والدین کا ٹھکانہ ’’اولڈ ہاؤس‘‘ تو نہیں !!


 وہ عید کا ایک خُوب صورت، خوشیوں بھرا دن تھا اور سہ پہر کا وقت۔ دن بھر کا تھکا ہارا سورج دبے قدموں اپنی اختتامی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ جب ہم کراچی کے علاقے، سہراب گوٹھ کے قریب واقع،’’ ایدھی اولڈ ہائوس‘‘ میں داخل ہوئے۔ ذرا ہی آگے بڑھے تھے کہ ایک بہت غم گین، پُر سوز اور خُوب صورت سی آواز میں احمد فراز کی ایک دِل گداز غزل کے اشعار نے اپنی جانب متوجّہ کر لیا…رنجش ہی سہی، دِل ہی دُکھانے کے لیے آ…آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ…اب تک دِل خوش فہم کو تجھ سے ہیں اُمیدیں…یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ۔آواز کے سحر نے ماحول کو سوگوار کر دیا تھا۔ دیکھا تو سامنے ایک بزرگ ،دنیا جہاں سے بے خبر، اپنے آپ میں مگن نغمہ سرا تھے۔ اُن کا اکلوتا بیٹا چند دن بعد آنے کا کہہ کر گیا اور پھر کینیڈا کی مسحور کُن رنگین فضائوں میں غائب ہو گیا۔ دو سال گزر گئے اور اب ہر عید تیوہار پر یہ اپنے بیٹے کو یاد کر کے گھنٹوں یہ غزل گنگناتے رہتے ہیں۔ آگے بڑھے، تو ایک80 سالہ باریش بزرگ سفید کپڑے زیبِ تن کیے، ایک کرسی پر دراز، خلا میں گھور رہے تھے۔ خُوب صورت لمبی سفید داڑھی، کھلتے گندمی رنگ اور نورانی چہرے پر حسرت و یاس کا سایہ، ماتھے پرسجدوں کا بڑا سا نشان، جو ربّ سے اُن کی قربتوں کا مظہر تھا۔ نظر کے سفید ،موٹے شیشوں کے چشمے کے پیچھے، اداس پُرنم آنکھوں میں کسی کے انتظار کی موہوم اُمید کی کرنوں کی ہلکی سی چمک، لرزتے ہونٹوں پر معصوم سی مُسکراہٹ، جیسے کوئی بچّہ سوتے میں مُسکرا رہا ہو۔ اُن کا احوال سن کر تو اُن سے زیادہ ہم غم زدہ ہوگئے۔ وہ اپنے ماضی کو بڑی حسرت و یاس سے دہرا رہے تھے کہ جب عید کے دن اُن کے گھر آنگن میں خوشیاں، پریوں کی طرح اُترتی تھیں۔ پوتے، پوتیوں کے قہقہے، بڑوں کی ہنسی مذاق کی بلند آوازیں زندگی کا حُسن دوبالا کرتی تھیں۔ وہ اور اُن کی شریکِ سفر، اپنے بچّوں اور بچّوں کے بچّوں کو دیکھ، دیکھ جیتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے بچّوں کو کراچی کی بہترین درس گاہوں میں تعلیم دلوائی ۔اللہ نے دو ہی بیٹے دیے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد دونوں کی امیر کبیر گھرانوں میں شادیاں کیں۔ ایک بیٹا ہر سال آنے کا وعدہ کر کے اپنے بچّوں کے ساتھ امریکا چلا گیا اور پھر ماں کے انتقال پر بھی نہ آیا۔ دوسرا بیٹا، ایک اعلیٰ حکومتی عُہدے پر فائز ہے۔ مزید ترقّی پاکر اسلام آباد ٹرانسفر ہوا، تو بیگم صاحبہ نے سُسر کو ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ’’ فرنیچر سمیت کوئی پُرانی چیز اسلام آباد کے نئے بنگلے میں نہیں جائے گی، خواہ وہ تمہارے باپ ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ پھر رشتے داروں سے بھی تعلقات ایسے نہ تھے کہ بوڑھے باپ کو وہاں چھوڑا جاتا، لہٰذا بیوی کے قدموں میں جنّت کے متلاشی، سعادت مند شوہر نے بیگم کے مشورے پر گھر کی سب سے پرانی چیز ،(والدِ محترم) کو اولڈ ہائوس میں جمع کروا دیا۔ ہاں! باپ پر یہ احسان ضرور کیا کہ اُس کے نام پر کچھ رقم جمع کر جمع کروا دی تاکہ بہتر دیکھ بھال ہو سکے۔ دو سال میں دو مرتبہ بیٹا کھڑے، کھڑے ملنے آیا، مگر وہ تو اپنی 4سالہ باتونی پوتی اور 6سالہ نٹ کھٹ پوتے کی میٹھی اور معصوم باتوں ہی میں کھوئے رہتے ہیں۔ اب شاید اُن کی باقی زندگی ان یادوں ہی کے سہارے گزرے اور یہیں سے سفرِ آخرت پر روانہ ہوں، لیکن اُنہیں یقین ہے کہ اُن کا بیٹا جلد اُن کے پاس آئے گا۔ بہ قول شاعر؎ میرے مزار پر آکے دیئے جلائے گا…وہ میرے بعد میری زندگی میں آئے گا۔


ایک اور بزرگ کو دیکھا۔ اہلیہ کے انتقال کے بعد اکلوتا بیٹا اُنہیں اپنے ساتھ امریکا لے گیا، لیکن وہاں جاتے ہی اُس نے بیوی کے مشورے پر اُنہیں اولڈ ہائوس میں جمع کروا دیا تاکہ ابّو کا دِل بھی بہلتا رہے اور بہ قول اُس کی بیوی کہ ’’پرائیویسی میں بھی دخل اندازی نہ ہو۔‘‘ اپنی درد ناک کہانی سُناتے ہوئے اُنہوں نے بتایا’’ چھے ماہ بعد ایک اتوار، جب بیٹا ملنے آیا، تو مَیں نے اپنی ٹوپی اُس کے قدموں پر رکھ دی اور اُس سے اپنی زندگی بَھر کی خدمت کی بھیک مانگتے ہوئے التجا کی کہ مجھے پاکستان واپس بھیج دے تاکہ اپنے وطن کی مٹّی میں دفن ہو سکوں۔ میرے بہتے آنسوئوں کی گرمی نے شاید اُس کے دِل میں میری محبّت کی راکھ میں چُھپی کسی اَن بُجھی چنگاری کو روشن کر دیا۔ سو، اُس نے اس شرط پر پاسپورٹ اور واپسی کا ٹکٹ دے دیا کہ’’ ابّو آپ کو اکیلے ہی جانا ہوگا۔‘‘ یوں یہ 75سالہ بزرگ کراچی ایئر پورٹ پر پہنچے۔ رشتے داروں کے پتے بیٹے نے کاغذ پر لکھ کر دیے تھے، لیکن رشتے داروں سے رسمی تعلقات کی بنا پر کسی پر مستقل بوجھ ڈالنے کی بجائے ایئر پورٹ سے سیدھے’’ ایدھی ٹرسٹ‘‘ آگئے، جو واحد سہارا تھا اور اب اپنے وطن کی مقدّس مٹّی میں دفن ہونے کی آرزو لیے موت کے انتظار میں ہیں۔ ذرا اور آگے بڑھے، تو ایک اور بزرگ نظر آئے۔ پوش ایریا میں رہنے والی اُن کی بہو اُن کی بیماری اور کھانسی سے تنگ تھی ۔اُسے اپنے معصوم بچّوں کی صحت کی بڑی فکر تھی، لہٰذا پہلے اُن کا بستر سرونٹ کوارٹر منتقل کیا، لیکن بچّے تو دادا سے ملنے وہاں بھی چلے جاتے تھے، اس لیے بہو نے اُنہیں خود ہی اولڈ ہائوس میں جمع کروا دیا۔ بیٹا دنیا بھر میں پھیلے اپنے کاروبار میں اتنا مصروف ہے کہ وہ گھر بھی مسافروں کی طرح آتا ہے، جب کہ بہو کو سماجی حلقوں میں خدمتِ خلق ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ بڑے ہوٹلز میں فیشن شوز سے کیٹ واکس تک ،سب اُسی کی ذمّے داری ہے۔

ذرا آگے کرسی پر بیٹھے، جُھریوں بَھرے چہرے والے ایک بارُعب بزرگ کی اداس نگاہیں بڑی دیر سے ہمارا پیچھا کر رہی تھیں۔ اُن کے پاس پہنچے اور چھوٹا سا’’ عید گفٹ پیک‘‘ اُن کے حوالے کیا، تو مُسکراتے ہوئے گویا ہوئے’’ شُکریہ! یہ دن بھی دیکھنے تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم خوشی کے تہواروں میں خود اسپتالوں میں گفٹس بانٹا کرتے تھے۔‘‘ بزرگوار کی ڈبڈبائی آنکھوں نےبہت کچھ کہہ دیا، لیکن ہم اُن کی زبانی کچھ سُننا چاہتے تھے۔’’ جناب! یہاں تک کیسے پہنچے؟‘‘ سوال نے دِل کے تاروں کو چھیڑا، تو تڑپ اٹھے اور اپنی رعب دار آواز میں گویا ہوئے ’’میاں! اللہ کا شُکر ہے کہ مجھے بیٹا یا کوئی اور نہیں لایا، بلکہ مَیں خود بیٹے کے گھر کی جیل توڑ کر اس گوشۂ عافیت میں آیا ہوں۔ آؤ، اپنی داستان تم کو سُناؤں تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ میری بیوی پرائیوٹ اسکول میں ٹیچر اور مَیں ایک کمپنی میں ملازم تھا۔ اللہ نے تین بیٹے اور ایک بیٹی عنایت فرمائی۔ زندگی بڑی پُرسکون تھی، ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا بھیجا۔ دو لَوٹ کر نہیں آئے اور شہریت کے چکر میں وہاں شادیاں کر لیں۔ ایک پڑھ کر واپس آیا اور کسٹم میں لگ گیا۔ اللہ نے ترقّی دی۔ دولت، عزّت، شہرت ملی، تو رشتوں کی پہچان ختم ہو گئی۔ بیٹی کی شادی کر دی تھی، وہ بیاہ کر کینیڈا چلی گئی۔ بیٹے نے جلد ڈیفینس میں عالی شان بنگلا خرید لیا اور ہم اپنا پرانا گھر بہ مع سامان اونے پونے بیچ کر پیسے بیٹے کے حوالے کر کے محل نُما بنگلے میں شفٹ ہو گئے۔ اتنی کم مدّت میں یہ شان و شوکت دیکھ کر حیران ہوتے تھے، سو ایک دن ہم دونوں نے ڈرتے ڈرتے سوال کر ہی لیا’’ بیٹے! تم لاکھ بڑے افسر سہی، لیکن دولت کی یہ ریل پیل تن خواہ میں تو ممکن نہیں؟‘‘ ،سوال سُن کر یوں لگا، جیسے صاحب زادے نے نیم کے پتے چبا لیے ہوں۔ بڑے سرد لہجے میں مختصر سا جواب ملا’’ ابّا! آم کھائو، پیڑ گننے کی ضرورت نہیں۔‘‘پھر جلد ہی مغرب زدہ گھرانے کی ایک فیشن زدہ لڑکی سے پسند کی شادی کر لی۔ اب ماں کا برقعہ، باپ کا شلوار کُرتا اور سَر پر ٹوپی معیوب سمجھی جانے لگی۔ بہو جدید تہذیب اور روشن خیالی پر اٹھتے، بیٹھتے لیکچر دینے لگی۔ چناں چہ وسیع گھر میں محدود زندگی گزارنے میں عافیت سمجھی۔ جمع شدہ پونجی بچّوں پر خرچ کر چُکے تھے۔ تمہیں پتا ہے، پرائیوٹ اداروں میں پینشن نہیں ہوتی، لہٰذا، بیٹے کے گھر دو وقت کی روٹی کھانا مجبوری تھی۔ اللہ نے بہو تو اچھی نہ دی، لیکن دونوں پوتیاں چُھپ چُھپا کر دادا، دادی کا خیال رکھتیں۔ پھر وہ بھی شادی ہو کر باہر چلی گئیں۔ پوتیوں کے جدا ہونے کے بعد بیٹے اور بہو کی بے رُخی، ہتک آمیز رویّے نے حسّاس ماں کی ذہنی بیماری میں مزید اضافہ کر دیا اور ایک دن، جب بہو، بیٹے یورپ کے دَورے پر تھے، ہماری رفیقِ حیات ہمیں اکیلا چھوڑ کر اپنے ربّ کے پاس چلی گئیں۔ بچّوں کو اطلاع دی، لیکن سب بہت مصروف تھے، چناں چہ چند رشتے داروں اور ملازمین کے ساتھ مل کر اُسے اللہ کے سُپرد کر دیا۔ میاں! شریکِ حیات کی قدر تب ہوتی ہے، جب وہ چھوڑ کر کہیں دُور چلی جاتی ہے۔‘‘ بڑے صاحب اپنے بہتے اشکوں کو رومال میں جذب کرنے کے بعد پھر سے گویا ہوئے’’ مَیں جب بہت پریشان اور دِل گرفتہ ہو کر بستر پر پڑجاتا، تو وہ پیار سے سر پہ انگلیاں پھیرتے ہوئے کہتیں’’ خان صاحب! آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ آپ کے ساتھ میں ہوں ناں۔‘‘ کچھ توقّف کے بعد پھر گویا ہوئے’’ گھر میں مخلوط پارٹیز اور فنکشنز آئے دن کا معمول تھے۔ وہ ایسی ہی ایک غم گین اور افسردہ شام تھی۔ بیٹے کی چند خواتین دوست ڈرائنگ روم میں موجود تھیں۔ اُس نے ملازم کو بلانے کے لیے گھنٹی بجائی، اتفاقاً کوئی موجود نہ تھا۔ وہ بار بار گھنٹی بجاتا رہا۔ آخر کو مَیں باپ تھا، یہ سوچ کر جلدی سے اندر چلا گیا کہ نہ جانے کس چیز کی ضرورت ہے۔ مجھے خواتین کی موجودگی کا علم نہ تھا۔ میری شکل دیکھ کر بیٹے کے چہرے پر غصّے کے آثار نمو دار ہوئے اور ڈانٹتے ہوئے باہر جانے کو کہا۔ ابھی واپسی کے لیے مُڑا ہی تھا کہ اُس نے اپنی دوستوں سے انگریزی میں میرا تعارف کروایا کہ’’یہ بوڑھا ہمارے والد کا پرانا خادم ہے۔ ہم نے اِسے والد کی نشانی سمجھ کر رکھا ہوا ہے۔‘‘ ایک لڑکی نے پوچھا’’ تمہارے والد تو فوت ہو گئے ہیں ناں؟ صاحب زادے نے جواب دیا ’’ہاں، وہ تو بہت پہلے مر گئے تھے۔‘‘ بیٹے کی اس ڈھٹائی نے مجھے مشتعل کر دیا اور مَیں نے پلٹ کر گرجتے ہوئے کہا’’ یہ جھوٹ بولتا ہے۔ مَیں اِس کے باپ کا خادم نہیں، بلکہ اِس کا اصل باپ ہوں اور یہ ناخلف میری اولاد ہے، سگی اولاد۔‘‘ اور پھر مَیں اُسی وقت غصّے کی حالت میں گھر سے باہر نکلا، چند گھنٹے بلا مقصد سڑکوں پر گھومتا رہا۔ شام، رات کے اندھیروں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ بے منزل مسافر کی طرح، کہیں رات بسر کرنے کی فکر میں تھا کہ اچانک ایک ایمبولینس نہایت آہستگی سے میرے پاس سے گزری۔ مَیں نے بے اختیار اُسے رُکنے کا اشارہ کیا اور پھر ڈرائیور کی مہربانی سے اِس گوشۂ عافیت میں آگیا، جہاں عبدالسّتار ایدھی صاحب نے ہمارے لیے گھر سے زیادہ آرام مہیا کیا ہوا ہے۔‘‘ ’’ کیا آپ کے بچّوں نے آپ سے کوئی رابطہ کیا؟‘‘ ’’ وہ کیوں کریں گے؟ اُن کے لیے تو ’’خس کم، جہاں پاک‘‘ والا معاملہ ہوا۔ ہاں! بیٹی کا خیال ضرور آتا ہے کہ وہ کبھی، کبھی کینیڈا سے فون کر لیتی تھی۔ ایک مرتبہ آئی بھی تھی، لیکن بھائی، بھابھی کے غلط رویّے کی وجہ سے یہ کہہ کر کہ’’ ابّا! اب کبھی نہیں آئوں گی‘‘ روتی پیٹتی واپس چلی گئی۔ مَیں اچانک گھر سے نکلا تھا، اس لیے میرے پاس کسی کا رابطہ نمبر نہیں ہے۔ شاید وہ میرے لیے فون کرتی ہو، مگر اُسے کون بتائے کہ اُس کا باپ ان دنوں کہاں ہے؟ میاں! مَیں تمہارے توسّط سے تمام والدین کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنا سب کچھ بچّوں پر نچھاور کرنے سے پہلے، اپنے بڑھاپے کا کچھ نہ کچھ بندوبست ضرور کر رکھیں تاکہ بچّوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ذلیل وخوار ہونے سے محفوظ رہ سکیں۔

خواتین کے حصّے میں پہنچے، تو چاندی کے تاروں کی طرح سفید بالوں والی کورنگی کی رہائشی، جنّت بی بی سے ملاقات ہوئی۔ اُن کا اصرار تھا کہ ہمیں عید والے دن اُن کے بیٹوں نے امّاں کی خیریت پوچھنے کے لیے بھیجا ہے۔ ہم نے بھی اُن کا مان رکھا اور ہاں کر دی۔ وہ پوتے، پوتیوں کی باتیں اور بیٹیوں کی تعریفیں کرتی نہ تھکتی تھیں، مگر اپنی بہوئوں سے نالاں تھیں، جو آپس کی ملی بھگت سے اُنہیں یہ کہہ کر یہاں چھوڑ گئیں کہ’’ امّاں! ہم سے اپنا پورا نہیں ہوتا، تمہیں کہاں سے کِھلائیں۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ’’ بیٹا! وہاں ایک چپاتی صبح، ایک شام کھاتی تھی۔ اب ماشاء اللہ ایدھی والے تین وقت اچھا کھانا کِھلاتے ہیں۔‘‘ اُنہیں بیٹوں سے شکایت تو ہے کہ ملنے نہیں آتے، لیکن اس کے باوجود اُن کے لَبوں پر بیٹوں اور اُن کے بچّوں کے لیے دُعائیں ہی دعائیں تھیں۔ واقعی، ماں تُو کتنی معصوم ہے…!!سامنے ہی ایک دبلی پتلی بزرگ خاتون مصلّے پر بیٹھی نظر آئیں۔ شاید اذان کے انتظار میں تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ’’ بہوئوں کی شکایت پر بیٹا اکثر مجھے ڈانٹتا اور کبھی دوچار ہاتھ بھی جڑ دیتا، حالاں کہ گھر کے سب کام مَیں کرتی تھی۔ ایک دن برتن دھوتے ہوئے مہمانوں کے لیے نکالے گئے بہو کے ڈنر سیٹ کی ایک پلیٹ مجھ سے ٹوٹ گئی۔ بہو بہت ناراض ہوئی۔ مَیں نے اُس سے ہاتھ جوڑ کر التجا کی کہ بیٹے کو نہ بتائے، لیکن وہ بہو تھی، بیٹی نہیں۔ شام کو بیٹا آفس سے آیا ہی تھا کہ بہو نے ایک پلیٹ کو، کئی پلیٹوں کے ٹوٹنے تک بڑھا کر رونا شروع کردیا۔ دوسری بہو بھی کمرے میں آگئی اور اُس نے بھی لقمے دینے شروع کردیے۔ بیٹا ویسے ہی تھک کر آیا تھا، بیوی کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہ ہوسکے۔ اٹھا اور غصّے میں میری پٹائی کردی۔ مَیں رات بھر چارپائی پر پڑی اپنے مَرے ہوئے شوہر اور گزری زندگی کو یاد کرتی رہی۔ اسی اثنا میں آنکھ لگ گئی تو دیکھا کہ مجھے میرے شوہر ایدھی ٹرسٹ کا راستا بتاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ’’ اللہ کی بندی! وہاں چلی جا۔‘‘ مَیں نے اکیلے کبھی گھر سے باہر قدم نہ رکھا تھا، لیکن اُس دن اللہ نے مجھے ہمّت دی۔ فجر کی اذانیں ہورہی تھیں۔ مَیں نے نماز پڑھی اور اللہ کا نام لے کر گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔ سڑک پر ایک رکشے والا کھڑا تھا۔ مَیں نے اُس کی خوشامد کی کہ’’ مجھے ایدھی سینٹر چھوڑ دے، اُسے ترس آگیا اور مَیں یہاں آگئی۔ اللہ کا بڑا کرم ہے، یہاں بہت آرام اور سکون سے ہوں۔ شوہر کو مرکر بھی میرا خیال تھا۔‘‘ اُنھوں نے مزید بتایا کہ’’ ایک دن دونوں بیٹے مجھے لینے آئے، مگر مَیں نے اُن کے ساتھ جانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مَیں نے زندگی بھر تمہارے باپ کا حکم مانا ہے۔ اب اُن کے حکم کو کیسے ٹال سکتی ہوں؟‘‘۔

مسجد سے’’ اللہ اکبر‘‘ کی صدائیں بلند ہورہی تھیں اور اب مجھ ہم بھی مزید دِل خراش کہانیاں سُننے کی ہمّت بھی نہ رہی تھی، لہٰذا اپنے آنسوئوں کو رومال میں جذب کرتے واپس ہولیے۔ آج پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں ضعیف والدین نہایت کسم پرسی کی حالت میں اپنی عُمر کا آخری حصّہ، اپنی جوان اولاد کے مضبوط بازؤں کے سہاروں کے بغیر ،محتاج خانوں اور خیراتی اداروں میں گزارنے پر مجبور ہیں، جب کہ اُن کی اولاد خوش حال زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی والدین کی بے توقیری و بے عزّتی کے بہت سے واقعات آئے دن ہماری نظروں سے گزرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا اور رشتوں کی اہمیت و افادیت کو اوّلین ترجیح دی۔ ماں، باپ کے رشتے کو دنیا کا سب سے مقدم و مکرّم رشتہ قرار دیتے ہوئے اسے نعمت گراں قدر اور گنج ہائے گراں مایہ قرار دیا۔ دنیا کے تمام مذاہب نے والدین کی تعظیم و تکریم اور اُن کی خدمت و اطاعت کی تلقین کی ہے۔ توریت میں تحریر ہے’’ تُو اپنے ماں، باپ کو عزّت دے تاکہ ربّ کریم کی جانب سے دی گئی تیری عُمر، تیرا خدا دراز کرے۔‘‘ انجیلِ مقدّس میں یہ الفاظ تحریر ہیں’’ اپنے ماں باپ کی عزّت کرو اور جو ماں باپ پر لعن کرے، جان سے مارا جائے۔‘‘ جدید تہذیب کے عَلم بردار، مغرب کے مادہ پرست، تعفّن زدہ معاشرے نے والدین کی اہمیت و افادیت کو ختم کرکے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ آج والدین کی محبّت کو’’ مدرز ڈے‘‘ اور’’ فادرز ڈے‘‘ تک محدود کرکے سال میں ایک مرتبہ پوسٹ کارڈ یا زیادہ سے زیادہ اولڈ ہائوسز میں ایک مختصر سی ملاقات اُن کی عُمر بھر کی خدمات کا نہایت آسان نعم البدل قرار پایا۔ اور پھر مغرب ہی پر کیا موقوف، اُن کی اندھی تقلید نے ہمیں بھی تو اُن ہی راہوں کا مسافر کردیا ہے۔ 

اسلام میں والدین کے بارے میں چند احکامات:
ربّ کی اطاعت کے بعد والدین کی اطاعت حکمِ الٰہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جگہ جگہ اپنے ساتھ والدین کا ذکر فرمایا ہے۔
والدین اللہ کے بعد اولاد کے سب سے بڑے محسن ہیں، جن کے حقوق ہر چیز پر مقدم ہیں۔
والدین کی خوش نودی، اللہ کی خوش نودی اور والدین کی ناراضی، اللہ کی ناراضی ہے۔
والدین کو کبھی اُف تک نہ کہو، اُن کے سامنے ہمیشہ انکساری کے ساتھ جُھکے رہو۔
والدین مالک و آقا کی طرح ہیں جب کہ اولاد، غلام اور کنیز کی طرح۔ اُن کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو، جیسا ایک وفادار غلام، اپنے آقا کے ساتھ کرتا ہے۔
والدین کے ساتھ ہمیشہ ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے، پیار سے اور آہستہ لہجے میں بات کرو۔
والدین سے اونچی آواز میں گفتگو، دوزخ کی آگ کا ایندھن بنادے گی۔
والدین تمہاری جنّت بھی ہیں اور دوزخ بھی۔ ان کی اطاعت و خدمت کرکے جنّت میں جائو گے، جب کہ نافرمانی دوزخی بنادے گی۔
ماں کے قدموں تلے جنّت ہے اور باپ اس جنّت کا دروازہ ہے۔
والدین کی خدمت دنیا کی سب سے بڑی سعادت، سب سے بڑی خوش نصیبی اور جہاد سے افضل ہے۔
والدین کو محبّت بھری نظر سے دیکھنا ،حج مبرور کے ثواب کے برابر ہے۔
والدین کی آواز پر لبیک کہنا، نفلی عبادت سے افضل ہے۔
والدین کی دُعا ہر حال میں قبولیت کے درجے پر فائز ہوتی ہے۔
والدین اللہ تعالیٰ کی گراں قدر نعمت ہیں، ان کے ساتھ حُسن سلوک کرو، خواہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہوں۔
اگر دنیا میں عزّت و خوش حالی، رزق میں برکت و کشادگی اور آخرت میں جنّت کے طلب گار ہو، تو والدین کی خدمت کو اپنا شعار بنالو۔ زندگی میں کبھی کسی کے محتاج نہ رہو گے۔
تمہارا مال و دولت اور تمہاری کمائی سب پر تمہارے والدین کا مکمل حق اور اختیار ہے۔
والدین کی خدمت و فرماں برداری کرو تمہاری اولاد تمہاری فرماں برداری و خدمت گزار ہوگی۔
والدین کی نافرمانی و ایذا رسانی گناہِ کبیرہ ہے۔ ایسا شخص دوزخ کی آگ کا ایندھن بنے گا۔
والدین کی دُعائیں لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دو۔
والدین سے ہمیشہ پیار و محبّت کی باتیں کیا کرو تاکہ وہ خوش ہوکر دعائیں دیں۔
والدین کے ساتھ وقت گزارا کرو تاکہ اُن کے تجربات سے تمہیں سیکھنے کا موقع ملے۔
والدین کی خدمت و راحت میں مال خرچ کرنے والا کبھی مفلس نہیں ہوگا۔
والدین کو ان کے ذوق اور پسند کے مطابق تحفے تحائف دیا کرو تاکہ وہ خوش ہوکر تمہیں دعائوں کے تحفے دیں۔
والدین پر دل کھول کر خرچ کیا کرو۔ ربّ تمہیں تمہاری سوچوں سے بڑھ کر دے گا۔
والدین کے لیے دُعائیں کرتے رہا کرو۔ ان کی زندگی میں بھی اور اُن کے مرنے کے بعد بھی۔
والدین کی بددعا سے بچو، باپ کی بددعا اولاد کے دین و دنیا تباہ کردیتی ہے۔
والدین کی اجازت اور خوشی کے بغیر دوسرے مُلک ہجرت کرنا جائز نہیں۔
والدین کے دوست احباب، عزیز رشتے داروں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو۔
والدین کے انتقال کے بعد ان کے لیے دعائے مغفرت و استغفار کرتے رہو۔
والدین کے عہد کو پورا کرو اور ان کی طرف سے صدقہ و خیرات کرتے رہا کرو۔
یاد رکھیے ،والدین کے حقوق کی مکمل ادائی کسی صورت ممکن نہیں۔ جن کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک بھی حیات ہے، ان کی خدمت کرکے دین اور دنیا میں سرخ رُو ہوجائیں اور جن کے والدین وفات پاچکے ہیں ،وہ اُن کے لیے کثرت سے دعائے مغفرت کریں۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی