⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴چھتیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسلام میں کوئی بادشاہ نہیں اور کوئی رعایا نہیں، حکمرانی صرف اللہ کی ہوتی ہے ہمارے ذمے یہ کام ہے کہ اللہ کے احکام کی پیروی کریں اور دوسروں سے بھی پیروی کروائیں، اپنے آپ کو آزاد سمجھو آزادی سے اپنی عبادت کرو، تمہارے مندروں کے دروازے کھلے رہیں گے، کسی مسلمان کو مندر کے اندر قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
کیا آپ ہمیں مسلمان ہونے پر مجبور کریں گے؟،،،،، ایک اور ہندو نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ ہم تمہیں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کریں گے ،ہمارا مذہب ایسا ہے کہ تم جب اسے عملی صورت میں دیکھو گے تو اپنے ہاتھوں مجبور ہو جاؤ گے کہ اس مذہب کو قبول کر لوں،،،،،،،،،،،،،، شہر کے لوگوں سے کہہ دو کہ وہ تمام ڈر اور خوف دلوں سے نکال دیں اور باعزت زندگی بسر کریں، انہیں یہ بھی کہہ دیں کہ کسی نے غداری کی یا کسی بھی طرح ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی تو اسے عبرتناک سزا دی جائے گی، اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم شہر کے لوگوں سے کچھ رقم وصول کریں گے، جسے ہم جزیہ کہتے ہیں، یہ رقم اتنی تھوڑی ہو گی کہ ایک غریب آدمی بھی ادا کر سکے گا، جب ہم جزیہ وصول کر لیں گے تو ہم پر فرض عائد ہوجائے گا کہ ہم تمہاری تمام ضروریات پوری کریں اور تمہارے وہ حقوق پورے کریں جو ہمارے مذہب نے ہر انسان کو دیے ہیں۔
آپ جزیہ مقرر کریں ۔۔۔ایک سرکردہ ہندو نے کہا ۔۔۔ہم بہت جلدی یہ رقم آپ کے حوالے کر دیں گے۔
یہ رقم میرا وہ حاکم وصول کرے گا جیسے میں اس کام کے لئے مقرر کروں گا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں اس شہر کے ان لوگوں سے جو امیر کبیر ہیں اور زیادہ رقم دے سکتے ہیں جزیہ کے علاوہ مزید رقم لینا چاہتا ہوں، یہ رقم اس لئے لی جائے گی کہ میری فوج کو بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی ہے، اور زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس اضافی رقم کو تم لوگ تاوان سمجھو یا کچھ اور، تمہیں یہ رقم جسکی میں کوئی حد مقرر نہیں کرتا ادا کرنی پڑے گی۔
بلاذری فتوح البلدان میں لکھتا ہے کہ شہر کے تمام لوگوں نے جزیہ کی رقم ادا کر دی اور شہر کے جو امیر اور خوشحال لوگ تھے انہوں نے اضافی رقم الگ کر دیں جو ساٹھ ہزار درہم کی مالیت کی تھی، محمد بن قاسم نے یہ ساٹھ ہزار درہم اپنی فوج میں تقسیم کردیئے۔ ملتان پنچانوے ہجری/عیسوی 713-14 میں فتح کیا گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مورخ لکھتے ہیں کہ ملتان کے لوگوں نے ایسا سکون اور اطمینان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا جو وہ اپنی معاشرتی زندگی میں اب دیکھ رہے تھے، تاجر ،کاریگر اور کاشتکار اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے اور شہر کی زندگی نئے جوش اور ولولے سے شروع ہوگئی ،محمد بن قاسم ملتان سے آگے بڑھنے کے لئے پلان بنانے لگا، اس نے جزیہ کی رقم اور ککسہ اور سکہ سے وصول کئے ہوئے جزیہ کی رقم بھی حجاج بن یوسف کو بھیج دی۔
تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ محمد بن قاسم کو ایک مسئلہ پریشان کر رہا تھا، اسے معلوم تھا کہ حجاج بن یوسف خلیفہ ولید بن عبدالملک سے سندھ پر حملے کی اجازت یہ وعدہ کرکے لی تھی کہ سندھ کو فتح کرنے میں جو رقم خرچ ہوگی اس سے دوگنی رقم حجاج بن یوسف خزانے میں جمع کرائے گا ،محمد بن قاسم ملتان میں بیٹھا حساب کر رہا تھا کہ ملتان کا جزیہ ملا کر وہ خزانے میں کتنی رقم جمع کرا چکا ہے، یہ رقم خاصی تھوڑی تھی، حجاج بن یوسف کا وعدہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا، بیشتر مورخوں نے لکھا ہے کہ مطلوبہ رقم اس وجہ سے پوری نہیں ہوسکتی تھی کہ محمد بن قاسم طبعاً کشادہ ظرف اور فیاض تھا، ایک طرف تو یہ عالم تھا کہ وہ کم سے کم جو سزا دیتا وہ سزائے موت ہوتی تھی ،وہ کسی کو معاف نہیں کرتا تھا ،ایک ہی بار کئی کئی آدمیوں کو قتل کروا دیتا تھا ،لیکن نرم دل اتنا کہ اسے پتہ چلتا کہ کچھ لوگ جزیہ ادا کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ تنگدست ہیں تو محمد بن قاسم انہیں جزیہ معاف کردیتا تھا، اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جزیہ کی رقم تھوڑی مقرر کرتا تھا اور تاوان عائد کرنے سے گریز کرتا۔
اس نے جو قلعے سر کیے تھے وہاں سے خزانے ملنی چاہیے تھے لیکن وہ جس قلعے میں داخل ہوا وہاں خزانہ خالی ملتا ،یہ خزانہ ہرقلعے کے حاکم کے ساتھ ہی چلا جاتا تھا جو قلعے میں مسلمانوں کے داخل ہونے سے پہلے ہی فرار ہو جاتا تھا ،اس داستان میں سنایا جاچکا ہے کہ داہر کے بیٹے اور بھتیجے قلعہ فتح ہونے سے پہلے ہی بھاگ نکلتے تھے، ان کے بھاگنے کی ایک وجہ یہ ہوتی تھی کہ انہیں اپنا خزانہ مسلمانوں سے بچا کر اپنے ساتھ لے جانا ہوتا تھا ،ملتان میں بھی ایسا ہی ہوا کچھ خزانہ راجہ کروسیہ کے ساتھ اور باقی بجہرا کے ساتھ نکل گیا تھا، حجاج بن یوسف نے اپنے ایک خط میں خلیفہ کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کا ذکر کیا تھا ،وہ ذکر نہ کرتا تو بھی محمد بن قاسم کو احساس تھا کہ اپنی چچا کا یہ وعدہ پورا کرنا ہے ،اب وہ پریشان ہونے لگا تھا کیونکہ سندھ فتح ہوچکا تھا اور رقم ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔
وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا سالار تھا، اس کا کوئی ذاتی مقصد نہیں تھا ،اس کی کوئی ذاتی خواہش نہیں تھی، نہ ہی اس کی کوئی ذاتی عزائم تھے، وہ اپنی نوجوانی اور اپنی جان اللہ کے سپرد کر چکا تھا ،یہ اس کی نیت اور نیک عزم کا فیض تھا کہ ہر مشکل میں اللہ اس کی مدد کرتا تھا، اگر محمد بن قاسم کو اس نالی کا پتہ نہ چلتا جو شہر کے لوگوں کو پانی مہیا کرتی تھی تو ملتان کی فتح شاید ناممکن ہو جاتی، ناممکن اس لئے کہ اس کی اپنی فوج نیم فاقہ کشی تک پہنچ گئی تھی اور مجاہدین نڈھال سے ہوتے جارہے تھے، اب اسے اس پریشانی کا سامنا تھا کہ وہ رقم پوری نہیں ہورہی تھی جو اس نے خلیفہ کو ادا کرنی تھی، اس کی یہ پریشانی یہ سوچ کو اور زیادہ بڑھ جاتی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ خلیفہ یہ حکم دے دے کے مزید پیش قدمی روک دی جائے۔
کچھ دن گزر گئے محمد بن قاسم نے ملتان کے شہری انتظامات کو رواں کردیا، ایک روز وہ گھوڑے پر سوار ہو کر شہر کو دیکھنے کے لیے نکلا ،شعبان ثقفی اس کے ساتھ تھا اور چار گھوڑسوار محافظ بھی اس کے پیچھے پیچھے جارہے تھے، محمد بن قاسم نے ملتان کی فتح کے پہلے روز ہی کہہ دیا تھا کہ یہاں ایک ایسی مسجد تعمیر کی جائے جو آنے والی نسلوں کے لیے مقدس اور خوبصورت یادگار بھی ہو، اس مسجد کے لیے جگہ کا انتخاب کرلیا گیا تھا، بنیاد کھودی جارہی تھی ،محمد بن قاسم تعمیر کا کام دیکھنے کے لیے جا رہا تھا ،وہ بڑے مندر کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ دو پنڈت مندر کے باہر کھڑے تھے محمد بن قاسم کو دیکھ کر وہ دونوں دوڑ کر مندر میں چلے گئے ،محمد بن قاسم جب مندر کے سامنے سے گزرا تھا تو اس مندر کا بڑا پنڈت جو خاصا معمر تھا باہر نکلا، مندر اونچے چبوترے پر تعمیر کیا گیا تھا، چبوترے کی بارہ چودہ سیڑھیاں تھیں، بوڑھا پنڈت پہلے تو ہاتھ جوڑ کر جھکا پھر وہ آہستہ آہستہ چبوترے کی سیڑھیاں اترنے لگا ،اس خیال سے کہ بوڑھا پنڈت کچھ کہنا چاہتا ہے محمد بن قاسم نے گھوڑا روک لیا۔
پنڈت آہستہ آہستہ سیڑھیوں سے اتر آیا اور وہ محمد بن قاسم کے گھوڑے کے پہلو میں آ روکا، اس نے دونوں ہاتھوں سے محمد بن قاسم کا اس طرف والا پاؤں پکڑ لیا جو رکاب میں تھا، پھر اس نے اپنا ماتھا محمد بن قاسم کے پاؤں پر رکھ دیا ،محمد بن قاسم نے بڑی تیزی سے اپنا پاؤں کھینچ لیا، پنڈت سیدھا ہوا اور ہاتھ جوڑ کر اس نے اوپر دیکھا اور اپنی زبان میں کچھ کہا ،ایک ترجمان محمد بن قاسم کے ساتھ رہتا تھا وہ آگے آیا اور محمد بن قاسم کو بتایا کہ پنڈت کیا کہتا ہے، اس نے کہا تھا کہ وہ محمد بن قاسم کے ساتھ تنہائی میں ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہے، محمد بن قاسم گھوڑے سے اترا اور اس عمر رسیدہ پنڈت کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگا، اس نے پنڈت کو ایک سیڑھی پر بٹھا دیا اور خود نیچے والی سیڑھی پر بیٹھ گیا ، اس کے اشارے پر ترجمان اس کے پاس آ گیا دونوں کے درمیان ترجمان کے ذریعے باتیں ہوئیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا پنڈت نے کہا۔۔۔ کون یقین کرسکتا ہے کہ بادشاہ نیچے اور رعایا کا ایک آدمی اس سے اونچی جگہ پر بیٹھا ہے۔
صرف مسلمان یقین کر سکتے ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ میرے ساتھ وہ بات کریں جس کے لئے آپ نے مجھے روکا ہے،،،،،،، میں آپ کی بات کا جواب دے دیتا ہوں آپ مجھ سے بڑے ہیں اور میں بہت چھوٹا ہو آپ کے بیٹوں کے بیٹوں جیسا ہوں
پنڈت کو جیسے دھچکا لگا ہو، یہ حیرت کا دھچکا تھا جس سے وہ ذرا پیچھے ہو گیا۔
میں مجبور ہو گیا ہوں کے آپ کو ایک راز بتا دوں۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔یہ ایک انعام ہوگا جو میں آپ کو دینا چاہتا ہوں، اگر میں بڑھاپے کی وجہ سے کوئی ایسی ویسی بات کہہ دو تو مجھے معاف کر دینا، میں نے اس روز آپ کو دیکھا تھا جس روز آپ قلعے میں داخل ہوئے تھے ،میں نے سنا تھا کہ عربی سالار چھوٹی عمر کا ہے تو میں نے خیال کیا کہ تیس پینتیس سال عمر کا ہوگا ،لیکن آپ کو دیکھ کر تو میں بہت حیران ہوا اور سوچا کے یہ تو بچہ ہے اور یہ بچہ عرب کا شہزادہ ہوگا اور شہزادوں جیسی چھچھوری حرکتیں کرے گا، میں نے اپنے ساتھ کے پنڈتوں اور اپنے بالکوں سے کہا کہ شہر کے لوگوں سے کہہ دو کہ اپنی جوان بیٹیوں کو چھپا دیں یا زندہ دفن کر دیں، میں نے لوگوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ سونے چاندی کے زیورات اور رقم زمین میں دبا دیں، مجھے یہ خطرہ بھی نظر آ رہا تھا کہ اس مندر کو گرا دیا جائے گا، اگر گریا نہ گیا تو بند کردیا جائے گا اور ہمیں آپ قتل کرا دیں گے، یا ہمیں اپنا غلام بنا کر نیچ اور گھٹیا کاموں میں لگا دیں گے۔
میں اس عمر میں ذلیل و خوار ہونے سے ڈرتا تھا ،میں ایک خستہ حالت جھوپڑے میں جا کر چھپ گیا، میری دیکھ بھال کے لئے ایک آدمی میرے ساتھ تھا، وہ ہر روز مجھے شہر کی خبریں سناتا تھا، مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ شہر میں امن وامان ہے اور فاتح فوج نے لوگوں کے گھروں کو نہیں لوٹا اور کوئی ایک بھی جوان لڑکی لاپتہ یا بے آبرو نہیں ہوئی،،،،،،،،میں کل اس جھوپڑے سے نکلا ہوں ،مندر میں آیا تو اسے اسی حالت میں پایا جس حالت میں میں اسے چھوڑ گیا تھا، مردوں اور عورتوں کو عبادت کرتے دیکھا وہ سب آپ کی تعریفیں کر رہے تھے میں بہت خوش تھا مجھے یقین کرنا پڑا کہ آپ انسان کے روپ میں دیوتا ہیں، آپ نے مجھے میرا مندر واپس کردیا ہے میری ساری دنیا یہ مندر ہے میں رات کو شہر کے ایک بڑے آدمی سے ملا تھا اور اسے کہا تھا کہ میں عرب کے سالار سے ملنا چاہتا ہوں، اس نے کہا کہ وہ آپ کے ساتھ میری ملاقات کرا دے گا ،ابھی ابھی مجھے دو پنڈتوں نے بتایا کہ آپ آرہے ہیں میں آپ سے ملنے کے لئے باہر آگیا۔
آپ میرے ساتھ کوئی ضروری بات کرنا چاہتے تھے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔
ہاں اس نے ادھر ادھر دیکھا پھر سرک کر محمد بن قاسم کے قریب ہوکر رازدارانہ لہجے میں بولا۔۔۔ آپ نے میرے شہر کے لوگوں پر اور میرے مندر پر جو کرم کیا ہے اس کا میں آپ کو صلہ دے رہا ہوں ،،،،،،،،بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ اس بستی میں ایک راجہ آیا تھا وہ کشمیر کا راجہ تھا اس کا نام جسوبن تھا ،وہ اپنے خزانے کا تمام سونا جو سفوف کی صورت میں تھا اپنے ساتھ لایا تھا۔
پنڈت مہاراج !،،،،،محمد بن قاسم نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ۔۔۔خزانوں کے قصے بہت برا نے ہوگئے ہیں، آپ نے بھی وہی قصہ سنانا شروع کر دیا ہے، پہلے مجھے یہ بتائیں کہ یہ اتنے پرانے زمانے کا قصہ ہے جب آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ،تو آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ سچ ہے۔
محمد بن قاسم کی اکتاہٹ اس کی فطرت کا قدرتی ردعمل تھا، وہ مرد میدان اور مرد مومن تھا ،اس وقت اسے خزانے کی ضرورت تھی لیکن وہ اس بوڑھے پنڈت کی باتوں میں آنے سے گریز کررہا تھا، یہ دھوکہ بھی ہوسکتا تھا، یہ ایک معمر ہندو تھا جس کی رگ اور ریشے میں اپنا مذہب رچا بسا ہوا تھا، اس کا متعصب ہونا لازمی تھا ،محمد بن قاسم نے ٹھیک کہا تھا کہ مدفون خزانوں کے قصے پرانے ہو چکے ہیں ،اور لوگوں نے ایسے خیالی خزانوں کے عجیب و غریب کہانیاں گھڑ رکھی ہیں۔
آپ کا یہ شک کہ میری یہ بات سچ نہیں ہو سکتی یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ دانشمند ہیں۔۔۔ بوڑھے پنڈت نے کہا ۔۔۔لوگ تو خزانے کا نام سن کر اسے حاصل کرنے کے لیے جان کی بازی لگا دیا کرتے ہیں، مگر آپ شک میں پڑ گئے ہیں، آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ائے بوڑھے پوجاری اگر تمہیں معلوم ہے کہ فلاں جگہ ایک راجہ خزانہ دفن کرکے مر گیا تھا تو تم نے کیوں نہ نکال لیا ،میں اس کا یہ جواب دوں گا کہ میری اکیلی ذات ہے، میں نے خزانے کو کیا کرنا ہے، اور پھر یہ بات بھی ہے کہ میں نے دنیا کا لالچ دل سے نکال دیا ہے، آپ بادشاہ ہیں بادشاہی کا کاروبار چلانے کے لیے خزانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
خزانہ کہاں ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ اور کشمیر کے راجہ نے اس خزانے کو دفن کیوں کر دیا تھا۔
یہاں قریب ہے۔۔۔ بوڑھے پنڈت نے کہا ۔۔۔میں آپ کے ساتھ چلوں گا ۔
کشمیر کا راجہ جسوبن زیادہ وقت عبادت میں گزارتا تھا ،یہ اس زمانے کی بات ہے جب ملتان کا کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق تھا یا یہ علاقہ جسوبن کا اپنا تھا ،یہ تو میں ٹھیک طرح نہیں بتا سکتا البتہ یہ ٹھیک بتا سکتا ہوں کہ وہ اس مندر میں آ کر بیٹھ گیا تھا اور اس نے دنیا سے منہ موڑ لیا تھا ،اس نے مندر سے تھوڑی دور ایک وسیع حوض بنایا جو ایک سو قدم سے ذرا زیادہ لمبا اور اتنا ہی چوڑا تھا ،اس حوض کے درمیان اس نے چھوٹا سا مندر بنوایا اور اس مندر میں جاکر بیٹھ گیا،،،،،،،
میرے دادا پردادا میں سے جو اس وقت یہاں کاپنڈت تھا وہ مہارشی تھا وہ راجہ جسوبن کے ساتھ ساتھ رہتا تھا ،جسوبن نے عمر کے آخری دنوں میں مندر کے تہ خانے میں سونے کے سفوف سے بھرے ہوئے چالیس مٹکے رکھے اور کئی من وزنی سونا اینٹوں اور زیورات کی شکل میں رکھا ،یہ تمام سونا اس نے دفن کر دیا تھا، اس کے اوپر اس نے سونے کا ایک انسانی بت بنوا کر رکھ دیا تھا کہ کسی کو شک نہ ہو کہ اس کے نیچے سونا دفن ہے، مندر کے اردگرد اس نے درخت لگوا دیے تھے،،،،،،
مجھ تک جسوبن کی جو بات پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے باپ نے سونے اور خزانے سے دل لگایا تھا ،اور جسوبن کو بھی اس نے یہی سبق دیا تھا، جسوبن کی جوانی سونے میں کھیلتے اور عیش و عشرت میں گزری ،اسے اپنے ماں باپ کے ساتھ بہت پیار تھا، پہلے اس کا باپ مرا پھر اس کی ماں بھی مر گئی ،اس نے ویدوں اور سیانوں سے کہا کہ جو اس کے باپ کو موت سے بچا لے گا اسے وہ اس کے وزن کے برابر سونا دے گا، لیکن کوئی بھی اس کے باپ کو نہ بچا سکا، اس کی ماں بیمار ہوئی تو بھی اس نے یہی انعام مقرر کیا تھا، مگر ماں کو بھی موت سے کوئی نہ بچا سکا،،،،،،
ہم سب کو پیدا کرنے والے نے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے جسوبن کو ایک اور جھٹکا دیا، ایک نوجوان رقاصہ کے ساتھ اسے بہت محبت تھی، ایک روز وہ بیمار ہوگئی جسوبن نے اعلان کیا کہ جو کوئی اس کی رقاصہ کو صحت یاب کر دے گا اسے وہ اس کے اور رقاصہ کے وزن کے برابر سونا دے گا، دور دور سے وید، سنیاسی، جوگی اور سیانے علاج کیے مگر رقاصہ مرگئی،،،،،، رقاصہ کی لاش کو جب لکڑیوں کے ڈھیر پر رکھ کر آگ لگائی گئی تو جسوبن بچوں کی طرح رونے لگا ،مجھ جیسے ایک بوڑھے جوگی نے اسے اپنے ساتھ لگایا اور کہا کہ مہاراج کے خزانے میں جتنا سونا ہے وہ سارا دے دو تو تم زندگی کا صرف ایک سانس بھی نہیں خرید سکتے، تم زندہ انسانوں کو سونے میں تولتے ہو، یہ دیکھ انسان کا انجام ،اس رقاصہ کے حسین جسم نے تم جیسے راجہ پر جادو کردیا تھا ،دیکھ لو وہ جسم اور اس کا حسن جل کر راکھ ہو رہا ہے، اپنا سارا سونا اس آگ کے حوالے کردو تو سونا پگھل جائے گا تمہاری رقاصہ کو یہ آگ تمہیں واپس نہیں دے گی،،،،،، اپنی روح کی تسکین کا سامان کر، مندر میں آ، جھک جا ، عبادت کر،،،،،،
جسوبن کا دل اتنا دکھی تھا کہ وہ مندر میں جا کر پوجا پاٹ کرنے لگا ،اس کے دل سے دنیا اور دولت کی محبت نکل گئی، پھر وہ عبادت میں ہی مصروف رہنے لگا وہ یہاں آ گیا اور تمام سونا زمین میں دفن کر کے اوپر مندر بنا دیا ،میں نے مان لیا ہے کہ آپ جس خدا کی عبادت کرتے ہیں وہ آپ کی مدد کر رہا ہے، آپ جہاں جاتے ہیں وہاں کے لوگ آپ سے خوش ہوتے ہیں، آپ یہ سونا مندر کے نیچے سے نکال لیں۔
میں نے سنا ہے کہ مدفون خزانے کے ساتھ بدقسمتی اور نحوست وابستہ ہوتی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔۔پرانے مدفون خزانوں کے قصے جو میں نے سنے ہیں ان میں یہ ضرور آتا ہے کہ جو کوئی بھی کسی خزانے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا وہ بری طرح ہلاک ہوا ۔
مجھے یقین ہے کہ آپ اس مدفون خزانے کو اپنی ذاتی ملکیت میں نہیں رکھیں گے۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔میں آپ کو مشورہ بھی یہی دونگا کہ اسے آپ اپنا ذاتی خزانہ نہ بنائیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔ اور اگلی قسط اس سلسلے کی کی آخری قسط ہوگی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ کوئی خیالی قصہ نہیں، چچ نامہ فتوح البلدان اور تاریخ معصومی میں اس مدفون خزانے کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے، اور اس کی نشاندہی اس پنڈت نے ہی کی تھی یہ بیان ہو چکا ہے کہ پنڈت نے محمد بن قاسم کو اس خزانے کا پتا کیوں دیا تھا ،محمد بن قاسم نے پنڈت سے کہا کہ وہ اس کا ذکر کسی اور کے ساتھ نہ کرے ،پنڈت کو وہیں بیٹھنے کو کہا اور شعبان ثقفی کو الگ لے جاکر اسے وہ تمام باتیں سنائیں جو اس کے اور پنڈت کے درمیان ہوئی تھی۔
یہ دھوکہ ہو سکتا ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ یہ تمھارے قتل کی سازش ہوسکتی ہے۔
ابن قاسم !،،،،،وہاں سونا ضرور ہوگا اگر دیکھنا ہے تو چند آدمیوں کو ساتھ لے لیں گے۔
نہیں !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہارے سوا کوئی اور ہمارے ساتھ نہیں ہو گا ،کیا تم نے ایسے قصے نہیں سنے کہ چند آدمی مدفون خزانہ نکالنے گئے اور جب خزانہ مل گیا تو ان آدمیوں نے ایک دوسرے کو قتل کردیا، خزانہ دین و ایمان قائم نہیں رہنے دیا کرتا ،شعبان میں تو اپنے چچا حجاج بن یوسف کا وہ وعدہ پورا کرنا چاہتا ہوں جو اس نے خلیفہ سے کیا تھا ،میں اسے اللہ کی مدد سمجھتا ہوں کہ پنڈت نے اس مدفون خزانے کی نشاندہی کی ہے۔
شعبان ثقفی کے ساتھ کچھ دیر باتیں کرکے محمد بن قاسم نے بوڑھے پنڈت سے کہا کہ وہ تین یا چار دنوں بعد اس کے ساتھ حوض والے مندر میں جائے گا ،پنڈت کا شکریہ ادا کر کے وہ اس جگہ گیا جہاں ملتان کی پہلی مسجد کی تعمیر کے لیے بنیادی کھودی جارہی تھی ،اس دور کے کاتبوں کی تحریروں کے حوالے سے مورخوں نے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے کودال اپنے ہاتھ میں لے لی اور بنیاد کھودنے لگا ،اس نے کدال اس وقت چھوڑی جب اس کا پسینہ اس کی آنکھوں میں پڑھنے لگا ،اور اسے بار بار آنکھیں پوچھنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی، اس نے کدال رکھ دی بنیاد سے باہر آیا اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے پھر اس کا پسینہ آنسو آپس میں گھل مل گئے۔
وہاں سے اس نے شعبان ثقفی اور صرف چار محافظوں کو ساتھ لیا اور واپس مندر میں آیا، بوڑھے پنڈت کو باہر بلایا اور اسے کہا کہ وہ ابھی حوض والے مندر میں چلے گیں، یہ سوچ شعبان ثقفی کی تھی کہ پنڈت کو دھوکے میں رکھا جائے کہ محمد بن قاسم تین چار دنوں بعد حوض والے مندر میں جائے گا ،لیکن اسے اچانک کہا گیا کہ ابھی چلو یہ دھوکہ اس لیے دیا گیا کہ اس نے کوئی سازش کرنی ہو تو اسے مہلت نہ ملے
پنڈت کے لیے ایک گھوڑا ساتھ تھا ۔اسے اس پر سوار کر کے ساتھ لے گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حوض دور نہیں تھا اس وقت ملتان کے گردونواح کے خدوخال کچھ اور تھے ،کھڈ نالے، ٹیلے، اور گھاٹیاں زیادہ تھیں، ایک ویرانے میں حوض والا مندر تھا، محمد بن قاسم کے زمانے میں یہ مندر غیرآباد ہوچکا تھا، عبادت تو دور کی بات ہے اس مندر کے قریب سے کوئی نہیں گزرتا تھا، اسے آسیبی مندر بھی کہا جاتا تھا ،اور زیادہ تر لوگ یقین سے کہتے تھے کہ گنہگاروں کی بدروحیں اس مندر میں لے جائی جاتی ہیں، اور وہاں انہیں سزا بھی ملتی ہے، اور انہیں نیک بھی بنایا جاتا ہے، مندر کے علاقے میں گیدڑ بھیڑیا کتا یا ایسا کوئی بھی جانور دیکھتے یا چیلوں اور گِدھوں کو دیکھتے تو کہتے تھے کہ یہ بد روحیں ہی ہوسکتی ہیں، لوگوں میں یہ خوف و ہراس اس بوڑھے پنڈت کے باپ دادا اور پر دادا نے مندر سے لوگوں کو دور رکھنے کے لئے پیدا کیا ہوگا،کیونکہ وہاں منوں کے حساب سے خزانہ مدفون تھا۔
محمد بن قاسم پنڈت کے ساتھ وہاں پہنچا، سب گھوڑے سے اتر گئے، پنڈت نے نہ جانے کس خیال سے محمد بن قاسم سے کہا کہ وہ اکیلا اس کے ساتھ چلے، حوض خشک تھا اس میں اترنے کے لئے سیڑھیاں تھیں، پنڈت سیڑھیوں سے اترنے لگا ،اس کے پیچھے محمد بن قاسم اترا ،آگے مندر کی چند ایک سیڑھیاں تھیں، دونوں ان پر چڑھ کر مندر میں داخل ہوگئے ،وہ جوں جوں آگے بڑھتے جارہے تھے اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔
پنڈت اندھیرے میں بائیں جانب غائب ہو گیا ۔اس کی صرف یہ آواز سنائی دی۔۔۔ ادھر،،، محمد بن قاسم بائیں کو موڑا یہ سیڑھیاں تھیں جو نیچے کو جاتی تھیں، وہ نیچے اترنے لگا بدبو اتنی کے برداشت نہیں ہوتی تھی، اچانک اتنی زور سے پھڑپھڑانے کی آواز اٹھی کہ محمد بن قاسم جیسا دلیر آدمی گھبرا گیا ،اس کے ساتھ ہی اوں اوں کی ہلکی ہلکی بے شمار آوازیں آنے لگیں، بیٹھ جاؤ،،،، پنڈت کی آواز آئی۔۔۔ بڑے چمگادڑ ہیں۔
محمد بن قاسم بیٹھ گیا ،چمگادڑوں کا غول جھکڑ کی طرح ان کے اوپر سے گزرنے لگائے، چیلوں جتنی بڑے چمگادڑ تھے، جن کے پروں کی ہوا پنکھوں جیسی تھی، یہ مندر ان کا خاموش مسکن تھا، اور یہ خاموشی دو انسانوں نے توڑدی ،چمگادڑ ڈر ڈر کر باہر کو بھاگ رہے تھے۔
سیکڑوں چمگادڑ مندر کے تہ خانے سے نکل گئے، لیکن وہ جس دھماکہ نما پھڑپھڑاہٹ سے اڑے تھے اس کی گونج ابھی تک مندر میں بھٹک رہی تھی، پنڈت سیڑھیاں اترنے لگا، محمد بن قاسم سنبھل سنبھل کر قدم نیچے رکھتا اتر گیا اور سیڑھیاں ختم ہوگئیں، پنڈت اس کا ہاتھ پکڑ کر دائیں کو لے گیا ،اندھیرا سیاہ کالا ہوگیا ،چند قدم آگے پنڈت اسے بائیں طرف لے گیا۔
اس راہداری میں ہلکی ہلکی روشنی تھی یا اندھیرا کام ہو گیا تھا، محمد بن قاسم کو سرسراہٹ سے سنائی دی جیسے کوئی آدمی دبے پاؤں آ رہا ہو، محمد بن قاسم نے فوراً تلوار نکال لی۔
اسے نیام میں ہی رہنے دو ۔۔۔پنڈت نے کہا۔۔۔ یہ اس تاریک دنیا کی مخلوق ہے، سانپ ہوگا، دیکھو کتنی بدبو ہے، یہ گیدڑوں یا بچھوؤں کے بچے ہونگے، آوازیں نہیں سنائی دے رہی ہے آپ کو؟
محمد بن قاسم ہلکی ہلکی آوازیں سن رہا تھا اس نے تلوار نیام میں ڈالی، کچھ اور آگے گئے تو ایک کمرہ آگیا ،سامنے والی دیوار میں چھت کے ساتھ چھوٹا سا دریچہ تھا جو جالوں سے اٹھا ہوا تھا اور اس میں سے ہلکی ہلکی روشنی آرہی تھی ،کمرے کے وسط میں ایک آدمی کھڑا تھا چونکہ روشنی کم تھی اور اس کے پیچھے تھی اس لئے آدمی کے چہرے کے خدوخال دکھائی نہیں دیتے تھے، وہ سیاہ سایہ تھا اور وہ وار کرنے کی تیاری کی حالت میں تھا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ محمد بن قاسم نے اس خیال سے اسے یہاں قتل کرنے کے لیے لایا گیا ہے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اور اس آدمی پر وار کرنے کے لیے لپکا ،بوڑھے پنڈت نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
رُک جا عربی سالار!،،،،،،، پنڈت نے کہا ۔۔۔یہ کوئی زندہ انسان نہیں یہ سونے کا وہ بت ہے جو راجہ جیسوبن نے بنوا کر یہاں رکھا تھا ،اس کے نیچے سونے کے سفوف کے مٹکے، زیورات اور سونے کی اینٹیں رکھی ہیں، اپنے آدمیوں کو بلا کر یہ بت ہٹاؤ اور اس جگہ سے فرش اکھاڑو، لیکن ایسے آدمیوں کو یہاں لاؤ جس کا ایمان اتنا مضبوط ہو کہ سونے کی چمک سے ٹوٹ نہ جائے، بلازری نے لکھا ہے کہ سونے کے اس بت کی آنکھوں میں یاقوت جڑے ہوئے تھے جو اندھیرے میں چمکتے تھے، اس بت کا ذکر کرنے والے کسی اور مؤرخ نے یاقوت کا ذکر نہیں کیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت تک مسلمانوں کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ سونے کی چمک اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی ،محمد بن قاسم شعبان ثقفی اور چار محافظوں کو باہر حوض سے اوپر کھڑا کرآیا تھا، لیکن وہ سب دبے پاؤں حوض میں اتر آئے اور مندر کے اندر چلے گئے تھے، محمد بن قاسم کو معلوم تھا کہ مندر میں وہ پنڈت کے ساتھ اکیلا نہیں، اس نے تالی بجائی اور وہ پانچوں اس کے پاس پہنچ گئے، محمد بن قاسم نے شعبان کو بتایا کہ اس بت کو ہٹانا اور اس کے نیچے سے سونا نکالنا ہے۔
شعبان ثقفی بہتر جانتا تھا کہ اس کام کے لئے کتنے اور کون کون سے آدمی موزوں ہیں، وہ ان سب کو لے آیا مندر کے اندر مشعلیں جلا کر رکھ دی گئیں، اور شام تک سونے کا بت اور فرش کے نیچے سے برآمد ہونے والا تمام سونا مندر کے باہر پڑا تھا ۔
فتوح البلدان (بلازری)میں لکھا ہے کہ سفوف (پاؤڈر )کی شکل میں تھا ، وہ چالیس مٹکوں میں بھرا ہوا تھا ،اینٹوں یعنی ٹکڑوں اور زیورات کی صورت میں جو سونا تھا اس کا وزن دو سو تیس من تھا، سونے کے بت کو ملا کر اس تمام سونے کا وزن ایک ہزار تین سو بیس (1320)من تھا، بیشتر مؤرخ سونے کے اسی وزن پر متفق ہیں۔
اس کے دوسرے ہی روز محمد بن قاسم کو حجاج بن یوسف کا خط ملا جس میں اس نے ملتان کی فتح کی مبارک لکھی اور یہ بھی لکھا کہ میں نے خلیفہ سے وعدہ کیا تھا کہ سندھ کی جنگ پر جتنا پیسہ خرچ ہو گا میں اس سے دوگنا خزانے میں جمع کر آؤں گا، الحمدللہ میں سرخرو ہو گیا ہوں ، حساب کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ اب تک تمہاری فوج پر ساٹھ ہزار نقرئی درہم خرچ ہوئے ہیں ،اور تم نے اب تک نقد اور قیمتی اشیاء کی صورت میں جو کچھ بھیجا ہے اس کی مالیت ایک لاکھ 20ہزار نقرئی درہم ہے، اس خط میں حجاج بن یوسف نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہر شہر اور ہر قصبے میں ایک ایسی شاندار مسجد تعمیر کرائیں جو تاقیامت اس ملک میں اسلام لانے والوں اور اسلام کے لیے جانیں قربان کرنے والوں کی یادگار رہے، اب جمعہ کے خطبے میں خلیفہ کا نام نہ لیا جائے، اور تم خلیفہ کے نام کا سکہ بھی جاری کر دو۔
ان اخراجات میں جو حجاج بن یوسف نے لکھے تھے سکہ اور ملتان کی فتح کے اخراجات شامل نہیں تھے، اور ایک لاکھ بیس ہزار درہم میں جو محمد بن قاسم نے بھیجے تھے، یہ سونا شامل نہیں تھا جو ملتان کے حوض والے مندر سے برآمد ہوا تھا ،محمد بن قاسم نے یہ خط ملتے ہی مندر سے برآمد ہونے والے سونے کا پانچواں حصہ خلافت کا علیحدہ کرکے کشتیوں کے ذریعے دیبل بھیجا ،اور دیبل سے یہ سونا عراق کو جہاز کے ذریعے بھیج دیا گیا۔
جنگ کے اخراجات اور مال غنیمت کے حساب کتاب میں مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ سندھ کی جنگ پر چھ کروڑ درہم خرچ ہوئے، اور مال غنیمت کی صورت میں جو واپس ملا وہ بارہ کروڑ درہم کی مالیت کا تھا ،ان مؤرخوں نے حجاج بن یوسف کا جو خط پیش کیا ہے اس میں اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہم نے اپنے خون کا بدلہ لے لیا ہے، اور جو خرچ کیا وہ واپس مل گیا، چھ کروڑ مزید مل گئے، اور اسلام کے سب سے بڑے دشمن راجہ داہر کا سر الگ ملا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے داؤد بن نصر بن ولید عمانی کو ملتان کا حاکم مقرر کیا ،خریم بن عبدالملک تمیمی ،عکرمہ بن ریحان شامی اور احمد بن خزیمہ بن عتبہ مدنی کو ملتان کے تحت آنے والے علاقوں کے مختلف حصوں کا حاکم بنایا، یہ بہت ہی وسیع و عریض علاقہ تھا جس کے انتظامات سوچ سمجھ کر کیے گئے ،محمد بن قاسم نے ملتان میں جو فوج اپنے ساتھ رکھی اس کی تعداد پچاس ہزار تھی اور یہ سب گھوڑ سوار تھے ،اس میں سندھ کے مختلف علاقوں کے سوار بھی تھے، ملتان کے علاقے میں مختلف جگہوں پر جو فوج رکھیں گئیں اس میں سواروں کے ساتھ پیادے بھی تھے۔
ملتان فتح ہوجانے سے آج کا پورا پنجاب اور کچھ حصہ کشمیر کا بھی اسلامی سلطنت میں آگیا تھا، چھوٹی موٹی ریاستوں کے راجوں نے محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کر لی تھی، محمد بن قاسم نے اب آج کے بھارت کی حکمرانیوں کی طرف تو جہ دیدیں، ان میں سب سے بڑی ریاست قنوج تھی۔
ایک روز محمد بن قاسم اپنے سالاروں اور مشیروں کو بلایا اور ان سے اگلی پیش قدمی کے لئے صلح مشورہ کیا، فیصلہ ہوا کہ قنوج کے راجہ کو قبول اسلام کی دعوت دی جائے، محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں پر نظر دوڑائی اور نظر ایک سالار پر ٹھہر گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>