نفری سوڈانی تھی
یہ فوج اس وقت کے جدید ہتھیاروں سے لیس تھی اور یہ فوج ناجی کا ہتھیار بن گئی تھی جس کے زور پر ناجی بے تاج بادشاہ بن گیا تھا، وہ سازشوں اور مفاد پرستی کا دور تھا، اسلامی دنیا کی مرکزیت ختم ہوگئی تھی، صلیبیوں کی بھی نہایت دلکش تخزیب کاریاں شروع ہوچکی تھیں
زر پرستی اور تعیش کا دور دورہ تھا۔جس کے پاس زرا سی بھی طاقت تھی وہ اسکو دولت اور اقتدار کے لیے استعمال کرتا تھا۔
سوڈانی باڈی گارڈز فوج کا کمانڈر ناجی مصر میں حکمرانوں اور دیگر سربراہوں کے لیے دہشت بنا ہوا تھا
اللہ نے اسکو سازش ساز دماغ دیا تھا
ناجی کو اس دور کا بادشاہ ساز کہا جاتا تھا بنانے اور بگاڑنے میں خصوصی مہارت رکھتا تھا
اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو دیکھا تو اسکے چہرے پر ایسی مسکراہٹ آئی جیسے ایک کمزور اور خفیف بھیڑ کو دیکھ کر ایک بھیڑیئے کے دانت نکل آتے ہیں
سلطان صلاح الدین ایوبی اس زہر خندہ کو سمجھ نہ سکا سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے سب سے زیادہ اہم آدمی ناجی ہی تھا
کیونکہ وہ پچاس ہزار باڈی گارڈز کا کمانڈر تھا۔اور سلطان صلاح الدین کو اس فوج کی ضرورت تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی سے کہا گیا کہ حضور بڑی لمبی مسافت سے تشریف لائے ہیں پہلے آرام کر لیں تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا
میرے سر پر جو دستار رکھی گئی ہے میں اسکے لائق نہ تھا اس دستار نے میری نیند اور آرام ختم کردی ہے کیا آپ حضرات مجھے اس چھت کے نیچھے لیکر نہیں جائینگے جس کے نیچے میرے فرائض میرا انتظار کر رہے ہیں
کیا حضور کام سے پہلے طعام لینا پسند کرینگے اسکے نائب نے کہا
سلطان صلاح الدین ایوبی نے کچھ سوچا اور اسکے ساتھ چل پڑا لمبے تڑنگے باڈی گارڈز اس عمارت کے سامنے دو رویہ دیوار بن کر کھڑے تھے جس میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا
سلطان صلاح الدین ایوبی نے گارڈز کے قد بت اور ہتھیار دیکھے تو اسکے چہرے پر رونق آگئی لیکن دروازے میں قدم رکھتے ہی یہ رونق غائب ہو گئی وہاں چار نوجوان لڑکیاں جن کے جسموں میں زہد شکن لچک اور شانوں پر بکھرے ہوئے ریشمی بالوں میں قدرت کا حسن سمویا ہوا تھا ہاتھوں میں پھولوں کی پتیوں سے بھری ہوئی ٹوکریاں لیے کھڑی تھیں
انہوں نے سلطان صلاح الدین کے قدموں میں پتیاں پھینکنا شروع کیں اور اسکے ساتھ دف کی تال پر طاوس درباب اور شہنایئوں کا مسحور کن نغمہ ابھرا سلطان صلاح الدین نے راستے میں پھولوں کی پتیاں دیکھ کر قدم پیچھے کر لیے، ناجی اور اسکا نائب سلطان صلاح الدین ایوبی کے دائیں بائیں تھے
وہ دونوں جھک گئے اور سلطان صلاح الدین کو آگے بڑھنے کی دعوت دی یہ وہ انداز تھا جو مغل بادشاہوں نے ہندوستان میں رائج کیا تھا
"صلاح الدین ایوبی پھولوں کی پتیاں مسلنے نہیں آیا " ایوبی نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جو ان لوگوں نے پہلے بہت ہی کم کبھی کسی کے ہونٹوں پر دیکھی تھی۔
ہم حضور کے قدموں میں آسمان سے تارے بھی نوچ کر بچھا سکتے ہیں ناجی نے کہا
"اگر میری راہ میں کچھ بچھانا ہی چاہتے ہو تو وہ ایک ہی چیز ہے جو میرے دل کو بھاتی ہے" سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا۔
آپ حکم دیں وہ کونسی چیز ہے جو سلطان کے دل کو بھاتی ہے ناجی کے نائب نے کہا
صلیبیوں کی لاشیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسکرا کر کہا مگر جلد ہی یہ مسکراہٹ غائب ہو گئی اس کے آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے 
اس نے دھیمی آواز میں جس میں قہر اور عتاب چھپا ہوا تھاکہا "مسلمانوں کی زندگیاں پھولوں کی سیج نہیں جانتے نہیں ہو صلیبی سلطنت اسلامیہ کو چوہوں کی طرح کھا رہے ہیں، اور جانتے ہو کہ وہ کیوں کامیاب ہو رہے ہیں؟
صرف اس لئے کہ ہم نے پھولوں کی پتیوں پر چلنا شروع کردیا ہے، ہم نے اپنی بچیوں کو ننگا کر کہ انکی عصمتیں روند ڈالی ہیں، میری نظریں فلسطین پر لگی ہوئی ہیں تم میری راہ میں پھول ڈال کر مصر سے بھی اسلامی جھنڈا اتروا دینا چاہتے ہو؟ "۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے سب کو ایک نظر سے دیکھا اور دبدبے سے کہا اٹھا لو یہ پھول میرے راستے سے میں نے ان پر قدم رکھا تو میری روح چھلنی ہو جائے گی ہٹا دو ان لڑکیوں کو میری آنکھوں سے ایسا نہ ہو کہیں میری تلوار ان کی زلفوں میں الجھ کر بیکار ہو جائے....
حضور کی جاہ حشمت
"مجھے حضور نہ کہو " سلطان صلاح الدین ایوبی نے بولنے والے کو یوں ٹوک دیا جیسے تلوار سے کسی کی گردن کاٹ دی ہو 
سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا "حضور وہ تھے جن کے نام کا تم کلمہ پڑھتے ہو اور جن کا میں غلام بے دام ہوں میری جان فدا ہو اس حضورﷺ پر جن کے مقدس پیغام کو میں نے سینے پر کندہ کر رکھا ہے میں یہی پیغام لیکر مصر آیا ہوں۔ صلیبی مجھ سے یہ پیغام چھین کر بحیرہ روم میں ڈبو دینا چاہتے ہیں، شراب میں ڈبو دینا چاہتے ہیں، میں بادشاہ بن کر نہیں آیا"۔
لڑکیاں کسی کے اشارے پر پھولوں کی پتیاں اٹھا کر وہاں سے ہٹ گئی تھیں، سلطان تیزی سے دروازے کے اندر چلا گیا۔ایک وسیع کمرہ تھا جس میں ایک لمبی میز رکھی گی تھی
جس پر رنگا رنگ پھول رکھے ہوئے تھے ان کے بیچ روسٹ کیے گئے بکروں کے بڑے بڑے ٹکڑے سالم مرغ اور جانے کیا کیا رکھا گیا تھا، سلطان صلاح الدین ایوبی رک گیا اور اپنے نائب سے کہا کہ کیا مصر کا ہر ایک باشندہ ایسا ہی کھانا کھاتا ہے؟
نہیں حضور غریب لوگ تو ایسے کھانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے نائب نے کہا
تم کس قوم کے فرد ہو سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا کیا ان لوگوں کی قوم الگ ہے جو ایسے کھانوں کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا
اس جگہ جتنے ملازم ہیں اور جتنے سپاہی ڈیوٹی پر ہیں ان سب کو بلاؤ اور یہ کھانا انکو دے دو
سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایک روٹی اٹھائی اس پر دو تین بوٹیاں رکھیں،نہایت تیزی سے روٹی کھا کر پانی پیا اور باڈی گارڈز کے کمانڈر ناجی کو ساتھ لیکر اس کمرے میں چلاگیا جو وائسرائے کا دفتر تھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
2 گھنٹے بعد ناجی دفتر سے نکلا دوڑ کر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا ایڑ لگائی اور نظروں سے اوجھل ہوا رات ناجی کے دو کمانڈر جو اسکے ہمراز تھے بیٹھے اسکے ساتھ شراب پی رہے تھے۔
 ناجی نے کہا: جوانی کا جوش ہے تھوڑے دنوں میں ٹھنڈا کر دوں گا، کم بخت جو بھی بات کرتا ہے کہتا ہے رب کعبہ کی قسم۔۔ صلیبیوں کو سلطنت اسلامیہ سے باہر نکال کر ہی دم لوں گا
ایک کمانڈر نے طنزیہ کہا :"صلاح الدین ایوبی اتنا بھی نہیں جانتا کہ ملت اسلامیہ کا دم نکل چکا ہے اب سوڈانی حکومت کریں گے"۔
کیا آپ نے اسے بتایا نہیں کہ یہ پچاس ہزار کا لشکر سوڈانی ہے اور یہ لشکر جسے وہ اپنی فوج سمجھتا ہے صلیبیوں کے خلاف نہیں لڑے گا دوسرے کمانڈر نے ناجی سے پوچھا
"تمہارا دماغ ٹھکانے ہے اوروش؟  میں اسے یقین دلا آیا ہوں کہ یہ 50 ہزار سوڈانی شیر صلیبیوں کے پرخچے اڑا دینگے  لیکن !!"
ناجی چپ ہوکر سوچ میں پڑ گیا۔
اوروش : لیکن کیا؟
اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ مصر کے باشندوں کی ایک فوج تیار کرو۔ اس نے کہا ہے کہ ایک ہی ملک کی فوج ٹھیک نہیں ہوتی اس نے بولا کہ مصر کی فوج بناکر ان میں شامل کردو ناجی نے کہا۔
تو آپ نے کیا جواب دیا۔؟
میں نے کہا کہ حکم کی تعمیل ہوگی لیکن میں اس حکم کی تعمیل نہیں کروں گا، ناجی نے جواب دیا۔
مزاج کا کیسا ہے اوروش نے کہا۔
 ضد کا پکا معلوم ہوتا ہے ناجی نے کہا۔
آپکے دانش اور تجربے کے آگے تو وہ کچھ بھی نہیں لگتا نیا نیا امیر مصر بن کر آیا ہے کچھ روز یہ نشہ طاری رہے گا دوسرے کمانڈر نے کہا۔
میں یہ نشہ اترنے نہیں دوں گا اسی نشے میں ہی بدمست کر کے ماروں گا ناجی نے جواب دیا
بہت دیر تک وہ سلطان کے خلاف باتیں کرتے رہے اور اس مسلئے پر غور کرتے رہے کہ اگر سلطان نے ناجی کی بے تاج بادشاہی کے لیے خطرہ پیدا کردیا تو وہ کیا کریں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ادھر سلطان اپنے نائب کو سامنے بٹھائے یہ بات ذہن نشین کرا رہا تھا کہ وہ یہاں حکومت کرنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی کو حکومت کرنے دے گا اس نے انہیں کہا کہ اسکو جنگی طاقت کی ضرورت ہے اور اس نے یہ بھی کہا کہ اسکو یہاں کا فوجی ڈھانچہ بلکل پسند نہیں آیا 50 ہزار باڈی گارڈز سوڈانی ہیں،  ہمیں ملک کے ہر باشندے کو یہ حق دینا چاہیے کہ وہ ہماری فوج میں آئیں۔ اپنے جوہر دکھائیں اور مال غنیمت میں سے اپنا حصہ وصول کریں یہاں کے عوام کا معیار زندگی اسی طرح بلند ہوسکتا ہے میں نے ناجی کو کہہ دیا ہے کہ وہ عام بھرتی شروع کردے۔
کیا آپکو یقین ہے کہ وہ آپکے حکم کی تعمیل کرے گا" ایک ناظم نے اس سے پوچھا
کیا وہ حکم کی تعمیل سے گریز کرے گا؟
وہ حکم کی تعمیل سے گریز کر سکتا ہے۔ وہ حکم کی تعمیل نہیں اپنی منواتا ہے فوجی امور اسکے سپرد ہیں، ناظم نے جواب دیا
سلطان ایوبی خاموش ہوا جیسے اس پر کچھ اثر ہی نہ ہوا ہو۔اس نے سب کو رخصت کردیا اور صرف علی بن سفیان کو اپنے ساتھ رکھا، علی بن سفیان جاسوس اور جوابی جاسوسی کا ماہر تھا اسے سلطان بغداد سے اپنے ساتھ لایا تھا، وہ ادھیڑ عمر آدمی تھا اداکاری چرب زبانی بھیس بدلنے کا ماہر تھا، اس نے جنگوں میں جاسوسی کی بھی اور جاسوسوں کو پکڑا بھی تھا، اسکا اپنا ایک گروہ تھا جو آسمان سے تارے بھی توڑ کر لاسکتا تھا، سلطان کو جاسوسی کی اہمیت سے واقفیت تھی۔ فنی مہارت کے علاوہ علی بن سفیان میں وہی جذبہ تھا جو سلطان ایوبی میں تھا
تم نے سنا علی یہ لوگ کہتے ہیں کہ ناجی کسی سے حکم نہیں لیتا اپنی منواتا ہے، صلاح الدین ایوبی نے کہا۔
ہاں میں نے سن لیا ہے اگر میں چہرے پہچاننے میں غلطی نہیں کرتا تو میری رائے میں باڈی گارڈز کا یہ کمانڈر جس کا نام ناجی ہے ناپاک ذہنیت کا مالک ہے اس کے مطلق میں پہلے سے ہی کچھ جانتا ہوں یہ فوج جو ہمارے خزانے سے تنخواہ لے رہی ہے دراصل ناجی کی ذاتی فوج ہے اس نے حکومتی حلقوں میں ایسی ایسی سازشیں کی ہیں جس نے حکومتی ڈھانچے کو بے حد کمزور کردیا ہے آپکا یہ فیصلہ بلکل بجا ہے کہ فوج میں ہر خطے کے سپاہی ہونے چاہئیں میں آپکو تفصیلی معلومات فراہم کروں گا
مجھے شک ہے کہ سوڈانی فوج اسکی وفادار ہے ہماری نہیں آپکو اس فوج کی ترتیب اور تنظیم بدلنی پڑے گی۔ یا ناجی کو سبکدوش کرنا پڑے گا" علی بن سفیان نے کہا
میں اپنی ہی صفوں میں اپنے دشمن پیدا نہیں کرنا چاہتا ناجی اپنے گھر کا بھیدی ہے اسکو سبکدوش کرکے دشمن بنالینا دانشمندی نہیں ہماری تلواریں غیروں کے لیے ہیں اپنوں کے خون بہانے کے لیے نہیں میں ناجی کی ذہنیت  کو پیار اور محبت سے بدل سکتا ہوں تم اس فوج کی ذہنیت  معلوم کرنے کی کوشیش کرو اور مجھے صحیح اطلاع دو کہ فوج کہاں تک ہماری وفادار ہے، سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا
مگر ناجی اتنا کچا نہیں تھا اسکی ذہنیت  پیار اور محبت کے بکھیڑوں سے آزاد تھی اسے اگر پیار تھا تو اپنے اقتدار اور شیطانیات کے ساتھ، اس لحاظ سے وہ پتھر تھا، مگر جسے وہ اپنے جال میں پھانسنا چاہتا اسکے سامنے موم بن جاتا تھا اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے یہی رویہ اختیار کیا یہاں تک کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے بیٹھتا بھی نہیں ہاں میں ہاں ملاتا چلا جاتا اس نے مصر کے مختلف حصوں سے سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم کے مطابق فوج کے لیے عام بھرتی شروع کر دی تھی اگرچہ یہ کام اسکی مرضی کے خلاف تھا، دن گزرتے گئے سلطان صلاح الدین ایوبی اسے کچھ کچھ پسند کرنے لگا تھا ناجی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو یقین دلایا تھا کہ سوڈانی فوج اسکے حکم کی منتظر ہے اور یہ قوم کی توقعات پر پورا اترے گی ناجی دو تین بار سلطان صلاح الدین ایوبی کو کہہ چکا تھا کہ سوڈانی فوج باڈی گارڈز کی طرف سے اسے دعوت دینا چاہتا ہے اور فوج اس کے اعزاز میں جشن منانے کو بیتاب ہے لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی یہ دعوت مصروفیات کی وجہ سے قبول نہ کر سکا۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی