وہ تھکا ہوا میری باہوں میں ذرا سو گیا تو کیا ہوا
ابھی میں نے دیکھا ہے چاند بھی کسی شاخ گل پہ جھکا ہوا
جسے لے گئ ہے ابھی ہوا وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
کہیں آنسؤں سے مٹا ہوا کہیں آنسؤں سے لکھا ہوا
کئ میل ریت کو کاٹ کر کوئ موج پھول کھلا گئ
کوئ پیڑ پیاس سے مر رہا ہے ندی کے پاس کھڑا ہوا
مجھے حادثوں سے سجا سجا کے بہت حسیں بنا دیا
میرا دل بھی جیسے دلہن کا ہاتھ ہو مہدیوں سے رچا ہوا
وہی خط کے جس پہ جگہ جگہ دو مہکتے ہوہٹ کے چاند تھے
کسی بھولے بسرے سے طاق پر تہے گرد ہوگا دبا ہوا
وہی شہر ہے وہی راستے وہی گھر ہے اور وہی لان بھی
مگر اس دریچے سے پوچھنا وہ درخت انار کا کیا ہوا
میرے ساتھ جگنو ہے ہمسفر مگر اس شرار کی بساط کیا
یہ چراغ کوئ چراغ ہے نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
شاعر: بشیر بدر