⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴بتیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے مسلمانوں کے مخصوص انداز جنگ سے قلعے کو سر کرنے کی سر توڑ کوشش شروع کردی، یہ طریقہ بھی کئی بار اختیار کیا گیا کہ دیوار کے کسی مقام پر بڑی تیز اور بہت زیادہ تیراندازی کی گئی اور دیوار میں نقب لگانے والے آدمی آگے بھیجے گئے لیکن دیوار کے اوپر قلعے کہ جو سپاہی کھڑے تھے انہوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا ،تیر کھا کر گرتے رہے لیکن گرنے سے پہلے انہوں نے نقب لگانے والوں پر تیر بھی پھینکے اور برچھیاں بھی، محمد بن قاسم چند مرتبہ یہ کوشش کر کے پیچھے ہٹ آیا۔
تم واپس عرب کیوں نہیں چلے جاتے۔۔۔ قلعے کے اوپر سے آواز آئی۔۔۔ کیا تم نے ہمارے ہاتھوں ہی مرنا ہے۔
دیوار پر جس قدر فوجی تھے ان سب نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا، پھر وہ مسلمانوں پر طنز و دشنام کے تیر برسانے لگے، بار بار یہ للکار سنائی دیتی تھی کہ مسلمانوں تمھیں موت یہاں لے آئی ہے،،،، اب بھی وقت ہے واپس چلے جاؤ۔
راجہ داہر زندہ ہے۔۔۔ ایک اور دبنگ آواز سنائی دی ۔۔۔اس کے آنے سے پہلے یہاں سے بھاگ جاؤ۔
یہ اطلاع تو محمد بن قاسم کو پہلے ہی مل چکی تھی کہ اس شہر میں لوگوں کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ راجہ داہر فوج لے کر آرہا ہے، محمد بن قاسم نے رات کو اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں اس صورتحال سے آگاہ کیا، اس نے کہا کہ جب تک قلعے کی فوج اور شہر کے لوگوں کو یہ یقین نہیں دلایا جاتا کہ راجہ داہر مارا جا چکا ہے اور وہ کوئی فوج لینے نہیں گیا تب تک ان کے حوصلے بلند رہیں گے، اس مسئلے پر بحث مباحثہ ہوا تو کسی نے ایک حربہ سوچ لیا، محمد بن قاسم نے اس پر غور کیا تو اسے یہ اچھا لگا۔
یہ حربہ رانی لاڈی تھی، راجہ داہر کی اس رانی کو محمد بن قاسم نے اپنے لشکر کے ساتھ رکھا ہوا تھا، اس نے رانی لاڈی کو بلایا اور اسے بتایا کہ اروڑ کے لوگ قلعہ ہمارے حوالے نہیں کر رہے ہیں، اور انھیں یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ راجہ داہر زندہ ہے۔
کیا تم اروڑ کے فریب خوردہ لوگوں پر رحم نہیں کرنا چاہوں گی ؟،،،،،محمد بن قاسم نے رانی لاڈی سے کہا ۔۔۔تم دیکھ رہی ہو کہ محاصرے کا ایک مہینہ گزر گیا ہے، میں اور زیادہ انتظار نہیں کروں گا، اگر کچھ دن اور قلعے کی فوج نے مزاحمت اور دشنام طرازی جاری رکھی تو میں منجنیقوں سے شہر پر پتھر برساؤں گا ،اور تم جانتی ہو کہ ہمارے پاس آگ والے تیر بھی ہیں جو شہر پر برسے تو تمام شہر جل کر راکھ ہو جائے گا ۔
مجھے یہ بتاؤ کہ میں کیا کر سکتی ہوں؟،،،، رانی لاڈی نے پوچھا ۔۔۔کیا تم مجھے قلعے کے اندر بھیج سکتے ہو۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے جواب دیا ۔۔۔یہ شاید تمہارے لئے اچھا نہ ہو، وہ کہہ سکتے ہیں کہ تم بخوشی ہمارے ساتھ رہ رہی ہو، تم میرے ساتھ دیوار تک چلو اور ان لوگوں کو بتاؤ کہ راجہ داہر مارا جاچکا ہے، اور انہیں بتاؤ کہ وہ کس تباہی سے دوچار ہوں گے ۔
ہاں!،،،،،، رانی لاڈی نے کہا۔۔۔ مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک تو راجہ داہر کا ہاتھی تھا جس کا رنگ عام ہاتھیوں کی نسبت ہلکا تھا ،اس لئے اسے سفید ہاتھی کہا جاتا تھا، اور ایک اونٹ تھا جس کا رنگ سیاہ تھا اور وہ بہت بڑا اونٹ تھا ،داہر کا سفید ہاتھی اور راوڑ کی جنگ میں مارا گیا تھا، اس کا سیاہ اونٹ جو اس کی سواری کے لیے فوج کے ساتھ رہتا تھا محمد بن قاسم کے قبضے میں تھا، تاریخ میں لکھا ہے کہ راجہ داہر اور رانی لاڈی اکٹھے اس اونٹ پر سواری کیا کرتے تھے۔
محمد بن قاسم نے رانی لاڈی کو اس اونٹ پر سوار کیا خود گھوڑے پر سوار ہوا، لاڈی کے چہرے پر نقاب تھا محاصرے تک پہنچ کر محمد بن قاسم رک گیا ،اور اس نے رانی لاڑی کو آگے بھیجا،رانی لاڈی صدر دروازے کے قریب پہنچی تو اس نے اونٹ روک لیا اور چہرے سے نقاب اٹھا دیا ، قلعہ دار دیوار کے اوپر کھڑا تھا۔
اروڑ کے لوگوں !،،،،،،رانی لاڈی نے بلند آواز سے کہا ۔۔۔مجھے پہچانو میں تمہاری رانی ہوں،،،، اپنے حاکموں کو بلاؤں میں ان سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔
تھوڑی ہی دیر بعد دیوار کے اوپر شہر کے حاکم نمودار ہوئے، ان میں راجہ داہر کا بیٹا گوپی بھی تھا۔
ہم نے تمہیں پہچان لیا ہے رانی!،،،، کسی نے اوپر سے کہا ۔۔۔کہو کیا کہنا چاہتی ہوں؟
مان لو کہ راجہ داہر مارا جا چکا ہے۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔وہ زندہ ہوتا تو میں ان مسلمانوں کی قیدی نہ ہوتی، راجہ کا سر اور اس کا جھنڈا ان لوگوں نے اپنے ملک بھیج دیا ہے۔
مورخ لکھتے ہیں کہ اتنا کہہ کر رانی زار و قطار رونے لگی، لیکن قلعے کے اوپر سے جو آوازیں آئیں ان سے پتہ چلتا تھا کہ انہیں یقین نہیں آرہا۔
تم جھوٹ کہتی ہو۔۔۔ گوپی نے کہا۔۔۔ تم پر ان لٹیروں اور گائے کا گوشت کھانے والوں کا جادو چل گیا ہے، مہاراج داہر زندہ ہیں ،وہ اتنا بڑا لشکر لے کر آرہے ہیں کہ ان مسلمانوں کی اور تمہاری ایک بوٹی بھی نہیں ملے گی، ان کے ساتھ مل کر تم نے اپنے آپ کو ناپاک کر لیا ہے۔
میں تمہیں بہت بڑی تباہی سے بچانا چاہتی ہوں ۔۔۔رانی لاڈی نے روتے ہوئے کہا۔۔۔ یہ مسلمان شہر کو جلا کر راکھ کر دیں گے ۔
دیوار کے اوپر سے اسے برا بھلا کہا جانے لگا۔
رانی !،،،،محمد بن قاسم نے آواز دی اور بلند آواز سے کہا ۔۔۔واپس آ جاؤ، ان لوگوں کی قسمت میں تباہ ہو جانا ہی لکھا جاچکا ہے تو اس تحریر کو کوئی نہیں مٹا سکتا ۔
رانی لاڈی واپس آگئی۔
زیادہ تر مورخوں نے لکھا ہے کہ رانی لاڈی کی بات پر گوپی اور دوسرے حاکموں کو یقین تو نہ آیا لیکن ایک شک ضرور پیدا ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ محاصرے کو ایک مہینہ گزر گیا تھا اور راجہ داہر کو غائب ہوئے اور زیادہ عرصہ گزر گیا تھا لیکن وہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شہر میں ایک بوڑھی جادوگرنی تھی، جو الٹے سیدھے عمل کرتی اور شعبدے دکھاتی تھی، گوپی تین چار فوجی حاکموں کو ساتھ لے کر اس جادوگرنی کے پاس گیا اور اسے کہا کہ وہ بتائے کہ راجہ داہر کہاں ہے؟
اس نے کہا کہ وہ اگلے روز میدان میں کھڑے ہو کر جواب دے گی۔
گوپی تو شاید درپردہ جادوگرنی کے پاس گیا ہوگا ،لیکن کانوں کان شہر کے لوگوں کو پتہ چل گیا کہ جادوگرنی کل فلاں جگہ اس سوال کا جواب دے گی، اگلے روز اس شہر کے لوگ اس میدان میں اکٹھے ہونے لگے ،بوڑھی جادوگرنی عجیب و غریب لباس میں ملبوس نمودار ہوئی ،اس کے ہاتھ میں سیاہ مرچ کے پودے کی ایک شاخ تھی وہ ایک اونچی جگہ جا کھڑی ہوئی اور سیاہ مرچ کی شاخ بلند کی۔
اے لوگو !،،،،،،اس نے کانپتی ہوئی مگر بلند آواز میں کہا۔۔۔ کیوں وہم میں پڑے ہوئے ہو، میں دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہو آئی ہوں، سارے ہندوستان کو دیکھ آئی ہوں، مجھے تمہارے راجہ کا کہیں سراغ نہیں ملا ،وہ زندہ ہوتا تو میرے جادو کے زور سے کھینچا ہوا مجھ تک پہنچ جاتا، میرے علم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، راجہ داہر زندہ نہیں اگر تمہیں یقین نہ آئے تو میرے ہاتھ میں سیاہ مرچ کی یہ ہری شاخ دیکھ لو ،یہ پودا یہاں نہیں اگتا یہ میں سراندیب سے توڑ لائی ہوں،،،،،،،،،راجہ داہر کا انتظار چھوڑ دو اور اپنی سلامتی کی فکر کرو۔
جادوگرنی کے اس اعلان سے سب لوگ بہت مایوس ہوئے لوگوں نے مسلمانوں کی منجنیقوں اور آتشیں تیروں کی تباہی کے بڑے خوفناک قصے سن رکھے تھے، انہوں نے اسی وقت قلعہ مسلمانوں کے حوالے کرنے کی باتیں شروع کردیں، اس کا اثر فوج پر بھی ہوا ان میں لڑنے کا جو جذبہ تھا وہ بری طرح مجروح ہوا، ایک دو فوجی حاکموں نے بھی مسلمانوں کے حسن سلوک اور عدل و انصاف کی باتیں شروع کر دیں۔
رات کا وقت تھا کہ مسلمانوں کے محاصرے میں ایک جگہ ایک تیر گرا، اس کے ساتھ ایک باریک کپڑے کا ایک ٹکڑا بندھا ہوا تھا اور اس پر عربی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا، یہ تیر اٹھا کر شعبان ثقفی تک پہنچایا گیا ،یہ پیغام قلعے کے اندر سے آیا تھا اور پیغام بھیجنے والا علافیوں کے قبیلے کا ایک آدمی تھا جو اروڑ میں ملازم تھا۔
کسی بھی مورخ نے اس کا نام نہیں لکھا ، پیغام یہ تھا کہ راجہ داہر کا بیٹا گوپی قلعے سے بھاگ رہا ہے، گوپی نے جب دیکھا کہ شہر کے لوگ حوصلہ ہار بیٹھے ہیں اور ایسا امکان بھی پیدا ہو گیا ہے کہ وہ فوج کے خلاف ہو جائیں گے تو گوپی نے وہاں سے بھاگ نکلنے کا فیصلہ کر لیا اور وہ رات کو کسی طرف سے نکل گیا۔
محمد بن قاسم کے لئے یہ اطلاع بڑی کارآمد تھی اس نے اس قلعہ بند شہر کے لوگوں اور فوجیوں کا حوصلہ جلد ہی توڑنے کے لئے فوج کو حکم دیا کہ بلند آواز سے نعرے لگا کر دیوار پر کھڑے فوجیوں پر تیزی سے تیر برسائیں اور باقی فوج شہر کے دروازوں پر ٹوٹ پڑے۔
محمد بن قاسم کے حکم کی جب تعمیل ہوئی تو مسلمانوں کے نعروں کی گرج شہر کے اندر سنائی دینے لگی ،اس سے لوگ اور فوجی ہمت ہار بیٹھے، آخر شہر کا ایک دروازہ کھلا اور کچھ آدمی جو فوجی نہیں لگتے تھے باہر نکلے، انہوں نے ذرا پیچھے رک کر کہا کہ انھیں شہر کے تاجروں اور دوسرے لوگوں نے بھیجا ہے، ان کے اس اعلان پر انہیں آگے بلایا گیا اور محمد بن قاسم سے ملوایا گیا۔
ہم دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے آئے ہیں۔۔۔ اس وفد کے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔آپ کا مقابلہ اس یقین کے ساتھ ہوتا رہا ہے کہ راجہ داہر زندہ ہے اور فوج لے کر آرہا ہے، اب ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ وہ زندہ نہیں، راج دربار کا یہ حال ہے کہ وہاں راجکمار گوپی تھا لیکن وہ ہمیں بے یارومددگار چھوڑ کر قلعے سے نکل گیا ہے، نہ ہم میں آپ کے مقابلے کی ہمت ہے نہ ہماری فوج ، ہم آپ کی اطاعت قبول کرتے ہیں، ہماری جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت آپ کے ذمہ ہے۔
تم لوگوں نے عقل مندی سے کام لیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔لیکن جب تک تمہاری فوج دیواروں پر اور قلعے کے اندر موجود ہے ہم تم لوگوں پر اعتبار نہیں کرسکتے، دیواروں سے تمام فوجی نیچے چلے جائیں اور قلعے کے تمام حاکم قلعے سے باہر آجائیں۔
وفد واپس چلا گیا مسلمان دیکھتے رہے کچھ ہی دیر بعد دیوار کے اوپر جو ہندو فوجی کھڑے تھے وہ غائب ہونے لگے، پھر جس دروازے سے وہ وفد باہر آیا تھا اس سے بہت سے فوجی حاکم جو سالاری کے رتبے کے تھے باہر آئے ،سب نے اپنی تلوار محمد بن قاسم کے آگے رکھ دی، اور شہر کی چابی اسے پیش کی گئی۔
محمد بن قاسم اپنی فوج کے آگے شہر میں داخل ہوا شہر میں اس کی نظر ایک مندر پر پڑی جسے وہ لوگ نوبہار کہتے تھے، اس کے قریب سے گزرتے اس کی نظر دروازے کے اندر چلی گئی دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک بت کے آگے سجدے میں پڑے ہوئے ہیں، محمد بن قاسم گھوڑے سے اترا اور اس بت خانے کے اندر چلا گیا، یہ ایک خوبصورت پتھر سے تراشا ہوا گھوڑا تھا اس پر پتھر سے تراشا ہوا ایک دیوتا سوار تھا، سوار کے دونوں آستینوں پر چمڑے کے بازوبند چڑھے ہوئے تھے جن میں زروجواہرات جڑے ہوئے تھے، محمد بن قاسم نے ایک بازوبند اتار لیا۔
اس عبادت گاہ کا پروہت کون ہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا اور کہا ۔۔۔اسے بلاؤ ۔
ایک پجاری دست بستہ محمد بن قاسم کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
اس بت کا دوسرا بازوبند کہاں ہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
نہیں معلوم!،،،،،، پوجاری نے جواب دیا ۔
اس بت سے پوچھو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔
یہ کیسے بتا سکتا ہے ۔۔۔بوڑھا پوجاری ہنس کر بولا ۔۔۔یہ تو پتھر ہے۔
پھر تم اس کی کیوں پوجا کرتے ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔جسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کا بازو بند کس نے اتار لیا ہے، وہ تمہارے کس کام آتا ہوگا ؟
پجاری خاموش ہو گیا اور محمد بن قاسم ہنستا ہوا باہر نکل آیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کی ہنسی اور مسکراہٹ میں اسلام کا نور تھا، آج کے سندھ کی ریت کے ذرے بھی اسلام کے نور سے جگمگا اٹھے تھے، اروڑ جو اسلام کے دشمن راجہ داہر کے وسیع و عریض راج کا مرکز تھا محمد بن قاسم اور اس کے مجاہدین کے قدموں میں پڑا تھا۔ راجہ داہر تو مارا جا چکا تھا لیکن اروڑ داہر کے مرنے کے بعد بھی اس کفرستان کا اعصابی مرکز تھا اسے تہ تیغ کرنا بہت ہی ضروری تھا۔
شہر میں بھگدڑ اور افراتفری بپا تھی محمد بن قاسم کی فوج ابھی شہر میں داخل ہو ہی رہی تھی شہر کے لوگوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ان پر جبر اور تشدد نہیں ہوگا پھر بھی لوگ خوف و ہراس سے قلعے میں سے نکل بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ جب دیکھتے تھے کہ شہر پناہ کے دروازوں سے نکلنا ممکن نہیں رہا کیوں کہ دروازہ پر مسلمانوں کا پہرا کھڑا ہو گیا تھا تو لوگ گھروں میں گھس کر دروازے بند کر لیتے مگر خوفزدگی کا یہ عالم تھا کہ وہ گھروں میں بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے تھے اور بھاگتے پھر رہے تھے۔
محمد بن قاسم نے حکم دیا کے شہر میں اعلان کر دیا جائے کہ شہر کے ہر مرد، عورت، بوڑھے، اور بچے کو امان دی جاتی ہے، شہر والوں کے مال و اموال اور ان کی عورتوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا، یہ اعلان سورج غروب ہونے تک ہوتا رہا تھا کہ ہر گھر میں پہنچ جائے۔ محمد بن قاسم نے کہا اور یہ اعلان بھی کیا جائے کہ شہر کے لوگ ان آدمیوں کو گھروں سے باہر نکالیں جو ہمارے خلاف جنگ میں شریک تھے، اگر اروڑ کا کوئی فوجی کسی گھر میں چھپا ہو ا مل گیا تو اس گھر کے تمام افراد کو جن میں عورتیں اور بچے شامل نہیں ہونگے قتل کر دیا جائے گا۔
فتوح البلدان میں ذکر ہے کہ محمد بن قاسم نے حکم دے دیا کہ جو فوجی اور شہری لڑائی میں شریک تھے انہیں قتل کر دیا جائے۔
ابھی محمد بن قاسم راجہ داہر کے محل میں نہیں پہنچا تھا سب سے پہلے وہ اس بت خانے میں چلا گیا تھا جسے نوبہار کہتے تھے، اس کا ذکر ہو چکا ہے وہیں سے باہر آکر اس نے شہریوں کو امن و امان دینے کا پھر جنگ میں شریک ہونے والوں کے قتل کا حکم دیا تھا، پھر وہ آہستہ آہستہ اروڑ کے محل کی طرف چل پڑا ،اسے اطمینان تھا کہ اس کے احکام پر عمل ہورہا ہے اور فوج کا ہر فرد اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے ،ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ فوج کے بعض آدمی چوری چھپے احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہونگے، گھروں میں داخل ہو کر لوگوں کو پریشان کر رہے ہونگے ،اگر مجاہدین کو اس قسم کا لالچ ہوتا تو وہ اتنی فتوحات بھی حاصل نہ کرسکتے ۔
ان فوجیوں اور شہریوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی جو اروڑ کے دفاع میں لڑے تھے، ان کے ہاتھوں متعدد مجاہدین شہید اور زخمی ہوئے تھے۔
محمد بن قاسم گھوڑے پر سوار ادھر ادھر دیکھتا جا رہا تھا اس کے پیچھے پیچھے محافظوں کے گھوڑے تھے اور چار قاصد بھی گھوڑوں پر سوار ساتھ ساتھ جا رہے تھے ،ایک ترجمان بھی ساتھ تھا جو عربی اور سندھی زبانیں روانی سے بولتا تھا، ایک بڑھیا سامنے سے آتی نظر آئی، اس کا حال حلیہ یہ بتا رہا تھا کہ مجذوب ہے، اس نے سر پر رومال باندھ رکھا تھا ،اس کے سفید بال رومال سے باہر لٹک رہے تھے، رومال پر سرخ رنگ کی پٹی لپیٹی ہوئی تھی جس نے اس کی پیشانی ڈھانپ رکھی تھی، گلے میں کھجور جتنے موٹے کسی رنگوں کے موتیوں کی مالا لٹک رہی تھیں اس نے ایک لمبا چغہ پہنا ہوا تھا جو کندھوں سے پاؤں تک چلا گیا تھا ،اس کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے، پاؤں پر کپڑے لپٹے ہوئے تھے اس کا قد لمبوترا تھا۔
وہ محمد بن قاسم کے گھوڑے کے بالمقابل آ رہی تھی ایک محافظ نے اپنا گھوڑا آگے کیا اور اس بڑھیا کو راستے سے ہٹنے کو کہا، لیکن بڑھیا کچھ کہے بغیر محافظ کے گھوڑے کے پہلو سے آگے نکل آئی، اس کے ایک ہاتھ میں ڈیڑھ دو فٹ لمبی کسی پودے کی شاخ تھی ،اس کے دوسرے ہاتھ میں ایک تسبیح تھی جس کے دانے کانچ کے بلوروں جیسے موٹے تھے لیکن ان میں چمک نہیں تھی، اس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا لیکن اس کے چہرے پر جلال سا تھا اور اس کی آنکھوں میں ایسا تاثر تھا جیسے اس کی نظریں دوسروں کی آنکھوں سے ان کے دلوں میں اتر رہی ہو ۔
دوسرا محافظ آگے بڑھا اس نے اپنا گھوڑا اس پگلی سی بڑھیا اور محمد بن قاسم کے گھوڑے کے درمیان کردیا۔
مت آ میرے راستے میں اے فاتح سوار !،،،،،بڑھیا نے محافظ سے کہا ۔۔۔اپنے سالار سے کہہ کہ فتح پر اتنا نہ اِترائے۔
ترجمان نے محمد بن قاسم کو عربی زبان میں بتایا کہ بڑھیا نے کیا کہا ہے۔
اس کے راستے سے ہٹ جاؤ !،،،،،،محمد بن قاسم نے اپنے محافظ سے کہا۔
محافظ نے اپنا گھوڑا ہٹا لیا تو بڑھیا محمد بن قاسم کے قریب آ گئی۔
ایک گھوڑسوار گھوڑا دوڑاتا آیا اور محمد بن قاسم کے قریب آکر گھوڑا روکا ،وہ شعبان ثقفی تھا ۔
ابن قاسم !،،،،،،،شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ کیا تم جان چکے ہو یہ بڑھیا کون ہے؟
ابھی نہیں شعبان!،،،
یہ جادو گرنی ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اس کے متعلق مجھے مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ اس نے لوگوں اور راجہ داہر کے بیٹے گوپی کو بتایا تھا کہ راجہ مارا جاچکا ہے، کہتے ہیں کہ اس نے اپنے جادو کے ذریعے معلوم کیا تھا کہ راجہ داہر زندہ نہیں۔
کیا تیرا جادو ان زندہ لوگوں کو دیکھ سکتا ہے جنہیں تیری نظر نہیں دیکھ سکتی ؟،،،،،محمد بن قاسم نے بوڑھی جادوگرنی سے پوچھا۔
کیا تو میرے ہاتھ میں یہ ڈالی نہیں دیکھ رہا۔۔۔ جادوگرنی نے کہا ۔۔۔یہ سرخ مرچ کے پودے کی ڈالی ہے جو راجہ داہر کی سلطنت میں کہیں نہیں ملے گی، یہ پودا یہاں نہیں اگتا، کیا تو بتا سکتا ہے کہ یہ میرے ہاتھ میں کہاں سے آ گیا؟
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے جواب دیا۔
تو نہیں بتا سکے گا ۔۔۔جادوگرنی نے کہا۔۔۔ تجھے صرف قلعے اور فوجی نظر آتی ہیں، تو صرف فتح اور شکست کو سمجھتا ہے، تجھے یہ معلوم نہیں کہ تیرا کل کا دن کیسا ہو گا، تیری زندگی کا سورج طلوع ہو گا یا نہیں تو نہیں جانتا۔
میں صرف یہ جانتا ہوں کہ آج کا دن اپنے ان فرائض کی ادائیگی میں گزرے جو خدا نے میرے سپرد کیے ہیں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اور جب میں خدا کے سامنے جاؤں تو میں یہ کہہ سکوں کہ میں نے اپنے فرائض سے آنکھیں نہیں پھیریں۔
محمد بن قاسم نے اس عورت کے ساتھ جو مجذوب اور پاگل لگتی تھی اتنی سنجیدگی سے اس لئے بات کی تھی کہ اس کے بولنے کے انداز اور الفاظ میں ایسا تاثر تھا جو گواہی دیتا تھا کہ یہ عورت مجذوب نہیں پاگل بھی نہیں۔
کیا تو گھوڑے سے نہیں اترے گا ؟،،،،جادوگرنی نے کہا ۔۔۔تو گھوڑے سے ضرور اترے گا، تیرا چہرہ اور تیری آنکھیں بتا رہی ہیں کہ تو ان بادشاہوں جیسا نہیں جو مجھ جیسوں کو پاؤں تلے کچلے جانے والے کیڑے سمجھتے ہیں ۔
محمد بن قاسم گھوڑے سے اتر آیا ،جادوگرنی نے اس کے سر پر اس طرح ہاتھ رکھا کہ اس کی انگلیاں محمد بن قاسم کے سر پر، انگوٹھا ناک کی سیدھ میں اوپر پیشانی کے درمیان تھا۔ جادوگرنی نے محمد بن قاسم کی آنکھوں میں جھانکا اور فوراً اپنا ہاتھ اس کے سر سے ہٹا کر ذرا پیچھے ہٹ گئی۔
راجہ داہر مر چکا ہے اور سب کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہے۔۔۔ جادوگرنی نے کہا۔۔۔ اور تو زندہ ہے لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ نہیں،،،،،، آگے مت سنو۔۔۔ وہ چپ ہو گئی اور ایک طرف چل پڑی۔
محمد بن قاسم نے اپنا بازو اس کے آگے کر کے اسے روک لیا۔
میں اس سے آگے سنوں گا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تم مجھے میری موت کی خبر نہیں سنانا چاہتی، تم شاید نہیں جانتی کہ ہم موت کو قبول کر کے گھروں سے نکلے ہیں، گزرنے والے ہر لمحے کو ہم زندگی کا آخری لمحہ سمجھتے ہیں ،موت ہمیں ڈرا نہیں سکتی، دشمن کی کمان سے نکلا ہوا کوئی بھی تیر میرے سینے میں اتر سکتا ہے، تم مجھے میری موت کی خبر سنائی تو مجھ پر کچھ اثر نہیں ہو گا۔
تو میدان جنگ میں نہیں مرے گا ۔۔۔جادوگرنی نے کہا۔۔۔ اور تیری عمر لمبی بھی نہیں، تیرا ستارہ بہت اونچا چلا گیا ہے اور بڑی تیزی سے اونچا گیا ہے، اسے اب ٹوٹنا ہے۔
کب ؟
اسی عمر میں۔۔۔ جادوگرنی نے جواب دیا۔۔۔۔ لیکن اس کی روشنی نہیں بجھے گی ۔
محمد بن قاسم ہنس پڑا اسکے چہرے پر جو تاثر تھا اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہ آئی۔
ہر بادشاہ اور ہر مہاراجہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے۔۔۔ جادوگرنی نے کہا ۔۔۔ساری رعایا کی عمر اس اکیلے کو مل جائے لیکن ایک روز موت اچانک آ جاتی ہے اور وہ رعایا کی آنکھوں کے سامنے دفن ہو جاتا ہے۔
میرا مذہب ایسی بادشاہی کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ مجھے یہ معلوم کرنے کی خواہش ہی نہیں کہ میں کب تک زندہ رہوں گا۔
تم نے ابھی آگے جانا ہے۔۔۔ جادوگرنی نے کہا ۔۔۔اور وہ چل پڑی۔
محمد بن قاسم نے اسے نہ روکا محمد بن قاسم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم اروڑ کے محل کے احاطے میں داخل ہوا، ریگزار میں اتنے سرسبز اور حسین نخلستان کو دیکھ کر اس نے گھوڑا روک لیا اور ہر سُو دیکھا ،اس کے ہونٹوں پر جو لطیف سی مسکراہٹ تھی وہ نکھر آئی ۔
یہاں وہ لوگ رہتے تھے جو سمجھتے تھے کہ موت بھی ان کے حکم کی پابند ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
کسی بھی مورخ نے نہیں لکھا کہ اس وقت راجہ داہر کے خاندان کے کون کون سے افراد محل میں موجود تھے، اس کے بیٹے گوپی کے متعلق پتہ چلا ہے کہ وہ اروڑ سے بھاگ گیا تھا، وہ اپنے خاندان اور ملازموں کو بھی ساتھ لے گیا تھا ،صرف راجہ داہر کی رانی لاڈی وہاں تھی، وہ محمد بن قاسم کے ساتھ قلعے میں داخل ہوئی تھی اور اسے محمد بن قاسم نے کہا تھا کہ وہ محل میں چلی جائے، محمد بن قاسم گھوڑے سے اتر کر محل میں داخل ہوا تو لاڈی باہر آ گئی اور محمد بن قاسم کے سامنے آ رکی۔
کیا آپ نے ان تمام لوگوں کے قتل کا حکم دیا ہے جو آپ کے خلاف جنگ میں شریک تھے؟۔۔۔رانی لاڈی نے محمد بن قاسم سے پوچھا ۔
ہاں !،،،،،محمد بن قاسم نے جواب دیا ۔۔۔ہم صرف اسی کی جان بخشی کیا کرتے ہیں جو ہمارے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
فاتح بادشاہوں کا دستور تو یہی ہے۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا۔۔۔ لیکن آپ کا دستور یہ نہیں ہونا چاہیے ،آپ تو انسان دوستی کا دعوی کیا کرتے ہیں۔
اگر تم میرے جنگی معاملات میں دخل نہ دو تو میرے دل میں تمہاری عزت موجود رہے گی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم اپنے لوگوں کو بچانا چاہتی ہو، ان لوگوں نے تمھاری بات بھی نہیں مانی تھی، انہوں نے تمہارا مذاق اڑایا تھا اور تم پر بہت برے الزامات لگائے تھے۔
دونوں باتیں غلط ہیں ۔۔۔رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔میں آپ کے جنگی معاملات میں دخل نہیں دے رہی، نہ میں اپنے آدمیوں کو بچانا چاہتی ہوں ،میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ ان لوگوں نے اس ڈر سے ہتھیار نہیں ڈالے تھے کہ آپ کی فوج شہر میں داخل ہوگئی تو لوٹ مار کرے گی اور کسی کی عزت اور آبرو نہیں رہنے دے گی۔
ہم مفتوحہ قلعے کی فوج اور لڑنے والے شہریوں کو اس لئے ختم کردیتے ہیں کہ وہ ایک جگہ سے بھاگ کر دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں اور وہاں کی فوج کے ساتھ مل کر اسے مضبوط بنادیتے ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ دشمن کی جنگی قوت کو کمزور کیا جائے۔
میں کسی اور مقصد کے لئے آپ سے کہہ رہی ہو کہ قتل عام کا حکم نہ دیں۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا۔۔۔ کوئی شک نہیں کہ آپ مجھ سے زیادہ عقل والے ہیں، یہ عقل ہی ہے جو آپ کو عرب سے اروڑ تک لے آئی ہے اور یہاں پہاڑوں جیسے قلعے آپ کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکیں، لیکن عقل کبھی دھوکا بھی دیتی ہے، آپ اروڑ کے لوگوں کو نہیں جانتے ،یہ شہر صنعت اور زراعت کا مرکز ہے، فوجی بھی فارغ وقت میں کھیتی باڑی کرتے ہیں، اور ان میں کاریگر بھی ہیں، دوسرے لوگ کاریگر بھی ہیں معمار اور کاشتکار بھی ہیں، جنگی ہتھیار اور سازوسامان بنانے والے بھی ہیں ،تاجر ایسے ہیں کہ انہوں نے تمام ملک ہند میں تجارت پھیلا رکھی ہے، یہ صحیح ہے کہ یہ لوگ بھی فوج کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف لڑے تھے اور انہوں نے اپنے ذاتی ملازموں کو بھی آپ کے خلاف لڑایا تھا ،اور ان لوگوں نے عہد کیا تھا کہ قلعہ بغیر لڑے آپ کے حوالے نہیں کریں گے، فاتحین کے رواج کے مطابق انھیں آپ کے ہاتھوں قتل ہی ہونا چاہیے لیکن ان کے قتل سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ ان کاریگروں، کاشت کاروں اور تاجروں کو قتل کردیں گے جن کے محصولات سے آپ کی سلطنت کا کاروبار چلے گا ،ورنہ آپ کا خزانہ خالی ہو جائے گا، پھر آپ ان لوگوں پر جبر کرکے محصولات وصول کریں گے جو آپ کو ایک ایک مٹھی دانہ دینے کے بھی قابل نہیں ہونگے۔
ایسا تو ہرگز نہیں تھا کہ محمد بن قاسم نے ایک ہندو عورت کے کہنے پر ان لوگوں کے قتل کا فیصلہ منسوخ کردیا، البتہ وہ رانی لاڈی کی بات سمجھ گیا اس نے اپنے سالاروں، مشیروں ،اور خصوصا شعبان ثقفی سے صلح مشورہ کرکے قتل کا فیصلہ منسوخ کردیا
یہ فیصلہ اروڑ کے محل میں ہوا تھا، جب سالار اور مشیر وغیرہ چلے گئے تو ایک آدمی محمد بن قاسم کے پاس آیا اور اس نے عربی زبان میں بات کی، وہ ادھیڑ عمر کا آدمی تھا ۔
خدا کی قسم تیری زبان میں عرب کے صحرا کی چاشنی ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔لیکن تو ہم میں سے نہیں، میرے ساتھ آنے والوں سے نہیں۔
سلامتی ہو تجھ پر ابن قاسم!،،،،،،،، اس آدمی نے کہا۔۔۔ میں ان میں سے ہوں جو بغاوت کے جرم میں جلا وطن ہیں ،میرا نام حمود ہے، حمود بن جابر، میں اس محل میں ملازم رہا ہوں، میری دشمنی خلیفہ سے ہو سکتی ہے، اپنے وطن اور اپنے مذہب اور اپنے وطن کے سالاروں سے تو میری کوئی دشمنی نہیں،،،،،،،، اور مجھے یقین ہے کہ تجھے معلوم ہوگا کہ جنہیں بنوامیہ نے اپنا دشمن اور باغی کہا وہ کس طرح درپردہ تیری مدد کرتے رہے۔
ابن جابر !،،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تم سب کو اجر اللہ دے گا ،حجاج بن یوسف نے مجھے یہاں اپنی بادشاہی میں نئے ملک شامل کرنے کے لئے نہیں بھیجا، تو جانتا ہے ہم یہاں کیوں آئے ہیں، میں یہاں آیا تو ایک بت کے آگے کچھ لوگوں کو سجدے میں پڑا دیکھا ،میں نے نظر بچا کر بت کا بازوبند اتار لیا، بت کو پتہ نہ چلا ،اس بت کی عبادت کرنے والوں کے ہاتھ سے قلعہ نکل گیا اور انہیں شکست ہوئی مگر یہ لوگ ابھی تک اس بے جان بت کے آگے سجدہ کررہے تھے ،اگر میں انہیں یہ نہ بتاؤ کے عبادت کے لائق صرف اللہ ہے اور فتح و شکست اسی کے ہاتھ میں ہے تو کیا میں گنہگار نہیں ہوں ہوگا ،میں اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے گھر سے نکلا ہوں۔
میں ایک بات کرنے آیا ہوں ابن قاسم !،،،،،،حمود بن جابر نے کہا ۔۔۔تو نے اروڑ کی فوج اور شہر کے ان لوگوں کو جو تیرے خلاف لڑے تھے بخش دیا ہے ۔
کیا میں نے ٹھیک نہیں کیا؟
ابن قاسم !،،،،،،حمود نے کہا۔۔۔۔ میں تجھے یہی بتانے آیا ہوں کہ تیرا فیصلہ ٹھیک ہے، لیکن اس قوم سے ہوشیار رہنا ان کے جسموں کو قتل نہ کرنا ان کے جسموں کے اندر جو انسان ہے انہیں قتل ہونا چاہیے، ان پر بتوں کا جو بھوت سوار ہے اس کی جان بخشی نہ کرنا، انہیں اسلام کی روشنی پیار سے دیکھا، کوئی اور طریقہ اختیار کرو ورنہ یہ سمجھ لو کہ تو نے سانپوں کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی سے کہا کہ وہ شہر میں زیادہ سے زیادہ مخبر پھیلا دے اور ہر گھر کے اندر کے حالات بھی معلوم کرتا رہے ،اس حکم کے تحت جو مخبر بنائے گئے وہ سب کے سب مقامی لوگ تھے شہر کے انتظامات اور نظم و نسق کو نئی شکل دی گئی ،محمد بن قاسم نے رواح بن اسد کو اروڑ کا حاکم مقرر کیا ۔
چونکہ اروڑ کے لوگوں کو بخش دیا گیا تھا اس لئے ان کے دلوں اور ان کی سوچوں کو اپنی طرف مائل کرنا ضروری تھا اس کے لئے محمد بن قاسم نے مذہبی امور کے لیے الگ حاکم مقرر کردیا، یہ تھا موسی بن یعقوب بن محمد بن شیبان بن عمان ثقفی، شہر کا قاضی بھی اسی کو مقرر کیا گیا۔
ابن یعقوب !،،،،،محمد بن قاسم نے ان سے خصوصی ہدایات دیتے ہوئے کہا ،،،،،اہل ثقیف کو آپ پر فخر ہے ،آپ مجاہد بھی ہیں ،عالم بھی ہیں ،ہم نے کفرستان میں آکر اپنی عدالت قائم کی ہے ،ان غیر مسلموں کو عمل سے بتانا ہے کہ عدل و انصاف کیا ہوتا ہے، انہیں دکھانا ہے کہ مسلمانوں کی عدالت اللہ کے احکام کی پابند ہوتی ہے اور اس عدالت میں امیر اور غریب حاکم اور محکوم ایک ہوتے ہیں، اللہ کا قانون دنیاوی رتبوں سے انسانوں کی اونچ نیچ کا تعین نہیں کرتا۔
چچ نامہ فارسی میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے موسی بن یعقوب سے کہا کہ وہ قرآن کی اس آیت کو مشعل راہ بنائے،
*یامرون بالمعروف و ینہون عن المنکر*
محمد بن قاسم کو اب آگے بڑھنا تھا لیکن وہ یہ دیکھنے کے لئے رکا رہا کہ اروڑ کی سرکاری مشینری کس طرح چل رہی ہے، اور جزیہ کی وصولی میں کوئی دشواری تو نہیں پیش آرہی، دیکھنے والی بات یہ تھی کہ اروڑ کے لوگوں کا درپردہ رویہ کیا ہے اور ان کے دلوں میں کوئی خطرناک ارادے پرورش نہ پا رہے ہوں۔
مخبر اپنا کام کر رہے تھے ان کی اطلاع آئی امید افزا تھی لوگوں نے اپنا کاروبار شروع کردیا تھا شہر کے حالات معمول پر آگئے تھے چونکہ محمد بن قاسم نے شہر کے لوگوں پر اسلام قبول کرنے کی پابندی عائد نہیں کی تھی اور عبادت گاہوں پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی اس لئے تمام غیر مسلم مسلمانوں کے ممنون تھے ان کی عزت بھی محفوظ تھی ان کے مویشی اور مال و اموال بھی محفوظ تھے، ان کی اپنی فوج ان سے اناج بلاقیمت لے لیا کرتی تھی یا برائے نام پیسے دے دیا کرتی تھی لیکن مسلمان ان سے پوری قیمت دے کر اناج اور دیگر اشیاء خریدتے تھے ان کے ساتھ مسلمانوں کا یہ سلوک خلاف توقع تھا، حالانکہ انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ مسلمان مفتوحہ لوگوں پر جبروتشدد نہیں کرتے۔
ایسے اچھے سلوک اور رویے کا اثر اروڑ کے لوگوں پر ایسا پڑا کے انہوں نے بظاہر دل سے مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی تھی، مذہبی امور کے حاکم اور قاضی موسی بن یعقوب نے اسلام کی تبلیغ شروع کردی تھی اور چند ایک ہندو خاندانوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، پھر بھی محمد بن قاسم کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا رات کو اس نے رانی لاڈی کو بلایا، لاڈی عالم شباب میں تھی اور اس کا حسن بے مثال تھا وہ راجہ داہر پر طلسم کی طرح چھائی رہتی تھی مگر داہر کے جسم سے شباب کبھی کا رخصت ہوچکا تھا ،اس وقت لاڈی نوجوان تھی اب تو داہر کے جسم سے روح بھی رخصت ہو چکی تھی، لاڈی نے محمد بن قاسم کو اعتماد میں لے لیا تھا اور اس کے دل میں اپنا اعتماد پیدا کر لیا تھا، یہ پہلا موقع تھا کہ محمد بن قاسم نے اسے رات کو بلایا تھا رات کو بلانے کا مطلب وہ سمجھتی تھی۔
وہ جب محمد بن قاسم کے کمرے میں داخل ہوئی تو تاریخ اسلام کا یہ نوجوان اسے دیکھ کر حیران رہ گیا اس نے اس جواں سال رانی کو عام اور قدرتی حالت میں دیکھا تھا اور اس رات تک وہ سادگی میں ہی رہی تھی وہ بیوہ ہو چکی تھی اور فاتح سالار کے پاس اس کی حیثیت قیدی کی تھی وہ اب رانی نہیں تھی کہ بن ٹھن کر رہتی وہ سادہ کپڑوں میں ملبوس رہتی تھی مگر محمد بن قاسم کے بلانے پر آئی تو بن ٹھن کر آئی ریشمی کپڑوں بناؤ سنگھار اور فانوس کی پیلی روشنی میں وہ محمد بن قاسم سے چھوٹی لگتی تھی، اس کے ہونٹوں پر جو تبسم تھا وہ اس کے جذبات کے وبال کا پتا دیتا تھا ۔
مجھے معلوم تھا ایک رات تم مجھے بلاؤ گے۔۔۔ رانی لاڈی نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ تمہارے شباب نے آخر تمہیں مجبور کرہی دیا ۔
محمد بن قاسم ہنس پڑا۔
میں نے تمہیں مجبور ہوکر ہی بلایا ہے لاڈی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اب تم اگر بناؤ سنگھار کے بغیر آتی تو میں شاید زیادہ خوش ہوتا۔
میں ایک خوبصورت شکریہ بن کر آئی ہوں۔۔۔ لاڈی نے کہا۔۔۔ تم نے مجھے جو عزت دی ہے اس کا شکریہ بناؤ سنگھار کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا، میں قیدی تھی تمہاری، لیکن تم نے مجھے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں قیدی ہوں میں تمہیں کہا کہ اروڑ کے لوگوں کو قتل نہ کرو تم نے میری بات مان لی، اگر میں اب بھی رانی ہوتی تو تمہیں اپنے تخت پر بیٹھاتی، مگر اب میرے پاس کچھ نہیں اب میں تمہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی ہوں ،اب میرے پاس اپنا صرف وجود ہے جو میں صلے کے طور پر پیش کرنے آئی ہوں۔
مجھے صلہ ہی چاہیے لاڈی!،،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔۔ لیکن صلے میں تمہیں قبول نہیں کروں گا، میری ضرورت صرف اتنی ہے کہ سچے دل سے میری رہنمائی کرو، اور جو میں نہیں جانتا وہ مجھے بتاؤ ،اگر مجھے تمہاری ضرورت ہوتی تو یہ آدمی اس کمرے میں موجود نہ ہوتا جو تمہاری اور میری باتیں ہم دونوں کی زبان میں ہم دونوں کو سنا رہا ہے، جذبات تم لے کر آئی ہو وہی جذبات میرے ہوتے تو اس آدمی کی ضرورت نہیں تھی، ان جذبات کی زبان ساری دنیا میں سمجھی جاتی ہے۔
محمد بن قاسم نے اسے الگ بٹھا دیا۔
میں نے تم سے ایک دو باتیں پوچھنی ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میری اگلی منزل بھاٹیہ ہے ،میں معلوم کر چکا ہوں کہ بھاٹیہ کتنا بڑا قصبہ ہے اور وہاں فوج کتنی ہے اور وہاں کے راجہ کا نام ککسہ ہے ،مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ ککسہ راجہ داہر کا چچا زاد بھائی ہے، کیا تم بتا سکتی ہو کہ وہ کیسا آدمی ہے، کیا وہ راجہ داہر کی طرح اکھڑا مزاج ہے؟
نہیں !،،،،،،لاڈی نے جواب دیا ۔۔۔۔وہ راجہ داہر کی طرح اکھڑ مزاج نہیں ،وہ دانشمند ہے اور دانشمندی سے فیصلہ کرتا ہے، میدان جنگ کا دلیر شہسوار ہے، اور تیغ زنی میں کوئی اسے شکست نہیں دے سکتا، بشرطیکہ ایک آدمی کے مقابلے میں ایک آدمی میدان میں اترے ،تمہیں شاید معلوم نہیں کہ ککسہ تمہارے خلاف لڑ چکا ہے، وہ راجا داہر کے ساتھ تھا، راجہ داہر کو ککسہ کا بہت سہارا تھا مگر وہ مارا گیا اور ککسہ اروڑ میں آگیا، تمہاری فوج کی اطلاع ملی کے اروڑ کی طرف آ رہی ہے تو ککسہ یہاں سے بھاٹیہ چلا گیا۔
وہ لڑے بغیر قلعہ ہمارے حوالے نہیں کرے گا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میرے مجاہد اس سے قلعہ لے لیں گے لیکن خون بہت بہہ جائے گا ،میں چاہتا ہوں کہ وہ لڑے بغیرہی ہماری اطاعت قبول کر لے۔
اگر اجازت دو تو میں اس کے پاس چلی جاؤں گی۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔اور اس سے کہوں گی کہ آخر اسے شکست ہی کھانی ہے تو کیوں نہ وہ خونریزی کے بغیر ہی تمہاری اطاعت قبول کر لے۔
نہیں لاڈی !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ وہ کہے گا کہ مسلمانوں کا سپہ سالار بزدل ہے، کہ اس نے ایک عورت کو فتح کا ذریعہ بنایا ہے، میں تم سے صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں عقل کتنی ہے ؟
وہ اروڑ کا رہنے والا ہے۔۔۔ لاڈی نے کہا ۔۔۔ہم نے دیکھ لیا ہے کہ اروڑ کے لوگ عقل مند ہیں دیانت دار اور وفادار ہیں ،ککسہ ان لوگوں سے زیادہ عقلمند ہے، لڑنے کا یا نہ لڑنے کا فیصلہ کرے گا تو سوچ سمجھ کر کرے گا، میری ضرورت ہوئی تو میں اس کے پاس چلی جاؤں گی۔
رانی لاڈی محمد بن قاسم کے کمرے سے نکلی تو اس کے چہرے پر مایوسی کا گہرا تاثر تھا، وہ کچھ اور سوچ کر آئی تھی لیکن مورخوں کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عورت عقل و دانش والی تھی، اچھے برے کی تمیز بھی رکھتی تھی ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>