🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *15* ۔۔۔۔
اونٹ بہت تیز دوڑا چلا آ رہا تھا۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچا تو اس کے سوار نے چلانا شروع کر دیا ۔’’عزیٰ او رہبل کی قسم! مدینہ والوں کا لشکر مرالظہر میں پڑاؤ کیے ہوئے ہے اور میں نے اپنے سردار ابو سفیان کو وہاں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اہلِ قریش ہو شیار ہو جاؤ! محمد ﷺکا لشکر آ رہا ہے۔‘‘ اس نے اونٹ کو روکا اور اسے بٹھا کر اترنے کے بجائے اس کی پیٹھ سے کود کر اترا۔اس کی پکار جس نے سنی وہ دوڑا آیا ۔وہ گھبراہٹ کے عالم میں یہی کہے جا رہا تھاکہ مدینہ کالشکر مرالظہر تک آن پہنچا ہے اور ابو سفیان کو اس لشکر کے پڑاؤ کی طرف جاتے دیکھا ہے ۔مکہ کے لوگ اس کے اردگرد اکھٹے ہوتے چلے گئے۔
’’ابو حسنہ!‘‘ ایک معمر آدمی نے اس سے پوچھا۔’’تیرا دماغ صحیح نہیں یا تو جھوٹ بول رہا ہے ۔‘‘’’میری بات کو جھوٹ سمجھو گے تواپنے انجام کو بہت جلد پہنچ جاؤ گے ۔‘‘شترسوار ابو حسنہ نے کہا۔’’کسی سے پوچھو ہمارا سردار ادھر کیوں گیا ہے؟‘‘ اس نے پھر چلانا شروع کر دیا۔’’اے قبیلۂ قریش !مسلمان اچھی نیت سے نہیں آئے۔‘‘ابو حسنہ کا واویلا مکہ کی گلیوں سے ہوتا ہوا ابو سفیانؓ کی بیوی ہند کے کانوں تک پہنچا۔ وہ آگ بگولہ ہوکہ باہر آئی اور اس ہجوم کو چیر نے لگی جس نے ابو حسنہ کو گھیر رکھا تھا۔ ’’ابو حسنہ !‘‘اس نے ابو حسنہ کا گریبان پکڑ کر کہا۔’’میری تلوار محمد کے خون کی پیاسی ہے۔ تومیری تلوار سے اپنی گردن کٹوانے کیوں آگیا ہے ؟کیا تو نہیں جانتا کہ جس پر تو جھوٹا الزام تھوپ رہا ہے وہ میرا شوہر اور قبیلے کا سردار ہے۔‘‘’’اپنی تلوار گھر سے لے آ خاتون!‘‘ ابو حسنہ نے کہا۔’’لیکن تیرا شوہر آجائے تو اس سے پوچھنا کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟‘‘’’اور تو کہتا ہے کہ محمدﷺ لشکر لے کر آیا ہے۔‘‘ ہند نے پوچھا۔’’خدا کی قسم!‘‘ ابو حسنہ نے کہا۔’’میں وہ کہتا ہوں جومیں نے دیکھا ہے ۔‘‘’’اگر تو سچ کہتا ہے تو مسلمانوں کو موت ادھر لے آئی ہے ۔‘‘ہند نے کہا۔ابو سفیانؓ واپس آ رہے تھے ۔اہل ِمکہ ایک میدان میں جمع ہو چکے تھے ۔رسولِ کریمﷺ کی پیش قدمی اب راز نہیں رہ گئی تھی لیکن اب کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اہلِ قریش اب کسی کو مدد کیلئے نہیں بلا سکتے تھے۔ابو سفیان ؓآ رہے تھے۔ لوگوں پر خاموشی طاری ہو گئی۔ ابو سفیانؓ کی بیوی ہند لوگوں کو دائیں بائیں دھکیلتی آگے چلی گئی۔اس کے چہرے پر غضب اور قہر تھااور اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے ۔ابو سفیانؓ نے لوگوں کے سامنے آ کر گھوڑا روکا۔ انہوں نے اپنی بیوی کی طرف توجہ نہ دی۔
’’اہلِ قریش! ‘‘ابو سفیان ؓ نے بلند آواز سے کہا۔’’پہلے میری بات ٹھنڈے دل سے سن لینا۔ پھر کوئی اوربات کہنا۔میں تمہارا سردار ہوں، مجھے تمہارا وقار عزیز ہے ۔محمد ﷺاتنا زیادہ لا و لشکر لیکر آیاہے جس کے مقابلے میں تم قتل ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ۔اپنی عورتوں کو بچاؤ، اپنے بچوں کو بچاؤ ،قبول کرلو اس حقیقت کو جو تمہارے سر پر آ گئی ہے۔ تمہارے لیے بھاگ جانے کا بھی کوئی راستہ نہیں رہا۔‘‘’’ہمیں یہ بتا ہمارے سردار!ہم کیا کریں؟‘‘لوگوں میں سے کسی کی آواز آئی۔’’محمدﷺ کی اطاعت قبول کرلینے کے سوااور کوئی راستہ نہیں۔‘‘ابو سفیانؓ نے کہا۔’’خداکی قسم! مسلمان ہمیں پھر بھی نہیں بخشیں گے۔‘‘ایک اور آواز اٹھی۔’’وہ اپنے مقتولوں کا بدلہ لیں گے ۔وہ سب سے پہلے تمہیں قتل کریں گے۔ اُحد میں تمہاری بیوی نے ان کی لاشوں کو چیرا پھاڑا تھا ۔‘‘ہند الگ کھڑی پھنکار رہی تھی۔’’میں تم سب کی سلامتی کی ضمانت لے آیا ہوں ۔‘‘ابو سفیانؓ نے کہا۔’’میں محمدﷺ سے مل کر آ رہا ہوں۔ اس نے کہا ہے کہ تم میں سے جو میرے گھر آجائیں گے وہ مسلمانوں کے جبر و تشد د سے محفوظ رہیں گے۔‘‘’’کیا مکہ کے سب لوگ تمہارے گھر میں سما سکتے ہیں ؟‘‘کسی نے پوچھا۔’’نہیں!‘‘ابو سفیانؓ نے کہا۔’’محمدﷺ نے کہا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے اور ان کے دروازے بند رہیں گے ان پر بھی مسلمان ہاتھ نہیں اٹھائیں گے،اور جولوگ خانۂ خداکے اندر چلے جائیں گے ان کو بھی مسلمان اپنا دوست سمجھیں گے۔وہ دشمن صرف اسے جانیں گے جو ہتھیار لے کر باہر آئے گا۔‘‘ابو سفیانؓ گھوڑے سے اتر آئے اور بولے۔’’تمہاری سلامتی اسی میں ہے، تمہاری عزت اسی میں ہے کہ تم دوستوں اور بھائیوں کی طرح ان کا استقبال کرو۔‘‘’’ابو سفیان! ‘‘قریش کے مشہور سالار عکرمہ نے للکار کر کہا۔’’ہم اپنے قبیلے کے قاتلوں کا استقبال تلواروں اور برچھیوں سے کریں گے۔‘‘’’ہمارے تیر ان کا استقبال مکہ سے دور کریں گے۔‘‘قریش کے دوسرے دلیر اور تجربہ کار سالار صفوان نے کہا۔’’ہمیں اپنے دیوتاؤں کی قسم! ہم دروازے بند کرکے اپنے گھروں میں بند نہیں رہیں گے۔‘‘’’حالات کو دیکھو عکرمہ ۔‘‘ابو سفیانؓ نے کہا۔’’ ہوش کی بات کرو صفوان،وہ ہم میں سے ہیں ۔آج خالد محمدﷺ کے ساتھ جا ملا ہے تو مت بھول کہ اس کی بہن فاختہ تمہاری بیوی ہے ،کیا تو اپنی بیوی کے بھائی کو قتل کرے گا؟کیا تجھے یاد نہیں رہا کہ میری بیٹی اُمّ ِ حبیبہؓ محمد ﷺ کی بیوی ہے۔کیا تو یقین نہیں کرے گا کہ میں اپنے قبیلے کی عزت اور ناموس کی خاطر مدینہ گیا تو میری اپنی بیٹی نے میری بات سننے سے انکار کر دیا تھا۔میں محمدﷺ کے گھر میں چارپائی پر بیٹھنے لگا تو اُمّ ِ حبیبہؓنے میرے نیچے سے چارپائی پر بچھی ہوئی چادر کھینچ لی تھی کہ اس مقدس چادر پر رسول اﷲ ﷺ کا دشمن نہیں بیٹھ سکتا،باپ اپنی بیٹی کا دشمن نہیں ہو سکتا صفوان۔‘‘
مکہ کے لوگوں میں عکرمہ اور صفوان اور دو تین اور آدمیوں کے سوا اور کسی کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی ۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ قبیلہ قریش کی خاموشی ظاہرکرتی تھی کہ ان لوگوں نے ابو سفیانؓ کا مشورہ قبول کرلیا ہے۔ ابو سفیانؓ کے چہرے پر اطمینان کا تاثر آگیا مگر اس کی بیوی ہند جو الگ کھڑی پھنکار رہی تھی ،تیزی سے ابو سفیانؓ کی طرف بڑھی اور اس کی مونچھیں جو خاصی بڑی تھیں اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیں۔ ’’میں سب سے پہلے تجھے قتل کروں گی۔‘‘ہند نے ابو سفیان کی مونچھیں زور زور سے کھینچتے ہوئے کہا۔’’ بزدل بوڑھے! تو نے قبیلے کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔‘‘اس نے ابو سفیانؓ کی مونچھیں چھوڑ کر اس کے منہ پر بڑی زور سے تھپڑ مارا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر بولی۔’’ تم لوگ اس بوڑھے کو قتل کیوں نہیں کر دیتے ہو جو تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار کرنے کی باتیں کر رہا ہے ۔‘‘مؤرخ مغازی اور ابنِ سعد لکھتے ہیں کہ ہند نے اپنے خاوند کے ساتھ اتنا توہین آمیز سلوک کیا تو لوگوں پر سناٹا طاری ہو گیا ۔ابو سفیانؓ جیسے بت بن گیا ہو ۔عکرمہ اور صفوان ان کے درمیان آ گئے ۔’’ہم لڑیں گے ہند !‘‘صفوان نے کہا۔’’ اسے جانے دے۔ اس پر محمدﷺکا جادو چل گیا ہے ۔‘‘ابو سفیانؓ خاموش رہے۔شام تک اہلِ قریش دو حصوں میں بٹ چکے تھے ۔زیادہ تر لوگ لڑنے کے حق میں نہیں تھے ۔باقی سب عکرمہ ،صفوان اور ہند کاساتھ دے رہے تھے۔شام کے بعد صفوان اپنے گھر گیا۔ اس کی بیوی جس کا نام فاختہ تھا خالدؓ بن ولید کی بہن تھی۔وہ بھی ابو سفیانؓ کی باتیں سن چکی تھی ۔’’کیا میں نے ٹھیک سنا ہے کہ تم اپنے قبیلے کے سردار کی نافرمانی کر رہے ہو؟‘‘فاختہ نے صفوان سے پوچھا۔’’اگر فرمانبرداری کرتا ہوں تو پورے قبیلے کا وقارتباہ ہوتا ہے ۔قبیلے کا سرداربزدل ہو جائے تو قبیلے والوں کو بزدل نہیں ہونا چاہیے ۔سرداراپنے قبیلے کے دشمن کو دوست بنا لے تو وہ قبیلے کا دوست نہیں ہو سکتا۔‘‘’’کیا تم مسلمانوں کا مقابلہ کرو گے؟‘‘فاختہ نے پوچھا۔’’تو کیا تم یہ پسند کرو گی کہ تمہارا شوہر اپنے گھر کے دروازے بند کرکے اپنی بیوی کے پاس بیٹھ جائے اوردشمن اس کے دروازے کے سامنے دندناتا پھرے۔ کیا میرے بازو ٹوٹ گئے ہیں ؟کیا میری تلوار ٹوٹ گئی ہے؟کیا تم اس لاش کو پسند نہیں کرو گی جو تمہاری گھر میں لائی جائے گی اور سارا قبیلہ کہے گا کہ یہ ہے تمہارے خاوند کی لاش۔جو بڑی بہادری سے لڑتاہوا مارا گیا ہے۔یاتم اس شوہر کو پسند کرو گی جو تمہارے پاس بیٹھارہے گا اور لوگ تمہیں کہیں گے کہ یہ ہے ایک بزدل اور بے وقار آدمی کی بیوی…… جس نے اپنی بستی اور عبادت گاہ اپنے دشمن کے حوالے کردی۔تم مجھے کس حال میں دیکھنا پسند کرو گی؟‘‘
’’میں نے تم پر ہمیشہ فخر کیا ہے صفوان۔‘‘فاختہ نے کہا۔’’عورتیں مجھے کہتی ہیں کہ تمہارا خاوند قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے لیکن اب حالات کچھ او رہیں۔ تمہارا ساتھ دینے والے بہت تھوڑے…… بہت تھوڑے ہیں۔سنا ہے مدینہ والوں کی تعدا دبہت زیادہ ہے اور اب میرا بھائی خالد بھی ان کے ساتھ ہے۔تم جانتے ہو وہ لڑنے مرنے والا آدمی ہے ۔‘‘’’کیا تم مجھے اپنے بھائی سے ڈرا رہی ہو فاختہ؟‘‘’’نہیں!‘‘فاختہ نے کہا ۔’’مجھے خالد مل جاتاتو میں اسے بھی یہی کہتی جومیں تمہیں کہ رہی ہوں ۔وہ میرا بھائی ہے ۔وہ تمہارے ہاتھ سے مارا جا سکتا ہے ۔تم اس کے ہاتھ سے مارے جا سکتے ہو۔ تم ایک دوسرے کے مقابلے میں نہ آؤ۔میں اس کی بہن اور تمہاری بیوی ہوں۔ لاش تمہاری ہوئی یا خالد کی ،میرا غم ایک جیسا ہو گا۔‘‘’’یہ کوئی عجیب بات نہیں فاختہ !‘‘صفوان نے کہا۔’’ دشمنی ایسی پیدا ہو گئی ہے کہ باپ بیٹے کا اور بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا ہے۔ اگر میں تمہارے رشتے کا خیال رکھوں تو……‘‘’’تم میرے رشتے کا خیال نہ رکھو۔‘‘فاختہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’قبیلے کا سردار تمہیں کہہ رہا ہے لڑائی نہیں ہو گی ۔محمدﷺکی اطاعت قبول کر لیں گے ۔پھر تم لڑائی کا ارادہ ترک کیوں نہیں کر دیتے ؟تمہارے ساتھ بہت تھوڑے آدمی ہوں گے۔‘‘ ’’میں اطاعت قبول کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔‘‘صفوان نے کہا۔’’پھرمیری ایک بات مان لو! ‘‘فاختہ نے کہا۔’’خالد کے آمنے سامنے نہ آنا۔اسے میری ماں نے جنم دیا ہے۔ ہم دونوں نے ایک ماں کا دودھ پیا ہے ۔وہ جہاں کہیں بھی ہے ،بہن یہی سننا چاہتی ہے کہ اس کابھائی زندہ ہے۔ میں بیوہ بھی نہیں ہونا چاہتی صفوان……‘‘’’پھر اپنے بھائی سے جا کہ کہو کہ مکہ کے قریب نہ آئے۔‘‘صفوان نے کہا۔’’ وہ میرے سامنے آئے گا تو ہمارے رشتے ختم ہو جائیں گے۔‘‘فاختہ کے آنسو صفوان کے ارادوں کو ذرا بھی متزلزل نہ کر سکے۔رسولِ کریمﷺ نے ایک اور انتظام کیا۔انہوں نے چند ایک آدمی مختلف بہروپوں میں مکہ کے اردگرد چھوڑ رکھے تھے۔ان کا کام یہ تھا کہ مکہ سے کوئی آدمی باہر نکل کر کہیں جاتا نظر آئے تو اسے پکڑ لیں۔جاسوسی کا یہ اہتمام اس لیے کیا گیاتھاکہ قریش اپنے دوست قبائل کو مدد کیلئے نہ بلا سکیں۔دوسرے ہی دن دو شتر سواروں کو پکڑا گیا جو عام سے مسافر معلوم ہوتے تھے۔انہیں مسلمانوں کے پڑاؤ میں لے جایا گیا ،ایک دو دھمکیوں سے ڈر کر انہوں نے اپنی اصلیت ظاہر کر دی۔ان میں سے ایک یہودی تھا اور دوسرا قبیلہ قریش کا۔وہ مکہ سے چند میل دور رہنے والے قبیلہ بنو بکر کے ہاں یہ اطلاع لے کے جا رہے تھے کہ مسلمان مرّالظہر میں پڑاؤ کیے ہوئے ہیں ۔بنو بکر کو یہ بھی پیغام بھیجا جا رہا تھا کہ وہ مسلمانوں پر شب خون ماریں اور دو اور قبیلوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیں۔پیغام میں یہ بھی تھاکہ مسلمان مکہ کو محاصرے میں لیں تو بنو بکر اور دوسرے قبیلے عقب سے ان پر حملہ کردیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ مکہ میں لڑائی کی تیاریاں کس پیمانے پر ہو رہی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ابو سفیان لڑائی نہیں چاہتا اور مکہ والوں کی اکثریت اس کے ساتھ ہے۔ صرف عکرمہ اور صفوان لڑیں گے لیکن ان کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی ہیں۔ان دونوں آدمیوں کو ابو سفیان نے نہیں عکرمہ اور صفوان نے بھیجا تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اپنے سالاروں وغیرہ سے کہا کہ مکہ میں یہ فرض کرکے داخل ہو اجائے گا کہ قریش شہر کے دفاع میں لڑیں گے ۔آپﷺ نے اپنی فوج کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔اس زمانے میں مکہ کی طرف چار راستے جاتے تھے جو مکہ کے اردگرد کھڑی پہاڑیوں میں سے گزرتے تھے۔فوج کے ہر حصے کو ایک ایک راستہ دے دیا گیا ۔انہیں اپنے اپنے راستے سے مکہ شہر کی طرف پیش قدمی کرنی تھی ۔فوج کے ان حصوں میں ایک کی نفری سب سے زیادہ رکھی گئی۔ اس کی کمان ابو عبیدہؓ کو دی گئی ۔حضورﷺ کو اس دستے کے ساتھ رہنا تھا ۔ایک حصے کی کمان علیؓ کے پاس تھی۔ ایک کے کماندار زبیرؓ تھے اور چوتھے حصے کی کمان خالدؓ کے پاس تھی۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس اسکیم میں غیر معمولی دانش کار فرما تھی۔چار سمتوں سے پیش قدمی کا مقصد یہ تھا کہ مکہ کے دفاعی دستوں کو چار حصوں میں بکھیر دیا جائے۔ اگر وہ مسلمانوں کی پیش قدمی کو کسی ایک یا دو راستوں پر روک بھی لیں تو دوسرے دستے آگے بڑھ کر شہر میں داخل ہو سکیں ۔اس کے علاوہ فوج کی اس تقسیم کا مقصد یہ بھی تھا کہ قریش اگر دفاع میں نہ لڑیں تو وہ کسی راستے سے بھاگ بھی نہ سکیں۔رسولِ اکرمﷺ نے اس اسکیم کے علاوہ جو احکام دیئے وہ یہ تھے۔’’ قریش دفاع میں نہ لڑیں تو ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔ امن کا جواب پرامن طریقے سے دیا جائے۔ اگر کہیں جھڑپ ہو جائے تو زخمیوں کو قتل نہ کیا جائے بلکہ ان کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کی جائے۔لڑنے والوں میں جو پکڑا جائے اس پر تشدد نہ کیا جائے نہ اسے قتل کیا جائے اور اسے جنگی قیدی بھی نہ سمجھا جائے،اور ان میں سے کوئی بھاگ نکلے تو اسے بھاگ جانے دیا جائے۔‘‘اسلامی لشکر کے چاروں حصوں کو پیش قدمی کا حکم دے دیا گیا۔ ۲۰ رمضان المبارک ۸ہجری ۱۱جنوری ۶۳۰عیسوی کا دن تھا۔ اسلامی لشکر کے تین حصے اپنے راستوں سے گزر کر مکہ میں داخل ہو گئے ۔کسی طرف سے ان پر ایک تیر بھی نہ آیا۔ شہر کاکوئی دفاع نہ تھا۔ قریش کی کوئی تلوار نیام سے باہر نہ نکلی ،لوگ گھروں میں بند رہے، کسی کسی مکان کی چھت پر کوئی عورت یا بچے کھڑے نظر آتے تھے ۔مسلمان چوکنّے تھے ،شہر کا سکوت مشکوک اور ڈراؤنا تھا۔ایسے لگتا تھا جیسے اس سکوت سے کوئی طوفان اٹھنے والا ہو-
شہر سے کوئی طوفان نہ اٹھا،طوفان اٹھانے والے دو آدمی تھے ایک عکرمہ اور دوسرا صفوان۔دونوںشہر میں نہیں تھے، کئی اور آدمی شہر میں نہیں تھے۔وہ قریب ہی کہیں چھپے ہوئے تھے۔ وہ رات کو باہر نکل گئے تھے۔ ان کے ساتھ تیر انداز بھی تھے ۔یہ ایک جیش تھا جو اس پہاڑی راستے کے قریب جا پہنچا تھا جو خالد کے دستے کی پیش قدمی کا رستہ تھا۔ عکرمہ اور صفوان کو معلوم نہیں تھا کہ اس اسلامی دستے کے قائد خالدؓ ہیں۔ عکرمہ اور صفوان کا ایک آدمی کہیں بلندی پر تھا۔ اس نے خالدؓ کو پہچان لیا اور اوپر سے دوڑتا نیچے گیا۔’’اے صفوان! ‘‘اس آدمی نے صفوان سے کہا۔’’کیا تو ہمیں اجازت دے گا کہ تیری بیوی کے بھائی کو ہم قتل کر دیں؟ میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتیں۔ میں نے خالدکو دیکھا ہے ۔‘‘’’اپنے قبیلے کی عزت اور غیرت سے بڑھ کر مجھے کوئی اور عزیز نہیں ہے ۔‘‘صفوان نے کہا۔’’اگر خالد میری بہن کا خاوند ہوتا تو آج میں اپنی بہن کو بیوہ کر دیتا۔‘‘’’مت دیکھو کون کس کا بھائی ،کس کا باپ اور کس کا خاوند ہے۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’خالد میرا بھی کچھ لگتا ہے لیکن آج وہ میرا دشمن ہے ۔‘‘خالدؓ کا دستہ اور آگے آیا تو اس پر تیروں کی پہلی بوچھاڑ آئی۔خالد ؓنے اپنے دستے کو روک لیا ۔’’اے اہلِ قریش! ‘‘خالدؓ نے بڑی بلند آواز سے کہا۔’’ہمیں راستہ دے دو گے تو محفوظ رہو گے۔ہمارے رسولﷺ کا حکم ہے کہ اس پر ہاتھ نہ اٹھانا جو تم پر ہاتھ نہیں اٹھاتا ۔کیا تمہیں اپنی جانیں عزیز نہیں ؟میں تمہیں صرف ایک موقع دوں گا۔‘‘تیروں کی ایک اور بوچھا ڑ آئی۔’’ہم تیرے رسولﷺکے حکم کے پابند نہیں خالد۔‘‘عکرمہ نے للکار کر کہا۔’’ہمت کر اور آگے آ۔ہم ہیں تمہارے پرانے دوست صفوان اور عکرمہ،تو مکہ میں زندہ داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘خالدؓنے تیروں کی دوسری بوچھاڑ سے معلوم کر لیا تھا کہ دشمن کہاں ہے ۔خالدؓ نے اپنے دستے کو روک کر پیچھے ہٹا لیا اور اپنے کچھ آدمیوں کو پہاڑیوں کے اوپر سے آگے بڑھنے اور تیر اندازوں پر حملہ کرنے کیلئے بھیج دیا۔عکرمہ اور صفوان خالدؓ کے ان آدمیوں کو نہ دیکھ سکے ،تھوڑی سی دیر میں یہ آدمی دشمن کے سر پر جا پہنچے۔وادی سے خالد ؓنے ہلّہ بول دیا جو اس قدر تیز اورشدید تھا کہ قریش کے پاؤں اکھڑ گئے ۔خالدؓ نے اوپر سے بھی حملہ کرایا تھا اور نیچے سے بھی۔
’’کہاں ہو عکرمہ ؟‘‘خالدؓللکار رہے تھے۔’’کہاں ہو صفوان؟‘‘وہ دونوں کہیں بھی نہیں تھے۔وہ خالد ؓکے ہلّے کی تاب نہ لا سکے اور خالدؓکو نظر آئے بغیر کہیں بھاگ گئے۔ ان کا جیش بھی لاپتا ہو گیا ۔پیچھے قریش کی بارہ لاشیں رہ گئیں۔ مختصر سی اس جھڑپ میں دو مسلمان جبشؓ بن اشعر اور کوز بن جابر فہریؓ شہید ہوئے۔اسلامی فوج کے تین حصے مکہ میں داخل ہو چکے تھے ۔خالدؓ کادستہ ابھی نہیں پہنچا تھا۔سب حیران تھے کہ اہل ِمکہ نے مزاحمت نہیں کی پھر خالدؓ کے نہ آنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ایک قاصد کو دوڑایا گیا ۔وہ خبر لایا کہ خالدؓ دو مسلمانوں کی لاشیں لے کرآ رہا ہے اور اس کے دستے نے قریش کے بارہ آدمی مار ڈالے ہیں ۔رسولِ کریمﷺ نے سنا تو آپﷺ بہت برہم ہوئے۔ آپﷺ اچھی طرح جانتے تھے کہ خالدؓ جنگ و جدل کا دلدادہ ہے۔ اس نے بغیر اشتعال کے لڑائی مول لے لی ہو گی۔خالد ؓ کے مکہ میں آنے کی اطلاع ملی تو رسول اﷲﷺ نے انہیں بلا کر پوچھا کہ اس حکم کے باوجود کہ لڑائی سے گریز کیا جائے انہوں نے قریش کے بارہ آدمیوں کو کیوں مار ڈالا؟خالدؓ نے حضورﷺ کو بتایا کہ عکرمہ اور صفوان کے ساتھ قریش کے متعدد آدمی تھے جنہوں نے ان پر تیر برسائے۔ خالدؓ نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے عکرمہ اور صفوان کو ایک موقع دیا تھا لیکن انہوں نے تیروں کی ایک اور بوچھاڑ پھینک دی۔رسولِ خداﷺ نے ابو سفیانؓ سے پوچھا کہ عکرمہ اورصفوان کہاں ہیں؟ابو سفیانؓ نے بتایا کہ وہ مکہ کے دفاع میں لڑنے کیلئے چلے گئے تھے ۔رسولِ خداﷺ کو یقین ہو گیا کہ لڑائی خالدؓ نے شروع نہیں کی تھی۔مکہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ کے ہمراہ اسامہؓ بن زیدؓ ،بلالؓ اور عثمان بن طلحہؓ تھے۔رسولِ کریمﷺ کو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو گئے سات سال گزر چکے تھے ۔آپﷺ نے مکہ کے درودیوار کو دیکھا ۔وہاں کے لوگوں کو دیکھا، دروازوں اور چھتوں پر کھڑی عورتوں کودیکھا ۔بہت سے چہرے شناسا تھے۔ آپﷺ گزرتے چلے گئے اور کعبہ میں داخل ہو گئے ۔سات مرتبہ بیت اﷲکا طواف کیا اور اﷲ کا شکر ادا کیا۔اب مکہ میں کسی کو اتنی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ آپﷺ کو جادوگر کہے یا آپﷺ پر پھبتی کسے۔
ہلِ قریش چہروں پر خوف و ہراس کے تاثرات لیے اپنے انجام کے منتظر کھڑے تھے۔عربوں کے ہاں اپنی بے عزتی اور قتل کے انتقام کا رواج بڑا بھیانک تھا۔ رسول اﷲﷺ نے حکم دے دیا تھا کہ جو امن قائم رکھیں گے ان کے ساتھ پر امن سلوک کیا جائے گا۔اس کے باوجود قریش ڈرے سہمے ہوئے تھے ۔’’اہلِ قریش!‘‘ حضورﷺ نے لوگوں کے سامنے رک کر پوچھا۔’’خود بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو؟‘‘لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ خیر اور بخشش کے طلبگار تھے۔’’اپنے گھروں کو جاؤ ۔‘‘حضورﷺ نے کہا ۔’’ہم نے تمہیں بخش دیا۔‘‘رسول اﷲﷺ کی حیات ِ مقدسہ کی عظیم گھڑی تو وہ تھی جب آپﷺ نے کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کی طرف توجہ دی۔ بتوں کی تعداد تین سو ساٹھ تھی۔ان میں ایک بت حضرت ابراہیمؑ کا بھی تھا ۔اس بت کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ ان تیروں سے بت خانے کے پیشوا فال نکالا کرتے تھے۔حضورﷺ کے ہاتھ میں ایک موٹی اور مضبوط لاٹھی تھی۔آپﷺ نے اس لاٹھی سے بت توڑنے شروع کر دیئے۔آپﷺ اپنے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کی سنت کو زندہ کر رہے تھے ۔آپﷺ بت توڑتے جاتے اور بلند آواز سے کہتے جاتے:’’ حق آیا…… باطل چلا گیا……بے شک باطل کو چلے جانا تھا……‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ ایسے لگتا تھا جیسے یہ صدائیں حضورﷺ کی لاٹھی کی ہر ضرب سے کعبہ کی دیواروں سے اٹھ رہی ہوں ۔کعبہ سے بتوں کے ٹکڑے اٹھا کر باہر پھینک دیئے گئے اور کعبہ عالمِ اسلام کی عبادت گاہ بن گیا۔اس کے بعد آپﷺ نے مکہ کے انتظامی امور کی طرف توجہ دی۔قریش اور دیگر قبائل کے لوگ قبولِ اسلام کیلئے آتے رہے۔بت صرف کعبہ میں ہی نہیں تھے۔مکہ کے گردونوح کی بستیوں میں مندر تھے ۔وہاں بھی بت رکھے تھے۔ سب سے اہم بت عزیٰ کا تھا جو چند میل دور نخلہ کے مندر میں رکھا گیا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ نے عزیٰ کا بت توڑنے کا کام خالدؓ کے سپرد کیا ۔خالدؓ نے اپنے ساتھ تیس سوار لیے اور اس مہم پر روانہ ہو گئے۔ دوسرے مندروں کے بت توڑنے کیلئے مختلف جیش روانہ کیے گئے۔عزیٰ کا بت اکیلانہیں تھا۔ چونکہ یہ دیوی تھی اس لیے اس کے ساتھ چھوٹی دیویوں کے بت بھی تھے۔خالدؓ وہاں پہنچے تومندر کا پروہت ان کے سامنے آگیا ۔اس نے التجا کی کہ ان کے بت نہ توڑے جائیں ۔’’مجھے عزیٰ کا بت دکھاؤ۔‘‘خالدؓ نے نیام سے تلوار نکال کر پروہت سے پوچھا۔
پروہت موت کے خوف سے مندر کے ایک بغلی دروازے میں داخل ہو گیا۔ خالدؓ اس کے پیچھے گئے۔ ایک کمرے سے گزر کر اگلے کمرے میں گئے تو وہاں ایک دیوی کا بڑا ہی خوبصورت بت چبوترے پر رکھاتھا۔پروہت نے بت کی طرف اشارہ کیا اور بت کے آگے فرش پرلیٹ گیا۔ مندر کی داسیاں بھی آ گئیں ۔خالدؓ نے تلوار سے اس حسین دیوی کا بت توڑ ڈالااور اپنے سواروں سے کہا کہ بت کے ٹکڑے باہر بکھیر دیں۔پروہت دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور داسیاں بَین کر رہی تھیں۔خالدؓ نے دیویوں کے بت بھی توڑ ڈالے اور گرج کر پروہت سے کہا۔’’کیا اب بھی تم اسے دیوی مانتے ہو جو اپنے آپ کو ایک انسان سے نہیں بچا سکی۔‘‘پروہت دھاڑیں مارتا رہا ۔خالدؓ فاتحانہ انداز سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اوراپنے سواروں کوواپسی کا حکم دیا ۔جب خالدؓ اپنے تیس سواروں کے ساتھ مندر سے دور چلے گئے تو پروہت نے جو دھاڑیں مار رہا تھا بڑی زور سے قہقہہ لگایا ۔پجارنیں جو بَین کر رہی تھیں وہ بھی ہنسنے لگیں۔’’ عزیٰ کی توہین کوئی نہیں کر سکتا ۔‘‘پروہت نے کہا۔’’خالد جو خود عزیٰ کا پجاری ہوا کرتا تھا بہت خوش ہو کے گیا ہے کہ اس نے عزیٰ کا بت توڑ ڈالا ہے۔ عزیٰ زندہ ہے…… زندہ رہے گی۔‘‘’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے حضور ﷺ کو اطلاع۔’’ دی میں عزیٰ کا بت توڑ آیا ہوں ۔‘‘’’کہاں تھا یہ بت؟‘‘حضورﷺ نے پوچھا۔خالدؓ نے وہ مندر اور اس کا وہ کمرہ بتایا جہاں انہوں نے وہ بت دیکھا اور توڑا تھا۔’’تم نے عزیٰ کا بت نہیں توڑا خالد!‘‘ رسولِ کریمﷺ نے کہا۔’’واپس جاؤ اور اصلی بت توڑکر آؤ۔‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ عزیٰ کے دو بت تھے ایک اصلی جس کی پوجا ہوتی تھی دوسرا نقلی تھا۔ یہ غالباً مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے بنایا گیا تھا۔خالدؓکا خون کھولنے لگا،انہوں نے اپنے سواروں کو ساتھ لیااور نخلہ کو روانہ ہو گئے۔مندر کے پروہت نے دور سے گھڑ سواروں کو آتے دیکھا تو اس نے مندر کے محافظوں کو بلایا۔’’وہ پھر آ رہے ہیں ۔‘‘پروہت نے کہا۔’’انہیں کسی نے بتادیا ہو گا کہ اصلی بت ابھی مندر میں موجود ہے۔ کیا تم عزیٰ کی عزت کی حفاظت کرو گے؟اگر کرو گے تو عزیٰ دیوی تمہیں مالا مال کر دے گی۔‘‘’’کچھ سوچ کر بات کر مقدس پیشوا!‘‘ ایک محافظ نے کہا۔’’کیا ہم دو تین آدمی اتنے زیادہ گھوڑ سواروں کامقابلہ کر سکتے ہیں ؟‘‘ ’’اگر عزیٰ دیوی ہے تو یہ اپنے آپ کو ضرور بچا لے گی۔‘‘ ایک اور محافظ نے کہا۔اس کے لہجے میں طنز تھی۔ کہنے لگا۔’’ دیوی دیوتا انسانوں کی حفاظت کیاکرتے ہیں، انسان دیوتاؤں کی حفاظت نہیں کیا کرتے۔‘‘ ’’پھر عزیٰ اپنی حفاظت خود کرے گی۔‘‘ پروہت نے کہا۔
خالدؓ کے گھوڑے قریب آ گئے تھے ۔محافظ مندر کی پجارنوں کو ساتھ لے کر بھاگ گئے ۔پروہت کو یقین تھا کہ اس کی دیوی اپنے آپ کو مسلمانوں سے بچا لے گی۔اس نے ایک تلوار لی اور اسے عزیٰ کے گلے میں لٹکا دیا۔ پروہت مندر کے پچھلے دروازے سے نکلا اور بھاگ گیا۔خالدؓمندر میں آن پہنچے اور تمام کمروں میں عزیٰ کا بت ڈھونڈنے لگے ۔انہیں ایک بڑا ہی خوشنما کمرہ نظر آیا ۔اس کے دروازے میں کھڑے ہو کر دیکھا ،عزیٰ کا بت سامنے چبوترے پر رکھا تھا۔اس کے گلے میں تلوار لٹک رہی تھی ۔یہ بت ویسا ہی تھا جیسا خالدؓ پہلے توڑ گئے تھے۔ا س بت کے قدموں میں لوبان جل رہا تھا۔ کمرے کی سجاوٹ اورخوشبو سے پتا چلتاتھاکہ یہ عبادت کا کمرہ ہے۔ خالدؓ نے دہلیز سے آگے قدم رکھا تو ایک سانولے رنگ کی ایک جوان عورت جو بالکل برہنہ تھی خالدؓ کے سامنے آگئی ۔وہ رو رہی تھی اور فریادیں کر رہی تھی کہ بت کو نہ توڑا جائے ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ یہ عورت خالدؓ کے ارادے کو متزلزل کرنے کیلئے برہنہ ہوکہ آئی تھی اور اس کے رونے کا مقصد خالدؓ کے جذبات پر اثر ڈالنے کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا۔خالدؓ آگے بڑھے تو اس عورت نے بازو پھیلا کر خالدؓ کا راستہ روک لیا۔ خالدؓ نے نیام سے تلوار نکالی اور اس عورت پر ایسا زور دار وار کیاکہ اس کا ننگا جسم دو حصوں میں کٹ گیا۔خالدؓ غصے سے بپھرے ہوئے بت تک گئے اور اس کے کئی ٹکڑے کر دیئے۔طاقت اور خوشحالی کی دیوی اپنے آپ کو ایک انسا ن سے نہ بچا سکی۔خالدؓ مندر سے نکل کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور ایڑ لگائی۔ ان کے سوار ان کے پیچھے جارہے تھے ۔مکہ پہنچ کر خالدؓ رسولِ اکرمﷺ کے حضورپہنچے۔’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ میں عزیٰ کا بت توڑ آیا ہوں ۔‘‘’’ہاں خالد ! ‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔’’اب تم نے عزیٰ کا اصلی بت توڑا ہے۔اب اس خطے میں بت پرستی نہیں ہوگی۔‘
قریش کا مشہور اور جوشیلا سالار عکرمہ مکہ کے راستے میں خالدؓ کے خلاف آخری معرکہ لڑ کر روپوش ہو گیا تھا۔اس نےاورصفوان نے اپنے قبیلے کے سردارکی حکم عدولی کی تھی۔ اسے اپنا انجام بہت برا نظر آرہا تھا۔اسے یہ بھی معلوم تھا کہ رسولِ کریمﷺ بھی اس کی یہ خطا نہیں بخشیں گے کہ اس نے اسلامی فوج کے ایک دستے پر حملہ کیا اور اس دستے کے دو آدمی شہید کر دیئے تھے۔عکرمہ کی بیوی مکہ میں تھی۔ تاریخوں میں واضح اشارہ ملتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فتحِ مکہ کے بعد قریش کی چار عورتوں اور چھ آدمیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیفیں پہنچائی تھیں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں تیار کی تھیں۔انہیں مرتد کہاگیا تھا۔ان میں ہند اور عکرمہ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ابو سفیان کی بیوی ہند ہر اس انسان کے خون کی پیاسی ہو جاتی تھی جو اسلام قبول کرلیتا تھا۔عکرمہ کی بیوی مکہ میں تھی۔فتح مکہ کے دو تین روز بعد ایک آدمی عکرمہ کے گھر آیا۔’’میں تمہارے لیے اجنبی ہوں بہن! ‘‘اس شخص نے عکرمہ کی بیوی سے کہا۔’’عکرمہ میرا دوست ہے ۔میں قبیلہ بنو بکر کا آدمی ہوں ……تمہیں معلوم ہو گا کہ عکرمہ اور صفوان نے مسلمانوں کا رستہ روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے۔ اس کا مقابلہ خالد سے تھا جو تجربہ کار جنگجو ہے اور اس کیساتھ آدمی بھی زیادہ تھے۔‘‘ ’’میں جانتی ہوں ۔‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’ میں پہلے سن چکی ہوں میرے اجنبی بھائی ۔مجھے بتاؤ وہ کہاں ہے؟ہ زندہ تو ہے ؟‘‘’’وہ مجھے بتا گیا تھا کہ یمن جا رہا ہے ۔‘‘اجنبی نے کہا۔’’وہ کہہ گیا ہے کہ تجھے وہاں بلا لے گا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کس کے پاس گیا ہے ۔تجھے یہی بتانے آیا تھا۔وہ واپس نہیں آئے گا۔‘‘’’اسے یہاں آنا بھی نہیں چاہیے۔‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’ وہ آ گیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘’’تم تیار رہنا ۔‘‘اجنبی نے کہا۔’’اس کا پیغام آئے گا تو میں تمہیں اس کے پاس پہنچا دوں گا۔تم اس کے پاس پہنچ جاؤ گی تو وہ تمہیں اپنے ساتھ لے کر حبشہ کو چلا جائے گا۔‘‘اجنبی اسے اپنی بستی کا اور اپنانام بتا کر چلا گیا۔
دوروز بعد عکرمہ کی بیوی بنو بکر کی بستی میں گئی اور اس آدمی سے ملی جس نے اسے عکرمہ کا پیغام دیا تھا ۔’’کیا تو عکرمہ کے پاس جانے کو آئی ہے؟‘‘عکرمہ کے دوست نے پوچھا۔’’میں اسے واپس لانے کیلئے جا رہی ہوں۔‘‘ عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’کیا تو نہیں جانتی کہ وہ آیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا؟‘‘’’اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور رسول اﷲﷺ نے میری فریاد پر میرے شوہر کو معاف کردیا ہے ۔‘‘’’کیا تو نے محمدﷺ کواﷲ کا رسول مان لیا ہے؟‘‘’’مان لیا ہے۔‘‘’’محمدﷺ نے تمہارے ساتھ سودا کیا ہو گا۔‘‘عکرمہ کے دوست نے کہا ۔’’اس نے تمہارے آگے یہ شرط رکھی ہو گی کہ تم اور عکرمہ اسلام قبول کرلو تو ……‘‘’’نہیں!‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’محمدﷺ نے ،جو اﷲ کے بھیجے ہوئے رسولﷺ ہیں، میرے ساتھ ایسا کوئی سودا نہیں کیااور محمدﷺ ان میں سے نہیں جو سودا کرکے اپنی بات منوایا کرتے ہیں۔ میں وہاں اپنے شوہر کی جان بخشی کی فریاد لے کر گئی تھی۔ یہ وہی محمدﷺ ہیں جنہیں میں بڑی اچھی طرح جانتی تھی لیکن اب میں نے آپﷺ کو دیکھا تو میں نے دل سے کہا کہ یہ وہ محمدﷺ نہیں جو کبھی ہم میں سے تھے۔ یہ محمدﷺ جن کے پاس میں اب فریاد لے کر گئی۔ آپﷺ کی آنکھوں میں مجھے کوئی ایسی چیز نظر آئی جو کسی اور انسان میں نہیں ہوتی۔مجھے ڈر تھا کہ محمدﷺ جواﷲ کے رسول ہیں کہیں گے کہ یہ عکرمہ کی بیوی ہے، اسے یرغمال بنا کررکھو۔تاکہ عکرمہ آجائے اور اسے قتل کر دیا جائے ۔لیکن آپﷺ نے مجھے ایک مجبور عورت جان کر عزت سے بٹھایا ۔میں نے فریاد کی کہ فتح آپ کی ہے،میرے بچوں کو یتیم نہ کریں ،میرے شوہر کی بد عہدی کی سزا مجھے اور میرے بچوں کو نہ دیں ۔آپﷺ نے کہا میں نے عکرمہ کو معاف کیا اور معلوم نہیں وہ کون سی طاقت تھی جس نے مجھ سے کہلوایاکہ میں نے تسلیم کیا کہ محمدﷺ اﷲکا رسول ہے۔اب میں اس خدا کو مانتی ہوں جس نے محمدﷺ کو رسالت دی ہے۔‘‘’’اور تو مسلمان ہو گئی؟‘‘عکرمہ کے دوست نے کہا۔ ’’ہاں!‘‘ عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’میں مسلمان ہو گئی، مجھے اس کے پاس لے چل میرے شوہر کے دوست۔میں اسے واپس لاؤں گی۔‘‘’’میں دوستی کا حق ادا کروں گا!‘‘ عکرمہ کے دوست نے کہا۔’’چل میں تیرے ساتھ یمن چلتاہوں ۔‘‘
کافی دنوں بعد عکرمہ اپنی بیوی کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا۔ اپنے گھر جانے کے بجائے حضورﷺ کے پاس گیا اور اس نے اپنے کیے کی معافی مانگ کر اسلام قبول کر لیا۔اسی روزصفوان بھی واپس آ گیا، وہ بھاگ کر جدہ چلا گیا تھا ۔ایک دوست اس کے پیچھے گیا اور اسے کہا کہ وہ سالاری رتبے کا جنگجو ہے اور اس کی قدر رسولِ کریمﷺ ہی جان سکتے ہیں۔ اسے یہ بھی کہاگیا کہ قبیلہ قریش ختم ہو چکا ہے۔ صفوان تلوار کا دھنی اور نام ور سالار تھا وہ اپنے دوست کے ساتھ مکہ آ گیا اور اس نے رسول ِ کریمﷺ کے حضور پیش ہو کر اسلام قبول کرلیا۔ابو سفیانؓ کی بیوی ہند ایسی عورت تھی جس کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ اسلام قبول کرلے گی ۔رسولِ کریمﷺ نے اس کے قتل کا حکم دے رکھا تھااور وہ روپوش تھی۔ ابو سفیانؓ اسلام قبول کر چکے تھے۔ ہند کو جب پتا چلا کہ عکرمہؓ اور صفوانؓ نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ سامنے آگئی ،یہ جانتے ہوئے کہ اسے قتل کر دیاجائے گا۔ وہ رسولِ اکرمﷺ کے حضور جا پہنچی۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟