🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *17* ۔۔۔۔
خالدؓ اسلامی لشکر کے آگے تھے۔وہ وادی حنین کے تنگ راستے میں داخل ہوئے تو صبح طلوع ہو رہی تھی ،خالدؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور رفتار تیز کردی۔خالدؓ جوشیلے جنگجو تھے اور جارحانہ قیادت میں یقین رکھتے تھے۔وہ جب مسلمان نہیں ہوئے تھے تو قبیلۂ قریش کے سردارِ اعلیٰ ابو سفیانؓ سے انہیں سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ وہ انہیں کھُل کر لڑنے نہیں دیتے تھے۔ان کے قبولِ اسلام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے رسولِ کریمﷺ کی عسکری قیادت میں وہ جذبہ دیکھا تھا جو انہیں پسند تھا۔خالدؓنے قبولِ اسلام سے پہلے عکرمہ سے کہابھی تھا کہ میرے عسکری جذبے اور میدانِ جنگ میں جارحانہ انداز کی قدر صرف مسلمان ہی کر سکتے ہیں۔رسول اﷲﷺ کی خالدؓ کی عسکری اہلیت اور قابلیت کی جو قد رکی تھی اس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اتنے بڑے لشکر کے ہراول کے کمانڈر تھے۔صبح طلوع ہو رہی تھی جب خالدؓ بن ولید کا ہراول کا دستہ گھاٹی والے تنگ رستے میں داخل ہوا۔اچانک زمین و آسمان جیسے پھٹ پڑے ہوں ۔ہوازن ،ثقیف اور دیگر قبیلوں کی متحدہ فوج کے نعرے گھٹاؤں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک کی طرح بلند ہوئے اور موسلا دھار بارش کی طرح تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔یہ تیر دائیں بائیں کی چٹانوں اور ٹیکریوں سے آ رہے تھے۔یہ دشمن کی گھات تھی۔مالک بن عوف اور دُرید بن الصّمہ نے دن کے وقت اپنے کیمپ میں کوئی سرگرمی ظاہر نہیں ہونے دی تھی۔ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے یہ جنگی کیمپ نہیں کسی قافلے کا پڑاؤ ہے۔شام کے بعد مالک بن عوف اپنی فوج کو حنین کے تنگ راستے پر لے گیا اور تیر اندازوں کو دونوں طرف چھپا کر بِٹھا دیا تھا۔تیروں کی بوچھاڑیں اچانک بھی تھیں اور بہت زیادہ بھی۔مجاہدین کے گھوڑے تیر کھاکے بے لگام ہو کر بھاگے۔جو سوار تیروں سے محفوظ رہے ،و ہ بھی پیچھے کو بھاگ اٹھے۔تیروں کی بوچھاڑیں اور تندوتیز ہو گئیں۔گھوڑے بھی بے قابو اور سوار بھی بے قابو ہو گئے ۔بھگدڑ مچ گئی۔’’مت بھاگو! ‘‘خالدؓ بن ولید تیروں کی بوچھاڑوں میں کھڑے چلّا رہے تھے۔’’پیٹھ نہ دکھاؤ……مقابلہ کرو……ہم دشمن کو……‘‘گھوڑوں اور سواروں کی بھگدڑ ایسی تھی کہ خالدؓ بن ولید کی پکار کسی کے کانوں تک پہنچتی ہی نہیں تھی۔کوئی یہ دیکھنے کیلئے بھی نہیں رُکتا تھا کہ خالدؓ کے جسم میں کتنے تیر اُتر گئے ہیں اور وہ پیچھے ہٹنے کے بجائے وہیں کھڑے اپنے دستے کو مقابلے کیلئے للکار رہے ہیں۔وہ آخر بھگدڑ کے ریلے کی زد میں آ گئے اور ان کے دھکوں سے یوں دور پیچھے آ گئے جیسے سیلاب میں بہہ گئے ہوں۔جب بھگدڑ کا ریلا گزر گیا تو خالدؓ اتنے زخمی ہو چکے تھے کہ گھوڑے سے گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔
ہراول کے پیچھے اسلامی فوج آ رہی تھی ۔اس کے پیچھے رضا کاروں کا بے قاعدہ لشکر بھی تھا،ہراول کا دستہ بھاگتا دوڑتا پیچھے کو آیا تو فوج میں بھی بھگدڑ مچ گئی،ہراول کے بہت سے آدمیوں کے جسموں میں تیر پیوست تھے،اور انکے کپڑے خون سے لال تھے۔گھوڑوں کو بھی تیر لگے ہوئے تھے ۔مالک بن عوف کی فوج کے نعرے جو پہلے سے زیادہ بلند ہو گئے تھے ،سنائی دے رہے تھے۔ یہ حال دیکھ کر اسلامی فوج بکھر کر پیچھے کو بھاگی۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ قریش جو بے دلی سے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی فوج کے ساتھ آ گئے تھے انہوں نے اس بھگدڑ کو یوں بڑھایا جیسے جلتی پر تیل ڈالا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف بھاگے بلکہ انہوں نے خوف وہراس پھیلایا۔ اُنہیں ایک خوشی تو یہ تھی کہ لڑائی سے بچے اور دوسری یہ کہ مسلمان بھاگ نکلے ہیں اور انہیں شکست ہوئی ہے۔مسلمانوں کی کچھ نفری وہیں جا پہنچی جہاں سے چلی تھی،اس جگہ کو فوجی اڈابیس بنایا گیا تھا۔زیادہ تعداد ان مسلمانوں کی تھی جنہوں نے پیچھے ہٹ کر ایسی جگہوں پر پناہ لے لی جہاں چھپا جا سکتا تھا لیکن وہ چھپنے کیلئے بلکہ چھپ کر یہ دیکھنے کیلئے وہاں رُکے تھے کہ ہوا کیا ہے؟اور وہ دشمن کہاں ہے جس سے ڈر کر پوری فوج بھاگ اٹھی ہے ۔وہاں تو حالت یہ ہو گئی تھی کہ بھاگتے ہوئے اونٹ اور گھوڑے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے اور پیادے ان کے درمیان آ کر کچلے جانے سے بچنے کیلئے ہر طرف بھاگ رہے تھے۔رسولِ کریمﷺ نے اپنی فوج کی یہ حالت دیکھی تو آپﷺ بھاگنے والوں کے رستے میں کھڑے ہو گئے ،آپﷺ کے ساتھ نو صحابہ کرامؓ تھے ۔ان میں چار قابلِ ذکر ہیں:حضرت عمرؓ، حضرت عباسؓ ،حضرت علیؓ اور حضرت ابو بکرؓ۔’’مسلمانو ں ! ‘‘رسولِ کریمﷺ نے بلند آواز سے للکارنا شروع کر دیا۔’’کہاں جا رہے ہو؟میں اِدھر کھڑا ہوں۔میں جو اﷲکا رسول ہوں ۔مجھے دیکھو میں محمد ابنِ عبداﷲ یہاں کھڑا ہوں ۔‘‘مسلمان ہجوم کے قریب سے بھاگتے ہوئے گزرتے جا رہے تھے۔ آپﷺ کی ٓواز شور میں دب کر رہ گئی تھی۔خالدؓ بن ولید کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ وہ آگے کہیں بے ہوش پڑے تھے۔ اتنے میں قبیلہ ہوازن کے کئی آدمی اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار بھاگتے ہوئے مسلمانوں کے تعاقب میں آئے۔ان کے آگے ایک شتر سوار تھا جس نے جھنڈا اٹھا رکھا تھا۔ حضرت علیؓ نے ایک مسلمان کو ساتھ لیا اور اس شتر سوار علمبردار کے پیچھے دوڑ پڑے۔ قریب جا کر حضرت علیؓ نے اس کے اونٹ کی پچھلی ٹانگ پر تلوار کا وار کر کے ٹانگ کاٹ دی۔اونٹ گرا تو سوار بھی گر پڑا۔حضرت علیؓ نے اس کے اٹھتے اٹھتے اس کی گردن صاف کاٹ دی۔حضورﷺ ایک ٹیکری پر جا کھڑے ہوئے ۔دشمن کے کسی آدمی کی للکار سنائی دی۔’’ وہ رہا محمدﷺ……قتل کر دو۔‘‘
تاریخ میں ان آدمیوں کو قبیلۂ ثقیف کے لکھا گیا ہے۔جو اپنے آدمی کی للکار پر اس ٹیکری پر چڑھنے لگے جس پر رسول اﷲﷺ کھڑے تھے۔صحابہ کرامؓ جو آپﷺ کے ساتھ تھے، ان آدمیوں پر ٹوٹ پڑے۔مختصر سے معرکے میں وہ سب بھاگ نکلے۔ ان میں سے کوئی بھی رسول اکرمﷺ تک نہ پہنچ سکا۔’’میں مالک بن عوف سے شکست نہیں کھاؤں گا۔‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔’’وہ اتنی آسانی سے کیسے فتح حاصل کر سکتا ہے۔‘‘حضورﷺ نے اپنی فوج کو بکھرتے اور بھاگتے تو دیکھ ہی لیا تھا ۔آپﷺ دشمن کو بھی دیکھ رہے تھے بلکہ دشمن کو زیادہ دیکھ رہے تھے۔آپﷺ کی عسکری حس نے محسوس کر لیا کہ مالک بن عوف اپنے پہلے بھرپور اور کامیاب وار پر اس قدر خوش ہو گیا ہے کہ اسے اگلی چال کا خیال ہی نہیں رہا۔وہ اسلامی فوج کی بھگدڑ اور افراتفری کی پسپائی سے فائدہ نہیں اٹھا رہاتھا۔حضورﷺ کو توقع تھی کہ مالک بن عوف کی متحدہ فوج مسلمانوں کے تعاقب میں آئے گی لیکن تعاقب میں دشمن کے جو آدمی آئے تھے وہ تعداد میں تھوڑے اور غیر منظم تھے ۔اس کے علاوہ حضورﷺ نے اپنے ہراول دستے کو پیچھے آتے بھی دیکھا تھا اور آپﷺ نے معلوم بھی کیا تھا کہ ہراول کے کتنے آدمی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔آپﷺ کو بتایا گیا کہ کئی ایک مجاہدین کے گھوڑے اور اونٹ زخمی ہوئے ہیں شہید ایک بھی نہیں ہوا۔اس سے رسول ﷺ نے یہ رائے قائم کی کہ یہ دشمن تیر اندازی میں اناڑی ہے اور جلد باز بھی ہے۔اتنی زیادہ تیر اندازی کسی کو زندہ نہ رہنے دیتی۔حضورﷺ نے اپنے پاس کھڑے صحابہ کرامؓ پر نظر ڈالی۔ آپﷺ کی نظریں حضرت عباسؓ پرٹھہر گئیں ۔حضرت عباس ؓ کی آواز غیر معمولی طورپر بلند تھی۔جو بہت دور تک سنائی دیتی تھی۔جسم کے لحاظ سے بھی حضرت عباسؓ قوی ہیکل تھے۔’’عباس!‘‘حضورﷺ نے کہا۔’’تم پر اﷲکی رحمت ہو۔مسلمانوں کو پکارو ……انہیں یہاں آنے کیلئے کہو۔‘‘’’اے انصار!‘‘ حضرت عباس ؓنے انتہائی بلند آواز میں پکارنا شروع کیا۔’’ اے اہلِ مدینہ…… اے اہلِ ……مکہ آؤ۔اپنے رسول کے پاس آؤ۔‘‘ حضرت عباسؓ قبیلوں کے اور آدمیوں کے نام لے لے کر پکارتے رہے اور کہتے رہے کہ اپنے رسول ﷺ کے پاس اپنے اﷲ کے رسول کے پاس آؤ۔
سب سے پہلے انصار آئے۔ ان کی تعداد معمولی تھی لیکن ایک کو دیکھ کردوسرا آتا چلا گیا۔ مکہ کے کچھ دوسرے قبیلوں کے لوگ بھی آ گئے۔ ان کی تعداد ایک سو ہو گئی۔ رسولِ کریمﷺ نے دیکھا کہ قبیلہ ہوازن کے بہت سے آدمی پسپا ہوئے مسلمانوں کی طرف دوڑے آ رہے تھے۔آپﷺ نے ان ایک سو مجاہدین کو دشمن کے ان آدمیوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔مجاہدین ان کے عقب سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ہوازن کے آدمی بوکھلا گئے اور مقابلے کیلئے سنبھلنے لگے لیکن مجاہدین نے انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی ۔ان میں سے بہت سے بھاگ نکلے ۔ان کے زخمی اور ہلاک ہونے والے پیچھے رہ گئے۔وہ تو اچانک ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ مجاہدین میں بھگدڑ مچ گئی تھی ،ورنہ وہ ہمیشہ اپنے سے کئی گنا زیادہ دشمن سے لڑے اور فاتح اور کامران رہے تھے۔انہوں نے دیکھاکہ عباسؓ کی پکار پر مسلمان رسولِ اکرمﷺ کے حضور اکھٹے ہو رہے ہیں اور دشمن مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ کے جوابی حملے کو بھی برداشت نہیں کر سکا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ہوازن اور ثقیف ان کے تعاقب میں نہیں آ رہے تو کئی ہزار مجاہدین واپس آ گئے ۔رسول اکرمﷺ نے انہیں فوراً منظم کیا اور دشمن پر حملے کا حکم دے دیا۔خالدؓ بن ولید لا پتا تھے۔کسی کو ہوش نہیں تھا کہ دیکھتا کہ کون لاپتا ہے اور کون کہاں ہے ۔وہی تنگ گھاٹی جہاں مجاہدین پر قہر ٹوٹا تھا، اب متحدہ قبائل کیلئے موت کی گھاٹی بن گئی تھی۔ قبیلہ ہوازن چونکہ سب سے زیادہ لڑاکا قبیلہ تھا اس لیے اسی کے آدمیوں کو آگے رکھا گیا تھا۔یہ لوگ بلا شک و شبہ ماہر لڑاکے تھے لیکن مسلمانوں نے جس قہر سے حملہ کیا تھا اس کے آگے ہوازن ٹھہر نہ سکے۔مسلمان اس خفت کو بھی مٹانا چاہتے تھے جو انہیں غلطی سے اٹھانی پڑی تھی۔یہ دست بدست لڑائی تھی ۔مجاہدین نے تیغ زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ ہوازن گر رہے تھے یا معرکے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ رسولِ اکرمﷺ معرکے کے قریب ایک بلند جگہ کھڑے تھے۔ آپﷺ نے للکار للکارکر کہا۔’’یہ جھوٹ نہیں کہ میں نبی ہوں ……میں ابنِ عبدا لمطلب ہوں۔‘‘ہوازن پیچھے ہٹتے چلے جا رہے تھے۔وہ اب وار کرتے کم اور وار روکتے زیادہ تھے۔ان کا دم خم ٹوٹ رہا تھا۔ان کے پیچھے قبیلہ ٔ ثقیف کے دستے تیار کھڑے تھے ۔مالک بن عوف نے چلا چلا کر ہوازن کو پیچھے ہٹا لیا۔قبیلۂ ثقیف کے تازہ دم لڑاکوں نے ہوازن کی جگہ لے لی ۔مسلمان تھک چکے تھے اور ثقیف تازہ دم تھے لیکن مسلمانوں کو اپنے قریب اپنے رسولﷺ کی موجودگی اور للکار نیا حوصلہ دے رہی تھی۔مسلمانوں کی تلواروں اور برچھیوں کی ضربوں میں جو قہر اور غضب تھا اور ان کے نعروں اور للکار میں جو گرج اور کڑک تھی اس نے ثقیف پر دہشت طاری کردی۔ثقیف کے لڑاکے جو عرب میں خاصے مشہور تھے تیزی سے پیچھے ہٹنے لگے اور پھر ان کے اونٹوں اور گھوڑوں نے بھگدڑ بپا کر دی۔اس سے دشمن میں وہی کیفیت پیدا ہو گئی جو گھاٹی میں صبح کے وقت مسلمانوں میں پیدا ہو گئی تھی۔ ہوازن بڑی بری حالت میں پیچھے کو بھاگے تھے ۔اب ثقیف بھی پسپا ہوئے تو ان کے اتحادی قبائل کے حوصلے لڑے بغیر ہی ٹوٹ پھوٹ گئے۔وہ افراتفری میں بھاگ اٹھے۔
مالک بن عوف تنگ راستے سے دور پیچھے ہوازن کے بھاگے ہوئے دستوں کو یکجا کر رہا تھا۔ اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ جارحانہ کارروائی سے منہ موڑ چکا ہے اور اپنے دستوں کو دفاعی دیوار کے طور پر ترتیب دے رہا ہے۔رسول اﷲﷺ نے یہ ترتیب دیکھی تو آپﷺ اپنے لشکر کی طرف پلٹے۔ آپﷺ نے دیکھا کہ جو مجاہدین صبح کے وقت بھاگ گئے تھے وہ سب واپس آ گئے ہیں۔ حضورﷺ نے حکم دیا کہ’’ گھوڑ سواروں کو آگے لاؤ۔‘‘ذرا سی دیر میں سوار پیادوں سے الگ ہو گئے ۔آپﷺ نے سواروں کو ایک خاص ترتیب میں کرکے حکم دیا کہ ’’ہوازن کو سنبھلنے اور منظم ہونے کا موقع نہ دواور برق رفتار حملہ کرو۔‘‘ان سواروں میں بنو سلیم کے وہ سوار بھی شامل تھے جن پر سب سے پہلے تیروں کی بوچھاڑیں آئی تھیں اور مسلمانوں کی جمعیت پارہ پارہ ہو گئی تھی۔ لیکن بنو سلیم کا کمانڈر ان کے ساتھ نہیں تھا اور وہ تھے خالدؓبن ولید جو ابھی تک کہیں بے ہوش پڑے تھے۔رسولِ اکرمﷺ نے اس سوار دستے کی قیادت زبیر ؓبن العوام کے سپرد کی اور انہیں حکم دیا کہ آگے جو درّہ ہے اس پر مالک بن عوف قبضہ کیے بیٹھا ہے ،اسے درّے سے بے دخل کر دو۔رسولِ کریمﷺ نے جنگ کی کمان اپنے دستِ مبارک میں لے لی تھی۔ آپﷺ کے اشارے پر زبیرؓ بن العوام نے ایسا برق رفتار اور جچا تلا ہلّہ بولا کہ ہوازن جو ابھی تک بوکھلائے ہوئے تھے مقابلے میں جم نہ سکے ا ور درّے سے نکل گئے ۔درّہ خاصہ لمبا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ نے زبیر ؓکے دستے کو درّے میں ہی رہنے دیا اور حکم دیا کہ اب درّہ جنگی اڈا ہوگا۔ٓآپﷺ نے دوسرا سوار دستہ آگے کیا جس کے کمانڈر ابو عامر ؓ تھے۔حضورﷺ نے ابو عامر ؓ کے سپرد کام کیا کہ اوطاس کے قریب متحدہ قبائل کا جو کیمپ ہے اس پر حملہ کرو۔ ’’خالد……خالدیہاں ہے ……‘‘کسی نے بڑی دور سے للکار کر کہا۔’’یہ پڑا ہے۔‘‘ رسولِ اکرمﷺ دوڑے گئے اور خالدؓ تک پہنچے ۔خالد ؓابھی تک بے ہوش پڑے تھے ۔آپﷺ خالدؓ کے پاس بیٹھ گئے اورانتہائی شفقت سے ان کے سر سے پاؤں تک پھونک ماری۔ خالد ؓنے آنکھیں کھول دیں ۔رسول اﷲﷺ کے قلب اطہر سے نکلی دُعا کا اعجاز تھا کہ خالدؓ اُٹھ کھڑے ہوئے۔انہیں جو تیر لگے تھے وہ گہرے نہیں اترے تھے۔تیر نکال لیے گئے اور بڑی تیزی سے مرہم پٹی کر دی گئی۔’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے کہا ۔’’میں لڑوں گا۔میں لڑنے کے قابل ہوں۔‘‘
آ پﷺ نے خالد ؓ سے کہا کہ’’ زبیر کے سوار دستے میں شامل ہو جاؤ۔تم ابھی کمان نہیں لے سکو گے۔‘‘خالدؓ ایک گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ان کے کپڑے خون سے لال تھے۔انہوں نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور زبیرؓ کے سوار دستے میں شامل ہو گئے۔انہوں نے زبیر ؓسے پوچھا۔’’کیا حکم ہے؟‘‘زبیرؓ نے انہیں بتایا کہ ہوازن کی خیمہ گاہ پر حملہ کرنا ہے جو اوطاس کے قریب ہے لیکن یہ حملہ ابو عامرؓ کریں گے۔اوطاس وہاں سے کچھ دور تھا ۔مالک بن عوف نے ہوازن دستے کو وہاں تک ہٹا لیااور اپنی خیمہ گاہ کے اردگرد پھیلا دیا تھا ۔یہ دفاعی حصار تھا، جس کی ہوازن کے کیمپ کے گرد ضرورت اس لیے تھی کہ وہاں وہ ہزاروں عورتیں بچے اور مویشی تھے جنہیں قبیلۂ ہوازن کے سپاہی اپنے ساتھ لائے تھے۔مالک بن عوف نے تو یہ سوچا تھا کہ ہوازن اپنی عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ دیکھ کر زیادہ غیرت مندی اور بے جگری سے لڑیں گے مگر اب یہ صورت پیدا ہو گئی کہ دُرید بن الصّمہ ،مالک بن عوف کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ اس کے منع کرنے کے باوجود مالک عورتوں کو ساتھ لے آیا تھا۔ان کیلئے اب اپنے اہل و عیال اور مویشیوں کو مسلمانوں سے بچانا محال دکھائی دے رہا تھا۔ ابو عامر ؓ کا سوار دستہ اوطا س کی طرف بڑھا۔قریب گئے تو ہوازن نے جم کر مقابلہ کیااب وہ جنگ جیتنے کیلئے یا مسلمانوں کو تہس نہس کرکے مکہ پر قبضہ کرنے کیلئے نہیں بلکہ مسلمانوں سے اپنے اہل و عیال اور مویشیوں کو بچانے کیلئے لڑ رہے تھے۔یہ بھی دست بدست معرکہ تھا ،جس میں جنگی چالوں کے نہیں ذاتی شجاعت کے مظاہرے ہو رہے تھے،سوار اور پیادے لڑتے ہوئے وادی میں پھیلتے جا رہے تھے۔ابو عامرؓ نے دشمن کے نو سواروں کو ہلاک کر دیا مگر دسویں ہوازن کو للکارا تو اس کے ہاتھوں خود شہید ہو گئے۔رسولِ اکرمﷺ نے پہلے ہی ان کا جانشین مقررکر دیا تھا ۔وہ تھے ان کے چچا زاد بھائی ابو موسیٰؓ۔انہوں نے فوراً کمان سنبھال لی اور اپنے سواروں کو للکارنے لگے۔ہوازن زخمی ہو ہو کر گر رہے تھے،صاف نظر آ رہا تھا کہ ان کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں۔ رسولِ اکرمﷺ نے زبیرؓ بن العوام کو جنہیں آپﷺ نے درّے میں روک لیا تھا۔ حکم دیا کہ اپنے دستے کو ابو موسیٰؓ کی مدد کیلئے لے جائیں ۔حضورﷺ نے یہ اس لیے ضروری سمجھا تھاکہ دونوں دستے مل کر ہوازن کا کام جلدی تمام کر سکیں گے۔زبیرؓ نے اپنے سواروں کو حملے کا حکم دیا۔ جب گھوڑے دوڑے اس وقت خالدؓ بن ولید کا گھوڑا دستے کے آگے تھا۔ ہوازن پہلے ہی ہمت ہار چکے تھے۔ مسلمانوں کے دوسرے سوار دستے کے حملے کی وہ تاب نہ لاسکے ان کے زخمیوں کی تعداد معمولی نہیں تھی۔
وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔مسلمانوں نے کیمپ کو گھیرے میں لے لیا۔چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے لڑاکوں نے جب ہوازن اور ثقیف جیسے طاقتور قبیلوں کو بھاگتے دیکھا تو وہ وہاں سے بالکل غائب ہو گئے اور اپنی اپنی بستیوں میں جا پہنچے۔مالک بن عوف میدانِ جنگ میں کہیں نظر نہیں آ رہا تھا ۔وہ نظر آ ہی نہیں سکتا تھا ۔اسے اپنے شہر طائف کی فکر پیدا ہو گئی تھی۔اس نے اپنے قبیلے کے سرداروں سے کہا کہ’’ مسلمان جس رفتار اور جس جذبے سے آ رہے ہیں، اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ وہ طائف تک پہنچیں گے اور اس بستی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘خطرے کے پیشِ نظر اس نے قبیلہ ثقیف کے تمام دستوں کو لڑائی سے نکالا اور طائف جا دم لیا۔پیچھے حنین کی وادی میں کیفیت یہ تھی کہ ہوازن کی عورتیں اور بچے چیخ و پکار کر رہے تھے ۔تمام وسیع و عریض وادی مجاہدینِ اسلام کی تحویل میں تھی۔مکہ کے جو غیر فوجی مجاہدین کے ساتھ آئے تھے وہ زخمی مجاہدین کو اٹھارہے تھے، دشمن کے زخمی کرّاہ رہے تھے، مر رہے تھے۔ مرنے والوں میں بوڑھا دُرید بن الصّمہ بھی تھا۔وہ لڑتا ہوا مارا گیاتھا۔مسلمانوںکو دشمن کے زخمیوں اور قیدیوں سے جو ہتھیار اور گھوڑے ملے ان کے علاوہ چھ ہزار عورتیں اور بچے، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور بے شمارچاندی ہاتھ لگی۔مسلمانوں نے جنگ جیت لی تھی لیکن رسول اﷲﷺ نے فیصلہ کیا کہ مالک بن عوف کو مہلت نہیں دی جائے گی کہ وہ سستا سکے اور اپنی فوج کو منظم کر سکے۔آپﷺ نے دراصل سانپ کا سر کچلنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آپﷺ کے حکم سے مالِ غنیمت آئی ہوئی عورتیں ،بچوں ،مویشیوں اور دیگر مال کو ایک دستے کے ساتھ جعرانہ بھیج دیا گیا ۔اگلے حکم تک انہیں جعرانہ میں ہی رہنا تھا۔دوسرے دن رسولِ اکرمﷺ کے حکم سے اسلامی فوج طائف کی طرف پیش قدمی کر گئی جہاں بڑی خونریز جنگ کی توقع تھی۔معرکۂ حنین کا ذکر قرآن حکیم میں سورۂ توبہ میں آیا ہے ۔بعض صحابہ کرامؓ نے معرکہ شروع ہونے سے پہلے کہا تھا کہ ہمیں کون شکست دے سکتا ہے ۔اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ کون کر سکتا ہے ؟سورۂ توبہ میں آیا ہے:’’اﷲ نے بہت سے موقعوں پر تمہاری مددکی اور حنین کے دن بھی جب تم کو اپنی کثرت پر ناز تھا حالانکہ وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود اپنی وسعت کے تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگے پھر اﷲ نے اپنے رسول اور مسلمانوں پر تسلی نازل کی اور وہ فوجیں اتاریں جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو سزا دی اور کافروں کا بدلہ یہی ہے۔‘‘
طائف بڑی خوبصورت بستی ہوا کرتی تھی۔ باغوں کی بستی تھی، پھولوں اور پھلوں کی مہک سے ہوائیں مخمور رہتی تھیں ۔طائف میں جا کر دکھی دل کھل اٹھتے تھے ۔یہ جنگجو سردارو ں کی بستی تھی۔ یہ ثقیف جیسے طاقتور قبیلے کا مرکز تھا۔اس بستی کے قریب اس قبیلے کی عبادت گاہ تھی جس میں ثقیف ،ہوازن اور چند اور قبائل کے دیوتا، لات کا بت رکھا تھا۔جو بت نہیں ایک چبوترا تھا ۔یہ قبائل اس چبوترے کو دیوتا کہتے اور اس کی پوجا کرتے تھے۔اس عبادت گاہ میں ان کا کاہن رہتا تھا جسے خدا کا اوردیوتا لات کا ایلچی سمجھا جاتا تھا۔کاہن فال نکال کر لوگوں کو آنے والے خطروں سے آگاہ کر دیا کرتا تھا ۔کاہن کسی خوش نصیب کو ہی نظر آیا کرتا تھا۔عام لوگوں کو کاہن نہیں عبادت گاہ کے صرف مجاور ملا کرتے تھے۔کاہن کو جو دیکھ لیتا وہ ایسے خوش ہوتا تھا جیسے اس نے خدا کو دیکھ لیا ہو۔ طائف کیونکہ ان کے دیوتا کا مسکن تھا اس لیے یہ قبائل کا مقدس مقام تھا۔ایک ہی مہینہ پہلے طائف میں جشن کا سماں تھا۔یہاں کے سردارِ اعلیٰ مالک بن عوف نے پنے قبیلے جیسے ایک طاقتور قبیلے ہوازن اور کچھ اور قبیلوں کے سرداروں کو بہت بڑی ضرافت میں مدعو کیا تھا۔علاقے کی چنی ہوئی خوبصورت ناچنے اور گانے والیاں بلائی گئی تھیں۔ان کے رقص نے تماشائیوں پر وجد طاری کر دیا تھا۔اس رات شراب کے مٹکے خالی ہو رہے تھے۔اس رات اہلِ ثقیف اور اہلِ ہوازن نے عہد کیا تھا کہ وہ مکہ پر اچانک حملہ کرکے رسول ِ اکرمﷺ اور مکہ کے تمام مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں گے ،ان قبائل کے ایک ضعیف العمر سردار دُرید بن الصّمہ نے کہا تھا:’’اٹھو اور لات کے نام پر حلف اٹھاؤ کہ ہم محمدﷺاور اس کے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے تمام بت توڑ ڈالے ہیں، ختم کرکے اپنی عورتوں کومنہ دکھائیں گے۔‘‘مالک بن عوف جس کی عمر ابھی تیس سال تھی، جوش سے پھٹا جارہا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’قبائل کا متحدہ لشکر مکہ میں مسلمانوں کو بے خبری میں جا دبوچے گا۔‘‘ا س رات مالک بن عوف ،دُرید بن الصّمہ اور دوسرے قبیلوں کے سردار کاہن کے پاس گئے تھے۔ کاہن سے انہوں نے پوچھا تھا کہ وہ مکہ کے مسلمانوں کو بے خبری میں دبوچ سکیں گے ؟اور کیا ان کا اچانک اورغیر متوقع حملہ مسلمانوں کو گھٹنوں بٹھا سکے گا؟کاہن نے انہیں یقین دلایا تھا کہ دیوتا لات نے انہیں اشیرباد دے دی ہے۔کاہن نے بڑے وسوق سے کہا تھا مسلمانوں کو اس وقت پتا چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی۔یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
اب ایک ہی ماہ بعد طائف کا حسن اداس تھا ۔بستی کے ماحول پر خوف و ہراس طاری تھا۔ اپنے دیوتا لات کی اشیرباد سے اور کاہن کی یقین دہانی سے ثقیف ،ہوازن اور دیگر قبائل کا جو لشکر مکہ پر حملہ کرنے گیا تھا وہ مکہ سے دور حنین کے مقام پر مسلمانوں کے ہاتھوں پٹ کر اور تتر بتر ہوکر واپس آ رہاتھا۔ بھاگ کے آنے والوں میں پیش پیش اس متحدہ لشکر کا سالارِ اعلیٰ جواں سال اور جوشیلا سردار مالک بن عوف تھا۔ وہ سب سے پہلے اسی لیے طائف پہنچا تھا کہ شہر کے دفاع کو مضبوط بنا سکے ۔مسلمان رسولِ اکرمﷺ کی قیادت میں طائف کی طرف بڑھے آ رہے تھے۔ ’’طائف کے لوگو!‘‘ طائف کی گلیوں میں گھبرائی گھبرائی سی آوازیں اٹھ رہی تھیں ۔’’مسلمان آ رہے ہیں ۔ شہر کا محاصرہ ہو گا ،تیار ہو جاؤ۔اناج اور کھجوریں اکھٹی کرلو۔پانی جمع کر لو۔‘‘سب سے زیادہ گھبراہٹ مالک بن عوف پر طاری تھی۔ اسے طائف ہاتھ سے جاتا نظر آ رہا تھا۔اسے شکست اور پسپائی کی چوٹ تو پڑی ہی تھی، سب سے بڑی چوٹ اس پر یہ پڑی کہ وہ جب شہر میں داخل ہوا تو عورتوں نے اس کی بہادری اور فتح کے گیت گانے کی بجائے اسے نفرت کی نگاہوں سے دیکھا تھا اور اس کے لشکریوں کو بعض عورتوں نے طعنے بھی دیئے تھے۔’’بیویاں اور بیٹیاں کہاں ہیں جنہیں تم ساتھ لے گئے تھے؟‘‘عورتیں ،لشکریوں سے طنزیہ لہجے میں پوچھ رہی تھیں۔’’بچے بھی مسلمانوں کو دے آئے ہو؟‘‘یہ بھی ایک طعنہ تھا جو عورتیں انہیں دے رہی تھیں۔مالک بن عوف نے اپنے سامنے اپنے نائب سالاروں اور کمانداروں کو بٹھارکھا تھا اور انہیں بڑی تیز تیز بولتے ہوئے کہہ رہا تھاکہ’’ دوسرے قبیلوں کو بھی شہر میں لے آؤ۔مسلمان آ رہے ہیں ۔‘‘مالک بن عوف نے ذرا سا بھی آرام نہ کیا۔آتے ہی طائف کا دفاع مضبوط کرنے میں لگ گیا۔اس کے نائب کماندار اور قاصد پسپا ہو کر آنے والوں کو اکھٹا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔آدھی رات تک وہ تھک کر چور ہو چکا تھا ۔اس نے اپنی سب سے زیادہ حسین اور چہیتی بیوی کو اپنے پاس بلایا ،وہ آگئی۔’’ کیاآپ نے حلف نہیں اٹھایا تھا کہ محمد ﷺاور ا س کے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے بت توڑ ڈالے ہیں ختم کرکے اپنی عورتوں کو منہ دکھائیں گے۔‘‘بیوی نے اسے کہا۔’’آپ فتح کی بجائے ماتھے پر شکست کا داغ لے کر آئے ہیں۔ آپ کے حلف اور عہد کے مطابق میرا وجود آپ پر حرام ہے۔‘‘’’تم میری بیوی ہو۔‘‘مالک بن عوف نے غصے سے کہا۔’’میری حکم عدولی کی جرات نہ کرو۔میں بہت تھکا ہوا ہوں اور میں بہت پریشان ہوں۔مجھے اس وقت تمہاری ضرورت ہے۔تم میری سب سے پیاری بیوی ہو۔‘‘
’’آپ کو میری ضرورت ہے ۔‘‘بیوی نے کہا۔’’لیکن مجھے ایک غیرت مند مرد کی ضرورت ہے۔مجھے اس مالک بن عوف کی ضرورت ہے جو یہاں سے عہد کرکے نکلا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ کے اندر ہی ختم کرکے واپس آئے گا۔کہاں ہے وہ مالک بن عوف؟وہ میرے لیے مر گیا ہے ۔اس مالک بن عوف کو میں نہیں جانتی جو اپنے قبیلے اور اپنے دوست قبیلوں کی ہزاروں عورتوں اور ہزاروں بچے اپنے دشمن کے حوالے کرکے اپنی خواب گاہ میں آ بیٹھا ہے۔ وہ ایک عورت سے کہہ رہا ہے کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔‘‘اس حسین عورت کی آواز بلند ہو کر جذبات کی شدت سے کانپنے لگی۔وہ مالک بن عوف کے پلنگ سے ا ٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی ۔’’آج رات تمہاری کوئی بیوی تمہارے پاس نہیں آئے گی۔آج رات تمہاری کسی بیوی کو ان عورتوں کی آہیں اور فریادیں چَین سے سونے نہیں دیں گی جو مسلمانوں کے قبضے میں ہیں ۔ذار سوچ،تصور میں لا ان عورتوں کو ۔ان نو خیز لڑکیوں کو جنہیں تو مسلمانوں کے حوالے کرآیا ہے ۔وہ اب مسلمانوں کے بچے پیدا کریں گی ،بچے جو ان کے قبضے میں ہیں وہ مسلمان ہو جائیں گے۔‘‘مالک بن عوف توخطروں میں کود جانے والا خود سر آدمی تھا، اس نے اپنے بزرگ اور میدانِ جنگ کے منجھے ہوئے استاد دُرید بن الصّمہ کی پندونصیحت کو ٹھکرا دیا تھا کہ وہ عقل و ہوش سے کام لے اور جوانی کے جوش و خروش پر قابو پائے۔اب وہی مالک بن عوف اپنی بیوی کے سامنے یوں سر جھکائے بیٹھا تھا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں پر کسی نے پانی چھڑک دیا ہو۔اس کی مردانگی ختم ہو چکی تھی ۔’’تمام مسلمانوں کو ختم کرنے گئے تھے مالک؟‘‘بیوی اب اس طرح بولنے لگی جیسے اس کی نگاہوں میں اتنے جرّی اور بہادر شوہر کا احترام ختم ہو چکا ہو۔وہ کہہ رہی تھی ’’مسلمانوں کو ختم کرتے کرتے تم مسلمانوں کی تعدا دمیں اضافہ کرآئے ہو۔‘‘’’کاہن نے کہا تھا کہ……‘‘’’کون کاہن؟‘‘بیوی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’وہ جو مندر میں بیٹھا فالیں نکالتا رہتا ہے؟تم جیسے آدمی اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے ہیں اور اپنی قسمت اپنے ہاتھوں بنایا اور بگاڑا کرتے ہیں۔ تم نے کاہن سے پوچھا نہیں کہ اس کی فال نے جھوٹ کیوں بولا ہے؟‘‘مالک بن عوف اٹھ کھڑا ہوا۔اس کی سانسیں تیزی سے چلنے لگیں ۔اس کی آنکھوں میں خون اترنے لگا۔اس نے دیوارکے ساتھ لٹکتی ہوئی تلوار اتاری اور بیوی سے کچھ کہے بغیر باہر نکل گیا۔
طائف میں رات توآئی تھی لیکن وہاں کی سرگرمیاں اور بھاگ دوڑ دیکھ کر دن کا گمان ہوتا تھا ۔باہرسے خبریں آ رہی تھیں کہ مسلمان طائف کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے چلے آ رہے ہیں ۔لوگ دفاعی تیاریوں میں مصروف تھے ۔سب سے بڑا مسئلہ خوراک اور پانی کا تھا ۔بہت سے لوگ پانی جمع کرنے کیلئے حوض بنا رہے تھے۔مالک بن عوف ان سرگرمیوں کے شوروغل میں سے گزرتا چلا جا رہا تھا۔ لوگ اتنے مصروف تھے کہ کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ ان کے درمیان سے ان کاسالارِ اعلیٰ گزر گیا ہے۔عبادت گاہ میں وہ کاہن جس نے کہا تھاکہ ثقیف اورہوازن مسلمانوں کو مکہ میں بے خبری میں جالیں گے۔گہری نیند سویا ہوا تھا۔اسے جگانے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا تھا۔وہ عبادت گاہ کے کسی اندرونی حصے میں سویا ہوا تھا۔ عبادت گاہ کے مجاور بیرونی کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔انہیں کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔یہ ان کے فرائض میں شامل تھا کہ کاہن کے کمرے تک کسی کو نہ پہنچنے دیں۔دو تین مجاور اٹھ کر باہر آ گئے۔ایک کے ہاتھ میں مشعل تھی ۔’’مالک بن عوف ۔‘‘ایک مجاور نے مالک کے راستے میں آ کر کہا۔’’کیا قبیلے کا سردار نہیں جانتا کہ اس سے آگے کوئی نہیں جا سکتا ؟ہم سے بات کر مالک بن عوف۔‘‘’’اور کیا تم نہیں جانتے ایک سردار کا راستہ روکنے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ مالک بن عوف نے تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’میں کاہن کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘’’کاہن کے قہر کو سمجھ مالک۔‘‘ایک اور مجاور نے کہا۔’’کاہن جو اس وقت تمہیں سویا ہوا نظر آئے گا ،وہ لات کے حضور گیا ہوا ہے۔اس حالت میں اس کے پاس جاؤ گے تو……‘‘مالک بن عوف ایسی ذہنی کیفیت میں تھا جس نے اس کے دل سے کاہن کاتقدس اور خوف نکال دیا تھا۔ایک تو وہ بہت بری شکست کھا کر آیا تھا دوسرے اس کی اس بیوی نے اسے دھتکار دیا تھا جسے وہ دل وجان سے چاہتا تھا ۔اس نے مجاور کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے مشعل کے ڈنڈے پر ہاتھ مارا اور اس کے ہاتھ سے مشعل چھین کر کاہن کے کمرے کی طرف چلا گیا ۔مجاور اس کے پیچھے دوڑالیکن وہ کاہن کے کمرے میں داخل ہو گیا۔کاہن مجاوروں کے شور سے جاگ اٹھا تھا۔اپنے کمرے میں مشعل کی روشنی دیکھ کر اُٹھ بیٹھا۔مالک بن عوف نے مشعل دیوار میں اس جگہ لگا دی جو اسی مقصد کیلئے دیوار میں بنائی گئی تھی۔’’مقدس کاہن! ‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’میں پوچھنے آیا ہوں کہ ……‘‘’’کہ تمہاری شکست کا سبب کیا ہوا؟‘‘کاہن نے اس کی بات پوری کرتے ہوئے کہا۔’’کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ ایک حام کی قربانی دو۔‘‘، ’’اورمقدس کاہن۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’تم نے یہ بھی کہا تھاکہ حام نہ ملے تو اپنے قبیلے سے کہو کہ اپنے خون کی اور اپنی جانوں کی قربانی دیں۔تم نے کہاتھا کہ حام کی تلاش میں وقت ضائع نہ کرنا ۔تم نے کہاتھاکہ مسلمان لڑنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔‘‘
’’کیاتو اپنے دیوتا سے باز پرس کرنے آیا ہے کہ دشمن نے تمہیں شکست کیوں دی ہے؟‘‘کاہن نے پوچھا۔’’میں نے کہا تھاکہ پیٹھ نہ دکھانا ۔کیا تیرے لشکر نے پیٹھ نہیں دکھائی ۔تیرے لشکر میں تو اتنی سی بھی غیرت نہیں تھی کہ اپنی عورتوں ا ور بچوں کی حفاظت کرتا۔‘‘ ’’میں پوچھتا ہوں تم نے کیا کیا؟‘‘مالک بن عوف نے پوچھا۔’’اگر سب کچھ ہمیں ہی کرنا تھاتو تم نے کیا کمال دکھایا؟تم نے کیوں کہا تھا کہ مسلمانوں کو اس وقت پتا چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی۔کیا تم نے ہمیں دھوکانہیں دیا؟کیا یہ درست نہیں کہ محمدﷺسچا ہے؟جس نے تمہاری فال کو جھٹلا دیا ہے۔اگر تم کاہن نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔اب طائف پر بہت بڑا خطرہ آ رہا ہے۔ کیا تم اپنے دیوتا کی بستی کو بچا سکتے ہو ؟کیا تم مسلمانوں پر قہر نازل کرسکتے ہو؟‘‘’’پہلی بات یہ سن لے عوف کے بیٹے ! ‘‘کاہن نے کہا۔’’کاہن کو دنیا کی کوئی طاقت قتل نہیں کر سکتی۔کاہن کی جب عمر ختم ہوتی ہے تو وہ دیوتا لات کے وجود میں تحلیل ہو جاتا ہے۔تو مجھ پر تلوار اٹھا کر دیکھ لے اور دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان طائف تک پہنچ سکتے ہیں ۔یہاں سے زندہ واپس نہیں جا سکتے۔‘‘جس وقت مالک بن عوف کاہن کے کمرے میں داخل ہوا تھا، اس وقت کسی انسان کی شکل کا ایک سایہ عبادت گاہ کی عقبی دیوار پر رینگ رہاتھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا وہ اپنی جان کا خطرہ مول لے رہا تھا۔ مالک بن عوف ہی تھا جو سرداری کے رعب میں رات کے وقت کاہن کے کمرے تک پہنچ گیا تھا۔یہ عبادت گاہ صدیوں پرانی تھی۔ عقبی دیوار میں چھوٹا سا شگاف تھا ۔وہ انسان جس کا سایہ دیوارپر رینگ رہا تھا اس شگاف میں داخل ہو گیا ۔آگے اونچی گھاس اور جھاڑیاں تھیں۔ وہ انسان گھاس اورجھاڑیوں میں سے یوں گزرنے لگا کہ اس کے قدموں کی آہٹ یا ہلکی سی سرسراہٹ بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟