انسانی تہذیب و تمدّن کی بنیاد، باہمی اشتراک اور تعاون پر رکھی گئی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نظامِ ہستی کا سارا کاروبار ایک دوسرے کے تعاون، مدد اور تعلق ہی سےقائم کر رکھاہے کہ کوئی شخص تنہا زندگی گزارنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ نسلِ انسانی کے نتیجے میں خاندانی رشتے وجود میں آئے اور پھر خاندان سے ہم سائیگی کا تعلق رکھنے والے ’’پڑوسی‘‘ کہلائے۔ اور پھر اسی باہمی تعلق، محبّت اور اخوّت سے ایک خوب صورت معاشرہ وجود میں آیا، جس نےہر ایک کو حقوق و فرائض کے اٹوٹ بندھن میں باندھ دیا۔
طلوعِ اسلام کے بعد سرکارِانبیاء، شاہِ دوجہاں، رحمۃ للعالمین، سیّدالمرسلین، خاتم النبیّین، فخرِ موجودات، سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں اور ہم سایوں کے تعلق کو عزّت واحترام کے اعلیٰ مقام سے نوازتے ہوئے اسے جزوِایمانی اور اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش نودی سے مشروط کرکے جنّت کے حصول کا ذریعہ بنادیا۔ جس کی بناء پر ایک نیک، متقّی اور برگزیدہ مسلمان، احکاماتِ خداوندی اور ارشاداتِ نبویؐ کی روشنی میں اپنے پڑوسی کی ناراضی کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔
اب چاہے وہ پڑوسی، محلّے میں ساتھ رہنے والے ہوں یا ساتھ سفر کرنے والے مسافر، کارخانے کے ملازم ہوں یا دفتر میں ساتھ کام کرنے والے افراد، کاروبار میں شریکِ کار ہوں یا ساتھی نمازی۔ سب آپس میں ’’پڑوسی‘‘ ہی تو ہیں۔ سب ایک دوسرے کے لیے محترم بھی ہیں اور مقدّم بھی۔ اسلام نے پڑوسی کو جو بلند مقام اور اعلیٰ مرتبہ عطا فرمایا، اس کا تصوّر دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مختلف آیات میں بہ طورخاص ذکر کیا ہے، جب کہ مختلف مواقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاکسی تخصیص رنگ و نسل، مذہب و قومیت پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کی خصوصیت سے تاکید فرمائی ہے۔ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا، ’’جبرائیل، مجھے ہمسائے کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں برابر وصیّت کرتے رہے۔
یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ وہ اسے وراثت کا مستحق قرار دے دیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری) حضرت ابو امامہؓ فرماتے ہیں کہ ’’حجّۃ الوداع کے موقعے پر رسول اللہؐ اونٹنی پر سوار تھے۔ اس حالت میں، مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا۔ ’’لوگو! میں تمہیں پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیّت کرتا ہوں۔‘‘ آپؐ نے یہ اتنی بار فرمایا کہ میں سمجھنے لگا کہ آپؐ پڑوسی کو وراثت کاحق دار قرار دے دیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری) حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ کے یہاں بہترین دوست وہ ہیں، جو اپنے دوستوں کے لیے بہترین ہیں اور اللہ کے یہاں بہترین وہ ہیں، جو اپنے ہم سایوں کے لیے بہترین ہیں۔‘‘ (ترمذی)۔
ہمسائے کون.....؟:
عموماًکسی بھی محلّے میں مکان کے دائیں بائیں رہنے والے ہمسائے یا پڑوسی کہلاتے ہیں۔ حضرت کعب بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضورؐ کی خدمت میں آکر عرض کیا ’’میں فلاں قبیلے میں اترا ہوں۔ وہ مجھ سے قریب تر ہم سایا ہے، لیکن وہی مجھے زیادہ ایذاء پہنچاتا ہے۔‘‘ یہ سن کر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا ’’مسجد کے دروازے پر اعلان کروادو کہ چالیس گھر تک پڑوس ہے۔
جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں، وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔‘‘ قرب و جوار میں رہنے والوں کے علاوہ سفر کے ساتھی، کارخانے اور دفاتر میں ساتھ کام کرنے والے، کاروبار کے شریکِ کار، درس گاہ کے ساتھی، حتیٰ کہ ایک استاد کے شاگرد بھی درحقیقت ہم سایوں کی طرح ہیں۔
خواہ ان کا تعلق مختصر عرصے کے لیے ہو یا طویل عرصے تک۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو اور ماں، باپ، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، رشتے داروں، ہم سایوں، اجنبی ہم سایوں، رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) مسافروں اور جو لوگ تمہارے زیرِ اثر ہوں، سب کے ساتھ احسان کرو اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور تکبّر کرنے والے، بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ ذوالجلال نے واضح طور پر بتا دیا کہ کون لوگ پڑوسی اور ہمسائے ہیں۔
پھر اس کی بھی وضاحت فرما دی کہ پڑوسی، رشتے دار بھی ہوسکتا ہے اور غیر بھی ۔ اس کے علاوہ جو وقتی طور پرساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں یا سفر میں ساتھ ہوتے ہیں، وہ بھی ہمسائے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’پڑوسی تین قسم کے اور تین درجے کے ہوتے ہیں۔ پہلا وہ، جس کا ایک ہی حق ہوتا ہے اور وہ (حق کے لحاظ سے) سب سے کم درجے کا پڑوسی ہے۔ دوسرا وہ، جس کے دو حق ہوں اور تیسرا وہ پڑوسی، جس کے تین حق ہوں۔ تو ایک حق والا مشرک (غیر مسلم) پڑوسی ہے، جس سے کوئی رشتے داری نہ ہو۔ اس کا صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے اور دو حق والا پڑوسی، وہ ہے، جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلمان (یعنی دینی بھائی) بھی ہو۔
اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہوگا اور دوسرا حق پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے، جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی ہو اور رشتے دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا ہوگا، دوسراپڑوسی ہونے کا اور تیسرارشتے دار کا ہوگا۔‘‘ (معارف الحدیث) پس، معلوم ہوا کہ ہمسائے کے ساتھ جتنا گہراتعلق ہوگا، اتنے ہی اس کے حقوق زیادہ ہوں گے۔
ہم سائیگی کی ترتیب:
جس طرح ہم رشتے داری میں ترتیب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح ہم سائیگی میں بھی ترتیب کا دھیان رکھنے کی ہدایت ہے۔ یعنی جو ہم سایا قریب تر ہے، اس کا حق زیادہ ہے، بہ نسبت اس ہمسائے کے جو دور ہے۔ امّ المومنین، حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہؐ سے دریافت کیا کہ میرے دو ہمسائے ہیں، تو میں ان میں سے کس کو تحفہ دینے میں فوقیت دوں؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا۔ ’’جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔‘‘ (صحیح بخاری)
پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک:پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک حقیقی ایمان کی شرط ہے، یعنی ایک نیک، متقّی مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا اور نیک سلوک کرے۔ابوشریح الکعبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔
جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ مہمان کا احترام کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ یا تو اچھی بات کہے، ورنہ خاموش رہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ) حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ہمسائے کا حق ہے کہ اگر وہ بیمار ہو، تو اس کی عیادت کرے۔
اگر وہ وفات پاجائے، تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔ اگر اسے مدد کی ضرورت ہو، تو اس کی مدد کرے۔ اگر وہ کچھ قرض یا ادھار مانگے، تو اسے استطاعت کے مطابق قرض دے۔ اگر غریب ہو، تو حاجت روائی کرے۔ اگر وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو، تو اسے تسلّی و دلاسا دے۔ اگر وہ کوئی برا کام کر بیٹھے، تو اس کی پردہ پوشی کرے۔
اگر اسے کوئی نعمت ملے، تو اسے مبارک باد دے۔ اپنے گھر کی دیوار اتنی بلند نہ کرے کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہوجائے۔ تمہارے گھر کی ہنڈیا کی مہک اسے اذیّت نہ دے۔ اِلّا یہ کہ اس میں سے کچھ اس کے گھر نہ بھیج دو۔‘‘نیک اور باشعور مسلمان حسنِ سلوک کے معاملے میں کبھی بھی پڑوسیوں کے ساتھ مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں کرتا۔ اس کی نظر میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے پڑوسی اچھے اور بہتر سلوک کے مستحق ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے شاگردِخاص، حضرت مجاہدرضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ’’ ایک مرتبہ مَیں حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے گھر میں موجود تھا۔ ان کے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی۔ جب آپؓ تشریف لائے، تواپنے غلام سے پوچھا ’’کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو گوشت (ہدیہ) بھیجا؟‘‘ قریب بیٹھے ایک شخص نے اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیا یہودی کو گوشت بھیجیں گے؟‘‘ مطلب یہ تھا کہ وہ تو غیرمسلم ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ’’ جبرائیل مجھے ہمیشہ پڑوسی کے ساتھ بھلائی اور احسان کی وصیّت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ ہمسائے کو وارث نہ بنادیں۔‘‘ (ترمذی) آج اگر ہم اپنے قرب و جوار میں نظر دوڑائیں، تو ہمیں ایسے بہت سے ہمسائے نظر آئیں گے، جو اپنے پڑوسیوں سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ جائز، ناجائز دولت کے حصول کی ہوس نے ہمیں غرور و تکبّر کی اس منزل پر پہنچا دیا کہ جہاں غریب ہمسائے سے بات کرنا بھی توہین سمجھی جاتی ہے۔ ان کی مدد کرنا، خیریت معلوم کرنا تو دور کی بات ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ اکثر پوش علاقوں میں برسوں تک یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ پڑوس میں کون رہائش پزیر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق ہم سایوں کے حقوق سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
بہترین ہمسائے :
اللہ کے نیک بندوں کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ اس کے پڑوسی اسے اچھا سمجھیں۔ اس سے تعلق رکھنے پر فخر محسوس کریں اور اس کی غیر موجودگی میں اس کی تعریف کریں۔ ایک شخص حضور اکرمؐ کے پاس آیا اور عرض کیا۔ ’’یارسول اللہؐ! مجھے اپنی نیکوکاری اور بدکاری کا کیسے علم ہو؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا۔ ’’جب تم کسی کام کے بارے میں اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے، تو تمہارا کام اچھا ہے اور جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے برا کیا ہے، تو تمہارا کام برا ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ) اور یہ حقیقت ہے کہ اگر کسی شخص کے کردار کے بارے میں کوئی تحقیق مطلوب ہو، تو اس کے پڑوسیوں اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے یا کام کرنے والوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، خاص طور پر شادی بیاہ کے معاملے میں کسی کے ذاتی کردار، رہن سہن اور چال چلن کے بارے میں اس کے ہمسائے زیادہ واقف ہوتے ہیں، چاہے وہ محلّے کے ہوں یا کام کی جگہ کے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے۔ ’’مخلوقِ خدا کی زبان، حق تعالیٰ کا قلم ہے۔‘‘ اس قول کو شیخ ابراہیم ذوق نےشعر کی صورت میں کیا خوب بیان کیا ہے؎بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو.....زبانِ خلق کو نقارئہ خدا سمجھو۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’جب کوئی مسلمان فوت ہوجاتا ہے اور اس کے قریبی پڑوسیوں میں سے تین آدمی اس پر خیر کی گواہی دے دیتے ہیں، تو اللہ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے بندوں کی شہادت ان کے علم کے مطابق قبول کرلی اور جو کچھ میں جانتا ہوں، اسے میں نے معاف کردیا۔‘‘ (مسندِ احمد) حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’بہترین دوست خدا کے نزدیک وہ ہیں، جو اپنے دوستوں کے لیے بہترین ہیں اور بہترین پڑوسی خدا کے نزدیک وہ ہیں، جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہیں۔‘‘ (ترمذی) حضرت نافع بن عبدالحارثؒ بیان کرتے ہیں کہ انسان کی خوش نصیبی میں تین چیزیں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ کشادہ مکان، نیک پڑوسی اور خوش گوار سواری۔
نیک اور بااخلاق پڑوسی اللہ کی عظیم نعمت اور مسلمان کے لیے بڑی سعادت اور خوش نصیبی ہے۔ باشعور مسلمان جب اپنے لیے مکان تلاش کرتا ہے، تو اچھے اور نیک پڑوس کو مدِنظر رکھتا ہے، اس لیے کہ انسان کا صبح شام بلکہ ہر وقت پڑوس سے واسطہ پڑتا ہے۔ روایت ہے کہ محدثِ اعظم، عبداللہ بن مبارکؒ کے پڑوس میں ایک یہودی رہا کرتا تھا۔ یہودی نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا۔
ایک شخص نے مکان کی قیمت کے حوالے سے استفسار کیا تو یہودی نے جواب دیا ’’دو ہزار دینار میں فروخت کروں گا۔‘‘ خریدار نے حیرت و تعجب سے کہا ’’لیکن اس علاقے میں اس قسم کے مکان کی قیمت تو زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دینار ہوتی ہے۔‘‘ یہودی کہنے لگا ’’ہاں! ٹھیک ہے، ایک ہزار دینار تو میرے مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار عبداللہ بن مبارکؒ کے پڑوس کی قیمت ہے۔‘‘ یہ تھا مسلمانوں کا وہ کردار، اخلاقِ حسنہ، شرافت، ملن ساری اور ہم سایوں سے قربت کی نسبت کہ جس کی بناء پر غیر مسلم بھی مسلمانوں کے ساتھ رہنے اور ان کے ہمسائے ہونے پر فخر کرتے تھے۔
صد افسوس کہ اتنا خوب صورت ماضی اور عظیم الشان اخلاقِ حسنہ کی امین اس قوم کے فرزندوں کو آج یورپ و امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں نہ اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے، نہ مکان کرائے پر ملتے ہیں۔ الحمدللہ، پاکستان کے دیہی علاقوں میں اب تک یہ روایت برقرار ہے کہ نیک پڑوسی جب دوسرے علاقے میں منتقل ہوتا ہے، تو اہلِ محلّہ اس سے ملنے پر خوشی اور بچھڑنے پر دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک شاعر نے پڑوسی سے اپنی محبت کا اظہار یوں کیا؎ جب تک پڑوس میں رہا وہ، تو یوں لگا.....جیسے اپنا کوئی آبسا ہو بازو میں میرے۔ اچھے اور نیک لوگوں کی ہم سائیگی کے بارے میں میر تقی میر نے بھی کیا خوب صورت بات لکھی؎ ’’جب غزل میر کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا.....ایک نمی سی دیوار میں آجاتی ہے۔‘‘
تحفے تحائف دینے کی ہدایت:
شریعتِ اسلامی میں پڑوسیوں سے تعلقات کو بہت زیادہ فوقیت دی گئی ہے۔ بعض اوقات وہ رشتے داروں سے بھی زیادہ اہمیت اختیارکرجاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار مرتبہ صحابہ کرام اجمعینؓ کو اس بات کی تلقین کی کہ وہ پڑوسیوں کا بے حد خیال رکھیں، ان سے بہترین تعلقات استوار رکھیں اور انہیں تحفے تحائف دیتے رہا کریں۔
آپؐ نے فرمایا۔ ’’آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا اور لیا کرو، کیوں کہ یہ کینہ کو دور کرتا ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’اے مسلمان عورتو! کوئی عورت اپنی ہم سائی عورت کے ہدیے کو حقیر نہ جانے۔ اگرچہ بکری کا کھر ہی (تحفے میں) ہو۔‘‘ (صحیح بخاری) تحفہ خوب صورت، حسین اور لطیف دلی جذبات و احساسات کا ترجمان ہے۔ معمولی تحفے کو بھی حقیر جاننا نہایت ناپسندیدگی کی بات ہے۔ ہر تحفے کو شکریے اور احترام کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ تحفہ لینے سے انکار بھی نامناسب ہے۔ ہاں، اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس تحفے کے عوض تحفہ دینے والا کسی غیر ضروری مراعت کا طلب گار تو نہیں۔
نبی کریمؐ نے حضرت ابوذرغفاریؓ سے فرمایا۔ ’’اے ابوذر! جب تم شوربے والی کوئی چیز پکائو، تو اس میں شوربا زیادہ کردو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔‘‘ (صحیح مسلم) حضور اکرمؐ کی حدیثِ مبارکہ کے مطابق، تحفے کا پہلا حق دار قریبی ہم سایا ہے۔ اس طرح رشتے داروں میں بھی قریب ترین کا زیادہ حق ہے اور وہ زیادہ حسنِ سلوک کے مستحق ہیں۔
ضروریات کا خیال رکھنا:
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا۔ ’’وہ شخص مومن نہیں، جو خود تو آسودہ ہو، مگر اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔‘‘ (طبرانی) عموماً یہ بات دیکھی گئی ہے کہ پڑوس اور رشتے داروں میں بھی تحفے تحائف اپنے جیسے صاحبِ حیثیت لوگوں ہی کو دیئے جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا حدیث میں نبی آخرالزماںؐ نے بڑے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ ایسا شخص مومن نہیں ہوسکتا، جس کو اپنے ہمسائے کا خیال نہ ہو، لہٰذا یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے ان پڑوسیوں کا خیال رکھیں، جو مالی اعتبار سے ہم سے کم تر ہیں اور جن لوگوں کو ہماری ضرورت ہے، کہے بغیر ان کی معاشی ضروریات پوری کرنے میں ذرا بھی تامّل نہیں برتناچاہیے۔
اچھے مسلمان اپنے غریب ہم سایوں، رشتے داروں اور ضرورت مندوں کی حاجات پوری کرکے دلی اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ یہی آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ ہمارے قرب و جوار میں اور عزیز رشتے داروں میں ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے کہ جن کے گھروں میں بھوک، افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، لیکن وہ اپنی سفید پوشی کی بناء پر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ہمّت نہیں کرتے۔
ایسے لوگوں کی عزّتِ نفس مجروح کیے بغیر خاموشی سے اس طرح مدد کی جانی چاہیے کہ دوسرے ہاتھ کوبھی اس کا علم نہ ہو۔ ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ ’’میں نے حضور اکرمﷺ سے سنا کہ ’’قیامت کے دن کتنے ہی پڑوسی ایسے ہوں گے، جنہوں نے اپنے اپنے پڑوسیوں کو پکڑ رکھا ہوگا اور اللہ کی بارگاہ میں شکایت کرتے ہوئے عرض کریں گے کہ’’اے رب کریم! اس نے مجھے چھوڑ کر اپنا دروازہ بند کرلیا تھا اور مجھے اپنے احسان اور حسنِ سلوک سے محروم رکھا تھا۔‘‘ (درّمنثور) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا۔ ’’کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے۔‘‘ (صحیح مسلم) ایک اور حدیث میں اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں ’’اگر تمہارا ہم سایا تنور میں روٹی پکانا چاہے یا تمہارے پاس ایک دن یا نصف دن کے لیے اپنا سامان رکھنا چاہے، تو اسے منع نہ کرو۔‘‘ ایک اور حدیث میں نبی کریمؐ نے فرمایا۔ ’’جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔‘‘
اذیّت دینے کی ممانعت:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’خدا کی قسم وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہؐ! کون…؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’جس کا ہم سایا اس کی ایذاء رسانیوں سے مامون نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت امام بخاریؒ نے اپنی حدیث کی مشہور کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں روایت کیا ہے۔ ’’میرے پڑوس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جن کے بارے میں وعید سناتے ہوئے رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’تین آدمیوں کے اعمال ضائع ہیں۔ ایک وہ ،جس کے ساتھ احسان کا برتائو کرو، تو شکریہ ادا نہیں کرتا اور کوئی غلطی سرزد ہوجائے، تو معاف نہیں کرتا اور وہ پڑوسی، جو اپنے پڑوس میں کوئی خیر دیکھے، تو خاموش رہے اور اگر کوئی برائی دیکھے، تو اس کا چرچا کرے اور وہ بیوی، جو شوہر کی موجودگی میں اسے تکلیف پہنچائے اور اس کی غیرموجودگی میں خیانت کرے۔‘‘ (طبرانی) اسی طرح ایک اور حدیث میں نبی کریمؐ نے فرمایا۔
’’قیامت کے دن غریب ہم سایا اپنے امیر ہمسائے سے الجھے گا اور اللہ سے فریاد کرے گا۔ ’’اے پروردگار! اس سے مواخذہ کیا جائے کہ یہ میرے ساتھ نیکی سے کیوں گریز کرتا رہا اور اس کے گھر کا دروازہ مجھ پر ہمیشہ کے لیے کیوں بند رہا؟‘‘ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’قیامت کے دن سب سے پہلا مقدمہ دو پڑوسیوں کا پیش ہوگا۔‘‘ پڑوسیوں، ہم سایوں کو اذیت دینا، انہیں پریشان کرنا، ڈرانا، دھمکانا، ان کی بے عزّتی و بے توقیری کرنا، انہیں کم تر سمجھنا، ان کا مذاق اڑانا، انہیں گالیاں دینا اور ان سے نفرت کرنا اسلام میں ناجائز و حرام ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’جس نے پڑوسی کو ایذاء پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی، اس نے خدا کو تکلیف دی اور جس نے پڑوسی سے لڑائی کی، اس نے مجھ سے لڑائی کی اور جس نے مجھ سے لڑائی کی، اس نے رب سے لڑائی کی۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا۔ ’’جو شخص قیامت پر یقین رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے۔‘‘ (صحیح بخاری) بلاشبہ، ایک شری اور فسادی پڑوسی پورے محلّے کی بدنامی کا باعث ہوتا ہے اور اس کے شر سے پورا محلّہ پریشان رہتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے ہمسائے کی شکایت کی، تو آپؐ نے فرمایا۔ ’’صبر کر۔‘‘ وہ شخص پھر دو یا تین مرتبہ آیا، تو حضورؐ نے فرمایا۔ ’’جائو اور اپنا سامان نکال کر راستے میں ڈال دو۔‘‘ چناں چہ اس نے ایسا ہی کیا اور سامان راستے میں ڈال دیا۔ لوگوں نے اس سے اس کا سبب پوچھا، تو اس نے بتایا کہ ’’میرے ہمسائے نے مجھے تنگ کررکھا ہے۔‘‘ یہ سن کر لوگ کہنے لگے۔ ’’اے اللہ! اس پر لعنت کر، اے اللہ! اس کو رسوا کر۔‘‘ یہ بات جب اس کے ہمسائے تک پہنچی، تو وہ دوڑا دوڑا آیا اور کہا۔ ’’اب تم اپنے گھر لوٹ آئو۔ خدا کی قسم میں اب کبھی تکلیف نہ دوں گا۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا۔ ’’یارسول اللہؐ! فلاں عورت بہت زیادہ نمازیں پڑھتی ہے، راتوں کو عبادت کرتی ہے، روزے رکھتی ہے، لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان درازی سے تکلیف پہنچاتی ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’وہ جہنّمی ہے۔‘‘ اس شخص نے کہا۔ ’’ایک دوسری عورت ہے، جو زیادہ روزے رکھتی ہے، نہ زیادہ عبادت کرتی ہے، صرف فرض ادا کرتی ہے، لیکن اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’وہ جنّتی ہے۔‘‘ (مسندِ احمد)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جو شخص اپنے پڑوسی کے گھر میں جھانکے، پھر اپنے مسلمان بھائی کے ستر کی طرف دیکھے یا اس کی بیوی کے بالوں کو دیکھے یا اس کے جسم کے کسی بھی حصّے کو دیکھے، تو اللہ تعالیٰ پر یہ بات واجب ہوجاتی ہے کہ اس جھانکنے والے کو جہنّم میں داخل کردے۔‘‘ (طبرانی) حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’وہ شخص جنّت میں نہیں جائے گا، جس کا پڑوسی اس کے شَر سے محفوظ نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی دعائوں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی ’’اے اللہ! بلاشبہ، میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، برے پڑوسی سے، جو مستقل جائے قیام کے ساتھ رہتا ہو، کیوں کہ جنگل کا ساتھی اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے۔‘‘ (الادب المفرد) مستقل جائے قیام سے مراد مستقل رہائش ہے اور برے پڑوسی کے ساتھ زندگی بھر رہنا، نہایت تکلیف دہ امر ہے۔ اللہ ہمیں برے پڑوسیوں کی صحبت سے محفوظ رکھے۔
پڑوسی خواتین کا احترام، عفت و عصمت کی حفاظت:
نبی کریمؐ نے پڑوس کی خواتین کی عزّت و ناموس کی حفاظت کو فرض قرار دیا ہے۔ حضرت سعید بن المسیبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا ’’ہمسائے کی عزّت و حرمت، ہمسائے کے لیے ماں کی حرمت کی طرح ہے۔ نیک اور باشعور مسلمان پر فرض ہے کہ وہ پڑوس اور ساتھ کام کرنے والی تمام خواتین کا اس طرح احترام کریں، جس طرح اپنی بہنوں اور بیٹیوں کا کرتے ہیں۔
ایک نیک مسلمان نامحرم خواتین سے بات کرتے وقت اپنی نظریں نیچی رکھتا ہے۔ اسی طرح ساتھ کام کرنے والی خواتین کی عزّت و ناموس کی حفاظت، اوّلین فرائض میں شامل ہےکہ اسلام نے مرد کی طرح عورت کو بھی شرعی حدود میں رہتے ہوئے عزّت و تکریم اور وقار کے ساتھ سماجی، معاشرتی میدانوں میں فعال کردا ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔
پڑوسیوں کے حقوق سے متعلق چنداحادیثِ مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم:
٭اللہ کے یہاں بہترین وہ ہیں، جو اپنے ہمسائے کے لیے بہترین ہیں۔ (ترمذی)
٭ہم سایوں کی خبرگیری کرو، ان کی حاجات پوری کرو اور انہیں تحائف دیا کرو۔ (صحیح مسلم)
٭جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔ (صحیح بخاری)
٭سچّا مسلمان اپنے پڑوسی کے ساتھ نرمی کا برتائو کرتا ہے۔ (صحیح مسلم)
٭’’اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں۔ جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری)
٭جو شخص اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین رکھتا ہو، اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ (صحیح بخاری)
٭حضورؐ نے فرمایا’’ حضرت جبرائیل نے مجھے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کی اس قدر تاکید کی کہ مجھے یہ خیال گزرا کہ شاید اسے وارث ہی ٹھہرادیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری)
٭ہم سایوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ (سیرت النبیؐ)
٭نیک پڑوسی بڑی عظیم نعمت ہے۔ (اصلاحی خطبات)
٭برے پڑوسی سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ (نسائی)
٭غریب پڑوسی کی مدد نہ کرنے والا جنّت میں داخل نہ ہوگا۔ (طبرانی)
٭وہ شخص جنّت میں داخل نہ ہوگا، جس کی شرارتوں اور ایذاء رسانیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔ (صحیح مسلم)
٭کسی مسلمان پر روا نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ (صحیح بخاری)
٭جس کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا محبوب بنے، تو وہ اپنے پڑوسی سے حسنِ سلوک کرے۔ (البیہقی)
٭پڑوسی کی ایذاء پر صبر کرنے والوں کی بڑی فضیلت ہے۔ (حضرت ابوذرؓ)
٭پڑوسیوں کو دین سکھانا اور ان سے دین سیکھنا، باعثِ ثواب ہے۔ (معارف الحدیث)
٭وہ شخص مومن نہیں، جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا سوئے۔ (طبرانی)
٭آپس میں ہدیہ لیا اور دیا کرو، کیوں کہ یہ دل کے کینے کو دور کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ)
٭جس ہمسائے کا دروازہ قریب ہو، ہدیہ دینے میں اس کو ترجیح دینی چاہیے۔ (صحیح بخاری)
٭رسول اللہؐ نے حجۃالوداع کے موقعے پر فرمایا۔ ’’لوگو! میں تمہیں پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیّت کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری)
٭تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے، جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ (صحیح مسلم)
٭برا پڑوسی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ (الادب المفرد)
٭ہمسائے کی عزّت و حرمت ہمسائے کے لیے ماں کی حرمت کی طرح ہے۔ (حضرت سعید بن المسیبؓ)
٭پڑوس کی خواتین پر بری نظر ڈالنے والا جہنّم کا حق دار ہے۔ (طبرانی)
٭ہمسائے کے تحفے کو حقیر نہ جانو، چاہے وہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح بخاری)
٭پڑوسی کے گھر جھانکنے والا جہنّم میں داخل کیا جائے گا۔ (طبرانی)
٭نیک پڑوسی سعادت مندی کی نشانی ہے۔ (مجمع الزوائد)
٭اپنے پڑوسی کو اپنی ہانڈی کی خوشبو سے تکلیف نہ پہنچائو۔ (صحیح مسلم)
٭جب تم کوئی شوربے والی چیز پکائو، تو اس میں شوربا زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔ (صحیح مسلم)
٭کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے منع نہ کرے۔ (صحیح بخاری)
٭جب تم میں سے کوئی اپنی جائداد بیچنے کا ارادہ کرے، تو بیچنے سے پہلے اپنے پڑوسی سے اجازت لے۔ (ابنِ ماجہ)
٭وہ شخص جنّت کا مستحق ہے، جو اپنے پڑوس کی بداخلاقیوں، اذیّتوں اور لغزشوں پر صبر کرتا ہے۔ (طبرانی)
٭اللہ ایسے شخص پر رحم نہیں فرماتا، جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (صحیح بخاری)
٭کامل انسان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذاء سے تمام مسلمان محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری/صحیح مسلم)
٭قیامت کے دن کتنے ہی پڑوسی اپنے پڑوسی کو پکڑے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور، اس کے برے سلوک پر فریاد کریں گے۔ (درّمنثور)
ہم سایوں کے حقوق کے حوالے سے امام غزالیؒ کے اقوال:
امام غزالیؒ نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’احیائے علوم الدّین‘‘ میں ہم سایوں کے حقوق کی تفصیل یوں بیان کی ہے۔ ’’ہمسائے کو سلام میں پہل کرے۔ اس سے اکتا دینے والی لمبی گفتگو نہ کرے۔ اس کی باربار مزاج پرسی کرے۔ اگر وہ بیمار ہو، تو اس کی تیمارداری کرے۔ مصیبت میں اسے تسلّی دے اور اس کا ساتھ نہ چھوڑے۔ اس کی اندرونی حالت کی تفصیل جاننے کی کوشش نہ کرے، اگر اسے کوئی خوشی حاصل ہو، تو مبارک باد دے اور اس کی خوشی میں شریک ہو۔ اس کی غلطیوں اور لغزشوں سے درگزر کرے۔
اپنی چھت سے اس کے مکان میں نہ جھانکے۔ اپنا پرنالہ اس کے مکان یا صحن کی طرف رکھنے سے پرہیز کرے۔ اس کے مکان کے سامنے کوڑا کرکٹ نہ ڈالے۔ اس کے گھر میں جانے کا راستہ تنگ نہ کرے۔ جو کچھ وہ اپنے گھر لے جارہا ہو، تو اس پر تاک جھانک نہ کرے۔ اگر اس کا کوئی عیب معلوم ہو، تو اس کو چھپائے اوربہ وقتِ ضرورت اس کا پورا ساتھ دے۔
اس کی عدم موجودگی میں اس کے گھر کا پورا خیال رکھے۔ اس کے خلاف غیبت، چغلی نہ سنے۔ اس کی نوکرانیوں کی طرف نگاہ نہ اٹھائے۔ اس کے بچّوں سے گفتگو میں نرمی رکھے اور لاڈ و پیار کرے۔ دین و دنیا کی جو بات اسے معلوم نہ ہو، تو اس کی رہنمائی کرے۔‘‘
تحریر: محمود میاں نجمی