🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر: عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد* : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *13* ۔۔۔۔
شہیدوں کو دل سے اتار دیں،ذہن سے ان کا نام و نشان مٹا دیں۔ان کی یادوں کو شراب میں ڈبو دیں۔اس زمین پر جو خدا نے ہمیں شہیدوں کے صدقے عطا کی ہے۔بادشاہ بن کر گردن اکڑا لیں،اور کہیں کہ میں ہوں اس زمین کا شہنشاہ،شہیدوں کے نام پر مٹی ڈال دیں،کسی شہید کی کہیں قبر نظر آئے تو اسے زمین سے ملا دیں ۔مگر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دوراہے پر آپ کو شہید کھڑے نظر آئیں گے……آپ کے ذہن کے کسی گوشے سے شہید اٹھیں گے اور شراب اور شہنشاہیّت کا نشہ اتاردیں گے۔جس نے تخت و تاج کے نشے میں شہیدوں سے بے وفائی کی وہ شاہ سے گدا اور ذلیل و خوار ہوا کیونکہ اس نے قرآن کے اس فرمان کی حکم عدولی کی کہ شہید زندہ ہیں، انہیں مردہ مت کہو۔عرب کے ملک اردن میں گمنام سا ایک مقام ہے جس کانام مُوتہ ہے ۔اس کے قریب سے گزر جانے والوں کو بھی شاید پتا نہ چلتا ہو گا کہ وہاں ایک بستی ہے ۔اس کی حیثیت چھوٹے سے ایک گاؤں سے بڑھ کر اورکچھ بھی نہیں۔لیکن شہیدوں نے اردن کے بادشاہ کو اپنی موجودگی کا اور اپنی زندگی کا، جو اُنہیں اﷲ تعالیٰ نے عطا کی ہے، احساس دلادیا ہے۔وہ جس معرکے میں شہید ہوئے تھے ،وہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے اس مقام پر لڑا گیا تھا۔پھریہ مقام گزرتے زمانے کی اڑتی ریت میں دبتا چلا گیا۔کچھ عرصے سے موتہ کے رہنے والے ایک عجیب صورتِ حال سے دوچار ہونے لگے ۔آج بھی وہاں چلے جائیں اور وہاں رہنے والوں سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی آدمی رات کو خواب میں دیکھتا ہے کہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے کے مجاہدینِ اسلام چل پھر رہے ہیں ۔کفّار کا ایک لشکر آتا ہے اور مجاہدین اس کے مقابلے میں جم جاتے ہیں۔ان کی تعداد تھوڑی ہے اور لشکرِ کفار مانندِ سیلاب ہے۔معرکہ بڑا خونریز ہے۔ یہ خواب ایک دو آدمیوں نے نہیں ،وہاں کے بہت سے آدمیوں نے دیکھا ہے اور کسی نہ کسی کو یہ خواب ابھی تک نظر آتا ہے۔یہ لوگ پڑھے لکھے نہیں،انہیں معلوم نہیں تھا کہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے یہاں حق و باطل کا معرکہ لڑا گیا تھا۔ مگر ان کے خوابوں میں شہید آنے لگے۔یہ خبر اُردن کے ایوانوں تک پہنچی،تب یاد آیا کہ یہ وہ موتہ ہے جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کی ایک لڑائی ہوئی تھی۔یہ عیسائی عرب کے باشندے تھے۔شہیدوں نے اپنے زندہ ہونے کا ایسا احساس دلایا کہ ُاردن کی حکومت نے جنگِ موتہ اور اس جنگ کے شہیدوں کی یادگار کے طور پر ایک نہایت خوبصورت مسجد تعمیر کرنے کے احکام جاری کردیئے۔مسجد کی تعمیر ۱۸۶۸ء میں شروع ہوئی تھی۔اس جنگ میں تین سپہ سالار۔زیدؓ بن حارثہ، جعفر ؓ بن ابی طالب، اور عبد اﷲ ؓ بن رواحہ یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے تھے۔ان تینوں کی قبریں موتہ سے تقریباً دو میل دور ہیں جو ابھی تک محفوظ ہیں۔
مدینہ میں آ کر خالدؓ بن ولید نے اسلام قبول کیاتو ان کی ذات میں عظیم انقلاب آ گیا۔تین مہینے گزر گئے تھے ۔خالد ؓ زیادہ تر وقت رسولِ کریمﷺ کے حضور بیٹھے فیض حاصل کرتے رہتے مگر انہیں ابھی عسکری جوہر دکھانے کا موقع نہیں ملا تھا۔وہ فنِ حرب و ضرب کے ماہر جنگجو تھے۔ان کا حسب و نسب بھی عام عربوں سے اونچا تھا لیکن انہوں نے ایسا دعویٰ نہ کیا کہ انہیں سالار کا رتبہ ملنا چاہیے۔انہوں نے اپنے آپ کوسپاہی سمجھا اور اسی حیثیت میں خوش رہے۔آج کے شام اور اُردن کے علاقے میں اس زمانے میں قبیلۂ غسّان آباد تھا۔جو اس علاقے میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔یہ قبیلہ طاقت کے لحاظ سے زبردست مانا جاتا تھا۔کیونکہ جنگجو ہونے کے علاوہ اس کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔اس قبیلے میں عیسائی بھی شامل تھے۔اس وقت روم کا شہنشاہ ہرقل تھا۔جس کی جنگ پسندی اور جنگی دہشت دور دور تک پہنچی ہوئی تھی۔اسلام تیزی سے پھل پھول رہاتھا۔قبیلۂ قریش کے ہزار ہا لوگ اسلام قبول کر چکے تھے۔ان کے مانے منجھے ہوے سردار اور سالار بھی مدینہ جا کر رسولِ خداﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کر چکے تھے اور مسلمان ایک جنگی طاقت بنتے جا رہے تھے۔کئی ایک چھوٹے چھوٹے قبائل حلقۂ بگوشِ اسلام ہو گئے تھے۔
مدینہ اطلاعات پہنچ رہی تھیں کہ قبیلۂ غسان مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اسلام کی مقبولیت کو روکنے کیلئے مسلمانوں کو للکارنا چاہتاہے اور جنگی تیاریوں میں مصروف ہے۔یہ بھی سنا گیا کہ غسان کا سردارِ اعلیٰ روم کے بادشاہ ہرقل کے ساتھ دوستی کرکے اس کی جنگی طاقت بھی مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔رسولِ کریمﷺ نے اپنا ایک ایلچی (جس کا نام تاریخ میں محفوظ نہیں)غسان کے ایک سردارِ اعلیٰ کے ہاں اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ’’ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ وحدہٗ لا شریک ہے اور اسلام ایک مذہب او رایک دین ہے ،باقی تمام عقیدے جو مختلف مذاہب کی صورت اختیار کر گئے ہیں،توہمات ہیں ا ور یہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔‘‘رسولِ کریمﷺ نے غسان کے سردارِ اعلیٰ کو قبولِ اسلام کی دعوت دی۔نبیِ کریمﷺ نے یہ پیغام اس خیال سے بھیجا تھا کہ پیشتر اس کے کہ قبیلہ غسان روم کے شہنشاہ ہرقل کی جنگی قوت سے مرعوب ہو کر عیسائیت کی آغوش میں چلا جائے ،یہ قبیلہ اسلام قبول کرلے اور اسے اپنا اتحادی بنا کر ہرقل سے بچایا جائے۔’’خدا کی قسم! اس سے بہتر فیصلہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘خالدؓ نے ایک محفل میں کہا۔’’ہرقل نے فوج کشی کی تو یوں سمجھو کہ باطل کا طوفان آ گیا ،جو سب کو اڑا لے جائے گا۔‘‘’’غسان کی خیریت اسی میں ہے کہ رسول اﷲﷺ کی دعوت قبول کرلے۔‘‘کسی اور نے کہا۔’’نہیں کرے گا تو ہمیشہ کیلئے ہرقل کا غلام ہو جائے گا۔‘‘ایک اور نے کہا۔اس وقت ہرقل قبیلہ غسان میں داخل ہو چکا تھا۔اس کے ساتھ جو فوج تھی،اس کی تعداد ایک لاکھ تھی۔غسان کے سردارِ اعلیٰ کو اطلاع مل چکی تھی مگر وہ پریشان نہیں تھا۔وہ ہرقل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔نبی ِ کریمﷺ کا ایلچی بصرہ کو جا رہا تھا۔غسان کا دارالحکومت بصرہ تھا۔ایلچی کے ساتھ ایک اونٹ پر لدے ہوئے زادِ راہ کے علاوہ تین محافظ بھی تھے۔بڑی لمبی مسافت کے بعد ایلچی موتہ پہنچااور اس نے ذرا سستانے کیلئے اپنا مختصر ساقافلہ روک لیا۔قریب ہی قبیلہ غسان کی ایک بستی تھی۔اس کے سردار کو اطلاع ملی کہ چار اجنبی بستی کے قریب پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔سردار نے جس کا نام شرجیل بن عمرو تھا،مدینہ کے ایلچی کو اپنے ہاں بلایا اور پوچھا کہ وہ کون ہے اور کہاں جا رہا ہے؟
’’میں مدینہ کا ایلچی ہوں اور بصرہ کو جا رہا ہوں۔‘‘ایلچی نے جواب دیا۔’’میں رسولِ خداﷺ کا پیغام تمہارے سردارِ اعلیٰ کیلئے لے جا رہا ہوں۔‘‘’’کیا تم قبیلہ قریش کے محمدﷺکی بات کر رہے ہو؟‘‘شرجیل بن عمرو نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔’’پیغام کیا ہے؟‘‘’’پیغام یہ ہے کہ اسلام قبول کرلو۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’اور باطل کے عقیدے ترک کردو۔‘‘’’کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں اپنے سردارِ اعلیٰ کی اور اپنے مذہب کی توہین برداشت کرلوں گا۔‘‘شرجیل بن عمرو نے کہا۔’’اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہیں سے واپس مدینہ چلے جاؤ۔‘‘’’میں بصرہ کے رستے سے ہٹ نہیں سکتا۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’یہ رسول اﷲﷺ کا حکم ہے۔جس کی تعمیل میں ،میں فخر سے اپنی جان دے دوں گا۔‘‘’’اور میں بڑے فخر سے تمہاری جان لوں گا۔‘‘شرجیل بن عمرو نے کہا،اور اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا۔ایلچی کے تینوں محافظ باہربیٹھے تھے۔اندر سے تین آدمی نکلے۔وہ کسی کی خون آلود لاش گھسیٹتے ہوئے باہر لا رہے تھے ۔محافظوں نے دیکھا کہ لاش کی گردن کٹی ہوئی تھی۔انہوں نے پہچان لیا،یہ ان کے ایلچی کی لاش تھی۔شرجیل بن عمرو باہر آیا۔’’تم اس کے ساتھی تھے؟‘‘شرجیل نے محافظوں سے کہا۔’’مجھے یقین ہے کہ اسکے بغیر تم بصرہ نہیں جاؤ گے۔‘‘’’نہیں!‘‘ایک محافظ نے جواب دیا۔’’پیغام اس کے پاس تھا۔‘‘’’جاؤ،مدینہ کو لوٹ جاؤ۔‘‘شرجیل نے کہا۔’’اور محمدﷺسے کہنا کہ ہم اپنے قبیلے اور اپنے عقیدے کی توہین برداشت نہیں کیا کرتے۔اگر یہ شخص بصرہ پہنچ جاتا تو وہاں قتل ہو جاتا۔‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ ایک محافظ نے کہا۔’’ہم اپنے مہمان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا کرتے۔‘‘’’میں تمہیں مہمان سمجھ کرتمہاری جان بخشی کر رہاہوں ۔‘‘شرجیل نے کہا۔’’اور مجھے یہ نہ کہنا کہ میں تمہیں اس کی لاش دے دوں۔‘‘مدینہ کی تمام تر آبادی کو معلوم ہو چکا تھا کہ رسول اﷲﷺ کا ایلچی دعوتِ اسلام لے کر بصرہ گیا ہوا ہے۔سب ایلچی کی واپسی کے منتظر تھے لیکن تینوں محافظ ایلچی کے بغیر واپس آئے۔ان کے چہروں پر گرد کی تہہ اور تھکن کے آثار ہی نہیں تھے، غم و غصے کے تاثرات بھی تھے۔وہ مدینہ داخل ہوئے تو لوگ ہجوم کرکے آگئے۔’’خدا کی قسم! ہم انتقام لیں گے۔‘‘محافظ بازو لہرا لہرا کر کہتے جا رہے تھے۔’’موتہ کے شرجیل بن عمرو کا قتل ہم پر فرض ہو گیا ہے۔‘‘ جب یہ خبر رسول اﷲﷺ کو ملی تو باہر مدینہ کی آبادی اکھٹی ہو گئی تھی ۔عربوں کے رواج کے مطابق قتل کی سزا قتل تھی۔
باہر لوگ انتقام انتقام کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس دور میں بھی آج کل کی طرح ایک دوسرے کے ایلچیوں کو جن کی حیثیت سفیروں جیسی ہوتی تھی، دشمن بھی تحفظ دیتا تھا۔کسی کے ایلچی کو قتل کر دینے کا مطلب اعلانِ جنگ سمجھا جاتا تھا۔’’اہلِ مدینہ!‘‘ رسول ِکریمﷺ نے باہر آ کر مدینہ والوں کے بکھرے ہوئے ہجوم سے فرمایا۔’’ میں نے انہیں لڑائی کیلئے نہیں للکارا تھا ۔میں نے انہیں سچا دین قبول کرنے کو کہا تھا۔ اگر وہ لڑنا چاہتے ہیں تو ہم لڑیں گے ۔‘‘’’ہم لڑیں گے…… ہم انتقام لیں گے ۔مسلمان کمزور نہیں۔‘‘ہجوم نعرے لگا رہا تھا۔ ’’مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں نہیں۔ہم اﷲ اور رسولﷺ کے ناموس پر مر مٹیں گے۔‘‘رسولِ کریمﷺ کے حکم سے اسی روز مجاہدینِ اسلام کی فوج تیار ہو گئی۔جس کی تعداد تین ہزار تھی ۔رسولِ کریمﷺ نے سپہ سالاری کے فرائض زید ؓبن حارثہ کو سونپے۔ ’’اگر زید شہید ہو جائیں تو سپہ سالار جعفر بن ابی طالب ہو گا۔‘‘نبی کریمﷺ نے فرمایا۔’’جعفر بھی شہید ہو جائے تو سپہ سالار عبداﷲ بن رواحہ ہو گا۔اگر عبداﷲ کو بھی اﷲ شہادت عطا کردے تو فوج اپنا سپہ سالار خود چن لے۔‘‘مؤرخ ابنِ سعد اور مغازی لکھتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ نے یہ تین سپہ سالار درجہ بدرجہ مقرر کرکے مجاہدین کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔آپﷺ نے سپہ سالار زید ؓبن حارثہ سے فرمایا کہ’’ موتہ پہنچ کر سب سے پہلے شرجیل بن عمرو کو جو ہمارے ایلچی کا قاتل ہے، قتل کیا جائے۔ پھر موتہ اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو کہاجائے کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔انہیں بتایا جائے کہ اسلام کیاہے؟اگر وہ قبول کر لیں تو ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔‘‘ مجاہدین کی اس فوج میں خالد ؓبن ولید محض سپاہی تھے۔کسی دستے یا جیش کے کماندار بھی نہیں تھے۔روم کے شہنشاہ ہرقل کی فوج آج کے اُردن میں کسی جگہ خیمہ زن تھی۔ یہ قبیلہ غسان کا علاقہ تھا۔ فوج کی تعداد مؤرخین کے مطابق ایک لاکھ تھی۔ یہ فوج اس علاقے کی بستیوں پر چھا چکی تھی ۔کھڑی فصل گھوڑے اور اونٹ کھا رہے تھے۔ لوگوں کے گھروں سے اناج اور کھجوروں کے ذخیرے فوج نے اٹھالیے تھے اور جوان اور خوبصورت عورتیں فوج کے سرداروں اور کمانداروں کے خیموں میں تھیں۔ہرقل کا خیمہ قناطوں اور شامیانوں کا محل تھا۔ قبیلہ غسان کا سردارِ اعلیٰ ہرقل کے سامنے بیٹھا تھا۔ اسے ہرقل کی فوج کشی کی اطلاع ملی تھی تو وہ بیش قیمت تحائف اور اپنے قبیلے کی بے حد حسین دس بارہ لڑکیاں لے کر ہرقل کے استقبال کو چلا گیا تھا۔ اب ان لڑکیوں میں سے دو تین ہرقل کے پہلوؤں میں بیٹھی تھیں ۔
’’اور تم نے بتایا ہے کہ مدینہ سے محمد ﷺنے تمہیں پیغام بھیجا تھا کہ تمہارا قبیلہ اس کا مذہب قبول کر لے۔‘‘ ہر قل نے کہا۔ ’’میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ میرے ایک سردار شرجیل بن عمرو نے مدینہ کے ایلچی کو مجھ تک نہیں پہنچنے دیا۔‘‘غسان کے سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’اسے موتہ میں قتل کر دیا تھا۔‘‘’’کیا مدینہ والوں میں اتنی طاقت اور جرات ہے کہ وہ اپنے ایلچی کے قتل کا انتقام لینے آئیں ؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’ان کی طاقت کم ہے اور جرات زیادہ ۔‘‘سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’ان لوگوں پر محمدﷺ کا جادو سوار ہے ۔پہلے پہل مجھے ان کے متعلق اطلاعیں ملیں تو میں نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی۔مگر انہوں نے ہر میدان میں فتح پائی اور ہر میدان میں ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔میں نے سناہے کہ محمدﷺ اور اس کے سالاروں کی جنگی چالوں کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ اس نے مجھے اپنے مذہب کا جو پیغام بھیجا تھا اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھنے لگا ہے۔‘‘’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ ہرقل نے ایک نیم برہنہ لڑکی کے ہاتھ سے شراب کا پیالہ لیتے ہوئے پوچھا۔’’بات صاف کہہ دوں تو میرے لیے بھی اچھا ہے اور آپ کیلئے بھی ۔‘‘سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’میں نے آپ کی فوج دیکھ لی ہے ۔میرا قبیلہ کوئی چھوٹا قبیلہ نہیں۔اگر زیادہ نہیں تو آپ جتنی فوج میرے پاس بھی ہے۔آپ اپنے ملک سے دور ہیں ۔اگر ہم لڑیں گے تو میں اپنی زمین پرلڑوں گا۔جہاں کا بچہ بچہ آپ کا دشمن ہے ۔‘‘’’کیا تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟‘‘ ہرقل نے مسکرا کرپوچھا۔’’اگر یہ دھمکی ہے تو میں اپنے آپ کو بھی دے رہا ہوں۔‘‘ غسان کے سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’میں آپ کو آپس کی لڑائی کے نتائج بتا رہا ہوں۔جو ہم دونوں کیلئے اچھے نہیں ہوں گے۔اس کا فائدہ مدینہ والوں کو پہنچے گا۔کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم دونوں مل کر مسلمانوں کو ختم کردیں۔میں فتح کی صورت میں آپ سے کچھ نہیں مانگوں گا مفتوحہ علاقہ آپ کا ہو گا۔میں اپنے علاقے میں واپس آ جاؤں گا۔ہم آپس میں لڑ کراپنی طاقت ضائع نہ کریں۔پہلے ایک ایسی طاقت کو ختم کریں جو مدینہ میں ہم دونوں کے خلاف تیا ر ہو رہی ہے۔‘‘’’میں تمہاری تجویز کو قبول کرتا ہوں۔‘‘ شہنشاہ ہرقل نے کہا۔’’پھر اپنی فوج کو حکم دے دیں کہ غسان کی بستیوں میں لوٹ مار بند کر دیں۔‘‘’’دے دوں گا۔‘‘ ہرقل نے کہا۔’’ہمیں مدینہ والوں کے انتظار میں نہیں رہنا چاہیے۔ہم مدینہ کی طرف بڑھیں گے۔‘‘
انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا۔مدینہ کے تین ہزار مجاہدین مدینہ سے بہت دور نکل گئے تھے۔موتہ سے کچھ فاصلے پر معان نام کا ایک مقام تھا ۔وہاں انہوں نے پڑاؤ کیا۔اس علاقے اور اس سے آگے کے علاقے میں مجاہدین اجنبی تھے۔انہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ آگے کیا ہے۔معلوم یہ کرنا تھا کہ آگے دشمن کی فوج موجود ہے یا نہیں۔اگر ہے تو کتنی ہے اور کیسی ہے؟یہ معلوم کرنے کیلئے تین چار مجاہدین کو قریب سے شتر سواروں کے بھیس میں آگے بھیج دیا گیا۔ان آدمیوں نے رات آگے کہیں جاکر گزاری اور اگلی شام کو واپس آئے۔وہ جو خبر لائے تھے وہ اچھی نہیں تھی ۔وہ دور آگے چلے گئے تھے۔ پہلے انہیں غسان کے دو کنبے نظر آئے جو نقل مکانی کر کے کہیں جا رہے تھے۔دونوں کنبوں میں نوجوان لڑکیاں اور جوان عورتیں زیادہ تھیں۔وہ لوگ امیر کبیر معلوم ہوتے تھے۔ان کا سامان کئی اونٹوں پر لدا تھا۔ یہ قافلہ ایک جگہ آرام کیلئے رکا ہوا تھا۔ مجاہدین بھی وہیں رک گئے اور انہوں نے قافلے والوں کے ساتھ راہ و رسم پیدا کرلی اور یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ مسلمان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بصرہ جا رہے ہیں اوروہاں سے تجارت کا سامان لائیں گے۔’’یہیں سے واپس چلے جاؤ ۔‘‘قافلے کے آدمیوں نے انہیں بتایا ۔’’روم کے بادشاہ ہرقل کا لشکر لوٹ مار اور قتل وغارت کرتا چلا آرہا ہے۔تم سے اونٹ اور مال و دولت چھین لیں گے اور ہو سکتا ہے تمہیں قتل بھی کر دیں۔‘‘پھر ہرقل کی فوج کشی کی باتیں ہوتی رہیں پتا چلا کہ انہوں نے ہرقل کی فوج دیکھی نہیں صرف سنا ہے کہ یہ فوج اُردن میں داخل ہو کر لوٹ مار کر رہی ہے ۔ان کنبوں میں چونکہ عورتیں زیادہ تھیں اس لیے انہیں بچانے کیلئے یہ لوگ بھاگ نکلے۔ مجاہدین کیلئے ضروری ہو گیا کہ وہ ہرقل کے متعلق صحیح صورتِ حال معلوم کریں ۔یہ بہت بڑا خطرہ تھا۔ مجاہدین اور آگے چلے گئے۔ انہیں غسان کی ایک بستی نظر آگئی۔ وہ بستی میں چلے گئے۔ بتایا کہ وہ بصرہ جا رہے ہیں ۔مگر راستے میں رہزنوں نے انہیں لوٹ لیا،بستی والوں نے انہیں کھانا کھلایا اور خاصی آؤ بھگت کی۔وہاں سے انہیں صحیح اطلاع ملی۔ صحیح صورتِ حال یہ تھی کہ ہرقل اورقبیلہ غسان کے درمیان معاہدہ طے پاگیا تھا۔ قبیلہ غسان نے اپنی فوج ہرقل کی فوج میں شامل کر دی تھی اور دونوں فوجوں کا رخ مدینہ کی طرف تھا۔ مؤرخوں نے ہرقل کی فوج کی تعداد ایک لاکھ ،اور ایک لاکھ غسان کی فوج کی تعداد لکھی ہے لیکن بعض مؤرخ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔وہ دونوں فوجوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ بتاتے ہیں ۔بہر حال مدینہ کی اسلامی فوج کی تعداد سب نے تین ہزار لکھی ہے۔
’’اگر ہم واپس چلے گئے تو یہ ہرقل اور غسان کیلئے دعوت ہوگی کہ بے دھڑک مدینہ تک چلے آؤ۔‘‘عبداﷲ ؓبن رواحہ نے کہا۔’’ہم دشمن کو یہیں پر روکیں گے۔‘‘’’کیا ہم اتنی تھوڑی تعداد میں اتنے بڑے لشکر کو روک سکیں گے؟‘‘ زیدؓ بن حارثہ نے پوچھا۔’’کون سے میدان میں ہم تھوڑی تعداد میں نہیں تھے؟‘‘جعفر ؓبن ابی طالب نے کہا ۔’’اگر ہم مل کر کسی فیصلہ پرنہیں پہنچ سکتے تو ہم میں سے کوئی مدینہ چلا جائے اور رسول اﷲﷺ سے احکام لے آئے ۔‘‘’’ہم اتنا وقت ضائع نہیں کر سکتے۔‘‘عبداﷲؓ نے کہا۔’’ دشمن ہمیں اتنی مہلت نہیں دے گا ۔خدا کی قسم !میں دشمن کو یہ تاثر نہیں دوں گا کہ ہم اس کے لشکر سے ڈر گئے ہیں ۔‘‘’’اور میں مدینہ میں یہ کہنے کیلئے داخل نہیں ہوں گا کہ ہم پسپا ہو کر آئے ہیں ۔‘‘زیدؓ نے کہا ۔’’جانیں قربان کر کے زندہ رہنے والوں کیلئے مثال قائم کر جائیں گے۔ یہ مت بھولو کہ غسان کی فوج میں عیسائیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ عیسائی اپنے مذہب کی خاطر لڑیں گے۔‘‘عبداﷲؓ بن رواحہ کھڑے ہوئے اور اپنے مجاہدین کو اکھٹا کر کے اتنے جوشیلے لہجے میں خطاب کیا کہ تین ہزار مجاہدین کے نعرے زمین و آسمان کو ہلانے لگے۔سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ نے آگے کو کوچ کا حکم دے دیا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ مجاہدینِ اسلام نے اپنے آپ کو بڑے ہی خطرناک امتحان میں ڈال دیا۔ہرقل اور غسان کے سردارِ اعلیٰ کو معلوم ہو گیا تھا کہ مدینہ سے چند ہزار نفری کی فوج اپنے ایلچی کے قتل کا انتقام لینے آرہی ہے۔مجاہدین کو کچل ڈالنے کیلئے ہرقل اور غسان کے لشکر آ رہے تھے۔ مجاہدین بڑھتے چلے گئے اور بلقاء پہنچے۔انہیں اور آگے جانا تھا لیکن غسان کی فوج کے دو دستے جن کی تعداد مجاہدین کی نسبت تین گناتھی،راستے میں حائل ہو گئے۔ زیدؓ بن حارثہ نے مجاہدین کو دور ہی روک لیااور ایک بلند جگہ کھڑے ہو کر علاقے کا جائزہ لیا ۔انہیں یہ زمین لڑائی کیلئے موزوں نہ لگی۔دوسرے سالاروں سے مشورہ کرکے زیدؓبن حارثہ مجاہدین کو پیچھے لے آئے۔ غسان کی فوج نے اسے پسپائی سمجھ کر مجاہدین کا تعاقب کیا ۔زیدؓ موتہ کے مقام پر رک گئے اور فوراً اپنے مجاہدین کو لڑائی کی ترتیب میں کر لیا۔انہوں نے فوج کو تین حصوں میں ترتیب دیا۔دایاں اور بایاں پہلو اور قلب۔دائیں پہلو کی کمان قطبہؓ بن قتاوہ کے پاس اور بائیں پہلو کی عبایہ ؓبن مالک کے ہاتھ تھی۔زیدؓ خود قلب میں رہے۔ ’’اﷲ کے سچے نبی کے عاشقو! ‘‘زیدؓ بن حارثہ نے بڑی بلند آواز سے مجاہدین کو للکارا۔’’ آج ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم حق کے پرستار ہیں ۔آج باطل کے نیچے سے زمین کھینچ لو۔اپنے سامنے باطل کا لشکر دیکھو اور اس سے مت ڈرو۔یہ لڑائی طاقت کی نہیں ،یہ جرات، جذبے اور دماغ کی جنگ ہے۔میں تمہارا سپہ سالار بھی ہوں اور عَلَم بردار بھی۔دشمن کا لشکر اتنا زیادہ ہے کہ تم اس میں گم ہو جاؤ گے۔لیکن اپنے ہوش گم نہ ہونے دینا۔ہم اکھٹے لڑیں گے اور اکھٹے مریں گے۔‘‘ زید نے عَلَم اٹھالیا۔دشمن کی طرف سے تیروں کی پہلی بوچھاڑ آئی۔زیدؓ کے حکم سے مجاہدین کے دائیں اور بائیں پہلو پھیل گئے اور آگے بڑھے ۔یہ آمنے سامنے کا تصادم تھا۔مجاہدین دائیں اور بائیں پھیلتے اور آگے بڑھتے چلے گئے اور زید ؓنے قلب کو آگے بڑھا دیا۔وہ خود آگے تھے۔ یہ معرکہ ایساتھا کہ مجاہدین کا حوصلہ اور جذبہ برقرار رکھنے کیلئے سپہ سالار کا آگے ہونا ضروری تھا۔چونکہ عَلَم بھی سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ کے پاس تھا، اس لیے دشمن انہی پر تیر برساتا اور ہلّے بول رہاتھا ۔زیدؓ کو تیر لگ چکے تھے۔ جسم سے خون بہہ رہا تھا لیکن انہوں نے عَلَم نیچے نہ ہونے دیا اور ان کی للکار خاموش نہ ہوئی۔عَلَم اٹھاتے ہوئے وہ تلوار بھی چلا رہے تھے۔پھر ان کے جسم میں برچھیاں لگیں۔آخر وہ گھوڑے سے گر پڑے اور شہید ہو گئے۔عَلَم گرتے ہی مجاہدین کچھ بددل ہوئے لیکن جعفر ؓبن ابی طالب نے بڑھ کر عَلَم اٹھا لیا۔’’رسول اﷲﷺ کے شیدائیو !‘‘جعفر ؓنے عَلَم اوپر کرکے بڑی ہی اونچی آواز سے کہا۔’’خدا کی قسم! اسلام کا عَلَم گر نہیں سکتا۔‘‘اور انہوں نے زید ؓبن حارثہ شہید کی جگہ سنبھال لی۔ مجاہدین لشکرِ کفار میں گم ہو گئے تھے ۔لیکن ان کا جذبہ قائم تھا۔ ان کی للکار اور ان کے نعرے سنائی دےرہے تھے۔ سالار سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے ۔ان کاعَلَم بلند تھا ۔تھوڑی ہی دیر بعد عَلَم گرنے لگا…… عَلَم گرتا تھا اور اٹھتا تھا ۔عبداﷲ ؓبن رواحہ نے دیکھ لیا۔ سمجھ گئے کہ عَلَم بردار زخمی ہے اور اب وہ عَلَم کو سنبھال نہیں سکتا ۔عَلَم بردار سپہ سالار خود تھا۔ یہ جعفرؓ بن ابی طالب تھے۔ عبداﷲؓ بن رواحہ ان کی طرف دوڑے ۔ان تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔عبداﷲؓ جعفر ؓتک پہنچے ہی تھے کہ جعفرؓ گر پڑے۔ ان کا جسم خون میں نہا گیا تھا ۔جسم پر شاید ہی کوئی ایسی جگہ تھی جہاں تلوار یا برچھی کا کوئی زخم نہ تھا۔جعفر ؓگرتے ہی شہید ہو گئے۔عبداﷲ ؓنے پرچم اٹھا کر بلند کیا اور نعرہ لگا کر مجاہدین کو بتایا کہ انہوں نے عَلَم اور سپہ سالاری سنبھال لی ہے۔
یہ دشمن کی فوج کاایک حصہ تھا جس کی تعدا ددس سے پندرہ ہزار تک تھی۔یہ تمام تر نفری غسانی عیسائیوں کی تھی جو اس معرکے کو مذہبی جنگ سمجھ کر لڑ رہے تھے۔اتنی زیادہ تعداد کے خلاف تین ہزار مجاہدین کیا کر سکتے تھے۔لیکن ان کی قیادت اتنی دانشمند اور عسکری لحاظ سے اتنی قابل تھی کہ اس کے تحت مجاہدین جنگی طریقے اور سلیقے سے لڑ رہے تھے۔ ان کا انداز لٹھ بازوں والا نہیں تھا۔مگر دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ مجاہدین بکھرنے لگے یہاں تک کہ بعض اس انتشار اور دشمن کے دباؤ اور زور سے گھبرا کر معرکے سے نکل گئے ۔لیکن وہ بھاگ کر کہیں گئے نہیں ۔قریب ہی کہیں موجود رہے۔باقی مجاہدین انتشار کا شکار ہونے سے یوں بچے کہ وہ چار چار ‘پانچ پانچ اکھٹے ہوکر لڑتے رہے۔جنگی مبصرین نے لکھا ہے کہ غسانی مسلمانوں کی اس افراتفری کی کیفیت سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جسکی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اتنی بے جگری سے اور ایسی مہارت سے لڑ رہے تھے کہ غسانیوں پر ان کارعب طاری ہو گیا۔وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کا بکھر جانا بھی ان کی کوئی چال ہے ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے سالاروں اور کمانداروں نے اس صورتِ حال کو یوں سنبھالا کہ اپنے آدمیوں کو معرکے سے نکالنے لگے۔تاکہ انہیں منظم کیا جا سکے۔اس دوران عَلَم ایک بار پھر گر پڑا۔ تیسرے سپہ سالار عبداﷲ ؓبن رواحہ بھی شہید ہو گئے۔اب کے مجاہدین میں بد دلی نظر آنے لگی۔ رسولِ کریمﷺ نے یہی تین سالار مقرر کیے تھے۔ اب مجاہدین کو سپہ سالار خود مقررکرنا تھا۔عَلَم گرا ہوا تھا جو شکست کی نشانی تھی۔ایک سرکردہ مجاہد ثابتؓ بن اَرقم نے عَلَم اٹھاکر بلند کیا اور نعرہ لگانے کے انداز سے کہا۔’’اپنا سپہ سالار کسی کو بنا لو،عَلَم کو میں بلند رکھوں گا۔میں ……ثابت بن ارقم…… ‘‘مؤرخ ابنِ سعد نے لکھا ہے کہ ثابتؓ اپنے آپ کو سپہ سالاری کے قابل نہیں سمجھتے تھے اور وہ مجاہدین کی رائے کے بغیر سپہ سالار بننا بھی نہیں چاہتے تھے،کیونکہ نبی کریمﷺ کا حکم تھا کہ تین سالار اگر شہید ہو جائیں تو چوتھے سپہ سالار کا انتخاب مجاہدین خود کریں۔ثابتؓ کی نظر خالد ؓبن ولید پر پڑی جو قریب ہی تھے۔مگر خالدؓ بن ولید کو مسلمان ہوئے ابھی تین ہی مہینے ہوئے تھے۔اس لیے انہیں اسلامی معاشر ت میں ابھی کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ثابت ؓبن ارقم خالدؓ کے عسکری جوہر اور جذبے سے واقف تھے۔انہوں نے عَلَم خالدؓ کی طرف بڑھایا۔’’بے شک! اس رتبے کے قابل تم ہو خالدؓ۔‘‘
’’خالد……خالد……خالد……‘‘ہر طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔’’خالد ہمارا سپہ سالار ہے۔‘‘خالدؓ نے لپک کر عَلَم ثابتؓ سے لے لیا۔غسانی لڑ تو رہے تھے لیکن ذرا پیچھے ہٹ گئے تھے۔خالدؓ کو پہلی بار آزادی سے قیادت کے جوہر دِکھانے کا موقع ملا ۔انہوں نے چند ایک مجاہدین کو اپنے ساتھ رکھ لیا اور ان سے قاصدوں کا کام لینے لگے۔خود بھی بھاگ دوڑ کر نے لگے۔لڑتے بھی رہے۔اس طرح انہوں نے مجاہدین کو جو لڑنے کے قابل رہ گئے تھے۔یکجا کرکے منظم کرلیااور انہیں پیچھے ہٹالیا ۔غسانی بھی پیچھے ہٹ گئے اور دونوں طرف سے تیروں کی بوچھاڑیں برسنے لگیں۔ فضاء میں ہر طرف تیراُڑ رہے تھے۔
خالدؓ نے صورتِ حال کا جائزہ لیا ۔اپنی نفری اور اس کی کیفیت دیکھی ۔تو ان کے سامنے یہی ایک صورت رہ گئی تھی کہ معرکہ ختم کردیں۔ دشمن کو کمک بھی مل رہی تھی ۔لیکن خالدؓ پسپا نہیں ہونا چاہتے تھے۔پسپائی بجا تھی ،لیکن خطرہ یہ تھا کہ دشمن تعاقب میں آئے گا۔ جس کانتیجہ مجاہدین کی تباہی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔خالدؓ نے سوچ سوچ کر ایک دلیرانہ فیصلہ کیا ۔وہ مجاہدین کے آگے ہو گئے اور غسانیوں پر ہلّہ بول دیا۔مجاہدین نے جب اپنے سپہ سالار اور اپنے عَلَم کو آگے دیکھا تو ان کے حوصلے تروتازہ ہو گئے ۔یہ ہلّہ اتنا دلیرانہ اور اتنا تیز تھا کہ کثیر تعداد غسانی عیسائیوں کے قدم اکھڑ گئے۔مجاہدین کے ہلّے اور ان کی ضربوں میں قہر تھا۔مؤرخ لکھتے ہیں اور حدیث بھی ہے کہ اس وقت تک خالدؓ کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ چکی تھیں۔خالدؓ دراصل غسانیوں کو بکھیر کر مجاہدین کو پیچھے ہٹانا چاہتے تھے۔اس میں وہ کامیاب رہے۔انہوں نے اپنے اور مجاہدین کے جذبے اوراسلام کے عشق کے بل بوتے پر یہ دلیرانہ حملہ کیا تھا۔حملہ اور ہلّہ کی شدت نے تو پورا کام کیا لیکن غسانی مجاہدین کی غیر معمولی دلیری سے مرعوب ہو گئے اور پیچھے ہٹ گئے۔ان میں انتشار پیدا ہو گیا تھا۔اس کے ساتھ ہی مجاہدین کے دائیں پہلو کے سالار قطبہؓ بن قتاوہ نے غسانیوں کے قلب میں گھس کر ان کے سپہ سالار’’ مالک‘‘ کو قتل کر دیا۔اس سے غسانیوں کے حوصلے جواب دے گئے اور وہ تعداد کی افراط کے باوجود بہت پیچھے چلے گئے اور منظم نہ رہ سکے۔خالد ؓنے اسی لیے یہ دلیرانہ حملہ کرایا تھا کہ مجاہدین کو تباہی سے بچایا جا سکے۔وہ انہوں نے کر لیااور مجاہدین کو واپسی کا حکم دے دیا۔اس طرح یہ جنگ ہار جیت کے بغیر ہی ختم ہو گئی۔جب مجاہدین خالدؓ بن ولید کی قیادت میں مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ میں پہلے ہی خبرپہنچ چکی تھی کہ مجاہدین پسپا ہو کر آرہے ہیں۔مدینہ کے لوگوں نے مجاہدین کو طعنے دینے شروع کردیئے کہ وہ بھاگ کر آئے ہیں۔خالدؓ نے رسولِ اکرمﷺ کے حضور معرکے کی تمام تر روئیداد پیش کی۔ لوگوں کے طعنے بلند ہوتے جا رہے تھے۔ ’’خاموش ہو جاؤ!‘‘ رسولِ کریمﷺ نے بلند آواز سے فرمایا’’ یہ میدانِ جنگ کے بھگوڑے نہیں ……یہ لڑ کر آئے ہیں اور آئندہ بھی لڑیں گے۔خالد ﷲ کی تلوار ہے ۔‘‘ابنِ ہشام، واقدی اور مغازی لکھتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ کے یہ الفاظ خالدؓبن ولید کا خطاب بن گئے۔’’سیف ﷲ ۔ﷲکی شمشیر ۔‘‘اس کے بعد یہ شمشیر، ﷲکی راہ میں ہمیشہ بے نیام رہی۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟