🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *21* ۔۔۔۔
ابوبکرؓ کے حکم کا پسِ منظر یہ تھاکہ تبوک اور مُوتہ کے معرکوں کے بعد رسولِ اکرمﷺ نے یہ ضروری سمجھاتھاکہ رومیوں پر حملہ کرکے ان کا دم خم توڑا جائے۔تبوک اور موتہ کے معرکوں میں تو یہ کامیابی حاصل کی گئی تھی کہ ان قبیلوں کو مطیع کر لیا گیا تھا جن کا خطرہ تھا کہ وہ رومیوں کے ساتھ اتحاد کرلیں گے۔ان رومیوں کو ختم کرناضروری تھا۔یہ فیصلہ ملک گیری کی خاطر نہیں بلکہ نظریاتی دفاع کیلئے کیا گیا تھا۔یہودی اور نصرانی اسلام کے خلاف رومیوں کے کیمپ میں چلے گئے تھے۔رسول اﷲﷺ نے رومیوں پرحملہ کیلئے ایک لشکر تیار کیا تھا جس میں مہاجرین اور انصار کے سرکردہ افراد بھی شامل تھے۔اس لشکر کے سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ کے بیٹے اسامہؓ تھے۔ان کی عمر بمشکل بیس سال تھی۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اسامہؓ کو رسول اﷲﷺ نے اس لئے سپہ سالار مقرر کیا تھا کہ نوجوانوں میں قیادت کا شوق پیدا ہو اور وہ اپنے آپ میں اسامہؓ جیسی صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اسامہؓ کو رسولِ کریمﷺ ویسے بھی بہت چاہتے تھے۔اسامہؓ کے والد زیدؓ بن حارثہ جنگِ موتہ میں شہید ہو گئے تھے۔اسامہؓ میں لڑکپن میں ہی عسکری صلاحیتیں اور شجاعت پیدا ہو گئی تھی۔جنگِ احد کے وقت اسامہؓ بچے تھے اس لیے اس جنگ میں شریک نہ ہو سکے لیکن اسلامی لشکر مدینہ سے روانہ ہوا تو اسامہ ؓ رستے میں کہیں چھپ کر بیٹھ گئے۔جب لشکر ان کے قریب سے گزرا تو وہ لشکر میں شامل ہو گئے۔ان کی مراد پھر بھی پوری نہ ہوئی۔انہیں میدانِ جنگ میں دیکھ لیا گیا اور واپس بھیج دیا گیا ۔البتہ جنگِ حنین میں انہوں نے سب کو دکھا دیا کہ شجاعت کیا ہو تی ہے۔جب رسولِ مقبولﷺ نے اسامہؓ کو رومیوں پر حملہ کرنے والے لشکر کی سپہ سالاری سونپی تھی تو بعض لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ جس لشکر میں ابو بکرؓ اور عمرؓ جیسے اعلیٰ حیثیت اور تجربے کے بزرگ شامل ہیں ،اس لشکر کی سپہ سالاری کل کے بچے کو دینا مناسب نہیں۔یہ اعتراض رسول اﷲﷺ تک اس وقت پہنچا جب آپﷺ زندگی کے آخری بخار میں مبتلا تھے۔آپﷺ میں بولنے کی بھی سکت نہیں تھی۔آپﷺ نے بخار سے نجات پانے کیلئے اپنی ازواج سے کہا کہ آپﷺ کو غسل کرائیں۔آپﷺ پر پانی کے سات مشکیزے ڈالے گئے ۔اس سے بخار خاصا کم ہو گیا۔نقاہت زیادہ تھی۔پھر بھی آپﷺ مسجد میں چلے گئے جہاں بہت سے لوگ موجود تھے۔جن میں اعتراض کرنے والے سرکردہ افراد بھی تھے۔ ’’اے لوگو!‘‘رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔’’اسامہ کے لشکر کو کوچ کرنے دو۔تم نے اس کی سپہ سالاری پر اعتراض کیا ہے۔تم نے اس کے باپ کی سپہ سالاری پر بھی اعتراض کیا تھا۔میں اسامہ کو اس منصب کے قابل سمجھتا ہوں۔اس کے باپ کو بھی میں نے اس منصب کے قابل سمجھا تھااور تم نے دیکھا کہ میں نے سپہ سالاری اسے سونپ کر غلطی نہیں کی تھی۔‘‘
اعتراض ختم ہو گیااور رومیوں کے خلاف لشکر کوچ کر گیا۔لیکن جرف کے مقام پر اطلاع ملی کہ رسولِ کریمﷺ کی بیماری تشویشناک صورت اختیار کر گئی ہے۔اسامہؓ میں نوجوانی میں ہی بزرگوں جیسی دوراندیشی پیدا ہو گئی تھی۔انہوں نے لشکر کو جرف کے مقام پر روک لیااور خود رسول اﷲﷺ کو دیکھنے مدینہ آئے۔ایک تحریر میں اسامہؓ کا بیان ان الفاظ میں ملتا ہے:’’اطلاع ملی کہ رسول اﷲﷺ کی حالت بگڑ گئی ہے تو میں اپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مدینہ آیا۔ہم سیدھے رسول اﷲﷺ کے حضور گئے۔آپﷺ پرنقاہت طاری تھی ،اتنی کہ بول بھی نہ سکتے تھے۔آپﷺ نے دو تین بارہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف کئے اور ہر بار ہاتھ میرے اوپر رکھ دیئے ،میں سمجھ گیا کہ حضورﷺ میرے لئے دعا کر رہے ہیں۔‘‘دوسرے روز اسامہؓ پھر آپﷺ کے حضور گئے اور کہا۔’’یا رسول اﷲﷺ!لشکر جرف میں میرا منتظر ہے۔اجازت فرمائیے۔‘‘رسول اﷲﷺ نے ہاتھ اوپر اٹھائے مگر ہاتھ زیادہ اوپر نہ اٹھ سکے۔ضعف بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔اسامہؓ دل پر غم کا بوجھ ،آنکھوں میں آنسو لے کرروانہ ہو گئے۔تھوڑی ہی دیر بعد رسول اﷲﷺ وصال فرماگئے۔قاصد اسامہؓ کے پیچھے دوڑا اور راستے میں جالیا۔اسامہؓ نے حضورﷺ کے وصال کی خبر سنی ۔گھوڑا سرپٹ دوڑایا اپنے لشکر تک پہنچے۔وصال کی خبر نے لشکر میں کہرام برپا کر دیا۔اسامہؓ لشکر کو مدینہ لے آئے۔خلیفۂ اول کی بیعت ہو چکی تھی۔انہوں نے اسامہؓ کو بلا کر پوچھا کہ رسول اﷲﷺ نے انہیں کیا حکم دیا تھا؟’’یہ حکم تو آپ کو بھی معلوم ہے۔‘‘اسامہؓ نے جواب دیا۔’’مجھ سے ہی سننا ہے تو سن لیں۔رسول اﷲﷺ نے حکم دیا تھا کہ میں فلسطین میں بلقاء اور دوام کی سرحد سے آگے جاکر رومیوں پر حملہ کروں لیکن وہاں تک لشکر اس طرح پہنچے کہ دشمن کو حملے تک لشکر کی آمد کی خبر تک نہ ہو سکے۔‘‘’’جاؤ اسامہ!‘‘ ابو بکرؓ نے کہا۔’’اپنالشکر لے جاؤ اور رسول اﷲﷺ کے حکم کی تعمیل کرو۔‘‘لشکر کو جب یہ حکم ملا تو ابو بکر ؓ پر اعتراض ہونے لگے۔سب کہتے تھے کہ جب ہر طرف سے خطروں کے طوفان نے گھیر لیا ہے ،اتنی بڑی جنگ اور وہ بھی اتنی دور ،شروع نہیں کرنی چاہیے۔اس لشکر کی ان فتنوں کی سرکوبی کیلئے ضرورت ہے جو بڑی تیزی سے اٹھ رہے ہیں۔’’قسم ہے اس اﷲ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’اگر مجھے جنگل کے درندے چیرنے پھاڑنے کیلئے آ جائیں تو بھی میں اسامہ کے لشکر کو نہیں روکوں گا۔میں اس حکم کی خلاف ورزی کس طرح کر سکتا ہوں جو رسول اﷲﷺ نے اپنی زندگی میں دیا تھا؟میں اگر مدینہ میں اکیلا رہ گیا تو بھی اس لشکر کو نہیں روکوں گا۔‘‘ ’’تم پر سلامتی ہوابو بکر!‘‘عمرؓ نے کہا۔’’اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگرلشکر کو بھیجنا ہی ہے توسپہ سالاری اسامہ کے بجائے کسی تجربے کار آدمی کو دیں۔‘‘’’اے ابنِ خطاب!‘‘ابو بکرؓ نے جواب دیا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ اسامہ کو رسول اﷲﷺ نے سپہ سالار مقرر کیا تھا ؟کیا تم جرات کرو گے کہ رسول اﷲﷺ کے حکم کو منسوخ کردو؟‘‘’’میں ایسی جرات نہیں کروں گا۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’مجھ میں اتنی جرات نہیں۔‘‘’’میری سن ابنِ خطاب!‘‘ابو بکر ؓ نے کہا۔’’اپنی قوم کو دیکھ۔پوری قوم غم سے نڈھال ہے۔غم کے ساتھ ساتھ ایک خوف ہے جو ہر کسی کے دل میں اترتا جا رہا ہے۔یہ خوف ان بغاوتوں کا ہے جو ہمارے اردگرد اٹھ رہی ہیں،ہر روز ایک خبر آتی ہے کہ آج فلاں قبیلہ باغی ہو گیا ہے ۔بعض قبیلے اسلام سے منحرف ہو گئے ہیں ۔اسلام بھی خطرے میں آگیاہے اور مدینہ بھی۔یہودیوں اور نصرانیوں نے بڑی خوفناک افواہیں پھیلانی شروع کر دی ہیں ۔ان سے اور زیادہ خوف پھیل رہا ہے۔اگر ہم نے رومیوں پر حملہ روک لیا تو دو نقصان ہوں گے۔ایک یہ کہ قوم سمجھے گی کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں۔دوسری یہ کہ رومی اور مجوسی ہم کو کمزور سمجھ کر ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔میں قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم کمزور نہیں ہو گئے۔ہمارااﷲ ہمارے ساتھ ہے۔میں قوم کے حوصلے اور جذبے پہلے کی طرح مضبوط رکھنا چاہتا ہوں۔رسول اﷲﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا میرا فرض ہے۔‘‘عمرؓ کو اس استدلا ل نے مطمئن کر دیا ۔ابو بکرؓ نے کوچ کاحکم دے دیا۔
اسامہؓ کا لشکر روانہ ہوا تو ابوبکرؓ کچھ دور تک پیدل ہی ساتھ چل پڑے۔اسامہؓ گھوڑے پر سوار تھے۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک سپہ سالار اور وہ بھی نوجوان ،گھوڑے پر سوارتھااور خلیفہ اس کے ساتھ ساتھ پیدل جا رہے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ ؓہر کسی کو دِکھانا چاہتے تھے کہ سپہ سالار اسامہؓ تعظیم و تکریم کے قابل ہے۔’’اے خلیفۂ رسولﷺ !‘‘اسامہؓ نے کہا۔’’آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں یا میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا۔‘‘’’نہ میں سوار ہوں گا اور نہ تم پیدل چلو گے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں روحانی تسکین محسوس کر رہا ہوں کہ اﷲ کی راہ کی گَرد میرے پاؤں پر بھی پڑ رہی ہے"۔ عمرؓ بھی اس لشکر میں شامل تھے۔ابو بکرؓ کو محسوس ہوا کہ مدینہ میں انہیں عمرؓ کی ضرورت ہو گی۔ ’’اسامہ!‘‘خلیفہ نے سپہ سالار سے کہا۔’’اگر تم اجازت دو تو میں عمر ؓکو مدینہ میں رکھ لوں۔مجھے اس کی مددکی ضرورت ہو گی۔‘‘ اسامہؓ نے عمرؓ کو لشکر میں سے نکل کر واپس جانے کی اجازت دے دی۔ابو بکرؓ بہت بوڑھے تھے۔ایک جگہ رک گئے۔اسامہؓ نے لشکر کو روک لیا۔ابو بکرؓ نے ذرا بلند جگہ پر کھڑے ہو کر لشکر سے خطاب کیا۔’’اسلام کے مجاہدو!میں تمہیں دس نصیحتیں کرتا ہوں۔انہیں یاد رکھنا۔خیانت نہ کرنا،چوری نہ کرنا،دشمن کے لاشوں کے اعضاء نہ کاٹنا،بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا،کھجوروں اور پھلوں کے درخت نہ کاٹنا،کھانے کی غرض کے سوا کسی جانور کو ذبح نہ کرنا،تمہیں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں نظر آئیں گی جن مین تارک الدنیا لوگ بیٹھے ہوں گے انہیں پریشان نہ کرنا،کسی بستی کے لوگ برتنوں میں تمہارے لیے کھانا لائیں گے یہ کھانا اﷲ کا نام لے کر کھانا،تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے اپنے سروں میں شیطان کے گھونسلے بنا رکھے ہیں ۔ان کے سروں کے درمیان کا حصہ منڈھا ہوا ہو گااور باقی بال بہت لمبے لمبے ہوں گے،انہیں قتل کر دینا۔اپنی حفاظت اﷲکے نام سے کرنا،خدا حافظ مجاہدو!اﷲتمہیں شکست اور وبا سے دور رکھے۔‘‘لشکر کی مدینہ سے روانگی کی تاریخ ۲۴ جون ۶۳۲ء یکم ربیع الثانی ۱۱ہجری تھی۔یہ کہانی چونکہ شمشیرِ بے نیام کی ہے اس لئے ہم وہ واقعات بیان کریں گے جن کا تعلق خالدؓ بن ولید سے ہے۔رسول اﷲﷺ نے خالدؓ کو اﷲ کی تلوار کہاتھا۔اسامہؓ کےلشکر کے متعلق اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ انہوں نے صرف چالیس دنوں میں ہی رومیوں کے خلاف وہ کامیابی حاصل کرلی جورسول ِکریمﷺ حاصل کرنا چاہتے تھے۔اسامہؓ سالاری کے ہر پہلو پر پورے اترے اور جب وہ فتح یاب ہو کر مدینہ میں آئے تو ان سب نے انہیں گلے لگایا جنہوں نے ان کی سپہ سالاری پر اعتراض کیے تھے۔دوسری بڑی جنگ مرتدین کے خلاف تھی۔ ابو بکرؓنے اپنی فوج کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کے سالار مقرر کیے اور ان کیلئے محاذ مقرر کر دیئے۔یعنی ہر سالار کو ایک ایک علاقہ بتا دیا گیا جہاں انہیں حملہ کرنا تھا۔اس تقسیم میں ابو بکرؓ نے خاص طور پر یہ خیال رکھا تھاکہ ہر دشمن کی طاقت اور لڑنے والی نفری دیکھ کر اس کے مطابق سالار مقرر کیے جائیں۔سب سے زیادہ طاقتور اور مکار دو مُرتد تھے۔ایک طلیحہ اور دوسرا مسیلمہ،ان دونوں نے نبوت کا دعویٰ کرکے ہزار ہا پیروکار پیدا کر لیے تھے۔خالدؓ بن ولید کو ابو بکرؓ نے حکم دیا کہ وہ طلیحہ کی بستیوں پر حملہ کریں اوراس سے فارغ ہوکر بطا ح کا رخ کریں۔جہاں بنی تمیم کے سردار مالک بن نویرہ نے بغاوت کر دی تھی۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
تمام سالار اپنے اپنے محاذوں اور مہموں کو روانہ ہو گئے۔خالدؓ اپنی مہم کے علاقے میں حسبِ عادت اتنی تیزی سے پہنچے کہ دشمن کو خبر تک نہ ہوئی۔انہوں نے کچھ بستیوں کو گھیرے میں لے لیا تو خالد ؓکے پاس کچھ آدمی آئے اور انہیں بتایا کہ بعض قبیلے طلیحہ کے فریب کا شکار ہیں۔ان کی خونریزی مناسب نہیں ہو گی۔اگر خالد ؓذرا انتظار کریں تو قبیلہ طئی کے کم و بیش پانچ سو آدمی خالد ؓکے دستے میں شامل ہو جائیں گے۔خالدؓ نے انتظار کیا اور یہ آدمی قبیلہ طئی کے پانچ سو آدمی لے آئے جو طلیحہ کے قبیلے اور اس کے زیرِ اثر قبیلوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ تھے۔وہ مسلح ہو کر آئے تھے۔اسی طرح قبیلہ جدیلہ بھی خالدؓ کے ساتھ مل گیا۔طلیحہ کو پتا چلا تو وہ بہت گھبرایا لیکن ایک شخص عینیہ اس کے ساتھ تھا۔وہ بنی فرازہ کا سردار تھا۔اس کے دل میں مدینہ والوں کے خلاف اتنا عناد بھرا ہوا تھا کہ اس نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ مدینہ والوں کی حکومت کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کر سکتا۔غزوۂ احزاب میں جن تین لشکروں نے مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ،ان میں سے ایک لشکر کا سالار یہی شخص عینیہ بن حصن تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اپنے اس اصول کے مطابق کہ دشمن کو تیاری کی حالت میں پکڑو ،مدینہ سے نکل کر ان تینوں لشکروں پر حملہ کر دیا تھا ۔سب سے زیادہ نقصان عینیہ کے لشکر کو اٹھانا پڑا۔اس نے مجبور ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اسلام کے خلاف سر گرم رہا۔خالدؓ کو پتا چلا کہ طلیحہ کے ساتھ عینیہ ہے تو انہوں نے عہد کیا کہ ان دونوں کو نہیں بخشیں گے۔خالدؓ نے پیش قدمی سے پہلے اپنے دو آدمیوں عکاشہ بن محصن اور ثابت بن اقرم انصاری کو لشکر سے آگے بھیج دیا کہ وہ دشمن کی نقل و حرکت یا کوئی اور بات دیکھیں جو لشکر کی پیش قدمی کے کام آ سکے تو پیچھے اطلاع دیں۔دونوں چلے گئے اور خالد ؓاپنے دستوں کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔بہت دور جا کر ان دونوں میں سے کوئی بھی واپس آ تا دکھائی نہ دیا۔کچھ دور گئے تو تین لاشیں پڑیں ملیں جو خون میں نہائی ہوئی تھیں۔ دو لاشیں انہی دو آدمیوں عکاشہ اور ثابت کی تھیں جنہیں خالد ؓنے آگے بھیجا تھا۔تیسری لاش کسی اجنبی کی تھی ۔بعد میں جو انکشاف ہوا (طبری اور قاموس کے مطابق)کہ یہ دونوں آگے جا رہے تھے ۔راستے میں انہیں ایک شخص حبال مل گیا۔ایک مؤرخ کامل ابنِ اثیر لکھتا ہے کہ حبال طلیحہ کا بھائی تھا لیکن طبری اور قاموس اسے طلیحہ کا بھتیجا لکھتے ہیں،عکاشہ اور ثابت نے اسے للکار کر قتل کر دیا۔ اس کی اطلاع طلیحہ کو مل گئی۔وہ اپنے بھائی سلمہ کو اپنے ساتھ لے کر آ گیا۔عکاشہ اور ثابت ابھی اور آگے جا رہے تھے ۔طلیحہ اور سلمہ نے گھات لگائی اور دونوں کو مقابلے کی مہلت دیئے بغیر ہی قتل کر دیا۔خالدؓ آگ بگولہ ہو گئے اور طلیحہ کی بستی پر جا دھمکے ۔عینیہ ،طلیحہ کی فوج کی کمان کر رہا تھا اور طلیحہ ایک خیمہ میں نبی بنا بیٹھا تھا۔عینیہ نے مسلمانوں کا قہر اور غضب دیکھا تو وہ اپنے لشکر کو لڑتا چھوڑ کر طلیحہ کے پاس گیا ،وہ طلیحہ کو سچا نبی مانتا تھا۔
’’یا نبی! ‘‘عینیہ نے طلیحہ سے پوچھا۔’’مشکل کا وقت آن پڑا ہے ،جبرئیل کوئی وحی لائے ہیں ؟‘‘’’ابھی نہیں۔‘‘طلیحہ نے کہا۔’’تم لڑائی جاری رکھو۔‘‘عینیہ دوڑتا گیا اور لڑائی میں شامل ہو گیا ۔مسلمانوں کا قہر اور بڑھ گیا تھا ۔خالدؓ کی چالیں جھوٹے نبی کے لشکر کے پاؤں اکھاڑ رہی تھیں۔عینیہ ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا۔’’یا نبی!‘‘اس نے طلیحہ سے پوچھا۔’’کوئی وحی نازل ہوئی؟‘‘’’ابھی نہیں۔‘‘طلیحہ نے کہا۔’’تم لڑائی جاری رکھو۔‘‘’’وحی کب نازل ہو گی؟‘‘عینیہ نے جھنجھلا کر پوچھا۔’’تم کہا کرتے ہو کہ مشکل کے وقت وحی نازل ہوتی ہے۔‘‘’’خدا تک میری دعا پہنچ گئی ہے۔‘‘طلیحہ نے کہا۔’’وحی کا انتظا رہے۔‘‘عینیہ اپنے لشکر میں چلا گیا مگر اب اس کا لشکر خالد ؓکے گھیرے میں آ گیا تھا۔عینیہ گھبراہٹ کے عالم میں ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا اور اسے اپنے لشکر کی کیفیت بتا کر پوچھا کہ وحی نازل ہوئی ہے یا نہیں۔’’ہاں!‘‘طلیحہ نے جواب دیا۔’’وحی نازل ہو چکی ہے۔‘‘’’کیا؟‘‘’’یہ کہ……‘‘طلیحہ نے جواب دیا۔’’مسلمان بھی جنگ لڑ رہے ہیں تم بھی جنگ لڑ رہے ہو ۔تم اس وقت کو کبھی نہ بھول سکو گے۔‘‘عینیہ کوکچھ اور توقع تھی ۔لیکن طلیحہ نے اسے مایو س کر دیا ۔اسے یہ بھی پتا چل گیا کہ طلیحہ جھوٹ بول رہا ہے ۔’’لا ریب ایسا ہی ہو گا۔‘‘عینیہ نے غصے سے کہا۔’’وہ وقت جلد ہی آ رہا ہے جسے تم ساری عمر نہیں بھول سکو گے۔‘‘عینیہ دوڑتا باہر گیا اور چلا چلا کر اپنے قبیلے سے کہنے لگا ۔’’اے بنو فرازہ! طلیحہ کذاب ہے ۔جھوٹے نبی کے پیچھے جانیں مت گنواؤ ۔بھاگو، اپنی جانیں بچاؤ۔‘‘بنو فرازہ تو بھاگ اٹھے ۔طلیحہ کے اپنے قبیلے کے لڑنے والے لوگ طلیحہ کے خیمہ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ خالدؓ تماشہ دیکھنے لگے۔طلیحہ کے خیمے کے ساتھ ایک گھوڑا اور ایک اونٹ تیار کھڑے تھے۔قبیلہ طلیحہ سے پوچھ رہا تھا کہ پھر اب کیا حکم ہے؟طلیحہ کی بیوی جس کا نام نوار تھا، اس کے ساتھ تھی۔طلیحہ گھوڑے پر سوار ہو گیا اور اس کی بیوی اونٹ پر چڑھ بیٹھی۔’’لوگو! ‘‘طلیحہ نے اپنے قبیلے سے کہا۔’’میری طرح جس کے پاس بھاگنے کا انتظام ہے، وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر بھاگ جائے۔‘‘ اس طرح اس کذاب کا فتنہ ختم ہو گیا ۔عمرؓ کے دورِ خلافت میں طلیحہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور مسلمان ہو گیاتھا۔
خالدؓ نے اور کئی قبیلوں کو مطیع کیا اور انہیں ارتداد کی کڑی سزا دی۔ان پر اپنی شرائط عائد کیں،اسلام سے جو منحرف ہو گئے تھے انہیں دوبارہ حلقہ بگوش اسلام کیا۔طلیحہ کی نبوت کو بھی خالدؓ نے ختم کر دیا اور عینیہ جو یہودیوں سے بڑھ کر مسلمانوں کا دشمن تھا،ایسا بھاگا کہ اس نے عراق جا دم لیا،مگر اس کا زہر ابھی پیچھے رہ گیا تھا۔ یہ زہر ایک عورت کی شکل میں تھا جو سلمیٰ کہلاتی تھی۔اس کا پورا نام امِ زمل سلمیٰ بنت مالک تھا۔سلمیٰ بنو فرازہ کے سرداروں کے خاندان کی ایک مشہور عورت ام قرفہ کی بیٹی تھی۔رسولِ کریمﷺ کی زندگی کا واقعہ ہے کہ زید بن حارثہؓ(اسامہؓ کے والد)بنی فرازہ کے علاقے میں جا نکلے ۔یہ قبیلہ مسلمانوں کا جانی دشمن تھا۔وادی القراء میں زید ؓکا سامنا بنی فرازہ کے چند آدمیوں سے ہو گیا۔زیدؓ کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے۔بنی فرازہ کے ان آدمیوں نے ان سب کو قتل کر دیا اور زیدؓ کو گہرے زخم آئے۔وہ گرتے پڑتے مدینہ پہنچ گئے ۔جب ان کے زخم ٹھیک ہو گئے تو رسولِ اکرمﷺ نے انہیں باقاعدہ فوجی دستے دے کر بنو فرازہ پر حملہ کیلئے بھیجا تھا۔مسلمانوں نے بنی فرازہ کے بہت سے آدمیوں کو ہلاک اور کچھ کو قید کر لیا۔جھڑپ بڑی خونریز تھی ۔ان قیدیوں میں ام قرفہ فاطمہ بنت بدر بھی تھی۔اس عورت کی شہرت یہ تھی کہ اپنے قبیلے کے علاوہ دوسرے قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی رہتی تھی۔اسے مدینہ لا کر سزائے موت دے دی گئے۔اس کے ساتھ اس کی کم سن بیٹی ام زمل سلمیٰ بھی تھی۔رسولِ کریمﷺ نے یہ لڑکی ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کے حوالے کر دی۔اسے پیار سے رکھا گیا مگر وہ ہر وقت اداس رہتی تھی۔عائشہ صدیقہؓ نے اس پر رحم کرتے ہوئے اس کو آزاد کر دیا۔بجائے اس کے کہ سلمیٰ مسلمانوں کی شکر گزار ہوتی کہ اسے لونڈی نہ رہنے دیا گیا اور اسے آزاد کر کے اونچی حیثیت میں واپس بھیج دیا گیا اس نے اپنے دل میں اپنی ماں کے قتل کا انتقام رکھ لیا اور جنگی تربیت حاصل کرنے لگی۔وہ سرداروں کے خاندان کی لڑکی تھی ۔اس میں قیادت کے جوہر بھی پیدا ہو گئے۔اس نے مسلمانوں کے خلاف ایک لشکر تیارکر لیا اور مدینہ پر حملے کیلئے پر تولنے لگی۔مگر مسلمان ایک جنگی قوت بن چکے تھے اس لیے سلمیٰ مدینہ کے قریب آنے کی جرات نہ کر سکی۔اب طلیحہ اور عینیہ کو شکست ہوئی تو سلمیٰ میدان میں آ گئی۔ اس کی ماں عینیہ کی چچازاد بہن تھی ،جن قبیلوں نے خالدؓ سے ٹکر لی تھی انہیں یہ لڑائی بڑی مہنگی پڑی تھی۔جو بچ گئے تھے وہ اِدھر اُدھر بھاگ گئے تھے۔ ان میں غطفان ،طئی ،بنو سلیم اور ہوازن کے بعض سرکردہ لوگ سلمیٰ کے ہاں جا پہنچے اور عہد کیا کہ سلمیٰ اگر ان کا ساتھ دے تو وہ مسلمانوں سے انتقام لینے کیلئے جانیں قربان کر دیں گے۔سلمیٰ تو موقع کی تلاش میں تھی وہ تیار ہو گئی اور چند دنوں میں اپنا لشکر تیار کرکے روانہ ہو گئی۔
اس وقت خالدؓ بزاخہ میں تھے جہاں انہوں نے طلیحہ کو شکست دی تھی۔ اُنہیں اطلاع ملی کہ بنو فرازہ کا لشکر آ رہا ہے ۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو تیار کر لیا۔جس طرح سلمیٰ کی ماں اپنے جنگی اونٹ پر سوار ہو کر لشکر کے آگے آگے چلا کرتی تھی ،اسی طرح سلمیٰ بھی اپنے لشکر کے آگے آگے تھی۔اس کے ارد گرد ایک سو شتر سواروں کا گھیرا تھا جو تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے۔یہ لشکر جوش و خروش بلکہ قہر اور غضب کے نعرے لگاتا آ رہا تھا ۔خالدؓ نے انتظار نہ کیاکہ دشمن اور قریب آئے۔ان کے ساتھ نفری تھوڑی تھی ،وہ دشمن کواتنی مہلت نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ حملہ کی ترتیب یا قلیل تعداد مسلمانوں کو نفری کی افراط کے بل بوتے پرگھیرے میں لینے کی پوزیشن میں آئے۔خالدؓنے ہلہ بولنے کے انداز سے حملہ کر دیا، انہیں معلوم تھا کہ دشمن کا لشکر سفر کا تھکا ہوا ہے۔ خالدؓ نے دشمن کی اس جسمانی کیفیت سے بھی فائدہ اٹھایا ۔سلمیٰ جو ایک سو جانباز شتر سواروں کے حفاظتی نرغے میں تھی ۔اشتعال انگیز الفاظ سے اپنے لشکر کے جوش و خروش میں جان ڈال رہی تھی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ بنو فرازہ نے خالدؓ کو بڑا ہی سخت مقابلہ دیا۔نفری تھوڑی ہونے کی وجہ سے خالدؓ مجبور ہوتے جا رہے تھے اور دشمن کے حوصلے بڑھتے جا رہے تھے۔سلمیٰ کی للکار اور الفاظ جلتی پر تیل کا کام کر رہے تھے ۔خالدؓ نے سوچا کہ صرف یہ عورت ماری جائے تو بنو فرازہ کے قدم اُکھڑ جائیں گے۔ انہوں نے اپنے چند ایک منتخب جانبازوں سے کہا کہ وہ سلمیٰ کا حفاظتی حصار توڑ کر اسے اونٹ سے گرا دیں ۔سلمیٰ کے محافظ بھی جانباز ہی تھے، وہ خالدؓ کے جانبازوں کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ ان جانبازوں نے یہ طریقہ اختیار کیاکہ ایک ایک محافظ شتر سواروں کو دوسروں سے الگ کر کے مارنا شروع کر دیا۔اس طرح جانبازوں نے گھیرا توڑ دیا لیکن کوئی جانباز سلمیٰ تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔زخمی ہو کر پیچھے آ جاتا تھا۔ آخر پورے ایک سو محافظ مارے گئے ۔خالدؓ کو اس کی بہت قیمت دینی پڑی ۔جانبازوں نے تلواروں سے سلمیٰ کے کچاوے کی رسیاں کاٹ دیں ۔کچاوہ سلمیٰ سمیت نیچے آ پڑا ۔جانبازوں نے خالدؓ کی طرف دیکھا کہ کیا حکم ہے، قیدی بنانا ہے یا قتل کرنا ہے؟خالدؓ نے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ایک جانباز نے تلوار کے ایک ہی وار سے سلمیٰ کا سر تن سے جدا کر دیا۔بنو فرازہ نے یہ منظر دیکھا تو ان میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ اپنی لاشوں اور زخمیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔
مدینہ سے تقریباً دو سو پچھتر میل شمال مشرق میں بطاح نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں بدؤوں کے چند ایک کنبے آباد ہیں ۔اس گاؤں کو کوئی اہمیت کوئی حیثیت حاصل نہیں۔اگر وہاں اِدھر اُدھر غور سے دیکھیں تو ایسے آثار ملتے ہیں جیسے یہاں کبھی شہر آباد رہا ہو۔ چودہ صدیاں گزریں،یہاں ایک شہر آباد تھا ،اس کا نام بطاح تھا۔جو آج تک زندہ ہے مگر شہر سکڑ سمٹ کر چھوٹا سا گاؤں رہ گیا ہے۔ اس شہر میں خوبصورت لوگ آباد تھے ،وہ بہادر تھے نڈر تھے اور باتیں ایسے انداز سے کرتے تھے جیسے کوئی نظم سنا رہے ہوں۔ عورتیں حسین تھیں اور مرد وجیہہ تھے۔یہ ایک طاقت ور قبیلہ تھا جسے ’’بنی تمیم ‘‘کہتے تھے۔بنو یربوع بھی ایک قبیلہ تھا لیکن الگ تھلگ نہیں بلکہ بنی تمیم کا سب سے بڑا حصہ تھا۔اس کا سردار ’’مالک بن نویرہ‘‘ تھا۔بنی تمیم کا مذہب مشترک نہیں تھا ۔ان میں آتش پرست بھی تھے، قبر پرست بھی لیکن اکثریت بت پرست تھی۔بعض عیسائی ہو گئے تھے ،یہ لوگ سخاوت، مہمان نوازی اور شجاعت میں مشہور تھے ۔رسولِ اکرمﷺ نے ہر طرف قبولِ اسلام کے پیغام جن قبیلوں کو بھیجے تھے ان میں بنو تمیم خاص طور پر شامل تھے۔ اسلام کے فروغ اور استحکام کیلئے بنو تمیم جیسے طاقتور اور با اثر قبیلے کو ساتھ ملانا ضروری تھا۔یہ ایک الگ کہانی ہے کہ اس قبیلے نے اسلام کس طرح قبول کیا تھا، مختصر یہ کہ بنی تمیم کی غالب اکثریت نے اسلام قبول کرلیا ۔مالک بن نویرہ منفرد شخصیت اور حیثیت کا حامل تھا۔ وہ آسانی سے اپنے عقیدے بدلنے والا آدمی نہیں تھا۔لیکن اس نے دیکھا کہ بنو تمیم کے بیشتر قبائل مسلمان ہو گئے ہیں تو اس نے اپنی مقبولیت اور اپنی سرداری کو قائم رکھنے کیلئے اسلام قبول کرلیا ۔چونکہ یہی شخص زیادہ با رعب اور اثر و رسوخ والا تھا اس لئے رسولِ کریمﷺ نے اسے بطاح کا امیر مقرر کر دیا تھا۔زکوٰۃ ،عشر دیگر محصول اور واجبات وصول کرکے مدینہ بھجوانا اس کی ذمہ داری تھی ۔مشہور مؤرخ بلاذری اور محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ مالک بن نویرہ بڑا وجیہہ اور خوبصورت آدمی تھا ۔اس کے قد کاٹھ میں عجیب سی کشش تھی ۔اسکے سر کے بال لمبے اور خوبصورت تھے ۔شہسوار ایسا کہ کوئی اس کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا تھا ۔اچھا خاصا شاعر تھا ۔آواز میں مٹھاس اور ترنم تھا اور اس میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہنس مکھ تھا۔ غم کے مارے ہوؤں کو ہنسا دیتا تھا۔ اس میں خرابی یہ تھی کہ اس میں غرور اور تکبر بہت تھا ۔اس کی ایک وجہ تو اس کی وہ حیثیت تھی جو اسے بنو تمیم میں اور خصوصاً اپنے قبیلے میں حاصل تھی دوسری وجہ اس کا مردانہ حسن اور دیگر مردانہ اوصاف تھے۔جو ایک طلسم کی طرح دوسروں پر حاوی ہو جاتے تھے ۔اس کا تعلق متعدد عورتوں کے ساتھ تھا۔ قبیلے کی جوان لڑکیاں اس کا قرب حاصل کرنے کی خواہاں اور کوشاں رہتی تھیں ۔لیکن وہ وقتی تعلق رکھتا اور کسی کو بیوی نہیں بناتا تھا۔کہتا تھا کہ اس طرح ایک عورت اس کے ہم پلہ ہو جائے گی حالانکہ اس وقت بیویوں کو یہ مقام حاصل نہیں تھا۔وہ قبیلے کی عورتوں کے دلوں میں بستا تھا۔اُس کے دِل کو مسخر کرنے والی عورت کا نام لیلیٰ تھا۔مالک بن نویرہ نے لیلیٰ سے شادی کر لی لیلیٰ کو قبیلے نے اُمّ تمیم کا نام دیا تھا۔
رسولِ کریمﷺ کے وصال کی خبر ملتے ہی مالک بن نویرہ نے مدینہ والوں سے نظریں پھیر لیں اور ظاہر کر دیا کہ اس نے اسلام قبول کیا تھا ایمان نہیں۔اس نے زکوٰ ۃ اور محصولات وصول کرکے اپنے گھر میں رکھے ہوئے تھے ۔چند دنوں تک اس نے یہ مال مدینہ کو بھیجنا تھا۔ اس نے قبیلے کے لوگوں کو اکھٹا کرکے انہیں زکوٰ ۃ اور محصولات واپس کردیئے۔’’اب تم آزاد ہو۔‘‘مالک نے کہا۔’’میں نے مدینہ کی زنجیر توڑ ڈالی ہے۔اب جو کچھ تم کماؤ گے وہ سب تمہارا ہو گا۔‘‘لوگو ں نے دادوتحسین کے نعرے بلندکیے ۔مالک بہت خوش تھا کہ مدینہ سے تعلق توڑ کر وہ اپنے قبیلے کا پھر خود مختار سردار بن گیا ہے مگر اس کی خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔دو تین قبیلوں کے سرکردہ آدمیوں نے مالک سے کہا کہ اس نے مدینہ سے تعلق توڑ کر اچھا نہیں کیا۔ مالک نے انہیں مدینہ کے خلاف کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی زبان کا جادو نا چل سکا۔زکوٰۃ اور محصولات کی ادائیگی کے مسئلے پر بنو تمیم تین حصوں میں بٹ گئے۔ ایک وہ تھے جو زکوٰۃ وغیر ہ کی ادائیگی کرنا چاہتے تھے ۔دوسرے وہ جو مدینہ والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے اور تیسرے وہ تھے جن کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ وہ کیا کریں۔ان سب کے اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ قبیلوں کی آپس میں خونریز لڑائیاں شروع ہو گئیں۔اتنے میں سجاع اپنا لشکر لے کر آ گئی ۔سجاع کا ذکر پہلے آ چکا ہے اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا ۔الحارث کی بیٹی سجاع اپنے لشکر کے ساتھ مالک بن نویرہ کے قبیلے بنو یربوع کے علاقے میں جا خیمہ زن ہوئی ۔اس نے مالک بن نویرہ کو بلاکر کہا کہ وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔’’اگر تم اپنے قبیلے کو میرے لشکر میں شامل کر دو توہم مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں ۔‘‘سجاع نے کہا۔’’تمہیں معلوم ہو گا کہ میں بنو یربوع میں سے ہوں ۔‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ مالک بن نویرہ نے کہا۔’’میں تمہارا دستِ راست بن جاؤں گا لیکن ایک شرط ہے جو دراصل ہماری ضرورت ہے۔ تم دیکھ رہی ہوکہ بنو تمیم کے قبیلوں میں دشمنی پیدا ہو چکی ہے۔ ان سب کو مصالحت کی دعوت دے کر انہیں مدینہ پر حملہ کیلئے تیار کریں گے ۔اگر یہ مصالحت پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم انہیں تباہ و بربادکر دیں گے۔اگر تم نے انہیں ختم نہ کیا تو یہ سب مل کر تمہارے خلاف ہو جائیں گے۔ ان میں مدینہ کے وفادار بھی ہیں، انہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کرلیا ہے۔‘‘مالک بن نویرہ کی خواہش یہ تھی کہ سجاع کے لشکر کو ساتھ ملا کر بنی تمیم کے مسلمانوں کو اور اپنے دیگر مخالفین کو ختم کیاجائے ۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ سجاع ،مالک بن نویرہ کے مردانہ حسن و جلال سے متاثر ہو گئی تھی ۔اس نے مالک کی بات فوراً مان لی ۔دونوں نے تمام قبیلوں کے سرداروں کو مصالحت کے پیغامات بھیجے۔پیغام میں یہ بھی شامل تھا کہ مدینہ پر حملہ کیا جائے گا۔ صرف ایک قبیلے کا سردار’’ وکیع بن مالک‘‘ تھا جس نے ان سے مصالحت قبول کرلی۔باقی تمام قبیلوں نے انکار کر دیا۔اس کے نتیجے میں سجاع ،مالک اور وکیع کے متحدہ لشکر نے دوسرے قبیلوں پر حملہ کردیا۔بڑی خونریز لڑائیاں لڑی جانے لگیں۔بنو تمیم جو سخاوت، مہمان نوازی اور زبان کی چاشنی کیلئے مشہور تھے ۔ایک دوسرے کیلئے وحشی اور درندے بن گئے ۔بستیاں اجڑ گئیں ،خون بہہ گیا ،لاشیں بکھر گئیں ۔لیلیٰ کو اپنے دروازے پر عورتوں کی آہ و بکا سنائی دی۔کچھ عورتیں بَین کر رہی تھیں۔’’کیا میں بیوہ ہو گئی ہوں ؟‘‘لیلیٰ ننگے پاؤں باہر کو دوڑی ۔وہ کہہ رہی تھی۔’’ مالک بن نویرہ کی لاش لائے ہیں۔‘‘اس نے دروازہ کھولا تو باہر دس بارہ عورتیں کھڑی بَین کر رہی تھیں۔لیلیٰ کو دیکھ کر ان کی آہ و زاری اور زیادہ بلند ہو گئی ۔تین عورتوں نے اپنے بازوؤں پر ننھے ننھے بچوں کی لاشیں اٹھا رکھی تھیں ۔لاشوں پر جو کپڑے تھے وہ خون سے لال تھے۔’’لیلیٰ کیا تو عورت ہے؟‘‘ایک عورت اپنے بچے کی خون آلود لاش لیلیٰ کے آگے کرتے ہوئے چلائی ۔’’تو عورت ہوتی تو اپنے خاوند کا ہاتھ روکتی کہ بچوں کا خون نہ کر۔‘‘’’یہ دیکھ۔‘‘ایک اور عورت نے اپنے بچے کی لاش لیلیٰ کے آگے کرتے ہوئے کہا۔’’یہ بھی دیکھ۔‘‘ایک اور بچے کی لاش لیلیٰ کے آگے آگئی۔’’یہ دیکھ میرے بچے ۔‘‘ایک عورت نے اپنے دو بچے لیلیٰ کے سامنے کھڑے کرکے کہا۔’’یہ یتیم ہو گئے ہیں ۔‘‘لیلیٰ کو چکر آنے لگا۔عورتوں نے اسے گھیر لیا اور چیخنے چلانے لگیں۔’’تو ڈائن ہے۔‘‘’’تیرا خاوند جلاد ہے۔‘‘’’سجاع کو نبوت کس نے دی ہے؟‘‘’’سجاع تیرے خاوند کی داشتہ ہے۔‘‘’’سجاع تیری سوکن ہے۔‘‘’’تیرے گھر میں ہمارے گھروں کا لوٹا ہوا مال آ رہا ہے۔‘‘’’مالک بن نویرہ تجھے ہمارے بچوں کا خون پلا رہا ہے۔‘‘’’ہمارے تمام بچوں کو کاٹ کر پھینک دے ،ہم سجاع کی نبوت نہیں مانیں گی۔‘‘’’ہمارے نبی محمدﷺ ہیں ۔محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘بستی کے لوگ اکھٹے ہوگئے ۔ان میں عورتیں زیادہ تھیں۔ لیلیٰ نے اپنا حسین چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔اس کا جسم ڈولنے لگا۔دو عورتوں نے اسے تھام لیا۔اس نے اپنے سر کو زور زور سے جھٹکا اور وہ سنبھل گئی۔ اس نے عورتوں کی طرف دیکھا ۔’’میں تمہارے بچوں کے خون کی قیمت نہیں دے سکتی۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’میرا بچہ لے جاؤ اور اسے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔‘‘’’ہم چڑیلیں نہیں۔‘‘ایک شور اٹھا ۔’’ہم ڈائنیں نہیں۔لڑائی بند کراؤ۔لوٹ مار اور قتل و غارت بند کراؤ۔تمہارا خاوند وکیع بن مالک اور سجاع کے ساتھ مل کر لوٹ مار کر رہا ہے ۔‘‘’’لڑائی بند ہو جائے گی۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’بچوں کی لاشیں اندر لے آؤ۔‘‘مائیں اپنے بچوں کی لاشیں اندر لے گئیں۔ لیلیٰ نے تینوں لاشیں اس پلنگ پر رکھ دیں جس پر وہ اور مالک بن نویرہ سویا کرتے تھے۔
مالک بن نویرہ لیلیٰ کا پجاری تھا۔اس پر لیلیٰ کا حسن جادو کی طرح سوار تھا۔اس زمانے میں سردار اپنی بیویوں کو لڑائیوں میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔لیکن یہ لڑائی اس قسم کی تھی کہ مالک لیلیٰ کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا تھا۔لیلیٰ سے وہ زیادہ دیرتک دور بھی نہیں رہ سکتا تھا۔اگر کہیں قریب ہوتا تو رات کو لیلیٰ کے پاس آجایا کرتا تھا۔وہ اس رات آ گیا۔کیا اس پلنگ پر کوئی سویا ہوا ہے؟‘‘مالک بن نویرہ نے پوچھا۔’’نہیں۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’تمہارے لیے ایک تحفہ ڈھانپ کر رکھا ہوا ہے……تین پھول ہیں لیکن مرجھا گئے ہیں۔‘‘مالک نے لپک کر چادر ہٹائی اور یوں پیچھے ہٹ گیا جیسے پلنگ پہ سانپ کنڈلی مارے بیٹھاہو۔اس نے لیلیٰ کی طرف دیکھا۔’’خون پینے والے درندے کیلئے اس سے اچھا تحفہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘لیلیٰ نے کہا اور اسے سنایا کہ ان کی مائیں کس طرح آئی تھیں اور کیا کچھ کہہ گئی ہیں۔اس نے اپنا دودھ پیتا بچہ مالک کے آگے کر کے کہا۔’’جا!لے جا اسے اور اس کا بھی خون پی لے۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’کیا تو وہ مالک بن نویرہ ہے جسے لوگ ہنس مکھ کہتے ہیں؟کیایہ ہے تیری سخاوت اور شجاعت کہ تو ایک عورت کے جال میں آکر لوٹ مار کرتا پھر رہا ہے ؟اگر تو بہادر ہے تو مدینہ پر چڑھائی کر۔یہاں نہتے مسلمانوں کو قتل کرتا پھر رہا ہے۔‘‘مالک بن نویرہ معمولی آدمی نہیں تھا۔اس کی شخصیت میں انفرادیت تھی جودوسروں پر تاثر پیدا کرتی تھی۔اس نے طعنے کبھی نہیں سنے تھے۔اس کا سر کبھی جھکا نہیں تھا۔’’کیایہ ہے تیرا غرور؟‘‘لیلیٰ نے اسے خاموش کھڑا دیکھ کر کہا۔’’کیا تو ان معصوم بچوں کی لاشوں پر تکبر کرے گا؟……ایک عورت کی خاطر……ایک عورت نے تیرا غرور اور تکبر توڑ کر تجھے قاتل اور ڈاکو بنا دیا ہے۔میں اپنے بچے کو تیرے پاس چھوڑ کر جا رہی ہوں۔پیچھے سے ایک تیر میری پیٹھ میں اتار دینا۔‘‘ ’’لیلیٰ!‘‘مالک بن نویرہ گرج کربولا مگر بجھ کہ رہ گیااور مجرم سی آواز میں کہنے لگا۔’’میں کسی عورت کے جال میں نہیں آیا۔‘‘’’جھوٹ نہ بول مالک!‘‘ لیلیٰ نے کہا۔’’میں جا رہی ہوں۔سجاع کو لے آ یہاں ……یہ یاد رکھ لے۔تیری سرداری ،تیری خوبصورتی ،تیری شاعری اور تیری خونخواری تجھے ان مرے ہوئے بچوں کی ماؤں کی آہوں اور فریادوں سے بچا نہیں سکیں گی۔یہ تو صرف تین لاشیں ہیں ۔بستیوں کولوٹتے معلوم نہیں کتنے بچے تیرے گھوڑوں کے قدموں تلے کچلے گئے ہوں گے۔تو سزا سے نہیں بچ سکے گا ۔تیرا بھی خون بہے گا اور میں کسی اور کی بیوی ہوں گی۔‘‘ مالک بن نویرہ نے یوں چونک کر لیلیٰ کی طرف دیکھا جیسے اس نے اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہو ۔وہ آہستہ آہستہ چلتا باہر نکل گیا۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟