حضرت برکہ بنت ثعلبہ جنہیں حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے نام سے جانا جاتا ہے، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی زندگی میں سب سے اہم خواتین میں سے ایک تھیں جو آنحضرت ﷺ کے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی غلام تھیں جنہیں آزاد کردیا گیا۔ آپ حبشہ کی رہنے والی تھیں اورآپ نے اپنی پوری زندگی محسنِ انسانیت ﷺ کے اہلِ خانہ کی خدمت میں بسر فرمائی۔غالب امکان یہی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے بعد حضور ﷺ کو سب سے پہلے گود میں لیا اور کچھ علماء کا یہ یقین ہے کہ آپ اسلام قبول کرنے والی دوسری خاتون تھیں۔
جب اللہ کے آخری نبی ﷺ کی عمرِ مبارک 6 سال کو پہنچی تو آنحضرت کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کے بعد واپس آتے ہوئے سفر کے دوران خالقِ حقیقی سے جاملی تھیں اور یہی وہ وقت تھا جب حضرت ایمن رضی اللہ عنہا نے سرپرست بن کر آپ ﷺ کی والدہ کی ذمہ داری نبھانا شروع کی۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے آخری سفر کے دوران حضرت ام ایمن اور رسول اللہ ﷺ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ تصور کیجئے کہ وہ کیا منظر ہوگا جب رسول اللہ ﷺ نے محض 6 برس کی عمر میں یہ دیکھا کہ حضرت آمنہ وفات پا چکی ہیں اور ایک 19 سالہ سیاہ فام غلام خاتون ام ایمن ہی اس موقعے پر آپ ﷺ کو تسلی دینے کیلئے موجود تھیں۔ انتہائی دکھ اور کرب کے ساتھ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی قبر خود اپنے ہاتھوں سے کھودی اور انہیں دفن کرنے کے فرض سے عہدہ برآ ہوئیں۔
جنابِ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے بیٹےسے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت و شفقت فرمائی جس کا صلہ یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد انہیں اپنی دوسری ماں کا درجہ دیا اور جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کا 25 برس کی عمر میں نکاح ہوا تو آپ ﷺ نے حضرت ام ایمن کو آزاد کردیا۔
نبئ آخر الزمان ﷺ نے حضرت ام ایمن کی شادی عبید ابن زید سے کی جس کے بعد حضرت ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیدا ہوئیں تاہم یہ شادی زیادہ عرصہ تک نہ چل سکی کیونکہ حضرت عبید ابن زید رضی اللہ عنہ غزوۂ خیبر کے دوران شہید ہو گئے تھے۔ پھر حضرت ام ایمن کی شادی آپ ﷺ نے اپنے سب سے محبوب صحابی سے کی جن کا نام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہے جو پہلے خود رسول اللہ ﷺ کے غلام تھے جنہیں آپ ﷺ نے آزاد کرکے اپنا بیٹا بنا لیا۔ شادی کے بعد حضرت ام ایمن کے بطن سے حضرت اسامہ نے جنم لیا جنہیں رسول اللہ ﷺ کی محبت و شفقت حاصل رہی۔
کچھ علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام ایمن کی عمر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں لگ بھگ 100 برس رہی ہوگی جب آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے بے شمار احادیث بیان کی ہیں اور خاص طور پر رسولِ اکرم ﷺ کی زندگی میں بچپن اور ابتدائی حالاتِ زندگی سے متعلق آپ کی بیان کردہ احادیث ہمارا سرمایۂ افتخار ہیں۔طبقات ابنِ سعد کے مطابق 2 بار آپ کو رسول اللہ ﷺ نے جنت کی بشارت دی جس سے آپ کے اعلیٰ کردار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ ہر روز آپ سے ملاقات کیلئے جایا کرتے اور جب رسول اکرم ﷺ ام ایمن رضی اللہ عنہا سے پوچھتے کہ اے میری ماں، آپ کیسی ہیں؟ تو آپ جواباً عرض کرتیں کہ جب تک اسلام کے حالات اچھے ہیں، میں اچھی ہوں۔ اس سے آپ رضی اللہ عنہا کی اسلام اور نبئ آخر الزمان ﷺ کیلئے استقامت اور عزم و استقلال کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے نہ کبھی رسول اللہ ﷺ سے کوئی ناگوار بات کی اور نہ ہی کسی چیز کی شکایت فرمائی۔
مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے قبل حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کافروں کے حملوں سے آپ ﷺ کا دفاع کرنے کیلئے تیار تھیں۔ غزوۂ احد کے موقعے پر جب مکہ کے کفار نے مدینہ میں آ کر جنگ شروع کی تو حضرت ام ایمن نے خواتین کے ایک مختصر گروہ کے ہمراہ زخمیوں کو طبی امداد مہیا کی۔ کچھ مسلمان جنگ کا میدان چھوڑ چکے تھے اور فرار ہونا ہی چاہتے تھے کہ آپ نے انہیں جھڑک کر میدان میں واپس بھیجا اور لڑنے کا حکم دیا۔ آپ نے بھاگنے والے سپاہیوں پر خاک پھینک کر کہا کہ اپنی تلوار مجھے دے دو۔
غزوۂ حنین کے موقعے پر حضرت ام ایمن نے اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ جہاد شروع کیا۔ آپ کے بڑے بیٹے اس غزوے میں شہید ہوئے۔آپ کے بیٹے اسامہ 20 برس سے کچھ ہی زیادہ عمر کے تھے کہ انہیں بازنطینی سلطنت کے سرحدی علاقے میں گشت کرنے والی اسلامی فوج کا سپہ سالار بنا دیا گیا۔
قبل ازیں جب اللہ کے رسول ﷺ کا وصال ہوچکا تھا تو خلفائے راشدین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ کے ہاں جایا کرتے اور سنتِ نبوی ﷺ پر عمل فرماتے۔ وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کا کتنا خیال رکھتے تھے، اس لیے یہ دونوں شخصیات آپ رضی اللہ عنہا کی خبر گیری فرمایا کرتی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے وقت آپ بہت روئیں تو انہوں نے یہ کہہ کر سمجھایا کہ اللہ کے ہاں زمین پر زندگی سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کیلئے اخروی حیات بہتر ہے۔ آپ نے ان سے کہا یہ مجھے معلوم ہے اور رسول اللہ ﷺ کو کھونا میرے رونے کا سبب نہیں بلکہ میں اس لیے روتی ہوں کیونکہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ بلاشبہ قرآن کے نزول کا رکنا ایک بڑی قیامت تھی جس پر صحابہ بھی آپ کے ساتھ مل کر رونے لگے۔ یہ مسلمانوں کا سب سے پہلا معاشرہ تھا جن کیلئے قرآن کی وحی اتنی زیادہ اہمیت کی حامل تھی جس سے انہیں پتہ چلتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا کس معاملے میں کیا ارشاد ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے اور وحی کا نزول رک گیا تو مسلم معاشرہ خود کو یتیم محسوس کرنے لگا اور اب اسے اپنا خیال خود رکھنا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا اسلام لانے والی پہلی سیاہ فام اور غلام خاتون تھیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا جو زندگی کی ابتدا سے وصال تک آپ ﷺ کے ہمراہ رہیں۔ نبئ اکرم ﷺ نے اپنی ماں کی طرح انہیں عزت و احترام اور وقار سے نوازا کیونکہ آپ رسول اللہ ﷺ کی سرپرست تھیں۔ آج کے مسلمانوں کو بھی ایک سیاہ فام خاتون کو پہچانتے ہوئے ان کی اسی طرح عزت اور احترام کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے بہت سے معاشروں میں رنگ و نسل کا تعصب پایا جاتا ہے اور ایسے بہت سے معاشرے خود کو مسلمان کہتے ہیں جبکہ ہادئ برحق ﷺ نے کسی بھی رنگ و نسل، دولت یا معاشرتی و طبقہ جاتی فرق کا امتیاز کیے بغیر حضرت ام ایمن کا رتبہ رہتی دنیا تک کیلئے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچا دیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام دنیاوی اور معاشرتی امتیازات سے بالاتر ہے اور صرف تقویٰ اور نیک اعمال کی قدر کرتا ہے۔