🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 28*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *28* ۔۔۔۔

اچانک ایک طرف سے ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا آیا جسے ہرمز کے محافظ نہ دیکھ سکے۔گھوڑا محافظوں کے دائرے کو کا ٹتا گذر گیا اور تین محافظ زمین پر تڑپنے لگے۔ان میں سے ایک کو گھوڑے نے کچل ڈالا تھا اور دو کو گھوڑ سوار کی تلوار نے کاٹ دیا تھا۔گھوڑا آگے جا کر مڑا اور پھر ہرمز کے محافظوں کی طرف آیا۔محافظوں نے اب اس سے بچنے کی کوشش کی پھر بھی تین محافظ گرے اور تڑپنے لگے۔باقی بھاگ گئے اور سوار اپنی فوج سے جاملا۔یہ سوار نوجوان قعقاعؓ بن عمرو تھا جسے خلیفہ ابو بکر صدیق ؓ نے کمک کے طور پر خالد ؓکی طرف بھیجا اور کہا تھا۔’’جس لشکر میں قعقاع جیسا جوان ہوگا وہ لشکر شکست نہیں کھائے گا۔‘‘اس سوار سے نظریں ہٹا کر سب نے خالدؓاور ہرمزکو دیکھا۔ہرمز پیٹھ کے بل زمین پر پڑا تھااور خالدؓ اس کی پیٹھ پر بیٹھے اس کے سینے سے اپنا خنجر نکال رہے تھے ۔خنجر سے ہرمزکاخون ٹپک رہا تھا ،قعقاعؓ نے ہرمزکے محافظوں کی نیت بھانپ لی تھی اور کسی کے حکم کے بغیر گھوڑے کو ایڑ لگا کر محافظوں پر جا ہلّہ بولااورخالدؓ کو بچا لیا تھا۔خالد ؓہرمز کی لاش سے اٹھے ۔ہرمز کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی خالدؓ کے ہاتھ میں تھی اور اس کے خون میں لتھڑا ہوا خنجر بلند کر کے خالدؓ نے اپنی فوج کو کھلے حملے کا حکم دے دیا۔ان کے پہلے سے دیئے ہوئے احکام کے مطابق مسلمان لشکر کے دونوں پہلو کھل گئے اور اس نے دائیں اور بائیں سے ایرانیوں پرحملہ کیا۔ایرانی اپنے ہرمز جیسے سالار کی موت سے بد دل ہو گئے تھے لیکن اپنی روائتی شجاعت سے وہ دستبردارنہ ہوئے۔ان کی تعداد مسلمانوں کی نسبت خاصی زیادہ تھی۔ہتھیاروں اور گھوڑوں کے لحاظ سے بھی انہیں برتری حاصل تھی۔وہ مسلمانوں کے مقابلے میں جم گئے۔نظر یہی آ رہا تھا کہ ایرانیوں کو شکست نہیں دی جا سکے گی یا یہ کہ انہیں شکست دینے کیلئے بے شمار جانیں قربان کرنا پڑیں گی۔

ایرانی سپاہی پانچ پانچ، سات سات،دس دس، ایک ایک زنجیر سے بندھے ہوئے تھے اورہر طرف سے آنے والے حملے روک رہے تھے ۔خالدؓ نے انہیں تھکانے کیلئے گھوڑ سواروں کو استعمال کیا۔ گھوڑ سواروں نے پیادوں پر اس طرح حملے شروع کر دیئے کہ پیادوں کو دائیں بائیں دوڑناپڑتا ۔اپنے پیادوں کو بھی خالدؓنے اسی طرح استعمال کیا۔ایرانی پیادوں کو بھاگنا دوڑنا پڑا۔ان کے مقابلے میں مسلمان تیزی سے حرکت کر سکتے تھے۔آخر ایرانیوں میں تھکن اور سستی کے آثار نظر آنے لگے۔انہوں نے اپنی روایت کے مطابق جو زنجیریں باندھ رکھی تھیں،وہ ان کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں۔ہتھیاروں کی برتری وبالِ جان بن گئی،ایرانیوں کی تنظیم اور ترتیب بکھرنے لگی،ان کے قلب کی کمان تو پہلے ہی ہرمز کے مرتے ہی ختم ہوگئی تھی ۔ان کے پہلوؤں کے سالاروں قباذ اور انوشجان نے شکست یقینی دیکھی تو پسپائی کا حکم دے دیا۔پسپا وہی ہو سکے جو زنجیروں میں بندھے نہیں تھے ۔ان میں زیادہ گھوڑ سوار تھے ۔قباذ اور انوشجان پہلوؤں سے اپنی فوج کی بہت سی نفری بچا کر لے گئے لیکن قلب کے ہزاروں سپاہی مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گئے ۔یہ تو آتش پرستوں کا قتلِ عام تھا جوسورج غروب ہونے کے بعد تک جاری رہا۔شام تاریک ہو گئی تو یہ خونی سلسلہ رکا۔مسلمانوں نے ایک بڑے ہی طاقتور دشمن کو بہت بری شکست دے کر ثابت کر دیاکہ نفری کی افراط اور ہتھیاروں کی برتری سے فتح حاصل نہیں کی جا سکتی ،جذبہ لڑا کرتا ہے۔اگلے روز مالِ غنیمت اکھٹا کیا گیا۔خالد ؓنے اسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا،چار حصے اپنے لشکر میں تقسیم کر دیئے اور ایک حصہ مدینہ خلیفہ ابو بکرؓ کو بھیج دیا۔ہر مز کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی بھی خالدؓ نے خلیفہ ؓکو بھیج دی۔خلیفہ ؓنے یہ ٹوپی خالدؓ کو واپس بھیج دی کیونکہ ذاتی مقابلوں میں مارے جانے والے کا مالِ غنیمت جیتنے والے کا حق ہوتا ہے۔یہ ٹوپی خالدؓ کی ملکیت تھی۔

’’یہ دیکھو……باہر آؤ……دیکھو یہ کیا ہے!‘‘مدینہ کی گلیوں میں کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ لوگ دوڑتے گھروں سے باہر آنے لگے۔ ’’جانور ہے۔‘‘’’نہیں ،خدا کی قسم! ہم نے ایسا جانور کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ ’’یہ جانور نہیں، خدا کی عجیب مخلوق ہے۔‘‘عورتیں اور بچے بھی باہر نکل آئے۔ سب کے چہروں پر حیرت تھی۔ بچے ڈر کر پیچھے ہٹ گئے ۔جنہوں نے خدا کی اس عجیب مخلوق کو پکڑ رکھا تھا وہ ہنس رہے تھے اور وہ آدمی بھی ہنس رہا تھا جو اس عجیب مخلوق کی گردن پر بیٹھا تھا۔’’یہ کیا ہے؟لوگ پوچھ رہے تھے۔ اسے کیا کہتے ہیں؟‘‘’’اسے ہاتھی کہتے ہیں ۔‘‘ہاتھی کے ساتھ ساتھ چلنے والے ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا۔’’یہ جنگی جانور ہے۔یہ ہم نے فارس والوں سے چھینا ہے۔‘‘جنگِ سلاسل میں جب ایرانی زرتشت بھاگے تھے تو یہ ہاتھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا۔ تقریباً تمام مورخین نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ خالد ؓنے مالِ غنیمت کا جو پانچواں حصہ خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ کو بھیجا تھا اس میں ایک ہاتھی بھی تھا۔ مدینہ والوں نے ہاتھی کبھی نہیں دیکھا تھا ۔اس ہاتھی کو مدینہ شہر میں گھمایا پھرایا گیا۔تو لوگ حیران ہو گئے اور بعض ڈر بھی گئے۔ وہ اسے جانور نہیں خدا کی عجیب مخلوق کہتے تھے ۔ہاتھی کے ساتھ اس کا ایرانی مہاوت بھی تھا ۔ اس ہاتھی کو چند دن مدینہ میں رکھا گیا ۔کھانے کے سوا اس کااور کوئی کام نہ تھا۔ مدینہ والے اس سے کام لینا جانتے بھی نہیں تھے ۔اس کے علاوہ صرف ایک ہاتھی سے وہ کرتے بھی کیا ؟امیر المومنینؓ نے اس کے مہاوت کو ہاتھی سمیت رہا کر دیا ،کسی بھی تاریخ میں یہ نہیں لکھا کہ یہ ہاتھی مدینہ سے کہاں چلا گیا تھا۔

دجلہ اور فرات آج بھی بہہ رہے ہیں ،ایک ہزار تین سو باون سال پہلے بھی بہہ رہے تھے ،مگر اس روانی میں اور آج کی روانی میں بہت فرق ہے۔ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے دجلہ اور فرات کی لہروں میں اسلام کے اولین مجاہد کے جوشیلے اور پر عزم نعروں کا ولولہ تھا ان دریاؤں کے پانیوں میں شہیدوں کا خون شامل تھا۔شمع رسالتﷺ کے شیدائی اسلام کو دجلہ اور فرات کے کنارے کنارے دور آگے لے جا رہے تھے۔زرتشت کی آگ کے شعلے لپک لپک کر مسلمانوں کا راستہ روکتے تھے۔ مسلمان بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ان کا بڑھنا سہل نہیں تھا ۔وہ فارسیوں کی شہنشاہی میں داخل ہو چکے تھے ،ان کی نفری اور جسموں کی تازگی کم ہوتی جا رہی تھی اور دشمن کی جنگی قوت ہیبت ناک تھی۔کبھی یوں لگتا تھا جیسے آتش پرست فارسیوں کی جنگی طاقت مسلمانوں کے قلیل لشکرکو اپنے پیٹ میں کھینچ رہی ہے۔اپریل ۶۳۳ء کا تیسرا اور صفر ۱۲ ہجری کا پہلا ہفتہ تھا خالد ؓکاظمہ کے مقام پر آتش پرست ایرانیوں کو شکست دے کر آگے ایک مقام پر پہنچ گئے تھے ۔انہوں نے دو ہی ہفتے پہلے ایرانیوں کو شکست دی تھی۔یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں نے اتنی بڑی شہنشاہی سے ٹکرلی تھی جس کی جنگی قوت سے زمین کانپتی تھی۔امیرالمومنین ابوبکرؓ نے کہا تھا کہ ابھی ہم اتنی بڑی طاقت سے ٹکر لینے کے قابل نہیں ہیں لیکن انہوں نے یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ ٹکر لینا ناگزیر ہو گیا ہے۔ورنہ زرتشت مدینہ پر چڑھ دوڑیں گے۔ان کے عزائم ایسے ہی تھے وہ مسلمانوں سے نفرت کرنے والے لوگ تھے اور اپنی بادشاہی میں مسلمانوں پر بہت ظلم کرتے تھے۔امیر المومنین ؓنے خالدؓ کو یمامہ سے بلاکر زرتشتوں کے خلاف بھیجا تھا۔خالد ؓکو رسولِ کریمﷺ نے سیف اﷲ کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ اب خلیفہ اول ابو بکرؓ نے بھی کہا تھا ’’ا ﷲکی تلوار کے بغیر ہم فارس کی بادشاہی سے ٹکر نہیں لے سکتے ۔‘‘خالد ؓنے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ اﷲ کی تلوار ہیں۔

فارس کی شہنشاہی کی گدی مدائن میں تھی ۔فارس کا شہنشاہ اردشیر مدائن میں شہنشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھا تھا۔اس کی گردن ان شہنشاہوں کی طرح اکڑی ہوئی تھی جواپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔ اس کے تخت کے دائیں بائیں ایران کا حسن مچل رہا تھا۔وہ تخت سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ ابلہ کے محا ذ سے قاصد آیا ہے۔’’فوراً بلاؤ۔‘‘اردشیر نے شاہانہ رعونت سے کہا۔’’اس کے سوا وہ اور کیا خبر لایا ہوگا کہ ہرمز نے مسلمانوں کو کچل ڈالا ہے۔کیا حیثیت ہے عرب کے ان بدوؤں کی۔جنہوں نے کھجور اور جَوکے سوا کھانے کی کبھی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ قاصد دربار میں داخل ہوا تو اس کا چہرہ اور اسکی چال بتارہی تھی کہ وہ اچھی خبر نہیں لایا۔اس نے ایک بازو سیدھا اوپر کیا اور جھک گیا۔’’سیدھے ہو جاؤ۔‘‘اردشیر نے فاتحانہ لہجے میں کہا۔’’ ہم اچھی خبر سننے کیلئے اتنا انتظار نہیں کر سکتے ۔کیا مسلمانوں کی عورتوں کو بھی پکڑا گیا ہے۔بولو ،تم کیوں خاموش ہو؟‘‘’’زرتشت کی ہزار رحمت تختِ فارس پر!‘‘ قاصد نے دربار کے آداب کے عین مطابق کہا۔’’شہنشاہ اردشیر کی شہنشاہی ……‘‘’’خبر کیا لائے ہو؟‘‘اردشیر نے گرج کر پوچھا۔’’عالی مقام !ہرمز نے کمک مانگی ہے۔‘‘ قاصد نے کہا۔’’ہرمز نے ؟‘‘اردشیر چونک کر آگے کو جھکا اور ا س نے حیران ہوکر پوچھا۔’’ کمک مانگی ہے؟کیا وہ مسلمانوں کے خلاف لڑ رہا ہے؟کیا وہ پسپا ہو رہاہے؟ہم نے سنا تھا کہ مسلمان لٹیروں کے ایک گروہ کے مانند ہیں۔کیا ہوگیا ہے ہرمز کو؟کیا اس نے سپاہ کو زنجیروں سے نہیں باندھا تھا؟بولو۔‘‘دربار پر سناٹا طاری ہو گیا۔جیسے وہاں کوئی بھی نہ ہو اور درودیوار چپ چاپ ہوں۔’’شہنشاہِ فارس کی شہنشاہی افق تک پہنچے۔‘‘قاصد نے کہا ۔’’زنجیریں باندھی تھیں مگر مسلمانوں نے ایسی چالیں چلیں کہ یہی زنجیریں ہماری سپاہ کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں ۔‘‘’’مدینہ والوں کی تعداد کتنی ہے؟‘‘’’بہت تھوڑی شہنشاہِ فارس۔‘‘قاصد نے جواب دیا۔’’ہمارے مقابلے میں ان کی تعداد کچھ بھی نہیں تھی لیکن……‘‘ ’’دور ہو جا ہماری نظروں سے۔‘‘شہنشاہ اردشیر گرجا اور ذرا سوچ کر بولا۔’’قارن کو بلاؤ۔‘‘قارن بن قریانس ایرانی فوج کا بڑا ہی قابل اور دلیر سپاہ سالار تھا۔وہ بھی ہرمزکی طرح لاکھ درہم کا آدمی تھا اور ہرمز کی ٹوپی کی طرح ٹوپی پہنتا تھا۔اطلاع ملتے ہی دوڑا آیا۔’’قارن!‘‘ اردشیر نے کہا۔’’کیا تم اس خبر کو سچ مان سکتے ہو کہ ہرمزنے مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہوئے کمک مانگی ہے۔‘‘اردشیر نے درباریوں پر نگاہ دوڑائی تو تمام درباری اٹھ کھڑے ہوئے ۔سب تعظیم کوجھکے اور باہر نکل گئے ۔اردشیر قارن کے ساتھ تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا۔

’’کیا یہ قاصد مسلمانوں کا آدمی تو نہیں جو ہمیں دھوکا دینے آیا ہو۔‘‘’’مسلمان اتنی جرات نہیں کر سکتے۔‘‘قارن نے کہا۔’’میدانِ جنگ میں ذراسی غلطی پانسا پلٹ دیا کرتی ہے۔اگر ہرمز نے کمک مانگی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کمک کی ضرورت ہے اور اس سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔‘‘, ’’کیا مسلمانوں میں اتنی ہمت ہے کہ وہ ہماری فوج کو پسپا کر سکیں ؟‘‘اردشیر نے کہا۔ ’’ان میں ہمت ہی نہیں بے پناہ جرات بھی ہے۔‘‘قارن نے کہا۔’’وہ اپنے عقیدے کی جنگ لڑتے ہیں ،ابلہ کے علاقے میں ہم نے مسلمانوں کو اس قدر ذلیل کر کے رکھا ہوا ہے کہ وہ کیڑے مکوڑوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں۔لیکن انہوں نے زمین دوز حملے کرکے اور شب خون مار مار کر اس علاقے کی کئی چوکیاں صاف کر دی ہیں۔ آج تک انہوں نے جتنی جنگیں لڑی ہیں ان میں انہوں نے کسی ایک میں بھی شکست نہیں کھائی ۔ہر جنگ میں ان کی سپاہ خاصی تھوڑی ہی رہی ہے ان کے پاس گھوڑوں کی بھی کمی تھی۔‘‘’’وہ لڑنے والے ہی ایسے تھے ۔‘‘شہنشاہ اردشیر نے کہا۔’’ان میں کوئی بھی ہماری فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘’’لیکن مسلمانوں نے مقابلہ کر لیا ہے۔‘‘قارن نے کہا ۔’’اور ہمارا اتنا زبردست سالار ہرمز کمک مانگنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ شہنشاہِ فارس! دشمن کو اتناحقیر نہیں جاننا چاہیے ۔ہمیں اپنے گریبان میں دیانت داری سے جھانکنا ہو گا ۔فارس کی شہنشاہی کا طوطی بولتا تھا لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ رومی ہم پر غالب آ گئے تھے اور ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم رومیوں کا سامنا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔اس نئی صورتِ حال کا جائزہ دیانت داری سے لیں شہنشاہِ فارس!ہرمز نے اگر کمک مانگی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اس کے لشکر پر غالب آ گئے ہیں۔‘‘’’میں نے تمہیں اسی لیے بلایا ہے کہ تم ہی ہرمز کی مددکو پہنچو۔‘‘اردشیر نے کہا۔’’اگر ہرمز گھبرا گیا ہے تو اس کی مدد کیلئے اگر اس سے بہتر سالار نہ جائے تو اسی جیسے سالار کو جانا چاہیے۔تم ایسا لشکر تیار کرو جسے دیکھتے ہی مسلمان سوچ میں پڑ جائیں کہ لڑیں یا مدینہ کو بھاگ جائیں۔فوراً قارن فوراً۔‘‘قارن نے اسے سلام کیااور لمبے لمبے ڈگ بھرتا چل پڑا۔’’ایرانیوں کا سالار قارن بن قریانس تازہ دم لشکر لے کر اُبلہ کی طرف روانہ ہو گیا۔وہ پوری امید لے کر جا رہا تھا کہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرکے لوٹے گا۔وہ اپنے لشکر کو دجلہ کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ لے جا رہا تھا۔اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔اس نے مذارکے مقام پر لشکر کودریائے دجلہ پار کرایا اور جنوب میں دریائے معقل تک پہنچ گیا۔جب وہ دریائے معقل کے پار گیا تو اسے ہرمز کے لشکر کی ٹولیاں آتی دِکھائی دیں۔

سپاہی بڑی بری حالت میں تھے۔’’تم پر زرتشت کی لعنت ہو۔‘‘قارن نے پہلی ٹولی کو روک کر اور ان کی حالت دیکھ کر کہا۔’’کیا تم مسلمانوں کے ڈر سے بھاگے آ رہے ہو؟‘‘’’سپہ سالار ہرمز مارا گیا ہے۔‘‘ٹولی میں سے ایک سپاہی نے کہا۔’’دونوں پہلوؤں کے سالار قباذاور انوشجان بھی بھاگ آئے ہیں۔وہ شاید پیچھے آ رہے ہوں۔‘‘قارن بن قریاس ہرمز کی موت کی خبر سن کر سُن ہو کہ رہ گیا۔اس نے یہ پوچھنے کی بھی جرات نہیں کی کہ ہرمز کس طرح مارا گیا ہے ۔قارن کا سر جھک گیا تھا۔اس نے جب سر اٹھایا تو دیکھا کہ فارس کے فوجیوں کی قطاریں چلی آ رہی تھیں۔اپنے تازہ دم لشکر کو دیکھ کر بھاگے ہوئے یہ فوجی وہیں رکنے لگے۔اتنے میں ہرمز کی فوج کے دوسرے سالار قباذ اور انوشجان بھی آ پہنچے ،انہیں دور سے آتا دیکھ کر قارن نے اپنے گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا۔گھوڑا چل پڑا۔قارن نے اپنے دونوں شکست خوردہ سالاروں کے سامنے جا گھوڑا روکا۔’’میں سن چکا ہوں ہرمز مارا گیا ہے۔‘‘قارن نے کہا۔ ’’لیکن مجھے یقین نہیں آتا کہ تم دونوں بھاگ آئے ہو۔کیا تم گنوار اور اجڈ عربوں سے شکست کھا کر آئے ہو؟میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ تم بزدل ہو اور تم اس رتبے اور عہدے کے قابل نہیں ہو……کیاتم نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دیا جائے؟‘‘, ’’کیوں نہیں چاہتے!‘‘قباذ نے کہا۔’’ہم کہیں چھپنے کیلئے پیچھے نہیں آئے ،ہمیں ہرمز کی شیخیوں نے مروایا ہے۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ اسلامی فوج کے پاس بڑے ہی قابل اور جرات والے سالار ہیں لیکن وہ اتنے بھی قابل نہیں کہ ہماری فوج کو یوں بھگا دیتے۔‘‘’’قارن!‘‘ انوشجان نے کہا۔’’ہماری فوجی قیادت میں یہی سب سے بڑی خرابی ہے ،جس کا مظاہرہ تم نے بھی کیا ہے۔تم نے عرب کے ان مسلمانوں کو اجڈ اور گنوار کہا ہے۔ہرمز بھی ایسے ہی کہتا تھا لیکن ہم نے میدانِ جنگ میں اس کے الٹ دیکھا ہے۔‘‘’’تم نے ان میں کیا خوبی دیکھی ہے جو ہم میں نہیں؟‘‘قارن نے پوچھا۔’’یہ پوچھو کہ ہم میں کیا خامی ہے جو ان میں نہیں؟‘‘انوشجان نے کہا۔’’ہم اپنے دس دس بارہ بارہ سپاہیوں کو ایک ایک زنجیر سے باندھ دیتے ہیں کہ وہ جم کر لڑیں اور بھاگیں نہیں۔اسی لیے ہم آمنے سامنے کی جنگ لڑتے ہیں۔مسلمانوں نے جب ہماری سپاہ کو پابندِ سلاسل دیکھا تو انہوں نے دائیں بائیں کی چالیں چلنی شروع کر دیں۔ہماری سپاہ گھوم پھر کر لڑنے سے قاصر تھی۔یہ تھی وجہ کہ ہمارا اتنا طاقتور لشکر شکست کھا گیا۔‘‘’’ہمارے پاس باتوں کا وقت نہیں۔‘‘قباذ نے کہا۔’’مسلمان ہمارے تعاقب میں آ رہے ہیں۔‘‘اُن کے تعاقب میں مثنیٰ بن حارثہ دو ہزار نفری کی فوج کے ساتھ آرہے تھے۔مثنیٰ بن حارثہ اسلام کے وہ شیدائی تھے جنہوں نے ایرانیوں کے خلاف زمین دوز جنگی کارروائیاں شروع کر رکھی تھیں۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے

اُنہی کی ترغیب پر امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ نے خالدؓ کو بلا کر ایرانیوں کے خلاف بھیجا تھا۔ایرانیوں کے تعاقب میں جانا غیر معمولی طور پر دلیرانہ اقدام تھا۔تعاقب کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان اپنے مستقر سے دور ہٹتے ہٹتے ایرانیوں کے قلب میں جا رہے تھے ۔جہاں ان کا گھیرے میں آجانا یقینی تھا۔لیکن یہ خالدؓ کا حکم تھا کہ ایرانیوں کا تعاقب کیا جائے۔اس حکم کے پیچھے ایرانیوں کے خلاف وہ نفرت بھی تھی جو مثنیٰ بن حارثہ کے دل میں بھری ہوئی تھی۔جنگِ سلاسل ختم ہو گئی اور ایرانی بھاگ اٹھے تو خالدؓ نے دیکھا کہ ان کا لشکر تھک گیا ہے ۔انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ کو بلایا۔’’ابنِ حارثہ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اگر یہ بھاگتے ہوئے فارسی زندہ چلے جائیں توکیا تم اپنی فتح کو یقینی سمجھو گے؟‘‘’’خدا کی قسم ولیدکے بیٹے!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے پرجوش لہجے میں کہا۔’’مجھے صرف حکم کی ضرورت ہے۔یہ میرا شکار ہے۔‘‘’’توجاؤ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’دو ہزار سوار اپنے ساتھ لو اور زیادہ سے زیادہ ایرانیوں کو پکڑ لاؤ اور جو مقابلہ کرے اسے قتل کر دو……میں جانتا ہوں کہ میرے جانباز تھک گئے ہیں لیکن میں شہنشاہِ فارس کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم زمین کے دوسرے سرے تک ان کا تعاقب کریں گے۔‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے دو ہزار سوار لیے اور بھاگتے ہوئے ایرانیوں کے پیچھے چلے گئے۔ایرانیوں نے دور سے دیکھ لیا کہ ان کا تعاقب ہو رہا ہے تو وہ بِکھر گئے،انہوں نے بوجھ ہلکا کرنے کیلئے کُرز اور ہتھیار پھینک دیئے تھے۔مثنیٰ کیلئے تعاقب کا اور ایرانیوں کو پکڑنے کا کام دشوار ہو گیا تھا کیونکہ ایرانی ٹولی ٹولی ہو کر بکھرے پھر وہ اکیلے اکیلے ہو کر بھاگنے لگے۔اس کے مطابق مثنیٰ کے سوار بھی بکھر گئے۔مثنیٰ بن حارثہ کو آگے جاکر اپنے سواروں کو اکھٹا کرنا پڑا کیونکہ آگے ایک قلعہ آگیا تھا۔یہ قلعہ ــ ’’حصن المراٗۃ‘‘کے نام سے مشہور تھا۔یہ ایک عورت کا قلعہ تھا۔اسی لیے اس کا نام حصن المراٗۃ مشہور ہو گیا تھا۔یعنی عورت کا قلعہ۔مثنیٰ نے اس قلعے کا محاصرہ کر لیا کیونکہ خیال یہ تھا کہ ایرانی اس قلعے میں چلے گئے ہوں گے۔قلعے سے مزاحمت کے آثار نظر آ رہے تھے۔دودن محاصرے میں گزر گئے تو مثنیٰ کو احساس ہوا کہ وہ جس کام کیلئے آئے تھے و ہ تو رہ گیا ہے۔مثنیٰ کا ایک بھائی مُعنّٰی ان کے ساتھ تھا۔’’مُعنّٰی!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے ا سے کہا۔’’ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ میں ایرانیوں کے تعاقب میں آیا تھا اور مجھے اس قلعے نے روک لیا ہے؟‘‘’’مثنیٰ بھائی!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو تم مجھے کہتے کہ اس قلعے کو تم محاصرے میں رکھو اورمیں ایرانیوں کے پیچھے جاتا ہوں۔‘‘’’ہاں معنّٰی!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مجھے تم پر بھروسہ نہیں۔

یہ قلعہ ایک جوان عورت کا ہے اور تم جوان آدمی ہو۔خدا کی قسم!میں نے قلعے سر کرنے والوں کو ایک عورت کی تیکھی نظروں اور اداؤں سے سر ہوتے دیکھا ہے۔‘‘’’میرے باپ کے بیٹے!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’مجھ پر بھروسہ کر اور آگے نکل جا۔مجھے تھوڑے سے سوار دے جا پھر دیکھ کون سر ہوتا ہے۔……قلعہ یا میں……!اگر تویہیں بندھا رہا تو بھاگتے ہوئے فارسی بہت دور نکل جائیں گے۔‘‘’’اگر میرا دماغ ٹھیک کام کرتاہے تو میں کچھ اور سوچ کر ادھر آیا ہوں۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’میں اس اﷲکا شکر ادا کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ جس کے نبی ہیں کہ اس نے ہمیں خالد بن ولید جیسا سپہ سالار دیا ہے۔مدینہ کی خلافت سے جو اسے حکم ملا تھا وہ اس نے پورا کر دیا ہے لیکن وہ اس پر مطمئن نہیں۔وہ فارس کی شہنشاہی کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے پر تُلا ہوا ہے۔وہ مدائن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔‘‘’’عزم اور چیز ہے میرے بھائی!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’عزم کو پورا کرنا بالکل مختلف چیز ہے۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ولید کا بیٹا تیر کی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔میرے باپ کے بیٹے !تیر بھی خطا ہو سکتا ہے ۔ذرا سی رکاوٹ اسے روک بھی سکتی ہے۔‘‘’’کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خالد کو وہیں رک جانا چاہیے جہاں اس نے فارسیوں کو شکست دی ہے؟‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’خدا کی قسم! تم ایک بات بھول رہے ہو،شہنشاہِ فارس کو اپنی شہنشاہی کاغم ہے اور ہمیں اپنے اﷲ کی ناراضگی کا ڈر ہے۔اردشیر اپنے تخت و تاج کو بچانا چاہتا ہے۔لیکن ہم شاہِ دو جہاں ﷺ کی آن کی خاطر لڑ رہے ہیں……سمجھنے کی کوشش کرو میرے بھائی !یہ بادشاہوں کی نہیں عقیدوں کی جنگ ہے۔ہمارے لیے یہ اﷲ کا حکم ہے کہ ہم اس کے رسول ﷺکا پیغام دنیا کے آخری کونے تک پہنچائیں۔ہمارا بچھونا یہ ریت ہے اور یہ پتھر ہیں۔ہم تخت کے طلبگار نہیں۔‘‘, ’’میں سمجھ گیا ہوں!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’نہیں !‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’تم ابھی پوری بات نہیں سمجھے۔تم بھول رہے ہو کہ ہمیں ان مسلمانوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لینا ہے جو فارسیوں کے زیرِ نگیں تھے اور جن پر فارسیوں نے ظلم و تشدد کیا تھا۔خالد فارسیوں کا یہ گناہ کبھی نہیں بخشے گا،وہ مظلوم مسلمان مدینہ کی طرف دیکھ رہے تھے…… میں تمہیں کہہ رہا تھا کہ میں فارسیوں کے تعاقب میں نہیں آیا۔میں فارس کے اس لشکر کی تلاش میں آیا ہوں جو ہرمز کی شکست خوردہ فوج کی مدد کیلئے آ رہا ہوگا ۔مجھے پوری امید ہے کہ ان کی کمک آ رہی ہو گی۔میں اسے راستے میں روکوں گا۔‘‘’’پھر اتنی باتیں نہ کرو مثنیٰ!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’مجھے کچھ سوار دے دواور تم آگے نکل جاؤ……یہ خیال رکھنا کہ فارسی اگر آ گئے تو ان کی تعداد اور طاقت زیادہ ہو گی۔آمنے سامنے کی ٹکر نہ لینا۔جا میرے بھائی۔میں تجھے اﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘

کسی بھی مؤرخ نے سواروں کی صحیح تعداد نہیں لکھی جومثنیٰ اپنے بھائی معنّٰی کو دے کر چلے گئے تھے۔بعض مؤرخوں کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ سواروں کی تعداد تین سوسے کم اور چار سو سے زیادہ نہیں تھی۔معنّٰی نے اتنے سے سواروں سے ہی قلعے کا محاصرہ کر لیا۔اور قلعے کے دروازے کے اتنا قریب چلا گیا جہاں وہ تیروں کی بڑی آسان زد میں تھا۔دروازے کے اوپر جو بُرج تھا اس میں ایک خوبصورت عورت نمودار ہوئی۔’’تم کون ہو اور یہاں کیا لینے آئے ہو؟‘‘عورت نے بلند آواز میں معنّٰی سے پوچھا۔’’ہم مسلمان ہیں۔‘‘معنّٰی نے اس سے زیادہ بلند آواز میں جواب دیا ۔’’ہم میدانِ جنگ سے بھاگے ہوئے فارسیوں کے تعاقب میں آئے ہیں۔اگر تم نے قلعے میں اُنہیں پناہ دی ہے تم انہیں ہمارے حوالے کر دو۔ہم چلے جائیں گے۔‘‘’’یہ میرا قلعہ ہے۔‘‘عورت نے کہا۔’’بھاگے ہوئے فارسیوں کی پناہ گاہ نہیں۔یہاں کوئی فارسی سپاہی نہیں۔‘‘’’خاتون!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’ہم پر تیرا احترام لازم ہے۔ہم مسلمان ہیں۔عورت پر ہاتھ اٹھانا ہم پر حرام ہے خواہ وہ قلعہ دار ہی ہو۔اگر تم فارس کی جنگی طاقت کے ڈر سے اس کے سپاہی ہمارے حوالے نہیں کرنا چاہتیں تو سوچ لو کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے فارس کی اس ہیبت ناک جنگی طاقت کو شکست دی ہے۔ایسا نہ ہو کہ تم پر ہمارے ہاتھوں زیادتی ہو جائے ۔ہم اسلام کے اُس لشکر کا ہراول ہیں جوپیچھے آ رہا ہے۔‘‘’’میں نے مسلمانوں کا کیا بگاڑا ہے؟‘‘عورت نے کہا۔’’میرا قلعہ تمہارے لشکر کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔‘‘’’تمہاراقلعہ محفوظ رہے گا۔‘‘معنّٰی نے کہا۔’’شرط یہ ہے کہ قلعے کا دروازہ کھول دو۔ہم اندر آ کر دیکھیں گے۔تمہارے کسی آدمی اور کسی چیز کو میرے سوار ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ہم اپنی تسلی کر کے چلے جائیں گے۔اگر یہ شرط پوری نہیں کروگی تو تمہاری اور تمہاری فوج کی لاشیں اس قلعے کے ملبے کے نیچے گل سڑ جائیں گی۔‘‘, ’’قلعہ کا دروازہ کھول دو۔‘‘عورت کی تحکمانہ آواز سنائی دی۔اس آواز کے ساتھ ہی قلعے کا دروازہ کھل گیا۔معنّٰی نے اپنے سواروں کو اشارہ کیا۔تین چار سو گھوڑے سر پٹ دوڑتے آئے ۔معنّٰی نے انہیں صرف اتنا کہا کہ قلعے کی صرف تلاشی ہوگی ۔کسی چیز اور کسی انسان کو ہاتھ تک نہیں لگایا جائے ۔معنّٰی کا گھوڑاقلعے میں داخل ہو گیا۔اس کے تمام سوار اس کے پیچھے پیچھے قلعے میں گئے۔معنّٰی نے ایک جگہ رک کر قلعے کی دیواروں پر نظر دوڑائی۔ہر طرف تیر انداز کھڑے تھے۔نیچے اسے کہیں بھی کوئی سپاہی نظر نہ آیا۔معنّٰی کے سوار قلعے میں پھیل گئے تھے۔

’’تم نے ٹھیک کہا تھا۔‘‘عورت نے معنّٰی سے کہا۔’’میں فارسیوں سے ڈرتی ہوں۔اس قلعے میں کوئی بھی طاقتور لشکر آئے گاتو میں اس کے رحم و کرم پر ہوں گی۔مسلمانوں کومیں پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔‘‘’’اور تم انہیں ساری عمر یاد رکھو گی۔‘‘معنّٰی نے کہا۔’’ خدا کی قسم!تم باقی عمر ان کے انتظار میں گذاردوگی۔ مسلمانوں کیلئے حکم ہے کہ قلعوں کو نہیں دلوں کو سر کرو لیکن قلعے والوں کے دل قلعے کی دیواروں جیسے سخت ہو جائیں،تو پھر ہمارے لئے کچھ اور حکم ہے۔ہم جب اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں تو فارس کی طاقت بھی ہمارے آگے نہیں ٹھہر سکتی۔کیاتم نے انہیں بھاگتے دیکھا نہیں؟کیا وہ ادھر سے نہیں گذرے؟‘‘’’گذرے تھے۔‘‘قلعے دار عورت نے جواب دیا۔’’ذرا سی دیر کیلئے یہاں رکے بھی تھے۔انہوں نے بتایا تھا کہ وہ مسلمانوں سے بھاگ کر آ رہے ہیں۔وہ دس بارہ آدمی تھے۔میں حیران تھی کہ اتنے ہٹے کٹے سپاہی خوف سے مرے جا رہے ہیں۔میں اس پر بھی حیران تھی کہ وہ کون ہیں جنہوں نے فارس کے اس لشکر کو اس قدر دہشت ذدہ کر کے بھگا دیاہے۔تم نے جب کہا کہ تم ہو وہ لوگ جنہوں نے فارسیوں کو شکست دی ہے۔تو میری ہمت جواب دے گئی۔میں نے قلعے کا دروازہ خوف کے عالم میں کھولا تھا۔میں تم سے اور تمہارے سواروں سے اچھے سلوک کی توقع رکھ ہی نہیں سکتی تھی۔مجھے ابھی تک یقین نہیں آیا کہ تم اپنے متعلق جو کہہ رہے ہو۔وہ سچ کہہ رہے ہو۔‘‘یہ خاتون معنّٰی کو اس عمارت میں لے گئی جہاں وہ رہتی تھی۔وہ تو شیش محل تھا۔اس کے اشارے پر دو غلاموں نے شراب اور بھنا ہوا گوشت معنّٰی کے سامنے لا رکھا۔معنّٰی نے ان چیزوں کو پرے کر دیا۔’’ہم شراب نہیں پیتے۔‘‘معنّٰی نے کہا۔’’اور میں یہ کھانا اس لئے نہیں کھاؤں گا کہ تم نے مجھے ایک طاقتور فوج کا آدمی سمجھ کر خوف سے مجھے کھانا پیش کیا ہے ۔میں اسے بھی حرام سمجھتا ہوں۔‘‘’’کیا تم مجھے بھی حرام سمجھتے ہو؟‘‘اس خوبصورت اور جوان عورت نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جس میں دعوت کا تاثرتھا۔’’ہاں !‘‘معنّٰی نے جواب دیا۔’’مفتوحہ عورت کو ہم شراب کی طرح حرام سمجھتے ہیں۔وہ اس وقت تک ہم پر حرام رہتی ہے جب تک کہ وہ اپنی مرضی سے ہمارے عقد میں نہ آ جائے۔‘‘معنّٰی کو اطلاع دی گئی کہ اس کے سوار قلعے کی تلاشی لے کر آگئے ہیں ۔معنّٰی تیزی سے اٹھا اور اسی تیزی سے باہر نکل گیا۔سواروں کے کمانداروں نے معنّٰی کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے تلاشی کس طرح لی ہے اور کیا کچھ دیکھا ہے۔کہیں بھی انہیں کوئی ایرانی سپاہی نظر نہیں آیا تھا۔اس عورت کا اپنا قبیلہ تھا جس کے آدمی تیروں،تلواروں اور برچھیوں وغیرہ سے مسلح تھے۔ان میں معنّٰی کے سواروں کے خلاف لڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ قلعے کی مالکن نے انہیں لڑنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔

اس قلعے کو اپنی اطاعت میں لینا ضروری تھا۔کیونکہ یہ کسی بھی موقع پر ایرانیوں کے کام آ سکتا تھا۔معنّٰی نے اِدھر ُادھر دیکھا۔وہ عورت اسے نظر نہ آئی۔معنّٰی اندر چلا گیا۔’’کچھ ملا میرے قلعے سے؟‘‘عورت نے پوچھا۔’’نہیں۔‘‘معنّٰی نے جواب دیا۔’’میرے لیے شک رفع کرنا ضروری تھا۔اور اب یہ پوچھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے کسی سوار نے تمہارے کسی آدمی یا عورت کو یا میں نے تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں دی؟‘‘, ’’نہیں۔‘‘عورت نے کہااور ذرا سوچ کر بولی۔’’لیکن تم چلے جاؤ گے تو مجھے بہت تکلیف ہوگی۔‘‘, ’’کیا تم ایرانیوں کا خطرہ محسوس کر رہی ہو؟‘‘معنّٰی نے پوچھا۔’’یا تمہارے دل میں مسلمانوں کا ڈر ہے؟‘‘’’دونوں میں سے کسی کا بھی نہیں۔‘‘عورت نے جواب دیا۔’’مجھے تنہا ئی کا ڈر ہے۔تم چلے جاؤ گے تو مجھے تنہائی کا احساس ہوگا۔جو تمہارے آنے سے پہلے نہیں تھا۔‘‘معنّٰی نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔’’تم اپنے فرض میں اتنے الجھے ہوئے ہوکہ تمہیں یہ احساس بھی نہیں کہ تم ایک جوان آدمی ہو۔‘‘عورت نے کہا۔’’فاتح سب سے پہلے مجھ جیسی عور ت کو اپنا کھلونا بناتے ہیں۔میں نے تم جیسا آدمی کبھی نہیں دیکھا۔اب دیکھا ہے تو دل چاہتا ہے کہ دیکھتی ہی رہوں۔کیا میں تمہیں اچھی نہیں لگی؟‘‘معنّٰی نے اسے غور سے دیکھا۔سر سے پاؤں تک پھر پاؤں سے سر تک دیکھا۔اسے ایک آواز سنائی دی۔’’ـخدا کی قسم! میں نے قلعے سر کرنے والوں کو ایک عورت کی تیکھی نظروں اور اداؤں سے سر ہوتے دیکھا ہے۔‘‘’’کیاتم ہوش میں نہیں ہو؟‘‘عورت نے پوچھا۔’’میں شاید ضرورت سے زیادہ ہوش میں ہوں۔‘‘معنّٰی نے کہا۔’’تم مجھے اچھی لگی ہو یا نہیں یہ بعد کی بات ہے۔اس وقت مجھے تمہارا قلعہ اچھا لگ رہا ہے۔‘‘’’کیا میرا یہ تحفہ قبول کرو گے؟‘‘عورت نے کہا۔’’طاقت سے قلعہ سر کرنے کے بجائے مجھ سے یہ قلعہ محبت کے تحفے کے طور پر لے لو تو کیا یہ اچھا نہیں رہے گا؟‘‘’’محبت!‘‘معنّٰی نے زیرِ لب کہا۔پھر سر جھٹک کر جیسے بیدار ہوگیا ہو۔کہنے لگا۔’’محبت کا وقت نہیں۔میں تمہارے ساتھ شادی کر سکتا ہوں۔اگر تم رضا مند ہو تو پہلے اپنے سارے کے سارے قبیلے سمیت اسلام قبول کرو۔‘‘’’ میں نے قبول کیا۔‘‘عورت نے کہا۔’’میں اس مذہب پر جان بھی دے دوں گی جس کے تم پیروکار ہو۔‘‘دو مؤرخوں طبری اور ابنِ رُستہ نے اس خاتون کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔لیکن دونوں کی تحریروں میں اس خاتون کا نام نہیں ملتا۔

شہنشاہِ فارس اردشیر آگ بگولہ ہوا جا رہا تھا۔اسے ہرمز پر غصہ آ رہا تھا جس نے کمک مانگی تھی۔کمک بھیجنے کے بعد اسے ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی کہ میدانِ جنگ کی صورتِ حال کیا ہے۔وہ دربار میں بیٹھتا تو مجسم عتاب بنا ہوتا۔محل میں وہ کہیں بھی ہوتا تو اس کیفیت میں ہوتا کہ بیٹھتے بیٹھتے اٹھ کھڑا ہوتا۔تیز تیز ٹہلنے لگتا۔اور بلا وجہ کسی نہ کسی پر غصہ جھاڑنے لگتا۔ اس روز وہ باغ میں ٹہل رہا تھا۔جب اسے اطلاع ملی کہ قارن کا قاصد آیا ہے۔بجائے اس کے کہ وہ قاصد کوبلاتا ، وہ قاصد کی طرف تیزی سے چل پڑا۔’’کیا قارن نے ان صحرائی گیدڑوں کو کچل ڈالا ہے؟‘‘اردشیر نے پوچھا۔’’شہنشاہِ­فارس!‘‘قاصد نے کہا۔’’جان بخشی ہو۔شہنشاہ کا غلام اچھی خبر نہیں لایا۔‘‘, ’’کیا قارن نے بھی کمک مانگی ہے؟‘‘اردشیر نے پوچھا۔’’نہیں شہنشاہِ فارس!‘‘قاصد نے کہا۔’’سالار ہرمز مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیاہے۔‘‘’’ماراگیا ہے؟‘‘اردشیر نے حیرت سے کہا۔’’کیا ہرمز کو بھی مارا جا سکتا ہے؟نہیں نہیں یہ غلط ہے۔یہ جھوٹ ہے۔‘‘اس نے گرج کر قاصد سے پوچھا۔’’تمہیں یہ پیغام کس نے دیا ہے؟‘‘’’سالار قارن بن قریاس نے۔‘‘قاصد نے کہا۔’’ہمارے دو سالار قباذ اور انوشجان پسپا ہو کر آ رہے تھے ۔باقی سپاہ بھی جو زندہ تھی،ایک ایک دو دو کر کے انکے پیچھے آ رہی تھی۔دریائے معقل کے کنارے وہ ہمیں آتے ہوئے ملے ۔انہوں نے بتایا کہ سالار ہرمز نے مسلمانوں کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارا تو ان کاایک سالار خالد بن ولید ہمارے سالار کے مقابلے میں آیا۔سالار ہرمز نے اپنے محافظوں کو ایک طرف چھپا دیا تھا۔انہوں نے مسلمانوں کے سالار کو گھیرے میں لے کر قتل کرنا تھا۔انہوں نے اسے گھیرے میں لے بھی لیا تھا۔لیکن کسی طرف سے ایک مسلمان سوار سرپٹ گھوڑا دوڑاتا آیا۔اس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں تلوار تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سالار ہرمز کے چھ سات محافظوں کو ختم کر دیا۔عین اس وقت مسلمانوں کے سالار نے سالار ہرمز کو گرالیااور خنجر سے انہیں ختم کر دیا۔‘‘اردشیر کا سر جھک گیااور وہ آہستہ آہستہ محل کی طرف چل پڑا۔جب وہ محل میں پہنچا تو اس نے یوں دیوار کا سہارا لے لیا۔جیسے اسے ٹھوکر لگی ہو اور گرنے سے بچنے کیلئے اس نے دیوار کا سہارالے لیا ہو۔وہ اپنے کمرے تک دیوار کے سہارے پہنچا۔کچھ دیر بعد محل میں ہڑبونگ سی مچ گئی،طبیب دوڑے آئے۔اردشیر پر کسی مرض کا اچانک حملہ ہو گیا تھا۔یہ صدمے کا اثر تھا۔فارس کی شہنشاہی شکست سے نا آشنا رہی تھی۔اسے پہلی ضرب رومیوں کے ہاتھوں پڑی تھی اور فارس کی شہنشاہی کچھ حصے سے محروم ہو گئی تھی۔اب اس شہنشاہی کواس قوم کے ہاتھوں چوٹ پڑی تھی جسے اردشیر قوم سمجھتا ہی نہیں تھا۔اردشیر کیلئے یہ صدمہ معمولی نہیں تھا۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی