🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *25* ۔۔۔۔
ارتداد کا سب سے بڑا مرکز یمامہ تھا جو خالدؓ نے اکھاڑ پھینکا اور جھوٹے نبی کو ہلاک کرکے اس کی لاش کی نمائش کی گئی۔اس کے پیروکاروں سے کہا گیا کہ مسیلمہ کے پاس معجزوں کی طاقت ہوتی تو تمہارے چالیس ہزار سے زیادہ لشکر کا یہ حشر تیرہ ہزار آدمیوں کے ہاتھوں نہ ہوتا۔’’بنو حنیفہ! ‘‘مسلمان یمامہ کی گلیوں میں اعلان کرتے پھر رہے تھے ۔’’عورتیں مت ڈریں۔کسی کو لونڈی نہں بنایا جائے گا۔شہرکے اندر کسی مرد بچے یا عورت پرہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا۔ مسیلمہ فریب کار تھا۔اس نے تم سب کو دھوکا دے کر تمہارے گھر اجاڑ دیئے ہیں۔‘‘یمامہ پر خوف و ہراس اور موت کی ویرانی تھی۔عورتیں شہر سے باہر نکلنے سے ڈرتی تھیں۔انہیں مسلمانوں سے کوئی ڈر اور خدشہ نہیں رہا تھا۔وہ اپنے آدمیوں کی لاشیں دیکھنے سے ڈرتی تھیں ۔وہ شہر کی دیوار پر جاکر باہر کا منظر دیکھتی تھیں۔انہیں گِدھوں ،گیدڑوں اور بھیڑیوں کی خوفناک آوازیں سنائی دیتی تھیں۔یہ سب لاشیں کھارہے تھے۔ یمامہ اور گردونواح کے لوگوں نے اتنی قتل و غارت کبھی دیکھی نہ سنی تھی۔یہ تو قہر نازل ہوا تھا ۔گھر گھر ماتم ہو رہا تھا۔اس بھیانک صورت حال میں لوگ اس غیبی قوت کے آگے سجدے کرنا چاہتے تھے جس نے ان پر قہر نازل کیا تھا ۔
مسلمانوں کی فوج میں قرآن کے حافظ اور قاری بھی تھے۔ انہوں نے لوگوں کو آیاتِ قرآنی سنا کر بتانا شروع کر دیا تھا کہ انہیں تباہ کرنے والی غیبی طاقت کیا ہے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ بنو حنیفہ کے جو آدمی بھاگ گئے تھے۔ان کی تعداد کم و بیش بیس ہزار تھی۔وہ یوں لا پتا ہوئے کہ ادھر ادھر چھپ گئے تھے۔مسلمان انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لا رہے تھے ۔وہ بھی خوفزدہ تھے، وہ نادم بھی تھے کہ انہوں نے ایک جھوٹے نبی کے ہاتھ پر بیعت کی جس نے انہیں کہا تھا کہ اسے خدانے ایسی طاقت دی ہے کہ فتح بنو حنیفہ کی ہی ہو گی اور مسلمان تباہ ہو جائیں گے۔انہیں تبلیغ کی یا اسلام کے تفصیلی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ان میں سے بیشتر نے ازخود اسلام قبول کرلیا۔مجاعہ بن مرارہ بنو حنیفہ کی سرداری میں مسیلمہ کذاب کا جانشین تھا ۔اس نے دیکھا کہ اس کا قبیلہ دھڑا دھڑ اسلام قبول کرتا جا رہا ہے تو اس سے اسے یہ اطمینان ہوا کہ خالدؓ کے دل میں اس کے خلاف جو خفگی تھی وہ نکل گئی ہے۔بنو حنیفہ کے لوگ جوق در جوق خالدؓ کے پاس بیعت کیلئے آ رہے تھے۔خالدؓنے ان میں سے چند ایک سرکردہ افراد کا ایک وفد تیار کیا اور انہیں خلیفۃالمسلمین ؓکے ہاتھ پر بیعت کیلئے مدینہ بھیج دیا۔خالدؓ کو یہ جنگ بہت مہنگی پڑی تھی۔
قدیم تحریروں اور دیگر ذرائع سے پتا چلتا ہے کہ خالدؓ کو اتنے بڑے لشکرپر فتح حاصل کرنے کی توقع کم ہی تھی۔انہوں نے یہ اﷲ کے بھروسے اور اپنی جنگی قابلیت کے بل بوتے پر لڑی تھی۔ان کے اعصاب تھک کر چور ہو چکے تھے۔اس جنگ کی خونریزی کا اندازہ یہ ہے کہ بنو حنیفہ کے اکیس ہزار آدمی مارے گئے تھے ۔زخمیوں کی تعداد الگ ہے۔اس کے مقابلے میں شہید ہونے ہونے والے مجاہدین کی تعداد ایک ہزار دو سو تھی۔ان میں تین سو شہید قرآن کے حافظ تھے۔یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جب خلیفہ ابو بکرؓ کو اطلاع ملی کہ شہیدوں میں تین سو حافظ قرآن تھے تو انہوں نے یہ سوچ کرکہ جنگوں میں قرآن کے تمام حافظ شہید ہو سکتے ہیں ،حکم دیا کہ قرآن ایک جگہ تحریر میں جمع کر لیا جائے۔چنانچہ پہلی بار قرآن کو اس شکل میں جمع کیا گیا جو آج ہمارے سامنے ہے۔جنگِ یمامہ کے بعد خالدؓکی کیفیت یہ تھی کہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے شل ہو چکے تھے۔لیلیٰ ان کے تھکے ماندے اعصاب سہلاتی تھی۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کا اتناجانی نقصان نہیں ہواتھا۔اب ایک ہی بار ایک ہزار دو سو مجاہدین شہید ہو گئے تو باقی مجاہدین پر جیسے غم کے پہاڑ آ پڑ ے ہوں۔خالدؓ دکھ اور غم کو قبول کرنے والے نہیں تھے۔
اگر وہ مرنے والوں کا ماتم کرنے بیٹھ جاتے یا دل پر غم طاری کر لیتے تو سپہ سالاری نہ کر سکتے۔انہیں آگے چل کر عراق اور شام فتح کرنا تھا۔انہیں ارتداد کو کچل کر اسلام کو دور دور تک پھیلانا تھا۔اس لیے وہ اپنے آپ کو رنج و الم سے آزادرکھتے تھے۔’’ولید کے بیٹے! ‘‘لیلیٰ نے خالد ؓسے کہا۔’’میں تمہیں اس عظیم فتح پر ایک تحفہ دینا چاہتی ہوں۔‘‘ ’’کیا اﷲ کی خوشنودی کافی نہیں؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’وہ تو تمہیں مل ہی گئی ہے۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’تم اﷲ کی تلوار ہو۔ میں اس دنیا کی بات کر رہی ہوں۔تم بہت تھک گئے ہو۔‘‘’’تحفہ کیا ہے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’مجاعہ بن مرارہ کی بیٹی!‘‘ لیلیٰ نے کہا۔’’تم نے اسے نہیں دیکھا۔میں اس کے گھر گئی تھی ۔بہت خوبصورت لڑکی ہے ۔یمامہ کا ہیرا ہے۔وہ تمہیں چاہتی بھی ہے۔کہتی ہے کہ خالدعظیم انسان ہے۔جس نے ہم پر فتح پاکر بھی اعلان کیا ہے کہ کسی عورت کو لونڈی نہیں بنایا جائے گا۔حالانکہ اسے یمامہ کی عورتوں نے دھوکا دیا تھا۔‘‘اس دور میں عربوں کے ہاں سوکن کا تصور نہیں تھا ۔خالدؓ نے مجاعہ بن مرارہ سے کہا کہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہیں۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مجاعہ اتنا حیران ہوا جیسے اس نے غلط سناہو۔’’کیا کہاتو نے ولید کے بیٹے!‘‘مجاعہ نے پوچھا۔’’میں تمہاری بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ خالدؓ نے اپنی بات دہرائی۔’’کیا خلیفہ ابو بکر ہم دونوں سے خفا نہ ہوں گے؟‘‘مجاعہ نے کہا۔(مجاعہ کے صحیح الفاظ یہ تھے ۔کیا خلیفہ ہم دونوں کی کمر نہ توڑ ڈالیں گے؟)خالدؓ اسی بات پر اصرار کرتے رہے کہ وہ مجاعہ کی بیٹی کے ساتھ شادی کریں گے ۔آخر انہوں نے اس حسین اور جوان لڑکی کو اپنے عقد میں لے لیا۔
یہ خبر مدینہ پہنچی تو خلیفۃ المسلمین ابو بکر صدیقؓ نے خالدؓ کو خط لکھا:’’او ولید کے بیٹے!تمہیں کیا ہو گیا ہے؟شادیاں کرتے پھرتے ہو۔تمہارے خیمے کے باہر بارہ سو مسلمانوں کا خون بہہ گیا ہے۔تم نے شہیدوں کا خون بھی خشک نہیں ہونے دیا۔‘‘’’یہ عمر بن خطاب کی کارستانی ہے ۔‘‘خالدؓ نے یہ خط پڑھ کر زیرِلب کہا ۔(یاد رہے کہ یہ عظیم صحابہ ؓ کی آپس کی گفتگو ہے جن کا سب کچھ اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ پر نثار تھا۔بعض ناعاقبت اندیش منظر پسِ منظر جانے بغیر اُن سے بد گمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اُن کی رفعتوں کے ادراک کے لئے رگوں میں حلال خون کا ہونا شرطِ اول ہے )یہ معاملہ سرزنش کے خط پر ہی ختم ہو گیا ۔خلیفہ ابو بکرؓ نے خالدؓ کویہ پیغام بھی بھیجا کہ وہ یمامہ کے علاقے میں رہیں اور اگلے حکم کا انتظار کریں۔خالدؓمجاعہ کی بیٹی اور لیلیٰ کو ساتھ لے کریمامہ کے قریب وادیٔ وبر میں جاخیمہ زن ہوئے۔دو ماہ بعد انہیں اگلا حکم ملا۔فروری ۶۳۳ء کے پہلے ہفتے (ذیقعد ۱۱ہجری کے آخری ہفتے)کے ایک دن خلیفہ ابو بکر صدیقؓ سے ملنے ایک شخص آیا۔جس نے اپنا نام مثنیٰ بن حارثہ شیبانی بتایا۔خلیفہؓ کیلئے اور اہلِ مدینہ کیلئے وہ ایک غیر اہم بلکہ گمنام آدمی تھا۔اگر ایسا شخص کسی بادشاہ کے دربار میں جاتا تو اسے وہاں سے نکال دیا جاتا لیکن ابو بکرؓ کسی اقلیم کے بادشاہ نہیں بلکہ شہنشاہِ دوجہاں کے خلیفہ تھے جن کے دروازے ہر کسی کیلئے کھلے رہتے تھے۔
یہ شخص جب خلیفہ ابو بکر صدیقؓ کے پاس آیا ،اس وقت اس کے چہرے پر تھکن اور شب بیداری کی گہری پرچھائیاں تھیں۔کپڑوں پر گَرد تھی اور وہ قدرتی روانی سے بول بھی نہیں سکتا تھا۔ ’’کیا مجھے کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ یہ اجنبی مہمان کون ہے؟‘‘امیر المومنین ابو بکرؓ نے پوچھا۔’’یہ شخص جس نے اپنا نام مثنیٰ بن حارثہ بتایا ہے ،یہ معمولی آدمی نہیں ۔‘‘قیس بن عاصم المنقری نے جواب دیا۔’’امیرالمومنین ! اس کے یہاں آنے میں کوئی فریب نہیں۔شہرت اور عزت جو اس نے پائی ہے وہ اﷲ ہر کسی کو عطا کرے۔ہرمز جو عراق میں فارس کا سالار ہے اور جس کی فوج کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے ،مثنیٰ بن حارثہ کا نام سن کے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔‘‘’’امیر المومنین!‘‘کسی اور نے کہا۔’’آپ کا اجنبی مہمان بحرین کے قبیلہ بکر بن وائل کا معزز فرد ہے ۔یہ اسلام قبول کرنے والے ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے کفر اور ارتداد کی آندھیوں میں اسلام کی شمع روشن رکھی ہے اور اس نے ہمارے سالار علاء بن حضرمی کے ساتھ مل کر عراق کی سرحد کے علاقوں میں مرتدین کے خلاف لڑائیاں لڑی ہیں۔‘‘امیر المومنین ؓ کاچہرہ چمک اٹھا۔اب انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ کو بدلی ہوئی نگاہوں سے دیکھا۔ان کے ذہن میں عربی مسلمانوں کے وہ قبائل آگئے جو ایرانیوں کے محکوم تھے۔
یہ عراق کے علاقے میں آباد تھے۔یہ تھے بنو لخم ،تغلب،ایاد،نمبراور بنو شیبان۔ایک روایت کے مطابق یہ وہ عربی باشندے تھے جنہیں پہلی جنگوں میں ایرانی جنگی قیدی بنا کر لے گئے اور انہیں دجلہ اور فرات کے ڈیلٹا کے دلدلی علاقے میں آباد کر دیا۔ان قبائل نے ایرانیوں کا غلام ہوتے ہوئے بھی اپنے عقیدوں کو اپنے وطن کے ساتھ وابستہ رکھا۔عرب میں اسلام کو فروغ ملا تو انہوں نے بھی اسلام کو قبول کرلیا۔عراق سے سجاع جیسے چند افراد نے نبوت کے دعوے کیے تو ان محکوم عربوں نے اس ارتداد کے خلاف محاذ بنا لیا۔ادھر مسلمان ایک ایسی جنگی طاقت بن چکے تھے جن کے سامنے مرتدین اور کفار کے متحدہ لشکر بھی نہ جم سکے۔میدانِ جنگ سے ہٹ کر مسلمان جو عقیدہ پیش کرتے تھے وہ دلوں میں اتر جاتا تھا۔اس طرح سے مسلمان عسکری اور نظریاتی لحاظ سے چھاتے جا رہے تھے۔لیکن ابھی وہ آتش پرست ایرانیوں کے خلاف ٹکر لینے کے قابل نہیں ہوئے تھے۔ایران اس وقت کی بڑی طاقتور بادشاہی تھی جس کے طول و عرض کا حساب نہ تھا۔اس بادشاہی کی فوج تعداد اور ہتھیاروں کے لحاظ سے بہت طاقتور تھی۔صرف رومی تھے جنہوں نے ان سے جنگیں لڑیں اور انہیں کچھ کمزور کردیا تھا۔اس کے باوجود خلیفہ ابو بکرؓ ایران کی بادشاہی میں رسول اﷲﷺ کا پیغام پہنچانے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔
ایرانی نہ صرف یہ کہ اسلام کو قبول کرنے پر تیارنہ تھے بلکہ وہ اسلام کامذاق اڑاتے تھے۔اگر مسلمانوں کا کوئی ایلچی ان کے کسی علاقے کے امیر کے دربار میں چلاجاتا تو وہ اس کی بے عزتی کرتے اور بعض کو قیدمیں ڈال دیا کرتے تھے۔حکومتوں اور حکمرانوں کے انداز اور خیالات اپنے ہی ہوتے ہیں ان کے سوچنے کے انداز بھی مصلحت اور حالات کے تابع ہوتے ہیں لیکن عوام کی سوچیں ان کے جذبوں کے زیرِاثر ہوتی ہیں اور ملک و ملت کی خاطر عوام آگ اگلتے پہاڑوں کے خلاف بھی سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔
اس دور میں عراق ایران کی بادشاہی کا ایک صوبہ تھا۔اس کا امیر یا حاکم ہرمز تھا جو اس دور میں مانا ہوا جنگجو اورنڈر جنگی قائد تھا۔ظالم اوربدطینت اتنا کہ اس کے علاقے کے لوگ کسی کے خلاف بات کرتے تو کہتے تھے :’’وہ تو ہرمز سے بڑھ کر کمینہ اور بد فطرت ہے۔‘‘اس کے ظلم و ستم کا زیادہ تر شکار مسلمان تھے۔جو دجلہ اور فرات کے سنگم کے علاقے میں رہتے تھے۔ان کے خلاف ہرمز کو یہی ایک دشمنی تھی کہ وہ اسلام کے پیروکار ہیں۔کسی ایرانی کے ہاتھوں کسی مسلمان کا قتل ہوجانا اور کسی مسلمان عورت کا اغواء کوئی جرم نہیں تھا۔ہندوؤں کی طرح ایرانی مسلمانوں کو تکلیف پہنچا کر،کسی بہانے ان کے گھروں کو لوٹ کر اور جلا کر خوشی محسوس کرتے تھے۔مسلمان خوف و ہرا س میں زندگی گزار رہے تھے۔مسلمان جس علاقے میں آباد تھے۔اس کی زمین سونا اگلتی تھی۔اناج اور پھلوں کی پیداوار کیلئے وہ علاقہ بڑا ہی زرخیز تھا۔یہ علاقہ جو کم و بیش تین سو میل لمبا تھا۔زرخیزی اور شادابی کے علاوہ قدرتی مناظر کی وجہ سے حسین خطہ تھا۔حاکم عیش و عشرت کیلئے اسی علاقے میں آتے اور کچھ دن گزارکر جاتے تھے۔اس زرخیز اور شاداب علاقے میں مسلمانوں کو آباد کرنے کا یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ کھیتی باڑی کریں اور خوشحال رہیں بلکہ انہیں یہاں مزارعوں کی حیثیت سے رکھا گیا تھا۔
وہ زمین کا سینہ چیر کر شبانہ روز محنت اور مشقت سے اناج اور پھل اگاتے مگر اس میں سے انہیں اتنا ہی حصہ ملتا جو انہیں محض زندہ رکھنے کیلئے کافی ہوتا تھا۔زمین کی اگلی ہوئی تمام دولت حاکموں کے گھروں میں اور ایرانی فوج کے پاس چلی جاتی تھی۔مسلمان مزارعوں کیلئے غربت اور ایرانیوں کی نفرت رہ جاتی تھی۔مسلمان اپنی جوان بیٹیوں کو کو گھروں میں چھپا کر رکھتے تھے۔کسی ایرانی فوجی کو کوئی مسلمان لڑکی اچھی لگتی تووہ کسی نہ کسی بہانے یا اس کے گھر والوں پر کوئی الزام عائد کرکے اسے اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ایرانی فوجی کسی بہانے کے بغیر بھی مسلمان لڑکیوں کو اپنے ساتھ زبردستی لے جاسکتے تھے لیکن غلامی اور مظلومیت کے باوجود مسلمانوں میں غیرت کاجذبہ موجود تھا۔پہلے پہل زبردستی اغواء کی وارداتیں ہوئیں تو مسلمانوں نے دو تین فوجیوں کو قتل کردیا تھا۔مسلمانوں کواس کی سزا تو بڑی ظالمانہ ملی تھی اورانہیں اپنی لڑکیوں کو بچانے کی قیمت بھی بہت دینی پڑی تھی لیکن زبردستی اغواء کا سلسلہ رک گیا تھا۔ آتش پرست ایرانی اپنے فوجیوں کو سانڈوں کی طرح پالتے تھے۔ہر سپاہی اس قسم کی زِرہ پہنتا تھاکہ سر پر آہنی زنجیروں کی خود اور بازوؤں پر دھات کے خول اس طرح چڑھے ہوئے تھے کہ بازوؤں کی حرکت میں رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ان کی ٹانگوں کو بھی بڑے سخت چمڑے یا کسی دھات سے محفوظ کیا ہوتا تھا۔
اسلحہ اتنا کہ ہر سپاہی کے پاس ایک تلوار ایک برچھی اور ایک گُرز ہوتا تھا۔گُرزپر ایرانی سپاہی خاص طور پر فخر کیاکرتے تھے ۔ان ہتھیاروں کے علاوہ ہر سپاہی کے پاس ایک کمان اور ترکش میں تیس تیر ہوتے تھے انہیں عیش و عشرت کھانے پینے اور لوٹ مار کی کھلی اجازت تھی۔وہ ہ جرات اور عسکری مہارت میں قابلِ تعریف تھے۔ان کی کمزوری صرف یہ تھی کہ وہ صرف آمنے سامنے کی لڑائی لڑ سکتے تھے اور لڑتے بھی بے جگری سے تھے لیکن اتنا اسلحہ اٹھا کر وہ پھرتی سے نقل و حرکت نہیں کر سکتے تھے۔کسی دستے یا جَیش کو فوراً ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا تو وہ مطلوبہ وقت میں نہیں پہنچ سکتے تھے۔اتنے زیادہ ہتھیاروں کا بوجھ انہیں جلدی تھکا دیتا تھا البتہ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کی سست رفتاری کی کمزوری کو چھپا لیتی تھی۔دجلہ اور فرات کے سنگم کے علاقے کے جنوب میں اُبلہ ایک مقام تھا جو عراق اور عرب کی سرحد پر تھا۔اس زمانے میں ابلہ ایک شہر تھا۔اس کے اردگرد کا علاقہ شاداب اور سرسبز تھا۔وہاں بڑے خوبصورت جنگل اور ہری بھری پہاڑیاں تھیں۔یا تاریخی اہمیت کا علاقہ تھا۔آج بھی وہاں کھنڈرات بکھرے ہوئے ہیں جو بزبان ِخاموشی تاریخی کہانیاں سناتے ہیں۔ہر کہانی عبرت ناک ہے۔
اس خطے میں ان قوموں کی تباہی اور بربادی کے آثار بھی موجود ہیں جنہوں نے عیش و عشرت کو زندگی کا مقصد بنا لیا تھا اور رعایا کو وہ انسانیت کا درجہ نہیں دیتے تھے ۔خدا نے انہیں راہِ مستقیم دکھانے کیلئے پیغمبر بھیجے او ران لوگوں نے پیغمبروں کامذاق اڑایا اور کہا کہ تم تو ہم میں سے ہو اور دنیا میں تمہاری حیثیت اور تمہارا رتبہ بھی کوئی نہیں،پھر تم خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کس طرح ہو سکتے ہو؟آخر خدا نے انہیں ایسا تباہ و برباد کیا کہ ان کے محلّات اور ان کی بستیوں کو کھنڈر بنا دیا۔خدا نے ان کا تفصیلی ذکر قرآن میں کیا اور فرمایا۔کیا تم نے زمین پر گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ جو اپنی بادشاہی پر اتراتے اور خدا کی سرکشی کرتے تھے اور جو اونچے پہاڑوں پر اپنی یادگاریں بناتے تھے کہ ان کے نام ہمیشہ زندہ رہیں،وہ اب کہاں ہیں؟اب زمین کے نیچے سے ان کے محلات اور ان کی یادگاروں کے کھنڈرات نکل رہے ہیں۔ان کے بعد بھی پر شکوہ شہنشاہ آئے اور ایک کے بعد ایک اپنے کھنڈرات چھوڑتا گیا ۔بابل کے کھنڈربھی آج تک موجود ہیں۔اس خطے میں اشوری آئے،ساسانی آئے،اور اب جب مدینہ میں حضرت ابو بکر صدیقؓ امیر المومنین تھے۔دجلہ اور فرات کے اس حسین اور عبرت انگیز خطے میں ایرانیوں کا طوطی بول رہا تھا اور یہ آتش پرست قوم پہلی قوموں کی طرح یہی سمجھتی رہی کہ اسے تو زوال آہی نہیں سکتا۔وہ محکوموں کے خدا بنے ہوئے تھے۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے
’’بنتِ سعود!‘‘ ایک نوجوان مسلمان لڑکی اپنی سہیلی سے پوچھ رہی تھی۔’’خداّم نہیں آیا؟‘‘زہرہ بنتِ سعود کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے آہ بھر کر منہ پھیر لیا۔’’تم کہتی تھیں کہ وہ تمہیں دھوکا نہیں دے گا۔‘‘سہیلی نے زہرہ سے کہا۔’’خدا نہ کرے،وہ اس بدبخت ایرانی کے ہاتھ چڑھ گیاہو۔‘‘’’خدا نہ کرے۔‘‘زہرہ بنتِ سعود نے کہا۔’’وہ آئے گا……چار دن گزر گئے ہیں……میں اس ایرانی کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔موت قبول کرلوں گی اسے قبول نہیں کروں گی۔خدام مجھے دھوکانہیں دے گا۔‘‘’’زہرہ! ‘‘سہیلی نے اسے کہا۔’’کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ تم اس ایرانی کماندار کو قبول کرلو؟تمہارے خاندان کیلئے بھی یہی بہتر ہو گا۔یہی ہے نہ کہ تمہیں اپنا عقیدہ بدلنا پڑے گا۔ساری عمر عیش توکرو گی ناں!‘‘’’میں نے جس خدا کو دیکھ لیا ہے اسی کی عبادت کروں گی۔‘‘زہرہ نے کہا۔’’آگ خدا نے پیدا کی ہے ،آگ خدا نہیں ہو سکتی۔میں خداکی موجودگی میں کسی اورکی پرستش کیوں کروں؟‘‘’’سوچ لو زہرہ!‘‘ سہیلی نے کہا۔’’تم اسے قبول نہیں کرو گی تو وہ زبردستی تمہیں اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے۔اسے کون روک سکتا ہے؟وہ شاہی فوج کا کماندار ہے۔وہ تمہارے خاندان کے بچے بچے کو قید خانے میں بند کرا سکتا ہے۔ہوں تو میں بھی مسلمان کی بیٹی۔میں اﷲ کی عبادت کرتی اور اﷲ کی ہی قسم کھاتی ہوں۔ لیکن اﷲ نے ہماری کیا مدد کی ہے؟کیا تمہیں یقین ہے کہ اﷲ تمہاری مدد کرے گا؟‘‘’’اگر اﷲ نے میری مدد نہ کی تو میں اپنی جان لے لوں گی۔‘‘زہرہ نے کہا۔’’اور اﷲ سے کہوں گی کہ یہ لے۔اگر میرے وجود میں جان تو نے ڈالی تھی تو واپس لے لے۔‘‘اور اس کے آنسو بہنے لگے۔
زہرہ اپنے جیسے ایک خوبصورت جوان خدام بن اسد کو چاہتی تھی اور خدام اس پر جان نثا ر کرتا تھا۔ان کی شادی ہو سکتی تھی لیکن شِمر ایرانی فوج کا ایک کماندار تھا جس کی نظر زہرہ بنتِ سعود پر پڑ گئی تھی۔اس نے اس لڑکی کے باپ سے کہا تھا کہ وہ اس کی بیٹی کو بڑی آسانی سے گھر سے لے جاسکتا ہے لیکن ایسا نہیں کرے گا۔’’میں تمہاری بیٹی کو مالِ غنیمت سمجھ کر نہیں لے جاؤں گا۔‘‘شمر نے کہاتھا ۔’’اسے دوگھوڑوں والی اس بگھی پر لے جاؤں گا جس پر دولہے اپنی دلہنوں کو لے جایا کرتے ہیں۔تم لوگوں کو فخر سے بتایا کرو گے کہ تمہاری بیوی ایک ایرانی کماندار کی بیوی ہے۔‘‘’’لیکن ایرانی کماندار! ‘‘زہرہ کے باپ نے کہا تھا۔’’تمہارا احترام ہم پر لازم ہے۔اگر لڑکی تمہاری دلہن بنناچاہے گی تو ہم اسے نہیں روکیں گے۔‘‘’’تم غلیظ عربی! ‘‘ایرانی کماندار نے اس نفرت سے جس سے وہ ہر مسلمان سے بات کیا کرتا تھا ،کہا۔’’تو بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے والی قوم میں سے ہے اور کہتا ہے کہ اپنی شادی کا فیصلہ تیری بیٹی خود کرے گی۔زرتشت کی قسم! اگر تیری بیٹی نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں نہ دیا تو تجھے اور تیری بیٹی کو ان کوٹھڑیوں میں بند کروں گا جن میں کوڑھی بند ہیں……بہت تھوڑی مہلت دوں گا بوڑھے۔‘‘
اس کے ساتھ اس کے تین گھوڑ سوار سپاہی تھے ۔انہوں نے بڑی زور کا قہقہہ لگایاتھا۔’’ مدینہ بہت دور ہے بدبخت بوڑھے!‘‘ ایک سپاہی نے اسے دھکادے کر کہاتھا۔’’تیرا امیر المومنین تیری مدد کو نہیں آئے گا۔‘‘زہرہ کے باپ کو اور اس کے بھائیوں کو معلوم تھا کہ وہ ایران کے ایک سپاہی کی بھی حکم عدولی نہیں کر سکتے۔یہ تو کماندار تھا۔انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ شِمر ان کی بیٹی کو اٹھوا بھی سکتا ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتے لیکن اس خطے کے مسلمانوں کے دلوں میں آگ کے پجاریوں کی جو نفرت تھی وہ انہیں مجبور کر رہی تھی کہ وہ ان کے غلام ہوتے ہوئے بھی ان کی غلامی قبول نہ کریں،اور اس کا انجام کتنا ہی بھیانک کیوں نہ ہو ،اسے برداشت کریں ۔انہیں اپنے اﷲ پر بھروسہ تھا۔زہرہ اور خدام کو ملنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔وہ پھلوں کے باغات میں کام کرتے تھے۔جس روز شِمر زہرہ کے گھر آیا تھا اس کے اگلے روز زہرہ خدام سے ملی اور خوفزدہ لہجے میں خدام کو بتایا کہ ایرانی کماندار کیا دھمکی دے گیا ہے۔’’ہم یہاں سے بھاگ نہ چلیں؟‘‘زہرہ نے پوچھا۔’’نہیں۔‘‘خدام نے جواب دیا۔’’اگر ہم بھاگ گئے تو یہ بد بخت تمہارے اور میرے خاندان کے بچے بچے کو قتل کردیں گے۔‘‘’’پھر کیا ہو گا؟‘‘زہرہ نے پوچھا۔’’جو خدا کو منظور ہو گا۔ ‘‘خدا م نے کہا۔
’’خدا……خدا……خدا۔‘‘زہرہ نے جھنجھلاتے ہوئے لہجے میں کہا۔’’جو خدا ہماری مدد نہیں کر سکتا……‘‘’’زہرہ!‘‘ خدام نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔’’خدا اپنے بندوں کو امتحان میں ڈالا کرتا ہے۔بندے خدا کا امتحان نہیں لے سکتے۔‘‘خدام گہری سوچ میں کھو گیا۔’’یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تم اس آتش پرست شِمر کا مقابلہ کرو گے۔‘‘زہرہ نے کہا۔خدام گہری سوچ میں کھویا رہا۔’’سوچتے کیا ہو؟‘‘زہرہ نے کہا۔’’تم اس شخص کو قتل تو نہیں کر سکتے۔ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے۔‘‘’’خدا نجات کا راستہ بھی دِکھا دے گا۔‘‘خدام نے کہا۔’’تمہیں ایک اور راستہ میں بھی دکھا سکتی ہوں۔‘‘زہرہ نے کہا۔’’مجھے اپنی تلوار سے قتل کر دو اور تم زندہ رہو۔‘‘’’تھوڑی سی قربانی دو۔‘‘خدام نے کہا۔’’میں اس نفرت کا اندازہ کر سکتا ہوں جو شِمر کے خلاف تمہارے دل میں بھری ہوئی ہے۔لیکن اس پر یہ ظاہر کرو کہ تم اسے پسند کرتی ہو اسے دھوکے میں رکھو ،میں کچھ دنوں کیلئے غائب ہوجاؤں گا۔‘‘’’کہاں جاؤ گے؟‘‘زہرہ نے پوچھا۔’’کیا کرنے جاؤ گے؟‘‘’’مجھ سے ہر بات نہ پوچھو زہرہ!‘‘خدام نے کہا۔’’میں خدائی مدد حاصل کرنے جا رہا ہوں۔‘‘’’خدا کی قسم خدام!‘‘ زہرہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’اگر تم نے مجھے دھوکا دیا تو میری روح تمہیں چین سے نہیں جینے دے گی ۔ میں ایک دن کیلئے بھی اس کافر کی بیوی بن کے نہیں رہ سکوں گی۔اس کی بیوی بننے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے تم ہی نہیں میرا مذہب بھی چھن جائے گا۔‘‘’’اگر تم مذہب کی اتنی پکی ہو تو خدا ہماری مدد کو آئے گا۔‘‘خدا م نے کہا۔’’خدام!‘‘زہرہ نے مایوسی کے لہجے میں کہا۔’’میں مذہب کی تو پکی ہوں لیکن خدا پر میرا عقیدہ متزلزل ہوتا جا رہا ہے۔
خدام کچھ اور کہنے ہی لگا تھا کہ باغ میں کام کرتے ہوئےلوگوں میں ہڑبونگ سی مچ گئی۔تین چار آدمیوں نے خدام کو پکارا۔زہرہ اٹھی اور وہیں سے پودوں میں غائب ہو گئی۔خدام نے اٹھ کر دیکھا۔کچھ دور پرے ایرانی کماندار شِمر اپنے گھوڑے پر سوار آ رہا تھا۔اس نے دور ہی سے کہا تھا کہ خدام کو اس کے پاس بھیجا جائے ۔خدام آہستہ آہستہ چلتا شمر کی طرف گیا۔’’تیز چلو!‘‘شمر نے گھوڑا روک کر دور سے کہا۔خدام نے اپنی چال نہ بدلی۔شمر نے ایک بار پھر گرج کر اسے تیز چلنے کو کہا۔خدا م اپنی ہی رفتار سے چلتا رہا۔شمر گھوڑے سے کود کر اترا اور کولہوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔باغ میں کام کرنے والے مسلمان دم بخود دیکھتے رہے۔انہیں معلوم تھا کہ شمر خدام کی ہڈی پسلی ایک کردے گا۔لیکن خدام جب اس کے سامنے جا رکا تو شمر نے ہاتھ بھی نہ اٹھایا۔’’دیکھ کمینے انسان!‘‘ شمر نے خدام سے حقارت آمیز لہجے میں کہا۔’’ میں تمہارے باپ اور تمہاری جوانی پر رحم کرتا ہوں۔آج کے بعد میں تمہیں اس لڑکی کے ساتھ نہ دیکھوں۔‘‘’’اگر تم نے مجھے اس لڑکی کے ساتھ دیکھ لیا تو پھر کیا ہو گا؟‘‘خدام نے پوچھا۔’’پھر میں تمہارے منہ پر ایک دو تھپڑ نہیں ماروں گا۔‘‘شمر نے کہا۔’’تمہیں درخت کے ساتھ الٹا لٹکا دوں گا ۔
جاؤ میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔‘‘شمر گھوڑے پر سوار ہوا اور چلاگیا۔خدام وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔’’خدام!‘‘ اسے کسی نے بلایااور کہا۔’’ادھر آ جاؤ۔‘‘پھر اسے تین چار آدمیوں کی آوازیں سنائی دیں۔’’آجاؤ خدام ……آجاؤ۔‘‘وہ پیچھے مڑا اور لوگوں کے پاس جا رکا۔سب اس سے پوچھنے لگے کہ شمر نے کیا کہا تھا۔خدام نے انہیں بتایا۔سب جانتے تھے کہ خدام کاجرم کیا ہے۔اگر یہ مسلمان آزاد ہوتے ان کی اپنی حکومت ہوتی اور یہ معاشرہ ان کا اپنا ہوتا تو وہ خدام کو برا بھلا کہتے کہ وہ کسی کی نوجوان بیٹی کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھا۔لیکن وہاں صورت مختلف تھی۔انہیں یہ بھی معلوم تھاکہ خدام برے چال چلن کا نوجوان نہیں۔اس مظلومیت میں بھی مسلمان متحد تھے۔لیکن باغ میں کام کرنے والوں میں سے ایک نے کہا کہ یہ آتش پرست ادھر کیا لینے آیا تھا۔’’اسے ادھر لایا گیا تھا۔‘‘ایک نے کہا۔’’اور لانے والا ہم میں سے کوئی ایک ہی تھا۔‘‘’’معلوم کرو وہ کون ہو سکتا ہے۔‘‘اک بوڑھے نے کہا۔’’یہاں سوال ایک لڑکے اور لڑکی کا نہیں۔یہ ظالم اور مظلوم کا معاملہ ہے۔یہ ہماری آزادی اور خودداری کامعاملہ ہے۔آج اگر اس شخص نے اس ذرا سی بات پر مخبری کی ہے تو کل وہ بہت بڑی غداری کر سکتا ہے۔‘‘سب پر خاموشی طاری ہو گئی ۔ ایک ادھیڑ عمر عورت نے جو ان آدمیوں کے پیچھے کھڑی تھی بول پڑی۔’’میں بتاتی ہوں وہ کون ہے؟‘‘اس عورت نے کہااور ان آدمیوں میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی کی طرف دیکھنے لگی۔عورت نے ہاتھ لمبا کرکے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا۔’’ابو نصر! تم وہاں اس ٹیکری کے پیچھے کھڑے کیاکر رہے تھے؟‘‘
ابو نصر کے ہونٹ ہلے لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکا۔اسی سے سب سمجھ گئے کہ یہ شخص آتش پرستوں کامخبر ہے ۔اس نے آخر اس الزام کو تسلیم نہ کیا۔’’میں تمہیں دیکھ رہی تھی۔‘‘اس عورت نے کہا۔’’تم ٹیکری کے پیچھے غائب ہو گئے اور وہاں سے شمر نکلا۔‘‘’’دیکھ ابو نصر! ‘‘ایک بوڑھے نے کہا۔’’ہمیں کوئی ڈر نہیں کہ اب تم شمرکو یہ بھی جا کر بتا دو گے کہ ہم نے تمہیں مخبر اور غدار کہا ہے ۔یہ سوچ لو کہ آتش پرست تمہیں گلے نہیں لگائیں گے۔وہ کہتے ہوں گے کہ تم ان کے غلام ہو اور اپنی قوم کے خلاف مخبری اور غداری تمہارا فرض ہے۔‘‘ابو نصر نے سر جھکا لیا۔اس پر طعنوں اور گالیوں کے تیر برسنے لگے جس کے منہ میں جو آیا اس نے کہا۔آخر ابو نصر نے سر اٹھایا ۔اس کا چہرہ آنسوؤں سے دھلا ہوا تھا اور آنسو بہے چلے جا رہے تھے۔ندامت کے یہ آنسو دیکھ کر سب خاموش ہو گئے۔’’تمہیں آخر کتنا انعام ملتا ہو گا؟‘‘ان کے ایک بزرگ نے پوچھا۔’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ابو نصر نے سسکی لینے کے انداز میں کہا۔’’میں نے یہ پہلی مخبری کی ہے ۔اگر تم لوگ مجھے موت کی سزا دینا چاہو تو مجھے قبول ہے۔‘‘’’ہم پوچھتے ہیں ،کیوں؟‘‘ایک نے کہا۔’’آخر تم نے یہ حرکت کیوں کی؟‘‘’’میری مجبوری۔‘‘ابونصرنے جواب دیا۔’’پرسوں کی بات ہے ،اس کماندار نے مجھے راستے میں روک کر کہا تھاکہ میں زہرہ کے گھر پر نظر رکھوں ۔
اس کامطلب یہ تھا کہ میں یہ نظررکھوں کہ زہرہ گھر سے بھاگ نہ جائے اور اسے کسی جوان آدمی کے ساتھ الگ تھلگ کھڑا دیکھو ں تو اسے اطلاع دوں……میں نے اسے کہا کہ میں اس لڑکی پر نظر رکھوں گا۔ لیکن میری دو بیٹیوں پر کون نظر رکھے گا۔میں نے کہا کہ شاہی فوج کے کماندار اور سپاہی ہماری بیٹیوں کو بری نظر سے دیکھتے رہتے ہیں……‘‘’’شمر میری بات سمجھ گیا،اس نے کہا کہ تمہاری بیٹیوں کو کوئی شاہی فوجی آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھے گا۔اس نے میرے ساتھ پکا وعدہ کیا کہ وہ میری بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کا پکا انتظام کرے گا……یہ میرے لیے بہت بڑا انعام تھا۔‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ بوڑھے نے کہا۔’’تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں مسلمان کہا جائے۔تم نے اپنی بیٹیوں کی عزت بچانے کیلئے اپنے بھائی کی بیٹی کی عزت کا خیال نہ کیا۔‘‘’’تجھ پر خدا کی لعنت ہو ابو نصر!‘‘ ایک اور بولا۔’’تو جانتا ہے کہ ان آتش پرستوں کے وعدے کتنے جھوٹے ہوتے ہیں۔ان میں تمہیں کوئی ایک بھی نہیں ملے گا جو کسی مسلمان سے وفا کرے۔‘‘’’اپنی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کیلئے ہم خود موجود ہیں۔‘‘ایک اور نے کہا۔’’تمہاری بیٹیاں ہماری بیٹیاں ہیں۔‘‘’’میں اسے معاف کرتا ہوں۔‘‘زہرہ کے باپ سعود نے کہا۔
’’اور میں بھی اسے معاف کرتا ہوں۔‘‘خدام بولا۔’’خدا کی قسم! میں شمر سے انتقام لوں گا۔‘‘’’جوش میں مت آ لڑکے!‘‘بزرگ عرب نے کہا۔’’کچھ کرنا ہے تو کرکے دکھا۔اور یہ بھی یاد رکھ کہ جوش میں آکہ مت بول، دماغ کو ٹھنڈا کرکے سوچ۔‘‘دوسری صبح جب یہ مسلمان کھیتوں اور باغوں میں کام کرنے کیلئے گئے تو ان میں خدام نہیں تھا۔ہر کسی نے خدام کے باپ سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟باپ پریشان تھا۔اسے صبح پتا چلا تھا کہ خدام غائب ہے۔’’زرتشت کے یہ پجاری میرے بیٹے کو کھا گئے ہیں۔‘‘خدام کے باپ نے روتے ہوئے کہا۔’’اسے انہوں نے کسی طرح دھوکے سے باہر بلایا ہو گا اور قتل کرکے لاش دریا میں بہا دی ہو گی۔‘‘سب کا یہی خیال تھا۔صرف زہرہ تھی جسے امید تھی کہ خدام خود کہیں چلا گیا ہو گا۔اس نے زہرہ کو بتایا تھا کہ کہ وہ کچھ دنوں کیلئے کہیں غائب ہو جائے گا۔زہرہ نے یہ بات کسی کو نہ بتائی بلکہ اس نے بھی یہی کہاکہ خدام کو ایرانیوں نے غائب کردیا ہے۔زہرہ نے اپنی سہیلیوں سے کہا کہ وہ دو تین روز ہی خدام کا انتظار کرے گی ۔وہ نہ آیا تو دریا میں ڈوب مرے گی۔تین چار روز بعد رات کو شمر فوج کی ایک چوکی میں بیٹھا دو نو عمر لڑکوں کا رقص دیکھ رہا تھا۔ایران کے شاہی درباروں میں ایسے لڑکوں کا رقص مقبول تھا جن کے جسم لڑکیوں کی طرح دل کش ،گداز اور لچکدار ہوتے تھے۔
انہیں ایسا لباس پہنایا جاتا تھا جس میں وہ نیم عریاں رہتے تھے۔شِمر شاہی خاندان کا فرد تھا ۔اس رات یہ دولڑکے اس نے اپنے سپاہیوں کیلئے بلائے تھے ۔شراب کا دور چل رہا تھا۔سپاہی چیخ چیخ کا داد دے رہے تھے ۔شراب میں بدمست ہوکر دو تین سپاہیوں نے بھی لڑکوں کے سات ہی ناچنا شروع کر دیا۔شمر کے حکم پر ان سپاہیوں کو دوسرے سپاہی اٹھاکر چوکی سے باہر پھینک آئے۔یہ چوکی چھوٹا سا ایک قلعہ تھا۔لیکن اس کے دروازے رات کو بھی کھلے رہتے تھے۔ایرانیوں کو کسی دشمن کے حملے کا خطرہ نہیں تھا۔وہ اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔رقص جب اپنے عروج کو پہنچا اور شراب کا نشہ شمر اور اس کے سپاہیوں کے دماغ کو ماؤف کرنے لگا تو سنسناتا ہوا ایک تیر آیا جو شمر کی گردن میں ایک طرف سے لگا اور اس کی نوک دوسری طرف سے باہر نکل گئی۔شمر دونوں ہاتھ اپنی گردن پر رکھ کر اٹھا۔سپاہیوں میں ہڑبونگ مچ گئی ۔وہ سب شمر کے گرد اکھٹے ہو گئے ۔تین چار اور تیر آئے ۔تین چار چیخیں سنائی دیں ۔پھر ان ایرانیوں پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔انہیں سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملااور وہ کٹنے لگے۔ان میں سے جو بھاگ کر دروازوں کی طرف گئے وہ دروازوں میں کٹ گئے۔ چوکی والوں کو کہیں سے بھی مدد نہیں مل سکتی تھی۔کسی بھی دروازے سے کوئی باہر نہیں نکل سکتا تھا۔انہیں ہتھیار اٹھانے کی تو مہلت ہی نہیں ملی تھی۔اس حملے میں جو بچ گئے وہ زمین پر لیٹ گئے ۔یہ ایک طوفان تھا یا بگولہ جو غیر متوقع طورپر آیا اور جب گزر گیا تو اپنے ساتھ وہ تمام مال و دولت جو اس چوکی میں تھا لے گیا ۔پیچھے لاشیں رہ گئیں یا تڑپتے ہوئے زخمی یا وہ اچھے بھلے ایرانی سپاہی جو جان بچانے کیلئے لاشوں اور زخمیوں میں لیٹ گئے تھے۔
صبح ہوئی ۔مسلمان کھیتوں اور باغوں میں کام کرنے کیلئے گھروں سے نکل رہے تھے کہ گھوڑ سوار ایرانی فوج نے ان کی بستی کو گھیرے میں لے لیا۔دوسری چوکی کو اس وقت اس چوکی پر حملے کی اطلاع ملی تھی جب حملہ آور اپناکام کرکے بہت دور نکل گئے تھے۔مسلمانوں کو کام پرجانے سے روک لیا گیا ۔ایرانی فوجیوں نے مردوں کو الگ اکھٹا کرکے کھڑا کر دیا اور ان کے گھروں سے عورتوں کو باہر نکال کر مردوں سے دور کھڑا رہنے کا حکم دیا۔فوجی ان کے گھروں میں گھس گئے اور اس طرح تلاشی لی جیسے ان کے مکانوں کے فرش بھی کھودکر دیکھے ہوں۔انہیں کسی گھر سے ایسی کوئی چیز نہ ملی جو شک پیدا کرتی البتہ سپاہیوں کو اپنے کام کی جو چیزیں نظر آئیں وہ انہوں نے اٹھالیں۔پھر انہوں نے عورتوں اور مردوں کو اکھٹا کھڑا کرکے انہیں دھمکیاں دیں۔مسلمانوں کے ساتھ یہ سلوک ان کیلئے نیانہیں تھا۔کسی نہ کسی بہانے ان کے گھروں کی تلاشی ہوتی ہی رہتی تھی۔اس کے بعد انہیں اسی طرح کی دھمکیاں ملتی تھیں لیکن اب ایرانیوں کو معقول بہانہ ملاتھا۔’’رات ابلہ کی ایک مضافاتی چوکی پر بہت سے آدمیوں نے شبخون مارا ہے۔‘‘ایک ایرانی کماندار نے مسلمانوں سے کہا۔’’ہمارا ایک کماندار اور ساٹھ سپاہی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ہیں اگر تم میں کوئی مرد یا عورت اس گروہ کے کسی ایک آدمی کو بھی پکڑ وائے گا اسے انعام ملے گا۔نقد انعام کے علاوہ اسے اس فصل کا آدھا حصہ ملے گا۔‘‘اس نے سب پر نگاہ دوڑائی اور پوچھا۔’’ایک دوسرے کو دیکھ کر بتاؤ کہ تم میں کون غیر حاضر ہے۔‘‘سب نے ادھر ادھر دیکھا لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ کون غیر حاضر ہے۔ان کی نگاہیں خدام کو ڈھونڈ رہی تھیں۔وہ تین چار دنوں سے بستی سے غائب تھا۔ سب نے دیکھا کہ خدام وہاں موجود تھا۔سب نے سکون کی سانس لی۔پھر بہت سی آوازیں اٹھیں کہ کوئی بھی غیر حاضر نہیں۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟