بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
﴿001:001﴾
[جالندھری] شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
تفسیر
اسم یعنی نام ہی مسمیٰ یعنی نام والا ہے یا کچھ اور اس میں اہل علم کے تین قول ہیں ایک تو یہ کہ اسم ہی مسمی ہے۔ ابوعبیدہ کا اور سیبویہ کا بھی یہی قول ہے۔ باقلانی اور ابن نور کی رائے بھی یہی ہے۔ ابن خطیب رازی اپنی تفسیر کے مقدمات میں لکھتے ہیں۔ حشویہ اور کرامیہ اور اشعریہ تو کہتے ہیں اسم نفس مسمیٰ ہے اور نفس تسمیہ کا غیر ہے اور معزلہ کہتے ہیں کہ اسم مسمی کا غیر ہے اور نفس تسمیہ ہے۔ ہمارے نزدیک اسم مسمی کا بھی غیر ہے اور تسمیہ کا بھی۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اسم سے مراد لفظ ہے جو آوازوں کے ٹکڑوں اور حروف کا مجموعہ ہے تو بالبداہت ثابت ہے کہ یہ مسمی کا غیر ہے اور اگر اسم سے مراد ذات مسمی ہے تو یہ وضاحت کو ظاہر کرتا ہے جو محض بیکار ہے۔ ثابت ہوا کہ اس بیکار بحث میں پڑنا ہی فضول ہے۔ اس کے بعد جو لوگ اسم اور مسمی کے فرق پر اپنے دلائل لائے ہیں ان کا کہنا ہے محض اسم ہوتا ہے مسمی ہوتا ہی نہیں جیسے معدوم کا لفظ۔ کبھی ایک مسمی کے کئی اسم ہوتے ہیں جیسے مشترک۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم اور چیز ہے اور مسمیٰ اور چیز ہے یعنی نام الگ ہے۔ اور نام والا الگ ہے۔ اور دلیل سنئے کہتے ہیں اسم تو لفظ ہے دوسرا عرض ہے۔ مسمیٰ کبھی ممکن یا واجب ذات ہوتی ہے۔ اور سنئے اگر اسم ہی کو مسمیٰ مانا جائے تو چاہئے کہ آگ کا نام لیتے ہی حرارت محسوس ہو اور برف کا نام لیتے ہی ٹھنڈک۔ جبکہ کوئی عقلمند اس کی تصدیق نہیں کرتا۔ اور دلیل سنئے اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ اللہ کے بہت سے بہترین نام ہیں، تم ان ناموں سے اسے پکارو۔ حدیث شریف ہے کہ اللہ تعالٰی کے ننانوے نام ہیں تو خیال کیجئے کہ نام کس قدر بکثرت ہیں حالانکہ مسمی ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالٰی وحدہ لاشریک لہ ہے اسی طرح اسماء کو اللہ کی طرف اس آیت میں مضاف کرنا، اور جگہ فرمانا فسبح باسم ربک العظیم وغیرہ یہ اضافت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ اسم اور ہو اور مسمی اور کیونکہ اضافت کا مقتضا مغائرت ہے۔ اسی طرح یہ وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا وظللہ الاسماء الحسنی یعنی اللہ تعالٰی کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ نام اور ہے نام والا اور ۔ اب ان کے دلائل بھی سنئے جو اسم اور مسمی کو ایک ہی بتاتے ہے۔ تو نام برکتوں والا فرمایا حالانکہ خود اللہ تعالٰی برکتوں والا ہے۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس مقدس ذات کی وجہ سے اس کا نام بھی عظمتوں والا ہے۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ زینت پر طلاق ہے تو طلاق اس کی بیوی جس کا نام زینت ہے ہو جاتی ہے۔ اگر نام اور نام والے میں فرق ہوتا تو نام پر طلاق پڑتی، نام والے پر کیسے پڑتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اس ذات پر طلاق ہے جس کا نام زینت ہے۔ تسمیہ کا اسم سے الگ ہونا اس دلیل کی بنا پر ہے کہ تسمیہ کہتے ہیں کسی کا نام مقرر کرنے کو اور ظاہر ہے یہ اور چیز ہے اور نام والا اور چیز ہے۔ رازی کا قول یہی ہے کہ یہ سب کچھ تو لفظ "باسم" کے متعلق تھا اب لفظ "اللہ" کے متعلق سنئے۔ اللہ خاص نام ہے رب تبارک وتعالیٰ کا۔ کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم یہی ہے اس لئے کہ تمام عمدہ صفتوں کے ساتھ ہی موصوف ہوتا ہے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے ھو اللہ الذی یعنی وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ظاہرو باطن کا جاننے والا ہے، جو رحم کرنے والا مہربان ہے۔ وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، جو بادشاہ ہے پاک ہے، سلامتی والا ہے، امن دینے والا ہے، محافظ ہے، غلبہ والا ہے، زبردست ہے، برائی والا ہے، وہ ہر شرک سے اور شرک کی چیز سے پاک ہے۔ وہی اللہ پیدا کرنے والا ، مادہ کو بنانے والا، صورت بخشنے والا ہے۔ اس کے لئے بہترین پاکیزہ نام ہیں، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ وہ عزتوں اور حکمتوں والا ہے۔ ان آیتوں میں تمام نام صفاتی ہیں، اور لفظ اللہ ہی کی صفت ہیں یعنی اصلی نام اللہ ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ ہی کے لئے ہیں پاکیزہ اور عمدہ عمدہ نام ۔ اللہ تعالٰی نے اپنے تمام (صفاتی) نام خود تجویز فرمائے ہیں٭٭ پس تم اس کو ان ہی ناموں سے پکارو۔ اور فرماتا ہے اللہ کو پکارو۔ یا رحمن کو پکارو جس نام سے پکارو۔ اسی کے پیارے پیارے اور اچھے اچھے نام ہیں۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی کے ننانوے نام ہیں۔ ایک کم ایک سو جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت میں ان ناموں کی تفصیل بھی آئی ہے اور دونوں کی روایتوں میں الفاظ کی کچھ تبدیلی کچھ کمی زیادتی بھی ہے۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالٰی کے پانچ ہزار نام ہیں۔ ایک ہزار تو قرآن شریف اور صحیح حدیث میں ہیں اور ایک ہزار توراۃ میں اور ایک ہزار انجیل میں اور ایک ہزار زبور میں اور ایک ہزار لوح محفوظ میں
اللہ کے مترادف المعنی کوئی نام نہیں!٭٭
اللہ ہی وہ نام ہے جو سوائے اللہ تبارک و تعالٰی کے کسی اور کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عرب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا اشتقاق کیا ہے اس کا باب کیا ہے بلکہ ایک بہت بڑی نحویوں کی جماعت کا خیال ہے کہ یہ اسم جامد ہے اور اس کا کوئی اشتقاق ہے ہی نہیں۔ قرطبی نے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے جن میں حضرت امام شافعی امام خطابی امام الحرمین امام غزالی بھی شامل ہیں۔ خلیل اور سیبویہ سے روایت ہے کہ الف لام اس میں لازم ہے۔ امام خطابی نے اس کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ یا اللہ اصل کلمہ کا نہ ہوتا تو اس پر ندا کا لفظ یا داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ہذا کا الف لام والے اسم پر داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ندا کا لفظ لام والے اسم میں داخل ہونا جائز نہیں۔ بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ مشتق ہے اور اس پر روبہ بن لجاج کا ایک شعر دلیل لاتے ہیں جس میں مصدر تَاَلَہ، کا بیان ہے جس کا ماضی مضارع اَلَہَ یأَلَہ، اَلھتہ اور تالھا ہے جیسے کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ وہ ویذرک الھتک پڑھتے تھے مراد اس سے عبادت ہے۔ یعنی اس کی عبادت کی جاتی ہے اور وہ کسی کی عبادت نہیں کرتا۔ ) مجاہد وغیرہ کہتے ہیں۔ بعض نے اس پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ آیت (وھو اللہ فی السموت وفی الارض) اور آیت میں ہے (وھوالذی فی السماء الہ وفی الارض الہ) یعنی وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں معبود ہے۔ سیبویہ خلیل سے نقل کرتے ہیں کہ اصل میں یہ الہ تھا جیسے فعال پھر ہمزہ کے بدلے الف و لام لایا گیا جیسے"الناس:کہ اس کی اصل "اناس" ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس لفظ کی اصل الاہ ہے الف لام حرف تعظیم کے طور پر لایا گیا ہے۔ سیبویہ کا بھی پسندیدہ قول یہی ہے۔ عرب شاعروں کے شعروں میں بھی یہ لفظ ملتا ہے۔ کسائی اور فرا کہتے ہیں کہ اس کی اصل الالہ تھی ہمزہ کو حذف کیا اور پہلے لام کو دوسرے میں ادغام کیا جیسے کہ آیت (لکنا ھو اللہ ربی) میں لکن انا کا لکنا ہوا ہے۔ چنانچہ حسن کی قرأت میں لکن انا ہی ہے اور اس کا اشتقاق ولہ سے ہے اور اس کے معنی تحیر ہیں ولہ عقل کے چلے جانے کو کہتے ہیں۔ جب وہ جنگل میں بھیج دیا جائے۔ چونکہ ذات باری تعالٰی میں اور اس کی صفتوں کی تحقیق میں عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے اس لئے اس پاک ذات کو اللہ کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر اصل میں یہ لفظ ولاہ تھا۔ واؤ کو ہمزہ سے بدل دیا گیا جیسے کہ وشاح اور وسادۃ میں اشاح اور اسادہ کہتے ہیں۔ رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ الھت الی فلان سے مشتق ہے جو کہ معنی میں "سکنت" کے ہے۔ یعنی میں نے فلاں سے سکون اور راحت حاصل کی۔ چونکہ عقل کا سکون صرف ذات باری تعالٰی کے ذکر سے ہے اور روح کی حقیقی خوشی اس کی معرفت میں ہے اس لئے کہ علی الاطلاق کامل وہی ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں اسی وجہ سے اللہ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہےآیت (الا بذکر اللہ تطمئن القلوب) الخ یعنی ایمانداروں کے دل صرف اللہ تعالٰی کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ لاہ یلوہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھپ جانے اور حجاب کرنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الہ الفصیل سے ہے چونکہ بندے اسی کی طرف تضرع اور زاری سے جھکتے ہیں اسی کے دامن رحمت کا پلہ ہر حال میں تھامتے ہیں، اس لئے اسے اللہ کہا گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب الہ الرجل یالہ اس وقت کہتے ہیں جب کسی اچانک امر سے کوئی گھبرا اٹھے اور دوسرا اسے پناہ دے اور بچا لے چونکہ تمام مخلوق کو ہر مصیبت سے نجات دینے والا اللہ سبحانہ و تعالٰی ہے، اس لئے اس کو اللہ کہتے ہیں۔ جیسے کہ قرآن کریم میں ہے آیت (وھو یجیر ولا یجار علیہ) یعنی وہی بچاتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی نہیں بچایا جاتا (وھو منعم) حقیقی منعم وہی فرماتا ہے تمہارے پاس جنتی نعمتیں ہیں وہ سب اللہ تعالٰی کی دی ہوئی ہیں، وہی مطعم ہے فرمایا ہے وہ کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا۔ وہی موجد ہے فرماتا ہے ہرچیز کا وجود اللہ کی طرف سے ہے۔ رازی کا مختار مذہب یہی ہے کہ لفظ اللہ مشتق نہیں ہے۔ خلیل، سیبویہ اکثر اصولیوں اور فقہا کا یہی قول ہے، اس کی بہت سی دلیلیں بھی ہیں اگر یہ مشتق ہوتا تو اس کے معنی میں بہت سے افراد کی شرکت ہوتی حالانکہ ایسا نہیں پھر اس لفظ کو موصوف بنایا جاتا ہے اور بہت سی اس کی صفتیں آتی ہیں جیسے رحمن، رحیم، مالک، قدوس وغیرہ تو معلوم ہوا کہ یہ مشتق نہیں۔ قرآن میں ایک جگہ آیت (عزیز الحمید اللہ) الخ جو آتا ہے وہاں یہ عطف بیان ہے۔ ایک دلیل ہے اس کے مشتق نہ ہونے کی یہ بھی ہے آیت (ھل تعلم لہ سمیا) یعنی کیا اس کا ہم نام بھی کوئی جانتے ہو؟ لیکن یہ غور طلب ہے واللہ اعلم۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ عبرانی ہے لیکن رازی نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فی الواقع ضعیف ہے بھی۔ رازی فرماتے ہیں کہ "مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو معرفت الٰہی کے کنارے پر پہنچ گئے دوسرے وہ جو اس سے محروم ہیں جو حیرت کے اندھیروں میں اور جہالت کی پرخار وادیوں میں پڑے ہیں وہ تو عقل کو رو بیٹھے اور روحانی کمالات کو کھو بیٹھے ہیں لیکن جو ساحل معرفت پر پہنچ چکے ہیں جو نورانیت کے وسیع باغوں میں جا ٹھہرے جو کبریائی اور جلال کی وسعت کا اندازہ کر چکے ہیں وہ بھی یہاں تک پہنچ کر حیران و ششد رہ گئے ہیں۔ غرض ساری مخلوق اس کی پوری معرفت سے عاجز اور سرگشتہ و یران ہے۔ " ان معانی کی بناء پر اس پاک ذات کا نام اللہ ہے۔ ساری مخلوق اس کی محتاج، اس کے سامنے جھکنے والی اور اس کی تلاش کرنے والی ہے۔ اس حقیقت کی وجہ سے اسے اللہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ خلیل کا قول ہے عرب کے محاورے میں ہر اونچی اور بلند چیز کو "لاہ" کہتے ہیں۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے تب بھی وہ کہتے ہیں لاھت الشمس چونکہ پروردگار عالم بھی سب سے بلند و بالا ہے اس کو بھی اللہ کہتے ہیں۔ اور الہ کے معنی عبادت کرنے اور تالہ کے معنی حکم برداری اور قربانی کے ہیں اور رب عالم کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے نام پر قربانیاں کی جاتی ہیں اس لئے اسے اللہ کہتے ہیں۔ ابن عباس کی قرأت میں ہے ویذرک والھتک اس کی اصل الالہ ہے پس صرف کلمہ کی جگہ جو ہمزہ ہے وہ حذف کیا گیا۔ پھر نفس کلمہ کالام زائد لام سے جو تعریف کے لئے لایا گیا ہے ملا دیا گیا پھر ایک کو دوسرے میں مدغم کر دیا تو ایک لازم مشدد رہ گیا اور تعظیماً اللہ کہا گیا۔ یہ تو تفسیر لفظ "اللہ" کی تھی۔
اَلرَّحمن اور الرحیم کے معنی ٭٭
آیت (الرحمن الرحیم) کا بیان آئے گا یہ دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں۔ دونوں میں مبالغہ ہے الرحمن میں رحیم سے زیادہ مبالغہ ہے۔ علامہ ابن جریر کے قول سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی ان معنوں سے متفق ہیں گویا اس پر اتفاق ہے۔ بعض سلف کی تفسیروں سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ان معنوں پر مبنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول بھی پہلے گزر چکا ہے کہ رحمن سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور رحیم سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رحمن مشتق نہیں ہے اگر یہ اس طرح ہوتا تو مرحوم کے ساتھ ملتا۔ حالانکہ قرآن میں بالمومنین رحیما آیا ہے۔ مبرد کہتے ہیں رحمن عبرانی نام ہے عربی نہیں۔ ابو اسحاق زجاج معانی القرآن میں کہتے ہیں کہ احمد بن یحییٰ کا قول ہے کہ رحیم عربی لفظ ہے اور رحمن عبرانی ہے دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ لیکن ابواسحق فرماتے ہیں "اس قول کو دل نہیں مانتا۔ " قرطبی فرماتے ہیں "اس لفظ کے مشتق ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ترمذی کی صحیح حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ میں رحمن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا۔ " اس صریح حدیث کے ہوتے ہوئے مخالفت اور انکار کرنے کی گوئی گنجائش نہیں۔ رہا کفار عرب کا اس نام سے انکار کرنا یہ محض ان کی جہالت کا ایک کرشمہ تھا۔ قرطبی کہتے ہیں کہ "رحمن اور رحیم کے ایک ہی معنی ہیں اور جیسے ندمان اور ندیم۔ " ابوعبید کا بھی یہی خیال ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فعلان فعیل کی طرح نہیں۔ فعلان میں مبالغہ ضروری ہوتا ہے جیسے غضبان اسی شخص کو کہہ سکتے ہیں۔ جو بہت ہی غصہ والا ہو اور فعیل صرف فاعل اور صرف مفعول کے لئے بھی آتا ہے۔ جو مبالغہ سے خالی ہوتا ہے۔ ابوعلی فارسی کہتے ہیں کہ "رحمن عام اسم ہے جو ہر قسم کی رحمتوں کو شامل ہے اور صرف اللہ تعالٰی کے ساتھ مخصوص ہے۔ رحیم باعتبار مومنوں کے ہے فرمایا ہے آیت (وکان بالمومنین رحیما) مومنون کے ساتھ رحیم ہے۔ " ابن عباس فرماتے ہیں "یہ دونوں رحمت و رحم والے ہیں، ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و رحم ہے۔ " حضرت ابن عباس کی اس روایت میں لفظ ارق ہے اس کے معنی خطابی وغیرہ ارفق کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے کہ "اللہ تعالٰی رفیق یعنی شفیق اور مہربانی والا ہے وہ ہر کام میں نرمی اور آسانی کو پسند کرتا ہے وہ دوسروں پر نرمی اور آسانی کرنے والے پر وہ نعمتیں مرحمت فرماتا ہے جو سختی کرنے والے پر عطا نہیں فرماتا۔ " ابن المبارک فرماتے ہیں "رحمن اسے کہتے ہیں کہ جب اس سے جو مانگاجائے عطا فرمائے اور رحیم وہ ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے وہ غضبناک ہو۔ " ترمذی کی حدیث میں ہے "جو شخص اللہ تعالٰی سے نہ مانگے اللہ تعالٰی اس پر غضبناک ہوتا ہے۔ " بعض شاعروں کا قول ہے۔
اللہ یغضب ان ترکت سوالہ
وبنی ادم حین یسال یغضب
یعنی اللہ تعالٰی سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے اور بنی آدم سے مانگو تو وہ بگڑتے ہیں۔ عزرمی فرماتے ہیں کہ رحمن کے معنی تمام مخلوق پر رحم کرنے والا اور رحیم کے معنی مومنوں پر رحم کرنے والا ہے۔ دیکھئے قرآن کریم کی دو آیتوں آیت (ثم استوی علی العرش اور الرحمن علی العرش استوی) میں استویٰ کے ساتھ رحمن کا لفظ ذکر کیا تاکہ تمام مخلوق کو یہ لفظ اپنے عام رحم و کرم کے معنی سے شامل ہو سکے اور مومنوں کے ذکر کے ساتھ لفظ رحیم فرمایا آیت (وکان بالمومنین رحیما) پس معلوم ہوا کہ رحمن میں مبالغہ بہ نسبت رحیم کے بہت زیادہ ہے۔ لیکن حدیث کی ایک دعا میں یا رحمن الدنیا والاخرۃ ورحیمھما بھی آیا ہے۔ رحمن یہ نام بھی اللہ تعالٰی کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ اللہ کو پکارو یا رحمن کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے آیت (واسئل من ارسلنا) الخ یعنی ان سے پوچھ لو تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے رحمن کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے جب مسیلمہ، کذاب نے بڑھ چڑھ کر دعوے شروع کئے اور اپنا نام رحمن العیامہ رکھا تو پروردگار نے اسے بے انتہا رسوا اور برباد کیا، وہ جھوٹ اور کذب کی علامت مشہور ہو گیا۔ آج اسے مسیلمہ کذاب کہا جاتا ہے اور ہر جھوٹے دعویدار کو اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہر دیہاتی اور شہری ہر کچے پکے گھر والا اسے بخوبی جانتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ رحیم میں رحمن سے زیادہ مبالغہ ہے اس لئے کہ اس لفظ کے ساتھ اگلے لفظ کی تاکید کی گئی ہے اور تاکید بہ نسبت اس کے کہ جس کی تاکید جائے زیادہ قوی ہوتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تاکید ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو صفت ہے اور صفت میں یہ قاعدہ نہیں۔ پس اللہ تعالٰی کا نام لیا گیا اس نام میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں، سب سے پہلے اس کی صفت رحمن بیان کی گئی اور یہ نام رکھنا بھی دوسروں کو ممنوع ہے جیسے فرما دیا کہ اللہ کو یا رحمن کو پکارو جس نام سے چاہو پکارو اس کے لئے اسماء حسنیٰ بہت سارے ہیں۔ مسیلمہ نے بدترین جرأت کی لیکن برباد ہوا اور اس کے گمراہ ساتھیوں کے سوا اس کی کسی کے دل میں نہ آئی۔ رحیم کے وصف کے ساتھ اللہ تعالٰی نے دوسروں کو بھی موصوف کیا ہے۔ فرماتا ہے آیت (لقد جاءکم ) الخ اس آیت میں اپنے نبی کو رحیم کہا، اسی طرح اپنے بعض ایسے ناموں سے دوسروں کو بھی اس نے وابستہ کیا ہے۔ جیسے آیت (انا خلقنا الانسان) الخ میں انسان کو سمیع اور بصیر کہا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہو سکتا جیسے اللہ اور رحمن، خالق اور رزاق وغیرہ اسی لئے اللہ تعالٰی نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت رحمن سے کی۔ اس لئے کہ رحیم کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے۔ قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے، اس لئے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم۔ پھر اس سے کم۔ اگر کہا جائے کہ جب رحمن میں رحیم سے زیادہ مبالغہ موجود ہے پھر اسی پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا؟ تو اس کے جواب میں حضرت عطا خراسانی کا یہ قول پیش کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ کافروں نے رحمن کا نام بھی غیروں کا رکھ لیا تھا اس لئے رحیم کا لفظ بھی ساتھ لگایا گیا تاکہ کسی قسم کا وہم ہی نہ رہے۔ رحمن و رحیم صرف اللہ تعالٰی ہی کا نام ہے۔ ابن جریر نے تاہم اس قول کی تصدیق کی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کے عرب رحمن سے واقف ہی نہ تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک کی آیت (قل ادعوا اللہ وادعوا الرحمن) الخ نازل فرما کر ان کی تردید کی۔ حدیبیہ والے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا تھا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھو تو کفار نے کہا تھا کہ ہم رحمن اور رحیم کو نہیں جانتے۔ بخاری میں یہ روایت موجود ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم رحمن یمامہ کو جانتے ہیں کسی اور رحمن کو نہیں جانتے۔ اسی طرح قرآن پاک میں ہے آیت (واذا قیل لھم اسجدواللرحمن) الخ یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کے سامنے سجدہ کرو تو وہ حیران زدہ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ رحمن کون ہے؟ جسے ہم تیرے قول کی وجہ سے سجدہ کریں۔ درحقیقت یہ بدکار لوگ صرف عناد، تکبر، سرکشی اور دشمنی کی بنا پر رحمن سے انکار کرتے تھے نہ کہ وہ اس نام سے نا آشنا تھے۔ اس لئے کہ جاہلیت کے زمانے کے پرانے اشعار میں بھی اللہ تعالٰی کا نام رحمن موجود ہے جو انہی کے سلامہ اور دوسرے شعراء کے اشعار میں ملاحظہ ہو۔ تفسیر ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس سے کہ رحمن فعلان کے وزن پر رحمت سے ماخوذ ہے اور کلام عرب سے ہے۔ وہ اللہ رفیق اور رقیق ہے جس پر رحم کرنا چاہے اور جس سے غصے ہو اس سے بہت دور اور اس پر بہت سخت گیر بھی ہے اسی طرح اس کے تمام نام ہیں۔ حسن فرماتے ہیں رحمن کا نام دوسروں کے لئے منع ہے۔ خود اللہ تعالٰی کا نام ہے لوگ اس نام پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ ام سلمہ والی حدیث جس میں کہ ہر آیت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرا کرتے تھے۔ پہلے گزر چکی ہے اور ایک جماعت اسی طرح بسم اللہ کو آیت قرار دے کر آیت الحمد کو الگ پڑھتی ہے اور بعض ملا کر پڑھتے ہیں۔ میم کو دو ساکن جمع ہو جانے کی وجہ سے زیر دیتے ہیں۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے کوفی کہتے ہیں کہ بعض عرب میم کے زیر سے پڑھتے ہیں، ہمزہ کی حرکت زبر میم کو دیتے ہیں۔ جیسے آیت (الم اللہ لا الہ الا ھو) ابن عطیہ کہتے ہیں کہ زبر کی قرأت کسی سے بھی میرے خیال میں مروی نہیں۔ آیت (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کی تفسیر ختم ہوئی اب آگے سنئے۔
تفسیر عثمانی
ف١رحمٰن اور رحیم دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں اور رحمٰن میں رحیم سے زیادہ مبالغہ ہے ترجمہ میں ان سب باتوں کا لحاظ ہے۔
_____________
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
﴿001:002﴾
[جالندھری] سب طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
تفسیر ابن كثیر
زمرے
درسِ قرآن