⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴تینتیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رانی لاڈی محمد بن قاسم کے کمرے سے نکلی تو اس کے چہرے پر مایوسی کا گہرا تاثر تھا، وہ کچھ اور سوچ کر آئی تھی لیکن مورخوں کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عورت عقل و دانش والی تھی، اچھے برے کی تمیز بھی رکھتی تھی ،وہ محمد بن قاسم کو آپ کہتی رہی اور بے تکلفی سے اس نے تم بھی کہا لیکن اس رات اس نے محسوس کرلیا کہ مسلمانوں کا یہ نوجوان سالار جسم نہیں روح ہے، یا یہ خوبصورت نوجوان سرتاپا روحانی قوت ہے ۔
رانی لاڈی کمرے سے نکل گئی اور فوراً ہی واپس آگئی۔
مجھے معاف کر دو گے محمد بن قاسم؟،،،،، اس نے کہا۔۔۔ میں تمہیں ناپاک کرنے آئی تھی۔
کیا تم مجھ پر اپنا جادو چلا کر مجھے نقصان پہنچانے کا ارادہ لے کر آئی تھیں؟،،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔۔وہ کیا تم یہ امید لے کر آئی تھیں کہ مجھ پر اپنا یہ حسین آسیب طاری کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گی؟
مت سوچو ایسی بات محمد بن قاسم !،،،،،لاڈی نے کہا ۔۔۔میرا کوئی ارادہ ایسا نہیں جس سے تمہیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو ،تم دیوتا ہو ،حسین اور جوان عورت کو دیکھ کر تو بادشاہ انسانوں کی سطح سے بھی نیچے آ جایا کرتے ہیں، میں نے تمہیں بھی ایسا ہی بادشاہ سمجھا تھا۔
تم بھی اسی لئے انسانوں کی سطح سے نیچے اتر آئی تھیں کہ تم شاہی خاندان کی عورت ہو۔۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
نہیں!،،،،، لاڈی نے کہا ۔۔۔۔میری رگوں میں شاہی خاندان کا خون نہیں ،میں تو معمولی سے ایک تاجر کی بیٹی ہوں جسے راجہ داہر نے دیکھا تو اپنے لیے پسند کر لیا ،میرے دل میں عام لوگوں کی محبت ہے، اسی لیے میں نے قلعے کے دروازے کے قریب آکر اروڑ کی فوج سے کہا تھا کہ راجہ داہر مارا جا چکا ہے، اور وہ تمہاری اطاعت قبول کر لیں، پھر میں نے تمہیں کہا تھا کہ لڑنے والوں کو قتل نہ کرنا ،اب میں تمہیں یہ بتاتی ہوں ککسہ تمہاری اطاعت کو قبول کر لے گا ،خون کا ایک قطرہ نہیں بہے گا ۔
رانی لاڈی کمرے سے نکل گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
چند دنوں بعد محمد بن قاسم مجاہدین کے لشکر کے ساتھ بھاٹیہ کے قریب پہنچ گیا، یہ قلعہ بن قصبہ دریائے بیاس کے مشرقی کنارے پر واقع تھا، سلطان محمود غزنوی کے دور میں بھی یہ قصبہ موجود تھا اس کے بعد اس کا ذکر کہیں نہیں ملتا ،اور اب تو اس کے کھنڈرات بھی نہیں ملتے۔
مجاہدین کے لشکر کے ساتھ رانی لاڈی بھی تھی، اسے ان عورتوں کے ساتھ رکھا گیا تھا جو مجاہدین کی بیویاں وغیرہ تھیں، محمد بن قاسم نے اسے اپنے ساتھ اس لئے رکھا تھا کہ کسی نہ کسی موقع پر اس کی ضرورت محسوس ہو سکتی تھی۔
مجاہدین نے بھاٹیہ سے کچھ دور آخری پڑاؤ کیا،قلعے کے متعلق ضروری معلومات لینے کے لئے جاسوسوں کو آگے بھیج دیا گیا، محمد بن قاسم کا خیمہ نصب کیا جا چکا تھا ،جس میں وہ ابھی داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ کسی نے اسے بتایا کہ قلعے کی طرف سے چھ سات گھوڑسوار آرہے ہیں اور ان کے پیچھے تین اونٹ ہیں، محمد بن قاسم خیمے کے باہر کھڑا رہا اور کچھ دیر بعد گھوڑ سوار اور ان کے پیچھے تین اونٹ اسے بھی نظر آنے لگے، اس نے حکم دے دیا کہ یہ سوار اگر اس کے پاس آنا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے۔
سوار اسی سے ملنے آ رہے تھے، اس کے خیمے سے کچھ دور شعبان ثقفی نے انہیں روک لیا، شعبان نے حکم نامہ جاری کررکھا تھا کہ کسی اجنبی کو اس وقت تک محمد بن قاسم کے قریب نہ جانے دیا جائے جب تک وہ خود اس اجنبی کو اچھی طرح نہ دیکھ لے، محمد بن قاسم پر قاتلانہ حملے کا امکان اور خطرہ ہر وقت موجود رہتا تھا ،ان سواروں کو شعبان ثقفی نے ٹھوک بجا کر دیکھا اور ان کی تلوار اپنے پاس رکھ لی ،ان کے کمر بندوں کو اچھی طرح ٹٹول کر دیکھا کہ ان کے کپڑوں کے نیچے خنجر نہ ہو، اپنا اطمینان کرکے اس نے انھیں محمد بن قاسم تک جانے دیا اور خود بھی ان کے ساتھ آیا۔
یہ راجہ ککسہ کے بھیجے ہوئے حاکم ہیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔راجہ کے تحفے لائے ہیں۔
محمد بن قاسم انہیں تپاک سے ملا، خیمے میں بٹھایا اور ان کے خاطرتواضع کا حکم دیا ۔
ہم یقیناً آپ کو قتل کرنے کے لیے نہیں آئے۔۔۔ ایک حاکم نے کہا ۔۔۔ہم سے تلوار لے کر آپ کے اس حاکم نے ہماری عزت نہیں کی، ہم جنگجو لوگ ہیں، میدان جنگ میں قتل کرتے اور قتل ہوتے ہیں۔
محمد بن قاسم کے حکم سے ان کی تلواریں آگئیں جو اس نے ان حاکموں کو احترام سے پیش کیا ۔
انہوں نے محمد بن قاسم کو راجہ ککسہ کے تحائف پیش کیے۔
ان تحائف کا مطلب کیا ہے ؟،،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔کیا تمہارا راجہ یہ چاہتا ہے کہ میں اس کے قلعہ بند شہر کی طرف دیکھے بغیر آگے نکل جاؤں، یا وہ میری اطاعت قبول کرلے گا ۔
اگر آپ آگے نکل جائیں تو ہم آپ کو فوج کے لیے اناج دے دیں گے۔۔۔ حاکموں کے اس وفد کے سربراہ نے کہا ۔۔۔ گھوڑوں کے لیے خشک اور ہرا چارہ بھی دیں گے۔
میں بھیک مانگنے نہیں آیا میرے معزز مہمان!،،،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اناج اور چارا ہم خود لے لیا کرتے ہیں، ہمیں قلعہ چاہیے میرے اس ارادے پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی ،کیا تمہارا راجہ اطاعت قبول نہیں کرے گا؟
کرے گا !،،،،،حاکم نے جواب دیا۔۔۔ اس نے ہمیں اجازت دی ہے کہ آپ کو ہماری پہلی شرط قبول نہ ہو تو ہم آپ کی اطاعت قبول کرنے کی شرائط پر بات کریں، اطاعت قبول کرنے کی صورت میں راجہ کی حیثیت کیا ہوگی؟ ،،،میں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ راجہ ککسہ راجہ داہر جیسا نہیں ،وہ دانش مند ہے اس کے پاس علم بھی ہے ،فوج کے حاکموں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ آپ کا مقابلہ کیا جائے اور قلعہ اس صورت میں دیا جائے جب کوئی فوج زندہ نہ رہے، لیکن راجہ نے جو فیصلہ سنایا اس نے ہم سب کو حیران کر دیا۔
کیا آپ لوگ بھی لڑنے کے لیے تیار تھے ؟،،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔
آپ ایک جنگجو قوم کے سپہ سالار ہیں۔۔۔ وفد کے سربراہ نے جواب دیا۔۔۔ اپنے قلعے کے دفاع میں لڑنے کو آپ جرم نہیں کہیں گے، دشمن کا مقابلہ کوئی گناہ نہیں، یہ بھی سوچیں سپہ سالار کہ ہم نے راجہ کا نمک کھایا ہے، راجہ داہر نے ہمیں روپے دیے ہیں، اس دھرتی نے ہمیں عزت دی ہے، اناج اور پانی دیا ہے، ہم لڑنے کے لیے کیوں تیار نہ ہوتے، کیا آپ اپنے ان حاکموں کو اچھا سمجھیں گے جو لڑنے سے منہ موڑیں گے؟
بے شک آپ سچے اور وفادار ہیں... محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ راجہ ککسہ نے آپ کو لڑنے سے کیوں روک دیا ہے؟
وہ دانشمند ہے ۔۔۔سربراہ حاکم نے کہا۔۔۔ اس نے کہا کہ میں نے مسلمانوں کو میدان میں لڑتے دیکھا ہے، میں نے داہر کو گرتے اور مرتے دیکھا ہے، میں نے ہاتھیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں لہو لہان ہو ہو کر بھاگتے دیکھا ہے ،انہوں نے دیبل اور نیرون لے لیا ہے، سیوستان اور برہمن آباد لے لیا ہے، وہ بھاٹیہ بھی لے لیں گے،،،،،،عربی سالار!،، راجہ ککسہ نے کہا کہ یہ جانتے ہوئے کہ ہم آخر مارے جائیں گے، ان سپاہیوں کو اس لئے مروا دینا کہ یہ ہمارا دیا کھاتے ہیں اور ہم نے انہیں لڑنے اور مرنے کے لیے پالا پوسا ہے عقل مندی نہیں یہ ظلم ہے، اور جب دشمن فاتح بن کر شہر میں داخل ہو گا تو وہ اپنا نقصان شہر کے لوگوں سے پورا کرے گا، ایک ایک جان کے بدلے بیس بیس جانیں لے گا ،شہر کی نوجوان لڑکیوں کو مال غنیمت میں شامل کرے گا، رعایا کے جان و مال اور عزت کی حفاظت راجہ کا فرض ہے، اس نے کہا کہ راجہ دیکھ رہا ہے کہ وہ رعایا کو دشمن سے صرف اس طرح بچا سکتا ہے کہ اپنا راج دشمن کے حوالے کر دے تو اسے یہ قربانی دے دینی چاہیے، ہم جہاں لڑ سکتے تھے وہاں اس امید پر لڑے کے دشمن کو بھگا دیں گے، اب حالات کچھ اور ہیں۔
میں آپ کے راجہ کی قدر دل و جان سے کرتا ہوں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔وہ دانشمند آدمی ہے، اسلام میں اس آدمی کا درجہ بہت اونچا ہے جو اللہ کے بندوں کے مال و اموال جان اور عزت کو اپنے رتبے پر قربان نہ کرے بلکہ اپنا رتبہ جاہ و جلال اپنی رعایا پر قربان کر دیے، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا آپ کا راجہ میرے پاس آجائے؟،،،، اس کے رتبے کا پورا خیال رکھا جائے گا۔
تاریخوں میں ہے کہ محمد بن قاسم نے ککسہ کے بھیجے ہوئے وفد کی بہت عزت کی اور انھیں اس احترام سے رخصت کیا جس کے وہ حقدار تھے، اس نے اس ملاقات کو ہتھیار ڈالنے کی تقریب نہ بنایا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے ہی روز علی الصبح محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ راجہ ککسہ آرہا ہے ۔
محمد بن قاسم فوراً خیمے سے نکلا گھوڑے پر سوار ہوا اور ککسہ کے استقبال کے لئے خیمہ گاہ سے آگے نکل گیا۔
شعبان ثقفی اس کے محافظوں کو ساتھ لے کر اس کے پیچھے گیا، ککسہ گھوڑے سے اتر آیا، اسے پوری تعظیم دینے کے لئے محمد بن قاسم بھی گھوڑے سے اتر کر اور آگے جاکر ککسہ سے ملا، ترجمان ساتھ تھا۔
کیا آپ راجہ داہر کے چچا زاد بھائی ہیں؟،،،،، محمد بن قاسم نے قبضہ سے پوچھا ۔
میں اس پر فخر تو نہیں کرسکتا کہ میں راجہ داہر کا چچا زاد بھائی ہوں۔۔۔ ککسہ نے کہا۔۔۔ لیکن مجھے اس پر فخر ہے کہ میں اس سے بالکل مختلف ہوں، مختلف سے مراد یہ نہیں کہ وہ بہت دلیر تھا جس نے آپ کی اطاعت قبول نہیں کی، اور میں بزدل ہوں کہ بغیر لڑے آپ کی اطاعت قبول کر رہا ہوں۔
میں آپ کی قدر کرتا ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا،، اور اسے اپنے خیمے میں لے آیا۔
ککسہ کے ساتھ جب محمد بن قاسم کی باتیں ہوئیں تو انکشاف ہوا کہ ککسہ دانشور اور فلسفی ہے ،اس نے محمد بن قاسم کی اطاعت باقاعدہ طور پر قبول کر لی صرف یہ شرط پیش کی کہ بھاٹیہ شہر کے لوگوں کو امن و امان میں رکھا جائے اور انھیں تجارت کی عبادت اور شہریت کا پورا حق دیا جائے۔
محمد بن قاسم ککسہ سے اتنا متاثر ہوا کہ اسے اپنا مشیر بنا لیا ،ان علاقوں کے کئی ایک مقامات اور امور ایسے تھے جن کے لئے کسی مقامی مشیر کی ضرورت تھی، مشیر کا دانش مند اور صاحب اثر اور رسوخ ہونا بہت ضروری تھا، ککسہ سے بہتر اور کوئی مشیر نہیں ہوسکتا تھا ،محمد بن قاسم نے اسے خزانے کا وزیر بھی بنا دیا، اور اس پر اتنا اعتماد کیا کہ اسے مشیر مبارک کا خطاب دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بھاٹیہ کو محمد بن قاسم نے ایک مضبوط فوجی اڈا بنا دیا اور اپنی اگلی منزل کے تعین میں مصروف ہوگیا، اس منصوبہ بندی میں ککسہ کے مشورے بہت مفید ثابت ہوئے ،فیصلہ کیا گیا کہ اگلی منزل اسکلند ہوگی، بعض تاریخوں میں اسے عسقلند بھی لکھا گیا ہے، یہ اس زمانے کا مشہوراور خاصا بڑا شہر تھا۔
ایک روز رانی لاڈی محمد بن قاسم کے پاس آئی اور اس نے ایسی درخواست کی جس نے محمد بن قاسم کو تذبذب میں مبتلا کردیا ،جب سے ککسہ نے اطاعت قبول کی اور محمد بن قاسم اس کے شہر میں داخل ہوا تھا رانی لاڈی پہلی بار محمد بن قاسم کے پاس آئی تھی۔
کیا میں نے آپ کو کہا نہیں تھا کہ کا ککسہ نہیں لڑے گا۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔میں اسے جانتی تھی کہ حالات کو سمجھ کر فیصلہ کرنے والا آدمی ہے۔
اگر یہ شخص لڑنے کی حماقت کرتا تو اسے بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
اگر ککسہ قلعے کے دفاع میں لڑتا تو میں اسے لڑنے سے روک سکتی تھی۔۔۔ لاڈی نے کہا ۔۔۔اس پر میرا اتنا اثر ہے کہ میں اس سے اپنی بات منوا سکتی ہوں۔
اللہ کو جو منظور تھا وہ ہوچکا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم نے دیکھا ہے کہ میں نے اس کی وفاداری اور اس کی دانشمندی کی کتنی قیمت ادا کی ہے، کیا تم ککسہ سے مل چکی ہو؟
نہیں !،،،،،،رانی لاڈی نے جواب دیا۔۔۔ آپ کی اجازت کے بغیر میں اپنے کسی آدمی سے نہیں ملتی۔
تم اس سے مل سکتی ہو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔
میں یہی اجازت لینے آئی ہوں۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔میں اسے صرف ملنا ہی نہیں چاہتی بلکہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔
یہ سن کر محمد بن قاسم خاموش ہو گیا ،اس نے محسوس کیا ہوگا کہ یہ دونوں مل کر کوئی سازش نہ کرلیں۔
آپ خاموش کیوں ہو گئے ہیں؟،،،، رانی لاڈی نے پوچھا۔۔۔ آپ کا چہرہ بتا رہا ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ میں اس سے ملوں، آپ کے دل میں کسی بھی قسم کا شک یا وہم ہے تو وہ دل سے نکال دیں، ککسہ کے ساتھ اس کے خاندان کی عورتیں ہیں میں ان کے ساتھ رہوں گی، اگر آپ مجھے اپنا قیدی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتی، میں آپ کو یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ ککسہ کے ساتھ میرا رہنا آپ کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
ہاں لاڈی !،،،،،محمد بن قاسم نے اپنی سوچ سے بیدار ہو کر کہا۔۔۔ جاؤ میں تمہیں ککسہ کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہوں۔
رانی لاڈی ککسہ کے پاس چلی گئی ۔
اسی شام شعبان ثقفی محمد بن قاسم کے پاس آیا۔
ابن قاسم!،،،،، اس نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ اس عورت کو ککسہ کے پاس بھیج کر تم نے اپنے لیے خطرہ پیدا کرلیا ہے ،تم میرے سپہ سالار اور سندھ کے امیر ہی نہیں ہو، میں تمہیں اپنا بیٹا بھی سمجھتا ہوں، تم بڑے ہی قابل اور جرات مند سالار ہو سکتے ہو لیکن نوجوانی کی اس عمر میں جذبات کبھی عقل پر غالب آجاتے ہیں ،میں نے جنگی امور میں کبھی دخل اندازی نہیں کی اور میں تمہیں اجازت نہیں دے سکتا کہ تم میرے معاملات میں دخل دو، تمہاری حفاظت میرا معاملہ ہے۔
کیا تم کوئی خطرہ محسوس کر رہے ہو؟
یہ لوگ اکٹھے ہوکر خطرہ پیدا کرسکتے ہیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے جواب دیا ۔۔۔یہ ایک ہی مذہب کے لوگ ہیں اور تم نے انہیں تخت و تاج سے محروم کرکے اپنے سائے میں بٹھالیا ہے، ایسا امکان موجود ہے کہ یہ تمہارے وفادار رہ کر تمہاری اس مہم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔
کیا مجھے اپنا فیصلہ واپس لے لینا چاہئے؟
نہیں ابن قاسم!،،،،، شعبان ثقفی نے جواب دیا۔۔۔ فیصلہ واپس لینا تمہاری شان کے خلاف ہے، اس کا علاج میرے پاس موجود ہے میں ان لوگوں میں ایک دو جاسوس چھوڑ دو گا، جو ان کے جان پہچان والے مقامی آدمی ہوں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے بھاٹیہ کا شہری انتظام رواں کردیا اور اب لشکر اسکلند کی طرف کوچ کے لئے تیار کھڑا تھا۔
پہلے کہا جاچکا ہے کہ اس دور کے کئی شہر اور قصبے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں، اس لئے فاصلوں کا تعین کرنا ممکن نہیں، آج اسکلند بھی موجود نہیں، مجمل التواریخ میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسکلند قلعے تک پہنچنے کے لئے دریائے بیاس عبور کرنا پڑا تھا۔
لشکر کے کوچ سے پہلے ہر اول دستہ روانہ ہوا کرتا تھا جسے مقدمۃ الجیش کہتے تھے، اب لشکر کے کوچ سے پہلے ہراول دستہ منتخب کیا گیا اس کے ساتھ جانے کے لیے ککسہ نے اپنے آپ کو پیش کیا ،وہ ان علاقوں سے واقف تھا اس لیے محمد بن قاسم نے اسی کو اس دستے کی کمان دے دی اور اس کے ساتھ اپنا ایک سالار زائدہ بن امیر طائی بھیجا۔
ککسہ بڑا اچھا رہنما ثابت ہوا ،کئی روز بعد جب وہ دریائے بیاس کے کنارے اس مقام پر پہنچا جہاں سے دریا عبور کرنا تھا اس نے مقامی ماہی گیروں سے کشتیاں لے لی، جب محمد بن قاسم اپنے لشکر کے ساتھ وہاں پہنچا تو ہراول دستہ کشتیوں کو رسوں سے باندھ چکا تھا ،اب ان کشتیوں کو ایک پل کے طور پر دریا میں ڈالنا تھا، لشکر جونہی پہنچا رسّوں سے بندھی ہوئی کشتیوں کو دریا میں ڈال دیا گیا اور کشتیوں کا پل بنانے والے آدمی دریا کے پار چلے گئے اور رسی دوسرے کنارے پر باندھ آئے۔
ادھر لشکر دریا عبور کر رہا تھا، اُدھر قلعے میں یہ خبر ہوا کی طرح پھیل گئی کہ مسلمانوں کی فوج آگئی ہے، قلعہ بند شہر میں نفسانفسی اور افراتفری پیدا ہوگئی، اس قلعے میں پہلے یہ خبر پہنچی تھی کہ عرب کی فوج طوفان کی طرح آ رہی ہے اور اس کے آگے قلعے گھاس پھوس کی جھوپڑیوں کی طرح اڑ رہے ہیں ،قلعے کا حاکم سہیرا تھا، جو ضد کا بڑا ہی پکا، اور خطرناک حد تک دلیر آدمی تھا، اس نے اپنی فوج اور شہر کے لوگوں کو ہراساں نہیں ہونے دیا تھا۔
شہر کے چند ایک سرکردہ آدمی سہیرا کے پاس گئے اور اسے کہا کہ انہوں نے قلعے کی دیوار پر جا کر مسلمانوں کے لشکر کو دیکھا ہے، اور یہ لشکر بہت زیادہ ہے۔
تم لوگ چاہتے کیا ہو؟۔۔۔ سہیرا نے پوچھا،،،، اور تم خوف و ہراس سے مرے کیوں جا رہے ہو؟
ہم اپنی، اپنے بچوں اور اپنے مال کی سلامتی چاہتے ہیں۔۔۔ ایک آدمی نے کہا ۔۔۔مگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری فوج قلعے کو نہیں بچا سکے گی، تو مسلمانوں کے لئے دروازے کھول دیں، ہم نے سنا ہے کہ مسلمان صرف جزیہ لیتے ہیں اور شہر کے کسی فرد پر ہاتھ نہیں ڈالتے، اور یہ لوٹ مار بھی نہیں کرتے۔ عرب کی فوج بڑی زبردست فوج ہے مہاراج!،،،،، ایک اور آدمی نے کہا ۔۔۔شہر پر پتھر اور آگ برساتی ہے، اس نے دیبل اور اروڑ کے قلعے سر کر لیے ہیں، ہم اس کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں؟
بزدل مت بنو، میری بات سنو۔۔۔ سہیرا نے کہا۔۔۔ عربوں کی اس فوج کو دانستہ آگے آنے کا موقع دیا گیا ہے، اس فوج کے حاکموں اور سپاہیوں کے دماغوں میں یہ یقین بیٹھ گیا ہے کہ ان کا مقابلہ کوئی طاقت نہیں کر سکتی ،راجہ داہر نے کہا ہے کہ یہ عربی مسلمان صحرا میں دور اندر تک آ جائیں گے تو ان کی نفری کم ہو چکی ہو گی، اور ان کے پاس کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں رہے گا، اس وقت ہم ان پر جوابی حملہ کریں گے، یہ بھاگنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے، ہم ان کے سپہ سالار محمد بن قاسم کو اور تمام فوج کو زندہ پکڑیں گے، پھر گھر گھر میں ایک مسلمان غلام ہوگا، ان کے گھوڑے اور اونٹ ہمارے کام آئیں گے، اب وہ اس جگہ آ گئے ہیں جہاں راجہ داہر انہیں لانا چاہتا تھا ، یہ ہمارا فرض ہے کہ انھیں پسپائی کے قابل نہ چھوڑیں، ہم ان کی واپسی کے راستے بند کردیں گے، انہیں دریا کے پار نہیں جانے دیں گے ۔
کیا آپ ان کے پھینکے ہوئے پتھروں اور آگ کے تیروں کو روک لیں گے؟،،،،، ایک آدمی نے سہیرا سے پوچھا۔
کیا ہماری فوج کے تیرانداز مر گئے ہیں؟،،،،،، سہیرا نے کہا۔۔۔۔ ہم کیا ہمارے سواروں کے گھوڑے مر گئے ہیں ؟،،،،ہمارے سوار قلعے کے باہر جاکر ان پر ایسے زبردست حملے کریں گے کہ انہیں پتھر اور آگ والے تیر پھینکنے کی مہلت ہی نہیں دیں گے،،،،،،،، بزدل نہ بنو، شہر کے لوگوں کو تیار کرو کہ ان میں جو تیر انداز ہیں وہ قلعے کی دیوار پر چلے جائیں، اور جو گھوڑ سوار اور تیغ زن ن یا نیزہ باز ہیں وہ فوج کے سواروں کے پاس چلے جائیں۔
سنا ہے راجہ داہر مارا جاچکا ہے؟،،،،، شہر کے ایک سرکردہ آدمی نے کہا ۔
یہ جھوٹ ہے۔۔۔ سہیرا نے غصے سے گرج کر کہا ۔۔۔راجہ داہر ہندوستان سے فوج اکٹھی کر رہا ہے، وہ پہنچ جائے گا۔
سہیرا نے شہر کے لوگوں کو ایسا گرمایا کہ وہ اپنی فوج کے دوش بدوش لڑنے اور مرنے کے لیے تیار ہو گئے، بڑے پنڈتوں نے لوگوں کو دیویوں اور دیوتاؤں کے قہر سے ڈرایا، فوجی اور شہری ایک ہوگئے انہیں فتح نظر آنے لگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کے لشکر نے دریا عبور کرلیا ککسہ کے کہنے پر ان ماہی گیروں کو جن کی کشتیاں پل کیلئے استعمال کی گئی تھیں بے دریغ معاوضہ دیا گیا ،محمد بن قاسم نے انہیں اناج بھی دیا۔
قلعے کو جب محاصرے میں لیا گیا تو شہر کی دیواروں سے تیروں کی بوچھاڑ آنے لگی۔
ککسہ گھوڑے پر سوار قلعے کے اس دروازے کے سامنے چلا گیا جس کے اوپر دیوار پر سیہرا کھڑا تھا۔
سیہرا!،،،،،،، ککسہ نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ مجھے پہچانو میں داہر کا چچا زاد بھائی ککسہ ہوں۔
تم ان لٹیروں کے ساتھ یہاں کیا لینے آئے ہو؟،،،،،، سیہرا نے پوچھا ۔۔۔کیا تم دادا پر دادا کا دھرم بیچ بیٹھے ہو۔
دروازہ کھول دو۔۔۔ ککسہ نے کہا۔۔۔ اندر آکر تمہیں بتاؤں گا میں ان کے ساتھ کیوں آیا ہوں۔
یہ دروازہ صرف راجہ داہر کے لیے کھلے گا۔۔۔ سیہرا نے کہا۔
راجہ داہر نہیں آئے گا ۔۔۔ککسہ نے کہا ۔۔۔وہ مارا جا چکا ہے اس کا سر عرب چلا گیا ہے، اس کی رانی لاڈی میرے ساتھ ہے۔
رانی لاڈی بہت پیچھے تھی ککسہ نے اشارہ کیا تو وہ گھوڑے پر سوار ہوکر ککسہ کے پاس جار کی، اس نے چہرہ چادر میں چھپا رکھا تھا۔
مجھے دیکھ سیہرا!،،،،،،، رانی لاڈی نے چہرے سے چادر ہٹا کر کہا۔۔۔ تم نے مجھے دیکھا ہوا ہے، راجہ داہر زندہ ہوتا تو میں مسلمانوں کے ساتھ نہ ہوتی، قلعے کے دروازے کھول دو ،ککسہ کی طرح تمہیں بھی عزت ملے گی، تم قلعے کے حاکم رہو گے۔
شہر کی گلیوں کو اپنی فوج اور لوگوں کے خون سے دھونے کی کوشش مت کرو ککسہ نے کہا۔۔۔ بھیانک انجام سے بچو، دیکھو میں ان مسلمانوں کی فوج کا حاکم ہوں۔
اگر راجہ داہر ان عربوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے تو اس کے خون کا بدلہ لیں گے۔۔۔ سیہرا نے کہا۔۔۔ آگے آؤ اور قلعے کے دروازے خود کھولنے کی کوشش کرو، تم نے اپنی غیرت دے کر ان عربوں سے رتبہ لیا ہے، بیشتر اس کے کہ دو تیر تیری آنکھوں میں اتر جائیں یہاں سے ہٹ جاؤ۔
یہ وہی منظر تھا جو اروڑ کے محاصرے میں اس وقت پیدا ہوا تھا جب رانی لاڈی نے قلعے کے قریب جاکر اعلان کیا تھا کہ راجہ داہر زندہ نہیں ہے، اروڑ والوں نے اس پر طنز اور دشنام کے تیر برسائے تھے ،اب اسکلند کے محاصرے میں قلعے کی دیواروں سے ککسہ اور رانی لاڈی پر ویسے ہی لعن طعن برسنے لگی۔
راجہ داہر کو قتل کرنے والا ابھی پیدا نہیں ہوا۔۔۔ دیوار کے اوپر سے ایک آواز آئی۔۔۔ اگر داہر قتل ہو ہی گیا ہے تو اسے تم دونوں نے قتل کرایا ہے۔۔۔ یہ آواز سیہرا کی تھی ۔۔۔ہم راجہ کے قتل کا انتقام لیں گے۔
ککسہ !،،،،،ایک آواز آئی۔۔۔ ہمارے پاس آ جاؤ، ڈاکوؤںکی اس قوم کے دھوکے میں نہ رہو۔
ککسہ !،،،،،محمد بن قاسم نے آگے بڑھ کر کہا۔۔۔ لاڈی رانی!۔۔۔۔ان کے نام تو وہ پکار سکتا تھا اس سے آگے وہ مقامی زبان نہیں بول سکتا تھا، اس نے ترجمان سے کہا ان دونوں کو واپس بلاؤ، اروڑ والوں کی طرح ان کی قسمت پر بھی مہر لگ گئی ہے ۔
دونوں واپس آ گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے محاصرے کا حکم دیا، دستے محاصرے کی ترتیب میں ہو ہی رہے تھے کہ شہر کے ایک طرف کے دروازے کھلے، صدر دروازہ بھی کھلا اور اندر سے سوار اور پیادہ دستے جئے کارے لگاتے باہر نکلے، باہر آکر وہ لڑائی کی ترتیب میں آنے کی بجائے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے، مسلمان بھی کسی ترتیب میں نہیں تھے وہ جس پوزیشن میں تھے اسی میں دشمن سے الجھ پڑے، یہ گتھم گتھا قسم کا معرکہ تھا جو زیادہ دیر نہ لڑا گیا۔
دونوں طرف سپاہی زخمی ہو رہے تھے، مسلمان سالار اپنے لشکر کو کسی ترتیب میں لانے کی کوشش کر رہے تھے ،وہ اس قسم کی پوزیشن میں آنا چاہتے تھے کہ قلعے کے دروازوں تک پہنچ جائیں تاکہ سیہرا کی فوج قلعے میں واپس نہ جا سکے، لیکن سیہرا نے یہ خطرہ پہلے ہی پیش نظر رکھا ہوا تھا، مسلمان جب دروازوں کی طرف جاتے تھے تو ان کا راستہ روک لیا جاتا تھا ،شدید مزاحمت کا سامنا ہوتا تھا۔
محمد بن قاسم کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اس کے دشمن کی کوئی ترتیب ہے یا نہیں، اس میں لڑنے اور مرنے کا عزم موجود ہے اور یہ عزم اتنا پختہ ہے کہ اس میں دیوانگی کی جھلک صاف نظر آتی ہے، میدان جنگ میں ایسے باؤلے پن سے زیادہ دیر نہیں لڑا جا سکتا، لیکن دشمن کو یہ سہولت حاصل تھی کہ اس کے عقب میں قلعہ بند شہر تھا۔ محمد بن قاسم نے چیخ چلا کر اپنی فوج کو پیچھے ہٹانا شروع کر دیا ،اس نے غالبا یہ سوچا تھا کہ دشمن بھی آگے آ جائے گا اور قلعہ دور ہوجائے گا ،یا محمد بن قاسم نے اس خیال سے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹانا چاہتا تھا کہ انہیں کسی ترتیب میں کرلیں تاکہ سالار آسانی سے اور ضرورت کے مطابق کمان کرسکیں۔
سیہرا نے دیکھا کہ مسلمان پیچھے ہٹ رہے ہیں تو اس نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹا لیا، جس تیزی سے ہندو سپاہی معرکے سے نکل کر دروازوں میں داخل ہوئے اس سے پتہ چلتا تھا کہ انہیں پہلے ہی کوئی اشارہ بتا دیا گیا تھا جو ملتے ہی وہ واپس قلعے میں چلے گئے۔
یہ معرکہ بڑا ہی خون ریز تھا، دونوں طرف بہت نقصان ہوا، ہندوؤں نے اپنے زخمیوں کی بھی پرواہ نہ کی انہیں وہیں چھوڑ کر قلعے کے دروازے اندر سے بند کر لیے، ان کے کئی زخمی آہستہ آہستہ چلتے قلعے کی طرف جا رہے تھے مسلمانوں نے انہیں تیروں کا نشانہ بنانا شروع کردیا ،جب قلعے کے دروازے بند ہوگئے تو مجاہدین نے اپنے زخمیوں اور شہیدوں کو اٹھانا شروع کیا ،ان کے ساتھ جو عورتیں تھیں وہ دوڑی گئیں اور زخمیوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی وغیرہ اپنے ذمے لے لیں۔
محمد بن قاسم نے سالاروں کو اکٹھا کیا اور ان کے ساتھ صلح مشورہ کیا، سب کی رائے یہ تھی کہ دشمن اسی انداز سے لڑے گا، اس صورتحال میں محمد بن قاسم نے کہا کہ قلعے کا محاصرہ کر لیا جائے، لیکن اس قسم کی لڑائی کے لیے بھی دستوں کو تیار رکھا جائے جو آج ہمیں لڑنی پڑی ہے ،دشمن ایک طرف سے باہر آئے تو دوسری طرف کے دستے بھی مدد کو پہنچ جائیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسرے دن مسلمان محاصرہ مکمل کرچکے تھے ،محمد بن قاسم قلعے کے اردگرد گھوم پھر کر دیکھتا رہا کہ کہیں سے دیوار نقب کے قابل نظر آجائے، دیوار کے اوپر ایک ہجوم کھڑا تھا فوج کے ساتھ شہر کے لوگ بھی تھے، ان میں تیر انداز بھی تھے اور برچھیاں پھینکنے والے بھی، قلعے کی دیوار کے قریب جانے کی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ ہوتا رہا ،صرف تیر اندازی سے قلعے سر نہیں کیے جا سکتے تھے ،لیکن کوئی اور صورت بھی نظر نہیں آتی تھی، ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا، محاصرے کی صورت میں ایسا ممکن نہیں تھا کہ تمام لشکر باجماعت نماز پڑھتا، اذان دی گئی اور دستوں نے الگ الگ باجماعت نماز پڑھی۔
مسلمانوں نے ابھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ شہر کے مشرقی دو دروازے کھلے اور قلعے کی فوج یوں باہر نکلی جیسے سیلاب نے بند توڑ دیا ہو، اس فوج کے لیے یہ موقع اچھا تھا، مسلمان نماز پڑھ رہے تھے سیہرا نے فوج کو باہر نکالنے میں کچھ وقت ضائع کر دیا تھا، اگر یہ فوج چار پانچ منٹ پہلے باہر آتی تو مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچا سکتی تھی، کیونکہ اسے مسلمان باجماعت کھڑے ملتے، اب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے سواروں کے گھوڑے ذرا دور کھڑے تھے لیکن اللہ تبارک و تعالی نے ان کی مدد کی ،پیادوں نے اپنی تلوار اپنے پاس رکھی ہوئی تھی، بعض کے پاس بلم تھے وہ بھی انھوں نے قریب ہی رکھے ہوئے تھے۔
ہندو فوج نے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ گھوڑسوار زیادہ تھے مسلمان سواروں میں سے بعض صورتحال دیکھ کر اپنے گھوڑوں کی طرف جانے کی بجائے پیادوں کی طرح دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئے، کئی سوار اپنے گھوڑوں تک پہنچ گئے اور سوار ہوکر لڑائی میں شامل ہوگئے ،حملہ چونکہ ایک طرف ہوا تھا اس لئے محمد بن قاسم نے دوسری طرف سے کچھ دستے اس طرف بھیج دیے۔
یہ لڑائی بہت خونریز تھی ہندو فوج بری طرح بپھری ہوئی تھی اس کے لڑنے کے انداز میں قہر اور غضب تھا، مسلمان جلدی سنبھل گئے تھے ورنہ ان کا بہت ہی نقصان ہوتا ،سنبھلتے سنبھلتے نقصان تو ہو گیا لیکن وہ ناقابل برداشت نقصان سے بچ گئے ،مسلمانوں کے دوسرے دستے تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے آئے ان کے انداز میں بھی قہر تھا جو ہندؤوں پر خوب گرا۔
اب کے محمد بن قاسم نے پھر کوشش کی کہ ہندوؤں کی واپسی کا راستہ روک لے لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ہندو حملہ آور قلعے سے زیادہ دور نہیں آئے تھے، اور دوسری وجہ یہ کہ مسلمان دیوار کے قریب ہوتے تھے تو دیوار کے اوپر سے ان پر تیر آتے تھے اور پھینکنے والی برچھیاں بھی۔
ہندو دستوں کا یہ حملہ خاصا مہنگا پڑا، بے شک مسلمانوں پر نماز کی حالت میں حملہ ہوا تھا لیکن وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار تھے، گزشتہ روز تو انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ قلعے کے اندر سے فوج آ کر ان پر حملہ کر دے گی اور یہ حملہ بہت ہی زور دار ہوگا، دوسرے دن قلعے کے جو دستے باہر آئے انہیں لینے کے دینے پڑ گئے، شام سے ذرا پہلے قلعے سے نکلے ہوئے یہ دستے اپنی تقریبا آدھی نفری کو لاشوں اور زخمیوں کی صورت میں پیچھے چھوڑ کر چلے گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس کے بعد قلعے کے دستے باہر نہ آئے، انھوں نے شہر کے دفاع کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ دیوار کے اوپر سے تیر اور پتھر برسانے شروع کر دیئے، مورخ بلاذری اور میرمعصوم نے لکھا ہے کہ اس قلعے پر چھوٹی چھوٹی منجنیقیں دکھائی دیں، جن سے ڈیڑھ دو کلو وزنی پتھر پھینکا جاتا تھا ، یہ منجنیقیں عربوں کی منجنیقوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں، وہ تو کھلونے سے تھے لیکن ان سے مسلسل اور تیز سنگ باری کی جا سکتی تھی، کیونکہ یہ چھوٹے سائز کے پتھر پھینکتی تھی ، عربوں کی منجنیقیں اتنی بڑی تھیں کہ ان سے من من کے پتھر بھی پھینکے جا سکتے تھے۔
تیروں اور پتھروں کا تو جیسے مینہ برستا رہتا تھا ،محمد بن قاسم نے دیوار تک پہنچنے والے جانباز منتخب کیے ،اور ایک روز ان کی ایک ٹولی کو اس طرح دیوار کی طرف بھیجا کہ تیر اندازوں نے آگے ہو کر دیوار کے کچھ حصے پر بے تحاشا تیر برسائے لیکن اوپر سے بھی تیر اور پتھر آئے، جانبازوں کی پہلی ٹولی دیوار تک پہنچ گئی لیکن قلعے کا دفاع کرنے والوں نے اپنی جانوں کو داؤ پر لگا دیا قلعے کی دیوار باہر سے عمودی نہیں ڈھلانی تھی، ہندو ٹوکروں میں پتھر بھر کر اوپر سے لڑکا دیتے تھے، ان میں کئی ہندو مسلمانوں کی تیروں کا نشانہ بنے لیکن جو مسلمان دیوار تک پہنچ گئے وہ پتھروں کا نشانہ بن گئے۔
محاصرے کے ساتویں روز محمد بن قاسم نے اپنا آخری حربہ استعمال کیا اس نے شہر پر منجنیقوں سے پتھر پھینکنا شروع کر دیے، پھر آگ والے تیر پھینکے جن سے شہر میں کئی جگہوں پر آگ لگ گئی، سنگباری اور آتش بازی کا سلسلہ صبح شروع کیا گیا تھا اور شام تک جاری رکھا گیا ،شہر کے لوگوں نے واویلا بپا کر دیا۔
شام سے کچھ دیر پہلے قلعے کے ایک طرف کے دروازے کھلے اور پہلے دونوں کی طرح اندر سے فوج باہر آئی اور مسلمانوں پر حملہ کردیا، اب یوں پتہ چلتا تھا جیسے قلعے کی تمام فوج باہر آگئی ہے، اس کے ساتھ شہر کے لوگ بھی تھے، دشمن کا یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ محاصرہ توڑ کر دسے اس طرف بلا لئے گئے ،سورج غروب ہو گیا تو قلعے کی فوج واپس قلعے میں چلی گئی۔
رات زخمیوں کی آہ و بکا میں گزر گئی، صبح ہوئی تو قلعے پر جگہ جگہ سفید جھنڈے نظر آئے، محمد بن قاسم نے اسے دھوکہ سمجھا، کچھ دیر بعد قلعے کا ایک دروازہ کھلا اور پانچ آدمی باہر آئے ،ان میں سے ایک نے بلند آواز سے کہا کہ وہ سپہ سالار سے ملنا چاہتے ہیں، انہیں آگے آنے کو کہا گیا ،وہ آگے آئے تو ان سے تلواریں لے لی گئیں، انہیں شعبان ثقفی کے حوالے کر دیا گیا وہ انھیں محمد بن قاسم کے پاس لے گیا۔
ہم آپ کی اطاعت قبول کرنے آئے ہیں ۔۔۔ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ ہمیں صرف امن اور اپنے خاندان کی سلامتی چاہیے۔
کیا حاکم قلعہ میں اتنی جرات نہیں تھی کہ خود آتا؟،،،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ اس نے تمہیں کیوں بھیجا ہے، اطاعت قبول کرنے کا یہ طریقہ تو نہیں، اس کے خود نہ آنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں ابھی رعونت باقی ہے۔
اے عرب کے سپہ سالار !،،،،،شہریوں کے وفد کے سربراہ نے کہا ۔۔۔وہ یہاں ہوتا تو آتا، ہم آئے ہیں تو یہ ثبوت ہے کہ وہ نہیں ہے ،وہ قلعے سے بھاگ گیا ہے۔
کب ؟،،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ وہ کیسے بھاگ گیا ہے۔
اس نے بھاگ نکلنے کا موقع پیدا کر لیا تھا۔۔۔ وفد کے سربراہ نے کہا۔۔۔ ہم پہلے نہیں سمجھ سکے، کل جب آپ کے پھینکے ہوئے پتھروں سے شہر کے لوگ اور فوجی ہراساں تھے ،اور آپ کے تیروں سے کئی جگہوں پر آگ لگی ہوئی تھی، عورتوں اور بچوں کی چیخوں سے آسمان پھٹ رہا تھا ،ہم قلعے کے حاکم سیہرا کے پاس گئے، شہر کے لوگ اطاعت قبول کرنا چاہتے تھے، ہم نے اسے کہا کہ ہم قلعے کو عرب کی فوج سے نہیں بچا سکیں گے، اس سے پہلے کہ پورا شہر جل کر راکھ ہو جائے پھر ہم سب اپنی جوان بیٹیوں اور بچوں کے ساتھ عرب کے قیدی ہو جائیں اور عرب تمہارا سر قلم کر دیں کیوں نہ عرب کی اطاعت قبول کر لیں، اس طرح ہم اپنی عزت اور مال بچا سکیں گے ،اور شہر بھی مزید تباہی سے بچ جائے گا،،،،،،،،،، سیہرا جو بہت ہی چالاک اور زیرک ہے سوچ میں کھو گیا ،پھر اس نے کہا کہ ہم عربوں کے بہت آدمی زخمی اور ہلاک کر چکے ہیں وہ ہمیں اپنی فوج کا اتنا زیادہ نقصان معاف نہیں کریں گے، اب اگر ہم ان کی اطاعت قبول کریں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، پھر وہ ہم سے جزیہ بھی لیں گے اور تاوان بھی، اور وہ اس پر بھی راضی نہیں ہونگے، ہماری عورتوں اور ہمارے زروجواہرات کو اپنے قبضے میں لے لیں گے، اور ہم سب کو غلام بناکر عرب بھیج دیں گے،،،،،،، اس نے مندر سے دو پنڈتوں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ ہمیں سمجھائیں۔ پنڈتوں نے ہمیں لڑائی کے لیے تیار کرنا شروع کردیا، دنیاوی نقصان اور ذلت کے ساتھ اگلے جنم کی اذیتوں سے ڈرایا، اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ تم سب اگلے جنم میں کتے اور گیدڑ ہو گے۔
تم کہنا یہ چاہتے ہو کہ سیہرا اور پنڈتوں نے تمہیں لڑنے پر مجبور کیا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔
ہم یہی کہنا چاہتے ہیں سپہ سالار مہاراج !،،،،،وفد کے سربراہ نے کہا۔۔۔ ہم پوری پوری باتیں اس لئے سنا رہے ہیں کہ آپ ہمیں بے قصور سمجھیں اور ہماری درخواست پر غور کریں، انہوں نے ہمیں ڈرا کر اور بھڑکا کر کہا کہ آج تمام فوج باہر نکل کر مسلمانوں پر ایسا زبردست حملہ کرے گی کہ مسلمان بھاگ جائیں گے، لیکن انہیں بھاگنے کے قابل نہیں چھوڑا جائے گا ،سرکاری ہرکارے سارے شہر میں گھوم گئے کہ تمام وہ لوگ جو لڑنے کے قابل ہیں اپنے ہتھیاروں کے ساتھ فوج کے ساتھ مل جائیں، اور آج شام مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر نے کے لئے ان پر حملہ کیا جائے، اس اعلان پر شہر کے تمام آدمی فوج کے ساتھ مل گئے اور سورج غروب ہونے سے پہلے کچھ دیر پہلے فوج اور شہر کے آدمیوں نے باہر نکل کر آپ پر حملہ کیا،،،،،،،، شام گہری ہو گئی تو ہماری فوج اور شہر کے آدمی جو بچ گئے تھے قلعے میں واپس آگئے، رات کو ہم سیہرا کے محل میں گئے تو وہ وہاں نہیں تھا، اس کے خاندان کا کوئی ایک بھی فرد وہاں نہیں تھا ،ایک نوکر موجود تھا اس نے بتایا کہ جب لوگ اپنی فوج کے ساتھ حملہ کرنے کے لیے باہر نکلے تو سیہرا نے اپنے زر و جواہرات سمیٹنے شروع کر دیئے، اس نے گھوڑے تیار رکھے ہوئے تھے جب سورج غروب ہو گیا تو ایک فوجی دوڑتا آیا اور سب کو گھوڑوں پر سوار کرایا قیمتی اشیاء ایک گھوڑے پر لادی اور وہ چلا گیا، یہ معلوم نہیں کہ وہ کون سے دروازے سے نکلا تھا۔
محمد بن قاسم نے ان کی درخواست منظور کر لی اور سوائے جزیے کے ان پر کوئی تاوان عائد نہ کیا ،اور انھیں بتایا کہ انھیں وہی شہری حقوق حاصل ہوں گے جو انہیں پہلے حاصل تھے۔
قلعے میں داخل ہونے کے بعد شعبان ثقفی نے مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ کی کے سیہرا کس طرف فرار ہوا تھا، معلوم ہوا کہ سیہرا فرار کا ارادہ کر چکا تھا ،لیکن محاصرے کی وجہ سے فرار ممکن نہ تھا،
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>