جمہوریت یا شریعت
وسیم حجازی
انصار اللہ بلاگ کی خصوصی بیشکش
چلو ٹھیک ہے۔۔۔ آئندہ میں کبھی بھی۔۔۔ جمہوریت یا شریعت ۔۔۔ کے موضوع پر گفتگو نہیں کروں گا۔۔۔ لیکن مفتی صاحب۔۔۔۔ میرے دل میں ایک الجھن ہے۔۔۔ جس کی چبھن روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے میرے سینے میں ایک خلش جاگزیر ہوچکی ہے جس نے میرے دن کا سکون اور رات کا چین تک برباد کر ڈالا ہے مفتی صاحب میری آپ سے آخری گزارش ہے کہ خدارا۔۔۔ میرے اس درد کا درمان کردیں اس زہر کا تریاق اور اس مشکل کا کوئی حل بتادیں میرا آپ سے وعدہ رہا کہ پھر کبھی بھی نظاموں کے گورکھ دھندے اور انقلابی نعروں کے چکر میں خود پڑوں گا نہ کسی کا دردِ سر بنوں گا۔
مفتی صاحب : ہاں بولیے
علماء کرام سے سنا ہے کہ جاندار اشیاء کی تصویر کشی حرام اور عنداللہ قابل مواخدہ ہے۔ جس گھر میں کتا یا تصویر ہو وہاں رحمت یزداں کے نورانی فرشتے آنا چھوڑ دیتے ہیں اگر یہ سچ ہے اور یقیناً سچ ہے تو پھر شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور کرنسی نوٹ پر تصویر بنانا اور اسے ہر قوت، حتٰی کہ دوران نماز ان تصاویر کو سینے سے چمٹائے رکھنا یہ سب بھی تو حرام ہے پھر اس ملک کا ہر عالم اور جایل اس گناہِ کبیرہ میں کیوں جان بوجھ کر مبتلا ہے؟
مفتی صاحب
ایسا عمل جائز تو نہیں لیکن ملکی قانون کی وجہ سے مجبوراً جائز ہے۔
علماء کرام نے کہا ہے کہ نا محرم خواتین سے پردہ کرنا اور انسان کا اپنی ستر ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں اگر عورت بیمار ہوجائے تو مرد ڈاکٹر کے سامنے بے پردگی ایک معمول ہے اسی طرح فوج میں بھرتی بالخصوص فضائیہ میں ملازمت کے لئے میڈیکل چیک اپ کے نام پر کسی کے سامنے اپنے جسم کے پوشیدہ حصے ظاہر کرنا لازم ہے ورنہ وہ پائلٹ نہیں بن سکتا تو ایسا کرنا جائز ہے؟
مفتی صاحب
جائز تو نہیں مجبوراً جائز ہے۔
ہمارے معاشرے میں فحاشی، بے حیائی اور کسی کے حقوق غصب کرنے کی چلن عام ہے۔ ملکی قانون کی گرفت کسی مجرم پر تو نہیں البتہ ان جرائم کی روک تھام کرنے والوں پر قانونی شکنجہ فوراً لیا جاتا ہے۔ آیا اپنی آنکھوں سے ایسے گناہ دیکھ کر چپ سادھ لینا جائز ہے؟
مفتی صاحب
جائز تو نہیں مگر آواز اٹھانے یا روک ٹوک کرنے سے فتنے کا قوی اندیشہ ہے اس لئے خاموش رہنا مجبوراً جائز ہے۔ ہاں، دل ہی میں برا کہتا رہے۔
اس ملک میں اوّل تو روزگار ملنا مشکل ہے مل جائے تو دیگر قباحتوں کے علاوہ ایک یہ بھی ہے کہ کام کے دوران نماز کا وقفہ نہیں کیا جاتا، از خود کرنے پر روزگار جاتا ہے، تو کیا یوں نماز موخر کرنا جائز ہے؟ حالانکہ نماز کو وقت میں پڑھنا ضروری ہے۔
مفتی صاحب
جائز تو نہیں مگر مجبوراً جائز ہے۔
یہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ادارے میں ملازمت کے حصول کے لئے مطلوبہ اہلیت ہوتے ہوئے بھی بغیر رشوت کے کام نہیں بنتا۔ تو کیا یوں رشوت دینا جائز ہے؟
مفتی صاحب
جائز تو نہیں مگر مجبوراً جائز ہے۔
مفتی صاحب میری الجھن بدستور موجود ہے۔ کیا یہ اسلامی ملک ہے؟ کیا ہم مسلمان ہیں ؟ آخر یہ کونسی مجبوری ہے جو ناجائز کو جائز، ہر حرام کو حلال اور ہر گناہ کی راہ ہموار کرتی چلی جارہی ہے۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ مجبوری نہیں، بے حسی ہے یہ مجبوری نہیں، بے ہمتی ہے اور یہ مجبوری نہیں، سنگ دلی ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے سامنے شعائراللہ کی توہین ہوتی رہے، خواتین کی عفت و ناموس کا کا تِیا پاچا ہوتا رہے، کروڑوں کی تعداد میں غریب لوگ بھوک سے بلکتے رہیں، بے مائیگی کے باعث سفید پوش طبقہ بیچ چوراہے کے ننگا ہوتا رہے،لسانیت، قومیت اور وطنیت کے نام پر مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا جائے، الحاد، نفرت اور بد اعتمادی کی زہریلی لہر اسلامیان پاک کے ایمان و جان کے لئے خطرہ بن جائے اور ہم بحیثیت مسلمان اس شیطانی کھیل کو مجبوری کی سند جواز مہیا کرکے امام مہدی کے انتظار میں بیٹھے دیکھتے رہیں۔
کیا اسی مجبوری کے لئے پاکستان بنا تھا؟ کیا اسی مجبوری کے لئے لاکھوں سہاگ اجاڑے گئے؟ کیا اسی مجبوری کےلئے بوڑھوں سے ان کے جوان سہارے چھین لئے گئے؟ کیا اسی مجبوری کے لئے معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر چڑھایا گیا؟ کیا اسی مجبوری کے لئے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت عمل میں آئی؟ اور پھر یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ اس مجبوری کی شرعاً کیا حیثیت ہے کسی اِکّا دُکّا حادثے میں وقتی عمل پر قیاس کرکے ناجائز عمل کو مجبوری کے نام پر ہمیشہ کے لئے جائز قرار دے دینا کون سا اسلام اور کہاں کا انصاف ہے؟
کتنی شرمناک حقیقت ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے خطے کے اسلامی مراکز سے ایسے فتوے جاری ہورہے ہیں کہ نفاذ اسلام کے لئے کوشاں افراد کا مبارک عمل ناجائز اور خلافت اسلام پر زبان درازی جائز ہے۔ اور دلیل میں قران و سنت کے زمینی حقائق کو پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ مکر وہ حقائق بھی ہمارے اپنے ہاتھوں کا ہی کیا دھرا ہے مزید برآں یہ حقیقت بھی ناقابل فراموش ہے کہ اپنی زمینی حقائق اور گمراہ کن مجبوری نے حکام کو جلاد، دانشوروں کو ملحد، ڈاکٹروں کو قصاب، ججوں اور وکیلوں کو انصاف فروش، قومی محافظوں کو خونخوار درندے، تعلیم گاہ کو تحزیب گاہ اور علماء کو ملانیت پسند بنا دیا ہے۔ کتنی عجیب سچائی ہے کہ ایک طرف تو غیر مسلم کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی نصیحت کی جاتی ہے اس دلیل پر کہ اس سے ان کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی طاقت کو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں، بجا فرمایا، لیکن اس بدقسمت قوم کو کوئی یہ بھی تو بتائے کہ مسلمانوں کی وہ طاقت جو مسلمانوں ہی کے اسّی فیصد بجٹ سے حاصل کی گئی جب وہ مسلمانی طاقت بھی مسلمانوں کے خلاف استعمال ہونے لگے تو پھر یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں؟؟ کس کے در پر دستک دیں اور کس جگہ امان پائیں؟؟؟
تسلیم کہ ہم عوام نہیں اور یہ بھی منظور کہ عوام کالانعام ہیں، لیکن قوم کے سیاسی علماء اور مذہبی پیشوا تو ایسے نہیں، وہ تو تمام حقیقتوں اور قدرت کے رموز سے بخوبی واقف ہیں سیرت طیبہ اور کردار صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنھم بھی ان کے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے تو بھر کوئی سیاسی یا مذہبی رہنما قوم کی درست رہنمائی کرنے سے کیوں گریزاں ہے ؟ نوجوانانِ امت کی گراں قدر صلاحیتوں کو صحیح مصرف میں کھپانے میں کیوں متردد ہے؟ بس میری آخری گزارش یہی ہے کہ خدارا ۔۔۔۔۔ میرے اس درد کا درمان کردیں۔۔۔۔ اس زہر کا تریاق۔۔۔ اور۔۔۔ اس مشکل کا کوئی حل بتادیں ۔۔۔۔ میرا وعدہ رہا۔۔۔۔ کہ پھر کبھی بھی ۔۔۔ نظاموں کے گورکھ دھندے اور ۔۔۔ انقلابی نعروں کے چکروں میں۔۔۔۔ خود پڑوں گا ۔۔۔ نہ کسی کا دردِ سر بنوں گا۔
ڈاؤن لوڈ کریں:
پی ڈی ایف:
http://www.mediafire.com/?0a22hmk3dy22pnu
ایم ایس ورڈ:
http://www.mediafire.com/?6s67vix2kn8w2q2
--
Posted By Shaykh Abu Safan Alsalafi to SASA784 at 4/01/2011 10:11:00 PM