یوں تو تمام رذائل اخلاق انسانی شخصیت اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں اور اسلام ان سے کلیتاً اجتناب کا حکم دیتا ہے لیکن بدگمانی ایسی متعدی بیماری ہے جو انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرے کی اجتماعی زندگی تک بگاڑ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔ بدگمانی سے مراد ایسی بات دل میں لانا ہے جس کا نہ یقین ہو اور نہ ہی اس کے متعلق دو عادل گواہ ہوں۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ ’’ اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو، بے شک بعض گمان ( ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے)۔‘‘الحجرات،۹۴:۲۱
حضور نبی اکرم ﷺ نے درج ذیل احادیث مبارکہ میں بدگمانی کرنے کی مذمت اور ممانعت فرمائی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو۔‘‘
(مسلم، الصحیح،۴:۵۸۹۱،رقم:۳۶۵۲)
سیدنا علی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ جب بدگمانی دل میں گھر کر جاتی ہے تو یہ مصالحت و مفاہمت کے سب امکانات ختم کر دیتی ہے۔ یہ اخلاقی برائی انسان میں موجود بقیہ اخلاقی خوبیوں کو بھی نگل جاتی ہے ۔ ایسا شخص حقیقت و سچائی کا ادراک کرنے سے بھی محروم ہو جاتا ہے ۔
ضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ دو خیالات ہر انسانی دل میں چکر لگاتے رہتے ہیں ۔ ایک خیال اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے جو انسان کو نیکی اور سچائی کی طرف راغب کر تا ہے اور دوسرا خیال شیطان کی طرف سے ہے ۔ یہ انسان کو حق اور بھلائی سے روکتا ہے ۔ جس شخص کا دل بدگمانی میں مبتلا ہو ،شیطان ا س کے لیے کینہ ، بغض اور ٹوہ یعنی تجسس جیسے گناہ سرزد کروانے کے لیے راہ ہموار کرتا ہے ۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے خون ، اس کی عزت اور اس کے متعلق بدگمانی کو حرام کر دیاہے ۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کر تی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی اس نے اپنے رب کے متعلق بدگمانی کی۔ ‘‘
بدگمانی ایک ایسا گناہ ہے جس کے کرنے سے انسان دیگر گناہوں کی دلدل میں خود بخود پھنستا چلا جاتا ہے کیونکہ جب انسان کے دل میں کسی کے متعلق کوئی بُرا گمان آتا ہے پھر وہ اپنے گمان کی تصدیق کے لیے اس کی ٹوہ میں رہتا ہے، اس کی باتیں سنتاہے اور اس کے حالات کامشاہدہ کرتاہے ۔ بعض اوقات جاسوسی کرتا اور کرواتا ہے تاکہ اس کے ذہن میں اس شخص کے متعلق جو براگمان آیا تھا، اس کی تائید اور توثیق حاصل کر سکے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی ﷺ نے بدگمانی کے بعد تجسس کرنے یعنی کسی کی ٹوہ میں لگے رہنے سے منع فرمایا ہے ۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ’’ اور ( کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو۔‘‘( الحجرات، ۹۴:۲۱)
حضرت ابن عباس ؓ روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا اور جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب ظاہرکیے، اللہ تعالیٰ اس کے عیب کا پردہ چاک کر دے گا اور اس شخص کو اس کے گھر میں رسوا کر دے گا۔ (کشف الخفاء، ۲:۱۳۳)
مندرجہ بالا آیات اور احادیث مبارکہ میں جس بدگمانی اور تجسس سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا عیب صرف اس کی ذات تک محدود ہو تو اس سے متعلق کسی بھی طرح کی بدگمانی ، عیب جوئی اور تجسس کرنا منع ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کا عیب اجتماعی زندگی ، کسی ملک ، تنظیم یا ادارے کے لیے مضر ہو تو پھر اس کی تحقیق کرکے اس سے باز پرس کرنا اور اس کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے ۔ اسی طرح اگر کسی جگہ کام کرنے والے کسی شخص یا بعض افراد کے متعلق شبہ ہو کہ اس کی در پردہ سرگرمیاں ادارے اور کارکنان کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس سے ادارے کی عزت، ساکھ اور سلامتی کو خطرہ ہے، تو ایسی صورت میں اس کو پرایا معاملہ سمجھ کر یا خود کو غیر جانب دار ثابت کرنے کے خیال میں خاموش نہ رہا جائے بلکہ اسے ادارے کے علم میں لانا ضروری ہے ۔ اس کے برعکس، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بدگمانی جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ ہمہ وقت اسی فکر اور جستجو میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے دوسرے شخص کو بُرا بھلا کہا جائے یا کسی شعبے کو بدنام کیا جائے۔ اس سلسلے میں اسے ہر وہ شخص دیانت دار اور صاحب الرائے نظر آتا ہے جو اس کے مزاج کے عین مطابق ہو۔ پس یہیں سے کسی کے عیب کا کھوج لگانے کے لیے یہ لوگ لکڑیاں اور تیل مہیا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اِدھر اُدھر سے معلومات حاصل کر تے رہتے ہیں ، جس میں بتانے والوں کی اپنی کدورتیں اور بدگمانیاں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ نتیجتاً کام میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور کارکنان گروپ بندی اور اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تمہیں بدترین انسان کے متعلق آگاہ نہ کروں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: جی یارسول اللہ، آپﷺ نے فرمایا،وہ چغل خور لوگ ہیں جو اچھے دوستوں کے درمیان تفرقہ ڈال دیتے ہیں۔‘‘ (علل الحدیث،۲: ۳۹۲،رقم:۷۸۳۲)
لہٰذا جب آپ کو ایسے بدگمان شخص سے کسی دوسرے شخص کے بارے میں کوئی ایسی معلومات ملیں جو کسی کے لیے نقصان دہ ہوں، تو آپ پر لازم ہے کہ کوئی رائے قائم نہ کریں کیوں کہ سماعت اور نظر میں دھوکے کا امکان بہر حال رہتا ہے اور حقیقت ویسے نہیں ہوتی جیسے آدمی سمجھ رہا ہوتا ہے ۔ ہر وہ خبر جس کے متعلق کوئی صحیح علامت اور گواہی موجود نہ ہو اس کے بارے میں بدگمانی کرنا حرام ہے اور اس بدگمانی سے اجتناب کرنا واجب ہے ۔لیکن ایسی بات یا خبر جس کے مثبت اور منفی پہلو نکل سکتے ہوں تو مسلمان کو حکم ہے کہ آپس میں حسنِ ظن سے کام لے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’حسن ظن رکھنا حسن عبادت میں سے ہے۔‘‘
ابو دائود، السنن، کتاب الادب، باب فی حسن الظن ،۴:۸۹۲،رقم:۳۹۹۴)
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بدگمانی جیسی بدترین اخلاقی برائی کو کسی بھی صورت میں پیدا ہونے کا موقع نہ دیں اور جہاں تک ممکن ہو حسنِ ظن اور باہمی اتفاق اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کریں، تاکہ آقائے دو جہاں ﷺ کے حسب ارشاد بدگمانی پنپ نہ سکے ۔
تحریر: فریدہ ساجد