⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴چونتیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قلعے میں داخل ہونے کے بعد شعبان ثقفی نے مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ کی کے سیہرا کس طرف فرار ہوا تھا، معلوم ہوا کہ سیہرا فرار کا ارادہ کر چکا تھا ،لیکن محاصرے کی وجہ سے فرار ممکن نہ تھا، آخر اسے یہ ترکیب سوجھی کے اس نے تمام فوج اور شہر کے آدمیوں سے محاصرے کے ایک حصے پر اتنا زور دار حملہ کرایا کہ مسلمانوں کو ایک طرف کے تمام دستے ان دستوں کی مدد کے لئے بھیجنے پڑے جن پر حملہ کیا گیا تھا ،حملہ شام سے ذرا پہلے کیا گیا تھا سورج غروب ہو گیا تو سیہرا اپنے خاندان اور خزانے کے ساتھ خالی طرف سے نکل گیا ،مندر کے دونوں بڑے پنڈت بھی بھاگ گئے تھے، لوگوں نے جب دیکھا کہ ان کا حاکم بھی نہیں رہا اور مذہبی پیشوا بھی نہیں رہے تو انہوں نے یہ وفد محمد بن قاسم کی طرف بھیجا کہ ان کی جان بخشی کر کے انہیں پناہ دی جائے۔
زیادہ تر مورخوں نے لکھا ہے کہ اسکلند قلعے کی فوج کی چار ہزار نفری ماری گئی تھی، اور زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔ محمد بن قاسم نے عتبہ بن سلمہ تمیمی کو اسکلند کا حاکم مقرر کیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آج کا سندھ فتح ہوچکا تھا، اُس وقت راجہ داہر کی سلطنت دور تک پھیلی ہوئی تھی، ملتان بھی اسی خاندان کی سلطنت میں تھا ،محمد بن قاسم کی اگلی منزل ملتان تھی ،اس نے اس علاقے کا جو نقشہ تیار کیا تھا وہ دیکھا، اور اس نے جو مقامی رہنما ساتھ رکھے ہوئے تھے انہوں نے اسے بتایا کہ ملتان سے پہلے ایک اور شہر سکّہ ہے جو فتح کرنا ضروری ہے۔
آج سکّہ کا کہیں نشان بھی نہیں ملتا، یہ دریائے چناب کے مشرقی کنارے پر ملتان کے بالمقابل واقع تھا، سکہ اور ملتان کے درمیان اگر دریا نہ ہوتا تو یہ دونوں مل کر ایک ہی شہر بن جاتے، سکّہ کا حاکم راجہ داہر کے بھتیجے بجے رائے کا نواسہ بجھرا تھا، اور ملتان کا حاکم راجہ داہر کے بھائی چندر کا بیٹا کورسیہ تھا، جسے بعض مورخوں نے گورسنگھ لکھا ہے، لیکن زیادہ تر شہادت یہ ملتی ہے کہ کورسیہ صحیح نام ہے۔
ککسہ نے محمد بن قاسم کو بتایا کہ کورسیہ کے لڑنے کا بھی اندازہ یہی ہوگا وہ اپنی فوج کو قلعے سے باہر لڑائے گا، اور بہتر یہی ہوگا کہ اس کی فوجی طاقت کو قلعے سے باہر ہی کھلی لڑائی میں کمزور کیا جائے۔ محمد بن قاسم کو یہ مشورہ اس لئے پسند آیا کہ وہ سنگ باری اور آتشبازی کو پسند نہیں کرتا تھا ،اس سے شہر کے لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑتا تھا انہی لوگوں سے جزیہ اور دیگر محصولات وصول کرنے ہوتے تھے، ان کے گھر اور سامان جلا دینے کی صورت میں وہ کہتے تھے کہ وہ تو تباہ ہوگئے ہیں جزیہ کہاں سے دیں۔
ایک روز محمد بن قاسم نے اسکلند سے کوچ کیا، اب کے پھر ہراول دستے کی کمان ککسہ اور زائدہ بن عمیر طئی کے پاس تھی، ہراول سے آگے جاسوسوں کی ٹولی مقامی لوگوں کے لباس میں چلی گئی تھی، یہ کوچ کا معمول تھا کہ جاسوسوں کو مقامی بھیس میں آگے بھیج دیا جاتا تھا ،وہ راستے کے خطروں کو دیکھتے اور پیچھے آکر سپہ سالار کو خبردار کرتے تھے، کہیں گھات کا اور کی شب خون کا خطرہ ہوتا تھا اس کے علاوہ بھی خطرے ہو سکتے تھے۔
سکّہ والے مسلمانوں کی پیش قدمی سے بے خبر نہیں تھے، راجہ داہر کی موت معمولی واقعہ نہیں تھا، پہلے تو سب کو یہی بتایا جاتا رہا کہ وہ زندہ ہے اور ہندوستان سے فوج لینے گیا ہے، لیکن اس کے بعد بھاٹیہ اور اسکلند بھی ہاتھ سے نکل گئے اور وہاں کے بھاگے ہوئے حاکم سکہ اور ملتان جا پناہ گزین ہوئے تو سب کو یقین ہو گیا کہ داہر مارا جا چکا ہے، اس خبر نے سب کو چوکس کر دیا تھا، سکہ کے حاکم نے اپنے جاسوس قلعے سے دور تک بھیج دیے تھے۔
محمد بن قاسم جب سکہ کے گردونواح میں پہنچا تو سکہ کی فوج قلعے کے باہر تیاری کی حالت میں موجود تھی، محمد بن قاسم نے اپنے لشکر کو دور ہی روک لیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسلام کے محافظوں!،،،،،،، محمد بن قاسم نے اپنے لشکر سے خطاب کیا۔۔۔ دشمن ہمارا راستہ روک کر کھڑا ہے، اس نے شہر کو اپنی پیٹھ کے پیچھے رکھا ہوا ہے، ہم شہر کا محاصرہ نہیں کرسکیں گے ،یہاں بھی ہمیں اسکلند والی لڑائی لڑنی پڑے گی، یاد رکھو دشمن کے پاس قلعہ ہے جو پسپائی کی صورت میں اسے پناہ میں لے لے گا، مگر ہمارے لئے کوئی پناہ نہیں، ہماری پناہ کھلا آسمان ہے، ہمارے اردگرد دیوار نہیں اور اوپر چھت بھی نہیں، ہمارے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے، اس سے زیادہ محفوظ اور مضبوط کوئی پناہ نہیں، یہ ہمارا ایمان ہے، یہ دل میں بٹھالو کہ ہم پسپا ہوئے تو اس ملک میں ہمارا کوئی ٹھکانہ اور کوئی پناہ نہیں ،ساحل بہت دور ہے وہاں تک ہمیں کوئی زندہ نہیں پہنچنے دے گا، ہمارا وطن بہت دور ہے اب یہی ہمارا وطن ہے، جہاں ہم نے مسجدیں بنا دی ہیں، یہاں کے بہت سے لوگوں نے ہمارا مذہب قبول کر لیا ہے، اس زمین میں ہمارے شہیدوں کا خون جذب ہو چکا ہے، یہ زمین اب ہمارے لئے مقدس ہوگئی ہے ،اگر اب ہم نے پیٹھ دکھائی تو ہم ذلت کی موت مریں گے اور اگلے جہان میں ہمارا ٹھکانا جہنم ہوگا،،،،،،،،،،، میں جانتا ہوں تم تھک کر چور ہو چکے ہوں تمہارے جسم ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں، پھر بھی تم کفر کے قلعوں کو روندتے چلے جا رہے ہو، یہ روحانی طاقت ہے تم اب جسم نہیں رہے ہو، اور اللہ تبارک وتعالی تمھارے ساتھ ہے تم اللہ کا نور بکھیرتے جا رہے ہو، تم خوش نصیب ہو کہ اللہ نے یہ فرض تمہیں سونپا ہے ،دل میں اللہ کا نام رکھو اللہ تمہیں فتح و نصرت سے نوازے گا۔
مجاہدین کے اس لشکر کی تعداد کم رہ گئی تھی ،عرب سے کمک آ گئی تھی لیکن اتنی نہیں جتنی کمی واقع ہو گئی تھی، رسد بھی پہنچ گئی تھی لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا کہ لشکر کی جسمانی حالت خاصی بگڑ چکی تھی۔
سکہ کے حاکم بجھرا نے مسلمانوں کے لشکر کو دیکھا تو اس نے اپنی فوج کو لڑنے کی ترتیب میں کرلیا ،لیکن محمد بن قاسم نے دور ہی پڑاؤ ڈال دیا ،مجاہدین بڑا لمبا سفر کر کے آئے تھے وہ بہت تھکے ہوئے تھے ،گھوڑے پیاسے تھے، اس کیفیت میں ایسی فوج کے مقابلے میں آنا جو تازہ دم تھی عقل مندی نہیں تھی، رات کو پڑاؤ کے اردگرد گشتی پہرہ لگا دیا گیا اور کئی مجاہدین رات کو تلاوت قرآن کرتے اور نوافل پڑھتے رہے، حجاج بن یوسف محمد بن قاسم کو ہدایات اور احکام بھیجتا رہا، وہ زیادہ زور یاد الٰہی پر دیتا تھا،محمد بن قاسم نے اسے اپنے حالات سے باخبر رکھا ہوا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسرے دن کا سورج طلوع ہوا تو مسلمان جنگی ترتیب میں سکہ کی فوج کے سامنے کھڑے تھے۔
محمد بن قاسم نے اسلامی فن حرب و ضرب کے مطابق درمیان کے دستوں کو آگے بڑھایا، ادھر سے بھی درمیان کے دستے آگے آئے اور خونریز تصادم شروع ہو گیا ،ہدایت کے مطابق لڑنے والے دستوں کو ان کے سالار نے پیچھے ہٹانا شروع کردیا، محمد بن قاسم نے دائیں بائیں کے دستوں کو پہلوؤں کی طرف پھیلا کر دشمن کے پہلوؤں پر حملہ کرنے کا حکم دیا ،لیکن دشمن کے پہلوؤں کے دستے چوکس تھے وہ دفاعی پوزیشن میں آ گئے اس لئے محمد بن قاسم کی یہ چال کارگر نہ ہوئی۔
شام سے کچھ دیر پہلے بجھرا نے اپنی فوج کو قلعے میں واپس بلالیا، محمد بن قاسم نے قلعے کا محاصرہ نہ کیا، اس کے بجائے یہ اہتمام کیا کہ قلعے کی دوسری اطراف کچھ سوار نفری بھیج دی جن کے ذمے یہ کام تھا کہ کسی کو قلعے سے نکل کر کہیں جانے نہ دیں، نہ کسی باہر سے آنے والے کو قلعےے میں جانے دیں، مقصد یہ تھا کہ باہر کی دنیا سے قلعے کا رابطہ توڑ دیا جائے۔
محمد بن قاسم نے رات کو اپنے سالاروں کو بلا کر بتایا کہ وہ لڑتے لڑتے پیچھے ہٹتے آئیں تاکہ دشمن قلعے سے دور آ جائے، یہ کوشش تو کی گئی تھی جو کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس چال کو کامیاب بنانا تھا، خطرہ یہ تھا کہ قلعے کی فوج کے پیچھے قلعہ تھا، مسلمان پہلوؤں اور عقب میں جانے کی کوشش کرتے تھے تو دیوار کے اوپر سے برچھیاں اور تیر آتے تھے۔
چار پانچ دن اسی قسم کی جنگ جاری رہی، قلعے سے دستے نکلتے لڑائی ہوتی اور قلعے کے دستے واپس قلعے میں چلے جاتے، ان کا نقصان تو بہت ہو رہا تھا لیکن مسلمان بھی نقصان اٹھا رہے تھے، دشمن کے جوش و خروش میں ذرا سی بھی کمی نہیں آ رہی تھی، محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے کہا کہ وہ مجاہدین کو روک روک کر لڑائیں، آگے بڑھ کر ٹکر لیں اور پیچھے ہٹیں، مجاہدین سے کہیں کہ وہ اپنے آپ کو تھکائیں نہیں، تیروں اور پھینکنے والی برچھیوں کا استعمال زیادہ کریں، پہلو کے دستوں کو پھیلا کر دشمن کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرنے کی ترکیبیں کریں تاکہ اسے لڑنے کا موقع کم ملے اور اسے تھکان زیادہ ہو۔
یہ ایک خاص طریقہ جنگ تھا جس میں مسلمان سالار اور سپاہی مہارت رکھتے تھے، وہ جم کر نہیں لڑتے تھے ہلہ بول کر ادھر ادھر ہو جاتے تھے، دستوں کو چھوٹے چھوٹے جیشوں میں تقسیم کر دیا گیا اور جیش باری باری آگے جاتے اور ہلہ بولتے تھے ،اس طرح اپنا نقصان کم اور دشمن کا نقصان زیادہ ہوتا تھا، یہ طریقہ جنگ تین چار دن آزمایا گیا، قلعے کی نفری کو نقصان تو خاصہ ہوا لیکن اس میں لڑنے کا جذبہ کم نہیں ہوا تھا۔
محمد بن قاسم نے ایک طریقہ یہ بھی آزمایا کہ قلعے کے ایک طرف لڑائی جاری رکھی اور کچھ نفری دوسری طرف بھیج کر ادھر کے دروازوں تک پہنچنے کی کوشش کی، ادھر دو دروازے تھے ان کے اوپر دیوار پر تیروں کی بوچھاڑ مرکوز کی گئی تاکہ اوپر سے کوئی تیر یا برچھی نہ آئے، لیکن اوپر والے آدمی جانوں کی قربانی دے رہے تھے اور تیر کھا کھا کر گر بھی رہے تھے، انہوں نے مجاہدین کو دروازوں تک نہ پہنچنے دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کو شعبان ثقفی نے بتایا کہ دیوار پر جتنے بھی آدمی ہیں وہ سب شہر کے لوگ ہیں اور فوج باہر آ کر لڑنے کے لیے تیار رہتی ہے، قلعے کے جو دستے لڑنے کے لیے باہر آتے تھے وہ اپنے زخمیوں کو باہر چھوڑ کر قلعے میں چلے جاتے تھے، لاشوں اور زخمیوں کو دیکھ کر پتہ چلتا رہتا تھا کہ قلعے کی فوج کا کتنا نقصان ہوا ہے، مسلمان قلعے کی فوج کے کسی بھی زخمی کو نہیں اٹھاتے تھے، انہیں مرنے کے لئے وہیں پڑے رہنے دیا جاتا تھا ،شعبان ثقفی دو چار زخمیوں کو ہر روز اٹھوا لاتا ان کی مرہم پٹی کراتا اور انہیں کھلا پلا کر ان سے قلعے کے اندر کی حالات پوچھتا تھا ،زخمی اپنی جانیں بچانے کے لئے سب کچھ بتا دیتے تھے، زخمیوں نے بتایا تھا کہ دیوار پر شہر کے آدمی ہیں جو تیر اور برچھیاں پھینکتے ہیں، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے مندر میں حلف اٹھایا ہے کہ ان میں اگر صرف ایک آدمی زندہ رہ گیا تو وہ بھی لڑتا ہوا مارا جائے گا بھاگے گا نہیں، کچھ دنوں کی لڑائی کے بعد زخمیوں کو اٹھا کر لایا گیا انہوں نے بتایا کہ فوج کی نفری تیزی سے کم ہو رہی ہے اور رسد اور خوراک بھی کم رہ گئی ہے، رسد ملتان سے ہی آسکتی تھی لیکن قلعے کے باہر مجاہدین کی حکمرانی تھی ان کی موجودگی میں باہر سے کوئی چیز قلعے تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔
محمد بن قاسم نے شہر کے لوگوں کو مخاطب کرکے اعلان کرائے کہ وہ اپنی فوج کا ساتھ چھوڑ دیں ورنہ انہیں بڑی خوفناک قیمت ادا کرنی پڑے گی، اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ قلعے کی فوج کا نقصان دیکھو یہ فوج زیادہ دن نہیں لڑ سکے گی اور آخر قلعہ ہم نے لے لینا ہے ، تمہارا فائدہ اس میں ہے کہ ہمارا استقبال کرو ہم تمہیں پورے حقوق دیں گے۔ بلند آواز والے آدمیوں نے قلعے کے اردگرد گھوم پھر کر یہ اعلان کئی بار دہرایا ،اس کے جواب میں شہر کے لوگوں نے مسلمانوں کا مذاق اڑایا، انہیں پنڈتوں نے یقین دلایا تھا کہ فتح ان ہی کی ہوگی اور مسلمان بڑی بری طرح تباہ ہونگے، وہ اعلان سن کر قہقہے لگاتے اور اسلام کو بھی برا بھلا کہتے تھے۔
مسلمانوں !،،،،،،قلعے کی دیوار سے ایک آواز آئی ۔۔۔ہم نے مندر میں کھڑے ہو کر قسم کھائی ہے کہ تمہیں تباہ کردیں گے یا خود تباہ ہو جائیں گے۔
یہ آواز محمد بن قاسم کے کانوں تک پہنچ گئی اس وقت تک مسلمانوں کے تین سالار اور سترہ بہترین عہدیدار (جونیئر) کمانڈر شہید ہوچکے تھے، محمد بن قاسم کسی ہندو کی اس للکار پر بھڑک اٹھا ،وہ پہلے ہی اپنے اتنے قابل اور دلیر سالاروں اور عہدیداروں کی شہادت کی وجہ سے غم و غصے سے بھرا ہوا تھا۔
خدا کی قسم!،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں اس شہر کا نام و نشان مٹا دوں گا۔
اس کے بعد محمد بن قاسم نے اپنے اوپر نیند حرام کر دی ، سترہ دن لڑائی جاری رہی اٹھارہویں صبح کے دروازے کھلے اور فوج باہر نکلی، یہ خاص طور پر نظر آیا کہ اس فوج میں پہلے والا جوش و خروش نہیں تھا، ایک مسلمان دستہ آگے بڑھا تو قلعے کی فوج کی پچھلی صف کے آدمی قلعے کے اندر بھاگ گئے، محمد بن قاسم نے بھانپ لیا کہ دشمن میں کوئی نہ کوئی کمزوری پیدا ہو گئی ہے، اس میں دم خم نظر نہیں آرہا تھا، محمد بن قاسم نے شدید ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔
سالاروں نے تنظیم اور ترتیب کو توڑے بغیر ہلہ بولا، دشمن دروازوں کی طرف دوڑا تیر اندازوں کو کہا گیا کہ وہ دیواروں پر تیر اندازی کریں، قلعے کے دستے دیوار اور مجاہدین کے درمیان پھنس گئے، ان میں سے جنہیں موقع ملتا تھا وہ دروازوں میں داخل ہوتے تھے ان کے ساتھ مسلمان بھی قلعے میں داخل ہونے لگے، آخر مسلمان فوج کے کئی دستے اندر چلے گئے ،یہ دیکھ کر دیواروں پر جو شہری تیر چلا رہے تھے بھاگ اٹھے۔
کچھ دیر قلعے کے اندر لڑائی ہوئی لیکن قلعے کی بچی کچھی فوج نے ہتھیار ڈال دیے، اور پتہ چلا کہ قلعے کا حاکم بجھرا رات کو اپنے خاندان سمیت قلعے سے فرار ہوگیا تھا، فوج کو صبح دوسرے کمانڈروں نے قلعے سے نکل کر لڑنے کا حکم دیا تھا، لیکن سپاہی لڑنے پر آمادہ نہیں تھے، قلعے کی آدھی سے زیادہ فوج سترہ دنوں میں ماری جا چکی تھی۔
بلاذری نے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کے دوسو پندرہ سپاہی، سترہ عہدیدار اور تین سالار شہید ہوئے تھے، کسی بھی تاریخ میں شہید ہونے والے سالاروں کے نام نہیں لکھا۔
محمد بن قاسم نے حکم دیا کے تمام فوجیوں اور شہریوں کو گرفتار کر لیا جائے ،اس حکم کی فوری تعمیل کی گئی عورتوں اور بچوں کو الگ کر لیا گیا، محمد بن قاسم نے دوسرا حکم یہ دیا کہ اس شہر اور شہر پناہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے۔
اس طرح اس شہر کا نام وہ نشان اسی دور میں مٹ گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک شہر کی تباہی نے ہندوستان میں دور دور تک تہلکہ مچادیا ،راجوں اور مہاراجوں پر لرزہ طاری ہو گیا، داہر اپنی زندگی میں اپنے اردگرد کے راجوں مہاراجوں کو عرب سے آئے ہوئے مسلمان کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی تھی، اس کا خاندان اور وزیر، مشیر اور فوجی حاکم جانتے تھے کہ وہ ہندوستان کے تمام حکمرانوں کو ایک محاذ پر اکٹھا کرنے کے جتن کر رہا ہے اسی لیے اس کے مارے جانے کے بعد مشہور ہو گیا تھا کہ وہ ہندوستان کے دورے پر چلا گیا ہے اور بہت بڑی فوج لے کر آرہا ہے، اس کے اپنے بیٹے بھی اس خبر کو سچ مانتے تھے، مگر محمد بن قاسم کی ضرب کاری نے داہر کے پسماندگان اس کی فوج اور رعایا کو یقین دلادیا کہ داہر مارا جا چکا ہے۔
مبصّر اور مؤرخ لکھتے ہیں کہ داہر کسی ایک مقام کسی ایک میدان یا کسی ایک محاصرے میں مسلمانوں کو شکست دے دیتا تو اس کے راج کے اردگرد کے راجے اور مہارجے اس کے محاذ پر آجاتے اور یہ ایک متحدہ محاذ بن جاتا، لیکن مسلمان تیزوتند سیلاب کی مانند بڑے آرہے تھے ،ان کے قدموں میں سندھ کے قلعے ریت کے گھروندوں کی مانند گرتے جارہے تھے ،اور داہر اپنی راجدھانی سے باہر نہیں نکل رہا تھا، اس نے سوچا تو ٹھیک تھا کہ محمد بن قاسم کی فوج اس کی راجدھانی سے دور ہی تھک کر چور ہو جائے گی تو وہ اپنے لشکر کے ساتھ اس کے سامنے آئے گا اور بڑی آسانی سے اس فوج کا نام و نشان مٹا دے گا ،لیکن اس کے پڑوسی راجہ اور مہاراجہ یہ دیکھ رہے تھے کہ داہر اپنے قلعے دیتا چلا جا رہا ہے اور خود سامنے نہیں آتا۔
وہ سامنے آیا تو اپنے سفید ہاتھی سمیت مارا گیا ،یہ خبر سن کر داہر کے پڑوسی اور زیادہ محتاط ہوگئے، انہیں یہ سوچ پریشان کرنے لگی کہ داہر مارا جاسکتا ہے تو مسلمانوں کے مقابلے میں آنے کے لیے دس بار سوچنا پڑے گا، پھر انہوں نے دیکھا کہ داہر کے بیٹے اور بھتیجے جو نامی گرامی جنگجو تھے اور میدان جنگ کا تجربہ بھی رکھتے تھے وہ مسلمانوں کی فوج کے آگے آگے بھاگے آ رہے تھے، وہ ایک قلعے سے اپنی فوج اور رعایا کو بغیر بتائے چھپ کر بھاگتے اور اگلے قلعے میں جا پناہ لیتے، ان حالات میں ان راجوں اور مہاراجوں نے یہی بہتر سمجھا کہ وہ اپنی اپنی جنگ لڑیں اور اپنے فیصلے آزادانہ طور پر کریں کہ انھیں لڑنا چاہیے یا مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا یا اطاعت قبول کرنے کا معاہدہ کر لینا چاہئے۔
مسلمانوں کے ہاتھوں سکّہ کی تباہی نے ہندوستان کے مہاراجوں کو لرزہ براندام کردیا تھا ،ان کے لیے بہتر یہی تھا کہ وہ محمد بن قاسم کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیتے، لیکن وہ اب اپنے اپنے فیصلے خود ہی کرنا چاہتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم تباہ شدہ سکہ سے کچھ دور کھڑا شہر کے ملبے کے انبار کو دیکھ رہا تھا، نہ جانے اسے کیا کیا خیال آ رہے تھے، پھر وہ ایک اونچی جگہ پر کھڑا ہوا اور اس کی نگاہیں مجاہدین کے لشکر پر گھومنے لگی، ان میں کئی زخمی تھے ان کے زخموں پر پٹیاں بندھی تھیں، یہ بتانا ممکن نہیں ہے کہ محمد بن قاسم کے ذہن میں کیا کیا خیال آ رہے تھے، سوائے اس کے کہ اس کے چہرے پر جو تاثرات تھے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔
محمد بن قاسم جو اسوقت تک پیدل چل رہا تھا گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑے کا رخ دریا کی طرف کردیا، یہ دریائے چناب تھا جو سکہ اور ملتان کے درمیان حائل تھا، اگر درمیان میں دریا نہ ہوتا تو ملتان اور سکہ ایک ہی شہر ہوتے، اصل شہرتو ملتان تھا، ملتان کا قلعہ بہت مضبوط تھا، ابھی یہ معلوم کرنا تھا کہ یہ قلعہ کتنا مضبوط ہے اس کی ساخت کیسی ہے اور اس کے اندر فوج کتنی ہے؟
تین چار آدمی جو اس علاقے کے مقامی لباس میں ملبوس تھے محمد بن قاسم کی طرف آ رہے تھے، ان میں سے ایک کو محمد بن قاسم پہچانتا تھا، وہ شعبان ثقفی تھا ،وہ بھی وہاں کے مقامی لباس میں ملبوس تھا ،محمد بن قاسم اسے ہر بہروپ میں پہچان لیتا تھا ، یہ آدمی محمد بن قاسم کے پاس پہنچ کر رک گئے اور شعبان ثقفی نے دو آدمیوں کو آگے کیا۔
ابن قاسم !،،،،،شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ یہ دو آدمی یہاں کے مانجھی ہیں، یہ بتاتے ہیں کہ سکہ کا حاکم بجھرا ان کی کشتی پر دریا کے پار گیا تھا۔
اس میں شک نہیں کہ وہ ملتان کے قلعے میں چلا گیا ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ان لوگوں نے یہ بھی بتایا ہوگا کہ سکہ سے کتنی فوج اور دوسرے لوگ بھاگ کر ملتان گئے ہیں۔ اتنے زیادہ نہیں کہ ہم پریشان ہو جائیں ان دونوں کے علاوہ میں نے دوسرے سے پوچھا ہے ،ان دونوں کو بجھڑا کے آدمیوں نے پکڑ لیا تھا اور انہیں زبردستی دریا کے پار لے گئے تھے۔
ان دونوں مانجھیوں کو چھوڑ دیا گیا، محمد بن قاسم شعبان ثقفی کو الگ لے گیا اور اس سے پوچھا کہ جن آدمیوں کو ملتان بھیجا گیا ہے وہ واپس آئے ہیں یا نہیں۔
سکہ کی فتح کے اگلے ہی روز جاسوسوں کو ملتان بھیج دیا گیا تھا ،یہ جاسوس مقامی لوگ تھے اور یہ مسلمان کے پکے وفادار تھے، ان میں زیادہ تر موکو کے دیے ہوئے آدمی تھے، موکو اپنی فوج کے ساتھ محمد بن قاسم کے ساتھ تھا ،موکو کی فوج زیادہ تو نہیں تھی لیکن مقامی ہونے کی وجہ سے یہ بڑی کارآمد ثابت ہو رہی تھی۔
یہ جاسوس اسی رات واپس آگئے جس روز محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی سے پوچھا تھا کہ جاسوس واپس آئے ہیں یا نہیں، یہ آدمی سکہ سے بھاگے ہوئے لوگوں کے بہروپ میں ملتان قلعے کے اندر چلے گئے تھے، انہوں نے مصیبت کے مارےہوئے لوگوں جیسی اداکاری کی تھی، ایک تو انہوں نے یہ معلوم کیا کہ ملتان کے قلعے میں کتنی فوج ہے، اور قلعے کا دفاع کیسا ہے، یہ تمام ضروری معلومات حاصل کرنے کے علاوہ ان آدمیوں نے ملتان کے لوگوں اور فوجیوں میں بہت دہشت پھیلائی، دہشت پھیلانے کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ وہ الگ الگ ہو کر لوگوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کرلیتے یا جہاں کہیں چند آدمی بیٹھے ہوتے وہاں جا بیٹھتے اور محمد بن قاسم کی فوج کی طاقت اور دلیری کے واقعات ایسے انداز اور الفاظ میں بیان کرتے کہ سننے والوں پر خوف طاری ہوجاتا۔
یہ ایک طرح کا نفسیاتی حملہ تھا جو کامیاب نظر آتا تھا، سکہ سے جو فوجی بھی بھاگے تھے وہ ملتان کے فوجیوں کو بتارہے تھے کہ مسلمان لڑنے میں اس قدر تیز اور لیڈر ہیں، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ خود بزدل نہیں اپنی بزدلی پر پردہ ڈالنے کے لئے وہ مسلمانوں کے لڑنے کے جذبے اور بہادری کو اس طرح بیان کرتے تھے جیسے مسلمانوں کی طاقت مافوق الفطرت ہے، اس طرح یہ بھگوڑے فوجی ملتان کی فوج میں دہشت پھیلا رہے تھے۔
قلعے میں یہ خبر پھیل گئی تھی کہ سکہ کا حاکم بجھرا بھی فرار ہوکر ملتان میں آ گیا ہے، اس خبر نے بھی ملتان کی فوج میں خوف پھیلا دیا تھا، لیکن بجھرا خوفزدہ نہیں تھا ،ملتان کا حاکم راجہ کورسیہ تھا جسے بعض مورخوں نے کورسنگھ لکھا ہے، لیکن صحیح نام کورسیہ ہی ہوسکتا ہے، راجہ داہر کے خاندان کے افراد کے نام ایسے ہی تھے، کورسیہ داہر کا بھتیجہ تھا وہ داہر کے بھائی چندر کا بیٹا تھا ،بجھرا کورسیہ کا حوصلہ مضبوط کر رہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مہاراج !،،،،،،ایک فوجی حاکم نے کورسیہ سے کہا۔۔۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہم ملتان کو عرب کے مسلمانوں کی آخری منزل بنا دیں اور ملتان ان مسلمانوں کا قبرستان بن جائے، اگر ملتان بھی ہاتھ سے نکل گیا تو اسلام کا یہ سیلاب کہیں بھی روک نہیں سکے گا، آنے والی نسلیں ہمیں ذلیل و رسوا کرتی رہیں گی کہ ہم نے پورا سندھ مسلمانوں کو دے دیا تھا اور ہم اس جرم کے مجرم ہیں کہ ہندوستان میں اسلام کے لیے دروازے ہم نے کھولے تھے۔
تم کہنا کیا چاہتے ہو ۔۔۔کورسیہ نے کہا ۔۔۔کیا تم ہمیں یہ بات اس لئے کہہ رہے ہو کہ ہم بزدلی دکھائیں گے، کیا ہم لڑنے سے منہ موڑ جائیں گے۔
نہیں مہاراج!،،،،، اس بوڑھے فوجی حاکم نے کہا۔۔۔ میں یہ بتانے آیا ہوں کہ ککسہ اور سکّہ سے جو فوجی اور دوسرے لوگ بھاگ کر آئے ہیں وہ یہاں کے فوجیوں اور سارے شہر میں مسلمانوں کے متعلق ایسی باتیں پھیلا رہے ہیں جن سے فوج اور شہر میں خوف پیدا ہوگیا ہے، سب سے زیادہ خطرناک بات جو بتائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان وحشیوں اور درندوں کی طرح لڑتے ہیں، لیکن جو لوگ ان کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور جو لڑے بغیر ان کی اطاعت قبول کرلیتے ہیں ان کے ساتھ مسلمان سگے بھائیوں جیسا سلوک کرتے ہیں، وہ گھروں کو لوٹتے نہیں بلکہ تحفظ دیتے ہیں ،یہ بھی مشہور کیا جا رہا ہے کہ مسلمان کسی کو مجبور نہیں کرتے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرلے،،،،،،، اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے مہاراج!،،، لوگوں کو یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ بجھرا مہاراج بھی سکہ سے بھاگ آئے ہیں۔
یہ جھوٹ ہے۔۔۔ بجھرا نے کہا۔۔۔ وہ کورسیہ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ میں لڑنے سے منہ موڑ کر نہیں بھاگا، میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ،کسی غدار نے قلعے کا ایک دروازہ کھول دیا تھا ،،،،،،،،،،تمام فوج کو اور شہر کے لوگوں کے سرکردہ آدمیوں کو اکٹھا کرو میں انہیں بتاؤں گا کہ شہر میں جو باتیں پھیلائی جارہی ہیں وہ سب جھوٹی ہیں اور یہ دشمن پھیلا رہا ہے۔
اسی روز فوج کو ایک جگہ اکٹھا کیا گیا شہر کے سرکردہ افراد کو بھی بلا کر فوج کے ساتھ کھڑا کیا گیا ،کورسیہ اور بجھرا گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے، بجھرا نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور اس کی اجتماع کے قریب جا رکا۔
دیش کے پنڈتوں !،،،،،،بجھرا نے بڑے ہی بلند آواز سے کہنا شروع کیا ۔۔۔ہمیں بتایا گیا ہے کہ شہر میں ایسی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں جنہیں لوگ سچ سمجھ کر اپنے اوپر مسلمانوں کا خوف طاری کر رہے ہیں، یہ افواہ تمہارے اپنے بھائی پھیلا رہے ہیں، یہ سب اپنے دیش کے غدار ہیں، یہ ان بزدل حاکموں کے آدمی ہیں جنھوں نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے اور ان کی غلامی قبول کر لی ہے، مسلمانوں نے انہیں عہدے بھی دیے ہیں اور نقد انعام بھی دیے ہیں، میرے متعلق یہ مشہور کیا جا رہا ہے کہ میں لڑائی سے منہ موڑ کر سکہ کے قلعے سے بھاگ آیا ہوں ، یہ جھوٹ ہے کسی غدار نے قلعے کا دروازہ کھول دیا تھا ،یہ میری بہادری ہے کہ میں قلعے سے نکل آیا ہوں، اگر میں بزدل ہوتا تو یہاں نہ آتا کسی اور طرف نکل جاتا، یہاں میں لڑنے کے لیے آیا ہوں اور تم دیکھوگے کہ میں کس طرح ملتان کو ان عربوں کا قبرستان بناتا ہوں،،،،،،،،
یہ بالکل غلط ہے کہ مسلمان وحشیوں اور درندوں کی طرح لڑتے ہیں، اور یہ بھی غلط ہے کہ مسلمانوں کے آگے جو ہتھیار ڈال دے اور ان کی اطاعت قبول کرلے اسے وہ اپنا بھائی بنا لیتے ہیں، وہ کسی کو معاف نہیں کرتے، گھروں کو لوٹ لیتے ہیں اور تمام جوان عورتوں کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں، سکہ کا انجام دیکھ لو اس وحشی قوم نے پورے شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا ڈالا ہے اور اس شہر کی تمام لڑکیاں ان کے پاس ہیں ،اگر تم لوگوں نے ذرا سی بھی بزدلی دکھائی تو اس خوبصورت شہر کا اور تمہارا یہی انجام ہوگا ،بچے بچے کو لڑنا پڑے گا ورنہ تم سب مارے جاؤ گے، یا ان مسلمانوں کے غلام بن جاؤ گے، تمہاری باقی زندگی بھوکے پیاسے مشقت کرتے گزرے گی، وہی لوگ آرام اور اطمینان سے رہیں گے جو اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو جائیں گے، لیکن یہ آرام اور اطمینان چند دن رہے گا کیونکہ ایسے لوگوں پر آسمان سے قہر نازل ہوگا یہ اپنا مذہب چھوڑنے کی سزا ہوگی۔
بجھرا کی یہ تقریر جوش اور اشتعال انگیز ہوتی گئی ،وہ دروغ گوئی میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا رہا تھا، فوج اور لوگوں پر اس کا وہی اثر ہوا جو بجھرا پیدا کرنا چاہتا تھا ،فوج نے اور شہر کے لوگوں نے جو بلائے گئے تھے مسلمانوں کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیئے، شہر کے اور بھی بہت سے لوگ جمع ہوگئے اور وہ بھی نعرے لگانے لگے۔
بججرا اور کورسیہ نے قلعے کے دفاعی انتظامات کو اور زیادہ مضبوط بنانا شروع کردیا۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ ملتان کے قلعے پر چھوٹی چھوٹی منجنیقیں رکھی ہوئی ہیں جن سے چھوٹے سائز کے پتھر پھینکے جاتے ہیں، جاسوسوں نے یہ خاص طور پر دیکھا کہ ملتان کی فوج کے پاس آگ والے تیر نہیں تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>