مکی سورت ہے، انہتر آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ عنکبوت مکڑی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں عنکبوت کا تذکرہ ہے۔
ابتداء سورت میں حق کے راستہ میں مشکلات و مصائب جھیلنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان کا دعویٰ کرنے سے ان پر کسی قسم کی آزمائش نہیں آئے گی۔ پہلی قوموں پر بھی ابتلاء و آزمائش کے دور آتے رہے ہیں۔ سچوں اور جھوٹوں میں فرق کرنے کے لئے ہم ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ بدکردار لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے سبقت لے جائیں گے۔ اللہ سے ملاقات کا وقت مقرر ہے۔ اگر کوئی دین کے لئے تکلیف اٹھائے گا تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی فرمانبرداری کی حدود بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کفر و شرک میں والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ ایمان کو چھوڑ کر ہمارے طریقہ پر چلنے لگ جاؤ، تمہارے گناہوں کے ہم ذمہ دار ہیں۔ یہ لوگ ان کے گناہ تو کیا اٹھائیں گے اپنے ہی گناہوں کے بوجھ تلے دب کر قیامت کے بے رحم احتساب میں الجھ کر رہ جائیں گے۔
پھر نوحؑ کی ساڑھے نو سو سالہ طویل جد و جہد کے نتیجہ میں ان کے ساتھیوں کی طوفان سے کشتی کی مدد سے نجات اور قوم کی ہلاکت کا تذکرہ پھر ابراہیمؑ اور ان کی دعوت توحید کا تذکرہ اور قوم کی ہٹ دھرمی اور بے اختیار معبودان باطل کی عبادت پر کاربند رہنے کا بیان اور اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ہر دور میں مفاد پرست، اللہ کے سچے رسولوں کا انکار کرتے آئے ہیں اور دنیا میں چل پھر کر منکرین کے انجام کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر لوطؑ اور ان کی بدکردار ملعون قوم کی ہلاکت کا بیان ہے اور قوم مدین و عاد و ثمود اور فرعون و ہامان کی ہلاکت کو بیان کر کے قوموں کی تباہی کا ضابطہ بیان کیا ہے کہ وسائل سے محرومی انبیاء کی دعوت کا انکار اور گناہوں کی زندگی کو اختیار کرنے پر قوموں کو مختلف انداز میں ہلاکت کیا گیا ہے۔ کبھی پانی کے سیلاب اور آندھی کے طوفان سے، کبھی زور دھماکہ اور زلزلہ سے، کبھی زمین دھنسا کر یا دریا میں غرق کر کے، حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کا ظلم ہی ان کی ہلاکت کا باعث بنا کرتا ہے۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتے۔
اللہ کے علاوہ معبودان باطل کی طاقت و قوت ایک مکڑی اور اس کے جالے کے برابر بھی نہیں ہے۔ یہ تمام مثالیں لوگوں کو سمجھانے کے لئے دی جاتی ہیں اور علم رکھنے والے ہی انہیں سمجھتے ہیں۔ آسمان و زمین کی بہترین تخلیق اہل ایمان کے لئے اللہ کی قدرت کی عظیم الشان دلیل ہے۔
قرآن کریم کی تلاوت کے حکم کے ساتھ اکیسویں پارہ کی ابتداء ہو رہی ہے۔ نماز کی پابندی کی تلقین کے ساتھ نظام صلوٰۃ کا سب سے بڑا فائدہ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے بے حیائی اور ناشائستہ حرکتوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اہل کتاب سے اگر بحث و مباحثہ کی نوبت آ جائے تو اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور توحید باری تعالیٰ اور آسمانی نظام سے اپنی وفاداری برقرار رکھتے ہوئے اہل کتاب کے ظالموں کو دو ٹوک جواب دینے کی اجازت ہے۔ اللہ کی آیتوں کے منکر کفر اور ظلم کے علمبردار ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی حقانیت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ایک امی ایسا معجزانہ کلام سنارہا ہے۔ اگر آپ اس سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے تو باطل پرست شکوک و شبہات پیدا کر دیتے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ آسمان سے نشانیاں کیوں نہیں اترتیں؟ ان سے پوچھئے: قرآن کریم سے بڑی اور کون سی نشانی ہو سکتی ہے؟ پھر قدرت خداوندی کے کائناتی شواہد پیش کر کے دنیا کی حقیقت واضح کر دی کہ دنیا کی زندگی کھیل تماشے کی طرح ختم ہونے والی ہے اور حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ یہ لوگ مشکلات اور پریشانیوں میں اللہ سے وفاداری کا دم بھرنے لگتے ہیں اور جب نجات پا کر مطمئن ہو جاتے ہیں تو شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے امن و سکون کے خطے حرم محترم میں سکونت عطاء فرمائی ہے، جہاں ہر قسم کے دشمن کی دستبرد سے یہ محفوظ ہیں جبکہ ان کے اطراف کے بسنے والوں کو ان کے دشمن اچک کر لے جاتے ہیں۔ کیا یہ پھر اللہ کے انعامات کی ناشکری کرتے ہوئے باطل پر ایمان لاتے ہیں۔ آخر میں حق و صداقت کی جد و جہد کرنے والوں کو خوشخبری سنا کر سورت کا اختتام کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ ہمارے راستہ کی جد و جہد میں مصروف رہتے ہیں ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت سے سرفراز فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدد یقیناً مخلصین کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔
٭٭٭