رسول اللہ ﷺنے جیسے عبادات، معاملات ،اخلاق اور حسن معاشرت سے متعلق تعلیم دی ہے، اسی طرح فتنوں سے بھی آگاہ فرمایا ہے ، اور فتنے کے زمانے سے متعلق بھی بہت ساری روایات ہیں، ہدایات ہیں اور یہ فتنے قربِ قیامت میں اتنے بڑھ جائیں گے جیسے اندھیری رات کی تاریکی ہوتی ہے ، اور ان فتنوں کے مختلف اسباب ہوا کرتے ہیں۔’’فتنہ ‘‘ کسے کہتے ہیں؟ اس کے مختلف مفہوم ذکر کیے گئے ہیں ، آزمائش کو بھی فتنہ کہتے ہیں، امتحان ، مال و دولت کو فتنہ کہاگیا ہے ، گمراہ کرنا اور گمراہ ہونا اس پر بھی فتنے کا اطلاق ہوتاہے ، کسی چیز کو پسند کرنااور اس پر فریفتہ ہوجانا یہ بھی فتنہ ہے ، لوگوں کی رائے میں،نظریات میں اختلاف یہ بھی فتنہ ہے۔
جس دور سے ہم گزررہے ہیں اس دور میں تقریباً یہ ساری چیزیں پائی جارہی ہیں، اس لیے اسے بھی ’’دورِ فتن ‘‘کہنا بجا ہے اور نہ معلوم کہ آئندہ مزید کیا کیا فتنے رونما ہوں گے ؟ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ایسے مواقع پر رسول اللہ ﷺکی تعلیمات کو اپنانے والے بنیں،آپﷺ کی ہدایات و تعلیمات کےمطابق اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور یہ ہدایات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں جو عملی طور پر ان فتنوں کا شکار ہیں۔
احادیث کی کتب میں ’’کتاب الفتن ‘‘ایک مستقل عنوان ہے ، جس میں دورفتن سے متعلق کثیر روایات موجود ہیں، من جملہ ان روایات کے ،ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ، جو مستدرک حاکم ، کنزالعمال سمیت حدیث کی کئی کتب میں منقول ہے ۔وہ ارشاد فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺنے فتنوں کا ذکر فرمایا،یا فتنوں کا ذکر اس مجلس میں چھڑا، تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب تم لوگوں کو اس حال میں دیکھو کہ ان کے آپس کے معاہدات ، معاملات میں دھوکا عام ہوجائے، اور ان میں سے امانت داری کی صفت ختم ہوجائے ، یعنی بددیانت ہوجائیں اور وہ آپس میں اختلاف اور ٹکراؤکی وجہ سے گتھم گتھا ہوجائیں، لڑنے بھڑنے لگ جائیں ،آپ ﷺنے اشارہ کرکے سمجھایا، ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں،یعنی اس طرح باہمی فسادات ہوں ، بات یہاں تک پہنچی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓو فرماتے ہیں کہ میں کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ !میں آپﷺ پر قربان ہوجاؤں، یہ بتایئے کہ ایسے زمانے میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟میں کیا طرز عمل اختیار کروں ؟ تو رسول اللہ ﷺنے پانچ جملے ارشاد فرمائے ،پانچ ہدایات دیں۔
پہلی ہدایت: اپنے گھر کو لازم پکڑو:۔پہلی ہدایت یہ دی کہ اپنے گھر کو لازم پکڑو۔ یعنی تم اپنے آپ کو فتنوں سے دور رکھو، گوشہ نشینی اختیار کرو، بلاضرورت گھر سے باہر مت نکلو۔دیکھیے! کس قدر اعلیٰ نصیحت ہے کہ بجائے فضول گھومنے پھرنے ،ادھر اُدھر جانے کے اطمینان سے اپنے گھر میں رہو، تاکہ عملی طور پر کسی فتنے کا شریک کار نہ بنو۔عملاً بھی فتنوں سے اپنے آپ کو دور رکھو۔یہ اصل مقصود ہے۔
دوسری ہدایت: زبان قابو میں رکھو:۔دوسری ہدایت یہ دی کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ یعنی مقصد کی بات کے علاوہ دیگر گفتگو مت کرو، بے مقصد باتوں میں حصہ مت لو،اس میں شامل مت ہوجاؤ، تاکہ تم نہ قولاً کسی فتنے کا سبب بنو، اور نہ عملی طور پر فتنے کا سبب بنو۔ ملاعلی قاریؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ لوگوں کے احوال ، حالات سے متعلق گفتگو ہی مت کرو، گفتگو میں شامل ہی نہ ہوجاؤ، ورنہ وہ تمہیں تکلیف پہنچائیں گے۔
اس نصیحت پر بھی غور کریں اور پھر آج کے احوال دیکھیں ، ایسے فتنے کا زمانہ ہے کہ حالات حاضرہ پر گفتگوبھی جان لیوا ثابت ہوجاتی ہے ، بسااوقات لوگوں کے احوال سے متعلق گفتگو خود انسان کے دین و ایمان کے لیے خطرناک ثابت ہوجاتی ہے ، اس فضول گفتگو کی وجہ سے لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوجاتے ہیں، گھروں میں افتراق اور انتشار کا ماحول بن جاتا ہے ، ناراضگیاں ہوجاتی ہیں، لوگوں کےدرمیان بات چیت کرتے کرتے جھگڑے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس لیے فرمایا ان موضوعات پر گفتگو ہی مت کرو۔
تیسری ہدایت: موافق شریعت عمل کرو:۔تیسری ہدایت یہ دی کہ جس بات کو شریعت کے موافق پاؤ اس پر عمل کرو۔شریعت کو مقدم رکھو۔اپنے جذبات کو، ماحول کو، اردگرد کے احوال کو شریعت کے ترازو پر پرکھو ، اگر شریعت کے موافق ہوتو عمل کرو، ورنہ چھوڑدو۔ گویا شریعت کے احکامات اور اصول ہی ایک مسلمان کے لیے ترازو اور معیار ہونے چاہئیں۔باقی سب چیزوں کو ایک جانب رکھ کر شریعت کی پیروی اختیار کرو۔
چوتھی ہدایت: خلاف شریعت امور سے اجتناب کرو:۔چوتھی ہدایت اور نصیحت یہ فرمائی کہ جو بات خلاف شریعت ہو، منکر ہو ،شریعت کے خلاف ہو، اس سے اجتناب کرو۔چاہے اس کا تعلق گفتگو سے ، کسی کے طریقہ کار سے ہو،جذبات سے ہو، مگر ہو شریعت کے خلاف تو اس پر عمل مت کرو، اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔
پانچویں ہدایت: اپنی اصلاح کی فکر کرو:۔پانچویں اور آخری ہدایت یہ دی کہ اپنی اصلاح کی فکر کرو، عام لوگوں کے معاملات کو چھوڑو۔ اپنے آپ کو بچاؤ،اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اپنے آپ کو ہلاک مت کرو۔ یعنی تمہیں معلوم ہو کہ تمہاری باتوں سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا، تمہاری نصیحت پر وہ عمل نہیں کریں گے تواب اپنے بچاؤ کی فکر کرو اور ان کے ساتھ مل کر ہلاکت میں مت پڑو۔
اس لیے اہل علم کا یہ مقولہ ہے کہ کبھی بھی انسان کو شر سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے ،اگرچہ شر پر چلنے والے، شر کا ساتھ دینے والے ،شر میں حصہ ڈالنے والے افراد زیادہ ہی کیو ں نہ ہوں، اور کبھی انسان کو خیر کے راستے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، اگرچہ اس راستے پر چلنے والے کم ہی کیوں نہ ہوں۔
یعنی اپنی پوری توجہ اپنی ذات پر رکھو، اپنی فکر کرو، اور ان آپس میں لڑنے بھڑنے والوں سے اور ان کے امور سے تعرض مت کرو۔یعنی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑجائے کہ جو آدمیت کے جوہر سے ہی محروم ہوں ، اور ان لوگوں میں نیکی اور حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو، تو ایسے لوگوں سے صرف نظر کرکے اپنی فکر کرو۔
رسول اللہ ﷺکے ان ارشادات اور قیمتی نصائح سے زیادہ بہتر میری اور آپ کی رہنمائی فتنوں کے دور میں کون کرسکتا ہے ؟ایک ایک نصیحت کو پڑھنے سے ، ٹھنڈے دل سے اس پر غور وفکر کرنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا آج کے حالات رسول اللہ ﷺکی نگاہوں کے سامنے تھے،آپ ﷺکی دوررَس نگاہیں اس ماحول کو اور برپا ہونے والے فتنوں کو دیکھ رہی تھیں، اور آپﷺ اپنی امت کو ایسے دور سے متعلق سنہری نصائح فرمارہے ہیں کہ کیسے امت کے افراد اپنے دین کو ، ایمان کو ، جان کو فتنوں کے زمانے میں محفوظ کرسکیں۔
اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ فتنوں کے دور میں ان نصیحتوں کو اپنے پلو سے باندھ لیں، اپنے دامن سے باندھ لیں ، ان پر خود بھی عمل کرنے والے بنیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی ان نصیحتوں کی تلقین اور انہیں بھی سمجھانے والے بنیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور ہر طرح کے فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے ۔ (آمین)
تحریر: مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ