مکی سورت ہے۔ تراسی آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورت کو قرآن کریم کا دل قرار دیا ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ دل انسانی حیات کا ضامن ہے اور عقیدۂ آخرت ایمانی حیات کا ضامن ہے اور اس سورت میں عقیدۂ آخرت کو مختلف پیرائے میں منفرد انداز پر پیش کیا گیا ہے، جس سے بعث بعد الموت اور آخرت کے عقیدہ کو تقویت ملتی ہے۔ اس لئے سورة یٰسٓ کو قلب قرآن کہا گیا ہے۔
ابتداء میں قرآن کریم کی حکمتوں کا بیان ہے، پھر محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کا اثبات ہے اور کافروں پر ان کے کفر کی بناء پر عذاب کے نازل ہونے کی وعید ہے۔ اس کے بعد منکرین قرآن کی کیفیت کو دو مثالوں میں بیان کیا ہے:
(۱) کافروں نے خود ساختہ پابندیوں اور من گھڑت عقائد میں اپنے آپ کو ایسا جکڑا ہوا ہے جیسے کسی شخص کی گردن میں اس کی ٹھوڑی تک طوق ڈال دیا جائے اور وہ نیچے جھانک کر اپنا راستہ دیکھنے کے قابل بھی نہ رہے۔
(۲) جیسے کسی شخص کے آگے اور پیچھے دیواریں کھڑی کر کے اسے نقل و حرکت سے محروم کر کے کسی بھی چیز کو دیکھنے کے قابل نہ چھوڑا جائے یہی حال کافروں کا ہے کہ وہ صراط مستقیم کو دیکھ کر اس پر گامزن ہونے کے قابل نہیں ہیں۔
اصحاب القریہ کا واقعہ دعاۃ الی اللہ کی تربیت و تسلی کے لئے اور ہر دور کے مشرکین کی ذہنی ہم آہنگی کے اظہار اور وعید سنانے کے لئے بیان کیا ہے۔ انطاکیہ بستی کے مشرکین کے لئے عیسائیت کے تین مبلغین توحید کا پیغام لے کر اس طرح پہنچے کہ پہلے دو مبلغ وہاں آئے۔ انطاکیہ کا ایک باشندہ ’’حبیب نجار‘‘ کسی موذی مرض کا شکار لوگوں سے الگ تھلگ شہر کے کنارے پر رہتا تھا۔ مبلغین کی دعوت قبول کر کے مسلمان ہو گیا، اللہ نے اسے صحت دے کر مال و دولت سے بھی نواز دیا۔ شہر والوں نے مبلغین کی بات نہ مانی، انہیں مارنے پیٹنے اور قتل کی دھمکیاں دینے پر اتر آئے۔ کہنے لگے تمہاری نحوست سے ہم مہنگائی اور باہمی اختلافات کی پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نحوست کی اصل وجہ تمہاری ہٹ دھرمی اور اللہ کے پیغام کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ قوم کی زیادتی اور ظلم کا معلوم ہونے پر اللہ والوں کی حمایت میں حبیب نجار شہر کے کونے سے بھاگتا ہوا آیا اور قوم کو سمجھانے لگا کہ جس اللہ نے ہمیں پیدا کیا اور اسی کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے ہمیں عبادت بھی اسی کی کرنی چاہئے اور مفادات سے بالاتر ہو کر جو لوگ ہمیں پیغام حق پہچانے آئے ہیں ہمیں ان کی دعوت پر ’’لبیک‘‘ کہنا چاہئے مگر قوم اپنے ظلم و ستم سے باز نہ آئی اور قاصدین حق کے قتل پر آمادہ ہو گئی۔
حبیب نجار نے قوم کی بجائے اللہ والوں کا ساتھ دیا اور ایمان کے تحفظ اور دین حق کی حمایت میں اپنی جان داؤ پر لگا دی اور تینوں اللہ والے شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو گئے۔ حق کے دفاع اور حمایت میں اس عظیم الشان قربانی پر اللہ کا نظام غیبی حرکت میں آ گیا اور فرشتے نے فصیل پناہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر ایک زور دار چیخ ماری جس کی ہولناکی اور دہشت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ ٹھنڈے ہو کر رہ گئے۔ انہیں ہلاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کو فرشتوں کے لشکر نہیں بھیجنے پڑے، اس لئے مشرکین مکہ کو مشرکین انطاکیہ کے اس عبرتناک انجام سے سبق سیکھ لینا چاہئے۔
پھر مرنے کے بعد زندگی اور اللہ کی قدرت کاملہ کے دلائل کے طور پر بارش سے مردہ زمین کے اندر زندگی کے آثار، لہلہاتی کھیتیاں، کھجور و انگور کے باغات اور نہروں اور چشموں کی شکل میں آب پاشی کا نظام، انسانی خوراک کے لئے پھل اور سبزیاں اور مختلف سبزیوں کی ترکیب سے انواع و اقسام کے نت نئے کھانے۔ کیا یہ لوگ اس پر بھی اللہ کا شکر کرتے ہوئے آسمانی نظام کی افادیت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ہر چیز کی ’’جوڑوں‘‘ کی شکل میں (نر اور مادہ یا مثبت اور منفی) تخلیق، انسانی زندگی میں مظاہر قدرت کی کار فرمائی، شب و روز کی آمد و رفت کا ایک منظم نظام کہ دن کا غلاف اتاریں تو رات کی تاریکی اور رات کا غلاف ہٹائیں تو دن کا اجالا، چاند سورج کا نظام شمسی کے تحت منٹوں اور سیکنڈوں کی رعایت کے ساتھ اپنے مدار میں نقل و حرکت کرنا کہ ایک دوسرے سے آگے نکل کر دن رات کی آمد و رفت میں کوئی خلل پیدا نہ کر سکیں، اللہ کی قدرت کے واضح دلائل ہیں۔
سمندر میں نقل و حمل کی سہولت کے لئے تیری ہوئی کشتیاں جنہیں اللہ تعالیٰ جب چاہیں اس طرح غرق کر دیں کہ تمہاری آواز بھی نہ نکل سکے اور اس قسم کی کتنی ہی جدید انداز کی سواریاں اللہ پیدا کرتے ہیں، یہ سب اس کی رحمت کے تقاضے کے تحت ایک مقر رہ وقت تک دنیا سے استفادہ کا سامان ہے۔ اس کے بعد تقویٰ اختیار کرنے اور غرباء و مساکین پر خرچ کرنے کی تلقین کے ساتھ مشرکین کی ہٹ دھرمی اور ضلالت کا تذکرہ اور قیامت قائم کرنے کے فوری مطالبہ پر مخصوص اسلوب میں تنبیہ کہ یہ لوگ ایک زور دار چیخ کے منتظر ہیں جو انہیں بھرپور زندگی گزارتے ہوئے اچانک آلے گی اور انہیں اپنے اہل خانہ تک پہنچنے اور کسی قسم کی وصیت کی مہلت بھی نہ مل سکے گی۔
اس کے بعد قیام قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے کہ جیسے ہی صور پھونکا جائے گا لوگ قبروں سے نکل کر اتنی بڑی تعداد میں اپنے رب کے سامنے حاضری کے لئے چل پڑیں گے کہ وہ پھسلتے ہوئے محسوس ہوں گے اور بے اختیار پکار اٹھیں گے کہ ہمیں قبروں سے کس نے نکال باہر کیا، پھر خود ہی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ تو رحمان کے وعدہ کی عملی تفسیر ہے اور رسولوں نے بالکل سچ کہا تھا۔ اس کے بعد ظلم سے پاک محاسبہ اور ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ کے ضابطہ کے مطابق جزاء و سزا کا عمل ہو گا۔ جنت والے اپنے مشغلوں میں شاداں وفرحاں ہوں گے، گھنے سائے میں اپنی بیگمات کے پہلو بہ پہلو مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوئے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے جو طلب کریں گے وہ ان کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ رب رحیم کی طرف سے انہیں ’’سلامیاں‘‘ دی جا رہی ہوں گی۔ اس کے بالمقابل مجرموں کو الگ تھلگ کر کے ان کے اعضاء و جوارح کی گواہی پر جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا۔ اس کے بعد شعرو شاعری کو شان نبوت کے منافی قرار دے کر بتایا کہ یہ واضح قرآن ان لوگوں کے لئے مفید ہے جن میں زندگی کی رمق پائی جاتی ہے۔
پھر کچھ انعامات خداوندی کا تذکرہ کر کے شرک کی مذمت کی گئی ہے اور باطل پرستوں کے اعتراضات سے اثر قبول نہ کرنے کی تلقین ہے اور آخر میں مرنے کے بعد زندہ ہونے پر معرکۃ الآراء انداز میں عقلی دلائل دے کر سورت کو ختم کیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہوا کہ عاص بن وائل نے ایک بوسیدہ ہڈی کو مسل کر فضاء میں تحلیل کرتے ہوئے مذاق کے انداز میں کہا، اس قدر بوسیدہ ہڈیوں کو کون دوبارہ پیدا کر سکے گا؟ اس کا جواب دو طریقہ سے دیا: (۱) جس اللہ نے پہلے اس انسان کو پیدا کیا وہی دوبارہ بھی پیدا کر لے گا۔ (۲) جس اللہ نے آسمان و زمین جیسے مشکل ترین اور بڑے بڑے اجسام کو پیدا کیا وہ انسان جیسی چھوٹی مخلوق کو بہت آسانی سے پیدا کر سکتا ہے۔ کسی بھی بڑے یا چھوٹے کام کے لئے اسے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا پڑتا کہ وہ وجود میں آنے کا حکم دیتے ہوئے ’’کُن“ کہتا ہے تو وہ چیز وجود میں آ جاتی ہے۔
٭٭٭