🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 30*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *30* ۔۔۔۔

اندرزغر! اردشیر نے کہا۔ ہم اب ایک اور شکست کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ مسلمانوں سے صرف شکست کا انتقام نہیں لینا ۔ان کی لاشیں فرات میں بہا دینی ہیں ۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ تم زیادہ سے زیادہ فوج لے کر جاؤ۔ تم اس علاقے سے واقف ہو۔ تم بہتر سمجھتے ہو کہ مسلمانوں کو کہاں گھسیٹ کر لڑانا چاہیے۔ وہ ریگستان کے رہنے والے ہیں۔ اندرزغر نے کہا۔ اور وہ ریگستان میں ہی لڑ سکتے ہیں۔ میں انہیں سر سبز اور دلدلی علاقے میں آنے دوں گااور ان پر حملہ کروں گا۔میری نظر میں دلجہ موزوں علاقہ ہے۔ اس نے کماندار سے پوچھا۔ ان کے گھوڑ سوار کیسے ہیں؟ ان کے سوار دستے ہی ان کی اصل طاقت ہیں۔ کماندار نے کہا۔ ان کے سوار بہت تیز اور ہوشیار ہیں۔ دوڑتے گھوڑوں سے ان کے چلائے ہوئے تیر خطا نہیں جاتے ۔ان کے سواروں کا حملہ بہت ہی تیز ہوتا ہے۔ وہ جم کر نہیں لڑتے۔ ایک ہلہ بول کر اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ راز ہے جو ہمارے سالار نہیں سمجھ سکتے۔ اندرزغر نے اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا۔ مسلمان آمنے سامنے کی جنگ لڑ ہی نہیں سکتے۔ ہم ان سے کئی گنا زیادہ فوج لے جائیں گے۔ میں انہیں اپنی فوج کے نیم دائرے میں لے کر مجبور کر دوں گا کہ وہ اپنی جان بچانے کیلئے آمنے سامنے کی لڑائی لڑیں۔ اندرزغر! اردشیر نے کہا۔ یہاں بیٹھ کر منصوبہ بنا لینا آسان ہے لیکن دشمن کے سامنے جا کر اس منصوبے پر اس کے مطابق عمل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کماندار نے ایک بات بتائی ہے اس پر غور کرو۔ یہ کہتا ہے کہ مسلمان اپنے مذہب اور اپنے عقیدے کے وفادار ہیں اور وہ اپنے خدا اور اپنے رسول کا نام لے کر لڑتے ہیں۔کیا ہماری فوج میں اپنے مذہب کی وفاداری ہے؟، اتنی نہیں جتنی مسلمانوں میں ہے اور اس پر بھی غور کرو اندرزغر!مسلمان اپنے علاقے سے بہت دور آ گئے ہیں۔ یہ ان کی کمزوری ہے۔ یہاں کے لوگ ان کے خلاف ہوں گے۔ نہیں شہنشاہ!کماندار نے کہا۔ فارس کے جن علاقوں پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا ہے، وہاں کے لوگ ان کے ساتھ ہو گئے ہیں۔ ان کا سلوک ایسا ہے کہ لوگ انہیں پسند کرنے لگتے ہیں۔وہ قتل صرف انہیں کرتے ہیں جن پر انہیں کچھ شک ہوتا ہے۔ یہاں کے وہ عربی لوگ ان کے ساتھ نہیں ہو سکتے جو عیسائی ہیں۔ اندرزغر نے کہا۔میرے دل میں ان لوگوں کی جو محبت ہے اسے وہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔میں انہیں اپنی فوج میں شامل کروں گا۔ ہم یہاں کے مسلمانوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ یہ ہمیشہ باغی رہے ہیں۔ان پر ہمیں کڑی نظر رکھنی پڑے گی ۔ان کی وفاداریاں مدینہ والوں کے ساتھ ہیں۔ ان مسلمانوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ برا سلوک کرو۔ اردشیر نے کہا۔ انہیں اٹھنے کے قابل نہ چھوڑو۔ ہم نے انہیں مویشیوں کا درجہ دے رکھا ہے۔ اندرزغر نے کہا۔ انہیں بھوکا رکھا ہے۔ان کے کھیتوں سے ہم فصل اٹھا کر لے آتے ہیں اور انہیں صرف اتنا دیتے ہیں جس پر وہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں۔لیکن وہ اسلام کا نام لینے سے باز نہیں آتے۔ بھوکے مر جانا پسند کرتے ہیں لیکن اپنا مذہب نہیں چھوڑتے۔ یہی ان کی قوت ہے۔ کماندار نے کہا۔ ورنہ ایک آدمی دس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔کپڑوں میں ملبوس آدمی زرہ پوش کر قتل نہیں کر سکتا۔مسلمانوں نے یہ کر کے دکھا دیا ہے۔ میں اس قوت کو کچل ڈالوں گا۔ اردشیر نے بلند آواز سے کہا۔ اندرزغر ابھی ان مسلمانوں کو نہ چھیڑنا جو ہماری رعایا ہیں۔ انہیں دھوکا دو کہ ہم انہیں چاہتے ہیں۔پہلے ان کا صفایا کرو جنہوں نے ہماری شہنشاہی میں قدم رکھنے کی جرات کی ہے۔اس کے بعد ہم ان کا صفایا کریں گے جو ہمارے سائے میں سانپوں کی طرح پل رہے ہیں۔ اسی روز اردشیر نے اپنے وزیر اندرزغر اور اس کے ماتحت سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم مدینہ پر حملہ کرتے اور اسلام کا وہیں خاتمہ کر دیتے۔لیکن حملہ انہوں نے کر دیا ہے اور ہماری فوج ان کے آگے بھاگی بھاگی پھر رہی ہے۔

صرف دو معرکوں میں ہمارے چار سالار مارے گئے ہیں۔ اردشیر نے کہا۔ ان چاروں کو میں اپنی جنگی طاقت کے ستون سمجھتا تھا۔ لیکن ان کے مر جانے سے کسریٰ کی طاقت نہیں مر گئی۔سب کان کھول کر سن لو جو سالار یا نائب سالار شکست کھا کر واپس آئے گا اسے میں جلاد کے حوالے کر دوں گا۔اس کیلئے یہی بہتر ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو خود ہی ختم کر لے یا کسی اور طرف نکل جائے۔فارس کی سرحد میں قدم نہ رکھے۔ اندرزغر! تم مدائن اور اردگرد سے جس قدر فوج لے جانا چاہو، لے جاؤ۔ سالار بہمن کومیں نے پیغام بھیج دیا ہے کہ وہ اپنی تمام تر فوج کے ساتھ فرات کے کنارے دلجہ کے مقام پر پہنچ جائے۔تم اس سے جلدی دلجہ پہنچ جاؤ گے وہاں خیمہ زن ہو کر بہمن کا انتظار کرنا جونہی وہ آجائے دنوں مل کر مسلمانوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرنا۔ ان کا کوئی آدمی اور کوئی ایک جانور بھی زندہ نہ رہے۔ ان کی تعداد تمہارے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔میں کوئی مسلمان قیدی نہیں دیکھنا چاہتا۔میں ان کی لاشیں دیکھنا چاہتا ہوں۔میں دیکھنے آؤں گا کہ ان کے گھوڑوں اور اونٹوں کے مردار ان کی لاشوں کے درمیان پڑے ہیں۔تمہیں زرتشت کے نام پر حلف اٹھانا ہوگا کہ فتح حاصل کرو گے یا موت۔ اندرزغردونوں فوجوں کاسپہ سالار ہوگا۔ اندرزغر تمہارے ذہن میں کوئی شک یا وسوسہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی سوچ لو کہ مسلمان اور آگے بڑھ آئے اور ہمیں ایک اور شکست ہوئی تورومی بھی ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔ شہنشاہِ فارس اب شکست کی آواز نہیں سنیں گے۔ سالار اندرزغرنے کہا۔ مجھے اجازت دیں کہ میں عیسائیوں کو اپنے ساتھ لے لوں اس سے میری فوج میں بے شمار اضافہ ہو سکتا ہے۔ تم جو بہتر سمجھتے ہو وہ کرو۔ اردشیر نے کہا۔ لیکن میں وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ اگر عیسائی تمہارے ساتھ وفا کرتے ہیں تو انہیں ساتھ لے لو، یہ عراق کا علاقہ تھا ۔جہاں عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ بکر بن وائل آباد تھا۔یہ لوگ عرب کے رہنے والے تھے۔ اسلام پھیلتا چلا گیا اور یہ عیسائی جو اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے عراق کے اس علاقے میں اکھٹے ہوتے رہے اور یہیں آباد ہو گئے۔ ان میں وہ بھی تھے جو کسی وقت ایرانیوں کے خلاف لڑے اور جنگی قیدی ہو گئے تھے۔ایرانیوں نے انہیں اس علاقے میں آباد ہونے کیلئے آزاد کر دیا تھا۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔انہیں مثنیٰ بن حارثہ جیساقائد مل گیا تھا جس نے انہیں پکا مسلمان بنادیا تھا۔ مسلمانوں پر تو ایرانی بے پناہ ظلم و تشدد کرتے تھے لیکن عیسائیوں کے ساتھ ان کا رویہ کچھ بہتر تھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے زرتشتی سالار اندرزغر ہرمز کی طرح ظالم نہیں تھا۔مسلمانوں پر اگر وہ ظلم نہیں کرتا تھا تو انہیں اچھا بھی نہیں سمجھتا تھا ۔عیسائیوں کے ساتھ اس کا سلوک بہت اچھا تھا، اسے اب عیسائیوں کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی۔اس نے ان کے قبیلے بکر بن وائل کے بڑوں کو بلایا۔وہ اطلاع  ملتے ہی دوڑے آئے۔اگر تم میں سے کسی کو میرے خلاف شکایت ہے تو مجھے بتاؤ۔ اندرزغر نے کہا۔ میں اس کا ازالہ کروں گا۔ کیایہ بہتر نہیں ہوگا کہ سالار ہمیں فوراًبتا دے کہ ہمیں کیوں بلایا گیا ہے۔ ایک بوڑھے نے کہا۔ ہم آپ کی رعایا ہیں، ہمیں شکایت ہوئی بھی تو نہیں کریں گے۔ ہمیں کوئی شکایت نہیں۔ ایک اور نے کہا۔ آپ نے جو کہنا ہے وہ کہیں۔ مسلمان­ بڑھے چلے آ رہے ہیں، اندرزغر نے کہا، شہنشاہَِ فارس کی فوج انہیں فرات میں ڈبو دے گی لیکن ہمیں تمہاری ضرورت ہے ہمیں تمہارے جوان بیٹوں کی ضرورت ہے۔

اگر شہنشاہِ فارس کی فوج اسلامی فوج کو فرات میں ڈبو دے گی تو آپ کو ہمارے بیٹوں کی کیا ضرورت پیش آ گئی ہے؟ وفد کے بڑوں میں سے ایک نے پوچھا۔ ہم سن چکے ہیں کہ فارس کی فوج کے چار سالار مارے گئے ہیں۔ آپ ہم سے پوچھتے کیوں ہیں؟ ہم آپ کی رعایا ہیں،ہمیں حکم دیں۔ ہم سرکشی کی جرات نہیں کر سکتے۔ میں کسی کو اپنے حکم کا پابند کرکے میدانِ جنگ میں نہیں لے جانا چاہتا۔ اندرزغر نے کہا۔ میں تمہیں تمہارے مذہب کے نام پر فوج میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔ہمیں زمین کے کسی خطے کیلئے نہیں اپنے مذہب اور اپنے عقیدوں کے تحفظ کیلئے لڑنا ہے۔ مسلمان صرف اس لئے فتح پر فتح حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے مذہب کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتے ہیں وہاں کے لوگوں کو اسلام قبول کرنے کیلئے کہتے ہیں ۔جو لوگ اسلام قبول نہیں کرتے ان سے مسلمان جذیہ وصول کرتے ہیں۔ کیا یہ غلط ہے کہ تم میں وہ بھی ہیں جو اس لئے اپنے گھروں سے بھاگے تھے کہ وہ اسلام قبول نہیں کرنا چاہتے تھے؟ کیا تم پسند کرو گے کہ مسلمان آجائیں اور تمہاری عبادت گاہوں کے دروازے بند ہو جائیں؟ کیا تم برداشت کر لو گے کہ مسلمان تمہاری بیٹیوں کو لونڈیاں بنا کر اپنے ساتھ لے جائیں؟ ذرا غور کرو تو سمجھو گے کہ ہمیں تمہاری نہیں بلکہ تمہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے ۔ہم تمہیں ایک فوج دے رہے ہیں ۔اسے اور زیادہ طاقتور بناؤ اور اپنے مذہب کو ایک بے بنیاد مذہب سے بچاؤ۔ اندرزغرنے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف ایسا مشتعل کیا کہ وہ اسی وقت واپس گئے اور (مؤرخوں کی تحریر کے مطابق) اپنے قبیلے کی ہر بستی میں جاکر اعلان کرنے لگے کہ مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر قتل و غارت اور لوٹ مار کرتا چلا آ رہا ہے ۔وہ صرف اسی کوبخشتے ہیں جو ان کا مذہب قبول کر لیتا ہے۔ وہ جوان اور کم سن لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ اپنی لڑکیوں کو چھپا لو۔ مال و دولت زمین میں دبا دو۔ عورتیں بچوں کو لے کر جنگلوں میں چلی جائیں۔ جوان آدمی ہتھیار گھوڑے اور اونٹ لے کر ہمارے ساتھ آ جائیں۔ شہنشاہِ فارس کی فوج ہمارے ساتھ ہے۔ یسوع مسیح کی قسم! ہم اپنی عزت پر کٹ مریں گے۔ اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے۔ ایک شور تھا، للکار تھی جو آندھی کی طرح دشت و جبل کو جن و انس کو لپیٹ میں لیتی آرہی تھی۔ کوئی بھی کسی سے نہیں پوچھتا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کس نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے؟کدھر سے آ رہا ہے؟ جوش و خروش تھا۔ عیسائی مائیں اپنے جوان بیٹوں کو رخصت کر رہی تھیں۔ بیویاں خاوندوں کو اور بہنیں بھائیوں کو الوداع کہہ رہی تھیں۔ایک فوج تیار ہوتی جا رہی تھی جس کی نفری تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔ کسریٰ کی فوج کے کماندار وغیرہ آ گئے تھے۔ وہ ان لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرتے جا رہے تھے جو کسریٰ کی فوج میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے آ رہے تھے۔

ایک بستی میں لڑنے والے عیسائی جمع ہو رہے تھے۔سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا۔ بستی میں مشعلیں گھوم پھر رہی تھیں اور شور تھا۔ بستی دن کی طرح بے دار اور سر گرم تھی۔ دو آدمی جو اس بستی والوں کیلئے اجنبی تھے بستی میں داخل ہوئے اور لوگوں میں شامل ہو گئے۔ ہم ایک للکار سن کر آئے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ ہم روزگار کی تلاش میں بڑی دور سے آئے ہیں اور شاید مدائن تک چلے جائیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ تم ہو کون؟ کسی نے ان سے پوچھا۔ مذہب کیا ہے تمہارا؟ دونوں نے اپنی اپنی شہادت کی انگلیاں باری باری اپنے دونوں کندھوں سے لگائیں اور اپنے سینے پر انگلیاں اوپر نیچے کرکے صلیب کا نشان بنایا اور دونوں نے بیک زبان کہا کہ وہ عیسائی ہیں۔ پھر تم مدائن جا کر کیا کرو گے؟ انہیں ایک بوڑھے نے کہا۔ تم تنومند ہو۔ تمہارے جسموں میں طاقت ہے۔ کیا تم اپنے آپ کو کنواری مریم کی آبرو پر قربان ہونے کے قابل نہیں سمجھتے؟کیا تمہارے لیے تمہارا پیٹ مقدس ہے؟ نہیں! ان میں سے ایک نے کہا۔ ہمیں کچھ بتاؤ اور تم میں جو سب سے زیادہ سیانا ہے ہمیں اس سے ملاؤ۔ ہم کچھ بتانا چاہتے ہیں۔ وہاں فارس کی فوج کا ایک پرانا کماندار موجود تھا۔ ان دونوں کو اس کے پاس لے گئے۔ سنا ہے تم کچھ بتانا چاہتے ہو؟ کماندار نے کہا۔ ہاں۔ ایک نے کہا۔ ہم اپنا راستہ چھوڑ کر ادھر آئے ہیں ۔سنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف ایک فوج تیار ہو رہی ہے۔ ہاں ہو رہی ہے۔ کماندار نے کہا۔ کیا تم اس فوج میں شامل ہونے آئے ہو؟ عیسائی ہو کر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس فوج میں شامل نہیں ہوں گے۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ ہم کاظمہ سے تھوڑی دور کی ایک بستی کے رہنے والے عرب ہیں ۔ہم مسلمانوں کے ڈر سے بھاگ کر ادھر آئے ہیں۔ اب آگے نہیں جائیں گے۔ تمہارے ساتھ رہیں گے۔ ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔لیکن سامنے وہ بہت تھوڑی تعداد کو لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری فوج ان سے شکست کھا جاتی ہے۔ اسے زمین پر لکیریں ڈال کر سمجھاؤ۔ اس کے دوسرے ساتھی نے اسے کہا۔ پھر ایرانی کماندار سے کہا۔ ہمیں معمولی دماغ کے آدمی نہ سمجھنا۔ ہم تمہیں اچھی طرح سمجھا دیں گے کہ مسلمانوں کے لڑنے کا طریقہ کیاہے؟اور وہ اس وقت کہاں ہیں؟اور تم لوگ انہیں کہاں لا کر لڑاؤ تو انہیں شکست دے سکتے ہو۔ ہم جو کچھ بتائیں یہ اپنے سالار کو بتا دینا۔ ایک مشعل لاکر اس کا ڈنڈہ زمین میں گاڑھ دیا گیا۔یہ دونوں آدمی زمین پر بیٹھ کر انگلیوں سے لکیریں ڈالنے لگے ۔انہوں نے جنگی اصطلاحوں میں ایسا نقشہ پیش کیاکہ کماندار بہت متاثر ہوا۔ اگر ہمیں پتا چل جائے کہ مدائن کی فوج کس طرف سے آ رہی ہے تو ہم تمہیں بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ اور کچھ خطروں سے بھی خبردار کر سکتے ہیں۔ دو فوجیں مسلمانوں کو کچلنے کیلئے آ رہی ہیں۔ کماندار نے کہا۔ مسلمان ان کے آگے نہیں ٹھہر سکیں گے۔ بشرطیکہ دونوں فوجیں مختلف سمتوں سے آئیں۔ ایک اجنبی عیسائی نے کہا۔

وہ مختلف سمتوں سے آ رہی ہیں۔ کماندار نے کہا۔ ایک فوج مدائن سے ہمارے بڑے ہی دلیر اور قابل سالار اندرزغر کی زیرِ کمان آ رہی ہے اور دوسری فوج ایسے ہی ایک نامور سالار بہمن جازویہ لا رہا ہے۔ دونوں دلجہ کے مقام پر اکھٹی ہوں گی۔ ان کے ساتھ بکر بن وائل کا پورا قبیلہ ہو گا ۔چند چھوٹے چھوٹے قبیلوں نے بھی اپنے آدمی دیئے ہیں۔ تو پھر تمہارے سالاروں کو جنگی چالیں چلنے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے نے کہا۔ تمہاری فوج تو سیلاب کی مانند ہے۔ مسلمان تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے۔ کیا تم ہم دونوں کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؟ ہم نے تم میں خاص قسم کی ذہانت دیکھی ہے۔ تم سالار نہیں تو نائب سالار کے عہدے کے لائق ضرور ہو۔ تم میرے ساتھ رہ سکتے ہو۔ کماندار نے کہا۔’’ہم اپنے گھوڑے لے آئیں؟‘‘ دونوں میں سے ایک نے کہا۔ ہم تمہیں صبح یہیں ملیں گے۔ صبح کوچ ہو رہا ہے۔ کماندار نے کہا۔ ان تمام لوگوں کو جو لڑنے کیلئے جا رہے ہیں ایک جگہ جمع کیاجا رہا ہے۔ تم ان کے ساتھ آ جانا۔ میں تمہیں مل جاؤں گا۔‘‘دونوں بستی سے نکل گئے۔ انہوں نے اپنے گھوڑے بستی سے کچھ دور جا کر ایک درخت کے ساتھ باندھ دیئے اور بستی میں پیدل گئے تھے۔ بستی سے نکلتے ہی وہ دوڑپڑے اور اپنے گھوڑوں پر جا سوار ہوئے۔ کیا ہم صبح تک پہنچ سکیں گے بن آصف! ایک نے دوسرے سے پوچھا۔ خدا کی قسم! ہمیں پہنچنا پڑے گا خواہ اڑکر پہنچیں۔ بن آصف نے کہا۔ یہ خبر ابنِ ولید تک بر وقت نہ پہنچی توہماری شکست لازمی ہے۔ گھوڑے تھکے ہوئے نہیں۔ﷲکا نام لو اور ایڑھ لگا دو۔ دونوں نے ایڑھ لگائی اور گھوڑے دوڑ پڑے۔ اشعر! بن اآصف نے بلند آواز سے اپنے ساتھی سے کہا۔ یہ تو طوفان ہے۔ اب آ تش پرستوں کو شکست دینا آسان نہیں ہو گا۔صرف بکر بن وائل کی تعداد دیکھ لو، کئی ہزار ہو گی۔ میں نے اپنے سالار ابنِ ولید کو پریشانی کی حالت میں دیکھا تھا۔ اشعر نے کہا۔ کیا تم اس کی پریشانی کو نہیں سمجھے اشعر؟ بن آصف نے کہا۔ ہم اتنے طاقتور دشمن کے پیٹ میں آ گئے ہیں۔ ﷲہمارے ساتھ ہے۔ اشعر نے کہا۔ آتش پرست اس زمین کیلئے لڑ رہے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہے اور ہم ﷲ کی راہ میں لڑ رہے ہیں جس کی یہ زمین ہے۔‘‘یہ دونوں گھوڑ سوار خالدؓ کے اس جاسوسی نظام کے بڑے ذہین آدمی تھے جو خالدؓ نے فارس کی سرحد کے اندر آ کر قائم کیا تھا۔ انہیں احساس تھا کہ وہ مدینہ سے بہت دور اجنبی زمین پر آ گئے ہیں جہاں ﷲ کے سوا ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ خالد ؓنے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے ہر طرف اپنے ٓنکھیں بچھا رکھی تھیں۔ یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔

 خالدؓ فجر کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ان کے خیمے کے قریب دو گھوڑے آ رکے۔سوار کود کر اترے۔ خالدؓ نماز با جماعت پڑھ کر آ رہے تھے ان سواروں کو دیکھ کران کے قریب جا رکے۔ گھوڑوں کا پسینہ اس طرح پھوٹ رہا تھا جیسے دریا میں سے گزر کر آئے ہوں۔ان کی سانسیں پھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔ سواروں کی حالت گھوڑوں سے بھی بری تھی۔اشعر! خالد ؓنے کہا۔ بن آصف ،کیا خبر لائے ہو؟ اندر چلو، ذرا دم لے لو۔ںدم لینے کا وقت نہیں سالار! بن آصف نے خالدؓ کے پیچھے ان کے خیمے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ آتش پرستوں کا سیلاب آ رہا ہے۔ ہم نے یہ خبرعیسائیوں کی ایک بستی سے لی ہے۔ بکر بن وائل کی الگ فوج تیار ہو گئی ہے، یہ مدائن کی فوج کے ساتھ اندرزغر نام کے ایک سالار کی زیرِ کمان آ رہی ہے۔دوسری فوج بہمن جازویہ کی زیرِ کمان دوسری طرف سے آ رہی ہے۔ کیا یہ فوجیں ہم پر مختلف سمتوں سے حملہ کریں گی؟ خالدؓ نے پوچھا۔ نہیں۔ اشعر نے جواب دیا۔ دونوں فوجیں دلجہ میں اکھٹا ہوں گی۔ اور تم کہتے ہو کہ سیلاب کی طرح آگے بڑھیں گی۔ خالدؓ نے کہا۔ کماندار نے یہی بتایا ہے۔ بن آصف بولا۔ ان دونوں کی رپورٹ ابھی مکمل ہوئی تھی کہ ایک شتر سوار خیمے کے باہر آ رکا اور اونٹ سے اتر کر بغیر اطلاع خیمے میں آ گیا۔ اس نے خالد ؓکو بتایا کہ فلاں سمت سے ایرانیوں کی ایک فوج بہمن جاذویہ کی قیادت میں آ رہی ہے۔ یہ بھی ایک جاسوس تھا جو کسی بھیس میں اس طرف نکل گیا تھا جِدھر سے بہمن کی فوج آ رہی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اندرزغر اور بہمن جاذویہ کو اس طرح کوچ کرنا تھا کہ دونوں کی فوجیں بیک وقت یا تھوڑے سے وقفے کے دلجہ پہنچتیں۔ مگر ہوا یوں کے اندرزغر پہلے روانہ ہوگیا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ کسریٰ اردشیر کے قریب تھا اس لئے اردشیر اس کے سر پر سوار تھا۔ بہمن دور تھا۔ اسے کوچ کا حکم قاصد کی زبانی پہنچا تھا وہ دو دن بعد روانہ ہوا۔کسی بھی مؤرخ نے اس فوج کی تعداد نہیں لکھی جو اندرزغر کے ساتھ تھی۔ بہمن کی فوج کی تعدادبھی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صرف یہ ایک بڑا واضح اشارہ ملتا ہے کہ آتش پرستوں کی فوج جو مسلمانوں کے خلاف آ رہی تھی وہ واقعی سیلاب کی مانند تھی۔ اردشیر نے کہا تھا کہ وہ ایک اور شکست کا خطرہ نہیں مول لے گا۔ چنانچہ اس نے اتنی زیادہ فوج بھیجی تھی جتنی اکھٹی ہو سکتی تھی۔ اندرزغر کی فوج کا تو شمار ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ اپنی باقاعدہ فوج کے علاوہ اس نے بکر بن وائل کے معلوم نہیں کتنے ہزار عیسائی اپنی فوج میں شامل کر لیے تھے۔ ان میں پیادہ بھی تھے اور سوار بھی۔ اس فوج میں مزید اضافہ کوچ کے دوران اس طرح ہوا کہ جنگِ دریا میں آتش پرستوں کے جو فوجی مسلمانوں سے شکست کھاکر بھاگے تھے وہ ابھی تک قدم گھسیٹتے مدائن کو جا رہے تھے ۔وہ صرف تھکن کے مارے ہوئے نہیں تھے ان پر مسلمانوں کی دہشت بھی طاری تھی۔ پسپائی کے وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی فوج کا قتلِ عام ہوا تھا۔ انہوں نے کشتیوں میں سوار ہوکر بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے وہ خالدؓ کے مجاہدین کیلئے بڑا آسان شکار ہوئے تھے۔ اس بھگدڑ میں جو کشتیوں میں سوار ہو گئے تھے ان پر مجاہدین نے تیروں کا مینہ برسا دیا تھا ۔ایسی کشتیوں میں جو سپاہی زندہ رہے تھے، ان کی ذہنی حالت بہت بری تھی۔ ان کی کشتیوں میں ان کے ساتھی جسموں میں تیر لیے تڑپ تڑپ کر مر ہے تھے۔ اس طرح زندہ سپاہیوں نے لاشوں اور تڑپ تڑپ کر مرتے ساتھیوں کے ساتھ سفر کیا تھا،کشتیاں خون سے بھر گئی تھیں۔زندہ سپاہیوں کو کشتیاں کھینے کی بھی ہوش نہیں تھی،کشتیاں دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ خود ہی بہتی کہیں سے کہیں جا پہنچی تھیں،اور دور دور کنارے سے لگی تھیں اور زرتشت کے یہ پجاری بہت بری جسمانی اور ذہنی حالت میں مدائن کی طرف چل پڑے تھے۔ وہ دو دو چار چار اور اس سے بھی زیادہ کی ٹولیوں میں جا رہے تھے۔

 پرانی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ ان میں کئی ایک نے جب اندرزغر کی فوج کو آتے دیکھا تو بھاگ اٹھے۔ وہ تیز دوڑ نہیں سکتے تھے۔ انہیں پکڑ لیا گیا اور فوج میں شامل کر لیا گیا۔کچھ تعداد ایسے سپاہیوں کی ملی جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے ان میں کچھ ایسے تھے جو بولتے ہی نہیں تھے۔ ان سے بات کرتے تھے تو وہ خالی خالی نگاہوں اور بے تاثر چہروں سے ہر کسی کو دیکھتے تھے۔ بعض بولنے کے بجائے چیخیں مارتے اور دوڑ پڑتے تھے۔ "پیشتر اس کے کہ یہ ساری فوج کیلئے خوف و ہراس کا سبب بن جائیں ۔انہیں فوج سے دور لے جا کر ختم کر دو"۔ ان کے سالار اندرزغر نے حکم دیا۔ اس کے حکم کی تعمیل کی گئی۔ مدائن کی یہ فوج تازہ دم تھی۔اس نے ابھی مسلمانوں کے ہاتھ نہیں دیکھے تھے لیکن دریا کے معرکے سے بچے ہوئے سپاہی جب راستے میں اس تازہ دم فوج میں شامل ہوئے تو ہلکے سے خوف کی ایک لہر ساری فوج میں پھیل گئی۔ شکست خوردہ سپاہیوں نے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے اور یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ بے جگری سے لڑے ہیں، مسلمانوں کے متعلق اپنی فوج کو ایسی باتیں سنائیں جیسے مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت طاقت ہو اور وہ جن بھوت ہوں۔ خالدؓ کی جنگی قیادت کی یہ خوبی تھی کہ وہ دشمن کو جسمانی شکست ایسی دیتے تھے کہ دشمن پر نفسیاتی اثر بھی پڑتا تھا جوایک عرصے تک دشمن کے سپاہیوں پر باقی رہتا اور اسی دشمن کے ساتھ جب ایک اور معرکہ لڑاجاتا تو وہ نفسیاتی اثر خالد ؓکو بہت فائدہ دیتا تھا۔ یہ اثر پیدا کرنے کیلئے خالدؓ دشمن کو پسپا کرنے پر ہی مطمئن نہیں ہو جاتے تھے بلکہ دشمن کا تعاقب کرتے اور اسے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچاتے تھے۔ خالدؓ کے جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی انہیں دی کہ پچھلے معرکے کے بھاگے ہوئے سپاہی بھی مدائن سے آنے والی فوج میں شامل ہورہے ہیں۔ خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں نئی صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ "میرے عزیرساتھیو! خالدؓنے انہیں کہا۔ ہم یہاں صرف ﷲکے بھروسے پر لڑنے کیلئے آئے ہیں۔ جنگی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے توہم فارس کی فوج سے ٹکر لینے کے قابل نہیں۔ اپنے وطن سے ہم بہت دور نکل آئے ہیں ہمیں کمک نہیں مل سکتی۔ ہم واپس بھی نہیں جائیں گے۔ ہم فارسیوں کو اور کسریٰ کو نہیں آگ کے خداؤں کو شکست دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ میں تم سب کے چہروں پر تھکن کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ تمہاری آنکھیں بھی تھکی تھکی سی ہیں اور تمہاری باتوں میں بھی تھکن ہے لیکن ربِ کعبہ کی قسم !ہماری روحیں تھکی ہوئی نہیں۔ ہمیں اب روح کی طاقت سے لڑناہے"۔ ایسی باتیں زبان پر نہ لا ابنِ ولید! ایک سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔ ہمارے چہروں پر تھکن کے آثار ہیں مایوسی کے نہیں، ہمارے ارادوں میں کوئی تھکن نہیں، ابنِ ولید! دوسرے سالار عدی بن حاتم نے کہا، ہم نے آرام کر لیا ہے ۔سپاہ نے بھی آرام کر لیا ہے۔ میں اسی لیے یہاں خیمہ زن ہوگیاتھا کہ ﷲکے سپاہی آرام کر لیں،  خالدؓ نے کہا۔ تمہارے ارادے تھکے ہوئے نہیں تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میں دوسری باتیں کرنا چاہتا ہوں جو زیادہ ضروری ہیں۔ تم نے دیکھا ہے کہ ہم نے فارسیوں کو پہلے معرکے میں شکست دی تو وہ پھر ہمارے سامنے آ گئے ۔ان کے ساتھ ان کے وہ سپاہی بھی آ گئے جو پہلے معرکے سے بھاگے تھے ۔اب مجھے پھر اطلاع ملی ہے کہ دوسرے معرکے سے بھاگے ہوئے سپاہی مدائن سے آنے والی فوج کے سا تھ راستے میں ملتے آ رہے ہیں۔ اب تمہیں یہ کوشش کرنی ہے کہ اگلے معرکے میں آتش پرستوں کا کوئی سپاہی زندہ نہ جا سکے۔ ہلاک کرو یا پکڑ لو۔ کسریٰ کی فوج کا نام و نشان مٹا دینا چاہتا ہوں۔ ہمارا ﷲ یونہی کرے گا۔ تین چار آوازیں سنائی دیں۔ سب ﷲکے اختیار میں ہے۔ خالدؓ نے کہا۔ ہم اسی کی خوشنودی کیلئے گھروں سے اتنی دور آگئے ہیں ۔اب جو صورت ہمارے سامنے ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرو۔ یہ فیصلے جذبات سے نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ اس حقیقت کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ فارسیوں کی جنگی طاقت اور تعداد جواب آ رہی ہے ،ہم اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ۔لیکن پسپائی کو دل سے نکال دو۔ تازہ اطلاعوں کے مطابق مدائن کی فوج دجلہ عبور کر آئی ہے۔آج رات فرات کو بھی عبورکر لے گی،پھر وہ دلجہ پہنچ جائے گی، ان کی دوسری فوج بھی آ رہی ہے۔ ہمارے جاسوس اس کا کوچ دیکھ رہے ہیں اور مجھے اطلاعیں دے رہے ہیں، خدائے ذوالجلال ہماری مدد کر رہا ہے ۔یہ اسی کی ذاتِ باری کا کرم ہے کہ فارس کی یہ دوسری فوج جو اک سالار بہمن جاذویہ کی زیرِ کمان آ رہی ہے۔ اس کی رفتار تیز نہیں ۔وہ پڑاؤ زیادہ کر رہی ہے۔ ہم اپنی قلیل نفری سے دونوں فوجوں سے ٹکر لے سکتے ہیں ۔میری عقل اگر صحیح کام کر رہی ہے تو میں یہی ایک بہتر طریقہ سمجھتا ہوں کہ مدائن کی فوج جو سالار اندرزغر کے ساتھ آ رہی ہے وہ دلجہ تک جلدی پہنچ جائے گی۔پیشتر اس کے کہ بہمن کی فوج بھی اس سے آ ملے، ہم اندرزغر پر حملہ کر دیں گے ،کیا میں نے بہتر سوچا ہے؟۔

اس سے بہتر اورکوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ سالار عاصم نے کہا۔ مجھے مدائن کی اس فوج میں ایک کمزوری نظر آرہی ہے۔ اس فوج میں عیسائیوں کی فوج کے قبیلوں کے لوگ بھی ہیں جو لڑنا تو جانتے ہوں گے لیکن انہیں جنگ اور باقاعدہ معرکے کا تجربہ نہیں ۔میں انہیں ایک مسلح ہجوم کہوں گا ۔دشمن کی دوسری کمزوری وہ سپاہی ہیں جو پچھلے معرکے سے بھاگے ہوئے مدائن کی فوج کو راستے میں ملے تھے۔مجھے یقین ہے کہ وہ ڈرے ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے اپنے ہزاروں ساتھیوں کو تلواروں تیروں اور برچھیوں کا شکار ہوتے دیکھا ہے، پسپائی کی صورت میں وہ سب سے پہلے بھاگیں گے۔ خدا کی قسم عمرو! خالدؓ نے پرجوش آواز میں کہا۔ تجھ میں وہ عقل ہے جو ہر بات سمجھ لیتی ہے۔ خالدؓ نے ان سب پر نگاہ دوڑائی جو وہاں موجود تھے۔انہوں نے کہا۔ تم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اس بات کو نہ سمجھ سکاہو۔ لیکن دشمن کے اس پہلو کو نہ بھولنا کہ اس کے پاس سازوسامان اور رسد اور کمک کی کمی نہیں۔صرف اندرزغر کی فوج ہماری فوج سے چھ گنا زیادہ ہے۔میں نے جو طریقہ سوچا ہے وہ موزوں اور موثر ضرور ہوگا لیکن آسان نہیں۔ لڑنا سپاہ نے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔ پھر بھی انہیں اچھی طرح سے سمجھا دوکہ ہم واپس جانے کیلئے نہیں آئے اور ہم مدائن میں ہوں گے یا خدائے بزرگ و برتر کے حضور پہنچ جائیں گے۔ دومؤرخوں طبری اور یاقوت نے لکھا ہے کہ یہ فہم و فراست کی جنگ تھی۔ اگر تعداد اور سازوسامان اور دیگر جنگی احوال وکوائف کو دیکھا جاتا تو آتش پرستوں اور مسلمانوں کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔ خالدؓ کا چہرہ اُترا ہوا تھا۔ ان کی راتیں گہری سوچ میں گذر رہی تھیں۔ خیمہ گاہ میں وہ چلتے چلتے رک جاتے اور گہری سوچ میں کھو جاتے۔ انہیں زمین پر بیٹھ کر انگلی سے مٹی پر لکیریں ڈالتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ خالدؓ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ آتش پرستوں سے فیصلہ کن معرکہ لڑے بغیر واپس نہ آنے کا عہدکر چکے تھے۔ انہوں نے حسبِ معمول اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلے کی طرح دائیں اور بائیں پہلوؤں پر سالارعاصم بن عمرو اور سالار عدی بن حاتم کو رکھا۔ اپنے ساتھ انہوں نے صرف ڈیڑھ ہزار نفری رکھی جن میں پیدل تھے اور گھڑ سوار بھی۔ اس تقسیم کے بعد انہوں نے کوچ کاحکم دیا۔ یہ حکم انہوں نے جاسوس کی اس اطلاع کے مطابق دیا کہ اندرزغر کی فوج دریائے فرات عبور کر رہی ہے۔ خالد ؓنے اپنی رفتار ایسی رکھی کہ آتش پرست دلجہ میں جونہی پہنچیں ،وہ اس کے سامنے ہوں۔ یہ جنگی فہم وفراست کا غیر معمولی مظاہرہ تھا۔ ایسے ہی ہوا ،جیسے انہوں نے سوچاتھا۔ اندرزغرکی فوج دلجہ پہنچی تو اسے خیمے گاڑنے کا حکم ملا کیونکہ اسے بہمن کی فوج کا انتظار کرناتھا۔فوج اتنے لمبے سفر کی تھکی ہوئی خیمے گاڑنے لگی اور اس کے ساتھ ہی شور بپا ہو گیا کہ بہمن جاذویہ کی فوج آ رہی ہے۔ تمام سپاہ اس کے استقبال میں خوشی کا شوروغل مچانے لگی لیکن یہ شور اچانک خاموش ہو گیا۔ "یہ مدینہ کی فوج ہے"۔ کسی نے بلند آواز سے کہااور اس کے ساتھ یہ کئی آوازیں سنائی دیں۔ دشمن آگیا ہے ……تیار ……ہوشیار۔

اندرزغر گھوڑے پر سوار آگے گیااور اچھی طرح دیکھا۔یہ خالدؓ کی فوج تھی اور جنگی ترتیب میں رہ کر پڑاؤ ڈال رہی تھی،یہ فوج خیمے نہیں گاڑ رہی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان لڑائی کیلئے تیار ہیں۔ سالارِ اعلیٰ! اندرزغرکو ایک سالار نے کہا، ہماری دوسری فوج نہیں پہنچی۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ ابھی دور ہے۔ ورنہ ہم ان مسلمانوں کو ابھی کچل ڈالتے۔ یہ تیار ہیں اور ہماری سپاہ تھکی ہوئی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ ان کی تعداد کتنی تھوڑی ہے۔اندرزغر نے کہا۔ بمشکل دس ہزار ہوں گے۔میں انہیں چیونٹیوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ ان کے گھوڑ سوار دستے کہاں ہیں؟ کہاں ہو سکتے ہیں؟ اس کے سالار نے کہا۔ کھلا میدان ہے، جو کچھ ہے صاف نظر آ رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سالاروں کو اور کمانداروں کو ایک ایک کے چھ چھ نظر آتے رہے ہیں۔اندرزغر نے کہا۔ شکست کھا کر بھاگنے والوں نے مدائن میں بتایا تھا کہ مسلمانوں کا رسالہ بڑا زبردست ہے اور اس کے سوار لڑنے کے اتنے ماہر ہیں کہ کسی کے ہاتھ نہیں آتے…… مجھے تو ان کارسالہ کہیں نظر نہیں آرہا۔ ہمیں جھوٹی اطلاعیں دی گئی ہیں۔ سالار نے کہا۔ہم بہمن کا انتظارنہیں کریں گے، اس کے آنے تک ہم ان مسلمانوں کو ختم کر چکے ہوں گے۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے گھوڑ سوار وہاں نہیں تھے ۔وہی تھوڑے سے سوار تھے جو پیادوں کے ساتھ تھے یا خالد ؓکے ساتھ کچھ گھوڑ سوار محافظ تھے ۔آتش پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے ۔اندرزغر کیلئے یہ فتح بڑی آسان تھی۔ خالد ؓنے اتنی تھوڑی سی نفری کے ساتھ اتنے بڑے لشکر کے سامنے آکر غلطی کی تھی۔جس میدان میں دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں وہ ہموار میدان تھا ۔اس کے دائیں اور بائیں دو بلند ٹیکریاں تھیں۔ ایک ٹیکری آگے جا کر مڑ گئی تھی۔ اس کے پیچھے ایک اور ٹیکری تھی۔ خالدؓ نے اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کر رکھا تھا ۔ادھر آتش پرست بھی جنگی ترتیب میں ہو گئے اور دونوں فوجوں کے سالار ایک دوسرے کا جائزہ لینے لگے۔ خالدؓ نے دیکھا کہ آتش پرستوں کے پیچھے دریا تھا لیکن اندرزغرنے اپنی فوج کو دریا سے تقریباً ایک میل دور رکھا تھا۔ آتش پرستوں کے پہلے سالاروں نے اپنا عقب دریا کے بہت قریب رکھا تھا تاکہ عقب محفوظ رہے۔لیکن اندرزغر نے اپنے عقب کی اتنی احتیاط نہ کی ۔اسے یقین تھا کہ یہ مٹھی بھر مسلمان اس کے عقب میں آنے کی جرات نہیں کریں گے۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی