سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے


 سورہ البقرۃ آیت نمبر 34
وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا  اِلَّاۤ  اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ  کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۴﴾
ترجمہ:  اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو (٣١) چنانچہ سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا (٣٢) اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہوگیا،
تفسیر:  31 : فرشتوں کے سامنے آدم (علیہ السلام) کی عظمت کا علمی مظاہرہ اور ان کا امتحان لینے کے لئے انہیں آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے حکم دیا گیا یہ سجدہ عبادت کا نہیں تعظیم کا سجدہ تھا جو بعض پچھلی شریعتوں میں جائز تھا بعد میں تعظیم کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی سختی سے ممانعت کردی گئی تاکہ شرک کا کوئی شائبہ بھی پیدا نہ ہو، یہ سجدہ کروانا اس بات کا بھی مظاہرہ تھا کہ فرشتوں کو اس بات کی تلقین کی جارہی ہے کہ کائنات میں جو چیزیں ان کے اختیار میں دی گئی ہیں وہ انسان کے لئے مسخر کردی جائیں تاکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ ان کو صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط۔ 32: اگرچہ براہ راست سجدے کا حکم فرشتوں کو دیا گیا تھا مگر اس میں تمام جاندار مخلوقات بھی شامل تھیں لہذا ابلیس جو جنات میں سے تھا اس پر بھی اس حکم کی تعمیل لازم تھی لیکن جیسا کہ خود قرآن کریم نے دوسری جگہ بیان فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے کہنے لگا کہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے افضل ہوں میں اسے کیوں سجدہ کروں (اعراف ٧: ٢٢) اس واقعہ سے دو سبق ملتے ہیں ایک یہ کہ اپنے آپ کو بذات خود دوسروں سے بڑا سمجھنا اور اپنی بڑائی بگھارنا کتنا بڑا گناہ ہے اور دوسرا سبق یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم آجائے تو بندے کا کام یہ ہے کہ اس حکم کو دل وجان سے بجا لائے، چاہے اس کی حکمت اور فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی