’’سینما کا عشق‘‘ عنوان تو عجب ہوس خیز ہے، لیکن افسوس کہ اس مضمون سے آپ کی تمام توقعات مجروح ہوں گی۔ کیونکہ مجھے تو اس مضمون میں کچھ دل کے داغ دکھانے مقصود ہیں۔
اس سے آپ یہ نہ سمجھئے کہ مجھے فلموں سے دلچسپی نہیں، یا سینما کی موسیقی اور تاریکی میں جو ارمان انگیزی ہے میں اس کا قائل نہیں۔ میں تو سینما کے معاملے میں اوائل عمر ہی سے بزرگوں کا مورد عتاب رہ چکا ہوں، لیکن آج کل ہمارے دوست مرزا صاحب کی مہربانیوں کی طفیل سینما گویا میری ایک دکھتی رگ بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں اس کا نام سن پاتا ہوں بعض دردانگیز واقعات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جس سے رفتہ رفتہ میری فطرت ہی کج بیں بن گئی ہے۔
اول تو خدا کے فضل سے ہم سینما کبھی وقت پر نہیں پہنچ سکے۔ اس میں میری سستی کو ذرا دخل نہیں۔ یہ سب قصور ہمارے دوست مرزا صاحب کا ہے جو کہنے کو تو ہمارے دوست ہیں لیکن خدا شاہد ہے، ان کی دوستی سے جو نقصان ہمیں پہنچے ہیں کسی دشمن کے قبضئہ قدرت سے بھی باہر ہوں گے۔ جب سینما جانے کا ارادہ ہو، ہفتہ بھر پہلے سے انہیں کہہ رکھتا ہوں کہ کیوں بھئی مرزا اگلی جمعرات سینما چلو گے نا! میری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے تیار رہیں اور اپنی تمام مصروفیتیں کچھ اس ڈھب سے ترتیب دے لیں کہ جمعرات کے دن ان کے کام میں کوئی ہرج واقع نہ ہو لیکن وہ جواب میں عجب قدر ناشناسی سے فرماتے ہیں:
’’ارے بھئی چلیں گے کیوں نہیں؟ کیا ہم انسان نہیں؟ ہمیں تفریح کی ضرورت نہیں ہوتی؟ اور پھر کبھی ہم نے تم سےآج تک ایسی بےمروتی بھی برتی ہے کہ تم نے چلنے کو کہا ہو اور ہم نے تمہارا ساتھ نہ دیا ہو؟‘‘
ان کی تقریر سن کر میں کھسیانا سا ہوجاتا ہوں۔ کچھ دیر چپ رہتا ہوں اور پھر دبی زبان سے کہتا ہوں:
’’بھئی اب کے ہوسکا تو وقت پر پہنچیں گے۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘
میری یہ بات عام طور پر ٹال دی جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کا ضمیر کچھ تھوڑا سا بیدار ہوجاتا ہے۔ خیر میں بھی بہت زور نہیں دیتا۔ صرف ان کو بات سمجھانے کے ليے اتنا کہہ دیتا ہوں:
’’کیوں بھئی سینما آج کل چھے بجے شروع ہوتا ہےنا؟‘‘
مرزا صاحب عبی معصومیت کے انداز میں جواب دیتے ہیں۔ ’’بھئی یہ ہمیں معلوم نہیں۔ ‘‘
’’میرا خیال ہے چھے ہی بجے شروع ہوتا ہے۔ ‘‘
’’اب تمہارے خیال کی تو کوئی سند نہیں۔ ‘‘
’’نہیں مجھے یقین ہے۔ چھے بجے شروع ہوتا ہے۔ ‘‘
’’تمہیں یقین ہے تو میرا دماغ کیوں مفت میں چاٹ رہے ہو؟‘‘
اس کے بعد آپ ہی کہئے میں کیا بولوں؟
خیر جناب جمعرات کے دن چار بجے ہی ان کے مکان کو روانہ ہوجاتا ہوں، اس خیال سے کہ جلدی جلدی انہیں تیار کراکے وقت پر پہنچ جائیں۔ دولت خانے پر پہنچتا ہوں تو آدم نہ آدم زاد۔ مردانے کے سب کمروں میں گھوم جاتا ہوں۔ ہر کھڑکی میں سے جھانکتا ہوں ہر شگاف میں سے آوازیں دیتا ہوں، لیکن کہیں سے رسید نہیں ملتی آخر تنگ آکر ان کے کمرے میں بیٹھ جاتا ہوں۔
وہاں دس پندرہ منٹ سیٹیاں بجاتا رہتا ہوں۔ دس پندرہ منٹ پنسل سے بلاٹنگ پیپر پر تصویریں بناتا رہتاہوں، پھر سگریٹ سلگا لیتا ہوں اور باہر ڈیوڑھی میں نکل کر ادھر اُدھر جھانکتاہوں۔ وہاں بدستور ہو کا عالم دیکھ کر کمرے میں واپس آجاتا ہوں اور اخبار پڑھنا شروع کردیتا ہوں۔ ہر کالم کے بعد مرزا صاحب کو ایک آواز دے لیتا ہوں۔ اس امید پر کہ شاید ساتھ کے کمرے میں یا عین اوپر کے کمرے میں تشریف لے آئے ہوں۔ سو رہے تھے تو ممکن ہے جاگ اٹھے ہوں۔ یا نہا رہے تھے تو شاید غسل خانے سے باہر نکل آئے ہوں لیکن میری آواز مکان کی وسعتوں میں سے گونج کر واپس آجاتی ہے۔
آخرکار ساڑھے پانچ بجے کے قریب زنانے سے تشریف لاتے ہیں۔ میں اپنے کھولتے ہوئے خون کوقابو میں لا کر متانت اور اخلاق کو بڑی مشکل سے مدنظر رکھ کر پوچھتا ہوں:
’’کیوں حضرت آپ اندر ہی تھے؟‘‘
’’ہاں میں اندر ہی تھا۔ ‘‘
’’میری آواز آپ نے نہیں سنی؟‘‘
’’اچھا یہ تم تھے؟ میں سمجھا کوئی اور ہے؟‘‘
آنکھیں بند کرکے سر کو پیچھے ڈال لیتا ہوں اور دانت پیس کر غصے کو پی جاتا ہوں اور پھر کانپتے ہوئے ہونٹوں سے پوچھتا ہوں:
’’تو اچھا اب چلیں گے یا نہیں؟‘‘
’’وہ کہاں؟‘‘
’’ارے بندۂ خدا آج سینما نہیں جانا؟‘‘
’’ہاں سینما۔ سینما (یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں) ٹھیک ہے۔ سینما، میں بھی سوچ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ایسی ہے جو مجھے یاد نہیں آ تی ہے۔ اچھا ہوا تم نے یاد دلایا ورنہ مجھے رات بھر الجھن رہتی۔ ‘‘
’’تو چلو پھر اب چلیں۔ ‘‘
’’ہاں وہ تو چلیں گے ہی۔ میں سوچ رہا تھا آج ذرا کپڑے بدل لیتے خدا جانے دھوبی کمبخت کپڑے بھی لایا ہے یا نہیں۔ یار ان دھوبیوں کا تو کوئی انتظام کرو۔ ‘‘
اگر قتل انسانی ایک سنگین جرم نہ ہوتا تو ایسے موقع پر مجھ سے ضرور سرزد ہوجاتا لیکن کیا کروں اپنی جوانی پر رحم کھاتا ہوں۔ بےبس ہوتا ہوں۔ صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ’’مرزا بھئی لِلہ مجھ پر رحم کرو۔ میں سینما چلنے کو آیا ہوں۔ دھوبیوں کا انتظام کرنے نہیں آیا۔ یار بڑے بدتمیز ہو۔ پونے چھے بج چکے ہیں اور تم جوں کے توں بیٹھے ہو۔ ‘‘
مرزا صاحب عجب مربیانہ تبسم کے ساتھ کرسی پر سے اٹھتے ہیں، گویا یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اچھا بھئی تمہاری طفلانہ خواہشات آخر ہم پوری کرہی دیں۔ چنانچہ پھر یہ کہہ کراندر تشریف لےجاتے ہیں کہ اچھا کپڑے پہن آؤں۔
مرزا صاحب کے کپڑے پہنے کا عمل اس قدر طویل ہے کہ اگر میرا اختیار ہوتا قانون کی رو سے انہیں کبھی کپڑے اتارنے ہی نہ دیتا۔ آدھ گھنٹے کے بعد وہ کپڑے پہنے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ ایک پان منہ میں دوسرا ہاتھ میں۔ میں بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ دروازے تک پہنچ کر مڑ کر جو دیکھتا ہوں تو مرزا صاحب غائب۔ پھر اندر آجاتا ہوں۔ مرزا صاحب کسی کونے میں کھڑے کچھ کرید رہےہوتے ہیں۔
’’ارے بھئی چلو۔ ‘‘
’’چل تو رہا ہوں یار۔ آخر اتنی بھی کیا آفت ہے؟‘‘
’’اور یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’پان کے ليے ذرا تمباکو لے رہا تھا۔ ‘‘
تمام رستے مرزا صاحب چہل قدمی فرماتے جاتے ہیں۔ میں ہر دو تین لمحے کے بعد اپنے آپ کو ان سے چارپانچ قدم آگے پاتا ہوں۔ کچھ دیر ٹھہر جاتا ہوں۔ وہ ساتھ آملتے ہیں تو پھر چلنا شروع کردیتا ہوں۔ پھر آگے نکل جاتا ہوں۔ پھر ٹھہرجاتاہوں۔ غرض یہ کہ گو چلتا دگنی تگنی رفتار سے ہوں لیکن پہنچتا ان کے ساتھ ہی ہوں۔
ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوتے ہیں تو اندھیرا گھپ۔ بہتیرا آنکھیں جھپکتا ہوں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ادھر سے کوئی آواز دیتا ہے۔ ’’یہ دروازہ بند کردو جی!‘‘ یاالله اب جاؤں کہاں۔ رستہ، کرسی، دیوار، آدمی، کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔ ایک قدم بڑھاتا ہوں تو سر ان بالٹیوں سے جاٹکراتا ہے جو آگ بجھانے کے ليے دیوار پر لٹکی رہتی ہیں۔
تھوڑی دیر کے بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جہاں ذرا تاریک تر سا دھبہ دکھائی دے جائے۔ وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہوگی۔ خمیدہ پشت ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں۔ اس کے پاؤں کو پھاند، اس کے ٹخنوں کو ٹھکرا۔ خواتین کے گھٹنوں سے دامن بچا، آخرکار کسی کی گود میں جا بیٹھتا ہوں۔ وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی مدد سے کسی خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں۔ مرزا صاحب سے کہتا ہوں: ’’میں نہ بکتا تھا کہ جلدی چلو خواہ مخواہ میں ہم کو رسوا کروادیانا۔ گدھا کہیں کا!‘‘ اس شگفتہ بیانی کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ساتھ کی کرسی پر جو حضرت بیٹھے ہیں اور جن کو میں مخاطب کررہا ہوں وہ مرزا نہیں کوئی اور بزرگ ہیں۔
اب تماشے کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ فلم کون سی ہے۔ اس کی کہانی کیا ہے؟ اور کہاں تک پہنچ چکی ہے؟ سمجھ میں صرف اس قدر آتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت جو پردے پر بغلگیر نظر آتے ہیں، ایک دوسرے کو چاہتے ہوں گے۔ اس انتظار میں رہتا ہوں کہ کچھ لکھا ہوا سامنے آئے، تو معاملہ کھلے کہ اتنے میں سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے حضرت ایک وسیع وفراخ انگڑائی لیتے ہیں، جس کے دوران میں کم از کم دو تین سو فٹ فلم گزر جاتی ہے۔ جب انگڑائی کو لپیٹ لیتے ہیں توپھر سر کو کھجانا شروع کرتے ہیں اور اس عمل کے بعد ہاتھ کو سر سے نہیں ہٹاتے بلکہ بازو کو ویسے ہی خمیدہ رکھتے ہیں۔
میں مجبوراً سر کو نیچا کرکے چائے دانی کے اس دستے کے بیچ میں سے اپنی نظر کے ليے راستہ نکال لیتا ہوں اور اپنے بیٹھنے کے انداز سے بالکل ایسا معلوم ہوتا ہوں جیسے ٹکٹ خریدے بغیر اندر گھس آیا ہوں اور چوروں کی طرح بیٹھا ہوا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد انہیں کرسی کی نشست پر کوئی مچھر یا پسو محسوس ہوتا ہے چنانچہ وہ دائیں سے ذرا اونچے ہو کر بائیں طرف کو جھک جاتے ہیں۔ میں مصیبت کا مارا دوسری طرف جھک جاتا ہوں۔ ایک دو لمحے کے بعد وہی مچھر دوسری طرف ہجرت کرجاتا ہے۔ چنانچہ ہم دونوں پھر سے پنیترا بدل لیتے ہیں۔ غرض یہ کہ یہ دل لگی یوں ہی جاری رہتی ہے وہ دائیں تو میں بائیں اور وہ بائیں تو میں دائیں۔ ان کو کیا معلوم کہ اندھیرے میں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ دل یہی چاہتا ہے کہ اگلے درجے کا ٹکٹ لے کر ان کے آگے جابیٹھوں اور کہوں کہ لے بیٹا! دیکھوں تو اب تو کیسے فلم دیکھتا ہے؟
پیچھے سے مرزا صاحب کی آواز آتی ہے، ’’یار! تم سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا۔ اب جو ہمیں ساتھ لائے ہو تو فلم تو دیکھنے دو۔ ‘‘
اس کے بعد غصے میں آکر آنکھیں بند کرلیتا ہوں اور قتل عمد، خودکشی، زہرخورانی وغیرہ معاملات پر غور کرنے لگتا ہے۔ دل میں کہتا ہوں کہ ایسی کی تیسی اس فلم کی۔ سو سو قسمیں کھاتا ہوں کہ پھر کبھی نہ آؤں گا اور اگر آیا بھی تو اس کمبخت مرزا سے ذکر تک نہ کروں گا۔ پانچ چھے گھنٹے پہلے سے آجاؤں گا۔ اوپر کے درجے میں سب سے اگلی قطار میں بیٹھوں گا۔ تمام وقت اپنی نشست پر اچھلتا رہوں گا! بہت بڑے طرے والی پگڑی پہن کر آؤں گا اور اپنے اوورکوٹ کو دو چھڑیوں پر پھیلا کر لٹکا دوں گا! بہرحال مرزا کے پاس تک نہیں پھٹکوں گا۔
لیکن اس کمبخت دل کو کیا کروں؟ اگلے ہفتے پھر کسی اچھی فلم کا اشتہار دیکھ پاتا ہوں، تو سب سے پہلے مرزا کے ہاں جاتا ہوں اور گفتگو پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے کہ ’’کیوں بھئی مرزا! اگلی جمعرات سینما چلو گےنا؟‘‘