بسم اللہ الرحمن الرحیم
مشہور ہے کہ مکڑی جالا بنانے کے بعد اپنے شکار کے انتظار میں گھات لگاکر بیٹھ جاتی ہے مگر جب وہ دیکھتی ہے کہ مکھیاں دور ہی دور سے پرواز کرتی ہوئی نکل رہی ہیں اور کوئی قریب نہیں آرہی تو وہ ایک گیت گانا شروع کرتی ہے جس میں مکھی کی تعریف وتوصیف ہوتی ہے ۔ مکھی کے پروں کی اور اسکی پرواز کی خصوصی طور پر تعریف اس گیت میں شامل ہوتی ہے ۔ مکھی جب سنتی ہے تو وہ مکڑی کے قریب آنا شروع کرتی ہے وہ جیسے ہی جالے میں الجھتی ہے تو مکڑی اسے دبوچنے میں دیر نہیں لگاتی اس لئے بڑے بوڑھوں کی کہاوت ہے کہ مکھی مکڑی کے جال میں نہیں بلکہ اپنی تعریف کے جال میں پھنس کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ۔ یہی صورتحال بچپن میں بھی ہوتی ہے ۔بعض بچے شیخی خورے ہوتے ہیں آپ ان کی تعریف کرکے ان سے جو کام چاہیں کرالیں وہ اپنے خرچے پر سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے بچپن کے دوستوں میں ایک ایسا ہی بچہ تھا دوسرے بچے اس کے مزاج سے واقف تھے بس تھوڑی ی سی تعریف کرنے کی دیر ہوتی وہ اپنی جیب اور دونوں مٹھیوں میں چینی بھر کرلے آتا اور ببچے بڑے مزے سے کھاتے !
تعریف کے اس جال میں بڑے بڑے پھنس جاتے ہیں اور یہودی اس کمزوری سے پھر پور فائدہ اٹھا تے ہیں ۔ چند تعریفی کلمات کہکر مسلمان لیڈروں سے جو چاہیں کرالیتے ہیں یہ نسخہ ہے کم خرچ بالا نشیں ۔
’’تم بہت روشن خیال اورلبرل آدمی ہو ۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارے اتحاد ی ہو ۔ ہم تمہاری بہت قدر کرتے ہیں یہ میرا پرسنل نمبر ہے ۔ ہاٹ لائن پر جب چاہو رابطہ کرسکتے ہو‘‘
پریس کانفرنس میں ساتھ کھڑا کرلیا تو پھر تو کیا کہنے ؟کہمپ ڈیوڈ میں بلاکر میٹنگ میں شریک کرلیا تو پھر تو ایسے پھیل گئے کہ کپڑوں سے بھی باہر ہوگئے ۔
سناہے کہ کیمپ ڈیوڈ بلانے کا مطلب یہ ہوتاہے کہ تمہاری غلامی اور نیاز مندی پر ہمیںمکمل اعتماد ہے مگر ایسے ملت فروشوں کے ساتھ قوم کیاکرتی ہے ؟ ۔ کیمپ ڈیوڈ میںانور السادات کو بلایا گیا ۔ اسکا حشر دنیا نے دیکھ لیا ۔ جدی پشتی غدار شاہ حسین گیا اور یہ کہتے ہوئے واپس لوٹا ؎ بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچہ سے ہم نکلے
اب خیر سے ہمارے جنرل صاحب داؤدی کیمپ کا نظارہ کرآئے ہیں اور اپنی پذیرائی پر پھولے نہیں سماتے دیکھئے فطرت کی تعزیریں کس انداز میں اپنا ظہور کرتی ہیں ۔
اب انہوں نے ایک قدم اور بڑھا یا ہے ۔ شخصیات کی تعریف کرکے اپنی قوم ہی نہیں اپنی ذات کو بھی داؤ پر لگانیوالوں کو اب ملکی اداروں کی تباہی کا کام سونپا جارہا ہے ۔ پاک فوج کیلئے امریکی اخبارات میں غنڈہ فوج کے ذلت آمیز القاب کے ساتھ اشتہارات چھپ رہے تھے آج اسی فوج کی تعریفیں کی جارہی ہیں ۔ پاک فوج بہترین فنی صلاحیتوں کی حامل ہے ۔ یہ تعریفیں دراصل دال میں کچھ کالا ہے کی نشاندہی کررہی ہیں ۔ امریکی افغانستان اورعراق میں پھنس چکے ہیں ۔وہاں کے محب وطن عوام کے تابر توڑ حملوں سے پریشان لاشوں کے تحفے وصول کرکے تنگ آچکے ہیں انکا کہنا ہے کہ ہم دہشت گردوں کی گرفتاری کیلئے چھاپہ مارنے جاتے ہیں اور اپنے ہی فوجیوں کی لاشیں اٹھا کر لاتے ہیں ۔ ان حالات میں امریکیوں کو انسانی ڈھال کی ضرورت ہے ۔ افغان سرحد پر بھی وہ پاکستانی فوج کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ افغانستان پر انکا مکمل قبضہ ہے ۔ سرحد کو سیل کرسکتے ہیں ۔ در اندازی کو روکنے کیلئے جدید ٹیکنا لوجی اور جنگی وسائل سے مسلح اپنے فوجی تعینات کرسکتے ہیں مگر وہ پاک فوج سے یہ کام کرانا چاہتے ہیں کیونکہ فنی خرابی کی بنیاد پر مزید جہازوں سے محروم نہیں ہونا چاہتے اور نہ ہی سردخانوں میں گوروں کی مزید لاشوں کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں ۔
عراق کی صورتحال اس سے بھی گمبھیر ہوتی جارہی ہے ۔ اس لئے کہ افغانستان میں عرب مجاہدین کیلئے پناہ کا مسئلہ بہت مشکل تھا ۔ زبان کی وجہ سے شناخت ہوجاتی تھی ۔ عراق کے محاذ پر یہ مشکلات نہیں ہیں اور اپنے اور پرائے سب جانتے ہیں کہ اگلے مورچوں پر داد شجاعت وصول کرنے اور چھاپہ مار کار وائیوں خاص طور پر خود کش حملوں میں عرب مجاہدین کا جواب نہیں ہے۔
امریکیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے موت رقص کرتی ہوئی نظر آرہی ہے اور وہ انسانی ڈھال کے طور پر پاک فوج کو استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔جنرل مائز ر اور بُش آج کل خاکی وردی والوں کی تعریف میں رطب اللسان ہیں وہ جانتے ہیں کہ تعریف کے چند بول سنکر یہ اپنے کپڑوں میں نہیں سماسکیں گے اور ہمیں اپنی حفاظت کیلئے بآسانی پاسبان مل جائیں گے ۔
یہ تو ہمارے فوجیوں کو سوچنا ہوگا کہ ہر جگہ ہمیں ہی ڈھال کیوں بنایا جاتاہے ۔ کوسوو، بوسینیا ، صومال ، افغانستان اور اب عراق آخر پاک فوج ہی قربانی کا بکر اکیو ں بنتی ہے !؟
کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونیکا وظیفہ پڑھنے والوں کو اسبات کا جواب دینا چاہئے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے ہی جگر میں کیوں ہے ؟ مراعات اور کمیشن کھانے والی بیو کریسی کیوں داؤ پرنہیں لگائی جاتی ۔ اگر ایسی کوئی مجبوری پیش آتی ہے تو معاہدوں پر دستخط کرنے والے جنرل ، اور گوری چمڑی والوں کے تحفظ کیلئے بے چین پلے ہوئے سیاسی دنبے کس مرض کی دوا ہیں ان ہیو لوں کو وردیا ں پہنا کر وہاں کیوں نہیں بھیج دیا جاتا ۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ امریکیوں کے بیٹ مین کے طور پر فدویانہ خدمات سرانجام دینے کے شوق میں اگر ہمارا کوئی ملٹری افسر یا جوان تابوت میں بند ہوکر آیا تو پاکستان کی غیور قوم ایسے تابوت وصول نہیں کریگی جن پر کوئی جنازہ پڑھنے اور پڑھانے کیلئے بھی تیار نہ ہو ۔
ظالم او رعیاش امریکی فوج کے سپاہیوں کی حفاظت میں جان دینے والوںکو پاک قوم کے غیور مردے بھی قبرستانوں کے اندر اپنے پہلومیں دفن ہونے کی اجازت نہیں دیں گے ۔
تحریر: حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن شہید
طبع اول: 2004