آجکل ذرائع ابلاغ میں بڑا غلغلہ ہے ۔امریکہ نے اسامہ کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت پیش کردئیے ۔ پرویز مشرف نے کہا ہے کہ پیش کردہ شواہد کی بنیاد پر کیس چلایا جاسکتاہے ۔ مگر عجیب بات ہے کہ فریق مخالف طالبان ہیں ۔ انکے سامنے نہ ثبوت پیش کئے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کے شواہد کی بات کی جاتی ہے ۔’’مرے کومارے شاہ مدار ‘‘کے مصداق ہمارے صدر صاحب اور انگلش میڈیم کابینہ جو پہلے ہی اسامہ کو دہشت گرد تسلیم کرچکے ہیں اور بزعم امریکہ دہشت گردی کے خلاف طالبان کی اسلامی حکومت اور اسامہ بن لادن پر حملہ کرنے میں مکمل تعاون کایقین دلاچکے ہیں انہیں کے سامنے ثبوت وشواہد پیش کئے جارہے ہیں ۔ وہ تو پہلے ہی قائل تھے اور اب گھائل ہوچکے ہیں ۔
تیسری دنیا کی اقوام کا ایک بڑا المیہ ہے کہ وہ صدیوں کی غلامی کے صدمہ سے اب تک بری طرح متاثر ہیں اور آزاد انہ سوچ کے تصور سے عاری ہیں ۔ سفید چمڑی والا جوبھی کہدے اس پر سردھننے لگتے ہیں ۔ کسی انگریز نے ٹوٹی پھوٹی اردو سیکھی تھی اور ایک قوالی میں شریک سماع تھا ۔ قوال نے طبعہ کی تھاپ پر اپنے مخصوص انداز میں ’’دریابہ حباب اندر ‘‘کو مکرر سہ کر گانا شروع کیا تو انگریز پر وجد طاری ہوگیا اور وہ بھی قوال کے ساتھ بے اختیار پکار اٹھا ’’دریامیں بہابندر ‘‘اس انگریز کے ساتھ دانشور وں کا جم غفیر تھا ۔انہوں نے انگریز کی ’’کلام فہمی‘‘کی داد دیتے ہوئے کہنا شروع کیا :واہ واہ !جب وہ بندر دریا میں بہہ رہاہوگا تو کیسا دلفیب منظر ہوگا !؟ کہتے ہیںکہ ایک بادشاہ سلامت کو ڈینگیں مارنے کی بڑی عادت تھی ایک دن اس نے دعوی کیا کہ ایک دن مابدولت جنگل میں شکار کیلئے گئے ہوئے تھے کہ ایک ہرن سامنے آگیا اور مابدولت نے تیر کھینچ کر ایسا مارا کہ اس کے کھر سے لگ کر اسکی آنکھ کو چھوتا ہوا نکل گیا بادشاہ کی بے تکی سنکر لوگ بے اختیار ہنس پڑے بادشاہ کو بہت خجالت وشرمندگی کا سامنا کرنا پڑا مگر اس مجمع میں دانشور وں کی کمی نہیں تھی اس نے کہا : بادشاہ سلامت نے بلکل درست فرمایا ۔ دراصل ہرن اس وقت اپنے کھر سے آنکھ کو کھجارہا تھا !
کچھ یہی صورتحا ل دہشت گردی کے بارے میں امریکی دعوی اور اسکے ثبوت اور شواہد کی ہے ۔ امریکی ذہنیت یہ ہیکہ ہم نے کہدیا ہے ۔ آپ کو تسلیم کرنا ہے ۔اگر آپ مانتے ہیں تو آپ روشن خیال اور ہمارے دوست ہیں اور اگر نہیں مانتے تو دقیانوسی ۔ ہٹ دھرم اور ضدی اور ہمارے دشمن ہیں ۔
امریکی کسی قسم کے شواہد یا ثبوت کے تکلف میں پڑنے کے روادار نہیں تھے مگر طالبان کے مظبوط اور اصولی موقف نے رائے عامہ کو اسقدر متاثرکردیا کہ امریکیوں کو مجبور اً دلائل وشواہد تصنیف کرنے پڑے مگر اتنے قوی اور مظبوط ہیں کہ عوام یا متاثر فریق کو بتائے نہیں جاسکتے ! وہ صرف نیٹو کو یا حکومت پاکستان کوبند کمرے میں پیش کئے جاسکتے ہیں !امریکہ نے جب بین الاقوامی رائے عامہ اپنے خلاف جاتی ہوئی محسوس کی تو اسے سائنٹیفک انداز سے متاثر کرنے کیلئے ذرائع ابلاغ پر پہلے یہ کیسٹ چلائی کہ ہم ثبوت ضرور پیش کریں گے ہمارے پاس کافی شواہد موجود ہیں اور اب یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم نے ثبوت پیش کردئے اوراب مسلح کاروائی کا جواز پیدا ہوگیا ۔قوالی کے انداز میں یہ کیسٹ بج رہی ہے اور پاکستانی کابینہ اور مغرب پرست دانشور اس پر ’’ دریا میں بہا بندر ‘‘ کے انداز میں رقص کررہے ہیں ۔
ہر ذی شعور یہ کہ رہا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے اور یہودیوں نے اسلامی حکومت کے خلاف کاروائی کا جواز پیدا کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت برپاکرنے کیلئے یہ سب کچھ کیا ہے ۔تمام شواہد بھی اس کی تائید کررہے ہیں مگر امریکہ کی رٹ یہی ہے کہ نہیں ! مسلمانوں نے کیا ہے ۔ سامہ اور ملا عمر کا ہاتھ ہے ۔
امریکی کور باطن دانشور وں کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی ہے اور بہت دور کی کوڑی لائے ہیں ۔ کہتے ہیں : جائے حادثہ سے چار پانچ گلیوں کے فاصلے پر ایک مسلمان عرب کا پاسپورٹ ملا ہے ۔ یہی ہائی جیکر ہے ۔ جہاز تبا ہ ہوگیا بلڈنگ زمین بوس ہوکر ملبے کا ڈھیر بن گئی اور طیارے کے مسافروں کے ساتھ ہائی جیکروں کی ہڈیاں بھی خاکسر ہوگئیں مگر پاسپورٹ ایسے صحیح سالم برآمد ہوگیا جیسے آٹے میں سے بال نکل آتا ہے ۔ پاسپورٹ کا مالک شور مچارہاہے کہ یہ میرا پاسپورٹ ہے اور میں ہائی جیکر نہیں ایک انجینئر ہوں ۔ سعودیہ کا باشندہ اور ریاض کی ایک فرم میں ملازم ہوں مگر امریکہ کا اصرار ہے کہ نہیں ! یہ سب دھوکہ ہے ہماری جدید ٹیکنا لوجی اور کمپیوٹر غلط نہیں ہوسکتے ۔ یہ پاسپورٹ ہائی جیکر کا ہے اور اسکا تعلق اسامہ بن لادن سے ہے ۔
ہائی جیکر وں کے ماسٹر مائنڈ کا بھی فیصلہ ہوگیا ہے ایک شراب خانہ کے مالک نے بتایا کہ عطاء محمد نامی ایک عرب مسلمان نے شراب کے نشہ میں مدہوش حالت میں بتایا کہ وہ پائلٹ ہے ۔لہذا وہی تمام کاروائی کا ماسٹر مائنڈ ہے اور اسی نے یہ جرم کیا ہے ۔ یہ بھی مسلمان ہے ۔ اسامہ بن لادن بھی مسلمان ہے لہذا اسکا اسامہ سے تعلق ثابت ہوگیا ۔
پھر ایف بی آئی نے ایک برف کیس بھی ڈھونڈ نکالا جو واقعہ کے تقریباً دوہفتہ بعد مل سکا کہ ایک عر ب مسافر کا بریف کیس ہے جو جہاذمیں لوڈ نہیں ہوسکا اس میں کاغذہے جس پر عربی میں کچھ دعائیں اور وصیت کے بارے میں ہدایات ہیں ۔ بس !بس !ثبوت مل گیا ۔ اس بریف کیس کا مالک ہی ہائی جیکر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ عرب ہے اسامہ بھی عرب ہے دہشت گردی کے ساتھ اسامہ کا تعلق ثابت ہوگیا ۔
حکومت پاکستان پہلے یہی کہتی رہی کہ امریکہ نے جو ویڈیو پیش کی ہے یہ ناکافی ہے ہمیں کوئی ایسی دستاویز نہیں دکھائی گئی جس سے اسامہ کا تعلق ۱۱ستمبر کے واقعہ سے جوڑا جا سکے اسکے فوراً بعد وزیر خزانہ پھر وزیر خارجہ مطمئن ہے پھر صدر صاحب نے بھی کہنا شروع کردیا کہ شواہد مل گئے ۔ ثبوت کافی ہیں ۔ لہذا کاروائی کی جاسکتی ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ تو پہلے ہی مطمئن تھے اور روز اول سے ہر قسم کے تعاون کیلئے تیار تھے پھر آپکے مطمئن ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ امریکہ بہادر نے کہ دیا ہے کہ یہی ثبوت ہیں ! تمہیں ماننے پڑیں گے ! ورنہ تم فیصلہ کرو کہ ہمارے دوست ہو یا دشمن ! اگر ان شواہد کو نہ مانا تو تمہیں دہشت گرد قرار دیکر اسامہ کا ساتھی قرار دیدیا جائیگا ۔ چنانچہ ہماری حکومت نے کانپتی ٹانگوں ۔ لرزتے ہاتھوں ار لڑکھراتی زبان سے اپنی نیاز مندی ظاہر کرتے ہوئے کہدیا : مائی باپ ! نوکر کیا اور نخرہ کیا ! ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حقائق وشواہد نے ہمیں لامحدود انصاف کی خاطر صلیبی جنگوں میں مکمل تعاون کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے مگر یہ بتاؤکہ ڈالر کتنے ملیں گے!؟
وہی مدعی وہی جج وہی گواہ ! لا محدود انصاف کا اس سے زیادہ کامیاب نسخہ اور کیا ہوسکتاہے !؟
تحریر: مفتی عتیق الرحمن ( فاضل مدینہ یونیورسٹی )