🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 23*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *23* ۔۔۔۔
مسیلمہ کذاب  کذاب دربار لگائے بیٹھا تھا۔ ٹھنگنے قد والا یہ بد صورت انسان مکمل نبی بن چکا تھا۔اس کا قبیلہ بنو حنیفہ تو اسے نبی مان ہی چکا تھا۔دوسرے قبیلے کے لوگ جوق در جوق اس کی بیعت کیلئے آتے اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتے تھے۔لوگوں نے اس کی قوت اور کرامات دیکھ لی تھیں۔اب اس کے پیروکاروں نے دو معجزے اور دیکھ لیے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کے دو نامور سالاروں کو ذرا ذرا سی دیر میں میدان سے بھگا دیا تھا۔مذہبی اور نظریاتی کے لحاظ سے تو مسلمان ریشم کی طرح نرم تھے لیکن میدانِ جنگ میں وہ فولاد سے زیادہ سخت اور بجلیوں کی طرح قہر بن جاتے تھے۔جنگی لحاظ سے مسلمان دہشت بن گئے تھے۔عکرمہؓ اور شرجیلؓ نے اپنی غلطی اور کج فہمی سے شکست کھائی تھی۔لیکن بنو حنیفہ نے انہیں اپنے کذاب نبی کے معجزوں اور کرامات کے کھاتے میں لکھ دیا۔وہ کہتا تھا کہ مسلمانوں کو مسیلمہ کذاب  کے سوا کون شکست دے سکتا ہے۔’’نہار الرجال!‘‘مسیلمہ کذاب  نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے اپنے دستِ راست نہار الرجال سے کہا۔’’اب ہمیں مدینہ کی طرف کوچ کی تیاری کرنی چاہیے،مسلمانوں میں اب وہ دم خم نہیں رہا۔
‘‘ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نہارالرجال بن عنفوہ وہ شخص تھا جس نے رسولِ کریمﷺ کے سائے تلے بیٹھ کر قرآن پڑھا اور مذہب پر عبور حاصل کیا تھااور اسے مبلغ بنا کر مسیلمہ کذاب  کے علاقے میں بھیجا گیا تھا۔مگر اس پر مسیلمہ کذاب  کا جادو چل گیا۔اس نے مسیلمہ کذاب  کی نبوت کا پرچار شروع کر دیا۔آیاتِ قرآنی کو توڑ موڑ کر اس نے ان لوگوں کو بھی مسیلمہ کذاب  کا پیروکار بنا دیا جو اسلام قبول کر چکے تھے۔مسیلمہ کذاب  نے اسے اپنا معتمد ِ خاص بنا لیا تھا۔یہ شراب اور نسوانی حسن کا جادو تھا ۔خود مسیلمہ کذاب  جس کی شکل و صورت مکروہ سی تھی اور قد مضحکہ خیز حد تک ٹھنگنا تھا۔عورتوں میں زیادہ مقبول تھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ عورتوں کیلئے اس میں ایک مخصوص کشش تھی۔سجاع جیسی عورت جو قلوپطرہ کی طرح جنگی قوت لے کر مسیلمہ کذاب  کو تہہ تیغ کرنے آئی ،صرف ایک ملاقات میں اس کی بیوی بن گئی تھی۔یہ مسیلمہ کذاب  کی جسمانی طاقت اور مقناطیسیت تھی۔اب تو وہ بہت بڑی جنگی طاقت بن گیا تھا۔عکرمہؓ اور شرجیلؓ کو پسپا کرکے اس کے اپنے اور اس کے لشکر کے حوصلے بڑھ گئے تھے۔وہ اب مدینہ پر چڑھائی کی باتیں کر رہا تھا۔
وہ دربار میں بیٹھا نہارالرجال سے کہہ رہا تھا کہ مدینہ کی طرف کوچ کی تیاری کرنی چاہیے۔نہارالرجال کچھ کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ مسیلمہ کذاب  کو اطلاع دی گئی کہ ایک جاسوس آیا ہے۔مسیلمہ کذاب  نے اسے فوراً بلالیا۔’’مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’تعداد دس اور پندرہ ہزار کے درمیان ہے۔‘‘’’تم نے جب دیکھا،یہ لشکر کہاں تھا؟‘‘مسیلمہ کذاب  نے پوچھا۔’’وادیٔ حنیفہ سے کچھ دور تھا۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’اب اور آگے آ چکا ہو گا۔‘‘’’ان بد بختوں کوموت وادیٔ حنیفہ میں لے آئی ہے۔‘‘مسیلمہ کذاب  نے رعونت سے کہا۔’’انہیں معلوم نہیں کہ ان کا دس پندرہ ہزار کا لشکر میرے چالیس ہزار شیروں کے ہاتھوں چیرا پھاڑا جائے گا۔‘‘وہ اٹھ کھڑا ہوا۔تمام درباری احترام کیلئے اٹھے۔وہ نہار الرجال کو ساتھ لے کر دربار سے نکل گیا۔اس نے اپنا گھوڑا تیار کرایا۔نہار الرجال کو ساتھ لیا اور دونوں گھوڑے انہیں یمامہ سے دور لے گئے۔وہ وادیٔ حنیفہ کی طرف جارہے تھے۔’’اس وادی سے وہ زندہ نہیں نکل سکیں گے۔‘‘راستے میں مسیلمہ کذاب  نے نہارالرجال سے کہا۔’’میرے اس پھندے سے وہ واقف نہیں۔‘‘نہارالرجال نے قہقہہ لگایا اور کہا۔’’آج محمدﷺ کا اسلام وادیٔ حنیفہ میں دفن ہو جائے گا۔‘‘
 وہ آدھا راستہ طے کر چکے تھے کہ آگے سے ایک گھوڑ سوار گھوڑا سر پٹ دوڑاتا آ رہا تھا۔مسیلمہ کذاب  کو دیکھ کر وہ رک گیا۔’’یانبی!‘‘گھوڑ سوار نے ہانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’مجاعہ بن مرارہ کو مسلمانوں نے قید کر لیاہے۔‘‘’’مجاعہ­ کو؟‘‘مسیلمہ کذاب  نے حیرت سے کہا۔’’مجاعہ کو مسلمانوں نے ……۔‘‘نہارالرجال نے ڈری ہوئی سی آواز میں کہا۔’’مجاعہ کی ٹکر کا ہمارے پاس اور کوئی سالار نہیں ۔‘‘مسیلمہ کذاب  نے کہا۔’’مجاعہ کا قید ہو جانا ہمارے لئے اچھا شگون نہیں۔‘‘ مجاعہ بن مرارہ مسیلمہ کذاب  کا بڑا ہی قابل اور دلیر سالار تھا۔وہ خالدؓ سے ملتا جلتا تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ کے مقابلے میں لڑنے اور جنگی چالیں چلنے کی اہلیت صرف مجاعہ میں تھی۔مجاعہ مسلمانوں کے ہاتھ اس طرح چڑھ گیا تھا کہ اس کے کسی قریبی رشتے دار کو بنی عامر اور بنی تمیم کے کچھ لوگوں نے قتل کر دیا تھا۔مجاعہ نے مسیلمہ کذاب  سے اجازت لی تھی کہ وہ لشکر کے چالیس سوار ساتھ لے جا کر اپنے رشتے دار کے قتل کا انتقام لے لے۔مسیلمہ کذاب  اپنے اتنے قابل سالار کو مایوس نہیں کر سکتا تھا۔اس نے اسے اجازت دے دی۔مجاعہ اپنے دشمن کی بستی میں گیا اور انتقام لے کر واپس آ رہا تھا ۔
اسے معلوم نہیں تھا کہ جس علاقے کو وہ محفوظ سمجھتا تھا وہ اب محفوظ نہیں۔اس نے اپنے سواروں کو ایک جگہ آرام کیلئے روک لیا۔وہ سب اپنا فرض کامیابی سے پوراکر آئے تھے۔گھوڑوں کی زینیں اتار کر وہ لیٹ گئے اور گہری نیند سو گئے۔خالدؓ کا لشکر اسی طرف آ رہا تھا۔علی الصبح اس لشکر کا ہراول دستہ وہاں پہنچا جہاں مجاعہ اپنے چالیس سواروں کے ساتھ گہری نیند سویا ہوا تھا۔ان سب کو مجاہدین نے جگایا۔ان سے ہتھیار اور گھوڑے لے لیے اور انہیں حراست میں لے کر پیچھے خالدؓ کے پاس لے گئے۔خالدؓ کو معلوم نہیں تھاکہ مجاعہ مسیلمہ کذاب  کا بڑا قیمتی سالار ہے۔خالدؓ اسے بھی محض سوار یا سپاہی سمجھ رہے تھے۔انہوں نے دراصل بڑا موٹا شکار پکڑا تھا۔انہوں نے یہ تو بتا دیا کہ وہ مسیلمہ کذاب  کی فوج کے آدمی ہیں لیکن مجاعہ کا رتبہ ظاہرنہ ہونے دیا۔’’کیا تم ہمارے مقابلے کیلئے آئے تھے؟‘‘خالدؓ نے ان سے پوچھا۔’’نہیں۔‘‘ایک نے جواب دیا۔’’ہمیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے۔ہم بنی عامر اور بنی تمیم سے اپنے ایک خون کا بدلہ لینے گئے تھے۔‘‘
’’میں نے مان لیا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں تمہاری جان بخشی کر سکتا ہوں۔اب میرے اس سوال کا جواب دو کہ تم کسے اﷲکا سچا رسول مانتے ہو اور کس پر ایمان رکھتے ہو؟‘‘’’بے شک مسیلمہ کذاب  اﷲ کا سچا رسول ہے۔‘‘ایک سوار نے جواب دیا۔’’خدا کی قسم!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تم میری توہین کر دیتے تو میں تمہیں بخش دیتا ،اپنے رسولﷺ کی توہین کو میں کس طرح برداشت کر سکتا ہوں؟‘‘’’تم اپنے رسول کو مانو،ہم اپنے نبی کو مانتے ہیں۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’اصل بات بھی یہی ہے کہ مسیلمہ کذاب  رسالت میں محمد ﷺکا برابر کا حصہ دار ہے۔‘‘’’ہم سب کا عقیدہ یہی ہے۔‘‘سواروں نے کہا۔’’ایک نبی تم میں سے ہے ۔ایک نبی ہم میں سے ہے۔‘‘ خالدؓ نے تلوار کھینچی اور ایک ہی وار سے ایک سوار کا سر اڑا دیااور حکم دیا کہ سب کو قتل کر ڈالو۔ خالدؓ کے آدمی آگے بڑھے اور مجاعہ کو پکڑ کر اس کا سر کاٹنے کیلئے جھکا دیا۔اسے قتل کرنے والے کی تلوار ہوا میں بلند ہوئی۔’’ہاتھ روک لو۔‘‘قیدی سواروں میں سے ایک جس کا نام ساریہ بن عامر تھا،چلایا۔’’اس آدمی کو زندہ رہنے دو ۔یہ تمہارے کام آ سکتا ہے۔‘‘تب انکشاف ہوا کہ مجاعہ بنو حنیفہ کے سرداروں میں سے ہے لیکن یہ پھر بھی نہ بتایا گیا کہ یہ سالار بھی ہے۔
خالدؓ دور اندیش تھے،کسی قبیلے کا سردار بڑا قیمتی یرغمال ہوتا ہے۔اسے کسی نہ کسی موقع پر استعمال کیا جاسکتا تھا۔خالدؓ مجاعہ کے پاؤں میں بیڑیاں ڈلوا کر اسے اپنے خیمے میں لے گئے اور اسے اپنی بیوی لیلیٰ کے حوالے کردیا۔باقی سب کو قتل کرا دیا۔مسیلمہ کذاب  کے لئے مجاعہ کی گرفتاری کوئی معمولی نقصان نہیں تھا۔لیکن وادیٔ حنیفہ وہ پھندا تھا جو اس نقصان کو پورا کر سکتا تھا۔اس کے علاوہ مسیلمہ کذاب  کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تھی اور مسلمانوں کی تعداد تیرہ ہزارتھی۔مسیلمہ کذاب  کے پاس گھوڑ سواراور شتر سوار دستے زیادہ تھے۔بعض مؤرخوں نے مسیلمہ کذاب  کے لشکر کی تعداد تیس ہزار لکھی ہے ۔بہر حال تعداد چالیس ہزار سے زیادہ تھی ،کم نہ تھی۔ خالدؓ کی ایک کمزوری تو یہ تھی کہ لشکر کی تعداد خطرناک حد تک کم تھی ،دوسری کمزوری یہ کہ وہ اپنے مستقر سے بہت دور تھے جہاں کمک اور رسد کا پہنچنا ممکن نہیں تھا۔انہیں صرف ایک سہولت حاصل تھی۔اس علاقے میں پانی اور جانوروں کیلئے ہرے چارے کی کمی نہیں تھی۔وہ زرخیز کھیتوں اور باغوں کا علاقہ تھا۔مسیلمہ کذاب  کو ہرے بھرے کھیتوں اور باغوں کا غم کھا رہا تھا۔
اس نے نہارالرجال سے کہا کہ وہ ایسے انداز سے لڑنا چاہتا ہے کہ مدینہ کا لشکر بستیوں کو ،کھیتوں کو اور باغوں کو نہ اجاڑ سکے۔تاریخوں میں لکھا ہے کہ مسیلمہ کذاب  کسی قسم کے تذبذب ،اضطراب یا پریشانی میں مبتلا نہ تھا۔وہ اس طرح سے بات کرتا تھا جیسے اسے اپنی فتح کا یقین ہو۔وہ بڑی موزوں بنیادوں پر کھڑابات کر رہا تھا۔اس کا چالیس ہزار کا لشکر برتر بھی تھا اور یہ سب مسیلمہ کذاب  کے نام پر جانیں قربان کرنے والے لوگ تھے۔مسیلمہ کذاب  کی نبوت کا تحفظ ان سب کیلئے جنون بن چکا تھا۔خالدؓ پھندے میں آنے والے سالار نہیں تھے۔مُوتہ میں وہ پھندے میں آ چکے تھے۔یمامہ کے علاقوں سے وہ واقف نہیں تھے۔انہوں نے دیکھ بھال اور آگے کی زمین کا جائزہ لینے کیلئے ایک پارٹی بھیج دی تھی۔رات کو اس پارٹی نے جو رپورٹ دی ،اس کے مطابق خالدؓ نے اپنا رستہ بدل دیا تاکہ حنیفہ کی وادی کے اندر سے نہ گزرنا پڑے۔وہ ذرا دور کاچکر کاٹ کر آگے نکل گئے۔مسیلمہ کذاب  نے بھی دیکھ بھال کا انتظام کر رکھا تھا۔اسے اطلاع ملی کہ مدینہ والے آگے نکل گئے ہیں تو اس نے اپنا لشکر بڑی تیزی سے عقربا کے میدان میں منتقل کر دیا۔خالدؓ کی نظر اسی میدان پر تھی لیکن دشمن پہلے پہنچ گیا تھا۔
خالدؓ نے ایک جگہ دیکھ لی جو میدان سے بلند تھی ،انہوں نے وہیں اپنا لشکر روک لیا۔وہاں سے وہ مسیلمہ کذاب  کے پڑاؤ کو اچھی طرح دیکھ سکتے تھے۔ مسیلمہ کذاب  نے اسی میدان کو بہتر اور موزوں سمجھاتھا۔ایک تو اس نے اپنے لشکر کا تمام تر سازوسامان اور مال و اسباب اپنی خیمہ گاہ سے پیچھے رکھا تھا۔دوسرے یہ کہ کھیتیاں اور باغات بھی لشکر کے پیچھے تھے۔ان سب کی وہ بڑی اچھی طرح سے حفاظت کر سکتاتھا۔اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ خالدؓ یہاں سے آگے یمامہ کو بڑھے تو وہ ان پر عقب سے حملہ کر دے گا۔خالدؓ بھی اس صورت کو بھانپ چکے تھے کہ وہ یہاں سے آگے بڑھے تو مارے جائیں گے۔مسیلمہ کذاب  نے اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔اس نے دائیں حصے کی قیادت نہارالرجال کو دی۔بائیں حصے کا سالار محکم بن طفیل تھا اور درمیان میں یعنی قلب میں وہ خود رہا۔اس نے اپنے بیٹے کو جس نام شرجیل تھا کہا کہ وہ لشکر سے خطاب کرے۔ایک شرجیل بن حسنہ خالدؓ کے لشکر کا سالار تھا۔مسیلمہ کذاب  کے بیٹے کا نام بھی شرجیل تھا۔شرجیل گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے لشکر کے تینوں حصوں کے سامنے باری باری جاکر کہا۔’’اے بنو حنیفہ!آج اپنی آن اور اپنی آبرو پر مر مٹنے کا وقت آگیا ہے۔
خدا نے تمہارے نبی کو نبوت دی ہے۔آج اپنی نبوت اور آبرو کی خاطر اس طرح لڑو کہ مسلمانوں کو پھر کبھی تمہارے سامنے آنے کی جرات نہ ہو۔اگر تم نے پیٹھ دکھائی تو دشمن تمہاری بیویوں ،تمہاری بہنوں اور تمہاری بیٹیوں کو لونڈیاں بنا لے گااور اس زمین پر ہی جو تمہاری زمین ہے ،ان کی آبرو لوٹے گا۔کیا تم یہ منظر برداشت کرلو گے؟‘‘مسیلمہ کذاب  کے لشکرکو جیسے آگ لگ گئی ہو۔وہ مسیلمہ کذاب  کے نام کے نعرے لگانے لگے ۔گھوڑے کھر مارمارکر ہنہنانے لگے۔خالدؓ اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار تھے کہ مسیلمہ کذاب  کا لشکر ان پر فوراً حملہ کر دے گا۔نفری کی افراط کے زور پر مسیلمہ کذاب  کو حملہ کر دیناچاہیے تھا لیکن مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ جنگ کے فن میں مہارت رکھتا تھا۔اس نے حملے میں پہل نہ کی۔اس کا خیال تھا کہ پہلے خالدؓ حملہ کرے اور دفاع میں لڑا جائے اور جب مسلمان تھک جائیں تو دائیں بائیں سے حملے کرکے انہیں ختم کر دیا جائے۔اس دور کی تحریریں بتاتی ہیں کہ خالدؓ مسیلمہ کذاب  کی چال نہ سمجھ سکے۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ مرتدین سے آمنے سامنے کی جنگ اس طرح لڑی جائے کہ اسے اپنے دستوں کو اِدھر ُادھرکرنے کی مہلت نہ ملے اور وہ دفاعی لڑائی لڑتا رہے۔
خالدؓ کو توقع تھی کہ تیرہ ہزار سے چالیس ہزار کو اسی طریقے سے شکست دی جا سکتی ہے کہ اسے کوئی چال چلنے کا موقع نہ دیا جائے۔اس وقت کے رواج کے مطابق خالدؓ کو بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ اپنے لشکر کا حوصلہ بڑھائیں ۔خلیفۃ المسلمین ؓ نے خالدؓ کی مددکیلئے جو دستے بھیجے تھے ان میں قرآن کے حافظ اور خوش الحان قاری بھی خاصی تعداد میں تھے۔(اس دور کے حافظِ قرآن اور قاری ماہر تیغ زن اورلڑنے والے بھی ہوتے تھے۔وہ مسجدوں میں بیٹھے رہنے والے لوگ نہیں تھے۔ )اس کے علاوہ خالدؓ کے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ہر میدان میں اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو شکستیں دی تھیں۔خالدؓ کے لشکر میں عمرؓ کے بھائی زیدؓ بن الخطاب اور ان کے بیٹے عبداﷲؓ بھی تھے۔اسکے علاوہ ابو دجانہؓ بھی تھے جو جنگِ احد میں ان تیروں کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے جو رسولِ کریمﷺ پر آ رہے تھے۔انہوں نے اپنے جسم کو آپﷺ کی ڈھال بنا دیا تھا۔خلیفۃ المسلمین ؓ کے بیٹے عبدالرحمٰنؓ بھی تھے اور ایک خاتون اُمّ ِ عمارہؓ اپنے بیٹے کے ساتھ گئی تھیں ۔اُمّ ِ عمارہؓ جنگِ احد میں باقاعدہ لڑی تھیں۔ان کے علاوہ وحشی نام کا حبشیؓ بھی خالدؓ کے ساتھ تھا۔جس کی پھینکی ہوئی برچھی نشانے سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوتی تھی۔قبولِ اسلام سے پہلے جنگِ احد میں اسی وحشی ؓنے حمزہ ؓ کو برچھی پھینک کر شہید کیا تھا۔
مجاہدین کالشکر تعداد میں تو کم تھا لیکن جوشِ جہاد اور جذبے کے لحاظ سے کمتر نہ تھا۔ خالدؓ نے خود بھی اپنے لشکر کا حوصلہ بڑھایا اور قرآن کے حافظوں اور قاریوں سے کہاکہ وہ مجاہدینِ مدینہ کو آیاتِ قرآنی سناکر بتائیں کہ وہ گھروں سے اتنی دور کس مقصد کیلئے لڑنے آئے ہیں۔قاری اپنی پر اثر آوازوں میں لشکر کو وہ آیات سنانے لگے جن میں مسلمانوں کیلئے جہاد فرض قرار دیا گیا ہے ۔یہ سلسلہ رات بھر چلتا رہا ۔اﷲکے سوا اور کون تھا جو ان قلیل تعداد مجاہدین،اسلام کی مدد کرتا۔مؤرخین کے مطابق مجاہدین کے اس لشکر نے تمام رات عبادت اور دعاؤں میں گزار دی۔دسمبر ۶۳۲ء کے تیسرے ہفتے کی ایک صبح طلوع ہوئی تو خالدؓ نے مسیلمہ کذاب  کے لشکر پر حملے کا حکم دے دیا۔خالدؓ نے بھی اپنے لشکرکو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔قلب کی قیادت انہوں نے اپنے پاس رکھی تھی ،ایک طرف ابو حذیفہؓ اور دوسری طرف زیدؓ بن خطاب تھے۔مسلمان جس قہروغضب سے حملہ آور ہوئے اور جس بے جگری سے لڑے وہ دیکھ کر خالدؓ کو امید بندھ گئی کہ وہ مرتدین کے لشکر کو اکھاڑ پھینکیں گے ۔خود خالدؓ سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے۔لیکن خاصا وقت گزر جانے کے بعد بھی مسیلمہ کذاب  کا لشکر جہاں تھا وہیں رہا۔
بہت سے مجاہدین پہلے ہلّے میں ہی شہید ہو گئے۔دن گزرتا جا رہا تھا۔میدانِ جنگ کا قہر بڑھتا جا رہا تھا۔ایک شور تھا،چیخ و پکار تھی ،کربناک آہ و بکا تھی جو زمین و آسمان کوہلا رہی تھی ۔مسیلمہ کذاب  کا لشکر گھوم پھر کر لڑ رہاتھا۔اس کی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کو گھیرے میں لے لے اور مسلمانوں کا عزم یہ تھا کہ مرتدین کے اس لشکر کے قدم اکھاڑنے ہیں اور یمامہ پر قبضہ کرنا ہے۔دونوں لشکر اپنی اپنی کوششوں میں ناکام ہو رہے تھے۔اگر کامیاب تھا تو وہ مسیلمہ کذاب  کالشکر تھا۔مسیلمہ کذاب  بہت چالاک اور ہوشیار جنگی قائد تھا۔وہ جائزہ لیتا رہا کہ مسلمان کب تھک کر چور ہوتے ہیں ،آدھا دن گزر گیا۔زمین خون سے لال ہوتی جا رہی تھی ۔زخمی انسان بھاگتے دوڑتے گھوڑوں تلے کچلے جا رہے تھے ۔مسلمان اس قدر بے جگری سے لڑنے کی وجہ سے کچھ جلدی تھک گئے۔مسیلمہ کذاب  نے بھانپ لیا۔اس نے اپنے لشکر کے ایک تازہ دم حصے کو مسلمانوں پر حملے کا حکم دے دیا۔اس کے لشکر کا یہ حصہ طوفانی موج کی طرح آیا۔مسیلمہ کذاب  نے سب کو یقین دِلارکھا تھا کہ جو اس کی نبوت کی خاطر لڑتا ہوامرے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ خالدؓ نے تھوڑی ہی دیر بعد محسوس کرلیا کہ اس کے لشکر پر دباؤ بہت تیز ہو گیا ہے۔
خالدؓ کوئی چال سوچ ہی رہے تھے کہ مسلمانوں نے پیچھے ہٹنا شروع کردیا۔آگے والے دستے تیزی سے پیچھے ہٹے۔پیچھے والے ان سے زیادہ تیزی سے پسپا ہوئے۔سالاروں نے بہت شور مچایا۔ لشکر کو پکارا۔نعرے لگائے لیکن مرتدین کا دباؤ ایسے قہر کی صورت اختیار کر گیا تھاجسے مسلمان برداشت نہ کر سکے اور ان میں بد نظمی پھیل گئی۔دیکھا دیکھی مسلمان ایسی بری طرح پسپا ہوئے کہ اپنی خیمہ گاہ میں بھی نہ رکے اور دور پیچھے چلے گئے۔مسیلمہ کذاب  کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا۔احد کے میدان میں بھی مسلمانوں نے اپنے لئے ایسی ہی صورتِ حال پیداکر لی تھی اور ہزیمت اٹھائی تھی۔یہ ان کی دوسری پسپائی تھی جو بھگدڑ کی صورت اختیار کر گئی تھی۔مسیلمہ کذاب  کا لشکر جب مسلمانوں کی خیمہ گاہ تک پہنچا تو اس نے وہاں لوٹ مار شروع کرد ی۔وہاں انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔خالدؓ اور ان کے سالار دوڑ دوڑ کر اپنے لشکر کو روکنے کیلئے چیخ چلا رہے تھے لیکن مسلمان اپنی خیمہ گاہ سے خاصی دور جا کر رکے۔مسیلمہ کذاب  کے کچھ آدمیوں کو خالدؓ کا خیمہ مل گیا۔وہ اس میں جا گھسے۔وہاں انہیں زیادہ مال و دولت ملنے کی توقع تھی لیکن اس خیمے میں انہیں دو اتنے قیمتی انسان مل گئے جن کی انہیں توقع نہیں تھی۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے
ایک تو ان کا اپنا سردار اور سالار مجاعہ تھا جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھااور اس کے ساتھ خالدؓ کی نئی بیوی لیلیٰ ام تمیم تھی جس کے حسن کے چرچے انہوں نے سن رکھے تھے لیکن اسے دیکھا کبھی نہیں تھا۔مجاعہ کو تو انہوں نے پہچان لیا۔لیلیٰ کے متعلق انہیں مجاعہ نے بتایا کہ یہ کون ہے۔بیک وقت دو تین آدمی لیلیٰ کی طرف لپکے۔وہ اسے قتل کرنا یا اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔’’رک جاؤ۔‘‘انکے قیدی سردار مجاعہ نے حکم دیا۔’’دشمن کے آدمیوں کے پیچھے جاؤ۔ابھی عورتوں کے پیچھے پڑنے کا وقت نہیں ۔میں اب اس کا نہیں یہ میری قیدی ہے۔‘‘ان کے سردار کا حکم اتنا سخت تھا کہ وہ بڑی تیزی سے خیمے سے نکل گئے ۔انہیں اتنا بھی ہوش نہ رہا کہ اپنے سردار کی بیڑیاں ہی توڑ جاتے۔’’تم نے مجھے ان آدمیوں سے کیوں بچایا ہے؟‘‘لیلیٰ نے مجاعہ سے پوچھا۔’’کیا تم مجھے اپنا مالِ غنیمت سمجھتے ہو؟اگر تمہاری نیت یہی ہے تو کیا تمہیں یہ احساس نہیں کہ میں تمہیں قتل کر سکتی ہوں۔‘‘’’تم نے میرے ساتھ جو اچھا سلوک قید کے دوران کیا ہے میں اس کے صلے میں اپنی جان دے سکتا ہوں۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’خدا کی قسم! میری بیڑیاں ٹوٹ کر تمہارے پاؤں میں پڑ جائیں تو بھی میں تمہیں مالِ غنیمت یا لونڈی نہیں سمجھوں گا۔تم نے مجھے قیدی نہیں مہمان بنا کر رکھا ہے۔‘‘
’’میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’یہ مسلمانوں کی روایت ہے کہ دشمن ان کے گھر چلا جائے تو وہ اسے معزز مہمان سمجھتے ہیں۔اگر تم میرے گھر میں ہوتے تو میں تمہیں اور زیادہ آرام پہنچا سکتی تھی۔‘‘’’لیلیٰ!‘‘مجاعہ نے کہا۔’’کیا تجھے ابھی احساس نہیں ہوا کہ تمہاراخاوند شکست کھا کر بھاگ گیا ہے اور تم میرے قبضے میں ہو؟‘‘’’فتح اور شکست کا فیصلہ خدا کرے گا۔‘‘لیلیٰ نے جواب دیا۔’’میرا خاوند اس سے زیادہ سخت چوٹیں برداشت کر سکتا ہے۔‘ ’’کم فہم خاتون!‘‘مجاعہ نے فاتحانہ مسکراہٹ سے کہا۔’’کیا تجھے ابھی تک احساس نہیں ہوا کہ خدا مسیلمہ کذاب  کے ساتھ ہے جو اس کا سچا نبی ہے؟محمد ﷺکی رسالت سچی ہوتی……‘‘’’مجاعہ!‘‘لیلیٰ نے گرج کر اس کی بات وہیں ختم کر دی اور بولی۔’’اگر تو نے محمدﷺکی رسالت کے خلاف کوئی بات کی تو مجھ پر تیرا قتل فرض ہو جائے گا۔میں دیکھ رہی ہوں کہ میرا لشکرمجھے اس خیمہ گاہ میں اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔جہاں میرے دین کے دشمن لوٹ مار کر رہے ہیں۔لیکن میرے دل پر ذرا سا بھی خوف نہیں۔خوف اس لئے نہیں کہ مجھے اﷲ پر پورا بھروسہ ہے۔‘‘مجاعہ خاموش رہااور وہ کچھ دیر نظریں لیلیٰ کے چہرے پر گاڑے رہا۔باہر فاتح لشکر کا فاتحانہ غل غپاڑہ تھا۔
وہ مسلمانوں کے خیموں کو پھاڑ پھاڑ کر ان کے ٹکڑے بکھیر رہے تھے۔مجاعہ اور لیلیٰ کو توقع تھی کہ ابھی مسیلمہ کذاب  کے آدمی آئیں گے اوردونوں کو ساتھ لے جائیں گے لیکن اچانک غل غپاڑہ ختم ہو گیا اور لوٹ مار کرنے والے لوگ بھاگتے دوڑتے خیمہ گاہ سے نکل گئے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مسیلمہ کذاب  کی طرف سے حکم آیا تھا کہ فوراً واپس میدانِ عقربا میں پہنچو کیونکہ مسیلمہ کذاب  نے دیکھ لیا تھا کہ مسلمان بڑی تیزی سے اکھٹے ہو کر منظم ہو رہے تھے۔مسیلمہ کذاب  کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔وہ مسلمانوں کی شجاعت اور ان کے جذبے سے مرعوب تھا۔مجاعہ اور لیلیٰ خیمے میں اکیلے رہ گئے۔مجاعہ کے چہرے پہ جو رونق آئی تھی وہ پھر بجھ گئی۔خالدؓ اتنی جلدی ہارماننے والے نہیں تھے ۔ضائع کرنے کیلئے ان کے پاس ایک لمحہ بھی نہیں تھا۔انہوں نے اپنے سالاروں اور کمانداروں کو اکھٹا کیا اور انہیں اس پسپائی پر شرم دلائی ،اتنے میں ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آیا اور سالاروں وغیرہ کے اجتماع میں آ رکا۔وہ عمرؓ کے بھائی زیدؓ بن خطاب تھے۔’’خداکی قسم ابنِ ولید!‘‘زیدؓ بن خطاب نے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے جوشیلی آواز میں کہا۔’’میں نے مسیلمہ کذاب  کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا ہے……میں نے نہارالرجال کواپنے ہاتھوں قتل کیا ہے۔
یہ اﷲ کا اشارہ ہے کہ فتح ہماری ہوگی۔‘‘نہارالرجال کا ہلاک ہو جانا مسیلمہ کذاب  کیلئے کوئی معمولی نقصان نہیں تھا۔بتایا جا چکا ہے کہ وہ مسیلمہ کذاب  کا معتمدِ خاص واحد مشیر اور صحیح معنوں میں دستِ راست تھا۔خالدؓ اور ان کے سالاروں نے یہ خبر سنی تو ان کے چہروں پر تازہ حوصلوں کی سرخی آ گئی۔’’کیا تم جانتے ہو کہ ہمیں کس جرم کی سزا ملی ہے؟‘‘خالدؓ نے غصیلی آواز میں کہا۔’’مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے لشکر میں دل پھٹ گئے تھے ۔لڑائی سے پہلے ہی ہمارے لشکر کے مہاجر کہنے لگے تھے کہ بہادری میں انصار اور بدّو ان کامقابلہ نہیں کر سکتے۔انصار کہتے تھے کہ مسلمانوں میں ان جیسا بہادر کوئی نہیں اور بدوؤں نے کہا کہ مکہ اور مدینہ کے لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ جنگ ہوتی کیا ہے……تم جانتے ہو کہ ہم میں مکہ کے مہاجر بھی ہیں ،مدینہ کے انصار بھی ہیں اور اردگرد کے علاقوں سے آئے ہوئے بدو بھی ہمارے ساتھ ہیں،ان لوگوں نے ایک دوسرے پر طعنہ زنی شروع کر دی تھی۔‘‘’’اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔‘‘ایک سالار نے کہا۔ ’’میرے پاس اس کا علاج ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہم نے لشکر میں ان سب کو اکھٹا رکھا ہوا ہے۔مزید وقت ضائع کیے بغیر تم سب جاؤ اور مہاجرین کو الگ انصار کو الگ اور بدوؤں کو الگ کرلو۔‘‘
تھوڑے سے وقت میں خالدؓ کے حکم کی تعمیل ہو گئی،لشکر تین حصوں میں تقسیم ہو چکاتھا۔ایک حصہ مہاجروں کا،دوسرا انصار کا اورتیسرا بدوؤں کا تھا۔خالدؓ گھوڑے پر سوار ان کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔’’اﷲ کے سپاہیو!‘‘خالدؓ نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا۔’’ہم نے میدان میں پیٹھ دکھا کر دشمن کیلئے ہنسی اورطعنہ زنی کا موقع پیدا کر دیا ہے۔کون کہہ سکتا ہے کہ تم میں سے کون بہادری سے لڑا اور کون سب سے پہلے بھاگ اٹھا……مہاجرین؟ا­نصار ؟یابدو؟‘‘’’اب میں نے تمہیں اس لئے الگ الگ کر دیا ہے کہ دشمن پر فوراً جوابی حملہ کرنا ہے۔اب دیکھیں گے کہ تم میں سے کون کتنابہادر ہے۔بہادری اور بزدلی کا فیصلہ طعنہ زنی سے نہیں کیا جا سکتا۔میدان میں کچھ کر کے دکھاؤ لیکن اتحاد کو ہاتھ سے نہ جانے دینا۔رسول اﷲﷺ نے تمہیں جس باہمی پیار کا سبق دیا تھا وہ بھول نہ جانا،تم میں سے کوئی گروہ دشمن کے دباؤ کوبرداشت نہ کرتے ہوئے پیچھے ہٹے تو دوسرے گروہ اس کی مدد کو پہنچیں۔ہمیں دشمن پر ثابت کرنا ہے کہ مسیلمہ کذاب  جھوٹانبی ہے۔اگر ہم شکست کھا گئے تو یہ جھوٹی نبوت ہم پر مسلط ہو جائے گی،اور ہم مسیلمہ کذاب  کے غلام اور ہماری عورتیں مرتدین کی لونڈیاں بن جائیں گی۔‘‘خالدؓ کے یہ الفاظ ان تیروں کی طرح کارگر ثابت ہوئے جو اپنے نشانے سے ادھر ادھر نہیں جایا کرتے۔
لشکر میں نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا ہو گیا۔ادھر مرتدین مجاہدین کی خیمہ گاہ لوٹ کر اورتباہ کرکے جا چکے تھے۔ادھر سے مسلمان اشارہ ملتے ہی مسیلمہ کذاب  کے لشکر کی طرف چل پڑے۔مسیلمہ کذاب  نے اپنے لشکر کو پھر حملہ روکنے کی ترتیب میں کر لیا تھا۔جب مجاہدین ِ اسلام کا لشکر مقابلے میں پہنچا تو انصار سے ایک سردار ثابت بن قیس گھوڑے کو ایڑلگا کرلشکر کے سامنے آ گئے۔’’اے اہل ِمدینہ!‘‘ انہوں نے بلند آواز سے کہا۔’’تم ایک شرمناک مظاہرہ کر چکے ہو۔‘‘ثابت بن قیس نے دشمن کی طرف اشارہ کر کے کہا۔’’اے میرے اﷲ!جس کسی کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں میں اس پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘انہوں نے مجاہدین کی طرف منہ کرکے کہا۔’’اے اﷲ!جو بری مثال میرے اس لشکر نے قائم کی ہے میں اس پر بھی لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘اتنا کہہ کر ثابت بن قیسؓ نے نیام سے تلوار کھینچی اور گھوڑے کارخ دشمن کی طرف کے ایڑ لگادی۔ان کے آخری الفاظ یہ تھے۔’’دیکھو!میری تلوار دشمن کو مزہ چکھائے گی اور تمہیں ہمت اور استقلال کا نمونہ دکھائے گی۔‘‘ثابت بن قیس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اورخالدؓنے حملے کا حکم دے دیا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ ثابت بن قیس کی تلوار ایسی شدت اور ایسی مہارت سے چل رہی تھی کہ جو ان کے سامنے آیا وہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑا نظر نہ آیا۔
ان کے جسم کا شاید ہی کوئی حصہ رہ گیا ہو گا جہاں دشمن کی تلوار برچھی یا انی نہ لگی ہو۔دشمن کی صفوں کے دور اندر جاکر ثابت بن قیس گرے اور شہید ہو گئے۔اپنے لشکر کیلئے وہ واقعی ہمت اور استقلال کابے مثال نمونہ پیش کرگئے۔ محمد حسین ہیکل نے بعض مؤرخوں کے حوالے دے کر لکھا ہے کہ خالدؓ کے لشکر نے قسمیں کھالی تھیں کہ اب ان کی لاشیں ہی اٹھائی جائیں گی۔وہ زندہ نہیں نکلیں گے۔ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ انہوں نے قسم کھائی کہ ہاتھ میں ہتھیار نہ رہا ،ترکش میں تیر نہ رہا تو وہ دانتوں سے لڑیں گے۔خالدؓ نے یہ مثال قائم کی کہ چند ایک جانباز چن کر اپنے ساتھ اس عزم سے کر لئے کہ جہاں لڑائی زیادہ خطرناک ہوگی وہاں ان جانبازوں کے ساتھ جا کودیں گے۔انہوں نے اپنے جانبازوں سے کہا۔ُ’’تم سب میرے پیچھے رہنا۔‘‘آگے وہ خود رہنا چاہتے تھے۔ دوبارہ لڑائی شروع ہوئی تو نئی مصیبت آن پڑی ۔آندھی آ گئی جس کا رخ مجاہدینِ اسلام کی طرف تھا۔ کچھ مؤرخ لکھتے ہیں کہ یہ صحرائی آندھی نہیں تھی بلکہ تیز ہوا تھی۔میدانِ جنگ میں گھوڑوں اور پیادوں کی اڑاتی ہوئی گرد زمین سے اٹھتے بادلوں کی مانند تھی۔تیز وتند ہوا کا رخ مجاہدین کی طرف تھا اس لئے مٹی اور ریت مسلمانوں کی آنکھوں میں پڑتی تھی۔
بدر میں کفار کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا ۔ہوا تیز ہوتی جا رہی تھی۔کچھ مجاہدین نے زیدؓ بن خطاب سے پوچھا کہ ایسی آندھی میں وہ کیا کریں؟’’خدا کی قسم!‘‘زیدؓ بن خطاب نے گرجدار آواز میں کہا۔’’میں اپنے اﷲ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے دشمن کو شکست دینے تک زندہ رکھے……اے اہلِ مکہ و مدینہ! آندھی سے مت ڈرو۔سروں کو ذرا جھکا کہ رکھو۔اس طرح ریت اور مٹی تمہاری آنکھوں میں نہیں پڑے گی۔پیچھے نہ ہٹ جانا۔ہمت سے کام لو۔استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔آندھی اور طوفان تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‘‘زیدؓ بن خطاب سالار تھے۔انہوں نے مجاہدین کیلئے یہ مثال قائم کی کہ تلوار لہراتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ان کے دستے ان کے پیچھے گئے۔زیدؓ بن خطاب تلوار چلاتے ہوئے دورتک نکل گئے اور شہید ہو گئے۔ایک اور سالار ابو حذیفہ ؓنے بھی یہی مثال قائم کی۔وہ یہ نعرہ لگا کر دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔’’اے اہلِ قرآن !اپنے اعمال سے قرآنِ حکیم کی ناموس کو بچاؤ۔‘‘وہ بھی مقابلے میں آنے والے ہر مرتد کو کاٹتے گئے ،زخم کھاتے گئے اور شہید ہو گئے۔ان سالاروں نے جانیں دے کر مجاہدین کے عزم میں جان ڈال دی اور وہ آسمانی بجلیوں کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑنے لگے۔اس کے باوجود مسیلمہ کذاب  کالشکر قائم و دائم تھا۔
خالدؓ نے میدانِ جنگ کا جائزہ لیا۔یہ ایسی جنگ تھی کہ جس میں چالیں چلنے کی ذرا سی بھی گنجائش نہیں تھی۔یہ آمنے سامنے کی ٹکرتھی۔اس میں صرف ذاتی شجاعت ہی کام آ سکتی تھی۔خالدؓ نے میدانِ جنگ کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا کہ مسیلمہ کذاب  کے محافظ اس کی حفاظت کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں ۔خالدؓ کو فتح کاایک یہی طریقہ نظر آیا کہ مسیلمہ کذاب  کو مار دیا جائے۔یہ کام اتنا سہل نہیں تھا جتنی آسانی سے دماغ میں آیا تھا،لیکن خالدؓ ناممکن کو ممکن کر دکھانے کیلئے اس طرح مسیلمہ کذاب  کی طرف بڑھے کہ ان کے جانبازوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔جب قریب گئے تو مسیلمہ کذاب  کے محافظوں نے ان پر ہلّہ بول دیا۔خالدؓ کے قریب جو آیا وہ زندہ نہ رہا مگر مسیلمہ کذاب  تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ خالدؓ کے جانبازوں نے اپنی ترتیب بکھرنے نہ دی ۔ایک موزوں موقع دیکھ کر خالدؓ نے اپنے جانبازوں کو مل کر ہلّہ بولنے کا حکم دے دیا۔خالدؓ خود بھی ہلّے میں شریک ہو گئے۔کچھ محافظ پہلے ہی مر چکے تھے یا زخمی ہو کر تڑپ رہے تھے۔خالدؓ کے جانبازوں کا ہلّہ اتنا شدید تھا کہ مسیلمہ کذاب  کے محافظ بوکھلا گئے۔میدانِ جنگ کی صورتِ حال یہ ہو گئی تھی کہ مجاہدین جو فتح یا موت کی قسمیں کھا چکے تھے وہ مرتدین پر ایک خوف بن کر چھا رہے تھے۔
مسیلمہ کذاب  کو اپنی حفاظت کیلئے کوئی اور محافظ نہیں مل سکتا تھا۔مسلمانوں کے نعروں کے ساتھ آندھی کی چیخیں میدانِ جنگ کی ہولناکی میں اضافہ کر رہی تھیں۔مسیلمہ کذاب  کے بچے کھچے محافظ گھبرانے لگے۔خالدؓ کے جانبازوں نے ان کا حلقہ توڑ دیا۔’’یا نبی!‘‘ کسی محافظ نے کہا۔’’اپنا معجزہ دکھا۔‘‘’’اپنا وعدہ پوراکر ہمارے نبی!‘‘ایک اور محافظ نے کہا۔’’تیرا وعدہ فتح کا تھا۔‘‘مسیلمہ کذاب  نے موت کو اپنی طرف تیزی سے بڑھتے دیکھا تو اس نے بلند آواز سے اپنے محافظوں سے کہا۔’’اپنے حسب و نسب اور اپنی ناموس کی خاطر لڑو۔‘‘اور وہ بھاگ اٹھا۔دشمن کا قلب ٹوٹ گیا۔پرچم غائب ہو گیا تو مرتدین میں شور اٹھا۔’’نبی میدان چھوڑ گیا ہے……رسول بھاگ گیا ہے۔‘‘اس پکار نے مرتدین کے حوصلے توڑ ڈالے اور وہ میدان سے نکلنے لگے۔تھوڑی سی دیر میں مرتدین میدان چھوڑ گئے ،لیکن میدانِ جنگ کی کیفیت یہ تھی کہ خون ندی کی طرح ایک طرف کو بہنے لگا۔جہاں یہ معرکہ لڑا گیا وہ تنگ سی گھاٹی تھی۔اس کا کوئی نام نہ تھا۔اس معرکے نے اسے ایک نام دے دیا۔یہ تھا شعیب الدم جس کے معنی ہیں خونی گھاٹی۔دونوں لشکروں کا جانی نقصان اتنا زیادہ ہوا کہ میدان میں لاشوں کے اوپر لاشیں پڑی تھیں۔زخمی تو ہزاروں کی تعداد میں تھے۔
مسیلمہ کذاب  کے لشکر کا جانی نقصان اس کی تعداد کی زیادتی کی وجہ سے زیادہ تھا۔مسلمانوں کا جانی نقصان بھی کچھ کم نہ تھا۔کئی زخمی گھوڑے بے لگام ہوکر لاشوں اور زخمیوں کو روند رہے تھے۔انہوں نے کئی اچھے بھلے آدمیوں کو کچل ڈالا۔مسیلمہ کذاب  کا لشکر جب بددل ہو کربھاگا تو مجاہدین ان کے تعاقب میں گئے۔مسیلمہ کذاب  کا ایک سالار محکم بن طفیل اپنے لشکر کو پکار رہا تھا۔’’بنو حنیفہ! باغ کے اندر چلے جاؤ۔‘‘انہیں اب باغ میں ہی پناہ مل سکتی تھی۔اس باغ کا نام حدیقۃ الرحمٰن تھا جو وسیع و عریض تھا۔اس کے اردگرد دیوار تھی۔مسیلمہ کذاب  اس باغ میں چلا گیا تھا۔باغ میدانِ جنگ کے بالکل قریب تھا۔مسیلمہ کذاب  کے لشکر کے بچے کھچے آدمی بھی اس میدان میں داخل ہو گئے۔جب مجاہدین باغ کے قریب پہنچے تو باغ کے دروازے بند ہو چکے تھے ۔مؤرخین کے مطابق باغ میں پناہ لینے والے مرتدین کی تعداد سات ہزار تھی۔خالدؓ گھوڑا دوراتے باغ کے اردگرد گھوم گئے ۔انہیں اندر جانے کا کوئی رستہ نظر نہ آیا۔اندر جانا ضروری تھا۔مسیلمہ کذاب  کو قتل کرنا تھا کہ یہ فتنہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے۔اﷲ کے ایک مجاہد براءؓ بن مالک آگے بڑھے اور بولے۔’’مجھے اٹھا کے دیوار کے اندر پھینک دو۔خدا کی قسم! دروازہ کھول دوں گا۔
‘‘براءؓ بن مالک صحابہ کرامؓ میں خصوصی درجہ رکھتے تھے ۔کسی نے بھی یہ گوارا نہ کیا کہ انہیں باغ کے اندر پھینک دیا جائے لیکن انہوں نے اتنا زیادہ اصرار کیا کہ دو تین مجاہدین نے انہیں اپنے کندھوں پر کھڑا کر دیااور وہ دیوار پر جاکر باغ میں کود گئے۔باغ میں دشمن کے سات ہزار آدمی تھے اور براءؓ اکیلے۔ سات ہزار کفار میں ایک مسلمان کا کود جانا ایسے ہی تھا جیسے کوئی آتش فشاں پہاڑ کے دہانے کے اندر کود گیا ہو۔براءؓ بن مالک سراپا عشق تھے جو آتشِ نمرود میں کود گئے تھے۔انہوں نے باغ کا دروازہ اندر سے کھولنے کا بے حد خطرناک کام کسی کے حکم کے بغیر اپنے ذمے لے لیا تھا۔انہوں نے دروازے کے قریب سے دیوار پھاندی تھی۔سات ہزار بنو حنیفہ جو باغ کے اندر چلے گئے تھے اور جنہوں نے دروازہ بند کر لیا تھا ،ابھی افراتفری کے عالم میں تھے۔انہیں معلوم تھا کہ مسلمان ان کے تعاقب میں آگئے ہیں اور انہوں نے باغ کو محاصرے میں لے لیا ہے لیکن وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی مسلمان اکیلا دیوار پھاند کر اندر آنے کی جرات کر سکتا ہے۔’’وہ کون ہے؟‘‘کسی نے بڑی بلند آواز میں کہا۔’’وہ دروازہ کھول رہا ہے۔‘‘’’کاٹ دو اسے!‘‘کوئی مرتد للکارا۔’’گردن مار دو۔‘‘ایک اور للکارا۔’’پکڑ لو،مار ڈالو۔‘‘
ایک شور اٹھا۔بے شمارمرتد تلوریں اور برچھیاں تانے براءؓ بن مالک کی طرف دوڑے۔براءؓ ابھی دروازہ کھول نہیں سکے تھے ۔انہوں نے تلوار نکالی اور بنو حنیفہ کا جو آدمی سب سے پہلے ان تک پہنچا تھا۔اسے براءؓ کی تلوار کے بھرپور وار نے وہیں روک دیا۔وہ لڑکھراتا ہوا پیچھے ہٹا۔براءؓ نے ایک بار پھر دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔وہ بروقت پیچھے کو گھومے بیک وقت دو آدمیوں نے ان پر برچھیوں کے وار کیے تھے۔براءؓ پھرتی سے ایک طرف ہو گئے دونوں برچھیوں کی انیاں جو براءؓ کے جسم میں اترنے کیلئے آئی تھیں دروازے میں اتر گئیں۔براءؓ نے بڑی تیزی سے تلوار چلائی اور دونوں آدمیوں کو اس وقت گھائل کر دیا جب وہ دروازے میں سے برچھیاں نکال رہے تھے۔کئی مرتد براءؓ بن مالک پر مل کر حملہ کرتے تھے اور براءؓ دروازے کے ساتھ پیٹھ لگائے بڑی تیزی سے تلوار چلا رہے تھے ان کی زبان سے دو ہی نعرے گرجتے تھے ’’اﷲ اکبر۔۔ محمد رسول اﷲ ‘‘وہ وار روکتے وار کرتے اور دروازے کھولنے کی کوشش کرتے تھے۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟



Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی