ان میں سے ایک عالم ہے۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالٰی نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ یہ قول صحیح ہے اس لئے کہ یہ تمام عالمین پر مشتمل لفظ ہے۔ جیسے فرعون کے اس سوال کے جواب میں رب العالمین کون ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آسمانوں زمینوں اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کا رب۔ عالم کا لفظ علامت سے مشتق ہے اس لئے کہ عالم یعنی مخلوق اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے پر نشان اور اس کی وحدانیت پر علامت ہے جیسے کہ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔ تفسیر عثمانیTAFSEER USMANI ف ٢ یعنی سب تعریفیں عمدہ سے عمدہ اول سے آخر تک جو ہوئی ہیں اور جو ہوں گی خدا ہی کو لائق ہیں۔ کیونکہ ہر نعمت اور ہرچیز کا پیدا کرنے والا اور عطا کرنے والا وہی ہے خواہ بلاواسطہ عطا فرمائے یا بواسطہ جیسے دھوپ کی وجہ سے اگر کسی کو حرارت یا نور پہنچے تو حقیقت میں آفتاب کا فیض ہے۔ (حمد رابا تو نسبتے ست درست بردر ہر کہ رفت بردر تست) تو اب اس کا یہ ترجمہ کرنا کہ (ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے) بڑی کوتاہی کی بات ہے جس کو اہل فہم خوب سمجھتے ہیں۔ _____________ الرَّحْمَنِ ا |
__._,_.___
Etihad-e-Islam : Unity of All Muslims.
MARKETPLACE
.
__,_._,___