🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 14*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *14* ۔۔۔۔

قبیلۂ قریش کا سردارِ اعلیٰ ابو سفیان جو کسی وقت للکار کر بات کیاکرتا تھا اور مسلمانوں کے گروہ کو ’’محمد کا گروہ‘‘ کہہ کر انہیں پلّے ہی نہیں باندھتا تھا ،اب بجھ کے رہ گیا تھا۔خالدؓ بن ولید کے قبولِ اسلام کے بعد تو ابوسفیان صرف سردار رہ گیا تھا۔یوں لگتا تھا جیسے جنگ و جدل کے ساتھ اس کا کبھی کوئی تعلق رہاہی نہیں تھا۔عثمانؓ بن طلحہ اور عمروؓ بن العاص جیسے ماہر جنگجو بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔اس کے پاس ابھی عکرمہ اور صفوان جیسے سالار موجود تھے لیکن ابو سفیان صاف طور پر محسوس کرنے لگا تھا کہ اس کی یعنی قریش کی جنگی طاقت بہت کمزور ہو گئی ہے۔’’تم بزدل ہو گئے ہو ابو سفیان!‘‘اس کی بیوی ہند نے ایک روز اسے کہا۔’’تم مدینہ والوں کو مہلت اور موقع دے رہے ہو کہ وہ لشکر اکھٹا کرتے چلے جائیں اور ایک روز آ کر مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔‘‘’’میرے ساتھ رہ ہی کون گیا ہے ہند؟‘‘ابو سفیان نے مایوسی کے عالم میں کہا۔’’مجھے اس شخص کی بیوی کہلاتے شرم آتی ہے جو اپنے خاندان اور اپنے قبیلے کے مقتولین کے خون کا انتقام لینے سے ڈرتا ہے۔‘‘ہند نے کہا۔’’میں قتل کر سکتا ہوں ۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’میں قتل ہو سکتا ہوں۔میں بزدل نہیں،ڈرپوک بھی نہیں لیکن میں اپنے وعدے سے نہیں پھر سکتا۔کیا تم بھول گئی ہو کہ حدیبیہ میں محمدﷺ کے ساتھ میرا کیا معاہدہ ہوا تھا؟اہلِ قریش اور مسلمان دس سال تک آپس میں نہیں لڑیں گے۔اگر میں معاہدہ توڑ دوں اور میدانِ جنگ میں مسلمان ہم پر غالب آ جائیں تو……‘‘’’تم مت لڑو۔‘‘ہند نے کہا۔’’قریش نہیں لڑیں گے۔ہم کسی اور قبیلے کو مسلمانوں کے خلاف لڑا سکتے ہیں۔ہمارا مقصد مسلمانوں کی تباہی ہے۔ہم مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں کو درپردہ مدد دے سکتے ہیں۔‘‘’’قریش کے سوا کون ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی جرات کرے گا؟‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’موتہ میں ہرقل اور غسان کے ایک لاکھ کے لشکر نے مسلمانوں کا کیا بگاڑ لیا تھا؟کیا تم نے سنا نہیں تھا کہ ایک لاکھ کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار تھی؟میں اپنے قبیلے کے کسی آدمی کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے والے کسی قبیلے کی مدد کیلئے جانے کی اجازت نہیں دوں گا۔‘‘’’مت بھول ابو سفیان!‘‘ہند نے غضب ناک لہجے میں کہا۔’’میں وہ عورت ہوں جس نے اُحد کی لڑائی میں حمزہ کا پیٹ چاک کر کے اس کا کلیجہ نکالا اور اسے چبایا تھا ۔تم میرے خون کو کس طرح ٹھنڈا کر سکتے ہو؟‘‘’’تم نے حمزہ کا نہیں اس کی لاش کا پیٹ چاک کیا تھا۔‘‘ابو سفیان نے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لاکرکہا۔’’مسلمان لاشیں نہیں اور وہ جو کچھ بھی ہیں ،خدا کی قسم! میں معاہدہ نہیں توڑوں گا۔‘‘’’معاہدہ تو میں بھی نہیں توڑوں گی۔‘‘ہند نے کہا۔’’لیکن مسلمانوں سے انتقام ضرور لوں گی اور یہ انتقام بھیانک ہوگا۔قبیلۂ قریش میں غیرت والے جنگجو موجود ہیں۔‘‘’’آخر تم کرنا کیا چاہتی ہو؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔’’تمہیں جلدی پتا چل جائے گا۔‘‘ہند نے کہا۔
مکہ کے گردونواح میں خزاعہ اور بنو بکر دو قبیلے آباد تھے۔ان کی آپس میں بڑی پرانی عداوت تھی۔حدیبیہ میں جب مسلمانوں اور قریش میں صلح ہو گئی اور دس سال تک عدمِ جارحیت کا معاہدہ ہو گیا تو یہ دونوں قبیلے اس طرح اس معاہدے کے فریق بن گئے کہ قبیلۂ خزاعہ نے مسلمانوں کا اور قبیلہ بنو بکر نے قریش کا اتحادی بننے کا اعلان کر دیا تھا۔معاہدہ جو تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہوا،خزاعہ اور بنو بکر کے لئے یوں فائدہ مند ثابت ہوا کہ دونوں قبیلوں کی آئے دن کی لڑائیاں بند ہو گئیں۔اچانک یوں ہوا کہ بنو بکر نے ایک رات خزاعہ کی ایک بستی پر حملہ کر دیا۔یہ کوئی بھی نہ جان سکا کہ بنو بکر نے معاہدہ کیوں توڑ دیا ہے۔ایک روایت ہے کہ اس کے پیچھے ہند کا ہاتھ تھا۔خزاعہ چونکہ مسلمانوں کے اتحادی تھے،اس لیے ہند نے اس توقع پر خزاعہ پر بنو بکر سے حملہ کرایا تھا کہ خزاعہ مسلمانوں سے مدد مانگیں گے اور مسلمان ان کی مدد کو ضرور آئیں گے اور وہ جب بنو بکر پر حملہ کریں گے تو قریش مسلمانوں پر حملہ کردیں گے۔ایک روایت یہ ہے کہ یہ غسانی عیسائیوں اور یہودیوں کی سازش تھی۔انہوں نے سوچا تھا کہ قریش اور مسلمانوں کے اتحادیوں کو آپس میں لڑا دیا جائے تو قریش اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی ہو جائے گی۔بنو بکر خزاعہ کے مقابلے میں طاقتور قبیلہ تھا۔غسّانیوں اور یہودیوں نے بنو بکر کی ایک لڑکی اغواکرکے قبیلہ خزاعہ کی ایک بستی میں پہنچا دی اور بنو بکر کے سرداروں سے کہا کہ خزاعہ نے ان کی لڑکی کو اغواء کر لائے ہیں،بنو بکر نے جاسوسی کی اور پتا چلا کہ ان کی لڑکی واقعی خزاعہ کی ایک بستی میں ہے۔ہند نے اپنے خاوند ابو سفیان کو بتائے بغیر قریش کے کچھ آدمی بنو بکر کو دے دیئے۔ان میں قریش کے مشہور سالار عکرمہ اور صفوان بھی تھے۔چونکہ حملہ رات کو کیا گیا تھا،اس لیے خزاعہ کے بیس آدمی مارے گئے۔یہ راز ہر کسی کو معلوم ہو گیاکہ بنو بکر کے حملے میں قریش کے آدمی مدد کیلئے گئے تھے۔خزاعہ کا سردار اپنے ساتھ دو تین آدمی لے کر مدینہ چلا گیا۔خزاعہ غیر مسلم قبیلہ تھا ۔خزاعہ کے یہ آدمی حضورﷺ کے پاس پہنچے اور آپﷺ کو بتایا کہ بنو بکر نے قریش کی پشت پناہی سے حملہ کیا اور قریش کے کچھ جنگجو بھی اس حملے میں شریک تھے۔خزاعہ کے ایلچی نے حضورﷺ کو بتایا کہ عکرمہ اور صفوان بھی اس حملے میں شامل تھے۔رسولِ اکرمﷺ غصے میں آگئے۔یہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی ۔آپﷺ نے مجاہدین کو تیاری کا حکم دے دیا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کارد ِ عمل بڑا ہی شدید تھا۔اگر معاملہ صرف بنو بکراور خزاعہ کی آپس میں لڑائی کا ہوتا تو حضورﷺ شاید کچھ اور فیصلہ کرتے لیکن بنو بکر کے حملے میں قریش کے نامی گرامی سالار عکرمہ اور صفوان بھی شامل تھے۔اس لیے آپﷺ نے فرمایا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ذمہ داری اہلِ قریش پر عائد ہوتی ہے۔’’ابو سفیان نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘مدینہ کی گلیوں اور گھروں میں آوازیں سنائی دینے لگیں۔’’رسول اﷲﷺ کے حکم پر ہم مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔اب قریش کو ہم اپنے قدموں میں بٹھا کر دم لیں گے۔‘‘رسول اﷲﷺ نے مکہ پر حملے کی تیاری کا حکم دے دیا۔ابو سفیان کو اتنا ہی پتا چلا تھاکہ بنو بکر نے خزاعہ پر شب خون کی طرز کا حملہ کیا ہے اور خزاعہ کے کچھ آدمی مارے گئے ہیں ۔اسے یاد آیا کہ عکرمہ اور صفوان صبح سویرے گھوڑوں پر سوار کہیں سے آ رہے تھے،اس نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں ؟تو انہو ں نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ گھڑ دوڑ کیلئے گئے تھے۔دوپہر کے وقت جب اسے پتا چلا کہ بنو بکر نے خزاعہ پر حملہ کیاہے تو اس نے عکرمہ اور صفوان کو بلایا۔’’تم دونوں مجھے کس طرح یقین دلا سکتے ہو کہ خزاعہ کی بستی پر بنوبکر کے حملے میں تم شریک نہیں تھے؟‘‘ابو سفیان نے ان سے پوچھا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ بنو بکر ہمارے دوست ہیں؟‘‘صفوان نے کہا ۔’’اگر دوست مدد کیلئے پکاریں تو کیا تم دوستوں کو پیٹھ دکھاؤ گے؟‘‘’’میں کچھ بھی نہیں بھولا۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’خدا کی قسم! تم بھول گئے ہو کہ قبیلۂ قریش کا سردار کون ہے……میں ہوں تمہارا سردار……میری اجازت کے بغیر تم کسی اور کا ساتھ نہیں دے سکتے۔‘‘’’ابو سفیان! ‘‘عکرمہ نے کہا۔’’میں تمہیں اپنے قبیلے کا سردار مانتا ہوں ۔تمہاری کمان میں لڑائیاں لڑی ہیں۔تمہارا ہر حکم ماناہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم قبیلے کے وقار کو مجروح کرتے چلے جا رہے ہو۔تم نے اپنے دل پر مدینہ والوں کا خوف طاری کر لیا ہے۔‘‘’’اگر میں قبیلے کا سردار ہوں تو میں کسی کو ایساجرم بخشوں گا نہیں جو تم نے کیا ہے۔‘‘ابو سفیان نے کہا- ’’ابو سفیان!‘‘ عکرمہ نے کہا۔’’وہ وقت تمہیں یاد ہو گا جب خالد مدینہ کو رخصت ہوا تھا۔تم نے اسے بھی دھمکی دی تھی اور میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اُس عقیدے کا پیروکار ہو جائے جسے وہ اچھا سمجھتا ہے اور میں نے تمہیں یہ بھی کہا تھاکہ تم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو میں بھی تمہارا ساتھ چھوڑنے اور محمدﷺ کی اطاعت قبول کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا۔‘‘
’’کیا تم نہیں سمجھتے کہ باوقار لوگ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کیا کرتے؟‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’تم نے بنو بکر کاساتھ دے کر اور مسلمانوں کے اتحادی قبیلے پر حملہ کرکے اپنے قبیلے کا وقار تباہ کر دیاہے۔ اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ محمدﷺ نے مکہ پر حملہ کر دیا تو تم حملہ پسپا کردو گے۔تو تم خوش فہمی میں مبتلا ہو۔کون سے میدان میں تم نے مسلمانوں کو شکست دی ہے؟کتنا لشکر لے کر تم نے مدینہ کو محاصرے میں لیا تھا؟‘‘’’وہاں سے پسپائی کا حکم تم نے دیا تھا۔‘‘صفوان نے کہا۔’’تم نے ہار مان لی تھی۔‘‘’’میں تم جیسے ضدی ا ور کوتاہ بیں آدمیوں کے پیچھے پورے قبیلے کو ذلیل و خوار نہیں کرواؤں گا۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’میں مسلمانوں کے ساتھ ابھی چھیڑ خانی نہیں کر سکتا۔میں محمدﷺ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ایک دوست قبیلے نے مسلمانوں کے ایک دوست قبیلے پر حملہ کیا ہے اور اس میں قریش کے چند ایک آدمی شامل ہو گئے تھے،تو اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔میں محمدﷺ کو بتاؤں گا کہ قبیلۂ قریش حدیبیہ کے معاہدے پر قائم ہے۔‘‘وہ عکرمہ اور صفوان کو وہیں کھڑا چھوڑ کروہاں سے چلا گیا۔ابو سفیان اسی روز مدینہ کو روانہ ہو گیا۔اہلِ مکہ حیران تھے کہ ابو سفیان اپنے دشمن کے پاس چلا گیا ہے۔اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں ۔اس کی بیوی ہند پھنکارتی پھر رہی تھی۔مدینہ پہنچ کر ابو سفیان نے جس دروازے پردستک دی وہ اس کی اپنی بیٹی اُمّ ِ حبیبہؓ کاگھر تھا۔دروازہ کھلا۔بیٹی نے اپنے باپ کو دیکھا تو بیٹی کے چہرے پر مسرت کے بجائے بے رُخی کا تاثر آگیا۔بیٹی اسلام قبول کر چکی تھی اور باپ اسلام کا دشمن تھا۔’’کیا باپ اپنی بیٹی کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا؟‘‘ابو سفیان نے اُمّ ِ حبیبہؓ سے پوچھا۔’’اگر باپ وہ سچا مذہب قبول کرلے جو اس کی بیٹی نے قبول کیا ہے تو بیٹی باپ کی راہ میں آنکھیں بچھائے گی۔‘‘اُمّ ِ حبیبہؓ نے کہا۔’’بیٹی!‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’میں پریشانی کے عالم میں آیا ہوں ۔میں دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں ۔‘‘ ’’بیٹی کیاکر سکتی ہے؟ ‘‘اُمّ ِ حبیبہ ؓ نے کہا۔’’آپ رسول ِ خداﷺ کے پاس جائیں۔‘‘بیٹی کی اس بے رخی پر ابو سفیان سٹپٹا اٹھا۔وہ رسولِ کریمﷺ کے گھر کی طرف چل پڑا۔راستے میں اس نے وہ شناسا چہرے دیکھے جو کبھی اہلِ قریش کہلاتے اور اسے اپنا سردار مانتے تھے۔اب اس سے بیگانے ہو گئے تھے۔وہ اسے چپ چاپ دیکھ رہے تھے۔وہ ان کا دشمن تھا۔اس نے ان کے خلاف لڑائیاں لڑی تھیں۔اُحد کی جنگ میں ابو سفیان کی بیوی ہند نے مسلمانوں کی لاشوں کے پیٹ چاک کیے اور ان کے کان اور ناکیں کاٹ کر ان کاہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈالا تھا۔
 ابو سفیان اہل ِمدینہ کی گھورتی ہوئی نظروں سے گزرتا رسولِ کریمﷺ کے ہاں جا پہنچا۔اس نے ہاتھ بڑھایا۔رسولِ کریمﷺنے مصافحہ کیا لیکن آپﷺ کی بے رخی نمایاں تھی۔رسولِ کریمﷺ کو اطلاع مل چکی تھی کہ بنو بکر نے اہلِ قریش کی مدد سے خزاعہ پر حملہ کیا ہے۔ آپﷺ اہلِ قریش کو فریب کار سمجھ رہے تھے۔ایسے دشمن کاآپﷺ کے پاس ایک ہی علاج تھا کہ فوج کشی کرو تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ ہم کمزور ہیں۔ ’’اے محمد!‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’میں یہ غلط فہمی رفع کرنے آیا ہوں کہ میں نے حدیبیہ کے صلح نامے کی خلاف ورزی نہیں کی۔اگر بنو بکر کی مدد کو قبیلۂ قریش کے چند آدمی میری اجازت کے بغیرچلے گئے تو یہ میرا قصور نہیں۔میں نے معاہدہ نہیں توڑا۔اگر تم چاہتے ہو تومیں معاہدے کی تجدید کیلئے تیار ہوں۔‘‘مؤرخین ابنِ ہشام اور مغازی کی تحریروں سے پتہ ملتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے نہ اس کی طرف دیکھا نہ اس کے ساتھ کوئی بات کی۔رسولِ کریمﷺ کی خاموشی نے ابو سفیان پر خوف طاری کر دیا۔وہ وہاں سے اٹھ آیا اور ابو بکرؓ سے جا ملا۔’’محمد میری کوئی بات سننے پر آمادہ نہیں۔‘‘ابو سفیان نے ابو بکر ؓسے کہا۔’’تم ہم میں سے ہو ابو بکر! خدا کی قسم، ہم گھر آئے مہمان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا کرتے کہ اس کی بات بھی نہ سنیں۔میں دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں۔‘‘’’اگر محمد نے جو اﷲ کے رسولﷺ ہیں،تمہاری بات نہیں سنی تو ہم تمہاری کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’ہم اس مہمان کی بات سنا کرتے ہیں جو ہماری بات سنتا ہے۔ابو سفیان! کیا تم نے محمد ﷺ کی بات سنی ہے کہ وہ اﷲ کا بھیجا ہوا رسولﷺ ہے؟کیا تم نے اﷲ کے رسولﷺ کی یہ بات نہیں سنی تھی کہ اﷲ ایک ہے اورا سکے سوا کوئی معبود نہیں۔سنی تھی تو تم رسولﷺ کے دشمن کیوں ہو گئے تھے؟‘‘’’کیا تم میری کوئی مدد نہیں کرو گے ابو بکر؟‘‘ابو سفیان نے التجا کی۔ ’’نہیں ۔‘‘ابو بکر ؓنے کہا۔’’ہم اپنے رسول کے حکم کے پابند ہیں۔‘‘ابو سفیان مایوسی کے عالم میں سرجھکائے ہوئے چلا گیااورکسی سے حضرت عمرؓ کا گھر پوچھ کر ان کے سامنے جا بیٹھا۔ ’’اسلام کے سب سے بڑے دشمن کو مدینہ میں دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ہے۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’خداکی قسم! تم اسلام قبول کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘ابو سفیان نے عمرؓ کو مدینہ میں آنے کا مقصد بتایا اور یہ بھی کہ رسولِ کریمﷺ نے اس کے ساتھ بات تک نہیں کی اور ابو بکرؓ نے بھی اس کی مدد نہیں کی۔’’ میرے پاس اگر چیونٹیوں جیسی کمزور فوج بھی ہو تو بھی تمہارے خلاف لڑوں گا۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’تم میرے نہیں،میرے رسولﷺ اور میرے مذہب کے دشمن ہو۔میرا رویہ وہی ہو گا جو اﷲ کے رسولﷺ کا ہے۔‘‘ابو سفیان فاطمہؓ سے ملا۔حضرت علیؓ سے ملا لیکن کسی نے بھی ا سکی بات نہ سنی۔وہ مایوس اور نامراد مدینہ سے نکلا۔اس کے گھوڑے کی چال اب وہ نہیں تھی جو مدینہ کی طرف آتے وقت تھی۔گھوڑے کابھی جیسے سر جھکا ہوا تھا،وہ مکہ کو جا رہا تھا۔
رسولِ خداﷺ نے اس کے جانے کے بعد ان الفاظ میں حکم دیا کہ مکہ پر حملہ کیلئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں فوج تیار کی جائے ۔آپﷺ کے حکم میں خاص طور پرشامل تھاکہ جنگی تیاری اتنے بڑے پیمانے کی ہو کہ مکہ والوں کو فیصلہ کن شکست دے کر قریش کو ہمیشہ کیلئے تہہ و تیغ کر لیاجائے۔اس کے علاوہ حضورﷺ نے فرمایا کہ کوچ بہت تیز ہو گا اور اسے ایسا خفیہ رکھا جائے گا کہ مکہ والوں کو بے خبری میں دبوچ لیا جائے یا مکہ کے قریب اتنی تیزی سے پہنچا جائے کہ قریش کو مہلت نہ مل سکے کہ وہ اپنے اتحادی قبائل کو مدد کیلئے بلا سکیں ۔مدینہ میں مسلمانوں نے راتوں کوبھی سونا چھوڑ دیا۔جدھر دیکھو تیر تیار ہو رہے تھے ۔تیروں سے بھری ہوئی ترکشوں کے انبار لگتے جا رہے تھے۔برچھیاں بن رہی تھیں۔گھوڑے اور اونٹ تیار ہو رہے تھے۔تلواریں تیز ہو رہی تھیں۔عورتیں اور بچے بھی جنگی تیاریوں میں مصروف تھے۔رسولِ اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ بھاگتے دوڑتے نظر آتے تھے۔مدینہ میں ایک گھر تھا جس کے اندر کوئی اور ہی سرگرمی تھی۔وہ غیر مسلم گھرانہ تھا۔وہاں ایک اجنبی آیا بیٹھا تھا ۔گھر میں ایک بوڑھا تھا ،ایک ادھیڑ عمر آدمی،ایک جوان لڑکی ،ایک ادھیڑ عمر عورت اور دو تین بچے تھے۔’’میں مسلمانوں کے ارادے دیکھ آیا ہوں۔‘‘اجنبی نے کہا۔’’ان کا ارادہ ہے کہ مکہ والوں کو بے خبری میں جا لیں۔بلا شک و شبہ محمد ﷺجنگی چالوں کا ماہر ہے۔اس نے جو کہا ہے وہ کر کے دکھا دے گا۔‘‘’’ہم کیا کر سکتے ہیں ؟‘‘بوڑھے نے پوچھا۔’’میرے بزرگ!‘‘ اجنبی نے کہا۔’’ہم اور کچھ نہیں کر سکتے لیکن ہم مکہ والوں کو خبر دار کر سکتے ہیں کہ تیار رہو اور اِدھراُدھر کے قبیلوں کو اپنے ساتھ ملا لواور مکہ کے راستے میں کہیں گھات لگا کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑو۔مکہ پہنچنے تک ان پر شب خون مارتے رہو۔مسلمان جب مکہ پہنچیں گے تو ان کا دم خم ٹوٹ چکا ہو گا۔‘‘
’’قسم اس کی جسے میں پوجتا ہوں۔‘‘بوڑھے نے جوشیلی آواز میں کہا۔’’تم عقل والے ہو۔تم خدائے یہودہ کے سچے پجاری ہو۔خدائے یہودہ نے تمہیں عقل و دانش عطا کی ہے۔کیا تم مکہ نہیں جا سکتے؟‘‘’’نہیں ۔‘‘اجنبی نے کہا۔’’مسلمان ہر غیر مسلم کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔یہ جانتے ہیں کہ میں یہودی ہوں، وہ مجھ پر شک کریں گے۔میں اپنی جان پر کھیل جاؤں گا۔ مجھے ان یہودیوں کے خون کا انتقام لینا ہے جنہیں مسلمانوں نے قتل کیا تھا۔میری رگوں میں بنو قریظہ کا خون دوڑ رہا ہے۔ یہ میرا فرض ہے کہ میں مسلمانوں کو ضربیں لگاتا رہوں اور میں اپنا یہ فرض ادا نہ کروں تو خدائے یہودہ مجھے اس کتے کی موت مارے جس کے جسم پر خارش اور پھوڑے ہوتے ہیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مرتا ہے ۔لیکن میں نہیں چاہتا کہ میں پکڑا جاؤں۔ میں مسلمانوں کو ڈنک مارنے کیلئے زندہ رہنا چاہتا ہوں ۔‘‘’’میں بوڑھا ہوں ۔‘‘بوڑھے نے کہا۔’’مکہ دور ہے ،گھوڑے یا اونٹ پراتنا تیز سفر نہیں کر سکوں گا کہ مسلمانوں سے پہلے مکہ پہنچ جاؤں ۔یہ کام بچوں اور عورتوں کا بھی نہیں ۔میرا بیٹا ہے مگر بیمار ہے ۔‘‘’’اس انعام کو دیکھو جو ہم تمہیں دے رہے ہیں ۔‘‘اجنبی یہودی نے کہا ۔’’یہ کام کر دو ۔انعام کے علاوہ ہم تمہیں اپنے مذہب میں شامل کرکے اپنی حفاظت میں لے لیں گے۔‘‘ ’’کیا یہ کام میں کر سکتی ہوں ؟‘‘ادھیڑ عمر عورت نے کہا۔’’تم نے میری اونٹنی نہیں دیکھی ،تم نے مجھے اونٹنی کی پیٹھ پر کبھی نہیں دیکھا ۔اتنی تیز اونٹنی مدینہ میں کسی کے پاس نہیں ہے۔‘‘’’ہاں! ‘‘یہودی نے کہا۔’’تم یہ کام کر سکتی ہو ۔اونٹوں اور بکریوں کو باہر لے جاؤ۔تمہاری طرف کوئی دھیان نہیں دے گا۔تم انہیں چرانے کیلئے ہر روز لے جاتی ہو، آج بھی لے جاؤ اورمدینہ سے کچھ دور جاکر اپنی اونٹنی پر سوار ہو جاؤ ۔اس نے ایک کاغذ ایک عورت کو دیتے ہوئے کہا اسے اپنے سر کے بالوں میں چھپا لو۔اونٹنی کو دوڑاتی لے جاؤ اور مکہ میں ابو سفیان کے گھر جاؤ اور بالوں میں سے یہ کاغذ نکال کر اسے دے دو۔‘‘’’لاؤ۔‘‘عورت نے کاغذ لیتے ہوئے کہا۔’’میرا انعام میرے دوسرے ہاتھ پر رکھ دو اور اس یقین کے ساتھ میرے گھر سے جاؤ کہ مسلمان مکہ سے واپس آئیں گے تو ان کی تعداد آدھی بھی نہیں ہو گی۔اور ان کے سر جھکے ہوئے ہوں گے اور شکست ان کے چہروں پر لکھی ہوئی ہو گی۔‘‘یہودی نے سونے کے تین ٹکڑے عورت کو دیئے اور بولا۔’’یہ اس انعام کا نصف حصہ ہے جو ہم تمہیں اس وقت دیں گے جب تم یہ پیغام ابو سفیان کے ہاتھ میں دے کر واپس آ جاؤ گی۔‘‘’’اگر میں نے کام کر دیا اور زندہ واپس نہ آسکی تو؟‘‘’’باقی انعام تمہارے بیمار خاوند کو ملے گا۔‘‘یہودی نے کہا۔
یہ عورت کسی بھی تاریخ میں نام نہیں دیا گیااپنے اونٹ اور بکریاں چرانے کیلئے لے گئی۔ انہیں وہ ہانکتی جا رہی تھی کسی نے بھی نہ دیکھا کہ اونٹوں کی پیٹھیں ننگی تھیں لیکن ایک اونٹنی سواری کیلئے تیار کی گئی تھی ۔اس کے ساتھ پانی کا مشکیزہ اور ایک تھیلا بھی بندھا ہو اتھا۔ عورت اس ریوڑ کو شہر سے دور لے گئی۔ بہت دیر گزر گئی تو یہودی نے اس جوان لڑکی کو جو گھر میں تھی ،کہا۔’’ وہ جا چکی ہو گی۔ تم جاؤاور اونٹوں اور بکریوں کو شام کے وقت واپس لے آنا۔‘‘وہ لڑکی ہاتھ میں گدڑیوں والی لاٹھی لے کر باہر نکل گئی۔ لیکن وہ شہر سے باہر جانے کی بجائے شہر کے اندر چلی گئی۔وہ اس طرح اِدھر اُدھر دیکھتی جا رہی تھی جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو۔وہ گلیوں میں سے گزر ی اور ایک میدان میں جا رکی ۔وہاں بہت سے مسلمان ڈھالیں اور تلواریں لیے تیغ زنی کی مشق کر رہے تھے۔ایک طرف شتر دوڑ ہو رہی تھی اور تماشائیوں کابھی ہجوم تھا ۔لڑکی اس ہجوم کے اردگرد گھومنے لگی یہ کسی کو ڈھونڈ رہی تھی ۔اسکے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے جو بڑھتے جا رہے تھے ۔اسکے قدم تیزی سے اٹھنے لگے۔ایک جوان سال آدمی نے اسے دیکھ لیا اور بڑی تیزچلتااس کے پیچھے گیا۔قریب پہنچ کر اس نے دھیمی آواز سے کہا:’’زاریہ!‘‘لڑکی نے چونک کر پیچھے دیکھا اور ا سکے چہرے سے پریشانی کا تاثر اُڑ گیا۔’’وہیں آجاؤ !‘‘زاریہ نے کہا اور وہ دوسری طرف چلی گئی۔زاریہ کو وہاں پہنچتے خاصہ وقت لگ گیا جہاں وہ عورت اونٹوں اور بکریوں کو لے جایا کرتی تھی۔ اونٹ اور بکریاں وہیں تھیں۔ وہ عورت اور ا س کی اونٹنی وہاں نہیں تھیں ۔زاریہ وہاں اس انداز سے بیٹھ گئی جیسے بکریاں چرانے آئی ہو ۔وہ بار بار اٹھتی اور شہر کی طرف دیکھتی تھی۔اسے اپنی طرف کوئی آتا نظر نہیں آ رہا تھا ۔وہ ایک بار پھرپریشان ہونے لگی ۔سورج ڈوبنے کیلئے افق کی طرف جا رہا تھا جب وہ آتا دکھائی دیا ۔زاریہ نے سکون کی آہ بھری اور بیٹھ گئی ۔’’او ہ عبید!‘‘ زاریہ نے اسے اپنے پاس بٹھا کر کہا۔’’تم اتنی دیر سے کیوں آئے ہو ؟میں پریشان ہو رہی ہوں۔‘‘’’کیا میں نے تمہیں پریشانی کا علاج بتایا نہیں؟‘‘عبید نے کہا۔’’میرے مذہب میں آجاؤاور تمہاری پریشانی ختم ہو جائے گی۔جب تک تم اسلام قبول نہیں کرتیں ،میں تمہیں اپنی بیوی نہیں بنا سکتا۔
’’یہ باتیں پھر کر لیں گے۔‘‘ زاریہ نے کہا ۔ لیکن آج میرے دل پر بوجھ آ پڑا ہے ۔‘‘’’کیسا بوجھ؟‘‘’’مسلمان­مکہ پر حملہ کرنے جا رہے ہیں ۔‘‘زاریہ نے کہا۔’’تم نہ جاؤ عبید۔تمہیں اپنے مذہب کی قسم ہے نہ جانا۔کہیں ایسا نہ ہو……‘‘’’مکہ والوں میں اتنی جان نہیں رہی کہ ہمارے مقابلے میں جم سکیں۔‘‘عبید نے کہا۔’’لیکن زاریہ! ان میں جان ہو نہ ہو،مجھے اگر میرے رسول ﷺ آگ میں کود جانے کا حکم دیں گے تو میں آپﷺ کا حکم مانوں گا۔دل پر بوجھ نہ ڈالو زاریہ! ہمارا حملہ ایسا ہو گا کہ انہیں اس وقت ہماری خبر ہو گی جب ہماری تلواریں ان کے سروں پر چمک رہی ہوں گی۔‘‘’’ایسانہیں ہو گا عبید۔‘‘’’ایسانہیں ہو گا۔وہ گھات میں بیٹھے ہوں گے۔آج رات کے پچھلے پہر یا کل صبح ابو سفیان کو پیغام مل جائے گا کہ مسلمان تمہیں بے خبری میں دبوچنے کیلئے آ رہے ہیں ……تم نہ جانا عبید! قریش اور ان کے دوست قبیلے تیار ہوں گے۔‘‘’’کیا کہہ رہی ہو زاریہ ؟‘‘عبید نے بدک کر پوچھا۔’’ابو سفیان کو کس نے پیغام بھیجا ہے؟‘‘’’ایک یہودی نے۔‘‘زاریہ نے کہا۔’’اور پیغام میرے بڑے بھائی کی بیوی لے کر گئی ہے……میری محبت کا اندازہ کرو عبید! میں نے تمہیں وہ راز دے دیا ہے جو مجھے نہیں دیناچاہیے تھا ۔یہ صرف اس لیے دیا ہے کہ تم کسی بہانے رک جاؤ ،قریش اور دوسرے قبیلے مسلمانوں کا کشت وخون کریں گے کہ کوئی قسمت والا مسلمان زندہ واپس آئے گا۔‘‘عبید نے اس سے پوچھ لیا کہ اس کے بھائی کی بیوی کس طرح اور کس وقت روانہ ہوئی ہے؟عبید اٹھ کھڑا ہوا اور زاریہ جیسی حسین اور نوجوان لڑکی اور اس کی والہانہ محبت کو نظر انداز کرکے شہر کی طرف دوڑ پڑا،اسے زاریہ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔’’ عبید ……رک جاؤ عبید……‘‘اور عبید زاریہ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔رسولِ کریمﷺ کو پوری تفصیل سے بتایا گیا کہ ایک عورت بڑی تیز رفتار اونٹنی پرا بو سفیان کے نام پیغام اپنے بالوں میں چھپا کر لے گئی ہے ۔اسے ابھی راستے میں ہوناچاہیے تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اسی وقت حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کو بلا کر اس عورت کی اور اس کی اونٹنی کی نشانیاں بتائیں اور انہیں اس عورت کو راستے میں پکڑنے کو بھیج دیا ۔حضرت علیؓ اور حضرت ؓزبیر کے گھوڑے عربی نسل کے تھے اور انہوں نے اسی وقت گھوڑے تیار کیے اور ایڑیں لگا دیں۔اس وقت سورج غروب ہو رہا تھا۔ دونوں شہسوار مدینہ سے دور نکل گئے تو سورج غروب ہو گیا۔
اگلے دن کاسورج طلوع ہوا تو حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کے گھوڑے مدینہ میں داخل ہوئے ان کے درمیان ایک اونٹنی تھی جس پر ایک عورت سوارتھی۔مدینہ کے کئی لوگوں نے اس عورت کو پہچان لیا۔اسے رسولِ کریمﷺ کے پاس لے گئے اس کے بالوں سے جو پیغام نکالا گیا تھاوہ حضورﷺ کے حوالے کیا گیا۔آپﷺ نے پیغام پڑھا تو چہرہ لال ہو گیا ۔یہ بڑا ہی خطرناک پیغام تھا ۔اس عورت نے اقبالِ جرم کر لیا اور پیغام دینے والے یہودی کا نام بھی بتا دیا ۔رسول ِ اکرمﷺ نے اس عورت کو سزائے موت دے دی لیکن یہودی اس کے گھر سے غائب ہو گیا تھا اگر یہ پیغام مکہ پہنچ جاتا تو مسلمانوں کا انجام بہت برا ہوتا،مکہ پر فوج کشی کی قیادت رسول اﷲﷺ فرما رہے تھے۔رسول اﷲﷺ نے تیاریوں کا جائزہ لیا اور کوچ کا حکم دے دیا۔اس اسلامی لشکر کی تعداد دس ہزار پیادہ اور سوار تھی۔اس لشکر میں مدینہ کے ارد گرد کے وہ قبیلے بھی شامل تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ لشکر مکہ جا رہا تھا تو راستے میں دو تین قبیلے اس لشکر میں شامل ہو گئے۔ تقریباً تمام مسلم اور غیر مسلم مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رسولِ خدا ﷺ کی قیادت میں اس لشکر کی پیش قدمی غیر معمولی طور پر تیز تھی اور یہ مسلمانوں کا پہلا لشکر تھا جس کی نفری دس ہزار تک پہنچی تھی۔یہ لشکر مکہ کے شمال مغرب میں ایک وادی مرّالظہر میں پہنچ گیا جو مکہ سے تقریباً دس میل دور ہے ۔اس وادی کا ایک حصہ وادیٔ فاطمہ کہلاتا ہے ۔رسولِ اکرمﷺ اس مقصد میں کامیاب ہو چکے تھے کہ اہلِ مکہ کو اسلامی لشکر کی آمدکی اطلاع نہ ہو ۔اب خبر ہو بھی جاتی تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔اب قریش دوسرے قبیلوں کو مدد کیلئے بلانے نہیں جا سکتے تھے ۔رسولِ اکرمﷺ نے کسی نہ کسی بہروپ میں اپنے آدمی مکہ کے قریب گردونواح میں بھیج دیئے تھے ۔تھوڑی دیر آرام کرکے اسلامی لشکر مکہ کی طرف چل پڑا۔ جعفہ ایک مقام ہے جہاں لشکر کا ہراول دستہ پہنچاتو مکہ کی طرف سے چھوٹا سا ایک قافلہ آتا دکھائی دیا۔ اسے قریب آنے دیا گیا ۔دیکھا وہ قریش کا ایک سرکردہ آدمی عباس تھا۔جو اپنے پورے خاندان کو ساتھ لیے مدینہ کو جا رہا تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے حضرت عباسؓ کے نام سے تاریخِ اسلام میں شہرت حاصل کی۔یہ آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓبن عبدالمطلب تھے،ا نہیں رسولِ اکرمﷺ کے حضور لے جایا گیا۔ ’’کیوں عباسؓ!‘‘رسولِ اکرمﷺ نے کہا ۔’’کیا تو اس لیے مکہ سے بھاگ نکلا ہے کہ مکہ پر قیامت ٹوٹنے والی ہے ؟‘‘’’خدا کی قسم! مکہ والوں کو خبر ہی نہیں کہ محمد ﷺکا لشکر ان کے سر پر آگیا ہے ۔‘‘عباس ؓنے کہا۔’’اور میں تیری اطاعت قبول کرنے کو مدینہ جا رہا تھا۔‘‘’’میری نہیں عباسؓ!‘‘ رسولِ خداﷺ نے کہا۔’’اطاعت اس اﷲ کی قبول کرو جو وحدہٗ لا شریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ میں اس کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔‘‘حضرت عباس ؓ نے اسلام قبول کر لیا۔رسولِ کریمﷺ نے انہیں گلے لگا لیا۔( عباس ؓ بن عبدالمطلب آپ ﷺ سے تقریباً تین سال بڑے تھے اور آپﷺ بچپن میں اُن کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب کے قبولِ اسلام کے وقت کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔مشہور قول یہ ہے کہ آپؓ غزوہ خیبر کے بعد اسلام قبول کر چکے تھے اور حضورﷺ کی ہدایت پر ہی اب تک مکہ میں مقیم تھے)۔
آپﷺ کو مسرت اس سے ہوئی کہ اہلِ قریش مکہ میں بے فکر اور بے غم بیٹھے تھے ۔حضرت عباس ؓنے جب یہ صورتِ حال دیکھی تو انہوں نے رسول اﷲﷺ سے کہا کہ ’’اہلِ قریش آخر ہمارا اپنا خون ہیں ۔دس ہزار کے اس لشکر کے قدموں میں قریش کے بچے اور عورتیں بھی کچلی جائیں گی۔‘‘عباسؓ نے رسول اﷲﷺ کو یہ بھی بتایا کہ’’ قریش میں اسلام کی قبولیت کی ایک لہر پیدا ہو گئی ہے ۔کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ انہیں صلح کاایک اور موقع دیا جائے؟‘‘رسولِ اکرمﷺ نے عباسؓ سے کہا کہ وہ ہی مکہ جائیں اور ابو سفیان سے کہیں کہ مسلمان مکہ پر قبضہ کرنے آ رہے ہیں اگر اہلِ مکہ نے مقابلہ کیا تو کسی کو زندہ نہیں چھوڑا جائے گا ،مکہ شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے۔‘‘رسولِ اکرمﷺ نے عباسؓ کو نہ صرف مکہ جانے کی اجازت دی بلکہ انہیں اپنا خچر بھی دیا جو آپﷺ گھوڑے کے علاوہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ابو سفیان مدینہ سے جو تاثر لے کر گیا تھا وہ اس کے لیے بڑا ہی ڈراؤنا اور خطرناک تھا۔وہ تجربہ کار آدمی تھا ۔وہ مسلمانوں کی شجاعت اور عزم کی پختگی سے بھی واقف تھا۔ اسے ہر لمحہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ مسلمان مکہ پر حملہ کریں گے۔ اس کی بیوی ہند اس کے سالار عکرمہ اور صفوان اس کا حوصلہ بڑھاتے رہتے تھے ۔ لیکن اسے اپنے ذاتی وقار کی اور اپنے قبیلے کی تباہی نظر آرہی تھی۔وہ ہر وقت بے چین رہنے لگا تھا ۔ایک روز وہ اس قدر بے چین ہوا کہ گھوڑے پر سوار ہو کر مکہ سے باہر چلا گیا ۔اس کی کوئی حس اسے بتا رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے ۔اس کے دل پر گھبراہٹ طاری ہوتی چلی گئی ۔اس نے اپنے آپ سے کہا کہ ’’ہو گا یہی کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آجائیں گے۔‘‘ یہ سوچ کروہ یہ دیکھنے کیلئے مدینہ کے راستے پر ہو لیا کہ مدینہ کی فوج آ ہی تو نہیں گئی؟ اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ہواکی بو بھی بدلی بدلی سی ہے۔وہ ان سوچوں میں گم مکہ سے چند میل دور نکل گیا۔اسے عباسؓ ایک خچر پر سوار اپنی طرف آتے دکھائی دیئے ۔وہ رک گیا، ’’عباس!‘‘ اس نے پوچھا۔’’کیا تم اپنے پورے خاندان کے ساتھ نہیں گئے تھے؟واپس کیوں آ گئے ہو؟‘‘’’میرے خاندان کی مت پوچھ ابو سفیان !‘‘ عباسؓ نے کہا۔’’مسلمانوں کے دس ہزار پیادوں ،گھوڑ سواروں اور شتر سواروں کا لشکر مکہ کے اتنا قریب پہنچ چکا ہے جہاں سے چھوڑے ہوئے تیر مکہ کے دروازوں میں لگ سکتے ہیں۔کیا تومکہ کو اس لشکرسے بچا سکتا ہے؟کسی کو مدد کیلئے بلا سکتا ہے؟صلح کا معاہدہ تیرے سالاروں نے توڑا ہے ۔محمدﷺ جسے میں اﷲکا رسولﷺ مان چکا ہوں سب سے پہلے تجھے قتل کرے گا۔ اگر تو میرے ساتھ رسول اﷲﷺ کے پاس چلا چلے تو میں تیری جان بچا سکتا ہوں۔
خدا کی قسم! میں جانتا تھا مجھ پر یہ وقت بھی آئے گا۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’چل! میں تیرے ساتھ چلتا ہوں ۔‘‘شام کے بعد عباسؓ ابو سفیان کو ساتھ لیے ہوئے مسلمانوں کے پڑاؤ میں داخل ہوئے ۔حضرت عمرؓ کیمپ کے پہرے داروں کو دیکھتے پھر رہے تھے ۔انہوں نے ابو سفیان کو دیکھا تو آگ بگولہ ہو گئے ۔کہنے لگے کہ ’’اﷲ کے دین کا یہ دشمن ہمارے پڑاؤ میں رسول اﷲﷺ کی اجازت کے بغیر آیا ہے ۔‘‘عمرؓ رسول اﷲﷺ کے خیمے کی طرف دوڑ پڑے۔ وہ ابو سفیان کے قتل کی اجازت لینے گئے تھے۔لیکن عباسؓ بھی پہنچ گئے۔ رسولِ اکرمﷺ نے انہیں صبح آنے کو کہا۔عباسؓ نے ابو سفیان کو رات اپنے پاس رکھا ۔’’ابو سفیان! ‘‘صبح رسولِ کریمﷺ نے ابو سفیان سے پوچھا۔’’کیا تو جانتا ہے کہ اﷲ وحدہٗ لاشریک ہے اور وہی معبود ہے اور وہی ہم سب کا مدد گار ہے۔‘‘’’میں نے یہ ضرور مان لیا ہے کہ جن بتوں کی عبادت میں کرتا رہا ہوں وہ بتوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ابو سفیان نے کہا ۔’’وہ میری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔‘‘’’پھر یہ کیوں نہیں مان لیتا کہ میں اس اﷲ کا رسول ہوں جومعبود ہے ۔‘‘رسولِ کریمﷺ نے پوچھا۔’’میں شاید یہ نہ مانوں کہ تم اﷲ کے رسول ہو۔‘‘ ابو سفیان ہاری ہوئی سی آواز میں بولا۔ ’’ابو سفیان! ‘‘عباسؓ نے قہر بھری آواز میں کہا۔’’کیا تو میری تلوار سے اپنا سر تن سے جدا کرانا چاہتا ہے ؟‘‘عباسؓ نے رسولِ کریمﷺ سے کہا ۔’’یا رسول اﷲﷺ! ابو سفیان ایک قبیلے کا سردار ہے ،باوقار اور خوددار بھی ہے۔ یہ ملتجی ہو کہ آیا ہے۔‘‘ابو سفیان پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اس نے بے اختیار کہا۔’’محمد اﷲ کے رسول ہیں، میں نے تسلیم کر لیا ،میں نے مان لیا۔ ’’جاؤ!‘‘ رسولِ کریمﷺ نے کہا ۔’’مکہ میں اعلان کردو کہ مکہ کے وہ لوگ مسلمانوں کی تلواروں سے محفوظ رہیں گے جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائیں گے اور وہ لوگ محفوظ رہیں گے جو مسجد میں داخل ہو جائیں گے اور وہ لوگ محفوظ رہیں گے جو اپنے دروازے بند کر کے اپنے گھروں میں رہیں گے۔‘‘ابو سفیانؓ اسی وقت مکہ کو روانہ ہو گئے اور رسولِ اکرمﷺ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلۂ خیال شروع کر دیا کہ مکہ میں عکرمہ اور صفوان جیسے ماہر او ردلیر سالار موجود ہیں ۔وہ مقابلہ کیے بغیر مکہ پر قبضہ نہیں ہونے دیں گے۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی