اللہ تعالیٰ نے تمام کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے


 سورہ البقرۃ آیت نمبر 19
اَوۡ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیۡہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعۡدٌ وَّ بَرۡقٌ ۚ یَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ  اٰذَانِہِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اللّٰہُ مُحِیۡطٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹﴾
ترجمہ: یا پھر (ان منافقوں کی مثال ایسی ہے (١٦) جیسے آسمان سے برستی ایک بارش ہو، جس میں اندھیریاں بھی ہوں اور گرج بھی اور چمک بھی۔ وہ کڑکوں کی آواز پر موت کے خوف سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیتے ہیں۔ اور اللہ نے کافروں کو گھیرے میں (١٧) لے رکھا ہے
تفسیر: 16 منافقوں کی پہلی مثال تو ان منافقین سے متعلق تھی جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود خوب سوچ سمجھ کر کفر اور نفاق کا راستہ اختیار کئے ہوئے تھے، اب منافقین کے اس گروہ کی مثال دی جارہی ہے جو اسلام لانے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا، جب اسلام کی حقانیت کے دلائل سامنے آئے تو ان کے دل میں اسلام کی طرف جھکاؤ پیدا ہوتا اور وہ اسلام کی طرف بڑھنے لگتے ؛ لیکن جب اسلامی احکام کی ذمہ داریاں اور حلال و حرام کی باتیں سامنے آتیں تو وہ اپنی خود غرضی کی وجہ سے رک جاتے، یہاں اسلام کو ایک برستی ہوئی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس میں کفر وشرک کی خرابیوں کا جو بیان ہے اسے اندھیریوں سے اور اس میں کفر وشرک پر عذاب کی جو دھمکیاں دی گئی ہیں انہیں گرج سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نیز قرآن کریم میں حق کے جو دلائل اور حق کو تھامنے والوں کے لئے جنت کے جو وعدے کئے گئے ہیں، انہیں بجلی کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے، جب یہ روشنی ان منافقین کے سامنے چمکتی ہے تو وہ چل پڑتے ہیں مگر کچھ دیر میں ان کی خواہشات کی ظلمت ان پر چھاجاتی ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں۔ 17: یعنی جب قرآن کریم کفر اور فسق پر عذاب کی وعیدیں سناتا ہے تو یہ اپنے کان بند کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عذاب سے محفوظ ہوگئے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور وہ اس سے بچ کر نہیں جاسکتے۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی