مختصر تفسیر ِعتیق : سورۃ فاطر


مکی سورت ہے۔ اس میں پینتالیس آیتیں اور پانچ رکوع ہیں۔

 تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے آسمان و زمین کو نئے انداز سے بنایا اور دو دو، تین تین، چار چار پر والوں کو اپنا قاصد بنایا ہے اور جیسے چاہے اس سے زیادہ پروں والی مخلوق بھی بنا سکتا ہے۔ اگر اللہ کسی کو راحت دینے پر آ جائیں تو اسے کوئی روک نہیں سکتا اور اگر وہ کسی کو محروم کرنا چاہے تو اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور کر کے فیصلہ کرو کہ آسمان و زمین میں اس کے علاوہ کون خالق کہلانے کا مستحق ہے۔ اے انسانو! اللہ کا وعدہ سچا ہے، عارضی دنیا اور شیطان کے دھوکہ میں نہ پڑو، شیطان تمہارا ازلی دشمن ہے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو۔ اگر کسی شخص کے اعمالِ بد اس کے سامنے مزین کر دیئے گئے اور وہ انہیں بہت اچھا سمجھنے لگے تو آپ اس پر حسرت و افسوس کا اظہار نہ کریں اللہ ان کے کرتوتوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ پھر ہواؤں کا چل کر بادلوں کو اڑانا اور بنجر زمین کو سیراب کر کے آباد کر دینا مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کی بہت بڑی دلیل ہے۔ 

ساری عزت اللہ ہی کے لئے ثابت ہے، لہٰذا جو عزت چاہتا ہے وہ عزت والے کے دامن سے وابستہ ہو کر ہی اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے۔ پھر انسانی تخلیق کے مراحل کا مختصر تذکرہ اور کارخانۂ قدرت پر کائناتی شواہد پیش کئے جا رہے ہیں۔ میٹھے اور کھارے پانی کے سمندر آپس میں برابر نہیں ہو سکتے، جبکہ دونوں سے زیورات کے لئے موتی، خوراک کے لئے مچھلی کا گوشت حاصل ہوتا ہے اور بار برداری و تجارت کے لئے کشتیاں چلنے پر تمہیں اللہ کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ 

اے انسانو! تم اللہ کے محتاج ہو وہ اگر تمہیں ختم کر کے کسی دوسری قوم کو لانا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اپنا تزکیہ کرنے والا اللہ پر کوئی احسان نہیں کرتا؟ آنکھوں والا اور اندھا، اندھیرا اور روشنی، دھوپ اور سایہ اور مردہ و زندہ کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے آسمان سے پانی برسا کر مختلف ذائقوں اور رنگوں کے پھول اور پھل پیدا کئے اور سفید اور کالے پہاڑ پیدا کئے، چوپائے اور جانور بنائے، صحیح معنی میں اللہ سے ڈرنے والے علماء ہی ہیں۔

 قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اقامت صلوٰۃ کرنے والے اور انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اللہ کے ساتھ ایسی تجارت کر رہے ہیں جس میں کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجر عطا فرما کر اپنے فضل سے اس میں اضافہ بھی کر دے گا۔ وہ بہت قدردان اور بڑا ہی معاف کرنے والا ہے۔ جنت میں جانے والے نہایت خوشی و انبساط کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کر رہے ہوں گے، جبکہ کافر جہنم کے عذاب سے تنگ آ کر چلا رہے ہوں گے کہ ہمیں یہاں سے نکال دو۔ ان کے عذاب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں تمہیں مناسب مہلت دے دی گئی تھی اور تمہیں ڈرانے والا بھی آ گیا تھا۔ اب تمہیں یہی عذاب چکھنا ہو گا۔ تمہارا کوئی معاون و مددگار بھی نہیں ہو گا۔ غیب کا علم اور دلوں کے بھید اللہ ہی جانتا ہے۔ آسمان و زمین کو بھی اللہ نے ہی گرنے سے بچایا ہوا ہے۔ اگر اللہ نے انہیں زائل کر دیا تو کوئی انہیں بچا نہیں سکے گا۔

 کفار کی سازشیں اور تکبر ان کے ایمان لانے کے راستہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ لوگ پہلوں کی سنت کے منتظر ہیں۔ یاد رکھو! اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔ دنیا میں چل پھر کر مجرمین کا عبرتناک انجام دیکھ کر انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کو عاجز کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے جرائم پر پکڑ کرنے لگ جاتے تو کوئی جاندار زمین پر باقی نہ بچتا، لیکن اللہ نے ایک مقر رہ وقت تک انہیں مؤخر کیا ہوا ہے جب وہ وقت آ جائے گا تو یہ لوگ بچ کر نہیں جا سکیں گے۔ اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہے ہیں۔ 
٭٭٭

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی