🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️ : *قسط 12*👇




🗡️🛡️⚔*شمشیرِ بے نیام*⚔️🛡️🗡️
🗡️ تذکرہ: حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ 🗡️
✍🏻تحریر:  عنایت اللّٰہ التمش
🌈 ترتیب و پیشکش : *میاں شاہد*  : آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی
قسط نمبر *12* ۔۔۔۔
اس نے کچھ دور جا کر پیچھے دیکھا۔اسے ابو جریج کا قافلہ نظر نہ آیا۔خالدنشیبی جگہ سے نکل کر دور چلا گیا تھا۔اس نے گھوڑے کی رفتار کم کردی۔اسے ایسے لگا جیسے آوازیں اس کا تعاقب کر رہی ہوں۔’’محمد جادوگر……محمد کے جادو میں طاقت ہے۔‘‘’’نہیں ……نہیں۔‘‘اس نے سر جھٹک کر اپنے آپ سے کہا۔’’لوگ جس چیز کو سمجھ نہیں سکتے اسے جادو کہہ دیتے ہیں اور جس آدمی کا سامنا نہیں کر سکتے اسے جادوگر سمجھنے لگتے ہیں۔پھر بھی……کچھ نہ کچھ راز ضرور ہے۔محمد ﷺمیں کوئی بات ضرور ہے۔‘‘ذہن اسے چند دن پیچھے لے گیا۔ابو سفیان نے اسے ،عکرمہ اور صفوان کو بلا کر بتایا تھا کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں۔ابو سفیان کو یہ اطلاع دو شتر سواروں نے دی تھی جنہوں نے مسلمانوں کے لشکر کو مکہ آتے دیکھا تھا۔خالد اپنی پسند کے تین سو گھڑ سواروں کو ساتھ لے کر مسلمانوں کو راستے میں گھات لگا کر روکنے کیلئے چل پڑا تھا۔وہ اپنے اس جانباز دستے کو سر پٹ دوڑاتا لے جا رہا تھا۔اس کے سامنے تیس میل کی مسافت تھی۔اسے بتایا گیا تھا کہ مسلمان کراع الغیمم سے ابھی دور ہیں۔خالد اس کوشش میں تھا کہ مسلمانوں سے پہلے کراع اکغیمم پہنچ جائے۔مکہ سے تیس میل دور کراع الغیمم ایک پہاڑی سلسلہ تھا جو گھات کیلئے موزوں تھا۔اگر مسلمان پہلے وہاں پہنچ جاتے تو خالد کیلئے جنگی حالات دشوار ہو جاتے۔اس نے راستے میں صرف دو جگہ دستے کو روکااور گھوڑوں کو سستانے کا موقع دیا۔اس نے دو جگہوں پر اپنے گھوڑ سواروں کو اپنے سامنے کھڑ اکر کے کہا۔’’یہ ہمارے لیے کڑی آزمائش ہے۔اپنے قبیلے کی عظمت کے محافظ صرف ہم ہیں۔آج ہمیں عزیٰ اور ہبل کی لاج رکھنی ہے۔ہمیں اپنی شکست کا انتقام لینا ہے۔اگر ہم مسلمانوں کو کراع الغیمم کے اندر ہی روک کر انہیں تباہ نہ کر سکے تو مکہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگا۔ہماری بہنیں اور بیٹیاں ان کی لونڈیاں ہوں گی اور ہمارے بچے ان کے غلام ہوں گے۔عزیٰ اور ہبل کے نام پر حلف اٹھاؤ۔کہ ہم قریش اور مکہ کی آن اور وقار پر جانیں قربان کر دیں گے۔‘‘تین سوگھوڑ سواروں نے نعرے لگائے۔’’ہم عزیٰ اور ہبل کے نام پر مر مٹیں گے……ایک بھی مسلمان زندہ نہیں جائے گا……کراع الغیمم کی وادی میں مسلمانوں کا خون بہے گا……محمد کو زندہ مکہ لے جائیں گے……مسلمانوں کی کھوپڑیاں مکہ لے جائیں گے……کاٹ دیں گے……تباہ کر کے رکھ دیں گے۔‘‘خالد کا سینہ پھیل گیا تھا اور سر اونچا ہو گیا تھا۔اس نے گھات کیلئے بڑی اچھی جگہ کا انتخاب کیا تھا ۔اس نے نہایت کارگر جنگی چالیں سوچ لی تھیں۔وہ اپنے ساتھ صرف سوار دستہ اس لیے لایا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بکھیر کر اور گھوڑے دوڑا دوڑا کر لڑنا چاہتا تھا۔مسلمانوں کی زیادہ تعداد پیادہ تھی۔خالد کو یقین تھا کہ وہ تین سو سواروں سے ایک ہزار چار سو مسلمانوں کو گھوڑوں تلے روند ڈالے گا، اسے اپنے جنگی فہم و فراست پر اس قدر بھروسہ تھا کہ اس نے تیر انداز دستے کو اپنے ساتھ لانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی۔حالانکہ پہاڑی علاقے میں تیر اندازوں کو بلندیوں پر بٹھا دیا جاتا تو وہ نیچے گزرتے ہوئے مسلمانوں کو چن چن کر مارتے۔
آگے جاکر خالد نے دستے کو ذرا سی دیر کیلئے روکا تو ایک بار پھر اس نے اپنے سواروں کے جذبے کو بھڑکایا۔اسے ان سواروں کی شجاعت پر پورا اعتماد تھا۔مسلمان ابھی دور تھے۔خالد نے شتر بانوں کے بہروپ میں اپنے تین چار آدمی آگے بھیج دیئے تھے جو مسلمانوں کی رفتار کی اور دیگر کوائف کی اطلاعیں دے رہے تھے۔وہ باری باری پیچھے آتے اور بتاتے تھے کہ مسلمان کراع الغیمم سے کتنی دور رہ گئے ہیں ۔خالد ان اطلاعوں کے مطابق اپنے دستے کی رفتار بڑھاتا جا رہا تھا۔مسلمان رسول کریمﷺ کی قیادت میں معمولی رفتار سے اس پھندے کی طرف چلے آ رہے تھے جو ان کیلئے خالد کراع الغیمم میں بچھانے جا رہا تھا۔خالد اس اطلاع کو نہیں سمجھ سکا تھا کہ مسلمان اپنے ساتھ بہت سے دنبے اور بکرے لا رہے ہیں۔اسے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ وہ مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں تو دنبے اور بکرے کیوں ساتھ لا رہے ہیں؟’’انہیں ڈر ہو گا کہ محاصرہ طول پکڑ گیا تو خوراک کم ہو جائے گی۔‘‘خالد کے ایک ساتھی نے خیال ظاہر کیا۔’’اس صورت میں وہ ان جانوروں کاگوشت کھائیں گے۔اس کے سواان جانوروں کا اور کیا استعمال ہو سکتا ہے!‘‘’’بے چاروں کو معلوم ہی نہیں کہ مکہ تک وہ پہنچ ہی نہیں سکیں گے۔‘‘خالد نے کہا ۔’’ان کے دنبے اور بکرے ہم کھائیں گے۔‘‘مسلمان ابھی کراع الغیمم سے پندرہ میل دور عسفان کے مقام پر تھے کہ خالد اس سلسلۂ کوہ میں داخل ہو گیا۔اس نے اپنے دستے کو پہاڑیوں کے دامن میں ایک دوسرے سے دور دور رکنے کو کہا اور خود گھات کی موزوں جگہ دیکھنے کیلئے آگے چلا گیا۔وہ درّے تک گیا۔یہی رستہ تھا جہاں سے قافلے اور دستے گزرا کرتے تھے۔وہ یہاں سے پہلے بھی گزرا تھا لیکن اس نے اس درّے کو اس نگاہ سے کبھی نہیں دیکھا تھا جس نگاہ سے آج دیکھ رہا تھا۔اس نے اس درّے کو دائیں بائیں والی بلندیوں پر جا کر دیکھا۔نیچے آیا۔چٹانوں کے پیچھے گیا،اور گھوڑوں کو چھپانے کی ایسی جگہوں کو دیکھا جہاں سے وہ اشارہ ملتے ہی فوراً نکل آئیں اور مسلمانوں پر بے خبری میں ٹوٹ پڑیں۔وہ مارچ ۶۲۸ء کے آخری دن تھے۔موسم ابھی سرد تھا مگر خالد کااور اسکے گھوڑے کاپسینہ بہہ رہا تھا۔اس نے گھات کا علاقہ منتخب کرلیا،اور اپنے دستے کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے گھوڑوں کو درّے کے علاقے میں چھپا دیا۔اب اس نے اپنے ان آدمیوں کوجو مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاعیں لاتے تھے ،اپنے پاس روک لیا،کیونکہ خدشہ تھا کہ مسلمان ان کی اصلیت معلوم کر لیں گے۔مسلمان قریب آ گئے تھے۔ رات کو انہوں نے پڑاؤ کیا تھا۔
گلی صبح جب نمازِ فجر کے بعد مسلمان کوچ کی تیاری کر رہے تھے ۔ایک آدمی رسول اﷲﷺ کے پاس آیا۔’’تمہاری حالت بتا رہی ہے کہ تم دوڑتے ہوئے آئے ہو۔‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔’’اور تم کوئی اچھی خبر بھی نہیں لائے۔‘‘’’یا رسول اﷲﷺ! ‘‘مدینہ کے اس مسلمان نے کہا۔’’خبر اچھی نہیں اور اتنی بری بھی نہیں۔مکہ والوں کی نیت ٹھیک نہیں۔میں کل سے کراع الغیمم کی پہاڑیوں میں گھوم پھر رہا ہوں ،خدا کی قسم!مجھے وہ نہیں دیکھ سکے جنہیں میں دیکھ آیا ہوں۔میں نے ان کی تمام نقل و حرکت دیکھی ہے۔‘‘’’کون ہیں وہ؟‘‘’’اہلِ قریش کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟‘‘اس نے جواب دیا۔’’وہ سب گھڑ سوار ہیں اور درّے کے ارد گرد کی چٹانوں میں چھپ گئے ہیں۔‘‘’’تعداد؟‘‘’’تین اور چار سوکے درمیان ہے۔‘‘رسولِ کریمﷺ کے اس جاسوس نے کہا۔’’میں نے اگر صحیح پہچانا ہے تو وہ خالد بن ولید ہے جس کی بھاگ دوڑ کو میں سارادن چھپ چھپ کے دیکھتا رہا ہوں۔میں اتنی قریب چلا گیا تھا کہ وہ مجھے دیکھتے تو قتل کر دیتے۔خالد نے اپنے سواروں کودرّے کے ارد گرد پھیلا کر چھپا دیا ہے۔کیا یہ غلط ہو گا کہ وہ گھات میں بیٹھ گئے ہیں؟‘‘’’مکہ والوں کو ہمارے آنے کی اطلاع ملی تو وہ سمجھے ہوں گے کہ ہم مکہ کا محاصرہ کرنے آئے ہیں۔‘‘صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے کہا۔’’قسم خدا کی! جس کے ہاتھ میں ہم سب کی جان ہے۔‘‘رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا۔’’اہلِ قریش مجھے لڑائی کیلئے للکاریں گے تو بھی میں نہیں لڑوں گا۔ہم جس ارادے سے آئے ہیں اس ارادے کو بدلیں گے نہیں۔ہماری نیت مکہ میں جاکر عمرہ کرنے کی ہے اور ہم یہ دنبے اور بکرے قربانی کرنے کیلئے ساتھ لائے ہیں۔میں اپنی نیت میں تبدیلی کرکے خدائے ذوالجلال کو ناراض نہیں کروں گا۔ہم خون خرابہ کرنے نہیں عمرہ کرنے آئے ہیں۔‘‘’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ ایک صحابیؓ نے پوچھا۔’’وہ درّے میں ہمیں روکیں گے تو کیا ہم پر اپنے دشمن کا خون خرابہ جائز نہیں ہو گا؟‘‘صحابہ کرامؓ رسولِ خداﷺ کے ارد گرد اکھٹے ہو گئے۔ اس صورتِ حال سے بچ کر نکلنے کے طریقو ں پر اور راستوں پر بحث و مباحثہ ہوا۔رسولِ کریمﷺ اچھے مشورے کو دھیان سے سنتے اور اس کے مطابق حکم صادر فرماتے تھے۔ آخر رسولِ خداﷺ نے حکم صادر فرمایا۔آپﷺ نے بیس گھوڑ سوار منتخب کیے اور انہیں ان ہدایات کے ساتھ آگے بھیج دیا کہ وہ کراع الغیمم تک چلے جائیں لیکن درّے میں داخل نہ ہوں ۔وہ خالد کے دستے کا جائزہ لیتے رہیں اور یہ دستہ ان پر حملہ کرے تو یوں لڑیں کہ پیچھے کو ہٹتے آئیں اور بکھر کر رہیں۔تاثر یہ دیں کہ یہ مدینہ والوں کا ہراول جَیش ہے۔ان بیس سواروں کو دعاؤں کے ساتھ روانہ کرکے باقی اہلِ مدینہ کا راستہ آپﷺ نے بدل دیا۔آپﷺ نے جو راستہ اختیار کیا وہ بہت ہی دشوار گزار تھااور لمبا بھی تھا۔ لیکن آپﷺ لڑائی سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ایک مشکل یہ بھی تھی کہ اہلِ مدینہ میں کوئی ایک آدمی بھی نہ تھا جو اس راستے سے واقف ہوتا۔یہ ایک اور درّہ تھا جو مثنیہ المرار کہلاتا تھا۔اسے ذات الحنظل بھی کہتے تھے۔رسولِ کریمﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس درّے میں داخل ہو گئے اور سلسلۂ کوہ کے ایسے راستے سے گزرے جہاں سے کوئی نہیں گزرا کرتا تھا۔وہ راستہ کسی کے گزرنے کے قابل تھا ہی نہیں۔خالد کی نظریں مسلمانوں کے ہراول دستے پر لگی ہوئی تھیں۔لیکن ہراول کے یہ بیس سوار رک گئے تھے۔کبھی ان کے دو تین سوار درّے تک آتے اور اِدھر اُدھر دیکھ کر واپس چلے جاتے۔اگروہ بیس کے بیس سوار درّے میں آ بھی جاتے تو خالد انہیں گزر جانے دیتا کیونکہ اس کا اصل شکار تو پیچھے آ رہا تھا۔ان بیس سواروں پر حملہ کرکے وہ اپنی گھات کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتا تھا۔یہ کوئی پرانا واقعہ نہیں تھا۔چند دن پہلے کی بات تھی۔خالد پریشان ہو رہا تھا کہ مسلمانوں کا لشکر ابھی تک نظر نہیں آیا،کیااس نے کوچ ملتوی کر دیا ہے یا اسے گھات کی خبر ہو گئی ہے؟اس نے اپنے ایک شتر سوار سے کہا کہ وہ اپنے بہروپ میں جائے اور دیکھے کہ مسلمان کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟اس دوران بیس مسلمان سواروں نے اپنی نقل و حرکت جاری رکھی ،ایک دو مرتبہ وہ درّے تک آئے اورذرا رک کر واپس چلے گئے۔ ایک دو مرتبہ وہ پہاڑیوں میں کسی اور طرف سے داخل ہوئے۔خالد چھپ چھپ کر اُدھر آ گیا۔وہ سوار وہاں سے بھی واپس چلے گئے۔اس طرح انہوں نے خالد کی توجہ اپنے اوپر لگائے رکھی۔خالد کے سوار اشارے کے انتظار میں گھات میں چھپے رہے۔
سورج غروب ہو چکا تھا جب خالد کا شتر سوار جاسوس واپس آیا۔’’وہ وہاں نہیں ہیں۔‘‘جاسوس نے خالدکو بتایا۔’’ کیا تمہاری آنکھیں اب انسانوں کو نہیں دیکھ سکتیں؟‘‘خالد نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ ’’صرف ان انسانوں کو دیکھ سکتی ہیں جوموجود ہوں۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’جو نہیں ہیں وہ نہیں ہیں۔وہ کوچ کر گئے ہیں۔کدھر گئے ہیں ؟میں نہیں بتا سکتا۔‘‘خالد اور زیادہ پریشان ہو گیا۔صحرا کی شام گہری ہو گئی تو اس نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے ہراول کے سوار بھی وہاں نہیں ہیں ۔اسے ان کے کسی گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔صبح طلوع ہوئی تو خالد نے اسی درّے سے نکل کے دیکھا۔بیس سوار غائب تھے۔اسے اپنی ناکامی کا احساس ہونے لگا۔اس کے ارادے اور اس کے جنگی منصوبے خاک میں ملتے نظر آئے۔اس نے سوچا کہ وہ خود عسفان تک چلا جائے لیکن پہچانے جانے کے ڈر سے رکا رہا۔اس نے دو تین آدمی اونچی پہاڑیوں پر بھیج دیئے کہ وہ ہر طرف نظر رکھیں۔دن آدھا گزر گیا تھا۔اسے کوئی اطلاع نہ ملی۔مسلمانوں کے ہراول کے بیس سواربھی نظر نہ آئے۔اسے توقع تھی کہ وہ آئیں گے۔دوپہر کے لگ بھگ اس کا ایک سوار گھوڑا سر پٹ دوڑتا اس کے پاس آ کر رکا۔’’میرے ساتھ چلو۔‘‘سوار نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا۔’’جو میں نے دیکھا ہے وہ تم بھی دیکھو۔‘‘’’کیا دیکھاہے تم نے؟‘‘
’’گَرد۔‘‘سوار نے کہا۔’’خدا کی قسم! وہ گرد کسی قافلے کی نہیں ہو سکتی۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ مسلمانوں کا لشکر ہو؟‘‘خالد نے گھوڑے کو ایڑلگائی اور مکہ کی سمت پہاڑی علاقے سے نکل گیا۔اسے زمین سے گرد کے بادل اٹھتے دکھائی دیئے۔’’خدا کی قسم! ‘‘خالد نے کہا۔’’قبیلۂ قریش میں کوئی ایسا نہیں جو محمدﷺ جیسا دانشمند ہو۔وہ میری گھات سے نکل گیا ہے۔‘‘مسلمان رسول اﷲﷺ کی قیادت میں کراع الغمیم کی دوسری طرف سے مکہ کی طرف نکل گئے تھے۔رات کو ان کے بیس سوار بھی دور کے راستے سے ان کے پیچھے گئے اور ان سے جا ملے تھے۔خالد نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگائی۔وہ کراع الغمیم کے اندر چِلّاتا اور گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا پھر رہا تھا۔’’باہر آجاؤ۔مدینہ والے مکہ کو چلے گئے ہیں۔تمام سوار سامنے آؤ۔‘‘تھوڑی سی دیر میں اس کے تین سو گھڑ سوار اس کے پاس آ گئے۔
’’وہ ہمیں دھوکا دے گئے ہیں۔‘‘خالد نے اپنے سواروں سے کہا۔’’تم نہیں مانو گے۔وہ گزر گئے ہیں۔گزرنے کا کوئی دوسرا رستہ نہیں ہے۔ہمیں اب زندگی اور موت کی دوڑ لگانی پڑے گی۔سست ہو جاؤ گے تو وہ مکہ کا محاصرہ کر لیں گے وہ بازی جیت جائیں گے۔‘‘آج مدینہ کے رستہ پر جب مدینہ قریب رہ گیا تھا۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ اسے مکہ پر مسلمانوں کے قبضے کا ڈر تو تھا لیکن وہ رسولِ کریمﷺ کی اس چال پر عش عش کر اٹھا تھا۔وہ خود فن ِ حرب و ضرب اور عسکری چالوں کا ماہر اور دلدادہ تھا۔وہ سمجھ گیا کہ رسول اﷲﷺ نے اپنے ہراول کے بیس سوار دھوکا دینے کیلئے بھیجے تھے۔سواروں اسے کامیابی سے دھوکا دیا۔اس کی توجہ کو گرفتار کیے رکھا۔اور مسلمان دوسری طرف سے نکل گئے۔’’یہ جادو نہیں۔‘‘خالد نے اپنے آپ سے کہا۔’’اگر اپنے قبیلے کی سرداری مجھے مل جائے تو جادو کے یہ کرتب میں بھی دِکھا سکتا ہوں۔‘‘یہ صحیح تھا کہ اس کے باپ نے اسے ایسی عسکری تعلیم و تربیت دی تھی کہ وہ میدانِ جنگ کا جادوگر کہلا سکتا تھا مگر اس کے اوپر ایک سردار تھا۔ابو سفیان۔وہ قبیلے کا سالارِ اعلیٰ بھی تھا۔اس کے ماتحت خالداپنی کوئی چال نہیں چل سکتا تھا۔اپنی اس مجبوری نے اس کے دل میں ابو سفیان کی نفرت پیدا کر دی تھی۔اسے چند دن پہلے کا یہ واقعہ یاد آ رہا تھا۔ایک ہزار چار سو مسلمان اس کی گھات کو دھوکا دے کر مکہ کی طرف نکل گئے تھے۔اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ تین سو سواروں سے مسلمانوں پر عقب سے حملہ کر دے۔اسے احساس تھا کہ جو مسلمان قلیل تعداد میں کثیر تعداد کے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں انہیں تین سو سواروں سے شکست نہیں دی جا سکتی۔کیونکہ وہ کثیر تعداد میں ہیں۔اسے مکہ ہاتھ سے جاتا نظر آنے لگاتھااور اسے یہ خفّت بھی محسوس ہونے لگی تھی کہ اس کی گھات کی ناکامی پر ابو سفیان اسے طعنہ دے گااور ہنسی اڑائے گا۔پھر اسے قریش کی شکست اور مکہ کے سقوط کا مجرم کہا جائے گا۔اس نے اپنے سواروں کو ایک رستہ سمجھا کر کہا کہ مسلمانوں سے پہلے مکہ پہنچنا ہے۔یہ دور کا رستہ تھالیکن وہ مسلمانوں کی نظروں سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کے تین سو سواروں نے گھوڑوں کو ایڑیں لگا دیں۔رستہ لمبا ہونے کی وجہ سے تین میل کا فاصلہ ڈیڑھ گنا ہو گیا تھا جسے خالد رفتار سے کم کرنے کے جتن کر رہا تھا۔عربی نسل کے اعلیٰ گھوڑے شام سے بہت پہلے مکہ پہنچ گئے۔وہاں مسلمانوں کی ابھی ہوا بھی نہیں پہنچی تھی۔مکہ کے لوگ گھوڑوں کے شور روغل پر گھروں سے نکل آئے۔ابو سفیان بھی باہر آ گیا۔’’کیا تمہاری گھات کامیاب رہی؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔
’’وہ گھات میں آئے ہی نہیں۔‘‘خالد نے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے کہا۔’’کیا تم مکہ کے ارد گرد ایسی خندق کھُدوا سکتے ہو جیسی محمد ﷺنے مدینہ کے اردگرد کھُدوائی تھی؟‘‘’’وہ کہاں ہیں؟‘‘ابو سفیان نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔’’کیایہ بہتر نہیں ہو گا کہ مجھے ان کی کچھ خبر دو۔‘‘’’جتنی دیر میں تم خبر سنتے اور سوچتے ہو ،اتنی دیر میں وہ مکہ کو محاصرہ میں لے لیں گے۔‘‘خالد نے کہا۔’’ہبل اور عزیٰ کی عظمت کی قسم!وہ پہاڑوں اور چٹانوں کو روندتے آ رہے ہیں۔اگر وہ کراع الغمیم میں سے کسی اور رستہ سے گزرے ہیں تو وہ انسان نہیں۔کوئی پیادہ وہاں سے اتنی تیزی سے نہیں گزرسکتا جتنی تیزی سے وہ گزر آئے ہیں۔‘‘
’’خالد !‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ذرا ٹھنڈے ہوکر سوچو۔خداکی قسم!گھبراہٹ سے تمہاری آواز کانپ رہی ہے۔‘‘’’ابو سفیان!‘‘ خالدنے جل کر کہا۔’’تم میں صرف یہ خوبی ہے کہ تم میرے قبیلے کے سردار ہو ۔میں تمہیں یہ بتا رہا ہوں کہ ان کیلئے مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا کوئی مشکل نہیں۔‘‘خالد نے دیکھا کہ اس کے دو ساتھی سالار عکرمہ اور صفوان قریب ہی کھڑے تھے۔خالد نے ان سے کہا۔’’آج بھول جاؤ کہ تمہارا سردار کون ہے۔صرف یہ یاد رکھو کہ مکہ پر طوفان آ رہا ہے ۔اپنی آن کو بچاؤ، یہاں کھڑے ایک دوسرے کا منہ نہ دیکھو۔اپنے شہر کو بچاؤ،اپنے دیوتاؤں کو بچاؤ۔‘‘سارے شہر میں بھگدڑ بپا ہو گئی تھی۔لڑنے والے لوگ برچھیاں تلواریں اور تیر کمان اٹھائے مکہ کے دفاع کو نکل آئے۔عورتوں اور بچوں کو ایسے بڑے مکانوں میں منتقل کیا جانے لگاجو قلعوں جیسے تھے۔جوان عورتیں بھی لڑنے کیلئے تیار ہو گئیں۔یہ ان کے شہر اور جان و مال کا ہی نہیں ان کے مذہب کا بھی مسئلہ تھا۔یہ دو نظریوں کی ٹکر تھی۔لیکن خالد اسے اپنے ذاتی وقار کا اوراپنے خاندانی وقار کا بھی مسئلہ سمجھتا تھا۔اس کا خاندان جنگ و جدل کیلئے مشہور تھا۔اس کے باپ کو لوگ عسکری قائد کہا کرتے تھے۔خالد اپنے خاندان کے نام اور خاندانی روایات کو زندہ رکھنے کی سر توڑ کوشش کر رہاتھا۔اس نے ابو سفیان کو نظر انداز کر دیا۔عکرمہ اور صفوان کو ساتھ لیااور ایسی چالیں سوچ لیں جن سے وہ مسلمانوں کو شہر سے دور رکھ سکتا تھا۔اس نے سواروں کی کچھ تعداد اس کام کیلئے منتخب کر لی کہ یہ سوار شہر سے دور چلے جائیں اور مسلمان اگر محاصرہ کر لیں تو یہ گھوڑ سوار عقب سے محاصرے پر حملہ کر دیں مگر وہاں جم کر لڑیں نہیں۔بلکہ محاصرے میں کہیں شگاف ڈال کر بھاگ جائیں۔شہر میں افراتفری اور لڑنے والوں کی بھاگ دوڑ اور للکار میں چند ایک عورتوں کی مترنم آوازیں سنائی دینے لگیں۔ان کی آوازیں ایک آواز بن گئی تھی۔وہ رزمیہ گیت گا رہی تھیں۔جس میں رسول اﷲﷺ کے قتل کا ذکر تھا۔بڑا جوشیلا اور بھڑکا دینے والا گیت تھا۔یہ عورتیں گلیوں میں یہ گیت گاتی پھر رہی تھیں۔چند ایک مسلّح شتر سواروں کی مدینہ کی طرف سے آنے والے رستے پر اور دو تین اورسمتوں کو دوڑا دیا گیاکہ وہ مسلمانوں کی پیشقدمی کی خبریں پیچھے پہنچاتے رہیں۔عورتیں اونچے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر مدینہ کی طرف دیکھ رہی تھیں۔سورج افق میں اترتا جا رہا تھا۔صحرا کی شفق بڑی دلفریب ہوا کرتی ہے مگر اس شام مکہ والوں کو شفق میں لہو کے رنگ دِکھائی دے رہے تھے۔کہیں سے،کسی بھی طرف سے گرد اٹھتی نظر نہیں آ رہی تھی۔
’’انہیں اب تک آ جانا چاہیے تھا۔‘‘خالدنے عکرمہ اور صفوان سے کہا۔’’ہم اتنی جلدی خندق نہیں کھود سکتے۔‘‘’’ہم خندق کا سہارا لے کر نہیں لڑیں گے۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’ہم ان کے محاصرے پر حملے کریں گے۔‘‘صفوان نے کہا ۔’’ان کے پاؤں جمنے نہیں دیں گے۔‘‘سورج غروب ہو گیا۔رات گہری ہونے لگی۔کچھ بھی نہ ہوا۔مکہ میں زندگی بیدار اور سرگرم رہی۔جیسے وہاں رات آئی ہی نہ ہو۔عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قلعوں جیسے مکانوں میں منتقل کر دیا گیا تھا اور جو لڑنے کے قابل تھے وہ اپنے سالاروں کی ہدایات پر شہر کے اردگرد اپنے مورچے مضبوط کررہے تھے۔رات آدھی گزر گئی۔مدینہ والوں کی آمد کے کوئی آثا ر نہ آئے۔پھر رات گزر گئی۔’’خالد!‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔’’کہاں ہیں وہ؟‘‘’’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ نہیں آئیں گے تو یہ بہت خطرناک فریب ہے جو تم اپنے آپ کو دے رہے ہو۔‘‘ خالد نے کہا ۔’’محمدﷺ کی عقل تک تم نہیں پہنچ سکتے ،جو وہ سوچ سکتا ہے وہ تم نہیں سوچ سکتے۔ وہ آئیں گے۔‘‘اس وقت تک مسلمان چند ایک معرکے دوسرے قبیلوں کے خلاف لڑکر اپنی دھاک بِٹھا رہے تھے۔ ان میں غزوۂ خیبر ایک بڑا معرکہ تھا انہیں جنگ کا تجربہ ہو چکا تھا۔’’ابو سفیان !‘‘خالد نے کہا۔’’ میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ مسلمان اب وہ نہیں رہے جو تم نے اُحد میں دیکھے تھے۔ اب وہ لڑنے کے ماہر بن چکے ہیں ان کا ابھی تک سامنے نہ آنا بھی ایک چال ہے۔‘‘ابو سفیان کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ ایک شتر سوار نظر آیا۔ جس کا اونٹ بہت تیز رفتار سے دوڑتا آیا تھا ۔ابو سفیان اور خالدکے قریب آکر اس نے اونٹ روکا اور کود کر نیچے آیا۔ ’’میری آنکھوں نے جو دیکھا ہے وہ تم نہیں مانو گے۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’میں نے مسلمانوں کو حدیبیہ میں خیمہ زن دیکھا ہے۔‘‘’’وہ محمدﷺ اور ا س کا لشکر نہیں ہو سکتا ۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’خدا کی قسم! میں محمد ﷺکو اس طرح پہچانتا ہوں جس طرح تم دونوں مجھے پہچانتے ہو۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’اور میں نے ایسے اور آدمیوں کو بھی پہچانا ہے جو ہم میں سے تھے لیکن ان کے ساتھ جا ملے تھے۔‘‘حدیبیہ مکہ سے تیرہ میل دور مغرب میں ایک مقام تھا ۔رسولِ کریمﷺ خونریزی سے بچنا چاہتے تھے اس لیے آپﷺ مکہ سے دور حدیبیہ میں جا خیمہ زن ہوئے تھے۔
’’ہم ان پر شب خون ماریں گے۔‘‘ خالدنے کہا۔’’ انہیں سستانے نہیں دیں گے۔وہ جس راستہ سے حدیبیہ پہنچے ہیں اس راستے نے انہیں تھکا دیا ہو گا۔ ان کی ہڈیاں ٹوٹ رہی ہوں گی۔ وہ تازہ دم ہو کر مکہ پر حملہ کریں گے۔ ہم انہیں آرام نہیں کرنے دیں گے۔‘‘ ’’ہم انہیں وہاں سے بھگا سکتے ہیں۔‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’چھاپہ مار جَیش تیار کرو۔‘‘رسولِ اکرمﷺ نے اپنی خیمہ گاہ کی حفاظت کا انتظام کر رکھاتھا ۔گھڑ سوار جیش رات کو خیمہ گاہ کے اردگرد گشتی پہرہ دیتے تھے ۔دن کو بھی پہرے کا انتظام تھا۔ ایک اور گھوڑ سوار جیش نے اپنے جیسا ایک گھڑ سوار جیش دیکھا جو خیمہ گاہ سے دور آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا۔ مسلمان سوار ان سواروں کی طرف چلے گئے ۔وہ قریش کے سوار تھے جو وہاں نہ رکے اور دور چلے گئے کچھ دیر بعد وہ ایک اور طرف سے آتے نظر آئے اور مسلمانوں کی خیمہ گاہ سے تھوڑی دور رک کر چلے گئے۔دوسرے روز وہ سوار خیمہ گاہ کے قریب آ گئے ۔اب کے مسلمان سواروں کا ایک جیش جو خیمہ گاہ سے دور نکل گیا تھا واپس آ گیا۔ اس جیش نے ان سواروں کو گھیر لیا ،انہوں نے گھیرے سے نکلنے کیلئے ہتھیار نکال لیے۔ان میں جھڑپ ہو گئی لیکن مسلمان سواروں کے کماندار نے اپنے سواروں کو روک لیا ۔’’انہیں نکل جانے دو۔‘‘جیش کے کماندار نے کہا۔’’ہم لڑنے آئے ہوتے تو ان میں سے ایک کو بھی زندہ نہ جانے دیتے۔‘‘
وہ مکہ کے لڑاکا سوار تھے۔ انہوں نے واپس جا کرابو سفیان کو بتایا۔’’چند اور سواروں کو بھیجو۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ایک شب خون مارو۔‘‘’’میرے قبیلے کے سردار!‘‘ ایک سوار نے کہا۔’’ہم نے شب خون مارنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن ان کی خیمہ گاہ کے اردگرد دن رات گھڑ سوار گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ قریش کے چند اور سواروں کو بھیجا گیا۔انہوں نے شام کے ذرا بعد شب خون مارنے کی کوشش کی لیکن مسلمان سواروں نے ان کے کچھ سواروں کو زخمی کرکے وہاں سے بھگا دیا ۔‘‘مکہ والوں پر تذبذب کی کیفیت طاری تھی۔وہ راتوں کو سوتے بھی نہیں تھے ۔محاصرہ کے ڈر سے وہ ہر وقت بیدار اور چو کس رہتے تھے اور دن گزرتے جا رہے تھے۔ آخر ایک روز مکہ میں ایک مسلمان سوار داخل ہوا۔ یہ حضرت عثمانؓ تھے۔انھوں نے ابوسفیان کے متعلق پوچھا۔ابو سفیان نے دور سے دیکھا اور دوڑا آیا۔ خالد بھی آ گیا ۔ ’’میں محمد رسول اﷲﷺ کاپیغام لے کر آیا ہوں ۔‘‘حضرت عثمانؓ نے کہا۔’’ہم لڑنے نہیں آئے ۔ہم عمرہ کرنے آئے ہیں ۔عمرہ کر کے چلے جائیں گے۔‘‘’’اگر ہم اجازت نہ دیں تو……؟‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔ ’’ہم مکہ والوں کا نہیں خدا کا حکم ماننے والے ہیں۔‘‘حضرت عثمانؓ نے جواب دیا ۔’’ہم اپنے اور اپنی عبادت گاہ کے درمیان کسی کو حائل نہیں ہونے دیا کرتے۔
اگر مکہ کے مکان ہمارے لیے رکاوٹ بنیں گے تو خدا کی قسم! مکہ ملبے اور کھنڈر وں کی بستی بن جائے گی۔اگر یہاں کے لوگ ہمیں روکیں گے تومکہ کی گلیوں میں خون بہے گا۔ ابو سفیان ہم امن کا پیغام لے کر آئے ہیں اور یہاں کے لوگوں سے امن کا تحفہ لے کر جائیں گے۔‘‘خالدکو وہ لمحے یاد تھے جب یہ مسلمان سوار پروقار لہجے میں دھمکی دے رہا تھا ۔خالد کا خون کھول اٹھنا چاہیے تھا لیکن اسے یہ آدمی بڑا اچھا لگا تھا ۔ابوسفیان نے عثمانؓ کو عمرے کی پیشکش بھی کی تھی لیکن اُنھوں نے اپنے نبیﷺ کے بغیر اکیلے عمرہ کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ادھر مذاکرات میں جب زیادہ وقت گزرا تو ہوا کے دوش پر یہ افواہ حدیبیہ پہنچی کے عثمانؓ کو قتل کر دیا گیا ہے۔جس کے جواب میں رسولِ کریمﷺ نے قتلِ عثمانؓ کے انتقام کے لئے اپنے ۱۴ سو جانثاروں سے بیعت لی تھی۔اسی بیعت کو تاریخ میں بیعت رضوان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اور اسی بیعت کی وجہ سے ابو سفیان سمجھوتے پر راضی ہوا تھا۔پھر ایک صلح نامہ تحریر ہوا تھا اسے ’’صلح حدیبیہ ‘‘کا نام دیا گیا۔مسلمانوں کی طرف سے اس پر رسولِ اکرمﷺ نے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو نے دستخط کیے تھے ،اس صلح نامے میں طے پایا تھا کہ مسلمان اور اہلِ قریش دس سال تک نہیں لڑیں گے اور مسلمان آئندہ سال عمرہ کرنے آئیں گے اور مکہ میں تین دن ٹھہر سکیں گے۔ رسولِ کریمﷺ قریش میں سے تھے ۔خالد آپﷺ کو بہت اچھی طرح سے جانتا تھالیکن اب اس نے آپﷺ کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ یہ کوئی اور محمدﷺ ہے ۔وہ ایسا متاثر ہوا کہ اس کے ذہن سے اتر گیا کہ یہ وہی محمد ﷺہے جسے وہ اپنے ہاتھوں قتل کرنے کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔خالد نبی کریمﷺ کو ایک سالار کی حیثیت سے زیادہ دیکھ رہا تھا وہ آپﷺ کی عسکری اہلیت کا قائل ہو گیا تھا ۔صلح حدیبیہ تک مسلمان رسولِ کریمﷺ کی قیادت میں چھوٹے بڑے اٹھائیس معرکے لڑ چکے اور فتح و نصرت کی دھاک بِٹھا چکے تھے۔مسلمان عمرہ کرکے چلے گئے۔ دو مہینے گزر گئے ،ان دو مہینوں میں خالد پر خاموشی طاری رہی لیکن اس خاموشی میں ایک طوفان ا ور ایک انقلاب پرورش پا رہا تھا۔خالد نے مذہب میں کبھی بھی دلچسپی نہیں لی تھی۔ اسے نہ کبھی اپنے بتوں کا خیال آیا تھا نہ کبھی اس نے رسولِ کریمﷺ کی رسالت کو سمجھنے کی کوشش کی تھی ۔مگر اب از خود اس کا دھیان مذہب کی طرف چلا گیا اور وہ اس سوچ میں کھو گیا کہ مذہب کون سا سچا ہے اور انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے۔’’عکرمہ !‘‘ایک روز خالد نے اپنے ساتھی سالار عکرمہ سے جو اس کا بھتیجا بھی تھا کہا۔’’ میں نے فیصلہ کر لیا ہے…… میں سمجھ گیا ہوں۔‘‘ ’’کیا سمجھ گئے ہو خالد؟‘‘عکرمہ نے پوچھا۔’’محمدﷺجادو گر نہیں۔‘‘ خالدنے کہا ۔’’اور محمدﷺ شاعر بھی نہیں ۔میں نے محمدﷺ کو اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیا ہے اور میں نے محمدﷺ کو خدا کا رسول تسلیم کرلیا ہے۔‘‘’’ہبل اور عزیٰ کی قسم! تم مزاق کر رہے ہو۔‘‘ عکرمہ نے کہا۔’’کوئی نہیں مانے گا کہ ولید کا بیٹا اپنا مذہب چھوڑ رہا ہے ۔‘‘
’’ولید کا بیٹا اپنا مذہب چھوڑ چکا ہے۔‘‘ خالد نے کہا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ محمدﷺہمارے کتنے آدمیوں کو قتل کرا چکا ہے ؟‘‘عکرمہ نے کہا۔’’تم ان کے مذہب کو قبول کر رہے ہو جن کے خون کے ہم پیاسے ہیں؟‘‘’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے عکرمہ! ‘‘خالد نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔’’میں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔‘‘اسی شام ابو سفیان نے خالد کو اپنے ہاں بلایا۔عکرمہ بھی وہاں موجود تھا۔ ’’کیا تم بھی محمدﷺکی باتو ں میں آگئے ہو؟‘‘ابو سفیان نے اس سے پوچھا۔’’تم نے ٹھیک سنا ہے ابو سفیان !‘‘خالد نے کہا ۔’’محمدﷺکی باتیں ہی کچھ ایسی ہیں۔‘‘مشہور مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ ابو سفیان قبیلے کا سردار تھا۔ اس نے خالدکا فیصلہ بدلنے کیلئے اسے قتل کی دھمکی دی۔ خالد اس دھمکی پر مسکرا دیا مگر عکرمہ برداشت نہ کر سکا۔حالانکہ وہ خود خالد کے اس فیصلے کیخلاف تھا۔’’ابو سفیان!‘‘عکرمہ نے کہا۔’’میں تمہیں اپنے قبیلے کا سردار مانتا ہوں لیکن خالد کو جو تم نے دھمکی دی ہے وہ میں برداشت نہیں کر سکتا ۔تم خالد کو اپنا مذہب بدلنے سے نہیں روک سکتے۔اگر تم خالد کے خلاف کوئی کارروائی کرو گے تو ہوسکتا ہے کہ میں بھی خالد کے ساتھ مدینہ چلا جاؤں۔‘‘اگلے ہی روز مکہ میں ہر کسی کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔’’خالد بن ولید محمد ﷺکے پاس چلا گیا ہے ……‘‘خالد یادوں کے ریلے میں بہتا مدینہ کو چلا جا رہا تھا ۔اسے اپنا ماضی اس طرح یاد آیا تھا جیسے وہ گھوڑے پر سوار مدینہ کو نہیں بلکہ پیادہ اپنی ماضی میں چلا جا رہا تھا۔ اسے مدینہ کے اونچے مکانوں کی منڈیریں نظر آنے لگی تھیں۔’’خالد!‘‘ اسے کسی نے پکارا لیکن اسے گزرے ہوئے وقت کی آواز سمجھ کر اس نے نظر انداز کر دیا۔اسے گھوڑوں کے ٹاپ سنائی دیئے ،تب اس نے دیکھا۔ اسے دو گھوڑے اپنی طرف آتے دِکھائی دیئے ۔وہ رک گیا۔ گھوڑے اس کے قریب آ کر رک گئے۔ ایک سوار اس کے قبیلے کے مشہور جنگجو ’’عمرو بن العاص‘‘ تھے اور دوسرے عثمان بن طلحہ۔دونوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔’’کیا تم دونوں مجھے واپس مکہ لے جانے کیلئے آئے ہو ؟‘‘خالد نے ان سے پوچھا۔ ’’تم جا کہاں رہے ہو؟‘‘عمرو بن العاص نے پوچھا۔’’اور تم دونوں کہاں جا رہے ہو؟‘‘خالد نے پوچھا۔’’خدا کی قسم! ہم تمہیں بتائیں گے تو تم خوش نہیں ہو گے ۔‘‘عثمان بن طلحہ نے کہا۔’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘
’’بات پوری کرو عثمان ۔‘‘عمرو بن العاص نے کہا۔’’خالد! ہم محمدﷺ کا مذہب قبول کرنے جا رہے ہیں ۔ہم نے محمد ﷺکو خدا کا سچا نبی مان لیا ہے ۔‘‘’’پھر ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں ۔‘‘خالدنے کہا ۔’’آؤ اکھٹے چلیں۔‘‘
وہ ۳۱ مئی ۶۲۸ء کا دن تھا۔جب تاریخِ اسلام کے دو عظیم جرنیل خالد ؓبن ولید اور عمرو ؓبن العاص مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے ساتھ عثمانؓ بن طلحہ تھے ۔تینوں رسولِ کریمﷺ کے حضور پہنچے ۔سب سے پہلے خالدؓ بن ولید اندر گئے۔ ان کے پیچھے عمرو ؓبن العاص اور عثمانؓ بن طلحہ گئے ۔تینوں نے قبولِ اسلام کی خواہش ظاہر کی ۔رسول اﷲﷺ اٹھ کھڑے ہوئے اور تینوں کو باری باری گلے لگایا۔
💟 *جاری ہے ۔ ۔ ۔* 💟

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی