🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 26*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *26* ۔۔۔۔

ایرانی فوجیوں کے جانے کے بعد جنہیں معلوم تھا کہ خدام تین چار روز غائب رہاہے وہ باری باری اس سے پوچھنے لگے کہ وہ کہاں چلا گیا تھا۔’’میں شمر کے ڈر سے بھاگ گیا تھا۔‘‘خدام نے ہر کسی کو یہی جواب دیا۔اس کے باپ نے سب کو بتایا تھا کہ خدام گزشتہ رات کے پچھلے پہر آیا تھا۔اس روز باغ میں کام کرتے ہوئے زہرہ اور خدام کام سے کھسک گئے اور اس جگہ جا بیٹھے جہاں انہیں کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا۔زہرہ خوشی سے پاگل ہوئی جا رہی تھی اوروہ رہ رہ کر خدام کی بلائیں لیتی تھی۔’’یہ کیسے ہوا خدام؟‘‘اس نے خوشی سے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے پوچھا۔’’یہ ہوا کیسے؟‘‘’’اسے اﷲ کی مدد کہتے ہیں زہرہ!‘‘خدام نے کہا۔’’اب نہ کہنا کہ خدا مدد نہیں کرتا۔‘‘ ’’خدام!‘‘زہرہ سنجیدہ ہو گئی جیسے اس کے ہونٹوں پر کبھی مسکراہٹ آئی ہی نہ ہو۔خدام کے چہرے پر نظریں گاڑھ کر قدرے پریشان سے لہجے میں بولی۔’’سچ کہوخدام!شمر کے قاتل تم ہی تو نہیں؟……کہتے ہیں رات صحرائی ڈاکو ؤں کے بہت بڑے گروہ نے شمر کی چوکی پر اس وقت شب خون مارا جب وہ شراب اور رقص میں بد مست تھے ۔ایسا تو نہیں کہ تم ان ڈاکوؤں سے جا……‘‘خدام کے اچانک قہقہے نے بنتِ سعود کی بات پوری نہ ہونے دی۔ وہ ہنستا ہی رہا۔جیسے اس سے بڑا مذاق اس نے کبھی سُنا ہی نہ ہو۔خدام نے قہقہے میں ایک راز چھپا لیاتھا۔زہرہ کو یہ خطرہ نظر آیا تھا کہ خدام غیر معمولی طور پر دلیر،غیرت مند اور جسمانی لحاظ سے طاقتور اورپھرتیلا ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ وہ شمر کو قتل کرانے کیلئے ڈاکوؤں کے گروہ سے جا ملا ہو۔اس زمانے میں صحرائی ڈاکوؤں کے گروہ فوجی دستوں کی طرح اپنی کارروائیاں کرتے تھے۔وہ مسافروں کے قافلوں کو لوٹتے اور اگر فوج کے مقابلے میں آجاتے تو جم کر مقابلہ کرتے اور لڑتے لڑتے یوں غائب ہوجاتے جیسے انہیں صحرا کی ریت اور ریتیلے ٹیلوں نے نگل لیا ہو۔زہرہ نے کئی بار دیکھا تھا کہ دو تین اجنبی مسافر آئے اور یہ بتا کر کہ وہ بہت دور جا رہے ہیں ،کسی مسلمان کے گھر ٹھہرے اور صبح ہوتے ہی چلے گئے،وہ جب بھی آتے تھے ،خدام اور اس جیسے تین چار نوجوان زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارتے اور ان کے جانے کے بعد یہ نوجوان پراسرار سی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے تھے۔زہرہ نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اجنبی مسافروں کے جانے کے بعد مسلمان قبیلوں کے بزرگ سرجوڑ کر بیٹھ جاتے اور سرگوشیوں میں باتیں کرتے تھے۔پھر جب مسلمان کھیتی باڑی،باغبانی اور دیگر کاموں میں مصروف ہوتے تو یہ بزرگ ان کے درمیان گھومتے پھرتے اور ان کے ساتھ ایسی باتیں کرتے جیسے وعظ کر رہے ہوں۔’’اپنے مذہب کو نہ چھوڑنا۔‘‘بزرگ اس قسم کی باتیں کرتے تھے۔’’جس خدا کے بھیجے ہوئے رسولﷺ کو مانتے ہو اس خدا کی مدد آ رہی ہے……آتش پرست طاقتور ہیں ،بہت طاقتور ہیں لیکن وہ اﷲ سے زیادہ طاقتور نہیں……ثابت قدم رہو……ظالم کا ہاتھ کٹنے والا ہے……اﷲمظلومین کے ساتھ ہے۔‘‘
’’کب؟……آخر کب؟‘‘ایک روز ایک آدمی نے جھنجھلا کر ان بزرگوں سے پوچھا۔’’خدا کی قسم! تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہم ظلم و ستم سہتے چلے جائیں اور چپ رہیں اور تمہارے وعظ سنتے رہیں ۔اگر آج ہم کہہ دیں کہ ہم مسلمان نہیں اور اسلام کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں……خدا کی مدد آرہی ہے۔کب آ رہی ہے؟‘‘’’اسے بتاؤ۔‘‘ایک بزرگ نے اس آدمی کے ساتھ کام کرنے والے ایک آدمی سے کہا۔’’اسے اچھی طرح سمجھاؤ……اسے بتاؤ کہ اس علاقے میں یہ صدیوں پرانے کھنڈر ہیں ،خدا کا ہاتھ ان میں سے اٹھے گا اور ظالم کا ہاتھ کٹ جائے گا۔‘‘ان بزرگوں کے سینے میں وہی راز تھا جو خدام نے زہرہ بنتِ سعود سے چھپا لیا تھا۔ایرانی کماندار شمر کی چوکی پر جو اتنا زبردست شب خون مارا گیا تھا وہ پہلا شب خون نہیں تھا۔اُبلہ کے علاقے میں یہ پہلا تھا ۔یہ چوکی چونکہ آبادی کے قریب تھی اس لیے ان مسلمانوں کو پتا چل گیا تھا ۔اگر ان کے گھروں کی تلاشی نہ لینی ہوتی تو شاید انہیں پتا ہی نہ چلتا۔عراق کے سرحدی علاقے میں یہ دوسری تیسری رات ایرانیوں کی کسی نہ کسی چوکی پر ایسا ہی شب خون پڑتا اور شب خون مارنے والے چوکی میں قتل و غارت کرکے وہاں سے جو مال اور سامان ہاتھ لگتا ،لے کر غائب ہو جاتے۔دو بار ایرانی فوج نے یہ جوابی کارروائی کی کہ کثیر تعداد گھوڑ سوار دستہ شب خون مارنے والوں کی تلاش میں گیا۔اس سر سبز اور شاداب علاقے سے نکلتے ہی صحرا شروع ہو جاتا تھا۔جو ہموار صحرا نہیں تھا۔وہاں ریت کی گول گول اور اونچی اونچی ٹیکریاں تھیں۔آگے وسیع نشیب تھے جن میں عجیب و غریب شکلوں کے ٹیلے کھڑے تھے۔
ریت کی پہاڑیاں تھیں جن سے شعلے سے نکلتے محسوس ہوتے تھے۔اس خوفناک علاقے میں جو میل ہامیل پھیلا ہوا تھا،صحرا کے بھیدی ہی جا سکتے تھے۔کسی اجنبی کا وہاں جانا ہی محال تھا اور وہاں جاکر زندہ نکل آنا تو ناممکن تھا۔دونوں بار ایرانی فوج کے گھوڑ سوار دستے کا یہ انجام ہوا کہ اسے گھوڑوں اورانسانوں کے نقوش ِ پا ملتے رہے جو صاف بتاتے تھے کہ یہ ایک گروہ ہے اور شب خون مارنے والا یہی گروہ ہو سکتا ہے۔مگر یہ نقوش انہیں سیدھے موت کے منہ میں لے گئے۔ایرانی جوں ہی پہلے نشیب میں داخل ہوئے اورپورا دستہ نشیب میں اتر گیا تو ان پر تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔پہلی بوچھاڑ میں کئی سوار اور گھوڑے گھائل ہو گئے۔زخمی گھوڑے بے لگام ہو کر ادھر ادھر بھاگے ۔سارے دستے میں بھگدڑ مچ گئی۔ان پر تیر برستے رہے مگر بکھر جانے کی وجہ سے تیر خطا ہونے لگے۔بھول بھلیوں جیسے اس نشیب میں سے چند ایک گھوڑ سوار نکلے۔ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔ان کے کرتے بڑے لمبے اورسروں پر سیاہ کپڑے اس طرح لپٹے ہوتے تھے کہ ان کے چہرے اور گردنیں بھی ڈھکی ہوئی ہوتی تھیں ۔ان کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ان گھوڑوں کے قدموں میں اور ان کے سواروں کے بازوؤں میں ایسی پھرتی تھی کہ ایرانی سوار جو پہلے ہی ہراساں تھے ،برچھیوں سے زخمی ہوکر گرنے لگے۔ان میں سے کئی بھاگ نکلے۔وہ ٹیلوں اور گھاٹیوں واے نشیب سے تو نکل گئے لیکن ریت کی گول گول ٹیکریوں میں داخل ہوئے تو گھومنے لگے۔ان سینکڑوں ٹیکریوں میں جو ایک دوسری کے ساتھ ساتھ کھڑی تین چار میل کی وسعت میں پھیلی ہوئی تھیں ،یہی خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی اجنبی ان کے اندر چلا جائے تو وہ اندر ہی اندر چلتا رہتاہے ،نکل نہیں سکتا۔آخر تھک کر بیٹھ جاتا ہے ۔پیاس سے حلق میں کانٹے چبھنے لگتے ہیں اور ریگستان کے یہ گول گول بھوت اسے بڑی اذیت ناک موت مارتے ہیں۔
دوسری بار ایرانیوں کے سوار دستے پر کسی اور جگہ سے ایسا ہی حملہ ہواتھا اور سوار بکھر کر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے تو انہیں ایک للکار سنائی دینے لگی۔’’زرتشت کے پجاریوں !میں مثنیٰ بن حارثہ ہوں……زرتشت کو ساتھ لاؤ……مثنیٰ بن حارثہ ……ہرمز کو یہ نام بتا دینا……مثنیٰ بن حارثہ۔‘‘اس ایرانی دستے کے جو سوار زندہ بچ گئے وہ نیم مردہ تھے۔انہوں نے اپنے کمانداروں کو بتایا کہ انہیں صحرا میں یہ للکار سنائی دی تھی۔اس کے بعد ایرانیوں کی سرحدی چوکیوں پر چھاپے پڑتے رہے لیکن انہوں نے چھاپہ مار وں کے تعاقب کی اور ان کو تلاش کرنے کی جرات نہ کی۔بعض چھاپوں کے بعد بھی یہ للکار سنائی دیتی تھی۔’’مثنیٰ بن حارثہ……آتش پرستو……میں مثنیٰ بن حارثہ ہوں۔‘‘پھر مثنیٰ بن حارثہ دہشت کا،کسی جن بھوت کا،کسی بدروح کا ایک نام بن گیا۔ایرانی فوجی اس نام سے ڈرنے لگے ۔انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ یا اس کے گروہ کے کسی ایک آدمی کو پکڑنے کے بہت اہتمام کیے لیکن جب کہیں شب خون پڑتا تھا تو ایرانی فوجی جن کی جرات اور بے جگری مشہور تھی ،دہشت سے دبک جاتے تھے۔یہ تھا وہ مثنیٰ بن حارثہ جو فروری ۶۳۳ء کے ایک روز مدینہ میں خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ کے سامنے ایک گمنام اجنبی کی حیثیت سے بیٹھا تھا۔وہ جنوبی عراق کارہنے والا اور اپنے قبیلے بنو بکرکا سردار تھا۔تاریخ میں ایسا اشارہ کہیں بھی نہیں ملتا کہ اس نے کب اور کس طرح اسلام قبول کیا تھا ۔یہ اسی کی کاوش کا نتیجہ تھاکہ نہ صرف اس کے اپنے قبیلے نے بلکہ ان علاقوں میں رہنے والے کئی اور قبیلوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔جب جنگِ یمامہ ختم ہوئی اورارتداد کے فتنے کا سر کچل دیا گیاتو مثنیٰ بن حارثہ نے عراق کے جنوبی علاقوں میں ایرانیوں کیخلاف جہاد شروع کر دیا۔انہوں نے ان مسلمانوں میں سے جو ایرانی بادشاہی کی رعایا تھے۔ایک گروہ بنالیا اور ایرانی فوج کی سرحدی چوکیوں پر شب خون مارنے شروع کر دیئے۔ان کے شب خون اس قدر اچانک اور تیز ہوتے تھے کہ چوکی والوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھااورمثنیٰ کا گروہ صفایا کرکے غائب ہو جاتا تھا۔انہوں نے بڑے ہی دشوار گزار صحرامیں اپنا اڈہ بنالیا تھا جسے انہوں نے مالِ غنیمت سے بھر دیا تھا۔پھر انہوں نے ان بستیوں پر بھی شب خون مارنے شروع کردیئے جہاں صرف ایرانی رہتے تھے۔مثنیٰ نے سرحد پر ایرانی فوج کو بے بس اور مجبور کردیا۔ایرانی فوج کے کئی سینئر کماندار مثنیٰ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
مثنیٰ بن حارثہ نے دوسرا کام یہ کیا کہ عراق کے جنوبی علاقے مین جومسلمان ظلم و ستم میں زندگی گزار رہے تھے انہیں اس نے اپنے زمین دوز اثر میں لے کرمتحد رکھا ہوا تھا۔ان کا ایک گروہ تو شب خون مارنے کاکام کرتا تھا اور ایک گروہ بستیوں میں رہ کر مسلمانوں کو اتحاد کی لڑی میں پروئے رکھتا تھا اور انہیں بتاتا رہتا تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔مسلمان اپنے چھاپہ ماروں کی کامیابیاں دیکھ رہے تھے اور وہ مطمئن تھے۔یہ تھی وہ خدائی مدد جس کے انتظارمیں وہ ایرانیوں کا ظلم و ستم سہہ رہے تھے اور اپنا مذہب نہیں چھوڑ رہے تھے۔ورنہ مظالم سے بچنے کا ان کے سامنے بڑا سہل طریقہ یہ تھاکہ اسلام سے منحرف ہو کر آتش پرست ہو جاتے۔خدام نے زہرہ سے کہا تھا کہ وہ تین چار دنوں کیلئے غائب ہو جائے گا ۔وہ غائب ہوکر چھاپہ ماروں کے ا ڈے پر چلا گیا تھا اور انہیں ایرانی کماندار شمر کے متعلق بتایا تھا ۔اس کی چوکی تک چھاپہ ماروں کی رہنمائی اسی نے کی تھی ۔چوکی پر حملہ پوری طرح کامیاب رہا ۔اسکے فورا ً بعد خدام اپنے گھر آ گیا تھا۔مثنیٰ بن حارثۃنے امیر المومنین ابو بکر ؓ کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے خلیج فارس کے ساحل کے ساتھ ساتھ اور عراق کے جنوبی علاقے میں کس طرح عربی مسلمانوں کے قبیلوں کو اپنے اثر میں لیا اورانہیں اسلام پر قائم رکھ کر انہیں زمین دوز محاذپر جمع کیا۔’’تجھ پر اﷲ کی رحمت ہو ابن ِحارثہ! ‘‘خلیفہؓ نے کہا۔’’تو اگر یہ مشورہ دینے آیا ہے کہ میں ایرانیوں پر فوج کشی کروں تو مجھے سوچنا پڑے گا۔کیا تو نے دیکھا نہیں کہ ایرانیوں کی فوج کی تعداد کتنی زیادہ ہے اور ان کے وسائل اور ذرائع کتنے وسیع اور لا محدود ہیں ؟ہم اپنے مستقر سے اتنی دور قلیل تعداد اور بغیر وسائل، کثیر تعداد اور طاقتور فوج کے مقابلے کے قابل نہیں ہوتے لیکن میں نے سلطنت فارس کونظر انداز بھی نہیں کیا۔‘‘’’امیر المومنین!‘‘مثنیٰ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کرکہا۔’’اگرایک آدمی اتنی بڑے ملک کی فوج کے ساتھ ٹکر لے سکتا ہے اور ان پرمسلمانوں کے عسکری جذبے کی دھاک بٹھا سکتا ہے تو میں اپنے اﷲ کے بھروسے پہ کہتا ہوں کہ ایک منظم فوج بہت کچھ کر سکتی ہے ۔میں اس آتش پرست سلطنت کی اندرونی کیفیت دیکھ آیا ہوں۔شاہی خاندان تخت و تاج کی خاطر آپس میں دست و گریباں ہو رہا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ شہنشاہ ہرقل فارسیوں کو نینوا اور دستجرد میں بہت بری شکست دے چکا ہے۔اس کی فوجیں آتش پرست فارسیوں کے دارالحکومت مدائن کے دروازوں تک پہنچ گئی تھیں۔اس کے بعد فارسی(ایرانی)سنبھل نہیں سکے۔اگر ان میں عیش پرستی کو دیکھاجائے تو وہ سنبھلے ہوئے لگتے ہیں لیکن اب ان میں بادشاہی کے تاج پر رسہ کشی ہو رہی ہے۔یمن ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور وہاں کے حاکم بازان نے اسلام قبول کرلیا ہے،ان کی رعایا ان کی زنجیریں توڑنا چاہتی ہے ۔ان کی محکومی میں ان کے جنوبی علاقوں کے مسلمان میرے اشارے اورمدینہ کی فوج کے منتظر ہیں۔‘‘
’’تجھ پر رحمت ہی رحمت ہو مثنیٰ!‘‘امیر المومنینؓ نے کہا۔’’لارَیب تیری باتیں میرے دل میں اتر رہی ہیں ۔میرا اگلا قدم وہیں پڑے گا جہاں تو کہتا ہے۔کیا یہ بہتر نہیں ہو گاکہ میں سالاروں کی مجلس سے بات کر لوں؟‘‘ ’’یا امیرالمومنین!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’فیصلہ وہی بہتر ہوتا ہے جو صلح و مشورے کے بعد کیا جاتا ہے لیکن میں امیر المومنین سے اجاز ت چاہوں گا کہ جو کہنا چاہتا ہوں وہ کہہ لوں اور آپ میری باتیں سالاروں کے سامنے ضرور رکھیں……دجلہ اور فرات جہاں ملتے ہیں ،وہاں کے بڑے وسیع علاقے میں عربی قبیلے آباد ہیں جو سب کے سب مسلمان ہیں۔چونکہ وہ مسلمان ہیں اس لئے وہ آگ کے پجاری بادشاہوں کے جورو ستم کا نشانہ بنے ہوتے ہیں۔مسجدوں پر بھی ان کا حق تسلیم نہیں کیا جاتا۔فارسیوں کے ہاتھوں ان کی جان محفوظ نہیں۔ان کی عزت محفوظ نہیں……وہ مسلمان فصل اگاتے ہیں جو پک جاتی ہے تو آتش پرست زمیندار اور فوجی اٹھا کر لے جاتے ہیں ،وہاں مسلمان مزارعے ہیں اور انہیں دھتکاری ہوئی مخلوق سمجھا جاتا ہے ۔وہ مسلسل خوف و ہراس میں رہتے ہیں۔ان کیخلاف الزام صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور کفر کے طوفانوں میں بھی وہ اسلام کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔وہ مدینہ کو روشنی کا مینار سمجھتے ہیں……امیر المومنین! اگر آپ بیٹھے یہ سوچتے رہیں کہ دشمن بہت طاقتور ہے تو وہ روز بروز طاقتور ہوتا جائے گا اور مسلمان مایوس ہو کراپنی بھلائی کا کوئی ایسا طریقہ سوچ لیں گے جو اسلام کے منافی ہو گا۔میرے چھاپہ ماروں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اور آپ کی فوج کیلئے جو زمین ہموار کی ہے وہ دشمن کے حق میں چلی جائے گی……کیارسول اﷲﷺمظلوم مسلمانوں کی مدد کو نہیں پہنچا کرتے تھے؟‘‘’’خدا کی قسم! میں ان کی مدد کو پہنچوں گا۔‘‘خلیفہ ابو بکرؓ نے کہا اور اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک سالار سے پوچھا۔’’ولید کا بیٹا خالد کہاں ہے؟‘‘’’یمامہ میں آپ کے اگلے حکم کا انتظار کررہا ہے امیر المومنین!‘‘انہیں جواب ملا۔’’کوئی تیز رفتار قاصد بھیجو اور اسے پیغام بھیجو کے جلدی مدینہ پہنچے۔‘‘خلیفہ ابو بکر ؓ نے کہا ۔’’فارس کی بادشاہی سے ہم اﷲ کی تلوار کے بغیر نہیں لڑ سکتے۔‘‘خلیفہؓؓ مثنیٰ سے مخاطب ہوئے۔’’اور تم مثنیٰ!واپس جاؤ اور عرب قبیلوں کے جس قدرآدمی اکھٹا کر سکتے ہو کرلو۔اب تمہیں کھلی جنگ لڑنی پڑے گی۔جو تم شب خون اور چھاپوں کے انداز سے بھی لڑ سکتے ہو۔لیکن اپنے فیصلوں میں تم آزاد نہیں ہو گے۔خالد سالارِاعلیٰ ہوگا ۔تم اس کے فیصلوں کے پابندہو گے۔‘‘’’تسلیم امیر المومنین!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’ایک اور عرض ہے……اس علاقے میں جو عرب قبیلے ہیں وہ سب کے سب مسلمان نہیں۔ان میں عیسائی بھی ہیں اور دوسرے عقیدوں کے لوگ بھی۔وہ سب آتش پرستوں کے خلاف ہیں ۔فارس کے آتش پرست ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔اگر اﷲ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی تو غیر مسلم عربوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے جیسا وہاں کے عرب مسلمانوں کے ساتھ ہو گا۔‘‘’’ایسے ہی ہو گا!‘‘امیر المومنین ابو بکرؓ نے کہا۔’’جنہوں نے اسلام کے خلاف کچھ نہیں کیا ،اسلام ان کی پریشانی کا باعث نہیں بنے گا……تم آج ہی روانہ ہو جاؤ۔‘‘یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے
خالدؓ اس وقت یمامہ میں تھے۔ان کی دونوں نئی بیویاں لیلیٰ ام تمیم اوربنتِ مجاعہ ان کے ساتھ تھیں۔امیر المومنینؓ کا پیغام ملتے ہی خالدؓ یمامہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ پہنچ گئے ۔’’کیا مثنیٰ بن حارثہ کا نام تم نے کبھی سنا ہے؟‘‘خلیفہؓ نے خالدؓ سے پوچھا۔’’سنا ہے۔‘‘خالدؓ نے جواب دیا۔’’اور یہ بھی سنا ہے کہ فارسیوں کے خلاف اس نے ذاتی قسم کی جنگ شروع کر رکھی ہے ،لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس کی ذاتی جنگ ذاتی مفاد کیلئے ہے یا وہ اسلام کی خاطر لڑ رہا ہے۔‘‘’’وہ یہاں آیا تھا۔‘‘امیر المومنین نے کہا۔’’جہاد جو اس نے شروع کر رکھا ہے اس میں اس کا کوئی ذاتی مفاد نہیں۔میں نے اس لئے تمہیں بلایا ہے کہ تم سے مشورہ کر لوں کہ مثنیٰ ہم سے جو مدد مانگتا ہے وہ اسے دی جائے یا اس وقت کا انتظار کیا جائے جب ہم فارسیوں کی اتنی بڑی قوت کے خلاف لڑنے کے قابل ہو جائیں گے۔  وہ کس قسم کی جنگ لڑ رہا ہے؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔امیر المومنینؓ نے خالدؓ کو پوری تفصیل سے بتایا کہ مثنیٰ شب خون کی نوعیت کی جنگ لڑ رہاہے اور اس وقت تک وہ کتنی کامیابیاں حاصل کر چکا ہے۔’’اس کی سب سے بڑی کامیابی تو یہ ہے خالد!‘‘خلیفہ ؓ نے کہا۔’’کہ اس نے زرتشتوں کے محکوم مسلمانوں کو متحد رکھا ہوا ہے اور ان میں ایسا جذبہ پیدا کیا ہے کہ انہوں نے زرتشتوں کے ظلم و ستم میں اپنے سینوں میں اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ابلہ اور عراق کے دوسرے علاقوں میں جہاں مسلمان آباد ہیں،وہ فارسیوں کے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ان حالات میں اپنے عقیدوں کو سینے سے لگائے رکھنا بے معنی سا بن جاتا ہے ،وہ مسلمان صرف اتنا کہہ دیں کہ مدینہ اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں تو ان کے سارے مصائب ختم ہو جائیں گے۔یہ مثنیٰ اور اس کے چند ایک ساتھیوں کا کمال ہے کہ انہوں نے ان حالات میں بھی وہاں کے مسلمانوں کو اسلام سے منحرف ہونے نہیں دیا۔اس کے علاوہ انہیں اپنے عقیدے کا اتنا پکا بنارکھا ہے کہ وہ زرتشتوں کے خلاف زمین دوز کارروائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘’’امیر المومنین!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’مثنیٰ نے کچھ کیا ہے یا نہیں کیا،مسلمان کی حیثیت سے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جو مسلمان غیر مسلموں کے جوروستم کا نشانہ بنے ہوئے ہوں ان کی مدد کو پہنچیں۔‘‘’’کیا تم یہ مشورہ دیتے ہو کہ ہمیں ایرانیوں سے ٹکر لے لینی چاہیے؟‘‘خلیفہؓ نے پوچھا۔’’ہاں امیر المومنین!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ٹکر کیوں نہ لی جائے؟……یہاں تو صورتِ حال کچھ اور ہے۔جیسا کہ آپ نے بتایا ہے کہ مثنیٰ نے وہاں کچھ کامیابیاں حاصل کر لی ہیں اور اس نے ہمارے حملے کیلئے راہ ہموار کر دی ہے۔ شب خون اور چھاپے مارنے والے اتنا ہی کر سکتے ہیں جتنا مثنیٰ نے کیا ہے۔وہ کسی علاقے پر قبضہ نہیں کر سکتے۔قبضہ کرنا منظم لشکر کا کام ہے۔یہ کام ہمیں ہر قیمت پرکر نا چاہیے۔اگر ہم نے مثنیٰ کی کامیابیوں کو آگے نہ بڑھایا تو اس کے دو نقصان ہوں گے۔ایک یہ کہ یہ کامیابیں ضائع ہو جائیں گی،اور دوسرے یہ کہ زرتشت مثنیٰ اور تمام مسلمانوں سے بہت برا انتقام لیں گے۔اس کے علاوہ فارسی دلیر ہو جائیں گے۔‘‘’’جیسا کہ مثنیٰ نے آپ کو بتایا ہے کہ اس نے ایرانیوں کو اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ ان کے حوصلے مجروح ہو گئے ہیں ،اگر انہیں دم لینے کا موقع دے دیا گیا تو وہ اپنے محکوم مسلمانوں کو قتل کریں گے اور اس خطرے کو ختم کرکے وہ اس سرحدی علاقے کو پہلے سے زیادہ مضبوط کر لیں گے۔اپنے علاقوں کو محفوظ کرنے کیلئے وہ اپنی سرحد کے باہر کے علاقوں پر بھی قابض ہو سکتے ہیں،اس خطرے سے محفوظ رہنے کی یہی ایک صورت ہے کہ ہم مثنیٰ کی مدد کو پہنچیں اور پیشتر اس کے کہ زرتشت ہماری طرف بڑھیں ہم انہیں ان کے اپنے علاقے سے بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیں۔‘‘
خلیفہ ابو بکرؓ نے خالدؓ کو یہ ہدایت دے کر رخصت کر دیا کہ وہ اپنے لشکر کو ساتھ لے کر عراق کی طرف پیش قدمی کریں۔’’خالد! ‘‘خلیفہ ابو بکرؓ نے کہا۔’’تمہارے لشکر میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو بڑے لمبے عرصے سے گھروں سے دور لڑ رہے ہیں۔انہیں فارسیوں جیسے طاقتور دشمن کے خلاف لڑانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔میں کسی کو مجبور نہیں کروں گا۔بہتر صورت یہ ہو گی کہ تم رضا کاروں کی ایک فوج بناؤ ۔اس میں ایسے آدمیوں کو رکھو جو مرتدین کے خلاف لڑ چکے ہیں تمہارے ساتھ کچھ ایسے آدمی بھی ہوں گے جو مرتدین کے ساتھ تھے ۔شکست کھا کر انہوں نے اپنی خیریت اسی میں سمجھی کہ وہ اسلامی لشکر میں شامل ہو جائیں،ایسے کسی آدمی کو اپنے لشکر میں نہ رکھنا۔ہم بڑے طاقتور دشمن کو للکارنے جا رہے ہیں۔میں اس لئے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔‘‘’’امیر المومنین!‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’کیا آپ مجھے یہ اجازت دے رہے ہیں کہ ان لوگوں کو اپنے لشکر سے نکال دوں؟‘‘’’نکال دینا اور بات ہے ولید کے بیٹے!‘‘خلیفہ ابو بکرؓ نے کہا۔’’تم اپنے لشکر سے یہ کہنا کہ جو آدمی اپنے گھر کو جانا چاہتا ہے اسے جانے کی اجازت ہے۔پھر دیکھنا تمہارے ساتھ کون رہتا ہے ،اگر تمہارا لشکر بہت کم رہ گیا تو خلافت اس کی کمی کو کسی نہ کسی طرح پورا کرے گی……جاؤ ولید کے بیٹے! اﷲ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘خلیفہ ابو بکرؓ عزم اور ایمان کے پکے تھے،انہوں نے عراق پر حملے کا جو فیصلہ کیا تھا اس پر وہ ہر حال میں ہر قیمت پر پورا عمل کرنا چاہتے تھے۔خالدؓ تو چاہتے ہی یہی تھے کہ انہیں لڑنے کا موقع ملتا رہے۔انہوں نے خلیفہ کے ارادے کو اور زیادہ پختہ کردیا۔عراق کے اس علاقے میں جہاں دجلہ اور فرات ملتے ہیں ،مسلمانوں کی بستیاں تھیں۔یہ مسلمان مجبوری اور مظلومیت کی زندگی گزار رہے تھے ۔اب وہاں کی صورت حال یہ ہو گئی کہ وہ پہلے کی طرح مظلوم اور مقہور رہے جیسے وہ چلتی پھرتی لاشیں ہوں۔لیکن ان کے گھروں میں ایسی سرگرمی شروع ہو گئی کہ وہ چھپ چھپ کر برچھیاں اور کمان بنانے لگے،انہیں مثنیٰ بن حارثہ کی طرف سے جو پیغام ملتا تھا وہ سرگوشیوں میں گھر گھر پہنچ جاتاتھا۔مثنیٰ کے چھاپہ ماروں نے عراق کی سرحد سے دور ایک دشوار گزار علاقے میں اپنا اڈہ بنا رکھا تھا۔برچھیاں اور تیر و کمان جو گھروں میں چوری چھپے تیار ہوتے تھے ،وہ رات کی تاریکی میں اس اڈے تک پہنچ جاتے تھے۔بستیوں سے جوان آدمی بھی غائب ہونے لگے ۔ایرانیوں کی سرحدی چوکیوں پر اور ان کے فوجی قافلوں پر مسلمانوں کے شب خون پہلے سے زیادہ ہو گئے۔یہ مسلمان در پردہ ایک فوج کی صورت میں منظم ہو رہے تھے اور اس فوج کی نفری بڑھتی جا رہی تھی۔
یمامہ میں خالدؓ کی فوج میں صورت ِ حال اس کے الٹ ہو گئی۔خالدؓنے جب اپنی فوج میں جاکر یہ اعلان کیا کہ جو کوئی اپنے گھر کو واپس جانا چاہتا ہے وہ جا سکتا ہے،تو اس کے دس ہزار نفری کے لشکر میں صرف دو ہزار آدمی رہ گئے۔آٹھ ہزار آدمی مدینہ کو روانہ ہو گئے ۔خالدؓ نے خلیفہ ؓکے نام پیغام لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ ان کے پاس صرف دو ہزار کی نفری رہ گئی ہے ۔خالدؓ نے زور دے کر لکھا کہ انہیں فوری طور پر کمک کی ضرورت ہے۔امیر المومنین ابو بکرؓ اپنی مجلس میں بیٹھے تھے،خالد ؓکے قاصد نے انہیں خالدؓ کا تحریری پیغام دیا۔خلیفہ ؓنے یہ خط بلند آواز سے پڑھنا شروع کر دیا۔اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مجلس میں ان کے جو مشیر اور دیگر افراد بیٹھے ہیں وہ سن لیں تاکہ کوئی مشورہ دے سکیں۔’’امیر المومنین!‘‘ایک مشیر نے کہا۔’’خالد کیلئے کمک بہت جلدی چلی جانی چاہیے۔دو ہزار نفری سے زرتشتوں کے خلاف لڑائی کی سوچی بھی نہیں جا سکتی۔‘‘’’قعقاع بن عمرو کو بلاؤ۔‘‘امیر المومنین ؓنے حکم دیا۔تھوڑی دیر بعد گٹھے ہوئے جسم کا ایک قد آور نوجوان خلیفہ ؓکے سامنے آن کھڑا ہوا۔’’قعقاع!‘‘امیر المومنینؓ نے اس نوجوان سے کہا۔’’خالد کو کمک کی ضرورت ہے ۔تیاری کرو اور فوراً یمامہ پہنچو اور اس سے کہو کہ میں ہوں تمہاری کمک۔‘‘ ’’یا امیر المومنین!‘‘ایک مشیر نے حیران ہو کر کہا۔’’خدا کی قسم !آپ مذاق نہیں کر رہے لیکن اس سالار کو جس کی آٹھ ہزار فوج اس کا ساتھ چھوڑ گئی ہو،صرف ایک آدمی کی کمک دینا مذاق لگتا ہے۔‘‘امیر المومنین ابو بکرؓ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھے۔انہوں نے قعقاعؓ بن عمرو کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور سکون کی آہ لے کربولے۔’’مجاہدین کے جس لشکر میں قعقاع جیساجوان ہوگاوہ لشکر شکست نہیں کھائے گا۔قعقاعؓ اسی وقت گھوڑے پر سوارہوا اورمدینہ سے نکل گیا۔مشہورمورخ طبری، ابنِ اسحٰق ،واقدی اور سیف بن عمر نے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے پہلے بھی ایک ایسا واقعہ ہو چکا تھا۔ایک سالار عیاض بن غنم نے محاذ سے مدینہ میں قاصد بھیجا تھا کہ کمک کی ضرورت ہے۔ خلیفہ ابو بکرؓ نے صرف ایک آدمی عبد بن عہف الحمیری کو کمک کے طور پر بھیجا تھا۔اس وقت بھی اہلِ مجلس نے حیرت کا اظہار کیا تھا اور امیرالمومنین ؓنے یہی جواب دیا تھا جو قعقاع ؓکو خالدؓ کے پاس بھیجنے پر دیا۔حقیقت یہ تھی کہ خلیفہ ابو بکرؓ خالدؓ کو مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے۔لیکن مدینہ میں کمک نہیں تھی۔صرف یہی ایک محاذ نہیں تھا ،اس وقت تمام کے تمام مشہور سالار مختلف محاذوں پر لڑ رہے تھے،اور یہ ساری جنگ ارتداد کے خلاف لڑی جا رہی تھی۔اسلام کے دشمن دیکھ چکے تھے کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں شکست دینا بڑا مہنگا سودا ہے۔چنانچہ اسلام کو کمزور کرکے ختم کرنے کا انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ کئی افراد نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنے اپنے طریقوں سے پیروکار بنا لیے،متعدد ایسے قبیلے جو اسلام قبول کر چکے تھے،اسلام سے منحرف ہو گئے اور اسلام سے انحراف کا یہ سلسلہ تیز ہوتا جا رہا تھا۔ارتداد کے فتنے کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ تھا۔خلیفہ ابو بکرؓ کی خلافت اسی فتنے کے خلاف بر سر پیکار رہی۔اس فتنے کو وعظوں اور تبلیغی لیکچروں سے نہیں دبایا جا سکتا تھا۔اس کیلئے مسلح جہاد کی ضرورت تھی۔یہ جنگی پیمانے کی مہم تھی جسے سر کرنے کیلئے مدینہ فوج سے خالی ہو گیا تھا۔کمزور محاذوں کو کمک دینے کیلئے دوسرے محاذوں سے فوج بھیجی جاتی تھی۔ امیر المومنینؓ نے خالدؓ کو صرف ایک آدمی دینے پر اکتفا نہ کیا،انہوں نے دو طاقتور قبیلوں مفر اور ربیعہ ۔کے سرداروں کو پیغام بھیجے کہ خالدؓ کو زیادہ سے زیادہ آدمی دیں۔
صرف ایک آدمی؟قعقاع ؓبن عمرو جب خالدؓ کے پاس پہنچا تو خالدؓ نے اپنے خیمے میں غصے سے ٹہلتے ہوئے کہا۔’’صرف ایک آدمی؟کیا میں نے امیر المومنین کو بتایا نہیں کہ میرے پاس صرف دو ہزار لڑنے والے رہ گئے ہیں؟اور خلافت مجھ سے توقع رکھتی ہے کہ میں فارس کی اس فوج سے ٹکر لوں جو زرہ میں ڈوبی ہوئی ہے۔‘‘’’میرے سالار!‘‘قعقاعؓ نے کہا۔’’میں آٹھ ہزار کی کمی پوری نہیں کر سکتا۔خدا کی قسم !کوئی کمی رہنے بھی نہیں دوں گا۔وقت آنے دیں۔جس رسولﷺ کا کلمہ پڑھتا ہوں اس کی روح مقدس کے آگے تمہیں شرمسار نہیں ہونے دوں گا۔‘‘’’میں یمامہ میں بیٹھا نہیں رہوں گا۔‘‘خالدؓ نے ایسے کہا جیسے اپنے آپ سے بات کررہے ہوں۔’’مثنیٰ میرا انتظار کر رہا ہو گا۔میں اسے اکیلا نہیں چھوڑوں گا،لیکن……‘‘خالد­خاموش ہو گئے۔انہوں نے اوپر دیکھا اور سرگرشی میں کہا ۔’’خدائے عزوجل!میں نے تیرے نام کی قسم کھائی ہے۔اپنے نام کی خاطر میری مدد کر۔مجھے ہمت اور استقلال عطا فرما کہ میں اس آگ میں کود کر اسے ٹھنڈا کر دوں جس کی زرتشت عبادت کرتے ہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں اور محمدﷺتیرے رسول ہیں۔‘‘’’کیا تو ہمت ہار رہا ہے ولید کے بیٹے؟‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’کیا تو نے نہیں کہاتھا کہ اﷲ کی راہ میں لڑنے والوں کی اﷲ مدد کرتا ہے؟‘‘’’میں ہمت نہیں ہاروں گا۔‘‘خالد نے کہا۔’’میں شکست کا عادی نہیں…… اﷲ مددکرے گا۔خدا کی قسم!میں جاہ و جلال کا طلبگار نہیں ۔مجھے فارس کے بادشاہ کا تخت نہیں چاہیے ۔مجھے وہ زمین چاہیے جو اﷲ کی ہے،اور اس پر بسنے والے اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے نام لیوا ہوں گے۔‘‘وہ دو ہزار مجاہدین جو خالدؓ کے ساتھ رہ گئے تھے ،یمامہ کے ایک میدان میں خالدؓ کے ساتھ کھڑے تھے ۔خالد ؓگھوڑے پرسوار تھے۔’’مجاہدینِ اسلام!‘‘خالدؓ اپنی اس قلیل فوج سے بڑی بلند آواز اسے مخاطب ہوئے۔’’اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کا نام دور دور تک پہنچانے کیلئے چنا ہے۔وہ جنہیں اپنے گھر اور اپنے مال و عیال عزیز تھے وہ چلے گئے ہیں۔ ہمیں ان سے گلا نہیں،انہوں نے خاک و خون کے راستوں پر ہمارا ساتھ دیا تھا ۔بڑے لمبے عرصے تک وہ ہمارے ہم سفر رہے۔ اﷲ انہیں جہاد کا صلہ عطا فرمائے۔ تم نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس کا اجر میں نہیں اﷲ دے گا ۔ہم بہت ہی طاقتور دشمن پر حملہ کرنے جا رہے ہیں۔ مت دیکھو ہماری تعداد کتنی ہے۔
بدر کے میدان میں تم کتنے اور قریش کتنے تھے ۔احد میں بھی مسلمان تھوڑے تھے ۔میں اس وقت مسلمانوں کے دشمن قبیلے کا فرد تھا۔ تم میں بھی ایسے موجود ہیں جو قبولِ اسلام سے پہلے بدر کے میدان میں مسلمانوں کے خلاف لڑے تھے۔ کیا ہم نے کہا نہیں تھا کہ ان تھوڑے سے مسلمانوں کو ہم گھوڑوں کے سموں تلے کچل ڈالیں گے؟کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہم جو تعداد میں بہت زیادہ تھے ان کے ہاتھوں پسپا ہوئے تھے جو تعداد میں بہت تھوڑے تھے۔ کیوں ……؟ایسا کیوں ہوا تھا……؟اس لئے کہ مسلمان حق پرتھے،اور اﷲ حق پرستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ آج تم حق پرست ہو۔‘‘خالدؓ کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جو انہوں نے کھول کر اپنے سامنے کیا۔ ’’امیر المومنین نے ہمارے نام ایک پیغام بھیجا ہے ۔انہوں نے لکھا ہے میں خالد بن ولید کو فارسیوں کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے بھیج رہا ہوں۔ تم سب خالد کی قیادت میں اس وقت تک جنگ جاری رکھو گے جب تک تمہیں خلافت کی طرف سے حکم نہیں ملتا۔خالد کا ساتھ نہ چھوڑنا اور دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو بزدلی نہ دکھانا،تم ان میں سے ہو جنہوں نے اس اجازت کے باوجود کہ جو گھروں کو جانا چاہتے ہیں جا سکتے ہیں۔اﷲ کی تلوار کا ساتھ نہیں چھوڑا۔تم نے اپنے لیے وہ راستہ منتخب کیا ہے جو اﷲ کی راہ کہلاتا ہے۔تصور میں لاؤاس ثوابِ عظیم کو جو اﷲ کی راہ پر چلنے والوں کو ملتا ہے۔اﷲ تمہارا حامی و ناصر ہو۔تمہاری کمی وہی پوری کرے گا۔اسی کی رضا اور خوشنودی کے طلبگار رہو۔‘‘ایک مورخ ازدی نے اس خط کا پورا متن اپنی تاریخ میں دیا ہے۔ معلوم نہیں ابنِ خلدون اور ابنِ اثیر نے جن کی تحریریں مستند مانی جاتی ہیں اس خط کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ان دو ہزار مجاہدین کو کسی وعظ کی یا اشتعال انگیزی کی ضرورت نہیں تھی ۔یہ تو رضاکارانہ طور پر خالدؓ کے ساتھ رہ گئے تھے۔ ان میں بیشتر ایسے تھے جنہوں نے رسولِ کریمﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور اسلام قبول کیااور آپﷺ کی قیادت میں لڑائیاں لڑی تھیں۔حضورِ اکرمﷺ کے وصال کے بعد وہ یوں محسوس کرتے جیسے آپﷺکی روحِ مقدس ان کی قیادت کر رہی ہو۔
رسول اﷲﷺ کے ان شیدایوں نے خالدؓ کی اجازت سے ایک کام یہ بھی کیا کہ گھوڑوں پر سوار ہوکر یمامہ کے گردونواح میں نکل گئے اور بستی بستی جا کر لوگوں کو گھوڑ سواری کے مختلف کرتب دکھانے لگے۔مثلا دوڑتے گھوڑوں سے اترنا اور سوار ہونا ،سرپٹ دوڑتے گھوڑوں سے نشانے پر تیر چلانا، نیزہ بازی اور گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے تیغ زنی کے کمالات۔وہ جوانوں کو فوج میں بھرتی ہو جانے پر اکساتے اور انہیں بتاتے کہ جنگ میں جا کر انہیں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے ۔اس کے علاوہ ان لوگوں کو یہ بھی بتاتے تھے کہ وہ فوج میں بھرتی نہ ہوئے تو ایرانی آکر انہیں اپنا غلام بنا لیں گے۔جو ان سے بیگار لے گی ،انہیں دیں گے بھی کچھ نہیں ،اور ان کی جوان بہنوں ،بیویوں اور بیٹیوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا کریں گے۔اس خطے نے ایرانیوں کا دورِ حکومت دیکھا تھا ۔پھر انہوں نے جھوٹے پیغمبروں کی شعبدے بازیاں دیکھی تھیں اور اب وہ مسلمانوں کی حکومت دیکھ رہے تھے۔ مسلمانوں نے انہیں غلام بنانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ان کے انداز ،طور طریقے او رہن سہن بادشاہوں جیسے یا حکمرانوں جیسے نہیں تھے۔ وہ عام لوگوں کی طرح رہتے ،عام لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے۔ان کی عورتوں کی عزت محفوظ تھی۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی