🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 16*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *16* ۔۔۔۔

آپﷺ نے اسے معاف کر دیا اور وہ مسلمان ہو گئی۔مکہ کے اردگرد‘ دور اور نزدیک کچھ قبائل تھے ۔ان میں بعض بت پرست تھے اور بعض توہمات کو عقیدہ بنائے ہوئے تھے ۔رسولِ کریمﷺ نے ان کی طرف پیغام بھیجے کہ وہ اﷲکا سچا دین قبول کرلیں ۔پیغام لے جانے والے فوجی تھے لیکن آپﷺ نے حکم دیا تھاکہ کسی پر تشدد نہ کیا جائے اور جنگی کارروائی سے گریزکیاجائے۔مکہ کے جنوب میں تہامہ کا علاقہ ہے جہاں جنگجو قبائل بکھرے ہوئے تھے۔ان کے متعلق خدشہ تھا کہ لڑنے پر اتر آئیں گے ۔اس لیے اس علاقے میں فوج کا ایک دستہ بھیجا گیا اور اس کی کمان خالدؓ کو دی گئی۔ تمام کا تمام دستہ گھڑ سوار تھا۔ اس میں بنو سلیم کے آدمی بھی تھے مدینہ کے بھی۔خالدؓ کو مکہ سے تقریباً پچاس میل دور ململیم کے مقام تک جانا تھا۔ خالدؓ اپنے سوار دستے کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ ان کی منزل پچاس میل دور تھی ۔بمشکل پندر ہ میل دور گئے ہوں گے کہ ایک مشہور جنگجو قبیلے بنو جزیمہ کے آدمیوں نے خالدؓ کے دستے کا راستہ روک لیا۔خالدؓنے اپنے دستے کو لڑائی کی ترتیب میں کر لیا۔بنو جزیمہ باقائدہ لڑائی کیلئے نکل آئے۔’’ہم لڑنے نہیں آئے‘‘ ۔خالدؓنے اعلان کیا۔’’ہم دعوت دینے آئے ہیں کہ اسلام قبول کرلو۔‘‘’’ہم اسلام قبول کر چکے ہیں۔‘‘ بنو جزیمہ کی طرف سے جواب آیا۔’’ہم نمازیں پڑھتے ہیں ۔‘‘’’ہم دھوکا کھانے نہیں آئے‘‘ ۔خالدؓنے بلند آواز سے کہا۔’’اگر تم مسلمان ہو چکے ہو تو تلواریں اوربرچھیاں پھینک دو۔‘‘،  ’’خبردار بنو جزیمہ!‘‘ بنو جزیمہ کی طرف سے کسی نے للکار کر کہا۔’’اسے میں جانتا ہوں‘ یہ مکہ کے الولید کابیٹا خالد ہے ۔اس پر اعتبار نہ کرنا۔ہتھیار ڈال دو گے تو یہ ہم سب کو قتل کرا دے گا ۔ہتھیار نہ ڈالنا۔‘‘’’خدا کی قسم! مجھے رسول اﷲﷺ کا حکم نہ ملا ہوتا کہ جنگ نہ کرنا تومیں دیکھتا کہ تم ہتھیار ڈالتے ہو یا نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہم دوست بن کر آئے ہیں ۔ہم تم پر اﷲکادین زبردستی ٹھونسنے نہیں آئے۔ہمیں دوست سمجھو اور ہمارے ساتھ آجاؤ۔‘‘’’اہلِ قریش کی کیا خبر ہے ؟‘‘بنو جزیمہ کی طرف سے آواز آئی۔’’مکہ چل کر دیکھو ۔‘‘خالدؓ نے کہا ۔’’ابو سفیان، عکرمہ اور صفوان اسلام قبول کر چکے ہیں ۔‘‘بنو جزیمہ نے ہتھیار ڈال دیئے ۔خالدؓ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھے اور بنو جزیمہ کے سردار سے گلے ملے ۔پورے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا۔
مسلمانوں کو مکہ ایک مرکز کی حیثیت سے مل گیا ۔یہ سورج کی مانند تھا ۔جس کی کرنیں دور دور تک پھیلنے لگیں لیکن اسلام کی دشمن قوتیں یکجا ہو رہی تھیں۔ طائف ایک مقام ہے جو مکہ معظمہ سے چند میل دور ہے۔ جنوری ۶۳۰ءشوال ۸ ہجری کی ایک رات وہاں جشن کا سماں تھا۔فضاء شراب کی بو سے بوجھل اور رات مخمور تھی۔رقص کے لیے طائف کے اردگرد کے علاقے کی چنی ہوئی ناچنے والیاں آئی ہوئی تھیں ۔ان کے رقص اور حسن نے مہمانوں کو مدہوش کر دیا تھا۔مہمان مکہ کے شمال مشرقی علاقے کے مشہور جنگجو قبیلے ہوازن کے سرکردہ افراد تھے۔ان کے میزبان طائف اور گردونواح میں پھیلے ہوئے قبیلہ ثقیف کے سردار تھے۔جنہوں نے اپنے مہمانوں پر اپنی امارت اور فیاضی اور کشادہ ظرفی کا رعب جمانے کیلئے اتنی شاہانہ ضیافت اور اتنے شاندار جشن کا اہتمام کیا تھا۔دو لڑکیاں رقص کے کمال دکھا رہی تھیں کہ میزبان قبیلے کا سردار ’’مالک بن عوف ‘‘اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے تالی بجائی۔ساز خاموش ہو گئے ۔ناچنے والیں بت بن گئیں اور ان کی نظریں مالک بن عوف پر جم گئیں۔مہمانوں پر سناٹا طاری ہو گیا۔ایسے لگتا تھا جیسے رات کے گزرتے لمحوں کا قافلہ رک گیا ہو۔ہر کوئی مالک بن عوف کی طرف دیکھ رہا تھا۔مالک بن عوف کی عمر تیس سال تھی۔رقص اور مے نوشی کی محفلوں میں وہ عیاش شہزادہ تھا۔لیکن میدانِ جنگ میں وہ آگ کا بگولہ تھا۔وہ صرف تیغ زنی ،تیر اندازی اور گھوڑ سواری میں ہی مہارت نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ فنِ حرب و ضرب کا بھی ماہرتھا۔انہی اوصاف کی بدولت وہ قبیلے کا سالار تھا۔جنگ کے معاملے میں وہ انتہا پسند تھا۔یوں لگتا تھا جیسے ٹھنڈے دل سے سوچنا اسے آتا ہی نہیں۔اس کی جنگی چالیں اس کے دشمن کیلئے بڑی خطرناک ہوتی تھیں۔قبیلۂ قریش میں جو حیثیت کبھی خالدؓ بن ولید کو حاصل تھی ویسا ہی دبدبہ مالک بن عوف کا اپنے قبیلے پر تھا۔
’’ہم نے بہت کھالیا ہے۔‘‘مالک بن عوف نے رقص رکوا کر میزبانوں اور مہمانوں سے خطاب کیا۔’’ہم شراب کے مٹکے خالی کر چکے ہیں ۔ہم تھرکتی ہوئی جوانیوں سے لطف اندوز ہو چکے ہیں ۔کیا ہمارے مہمانوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس ضیافت اور جشن کی تقریب کیا ہے؟……میں نے تمہیں کوئی خوشی منانے کیلئے اکھٹا نہیں کیا۔اے اہلِ ہوازن! میں نے تمہاری غیرت کو جگانے کیلئے تمہیں اپنے ہاں بلایا ہے۔‘‘’’ہوازن کی غیرت سوئی کب تھی مالک بن عوف؟‘‘قبیلہ ہوازن کے ایک سردار نے کہا۔’’بتا ہماری غیرت کو کس نے للکارا ہے؟‘‘’’مسلمانوں نے!‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔’’محمدﷺ نے……کیا تم محمدﷺ کونہیں جانتے؟کیا تم بھول گئے ہو اس محمدﷺ کو جو اپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے بھاگ کر یثرب مدینہچلا گیا تھا؟‘‘’’جانتے ہیں!‘‘دو تین آوازیں اٹھیں۔’’اچھی طرح جانتے ہیں ۔وہ اپنے آپ کو خدا کا نبی کہتا ہے۔‘‘’’ہم اسے نبی نہیں مانتے۔‘‘ایک اور آواز اٹھی۔’’کوئی نبی ہوتا تو ہم میں سے ہوتا۔جو اہلِ ثقیف ہیں۔ہوازن کے قبیلے سے ہوتا۔‘‘’’وہ نبی ہے یا نہیں۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس مکہ سے محمد ﷺبھاگا تھا۔اس مکہ کا اب وہ حاکم ہے۔مکہ میں اس کاحکم چلتا ہے اور اس کی جنگی طاقت بڑھتی جا رہی ہے۔قبیلۂ قریش اس کے آگے ہتھیار ڈال چکا ہے اور ا سکے مذہب کو قبول کرتا چلا جا رہا ہے۔ابو سفیان ،عکرمہ اور صفوان جیسے جابر جنگجو محمدﷺ کا مذہب قبول کر چکے ہیں۔خالدؓ بن ولید نے پہلے ہی یہ نیا مذہب قبول کرلیا تھا……مسلمانوں نے مکہ میں تمام بت توڑ ڈالے ہیں۔‘‘’’اہلِ قریش کو اپنی غیرت اور اپنے مذہب کا پاس ہوتا تو وہ اپنی تلواریں اپنے پیٹوں میں گھونپ لیتے۔‘‘کسی اور نے کہا۔’’اب ستاروں سے دھرا یہ آسمان دیکھے گا کہ ہوازن اور ثقیف کو اپنی غیرت کا کتنا پاس ہے۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’کیا تو یہ چاہتا ہے کہ ہم میں سے کوئی محمد ﷺکو قتل کر دے؟‘‘قبیلہ ہوازن کے ایک سردار نے کہا ۔’’اگرتو یہی کہنا چاہتا ہے تو یہ کام میرے سپرد کر۔‘‘’’اب محمدﷺ کو قتل کر دینے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’اسے قتل کر دو گے تو اس کے پیروکار اسے اپنے دلوں میں زندہ رکھیں گے۔ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اب وہ ایک آدمی کے قتل سے وہ اس راستے سے نہیں ہٹیں گے جس پر انہیں ڈال دیا گیا ہے۔‘‘
’کہتے ہیں محمدﷺ کے ہاتھ میں کوئی جادو آگیا ہے۔‘‘ہوازن کے ایک سردار نے کہا۔’’ وہ جس پر نگاہ ڈالتا ہے وہ اس کا مطیع ہو جاتا ہے۔‘‘’’جہاں تلوار چلتی ہے وہاں کوئی جادو نہیں چل سکتا۔‘‘ہوازن قبیلے کے ایک اور سردار نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔’’مالک…… آگے بول ……تو کیا کہتا ہے ؟ہم تیرے ساتھ ہیں۔‘‘ ’’میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہم نے محمد ﷺکے اسلام کو نہ روکا تو یہ سیلاب کی طرح بڑھتا ہوا ہم سب کو بہا لے جائے گا۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’نہ ہوازن رہیں گے نہ ثقیف کا وجود ہو گا۔قبیلہ قریش کو محکوم بنانے والوں کو ہم مکہ کے اندر ہی ختم کریں گے۔کیا تم محکوم بن جانے کا مطلب سمجھتے ہو ؟‘‘مالک بن عوف نے سب کی طرف دیکھا اور بولا۔’’اگر نہیں سمجھتے تو میں تمہیں بتاتا ہوں ۔‘‘اس نے اپنے پیچھے دیکھا۔مالک بن عوف کے پیچھے مہمانوں میں ایک معمر سفید ریش بیٹھا تھا۔ اس کارنگ دوسروں کی نسبت صاف اور سفیدی مائل تھا۔وہ ضعیف اتنا تھا کہ اس کاسر ہلتا تھا اورکمر میں ہلکا سا خم تھا۔اسکے ہاتھ میں اپنے قد جتنا لمبا عصاتھا۔کندھوں سے ٹخنوں تک چغہ بتاتا تھا کہ وہ کوئی عالم یا مذہبی پیشوا ہے۔مالک بن عوف کے اشارے پر وہ اٹھا اور مالک کے پاس آ گیا۔’’تم پر اس کی رحمت ہو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔‘‘بوڑھے نے کہا۔’’اور وہ دیوتا تمہارے بچوں کے محافظ ہوں جن کی تم پوجا کرتے ہو۔تم محکومی اور غلامی کا مطلب نہیں سمجھتے تو مجھ سے پوچھو۔میری چار جوان بچیاں مسلمانوں کی لونڈیاں ہیں اور میرے دو جوان بیٹے مسلمانوں کے غلام ہیں۔وہ تیغ زن اور شہ سوا رتھے۔لیکن اب انہیں تلوار ہاتھ میں لینے کی اور گھوڑے پر سوار ہونے کی اجازت نہیں،ہمیں گھروں سے نکال دیا گیا ہے……کیا تمہیں یاد نہیں کہ قریش نے مدینہ کا محاصرہ کیا تھاتو مسلمانوں نے اردگرد خندق کھودلی تھی۔قریش اس خندق کو پھلانگ نہیں سکے تھے ،پھر اس قدر تندوتیز طوفان آیا کہ قریش جو پہلے ہی بددل ہو چکے تھے۔بکھر گئے اور مکہ کو واپس چلے گئے تھے۔جب مسلمانوں کے سر سے خطرہ ٹل گیا تو انہوں نے ان یہودیوں پر ہلہ بول دیا جو ان کے ساتھ مدینہ میں امن سے رہتے تھے ۔ان یہودیوں کو انہوں نے قتل کر دیا اور ان کی عورتوں کو اور ان کے بچوں کو آپس میں بانٹ کر انہیں لونڈیاں اور غلام بنالیا۔‘‘’’اے بزرگ!‘‘قبیلہ ثقیف کے ایک سرکردہ آدمی نے بلند آواز سے کہا۔’’اگر تو یہودی ہے تو کیا ہم نے غلط سنا تھا کہ تیرے قبیلے نے مسلمانوں کو دھوکا دیا تھا؟‘‘
’’تم نے جو سنا درست سنا تھا۔‘‘بوڑھے نے کہا۔’’ہمارا دھوکا کامیاب نہیں ہو اتھا۔ہم مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر اتارنا چاہتے تھے لیکن قریش پیٹھ دِکھا گئے۔مسلمانوں کو دھوکا دے کر کمزور کرناہمارا فرض تھا لیکن مسلمانوں کی تلواروں نے ہمیں کمزور کر دیا۔‘‘’’تو جو بنی اسرائیل سے ہے…… کیا ہمیں اُکسانے آیا ہے کہ ہم مسلمانوں سے تیرے قبیلے کے خون کا انتقام لیں؟‘‘ثقیف کے قبیلے ایک سردار نے کہا۔ایک اور ضعیف العمر شخص اُٹھ کھڑاہوا ۔اس کا نام’’ درید بن الصّمہ‘‘ تھا۔اس کا نام تاریخ میں تو ملتا ہے لیکن یہ پتا نہیں ملتا کہ وہ قبیلہ ہوازن سے تھا یا قبیلہ ثقیف سے۔’’خاموش رہو۔‘‘درید بن الصّمہ نے گرج کر کہا ۔’’ہم بنی اسرائیل کے خون کا انتقام نہیں لیں گے۔کیا تم ابھی تک شک میں ہو؟کیا تم ابھی تک نہیں سمجھے کہ ہم نے مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کا خون اپنی تلواروں کو نہ پلایا اور ان کے زخمیوں کو گھوڑوں تلے نہ روندا ،تو وہ ہمیں بھی قتل کرکے تمہاری بیٹیوں کو،تمہاری بہنوں کو اور تمہاری بیویوں کو اپنی لونڈیاں اور ہمارے بچوں کواپنا غلام بنالیں گے؟‘‘’’اس سے پہلے کے ان کے گھوڑے طائف کی گلیوں میں ہنہنائیں ،کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ہمارے گھوڑے ان کی لاشوں کو مکہ کی گلیوں میں کچلتے پھریں۔‘‘مالک بن عوف نے جوش سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’بنی اسرائیل کا یہ بزرگ ہماری پناہ میں آیاہے۔اس نے اپنے قبیلے کا جوانجام بتایا ہے میں تمہیں اس کا انجام سے بچانا چاہتاہوں ……اٹھو اور لات کے نام پر حلف اٹھاؤ کہ ہم محمد ﷺاور اسکے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے تمام بت توڑ ڈالے ہیں ،ختم کرکے اپنی عورتوں کو اپنے منہ دکھائیں گے۔‘‘اس زمانے میں جب اسلام کی کرنیں مکہ سے پھیل رہی تھیں،عرب میں بت پرستی عام تھی۔وہ خدا کو بھی مانتے تھے لیکن خدا تک رسائی حاصل کرنے کیلئے وہ بتوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے۔انکاعقیدہ تھا کہ بتوں کو راضی کیے بغیر خدا کو راضی نہیں کیا جا سکتا۔بتوں کی خوشنودی کیلئے وہ کچھ رسمیں ادا کرتے تھے۔طائف کے علاقے میں جس بت کوپوجا جاتا تھا ،اس کا نام لات تھا جو انسانی یا حیوانی شکل کا نہیں تھا۔وہ بہت بڑا پتھر تھا جسے چٹان کہا جا سکتاہے۔یہ چٹا ن باقاعدہ مربع شکل کی تھی۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ مربع شکل کا قدری طور پر بنا ہوا چبوترا تھا ،جس پر شاید کسی زمانے میں کوئی بت رکھا گیا ہو لیکن طلوعِ اسلام کے دور میں یہ صرف چبوترہ تھا اور اردگرد کے قبائل اسی کو پوجتے تھے۔
جنوری ۶۳۰ء کی اس رات جب قبیلۂ ہوازن کے سردار قبیلہ ثقیف کی دعوت پر طائف آئے اور مالک بن عوف اور دُرید بن الصّمہ انہیں مکہ پر حملے کیلئے اکسا رہے تھے۔ہوازن کے ایک سردار نے مشورہ دیا کہ کاہن کو بلا کر فال نکلوائی جائے کہ ہمارا حملہ کامیاب ہو گا کہ نہیں۔یہ فال تیروں کے ذریعے نکالی جاتی تھی جسے ازلام کہتے تھے۔بہت سے تیر اکھٹے رکھے ہوتے تھے۔کسی پر ہاں لکھا ہوتا تھا۔کسی پر نہیں۔بت کا کوئی مجاور یا کاہن مذہبی پیشوا اس ترکش سے ایک تیر نکالتا اور دیکھتا تھا کہ اس پر ہاں لکھا ہے یا نہیں۔یہ فال کا جواب ہوتاتھا۔مجاور کی نسبت کاہن کو بہتر سمجھاجاتا تھا۔کاہن دانشمند ہوتے تھے۔ان کے پاس پُر اثر اور دل میں اتر جانے والے الفاظ کا ذخیرہ ہوتا تھا اور ان کے بولنے کا انداز تو ہر کسی کو متاثر کرلیتا تھا۔کاہن فال نکالے بغیرغیب کی خبریں دیا کرتے اور لوگ انہیں سچ ماناکرتے تھے۔اگلی صبح ہوازن اور ثقیف کے سردار ایک کاہن کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ان میں سے کسی نے ابھی بات بھی نہیں کی تھی کہ کاہن بول پڑا!’اگر میں غیب کی خبر دے سکتا ہوں اور آنیوالے وقت میں بھی جھانک کر بتا سکتا ہوں کہ کیسا ہوگا اور کیاہو گا تو کیا میں یہ نہیں بتا سکوں گا کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے؟‘‘……اس نے کہا۔’’تم اپنی زبانوں کو ساکن رکھو اور میری زبان سے سنو کہ تم کیا کہنے آئے ہو……تم جس دشمن پر حملہ کرنے جا رہے ہو وہ یوں سمجھو کہ سویا ہوا ہے۔اس نے مکہ پر قبضہ کیا ہے اور وہاں کے انتظامات سیدھے کررہا ہے۔وہ اپنی بادشاہی کی بنیادیں پکی کررہا ہے۔مکہ میں اس کے دشمن بھی موجود ہیں ۔ہر کسی نے محمد ﷺکا مذہب قبول نہیں کیا۔‘‘’’مقدس کاہن!‘‘ دُرید بن الصّمہ نے کہا۔’’ہمیں یہ بتا کہ ہم محمدﷺ کو خبر ہونے سے پہلے اس کو دبوچ سکتے ہیں ؟کیاہمارا اچانک حملہ مکہ کے مسلمانوں کو گھٹنوں بٹھا سکے گا؟‘‘کاہن نے آسمان کی طرف دیکھا۔کچھ بڑبڑایا اور بولا۔’’آنے والے وقت کے پردوں کو چاک کرکے دیکھا ہے……تمہارا حملہ اچانک ہوگا۔مسلمانوں کو اس وقت پتا چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی۔کون ہے جو برستی تلواروں میں سنبھل کر اپنے آپ کو بچانے کی ترکیب کر سکتا ہے؟……یہی وقت ہے۔یہی موقع ہے۔مسلمان اگر سنبھل گئے تو تم اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکو گے۔پھر مسلمان تمہارے گھروں تک تمہارا پیچھا کریں گے اور تمہارے خزانوں کوا ور تمہاری عورتوں کو تمہاری لاشوں کے اوپر سے گزار کر اپنے ساتھ لے جائیں گے……ازلام کی ضرورت نہیں ۔لات نے اشارہ دے دیا ہے اور پوچھا ہے کہ مجھے پوجنے والوں کی تلواریں ابھی تک نیاموں میں کیوں ہیں؟‘‘’’کوئی قربانی؟‘‘ایک سردار نے پوچھا۔’’حام۔‘‘کاہن نے کہا۔’’ایک حام۔اگر ہے تو دے دو۔نہیں ہے تو اپنے قبیلے سے کہو کہ پیٹھ نہ دکھائیں۔اپنے خون کی اور اپنی جانوں کی قربانی دیں……حام کی تلاش میں وقت ضائع نہ کریں……جاؤ،میں نے تمہیں خبر دے دی ہے۔مکہ میں مسلمان دوسرے کاموں میں مصروف ہیں۔وہ لڑنے کیلئے تیار نہیں۔یہ وقت پھر نہیں آئے گا۔‘‘
حام اس اونٹ کو کہتے تھے جس کی چوتھی نسل پیدا ہو جاتی تھی۔اسے یہ لوگ اپنے بت کے نام پر کھلا چھوڑ دیتے تھے۔اس اونٹ کو متبرک سمجھ کر اس پر نہ کوئی سواری کر سکتا تھا نہ اس سے کوئی اور کام لیا جاتا تھا۔اس پر خاص نشان لگا دیا جاتا تھا۔اسے جو کوئی دیکھتا تھا ،اس کا احترام کرتا اور اسے اپنے کھانے کی چیزیں کھلا دیتا تھا۔جب ہوازن اور ثقیف کے سردار کاہن کی اشیرباد لے کر چلے گئے توکاہن اندرونی کمرے میں چلا گیا۔وہاں وہ بوڑھا یہودی بیٹھا تھا جسے گذشتہ رات ضیافت کے دوران مالک بن عوف نے اشارے سے کہا تھا کہ وہ سب کو بتائے کہ محکومی اور غلامی کیا ہوتی ہے۔’’میں نے تمہارا کام کردیا ہے۔‘‘کاہن نے اسے کہا۔’’اب یہ لوگ مکہ کی طرف کوچ میں تاخیر نہیں کریں گے۔‘‘’’کیا انہیں کامیابی حاصل ہوگی؟‘‘بوڑھے یہودی نے کہا۔’’کامیابی کا انحصار ان کے لڑنے کے جذبے اور عقل پرہے۔‘‘کاہن نے کہا۔’’اگر انہوں نے صرف جوش اور جذبے سے کام لیا اور عقل کو استعمال نہ کیا تو محمدﷺ کی عسکری قابلیت انہیں بہت بری شکست دے گی……میرا انعام؟‘‘’’تمہارا انعام ساتھ لایا ہوں۔‘‘بوڑھے نے کہا اور آواز دی۔دوسرے کمرے سے ایک حسین لڑکی آئی۔بوڑھے یہودی نے اپنے چغے کے اندر ہاتھ ڈال کر سو نے دو ٹکڑے نکالے اور کاہن کو دے دیئے۔’’میں کل صبح اس لڑکی کو لے جاؤں گا۔‘‘بوڑھے نے کہا۔’’میں تمہیں ایک بات بتا دینا چاہتا ہوں ۔‘کاہن نے کہا۔’’میں نے تمہارے کہنے پر ان لوگوں کو کہا ہے کہ فوراً حملہ کریں لیکن ان سرداروں میں سمجھ بوجھ ہے ۔حالات کو سمجھ لیتے ہیں ۔انکا بوڑھا سردار دُرید بن الصّمہ پہلے سے جانتا تھا کہ مسلمان مکہ میں ابھی جم کے نہیں بیٹھ سکے۔ان کے سامنے اور بہت سے مسئلے ہیں۔ان پر حملے کیلئے یہی وقت موزوں ہے۔ہوازن اور ثقیف کے سردار اپنے ارادے کی تصدیق کیلئے میرے پاس آئے تھے۔اچھا ہوا کہ ان سے پہلے تم چوری چھپے میرے پاس آ گئے تھے۔‘‘’’میرا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو ختم کیا جائے۔‘‘بوڑھے یہودی نے کہا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہوازن اور ثقیف دو طاقتور قبیلے تھے۔مسلمانوں نے مکہ فتح کرلیا تو ان دونوں قبیلوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ دونوں کے لوگ الگ الگ بستیوں میں رہتے ہیں اور بستیوں کی تعداد زیادہ ہے اور یہ ایک دوسرے سے دور دور بھی ہیں۔مسلمان ہر بستی پر قابض ہوکر دونوں قبیلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔انہوں نے سوچا کہ قبیلوں کو متحد کرکے مسلمانوں پر ہلّہ بول دیا جائے۔
دونوں قبیلے لڑنے والے آدمیوں کو ساتھ لے کر حنین کے قریب اوطاس کے مقام پر لے گئے۔ان کے سرداروں نے چھوٹے چھوٹے کئی اور قبائل کو اس قسم کے پیغام بھیج کرکہ مسلمان ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کرنے کیلئے آ رہے ہیں،اپنے اتحادی بنا لیا تھا۔اس متحدہ لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہو گئی تھی۔اس کا سپہ سالار مالک بن عوف تھا۔اس نے لشکر کے ہر آدمی کو اجازت دے دی تھی کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کو ساتھ لے آئے۔اس نے اس اجازت کا جواز یہ پیش کیا تھا کہ مکہ کا محاصرہ بہت لمبا بھی ہو سکتا ہے۔اگر ایسا ہو ا تو لشکریوں کو اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کا غم نہ ہوگا کہ معلوم نہیں کیسے ہوں گے۔اس اجازت سے تقریباً سب نے فائدہ اٹھایا تھا۔اس طرح جتنا لشکر لڑنے والوں کا تھا،اس سے کہیں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔اونٹ بھی بے شمار تھے۔دُرید بن الصّمہ بہت بوڑھا تھا۔وہ میدانِ جنگ میں جانے کے قابل نہیں تھا لیکن لڑنے اور لڑانے کا جو تجربہ اسے تھا وہ اور کسی کو نہیں تھا۔سپہ سالار مالک بن عوف کو بنایا گیا تھا لیکن اس میں خوبی صرف یہ تھی کہ وہ بہت جوشیلا تھا۔دُرید کو اس کے تجربے کی وجہ سے بلایاگیا تھا۔دُرید بن الصّمہ اس وقت اس لشکر میں شامل ہوا جب لشکر اوطاس کے مقام پر خیمہ زن تھا۔وہ شام کے وقت پہنچا،اسے بچوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیں۔اس نے بکریوں اور گدھوں کی آوازیں بھی سنیں۔اس نے کسی سے پوچھا کہ لشکر کے ساتھ بچے ،بکریاں اور گدھے کون لایا ہے؟اسے بتایا گیا کہ سپہ سالار نے بال بچے اور مویشی ساتھ لے جاے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ انہیں ساتھ لانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔’’مالک!‘‘ دُرید بن الصّمہ نے مالک بن عوف کے خیمے میں جاکر پوچھا۔’’یہ تو نے کیا کیا ہے؟میں نے ایسا لشکر پہلی بار دیکھا ہے جو لڑنے والے لشکر کی بجائے نقل مکانی کرنے والوں کا قافلہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘’’مجھے تمہاری جنگی فہم و فراست پر ذرا سا بھی شک نہیں میرے بزرگ!‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔’’لیکن میں نے جو سوچا ہے ،وہ تم ساری عمر نہیں سوچ سکے۔میں نے لشکریوں سے کہا تو یہ ہے کہ محاصرہ لمبا ہو جانے کی صورت میں انہیں اپنے اہل و عیال اور مال مویشی کے متعلق پریشانی پیدا ہو جائے گی۔لیکن میں نے سوچا کچھ اور ہے۔میں مکہ کو محاصرے میں نہیں لوں گا بلکہ یلغار کردوں گا۔مسلمانوں کو ہم بے خبری میں جا لیں گے۔تمہیں معلوم ہے کہ مسلمان لڑنے میں کتنے تیز اور عقل مند ہیں۔وہ پینترے بدل بدل کر لڑیں گے۔ہو سکتا ہے ہمارے آدمی ان کی بے جگری کے آگے ٹھہر نہ سکیں۔
وہ جب دیکھیں گے کہ ان کی عورتیں اور جوان بیٹیاں اور بچے اور دودھ دینے والے مویشی بھی ساتھ ہیں تو وہ انہیں بچانے کیلئے جان کی بازی لگاکر لڑیں گے اور زیادہ بہادری سے لڑیں گے۔بھاگیں گے نہیں۔‘‘’’تجربہ عمر سے حاصل ہوتا ہے مالک! ‘‘دُرید نے کہا۔’’تیرے پاس جذبہ ہے، غیرت ہے، جرات ہے لیکن عقل تیری ابھی خام ہے۔لڑائی میں اُن لوگوں کا دھیان آگے نہیں پیچھے ہوگا۔یہ یہی دیکھتے رہیں گے کہ دشمن پہلو سے یا عقب سے ان کے بال بچوں تک تو نہیں آ گیا۔دشمن جب ان پر جوابی حملہ کرے گا تو یہ تیزی سے اپنے بیوی بچوں تک پہنچیں گے کہ یہ دشمن سے محفوظ رہیں……تو بہت بڑی کمزوری اپنے ساتھ لے آیا ہے۔محمدﷺکی جنگی قیادت کو تو نہیں جانتا میں جانتا ہوں۔اس کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک قابل سالار ہے۔وہ تیری اس کمزور رگ پر وار کریں گے۔وہ کوشش کریں گے کہ تیرے لشکر کی عورتوں اور بچوں کو یرغمال میں لے لیں۔انہیں دور پیچھے رہنے دو اور مکہ کو کوچ کرو۔‘‘’’احترام کے قابل بزرگ!‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’تم بہت پرانی باتیں کر رہے ہو ۔تم نے محسوس نہیں کیا کہ اتنی لمبی عمر نے تمہیں تجربوں سے تو مالا مال کر دیاہے لیکن عمر نے تمہاری عقل کمزور کر دی ہے۔اگر میں سپہ سالار ہوں تو میرا حکم چلے گا ۔میں جہاں ضرورت سمجھوں گاتم سے مشورہ لے لوں گا۔‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ دُرید بن الصّمہ یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ یہ موقع آپس میں الجھنے کا نہیں تھا۔’’تم لشکر سے کچھ اور کہنا چاہتے ہو تو کہہ دو۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’جو کام مجھے کرنا ہے وہ میں تمہیں بتائے بغیر کروں گا۔‘‘دُرید نے کہا۔’’مجھ میں لڑنے کی طاقت نہیں رہی۔لڑا سکتا ہوں۔‘‘اس نے اپنے خیمے میں جا کر قبیلے کے سرداروں کو بلایا اور اتنا ہی کہا۔’’جب حملہ کرو گے تو تمہارا اتحاد نہ ٹوٹے۔تمام لشکر سے کہہ دو کہ حملہ سے پہلے تلواروں کی نیامیں توڑ کر پھینک دیں۔‘‘عربوں میں یہ رسم تھی کہ لڑائی میں جب کوئی اپنی نیام توڑ دیتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ شخص لڑتا ہوا جان دے دے گا ،پیچھے نہیں ہٹے گا اور شکست نہیں کھائے گا۔نیام توڑنے کو وہ فتح یا موت کا اعلان سمجھتے تھے۔کسی بھی تاریخ میں ایسا اشارہ نہیں ملتا کہ دُرید بن الصّمہ نے قبیلوں کے سراروں سے کہا ہو کہ وہ اپنے اہل و عیال کو اوطاس میں ہی رہنے دیں لیکن دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ لڑائی کے وقت صرف ہوازن قبیلہ تھا جس نے اپنی عورتوں ،بچوں اور بکریوں وغیرہ کو اپنے ساتھ رکھا تھا۔
یہ دوسرا موقع تھا کہ اتنے زیادہ قبیلوں کی متحد ہ فوج مسلمانوں کو تہس نہس کرنے آرہی تھی۔اس سے پہلے جنگِ خندق میں اتنے زیادہ قبیلے مسلمانوں کے خلاف متحد ہوئے تھے۔اب مالک بن عوف اس امید پر متحدہ فوج کو لے کر جا رہا تھا کہ وہ مکہ پر اچانک ٹوٹ پڑے گا۔اس لشکر کو اب اوطاس سے مکہ کو کوچ کرنا تھااور اس کوچ کی رفتار بہت تیز رکھنی تھی۔اوطاس میں لشکر کاقیام اس لیے زیادہ ہو گیا تھا کہ دوسرے قبیلوں کو وہاں اکھٹا ہونا تھا۔اگر اس لشکر میں صرف لڑنے والے ہوتے تو لشکر فوراً مکہ کی طرف پیش قدمی کر جاتا۔اس میں عورتیں اور بچے بھی تھے اور ان کا سامان بھی تھا۔اس لیے وہاں سے کوچ میں خاصی تاخیر ہو گئی ۔اس دوران مکہ کی گلیوں میں ایک للکارسنائی دی۔’’مسلمانو!ہوشیار……تیار ہو جاؤ……وہ ایک شتر سوار تھا۔‘‘ جو رسول اکرمﷺ کے گھر کی طرف جاتے ہوئے اعلان کرتا جا رہا تھا ۔’’خدا کی قسم! میں جو دیکھ کہ آیا ہوں وہ تم میں سے کسی نے نہیں دیکھا۔‘‘’’کیاشور مچاتے جا رہے ہو؟‘‘کسی نے اسے کہا ۔’’رکو اور بتاؤ کیا دیکھ کہ آئے ہو؟‘‘’’رسول اﷲﷺ کو بتاؤں گا۔‘‘وہ کہتا جا رہا تھا۔’’تیار ہو جاؤ……ہوازن اور ثقیف کا لشکر……‘‘’’رسول ِکریمﷺ کو اطلاع مل گئی کہ ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں کے ساتھ دوسرے قبیلوں کے ہزاروں لوگ اوطاس کے قریب خیمہ زن ہیں اور انکا ارادہ مکہ پر حملہ کرنے کا ہے اور وہ کوچ کرنے والے ہیں۔تاریخوں میں اس شخص کا نام نہیں ملتا۔جس نے اوطاس میں اس متحدہ لشکر کو دیکھا اور یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ لشکر کا ارادہ کیا ہے۔مؤرخوں نے اتنا ہی لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کو قبل از وقت غیر مسلم قبیلوں کے اجتماع کی خبر مل گئی۔ان مؤرخوں کے مطابقاور بعد کے مبصروں کی تحریروں کے مطابقرسولِ اکرمﷺ کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ جنگ و جدل سے گریز کیا جائے اور ان غیر مسلموں کو جو آپﷺ کو اور مسلمانوں کو دشمن سمجھتے اور آپﷺ کے خلاف سازشیں تیار کرتے رہتے تھے ،انہیں خیر سگالی اور بھائی چارے کے پیغام دیئے جائیں۔اس خواہش اور کوشش کے علاوہ جنوری ۶۳۰ء میں حضورﷺ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔کیونکہ آپﷺ نے مکہ کو چند ہی دن پہلے اپنی تحویل میں لیا تھا اور شہر کے انتظامات میں مصروف تھے۔حضورﷺ کو مشورے دیئے گئے کہ شہری انتظامات کو ملتوی کرکے دفاعی انتظامات کی طرف فوری توجہ دی جائے۔اور دشمن کے حملے یا محاصرے کا انتظار کیا جائے۔رسول اﷲﷺ نے مشورہ دینے والوں سے یہ کہہ کہ ان کا مشورہ مسترد کردیا کہ’’ ہم یہاں دفاعی مورچے بنا کر ان میں بیٹھ جائیں اور جب دشمن کو یہ خبر ملے کہ ہم بیدار ہیں اور قلعہ بند ہو کہ بیٹھ گئے ہیں تو دشمن مکہ سے کچھ دور خیمہ زن ہو کر اس انتظار میں تیار بیٹھ جائے کہ ہم دفاع میں ذرا سی کوتاہی کریں اور وہ شہر کو محاصرے میں لے لے ،یا سیدھی یلغار کردے۔ تو یہ دشمن کو دعوت دینے والی بات ہو گی کہ مسلسل خطرہ بن کر ہمارے سروں پر بیٹھا رہے۔‘‘ اس دور کی مختلف تحریروں سے صاف پتا چلتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے یہ اصول وضع کیا اور مسلمانوں کو ذہن نشین کرایا تھا کہ دشمن اگر اپنے گھر بیٹھ کر ہی للکارے تو اس کی للکار کا جواب ٹھوس طریقے یعنی عملی طریقے سے دو۔دوسرایہ کہ دشمن کی نیت اور ا سکے عزائم کا علم ہو جائے تو اپنی سرحدوں کے اندر بیٹھ کر اس کا انتظا رنہ کرتے رہو ،اس پر حملہ کردو اور حضورﷺ نے اپنی امت کو تیسرا اصول یہ دیا کہ ہر وقت تیاری کی حالت میں رہو اور دشمن کو احساس دلا دو کہ وہ تمہیں للکارے گا یا تمہارے لیے خطرہ بننے کی کوشش کرے گا تو تم بجلی کی طرح اس پر کوندو گے۔
نہیں! ایسانہیں ہو سکتا۔‘‘مالک بن عوف اپنے خیمے میں غصے سے بار بار زمین پر پاؤں مارتا اور کہتا تھا۔’’وہ اتنی جلدی کس طرح یہاں تک پہنچ سکتے ہیں؟کیا ہم اپنے ساتھ غداروں کو بھی لائے تھے جنہوں نے محمدﷺ کو بہت دن پہلے خبردار کر دیا تھا کہ ہم آ رہے ہیں؟‘‘’’خود جا کر دیکھ لے مالک!‘‘ بوڑھے دُرید بن الصّمہ نے کہا۔’’اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔اگر میں جھوٹ بول رہاہوں تو اپنے دیوتا لات کو دھوکا دے رہا ہوں۔اس آدمی نے کہا جو دیکھ کہ آیا تھا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر جس کی تعداد کم و بیش دس ہزار تھی ،حنین کے قریب آ کر پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔اس نے کہا۔انہوں نے خیمے نہیں گاڑے ،وہ تیاری کی حالت میں ہیں……اور یہ بھی جھوٹ نہیں کہ اس لشکر کا سپہ سالار خود محمدﷺہے۔‘‘مالک بن عوف غصے سے باؤلا ہوا چلا جا رہاتھا۔وہ مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑنے چلا تھا۔اس نے اوطاس سے مکہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دے دیا تھا مگر اسے اطلاع ملی کہ مسلمان اپنے رسولﷺ کی قیادت میں اس کی جمیعت سے تھوڑی ہی دور حنین کے گردونواح میں آ گئے ہیں اور مقابلے کیلئے تیار ہیں۔’’غصہ تیری عقل کو کمزور کر رہا ہے مالک!‘‘ دُرید نے اسے کہا۔’’اب محاصرے اور یلغار کو دماغ سے نکال اور اس زمین سے فائدہ اٹھا جس پر مسلمانوں سے تیرا مقابلہ ہو گا۔ تو اچھی چالیں سوچ سکتا ہے۔تو دشمن کو دھوکا دے سکتا ہے۔تجھ میں جرات ہے پھر تو کیوں پریشان ہو رہا ہے؟میں تیرے ساتھ ہوں……میں تجھے ایک بار پھر کہتا ہوں کہ ہوازن کے لوگوں نے اپنی عورتوں اور بچوں اور اپنے مویشیوں کو ساتھ لا کہ اچھا نہیں کیا……آ میرے ساتھ حنین کی وادی کو دیکھیں۔‘‘وہ دونوں اس علاقے کو دیکھنے چل پڑے جہاں لڑائی متوقع تھی۔
رسولِ کریمﷺ کے ساتھ مجاہدین کی جو فوج تھی اس کی تعداد بارہ ہزار تھی۔اس نفری میں مکہ کے دو ہزار ایسے افراد تھے جنہیں اسلام قبول کیے ابھی چند ہو د ن ہوئے تھے۔بعض صحابہ کرامؓ ان نو مسلموں پر بھروسہ کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔لیکن اﷲ کے رسولﷺ کو اپنے اﷲ پر بھروسہ تھا۔ابو سفیانؓ،عکرمہ ؓاور صفوانؓ بھی نو مسلم تھے۔یہ تینوں سرداری اور سالاری کے رتبوں کے افراد تھے جن کا نو مسلم قریش پر اثرورسوخ بھی تھا۔لیکن دیکھا یہ گیا کہ یہ سب اپنے مرضی سے اس لشکر میں شامل ہوئے تھے۔ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ ان تینوں نے مجاہدین کیلئے کم و بیش ایک سو زِرہ بکتر دیئے تھے۔یہ لشکر ۲۷ جنوری ۶۳۰ء ۶شوال ۸ھجری کی صبح مکہ سے روانہ ہوااور ۳۱ جنوری کی شام حنین کے گردونواح میں پہنچ گیا تھا ۔کوچ برق رفتار تھا۔رسولِ کریمﷺ کو معلوم تھا کہ قبیلہ ہوازن اور قبیلہ ثقیف لڑنے والے قبیلے ہیں اور ان کے قائد دُرید اور مالک جنگی فہم و فراست اور چالوں سے بخوبی واقف ہیں۔اس لیے آپﷺ نے ہراول میں جن سات سو مجاہدین کو رکھا وہ بنو سلیم کے تھے اور ان کے کمانڈر خالدؓ بن ولید تھے۔حنین ایک وادی ہے جو مکہ سے گیارہ میل دور ہے۔بعض جگہوں پر یہ وادی سات میل چوڑی ہے،کہیں اس کی چوڑائی اس سے بھی کم ہے اور حنین کے قریب جاکر وادی کی چوڑائی کم ہوتے ہوتے بمشکل دو فرلانگ رہ جاتی ہے ۔یہاں سے وادی کی سطح اوپر کو اٹھتی ہے یعنی یہ چڑھائی ہے۔آگے ایک درّہ نما راستہ ہے جو دائیں بائیں مڑتا ایک اور وادی میں داخل ہوتا ہے ۔اس وادی کا نام نخلۃ الیمانیہ ہے ۔راستہ خاصا تنگ ہے۔مسلمانوں نے اپنے جاسوسوں کی آنکھوں سے دیکھا کہ قبیلوں کی متحدہ فوج ابھی اوطاس کے قریب خیمہ زن ہے مگر جاسوس رات کی تاریکی میں نہ جھانک سکے یا انہوں نے ضرورت مہی محسوس نہ کی کہ رات کو بھی دیکھ لیتے کہ دشمن کو ئی نقل و حرکت تو نہیں کر رہا۔دن کے دوران متحدہ قبیلوں کے کیمپ میں کوچ کاپیش قدمی کی تیاری کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔کیمپ پر مردنی سی چھائی ہوئی تھی۔کوئی سرگرمی نہیں تھی۔یکم فروری ۶۳۰ء ۱۱شوال ۸ھجری کی سحر مجاہدین نے اوطاس کی طرف پیش قدمی کی ۔اسکیم یہ تھی کہ دشمن کے کیمپ پر یلغار کی جائے گی۔امید یہی تھی کہ دشمن کو بے خبری میں جالیں گے۔پیش قدمی مکمل طور پرمنظم تھی۔ہراول میں بنو سلیم کے مجاہدین تھے جن کے قائد خالدؓ بن ولید تھے۔اس حیثیت میں خالد ؓ سب سے آگے تھے۔اسلامی فوج کی نفری تو بارہ ہزار تھی۔لیکن اس باقاعدہ فوج کے ساتھ ایک بے قاعدہ فوج بھی تھی جس کی نفری بیس ہزار تھی۔یہ مکہ اور گردونواح کے لوگ تھے جو فوج کی مدد کیلئے ساتھ آئے تھے۔ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے ۔اتنا زیادہ لشکر دیکھ کر بعض صحابہ کرامؓ نے بڑے فخر سے کہا۔’’کون ہے جو ہمیں شکست دے سکتا ہے؟‘‘ دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس فخرمیں تکبر کی جھلک بھی تھی۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی